کراچی: شہرِ بے اماں۔۔۔
کراچی ایک دفعہ پھر اخباری سرخیوں کی زینت بنا ہوا ہے۔ پھر سے نام نہاد ’آپریشن کلین اپ‘ شروع کر دیا گیا ہے جس کا نتیجہ بھی ماضی کی روایات کے مطابق پہلے سے زیادہ گندگی اور غلاظت کی صورت میں بر آمد ہو گا۔ صاف اور دو ٹوک وجہ یہ ہے کہ اقتدار پر براجمان حکمران طبقے کے مفادات اور ترجیحات کے تحفظ کے لیے تعفن آمیز درندگی کی اب پہلے سے کہیں زیادہ بڑے پیمانے پر ضرورت ہے۔ سیاسی پارٹیاں اور سکیورٹی ادارے جرائم پیشہ افراد (یعنی خود اپنے) خلاف شفاف اور غیر جانبدارانہ آپریشن کا ناٹک کر رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ سنجیدہ بھی ہیں۔ اس لیے نہیں کہ ان کے دل میں اچانک معصوم شہریوں کے لیے ہمدردی پیدا ہو گئی ہے بلکہ اس لیے کہ وہ کچھ بے لگام اور ناپسندیدہ قاتلوں کی جگہ اطاعت شعاراور ہونہا درندوں کو لا کر طاقتوں کے بے ہنگم توازن کو اپنی جانب کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ ’’غیر جانبدارانہ‘‘ کے مطالبے کا اصل مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہمارے ’مجرم ‘ بھی تو آپ کے ہی ہیں، لہذٰا ان کو مارنے یا گرفتار کرنے کی بجائے مزید استعمال کیا جائے۔ بھتہ خوروں کے خلاف کاروائی کے مطالبے کا لب لباب یہ ہوتا ہے کہ جو بھتہ ہم تک نہیں پہنچ رہا وہ سراسر غیر قانونی ہے، اسے فوراًاً بند کرا کے ذمہ داران کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے۔ یہ مالیاتی سرمائے کے مختلف دھڑوں کے وظیفہ خواروں اورکالے دھن کی اجارہ داریوں کے باہمی تصادم کی نورا کشتی ہے جس کا نام کسی ’منچلے‘ نے ’’آپریشن کلین اپ‘‘ رکھ دیا ہے۔