اصلاح پسندی کی نامرادی
2013ء کی انتخابی مہم میں عمران خان کا وقتی ابھار شدید سماجی بحران، سیاسی جمود اورعمومی سوچ اور نفسیات کے گہرے ابہام کا نتیجہ تھا۔ یہ کیفیت ہمیں عالمی سطح پر کئی ممالک میں نظر آتی ہے۔ خاص کر 2008ء کے بعد سے اٹلی سے لے کر فلپائن تک ایسے لیڈر اور رجحانات ابھرکر غائب ہو رہے ہیں۔ ان میں فلمی اداکار، کھلاڑی، ٹیلی ویژن اینکر، کا میڈین، پادری اور ’’غیرسیاسی‘‘ شعبوں سے تعلق رکھنے والی مشہورومعروف شخصیات شامل ہیں۔ یہ افراد اپنی مقبولیت کے ذریعے سیاسی خلا کو پر کرتے ہیں، پھر اسی نظام کے رکھوالے بن کر اسکے استحصال کی تقویت بخشتے ہیں اور مسترد ہو کر رہ جاتے ہیں۔ ان کا مقصد و منشا ایک بحران زدہ سماج میں نچلے معیار کی سوچ کے تحت مسائل اور حالات کا سطحی تجزیہ کرنا اور ان سماجی اذیتوں کی لفاظی کے گرد سیاست کرنا ہوتا ہے۔ لیکن نظام کے داخلی تضادات سے پھوٹنے والے مصائب اور خلفشار سے نجات کا کوئی لائحہ عمل، پروگرام اور طریقہ کار واضح نہیں ہوتا۔ کھوکھلے پاپولزم کی یہ غیر نظریاتی سیاست دراصل نظریاتی سیاست کے فقدان، سماج کی سیاسی قدروں کے گر جانے، عمومی سوچ کی تنزلی اور ظاہری حالات کے سطحی تجزئیے پر مبنی ہوتی ہے۔ رائج الوقت معاشی نظام کی حدود و قیود کو ازلی، ابدی اور مقدس مانتے ہوئے اسی نظام کے سماجی مضمرات اور سیاسی نتائج پر بے لاگ تنقید اور نعرہ بازی اس مخصوص رجحان کا خاصہ ہوتے ہیں۔