ذلت کب تک افغانستان کا مقدر بنی رہے گی؟

Urdu translation of Is misery Afghanistan’s destiny? (September 23, 2010)

لا ل خان ۔ ترجمہ:اسدپتافی

چنگاری ڈاٹ کام،23.09.2010

’’افغانستان کی جغرافیائی پوزیشن اور اس کے باسیوں کا منفرد کردار،یہ دونوں باہم مل کر، وسط ایشیائی خطے میں ایک مخصوص سیاسی اہمیت کوترتیب وتشکیل دیتی ہے اور وہ بھی کچھ اس طرح کہ اس کے بارے مبالغہ آرائی اورخوش گمانی ناممکن ہے‘‘ (فریڈرک اینگلز1820/1895)۔

کرہ ارض پر کچھ دوسرے’’مخصوص خطوں‘‘ کی طرح، افغانستان کی جغرافیائی اور عسکری اہمیت،اپنے ہی عوام کیلئے ایک رحمت کی بجائے، ایک ناسور بن چکی ہے ۔ صدیاں بیت چکیں ،افغانستان بالواسطہ جنگوں کا میدان اور سازشوں کا گڑھ بنا چلا آرہاہے۔اور پچھلی کئی دہائیوں سے یہ سامراجیوں کی ،وسط ایشیاکا کنٹرول حاصل کرنے کی خونریز’’ گریٹ گیم‘‘کی شکارگاہ بنا ہواہے۔ماضی میں یہ روس اور برطانیہ کے مابین تنازعے کی آماجگاہ بنا رہا۔اب ایک بار پھر روس ،شمال میں تاجک اور ازبک آبادی کواپنے ساتھ ملا کر اپنے مقاصدکیلئے استعمال کرنے کی کوشش کر رہاہے ۔جبکہ ایران یہاں کی شیعہ آبادی اور دری زبان بولنے والوں میں اپنے اثرات قائم کرنے کی تگ ودو میں ہے ۔

چین کی آرزواور کوشش ہے کہ وہ افغانستان کے قدرتی وسائل تک رسائی حاصل کرلے اور اس سے فائدہ اٹھا سکے۔ افغانستان میں تانبے کے سب سے بڑے ذخائر پر چین کا قبضہ ہے۔ ایسے میں بھارت کیونکر پیچھے رہتا ؟وہ بھی افغانستان میں مداخلت کئے ہوئے ہے اور پاکستان کے ساتھ اپنے تنازعات کو ہوا دیے جا رہاہے۔اور پاکستان بھی افغانستان کو اپنا پچھواڑہ سمجھے چلا آرہاہے۔علاقائی سیاسی طاقتوں کے اس بیہودہ پاگل پن کے باعث ،آنے والے دنوں میں افغانستان کی ٹوٹ پھوٹ کے امکانات پیداہوتے جارہے ہیں۔ یہ بدقسمت اور خانماں برباد ملک ،بری طرح سے وحشی سامراجی پنجوں میں پھنساہوا ہے اور ایک ایسی بھیانک و مہلک جنگ کا میدان بناہواہے کہ جس کا نہ توکوئی انت ہوتا نظر آرہاہے نہ کوئی نتیجہ نکلتا دکھائی دیتاہے۔

سامراجی جارحیت ،مغرب کے اندر کسی بھی قسم کی خوش گمانی پیداکرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔جبکہ اسی کے ساتھ ساتھ ہی یہ افغانستان کے مفلوک الحال اور درماندہ لوگوں کا کوئی ایک مسئلہ حل کرنے کی بجائے ان کی ذلتوں اور اذیتوں میں مسلسل اضافہ کرچکی ہے۔18ستمبرکو افغان پارلیمنٹ وولیسی جرگہ کیلئے ہونے والے الیکشن بھی کوئی امید جنم نہیں دے سکے ہیں۔بلکہ ان کے بعد کا منظرنامہ مزید مایوسیوں اور وحشت کا باعث بن رہاہے۔مکروہ الصفت جنگجو قبائلی سرداروں کی منشیاتی معیشت،وحشیانہ سامراجی جارحیت،عالمگیر پیمانے کی بدعنوانی اور درندہ صفت طالبان؛یہ آج کے افغانستان کی داستان ہے۔ لیکن ایسا ہمیشہ نہیں تھا؛ایک وقت ایسا بھی تھا کہ جب کابل ’’ مشرق کا پیرس‘‘ ہواکرتاتھا۔ 1919ء میں تیسری اینگلو افغان جنگ میں، برطانیہ کے خلاف کامیابی نے ایک صدی کے سامراجی غلبے کا خاتمہ کردیاتھا اور ایک قومی خودمختاری حاصل کر لی گئی تھی۔سوویت روس، جس کی قیادت اس وقت لینن اور ٹراٹسکی کر رہے تھے ،نے سب سے پہلے افغانستان کوایک الگ اور آزاد ملک کے طورپر تسلیم کیاتھا۔ تاہم یہ آزادی محدوو اور مختصر ثابت ہوئی۔اور نادرشاہ نے1929ء میں افغانستان پر ایک بادشاہت مسلط کردی۔

موجودہ افغان جنگ2001ء میں افغانستان پر امریکی جارحیت سے شروع نہیں ہوئی ،بلکہ اس جارحیت کا عرصہ لگ بھگ32 سالوں پر محیط ہو چکاہے۔1973ء میں محمد داؤد کی فوجی بغاوت وہاں کے بڑے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے مفادات کی نمائندہ اور عکاس تھی۔ اسے امریکی سامراج اور سٹالنسٹ افسرشاہی دونوں کی امداد فراہم ہوتی رہی۔سرد جنگ کے دوران دونوں بڑی طاقتیں داؤد کی خوشنودی کرتی رہیں۔

یکم جنوری 1965ء کو افغانستان کی کمیونسٹ پارٹی کے مختلف دھڑوں نے اپنی ایک متحدہ کانگریس منعقد کی جس میں، پیپلزڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان PDPAکا قیام عمل میں لایا گیا۔ 17اپریل1978ء کو داؤد حکومت نے کابل میں میر علی اکبر خیبرکوموت کے گھاٹ اتار دیا۔جس کے رد عمل میں داؤد حکومت کے خلاف ہنگامے پھوٹ پڑے،کابل میں دس ہزار سے زائد افرادنے مشتعل ہوکرگھیراؤ جلاؤ کیا۔داؤدحکومت نے پی ڈی پی اے کے دوسرے لیڈروں کو بھی ہلاک کرنے کے منصوبے بنائے ہوئے تھے جو جیلوں میں بند احتجاج میں لگے ہوئے تھے۔پی ڈی پی اے کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ اس جبرواستبدادکے خلاف مزاحمت کرے۔27اپریل1978ء کو افغان فوج اور فضائیہ میں موجود پی ڈی پی اے سے منسلک افسروں نے ایک خونریز بغاوت کے بعد داؤد حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ شدید مقابلے اور بمباری کے بعد پل چرخی جیل کی دیواریں مسمار کر دی گئیں اور پی

ڈی پی اے کی پابند سلاسل قیادت کو آزادکرالیاگیا۔اس کے بعد ڈیموکریٹک ریپبلک آف افغانستان کے قیام کا اعلان جاری کردیاگیا۔اس کے ساتھ ہی پی ڈی پی اے کے جنرل سیکرٹری نور محمد ترکئی کی قیادت میں انقلابی کونسل اور نئی حکومت قائم کردی گئی۔

انقلابی کونسل نے نئی حکومت کے قیام کے فوری بعد جو سب سے پہلا اعلامیہ جاری کیا ،اس میں عورتوں کے بیچنے اور خریدے جانے پر پابندی لگا دی گئی۔انقلاب سے قبل افغان عورت ہر قسم کے حقوق سے کلیتاً محروم چلی آرہی تھی۔نیم قبائلی ونیم جاگیرداری افغان سماج میں عورت محض ایک بازاری جنس کی طرح تھی جسے شادی بیاہ میں بیچاخریدا جاتاتھا۔یہ قبیح اور غیر انسانی رسم آج پھر افغانستان میں رائج ہوچکی ہے ۔نہ صرف طالبان کے زیر کنٹرول علاقوں میں بلکہ سامراج کے زیرانتظام علاقوں میں بھی۔

جولائی1978ء میں اعلان نامہ نمبر6جاری کیاگیا جس میں زمینداروں اور ساہوکاروں کے دیے ہوئے قرضے ختم کر دیے گئے ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف اس ایک حکم کے ذریعے سواکروڑ کے لگ بھگ انسانوں کو جن میں 80%کا تعلق افغان دیہاتوں سے تھا ،مالیاتی و سماجی غلامی سے نجات مل گئی۔جس میں وہ نسلوں سے جکڑے چلے آرہے تھے ۔تب اس مجموعی غلامانہ قرضے کا کل حجم33000ملین افغانی تھا۔اس نئی حکومت نے زرعی اصلاحات بھی متعارف اور نافذ کیں۔تب پانچ فیصد آبادی تین چوتھائی قابل کاشت رقبے کی مالک تھی۔1979ء کے اواخرتک یہ ساری زمین پچھلے مالکان سے لے کر300000بے زمین کسانوں میں بانٹ دی گئی۔یہی نہیں زراعت کے شعبے میں سے مڈل مین کے کردار کو بھی مکمل طورپر ختم کردیاگیا۔اس کے ساتھ ساتھ صحت،گھر،خوراک سمیت روزگار کے شعبے میں بھی انتہائی انقلابی اقدامات کئے گئے۔1978/79ء کے دوران ،چھ سو سے زائد سکول اور اعلیٰ تعلیمی ادارے قائم کئے گئے ۔جبکہ800000ورکروں اور کسانوں نے خصوصی تعلیمی کمپین میں داخلہ لیا۔مقامی اور عالمی مالیاتی ادارے اور اثاثے قومی تحویل میں لے لئے گئے۔ قدرتی طورپر اس انقلابی حکومت نے سامراج کے دل میں کانٹا بن کر چبھناتھا۔بہت سے حلقوں نے یہ شوراور واویلا شور کر دیا کہ افغانستان کا یہ ثور(بہار)انقلاب،درحقیقت روس کی سازش ہے۔یہ قطعی طورپر غلط اور بکواس پروپیگنڈہ تھا،یہاں تک کہ کئی مغربی جریدوں نے بھی اسے غلط قرار دیاتھا۔امریکی جریدے ’’ٹائمز‘‘نے اپنی جنوری1980ء کی اشاعت میں لکھا’’مارکسسٹوں کی طرف سے کی جانے والی اس بغاوت نے‘ کہ جس نے داؤد حکومت کو اکھاڑ پھینکا،امریکیوں کو ہی نہیں روسیوں کو بھی ورطہ حیرت میں ڈال دیاتھا۔مغرب کی انٹیلی جنس ایجنسیاں،اس اپریل بغاوت میں روسی مداخلت کی انگلیوں کے نشان تک نہیں ڈھونڈ سکیں‘‘۔ اپنی9اپریل1979ء کی تقریر میں ترکئی نے اعلان کیاکہ’’ کوئی بھی غیر ملکی قوت اپریل انقلاب میں شامل نہیں تھی۔افغانستان نہ تو انقلاب درآمد کرتاہے نہ ہی برآمد۔ افغانستان اب تاریخ کے ایک نئے عہد میں قدم رکھ چکاہے‘ ایک ایسا عہد کہ جو ایک ایسے سماج کا آغاز ہے جس میں کسی انسان کے ہاتھوں دوسرے کسی بھی انسان کا استحصال ختم ہو جائے گا‘‘۔

انقلاب کے بعد کے ابتدائی کچھ مہینوں کے دوران جو ریڈیکل اقدامات اٹھائے گئے ،انہوں نے جنوب ،وسطی اور مغربی ایشیائی ملکوں پر گہرے اثرات مرتب کئے۔سامراج ہر طرف انقلاب کے اثرات مرتب ہوتے دیکھ کر بوکھلاہٹ کا شکارہورہاتھا۔اور یہی ایک بنیادی وجہ ہے جس نے امریکی سی آئی اے کو اپنی تاریخ کے سب سے بڑے آپریشن کو مرتب اور منظم کرنے پر مجبورکردیا جو ا س نے افغانستان انقلاب کو تہس نہس اور تہہ تیغ کرنے کیلئے متحرک کیا۔انہی دنوں میں ہی کہ جب موجودہ جنگ وجدل کی ابتدا ء کی گئی ،اور امریکی سامراج نے ’’اسلامی جہاد‘‘کے نام پر ردانقلاب کومتحرک و مسلط کرنے کا سلسلہ شروع کیا،تبھی واشنگٹن پوسٹ نے اپنی 15 فروری 1980ء کی اشاعت میں لکھا ’’امریکی کانگریس کی مرکزی کمیٹیاں اس دانستہ چشم پوشی کی ذمہ دار ہیں جو یہ ان رپورٹوں بارے رکھے ہوئے ہیں جو کہ ان کو سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور سی آئی اے ،اپنی کاروائیوں بارے دیتے رہے ہیں۔ان رپورٹوں میں سرکشی کرنے والے عناصر کو جو نقد امداد فراہم کی جارہی ہے،اس پر آنے والے دنوں میں کئی سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں۔اور اس کی وجہ سے ہمارے روسی فوجی طاقت کے ساتھ تعلقات خراب بھی ہو سکتے ہیں اور وہ اس پر بھڑک بھی سکتی ہے۔حتی ٰ کہ اس کی وجہ سے ان کی روانگی میں بھی رکاوٹ پیداہوسکتی ہے۔اور جو انتظامیہ کا طے شدہ ہدف ہے‘‘۔

افغانستان میں قائم لیفٹ ونگ حکومت کے خاتمے کا مقدس فریضہ پاکستان کے آمرضیاء الحق اور سعودی شاہی خاندان کو سونپاگیا۔ امریکی صدر جمی کارٹر کے قومی سلامتی کے مشیرزبیگنوبرزنسکی نے1978ئکے آخر میں درہ خیبرکے مقام پراس نام نہاد ’’ڈالرجہاد‘‘کا افتتاح کیاتھا اور اسی نے ہی اسامہ بن لادن کو اس مقدس جہاد کیلئے بھرتی کیاتھا۔اور تو اور جناب برزنسکی نے اس موقع پر بہ نفس نفیس ’’اللہ اکبر‘‘کا نعرہ بھی لگایا اور لگوایاتھا۔

لیکن دوسری جانب انقلاب کی قیادت میں بھی کئی ایک فکری ونظریاتی کمزوریاں اور ابہام موجود تھے ۔اور سب سے نمایاں ان کی تنگ نظر قومی محدودیت پر مبنی سوچ نے انہیں ایک عالمگیر طبقاتی نقطہ نظر اپنانے اور اس پر عمل کرنے سے روکے رکھا کہ جس کی مدد سے سامراجی مداخلت اور جارحیت کا مقابلہ ممکن اور آسان بھی ہو سکتاتھا۔پی ڈی پی اے کی قیادت کی سوچ اور حکمت عملی مارکسی بین الاقوامیت کی بجائے محض قوم پرستی کی حامل تھی۔ اور یہ ان کے سٹالنسٹ پس منظر اور تعلیم وتربیت کا ہی شاخسانہ تھی۔ پختون اور دیگر مقامی قومیتوں کی بنیاد اور ان کے نام پر انقلاب کیلئے تائید وحمایت حاصل کرنا،ایک ناکام کوشش ثابت ہوئی۔جوں جوں سامراج کی پروردہ سرکشی زورپکڑتی گئی،پی ڈی پی اے کی قیادت میں ٹوٹ پھوٹ اور لڑائی جنم لینے لگی۔یہ سارا کچھ قومیتی اور نسلی بنیادوں پر ہوا۔اسی بنیادپر ترکئی کو قتل کردیاگیا اور پھر روسی ٹینک دریائے آکسس اور درہ سلانگ کو عبورکرتے ہوئے کابل کی سڑکوں پر گشت کرنے لگے۔اس آمدو مداخلت نے تو پھر سارے تنازعے کو اور ہی رنگین وسنگین بنا ڈالا۔

اس کے بعد جو کچھ ہوا اورہونا تھا ،اس کی نشاندہی مارکسسٹوں نے کر دی تھی۔کامریڈٹیڈ گرانٹ نے1978ء میں ہی انقلاب کے چندہفتوں بعد ہی لکھا تھا۔ ’’اگروہ(پی ڈی پی اے کی قیادت) روس کی قیادت کے آگے خود کو سرنگوں کرتے ہیں،تو ان کو ایک انتہائی شدید ردعمل اورایک خطرناک رد انقلاب کا سامناکرناپڑے گااور مقامی ملاؤں اور قبائلی عمائدین کو اس کیلئے کام میں لایاجائے گا۔اگر یہ رد انقلاب کامیاب ہوگیا تو یہ ہزاروں لاکھوں کسانوں، ریڈیکل افسروں اورسبھی تعلیم یافتہ افراد کی لاشوں پر سابقہ نظام حکمرانی بحال کر دے گا‘‘۔

یہ غیر معمولی پیشین گوئی بعد میں پیش آنے والے واقعات کی روشنی میں جتنی سچی ثابت ہوئی ہے ،اس کی وضاحت کی ضرورت نہیں ۔طالبان نے1996ء میں امریکہ کی مددو معاونت سے کابل کے تخت پر قبضہ کیا۔ ملا عمر کی قیادت میں طالبان کی جانب سے کابل پر اقتدار کے اس کھلواڑ کا اہتمام اور انتظام ،اس وقت کے امریکی نائب وزیرخارجہ رابرٹ اوکلے نے کیاتھا۔اس سلسلے میں اوکلے اس وقت پاکستان میں قائم بے نظیر حکومت اور انٹیلی جنس ایجنسی(آئی ایس آئی)کے ساتھ مسلسل رابطے اور رہنمائی میں تھا۔ 1987ء میں روسی افواج کے افغانستان میں سے انخلاء کے بعدامریکیوں نے افغانستان کو اپنے تخلیق کردہ وحشی رجعتی عناصر کے رحم وکرم پر چھوڑ دیاتھا۔اس کے بعد تو افغانستان تو جیسے المیوں اور صدموں کی جیتی جاگتی آماجگاہ بن گیا۔2001ء میں،امریکیوں کی پیدا اور تخلیق کردہ اپنی ہی بربریت ان کے اپنے گلے کا طوق بن چکی تھی۔اور یہی بات افغانستان پرسامراجی جارحیت اور قبضے کا سبب بنی۔اس جارحیت اور قبضے نے پہلے سے ہی درماندگی اور درندگی کا شکار افغانستان کو اور بھی تباہ حال کر کے رکھ دیا۔اب اس قبضے کے نو سالوں کے بعد شکست امریکی سامراج کے سامنے کھڑی اس کا منہ چڑارہی ہے ۔

معروف ’’تھنک ٹینک‘‘ سٹریٹ فار (Stratfor) جو کہ امریکی سی آئی اے میں کام کرنے والے سابق سٹاف پر مبنی ہے،نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں دلچسپ انکشافات بلکہ اعترافات کئے ہیں۔’’اس بنیادی حقیقت پر اب کوئی بھی شک و شبہ نہیں رہاہے کہ امریکہ،روایتی حوالے سے جنگ جیتنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔امریکی اگر اور جب انخلا ء کریں گے توا غالب امکان ہے کہ طالبان ،اس ممکنہ انخلاء کے بعد اقتدار کے نئے سیٹ اپ میں شامل ہوں‘‘۔(6ستمبر2010ء)

امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی اس واضح کمزوری کو بھانپتے ہوئے ،سامراج کے اپنے ہی پالتو حامد کرزئی نے اب ایک فرمانبردارکا کردار ترک کرتے ہوئے،امریکی آقاؤں کو آنکھیں دکھانااور ان کے خلاف زبان چلانا شروع کردی ہے۔ اس نے اپنی ذاتی پوزیشن کو محفوظ اور مضبوط بنانے کیلئے اپنے زیر انتظام علاقوں میں سے کچھ طالبان کو دینے پر رضامند ی ظاہر کر دی ہے۔واشنگٹن ،کرزئی کی جانب سے سامنے لائے جانے والی امن شرائط سے ہراساں اور جز بز ہے۔پنٹاگان،سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور سی آئی اے،بری طرح سے اس مجوزہ و مذکورہ امن منصوبے پر آپس میں تلخیوں اور اختلافات کا شکار ہو چکے ہیں۔

وائٹ ہاؤس افغانستان میں سے ایک باعزت انخلاء کا آرزومند ہے۔مگر جیسا کہ کئی آرزوؤں کی قسمت میں خاک ہونابھی لکھاہوتاہے ،ایسے ہی امریکہ کی یہ آرزو ،موجود زمینی مسائل کی وجہ سے پوری ہوتی نظر نہیں آتی۔امریکہ کے ناٹو اتحادی اب مزید افغانستان میں نہیں رہنا چاہتے۔جبکہ ا مریکی عوام فوجوں کی واپسی کے خواہاں ہیں۔مگر یہ بات پنٹاگان برداشت نہیں کر سکتا۔افغانستان میں امریکی کمانڈر جنرل پیٹریاس نے اپنے صدر کو زوردے کر کہا ہے کہ وہ اپنے اعلان کردہ، فوجوں کی واپسی کے شیڈول پر عملدرآمد کو (جس کے مطابق جولائی 2011ء تک فوج واپس بلا ئی جانی ہے)موخر کردے۔اور اوبامہ بھی بظاہر یہ تاثر دے رہاہے کہ کسی قسم کی ڈیڈ لائن کی بات نہ ہی کی جائے تو مناسب ہے ۔امریکی ماہرین اور افواج اب اپنی ہی بنائی ہوئی پالیسیوں کی دلدل میں بری طرح دھنس چکے ہیں۔وہ واپسی افورڈ ہی نہیں کر سکتے لیکن اسی کے ساتھ ساتھ وہ جنگ کو قائم رکھنا بھی کسی طورافورڈ نہیں کر سکتے۔یہ جنگ مہنگی ہوتی بھی جارہی ہے اور مہنگی پڑتی بھی جارہی ہے۔ سی آئی اے کے ایک سابق ایریا چیف،ہاورڈہارٹ نے نیویارک ٹائمز کے نکولس کرسٹوف کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ہماری افواج کی موجودگی ہی ہمارا اصل مسئلہ ہے۔ہم جتنے زیادہ فوجی وہاں ڈالتے ہیں اتنا ہی ہماری مصیبت میں اضافہ ہو جاتاہے۔‘‘

مغربی ذرائع ابلاغ جس بات سے سہمے ہوئے ہیں وہ یہ ہے کہ ان کی اپوزیشن صرف القاعدہ اورطالبان نہیں ہیں بلکہ وہ اس بات کو نظرانداز کرتے چلے آرہے ہیں کہ افغانستان میں عام لوگ بڑے بڑے مظاہرے کر رہے ہیں اور افغان سماج میں بڑھتے ہوئے سماجی اور معاشی مسائل ،دن بدن ان مظاہروں کی تعداد اور شدت میں اضافہ کررہے ہیں۔لاتعداد لیفٹسٹ،قوم پرست اور دیگر عناصراس غیر ملکی جارحیت کے خلاف قومی مزاحمت میں شریک ہیں۔افغان شہروں میں ہونے والے ان مزاحمتی مظاہروں کے تسلسل اور غم وغصے میں بڑھوتری ہوتی چلی جارہی ہے۔قابض افواج جتنا اپنے تسلط کو تقویت دیں گی ، مزاحمت کی شدت اور کیفیت بھی اتنی طاقت پکڑتی جائے گی۔

طاقت کے کچھ مراکز اس بات سے بھی سہمے ہوئے ہیں کہ ناٹو افواج کے انخلاء کے بعد وہاں انارکی اور ایک خونریزخانہ جنگی پھوٹ پڑے گی جبکہ کئی یہ بھی سوچ اورپوچھ رہے ہیں کہ قابض افواج کی موجودگی میں جو ہولناک تباہی وبربادی وقوع پذیر ہورہی ہے اس میں اور کتنا اضافہ ہوگا؟رجعتی طالبان بھی اس کیفیت کو جوازبناتے ہوئے معصوم اور بے گناہ لوگوں کو اپنی وحشت وبربریت کا نشانہ بناتے چلے آرہے ہیں۔چنانچہ اس ساری الجھن کو مدنظررکھتے ہوئے سامراجی، افغانستان سے اپنے بخیروعافیت اور باعزت نکلنے کیلئے افغانستان کو ’’تقسیم ‘‘کرنے کے امکان کوزیر غوراور بروئے کار لاسکتے ہیں۔ افغانستان میں پہلے ہی آبادی کے اکثریتی حصوں پختونوں(40%)، تاجکوں(27% )اور ازبکوں وغیرہ سمیت شمال میں موجوداقلیتوں کے مابین نسلی تنازعات موجودہیں ،جنہیں ہم جیسا کہ پہلے کہہ چکے ہیں ،قابض وجارح غیر ملکی قوتیں اپنے مذموم مقاصدکیلئے گھناؤنے طریقے سے استعمال کرتی چلی آرہی ہیں۔ان نسلی اور قومی تنازعات کی موجودگی میں یہ بات قرین قیاس ہے کہ افغانستان کی تقسیم کو ممکن بنایا جائے۔لیکن پھریہ فوری طورپر اور مستقبل قریب کا تناظر نہیں ہے۔اگرسامراجیوں نے اسے ممکن بنانے کی کوشش کی تو اس سے افغانستان پہلے سے زیادہ بدترین خونریزی میں نہا جائے گا۔

غیر ملکی قوتوں کی موجودگی میں استحکام کی خواہش اور کوشش دن بدن ،حتیٰ کہ لمحہ بہ لمحہ کمزور پڑتی جا رہی ہے۔ ممکن ہے کہ جنرل میکرسٹل نے اسی واضح نظر آتی شکست کی وجہ سے ہی اشتعال انگیزی کا مظاہرہ کیا ہواور جو کہ اس کی معزولی کا باعث بنی ہے۔اس کے بعد آنے والے امریکی سپہ سالار جنرل پیٹریاس کی تعیناتی بھی امریکی ہلاکتوں میں کمی نہیں لا سکی۔ نہ ہی اس کی وجہ سے کوئی خاص کامیابی یا پیش رفت ممکن ہوسکی ہے۔ معروف عالمی خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس APنے اسی مہینے (4ستمبر) میں پیٹریاس کے حوالے سے ایک خبر شائع کی ہے ،جس میں جنرل نے کہا ہے کہ ’’کوئی بھی ،ایک مسلح سرکشی میں سے بآسانی اپنی راہ نجات تلاش نہیں کرسکتا‘‘۔ افغان اسمبلی، وولیسی جرگہ جو کہ ایک قرونِ وسطیٰ کی قبائلی طرز کی اسمبلی ہے ،کیلئے الیکشن18ستمبرکو ہونے ہیں اور صدارتی الیکشن کی طرح سے یہ بھی دھاندلی کا شکار ہوں گے۔ پارلیمانیت کا یہ دھوکہ اورکھلواڑمحض اہلیان مغرب کو دکھانے اور ان کی خوشنودی حاصل کرنے کی ایک بھونڈی کوشش کے سواکوئی معنی نہیں رکھتا۔ اپنی جارحیت کو جائز ثابت رکھنے کا یہ جمہوری ڈرامہ بدقسمتی سے فلاپ ہورہاہے اور یہ الٹا گلے کی پھانس بنتا جارہاہے۔اس وولیسی جرگہ الیکشن میں افغان عوام کے سامنے سوائے جرائم پیشہ اورجنگجوقبائلی سرداروں کے کوئی انتخاب کیلئے موجود نہیں ہے۔یہ سبھی وہ رسوائے زمانہ ٹھگ ہیں کہ جنہوں نے اس سارے جنگ وجدل اور تباہی وبربادی کے دوران، منشیات کی تجارت،اغواء برائے تاوان کی وارداتوں، بلیک میلنگ اور وفاداریاں تبدیل کرنے کے دھندوں سے اربوں کھربوں کی دولت کے انبار جمع کر لئے ہوئے ہیں ۔ اس حوالے سے یہ الیکشن کسی طور کوئی ایک مسئلہ بھی حل نہیں کرسکیں گے۔

افغانستان کے اندر سرمایہ دارانہ نظام لاکھوں محروم انسانوں کے مبنی سماج کو بہتر نہیں کرسکتا۔موجودہ اور مروجہ مافیائی سرمایہ داری کی موجودگی میں ایک عمومی قومی معیشت کی تشکیل ناممکن العمل ہے۔چہ جائیکہ ہم قومی جمہوری انقلاب کے دیگر تقاضوں کا ذکر کریں۔افغانستان کی ساری معیشت کا دارومدار غیرملکی تجارت یا پھر منشیات کی آمدنی پر ہے ۔اس منشیاتی معیشت کے نیچے 70%آبادی ناخواندہ ہے،سماجی تانے بانے تتر بتر ہیں، قرون وسطیٰ کی طرز زندگی کاتسلط ہے ،غربت انتہاؤں کو چھورہی ہے،محرومی اور بیماری نا قابل بیان ہوچکی ہے،ایسے سماج میں سامراج کی طرف سے جو بھی نام نہاد جمہوری ڈھانچہ کھڑا کیا جائے گا وہ بے بنیاد بھی ہوگا اور خستہ حال بھی۔اس قدر دہلادینے والے ماحول میں اور اتنے دھماکہ خیز تضادات وتنازعات کی موجودگی میں کوئی راہ نجات ممکن نہیں۔تعمیر نو،ترقی و خوشحالی کے نعرے اور دعوے اس کیفیت میں ایک خواب تو ہوسکتے ہیں مگر ان کا حقیقت سے کوئی لینا دینا نہیں ۔ افغانستان کے اندرونی نسلی تنازعات،معاشی عدم توازن،داخلی عدم استحکام،جنگوں،خونریزیوں اور محرومیوں کا اس کے علاوہ کوئی حل کوئی مداوا نہیں ہے کہ یہ اپنے ماضی سے یکسر اور سراسر اپنا ناطہ توڑلے۔ مغرب میں افغان عوام کے بارے جو تصویر کشی کی جاتی ہے کہ یہ مذہبی متعصب اور طالبان کے حمایتی ہیں ،بالکل غلط ہے۔ماضی کی نمائندہ تاریک قوتوں اور بدعنوان لبرل ڈیموکریٹس کی افغان عوام کی نظروں میں کوئی وقعت نہیں ۔لیکن افغانستان میں لیفٹ کی قوتوں کا دوبارہ سے احیاء بھی ہوچکاہے۔پی ڈی پی اے کی بھی بحالی ہوچکی ہے اور حال ہی میں کابل میں اس کی کانگریس بھی منعقدہوئی ہے۔لیفٹ کی دیگرپارٹیاں بھی متحرک و منظم ہونا شروع ہو چکی ہیں۔1978ء کے انقلاب کی حاصلات کی یادیں جومزدوروں کسانوں اور نوجوانوں کے ذہنوں میں موجزن تھیں اب نئی نسل کو منتقل ہونی شروع ہوگئی ہیں۔ثور انقلاب کے اولین مہینوں میں ہونے والی حاصلات اس بات کا فی ثبوت فراہم کرتی ہیں کہ ایک بار جب استحصالی سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ پھینکا جائے تومنصوبہ بند معیشت کے تحت کیا کیا کچھ ممکن ہوتاہے، خواہ وہ ایک بگڑی ہوئی شکل میں ہی کیوں نہ ہو!

سامراج اور اس کے گماشتوں کا یہ پروپیگنڈہ کہ اگر وہ چلے گئے تو اس کے بعد طالبانائزیشن افغانستان کا مقدر بن جائے گی اور یوں افغانستان ایک بنیاد پرستانہ وحشت وبربریت کے تسلط میں چلا جائے گا،یہ سراسر اور نری بیہودگی ہے۔32 سال پہلے افغانستان جنوبی ایشیا کا پہلا ملک تھا کہ جس میں سے جاگیرداری اور سرمایہ داری کا خاتمہ کردیاگیاتھا اورسامراجی بندشوں سے نجات پا چکاتھا۔افغان مزدوروں اور نوجوانوں کی موجودہ نسل اپنے پرانے لیڈروں کی غلطیوں سے سبق حاصل کرتے ہوئے،پہلے سے کہیں بلند پیمانے پر ایک سوشلسٹ انقلاب برپاکرسکتی ہے۔سامراجی جارحیت اور مذہبی دہشت گردی کے ہاتھوں پرانے نظام کی بحالی نے افغان سماج پر ایک کے بعد دوسری بربادی نازل کی ہے۔یہ نئی نسل ،انہی بربادیوں کی چھاؤں تلے پل کر جوان ہوئی ہے۔اس نسل نے دکھوں ، محرومیوں ،ذلتوں اور استحصال کی درسگاہ سے زندگی کے بیش قیمت اسباق سیکھ لیے ہیں۔اور یہ جان لیا ہے کہ یہ سبھی کچھ ان کیلئے مستقل اور ناگزیر نہیں ہے۔نئی افغان نسل صورتحال سے انقلابی نتائج اخذکررہی ہے۔حال ہی میں ایک مقبول ویب سائٹ کے کیے گئے سروے میں70%افغان نوجوانوں نے ٹراٹسکی کو پڑھنے اورسمجھنے کی ضرورت پر آمادگی اور پسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔ مستقبل کے افغان انقلاب کی کامیابی کی واحدضمانت مارکسی بین الاقوامیت ہے۔آج پہلے کی نسبت کہیں زیادہ، افغانستان کا مقدر ان واقعات و حالات سے ہے جو پاکستان اور ایران میں رونما ہوتے ہیں اور ہوں گے۔مضبوط تاریخی،ثقافتی اور معاشی تعلقات نے ان ملکوں کو ہزاروں سالوں سے ایک دوسرے سے منسلک ومربوط رکھاہواہے۔ان ملکوں کے اندر عالمی مارکسی رحجان نے اپنی ابتدائی مگرانتہائی مضبوط قوتیں تعمیر کرلی ہوئی ہیں۔ تباہ حال کابل کے اندر عالمی مارکسی رحجان کے ایک مرکز کا قیام ہر حوالے سے ایک بڑی کامیابی ہے ۔جس سے یہاں انقلابی مارکسی قوتوں کی تعمیروترویج میں بہت مدد ملے گی۔آنے والے طوفانی واقعات کے دوران انقلابی مارکسزم تیزی سے پھل پھول سکتاہے۔آج کی نسبت آنے والے دنوں میں لوگ ایک انقلابی کامیابی کو وقت کی فوری ضرورت مانیں گے۔تاریخ نے اپنا یہ فیصلہ صادر کردیاہے کہ یا تو یہ خطہ بربریت کے ہاتھوں ماضی کے اندھیروں میں گم ہوجائے گا یا پھریہ سرمایہ دارانہ نظام کے مختلف مراحل کو ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ایک جست کے ذریعے طے کرکے مستقبل کی طرف پیش رفت کرے گا۔یہی واحد راہ نجات ہے۔یہی وہ ایک راستہ ہے کہ جو لاکھوں کروڑوں استحصال زدہ سسکتے بلکتے انسانوں کی حالت اور حالات کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بدل کے رکھ دے گا۔

Source: Chingaree