قدر کیا ہے؟

قدر کیا ہوتی ہے؟ انسانی ذہن 2000 سے زائد برسوں سے اس سوال میں الجھا ہوا ہے۔ کلاسیکی بورژوا ماہرین معیشت اور مارکس اس سوال کو حل کرنے کی جستجو کرتے رہے۔ بہت غور و فکر کے بعدانہیں درست طور پر سمجھ آ گیا کہ محنت ہی قدر کا ماخذ ہے۔ قدر کی یہی تھیوری بورژوا سیاسی معیشت کی بنیاد بنی، جس کا آغاز ایڈم سمتھ سے ہوتا ہے۔ اس سوال پر مارکس اور کلاسیکی بورژوا ماہرین معیشت میں اتفاق پایا جاتا ہے۔

تاہم، بورژوا ماہرین معیشت کے لیے قدر کاتصور تضادات سے بھرپور اور بند گلی کی مانند تھا۔ فریڈرک اینگلز نے کہا تھا کہ ’’کارل مارکس وہ شخص تھا جس نے اس بند گلی سے باہر نکلنے کا راستہ تلاش کیا۔‘‘مارکس نے قدر کی تھیوری کو آگے بڑھایا اوراس کی مزید وضاحت کی۔ مارکس کے لئے یہ تھیوری سرمایہ داری کے قوانینِ حرکت اوراور قدرِ زائد کو دریافت کرنے کا ایک ذریعہ تھا۔ یہی وجہ ہے قدر کی تھیوری مارکس کے تمام مخالفین کا بنیادی ہدف بن گئی۔ 1931ء میں بیلیول کالج آکسفورڈکے سابقہ استاد اے ڈی لنڈسے نے کہا کہ’’مارکس مخالف مصنفین کی اکثریت کا معمول اس نظریے کی بے ہودگیوں کو بے نقاب کرنا ہے۔ ‘‘

قدر کا ماخذ کیا ہے؟

تمام قدر انسانی محنت سے جنم لیتی ہے، یقیناًیہ کوئی نیا خیال نہیں ہے۔ اسے قرونِ وسطیٰ میں جان بال کے خطبے میں تلاش کیا جا سکتا ہے، جو انگلستان کی خانہ جنگی کے دوران کمیونسٹ گروہوں کا مرکزی نظریہ تھا۔ 1652ء میں ڈگرز (Diggers) کے رہنما گیرارڈ ونسٹینلی نے کہا کہ ’’دولت مند آدمی سب کچھ محنت کش کے ہاتھ کی محنت سے حاصل کرتے ہیں اورجو کچھ وہ دیتے ہیں، وہ دوسروں کی محنت کا پھل ہوتا ہے، ان کا اپنا نہیں۔ چنانچہ وہ اس دھرتی پر نیک لوگ نہیں ہیں۔ ‘‘لندن میں جیکوبین رہنما جان ٹھیلوال نے کہا کہ ’’ملکیت انسانی محنت کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ ‘‘ امریکی نشاۃ ثانیہ کے نمائندہ بنجمن فرینکلن نے تحریر کیا تھا کہ ’’عمومی طور پر تجارت محنت کے بدلے محنت کے تبادلے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ تمام اشیا کی قدر درست طور پر محنت سے ماپی جاتی ہے۔ ‘‘

یہ کہا جا سکتا ہے کہ محنت مادی دولت یعنی محنت کی پیدا کردہ قدرِ تبادلہ کاواحد ذریعہ نہیں ہے۔ قدرتی وسائل جو ہمیں قدرت سے مفت تحفے کی صورت میں ملتے ہیں، اس دولت کا حصہ ہوتے ہیں۔ جیسا کہ ولیم پیٹی نے درست طور پر کہا تھا کہ، محنت دولت کا باپ ہے اور زمین اس کی ماں۔

آج ’’قدر کا نظریہ محنت‘‘ (Labour Theory of Value) بورژوا حلقوں میں ایک الحاد بن چکا ہے، جس کی بڑی وجہ اس کے انقلابی مضمرات ہیں۔ ابتدا میں قدر کا نظریہِ محنت بورژوازی کے ہاتھوں میں ایک کارگر ہتھیار تھا۔ اس عہد میں بورژوازی ایک انقلابی طبقہ تھا۔ یہ نومولود بورژوازی قدر کے نظریہ محنت کو استعمال کرتے ہوئے اپنے سیاسی طور پر طاقتور دشمن، یعنی جاگیر طبقے پر وار کیا کرتے تھے۔ تاہم یہ جنگ جیتنے کے بعد بورژوازی کے لیے یہ تھیوری کسی کام کی نہیں رہی۔ درحقیقت بورژوازی کی نظر میںیہ تھیوری بغاوت کے خیالات کو جنم دے سکتی ہے، لہٰذا اسے رد کرنا ضروری ہے۔ 1812ء میں جان کیزنوف نے لکھا کہ ’’ تمام تر سرمایہ محنت سے جنم لیتا ہے، یہ نظریہ جتنا غلط ہے اتنا ہی خطرناک بھی ہے کیونکہ یہ ناگزیر طور پر ان لوگوں کو طاقت بخشتا ہے جن کے نزدیک تمام املاک محنت کش طبقے کی ملکیت ہیں اور اس میں سے باقی لوگ جو حصہ حاصل کرتے ہیں وہ اسے چوری اور فریب مانتے ہیں۔‘‘

قدر کا نظریہِ محنت

قدر کی تھیوری بہت سادہ ہے۔ انسان صرف محنت کے ذریعے ہی زندہ رہ سکتے ہیں اور اپنی ضروریات کی تکمیل کر سکتے ہیں۔ بلا شبہ، دوسروں کی محنت پر پلنے والا استحصالی طبقہ اس کی ایک شکل ہے۔

مارکس نے کہا تھا کہ ’’ہربچہ یہ جانتا ہے کہ اگر کوئی قوم ایک سال کے لیے، بلکہ محض چند ہفتوں کے لیے بھی کام کرنا چھوڑ دے تو اس کا خاتمہ ہو جائے گا۔ ‘‘ عمومی طور پر کہا جائے تو اشیا کی ایک مخصوص مقدار کا پیدا ہونا لازمی ہے جنہیں پھرسماج کی ضروریات کے مطابق تقسیم کیا جاتا ہے۔ یہ تمام سماجوں کے معاشی قوانین کے بنیاد ہے جس میں ہمارا سماج بھی شامل ہے۔ مارکس نے مزید کہا کہ ’’اور ہر بچہ یہ بھی جانتا ہے کہ بدلتی ہوئی ضروریات کے مطابق پیداوار کے حصول کے لیے سماج کی مجموعی محنت میں تبدیلی اور اس کا مقداری طور پر تعین کرنا پڑتا ہے۔‘‘

انسانی ضروریات کی تکمیل کے لیے سماج کی محنت کوکچھ بنیادی مطلوبات کے مطابق تقسیم کرنا پڑتا ہے، خواہ سماجی پیداوار کی طرز کوئی بھی ہو جیسے قدیم اشتراکیت، غلام داری، جاگیر داری، سرمایہ داری یا سوشلزم۔ بلا شبہ اس عمل کا طریقہ کار اور شکلیں مختلف سماجی نظاموں میں مختلف ہوتی ہیں۔ مارکس نے کہا تھا کہ’’قدرتی قوانین کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ تاریخی طور پر مختلف حالات میں جو چیز بدل سکتی ہے وہ ان قوانین کا اطلاق ہے۔‘‘ اس نے مزید وضاحت کی کہ ’’ قدراستعمال پیدا کرنے والی محنت‘ یعنی کارآمد محنت، انسانی وجود کی وہ شکل ہے جو سماج کی تمام تر شکلوں سے آزادنہ طورپر موجود ہوتی ہے۔ یہ ایک ازلی فطری ضرورت ہے جو انسان اور فطرت کے باہمی تعلق کے ساتھ ساتھ انسانی زندگی کے میٹا بولزم کا بھی تعین کرتی ہے۔‘‘

ایک غیر صنعتی فطری معیشت میں پیدا وار کرنے والے مقامی آبادی کے لیے قدرِ استعمال پیدا کرتے ہیں۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ، منڈی غالب ہو جاتی ہے اور پیداوار کرنے والے اب اجناس استعمال کے لیے نہیں بلکہ تبادلے کے لیے تیار کرتے ہیں۔ چناچہ ہر کوئی ایک دوسرے پر انحصار کرنے لگتا ہے جس کی وجہ تقسیمِ محنت ہوتی ہے، کیونکہ ہر کسی کو دوسروں کی پیدا کردہ اشیا کی ضرورت ہوتی ہے۔ مساوی تبادلے پر مبنی اجناس کے لین دین کی بنیاد اجناس کی مختلف طبعی خصوصیات سے قطع نظر مشترک ہوتی ہے۔ یہ مشترک خصوصیت ان کی قدر ہوتی ہے۔

جیسے کسی بھی چیز کا وزن صرف دوسری اشیا کے مقابلے میں ہی سمجھا جا سکتا ہے اسی طرح کسی جنس کی قدر بھی صرف تب سمجھی جا سکتی ہے جب اس کا کسی دوسری جنس سے تبادلہ کیا جائے۔ اس تبادلے کو ممکن بنانے کے لیے کسی ایسی خصوصیت کی ضرورت ہے جو ان تمام اجناس میں مشترکہ طور پر پائی جاتی ہواور جس کو پیمانہ بناتے ہوئے تبادلہ کیا جائے۔ یقینی طور پر یہ وزن، رنگ، حجم یا کوئی دوسری طبعی خصوصیت نہیں ہو سکتی جو مختلف اجناس میں بہت زیادہ متفرق ہوتی ہیں۔ تمام اجناس میں مشترک خصوصیت یہ ہے کہ وہ تمام انسانی محنت کی پیداوار ہیں۔

مارکس نے وضاحت کی تھی کہ ’’فطرت کوئی مشین، کوئی انجن، ریل، تار، خودکار چرخے وغیرہ نہیں بناتی۔ یہ انسانی محنت کی پیداوار ہیں۔ ‘‘نتیجتاً، ایک جنس میں عمومی محنت کا دوسری جنس میں عمومی محنت سے موازنہ کیا جا سکتا ہے۔ تبادلے میں، گھڑیوں کی ایک مخصوص تعداد کی تجارت جوتوں کے جوڑوں کی ایک مخصوص تعداد سے کی جا سکتی ہے۔ اس تعداد کا تعین پیداوار میں صرف شدہ محنت کے اوقات سے ہوگا۔ چنانچہ اجناس کو مخصوص وقت تک صرف ہونے والی منجمد شدہ محنت (Labor Time) سمجھا جا سکتا ہے۔

حقیقت اور ظاہریت

صرف انسان ہی اپنے مفادات کی خاطربے جان چیزوں کی فروخت کے اس عمل میں شریک ہوتے ہیں، نہ کہ اشیا۔ مارکس کے نزدیک قدر ان انسانوں کے درمیان ایک تعلق ہے جو اجناس کو پیدا کرتے ہیں، ایک سماجی تعلق، لیکن ظاہری طور پر یہ اشیا کے درمیان ایک ’’تصوارتی شکل‘‘ میں نظر آتی ہے۔ اس غلط فہمی کی بنیاد مارکس کے الفاظ میں ’’استضامِ شے‘‘ (Fetishism of Commodities) ہے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ ظاہریت پر فریب ہو سکتی ہے۔ ہر روز سورج زمین کے گرد چکر لگاتا دکھائی دیتا ہے جبکہ حقیقت میں زمین سورج کے گرد گھومتی ہے۔ چنانچہ ہمیں اندر چھپی حقیقت کو جاننے کے لیے ظاہریت کو چاک کر نا پڑتا ہے۔ مارکس کے معاشی نظریے کے پیچھے یہی سعی کار فرما ہے۔

ایک مرتبہ پھر مارکس کے الفاظ میں ’’بے ہودہ معیشت دان کو روز مرہ کے تبادلے کے حقیقی رشتوں کا ذرا بھی علم نہیں ہے۔ ۔ ۔ عملی بنیاد سے عاری بورژوا سماج کا نکتہ نظر یہ ہے کہ پیداوار کا کسی قسم کا شعوری سماجی انتظام نہیں ہوتا۔ فطرت کے مطابق جو معقول اور ضروری ہوتا ہے وہ خود کو اندھی اوسط کی شکل میں لاگو کر لیتا ہے۔ ۔ ۔ بیہودہ معیشت دان در حقیقت ظاہریت سے چمٹے رہنے اور اسے حقیقت سمجھنے پر فخر کرتا ہے۔ پھر سائنس کی کیا ضرورت ہے؟لیکن اس کے پیچھے کچھ اور بھی پوشیدہ ہے۔ ایک مرتبہ جب باہمی تعلق ظاہر ہو جائے تو موجودہ حالات کی ابدی ضرورت پر تمام تر یقین ختم ہو جاتا ہے۔ چنانچہ یہ بات مکمل طور پر حکمران طبقات کے مفاد میں ہے کہ اس غیر فکری غلط فہمی کوفروغ دیا جائے۔ ان چاپلوس بکواس کرنے والوں کو پیسے ہی اس بات کے ملتے ہیں اور ان کے پاس کوئی سائنسی بات کرنے کو ہے بھی نہیں۔ ۔ ۔ ‘‘

مارکسی انداز میں قدر کا تصور بظاہر عجیب سا لگتا ہے۔ یہ نہ تو جنس کی فطری یا طبعی خصوصیت ہے اور نہ ہی اسے ہم اپنے حواس کے ذریعے جان سکتے ہیں۔ اسی طرح قدر کو دیکھا نہیں جا سکتا، کسی طاقتور خوردبین کے ذریعے بھی نہیں۔ نہ ہی اسے چھوا اور سونگھا جا سکتا ہے کیونکہ اس کا طبعی وجود نہیں ہوتا۔ جیسا کہ مارکس نے وضاحت کی تھی کہ قدر ایک خاص سماجی خصوصیت ہے اور صرف اس وقت سامنے آتی ہے جب اجناس کا تبادلہ کیا جائے۔ یہ ایک سماجی خصوصیت ہے، یہ محنت اور پیداوار کرنے والوں کے مابین ایک تعلق ہے۔ طلب اور رسد کا قانون محض منڈی میں اجناس کی قیمتوں کو ان کی قدر کے گرد گھماتا ہے۔

تاہم قدر کسی مخصوص قسم کی محنت کی بجائے مجرد انسانی محنت یعنی عمومی محنت کا نتیجہ ہوتی ہے۔ مختلف اجناس جیسے جوتوں اور کوٹوں میں مجسم محنت مختلف نوعیت کی ہوتی ہے۔ یہ موچی اور درزی کی مخصوص نوعیت کی محنت کی پیداوار ہیں۔ تاہم تبادلے میں جس چیز کا تبادلہ کیا جاتا ہے وہ مخصوص محنت نہیں بلکہ عمومی انسانی محنت ہے، یعنی مجرد انسانی محنت۔ تمام محنت (چاہے وہ سادہ محنت ہو، غیر ہنر مند ہو، درمیانے درجے کی ہو یا پھر ہنر مند) اوسط محنت کی مقدار تک محدود ہو جاتی ہے۔ ہنر مند محنت مقداری اور معیاری طور پر ایک بہتر غیر ہنر مند محنت ہی ہوتی ہے۔

پیداوار کے عمل کے دوران مشینیں نئی قدر تخلیق نہیں کرتیں، جیسا کہ بظاہر دکھائی دیتا ہے۔ بلکہ وہ اپنی گھسائی کی صورت میں تھوڑی تھوڑی مقدار میں اپنی قدر کو نئی اجناس میں منتقل کرتی ہیں۔ مشین کو استعمال کرنے کے لیے محنت کش ضروری ہیں ورنہ وہ ضائع ہو جاتی ہے۔ مارکس نے بیان کیا تھا کہ ’’محنت کے عمل میں شامل نہ ہونے والی مشین بے کار ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ وہ فطری عمل کی تباہ کن قوت کا نشانہ بن جاتی ہے۔ لوہے کو زنگ لگ جاتا ہے، لکڑی گل سڑ جاتی ہے۔ جو سوت کپڑا بنانے کے کام نہ آئے وہ ضائع شدہ کپاس ہے۔ زندہ محنت کو ان چیزوں کو قابو کرنا، انہیں مردہ سے زندہ کرنا ہوتا ہے، انہیں محض امکانات سے حقیقی موثر قدرِ استعمال میں تبدیل کرنا ہوتا ہے۔‘‘

مارکس نے اس سست محنت کش کے متعلق عام اعتراض کا جواب دیا جو بظاہر بہت بڑی قدر پیدا کرتا ہے اور اشیاپیدا کرنے میں زیادہ وقت صرف کرتا ہے۔ مارکس نے وضاحت کی کہ سوال محض قدر پیدا کرنے میں لگی محنت کا نہیں ہے بلکہ ’’سماجی ضروری محنت‘‘ (Socially Necessary Labor) کا ہے۔ کلاسیکی معیشت دان اس حقیقت کو سمجھنے میں ناکام رہے تھے۔ اس سے مراد تکنیک کی موجودہ سطح پر اوسط حالات میں استعمال ہونے والی اوسط محنت ہے۔ آیا کہ کسی جنس میں سماجی طور پر ضروری محنت موجود ہے یا نہیں، اس کا اظہار تبادلے میں ہوتا ہے جب اجناس منڈی میں بکتی یا پھر مسترد ہوتی ہیں۔ اگر کسی جنس کو پیدا کرنے میں اوسط وقت سے زیادہ وقت لگتا ہے تو یہ اضافی اوقاتِ محنت بے کار محنت ہے۔ منڈی کا مقابلہ قیمتوں کو سماجی اوسط تک گرا دیتا ہے۔ اضافی لاگت میں تیار شدہ تمام اجناس فروخت نہیں ہو پائیں گی یا پھر انہیں پیداواری لاگت سے کم پر فروخت کرنا پڑے گا۔ قیمتوں کا اتار چڑھاؤ ایک مرکزی نقطے کے گرد ہوتا ہے جس سے پیداواری لاگت پوری ہوتی ہے اور ایک خاص شرح پر منافع کمایا جاتا ہے۔ غیر پیداواری محنت کو استعمال کرنے والا سرمایہ دار جلد ہی کاروبار سے باہر ہو جائے گاکیونکہ وہ اپنا مال ’’موجودہ قیمت‘‘ پر فروخت نہیں کر سکے گا۔

اگر سرمایہ دار پیداواری لاگت میں کمی لا کر موجودہ قیمت سے کم پر اجناس پیدا کرے گا تو وہ اپنا مال سستے داموں فروخت کر کے بے پناہ منافع (Super Profit) کما ئے گا۔ لیکن صرف اس وقت تک جب دوسرے سرمایہ دار بھی اس کی نقالی کرتے ہوئے نئی تکنیک متعارف نہ کروا دیں۔ ایسا ہو جانے پرقیمت ’’سماجی طور پر ضروری وقت محن‘‘ (Socially Necessary Labor Time) کی نئی سطح پر گر جاتی ہے۔ اب ہر جنس کو بنانے میں کم وقت لگتا ہے اور اس لیے اس میں پہلے سے کم قدر پائی جاتی ہے اور اس سے لاگت کے ساتھ ساتھ قیمت بھی کم ہو جاتی ہے۔ بلا شبہ سماجی طور پر ضروری وقت محن، مختلف اوقات اور جگہوں پر مختلف ہوتا ہے، لیکن کسی مخصوص عہد میں ایک عمومی اوسط پائی جاتی ہے۔ اس عمل کے ذریعے سماج کے لیے ضروری اجناس اورمعیشت کے مختلف شعبہ جات میں قوتِ محنت کی تقسیم کا تعین ہوتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کس طرح سے قدر کا قانون سرمایہ دارانہ نظام کے بنیادی ریگولیٹر کا کردار ادا کرتا ہے۔

’’سماجی طور پر ضروری‘‘ وقت محن کے ساتھ چلنے کی مسلسل ضرورت سرمایہ دا ر کو پیداوار کے طریقوں میں مسلسل انقلاب اور استحصال کو بڑھانے پر مجبور کرتی ہے۔ مشینری متعارف کروانے اور اس کے ساتھ سرمائے میں توسیع کا مطلب سرمائے کے ارتکاز، مرکزیت اور اجارہ داریوں کے ابھرنے کا ناگزیر رجحان ہے۔

سرمایہ داری کے عذر خواہوں کے دلائل مسترد ہو تے جا رہے ہیں۔ اصلاح پسند، جو قدر کے نظریہ محنت کا تمسخر اڑانے کی کوشش کرتے ہیں، بہت عرصہ قبل سرمایہ داری کے آگے جھک چکے ہیں اور اس کے برملا عذر خواہوں کا کردار ادا کررہے ہیں۔ لیکن ان کے نظریات آج کی حقیقت سے مطابقت نہیں رکھتے کیونکہ کٹوتیوں کے دور میں معیارِ زندگی گرتا چلا جا رہا ہے۔ سرمایہ داری کا بحران دراصل اصلاح پسندی کا بحران ہے اور اس کے ساتھ بورژوا معیشت کا بھی، جس کی بنیاد پر اصلاح پسند کھڑے ہیں۔ طویل اور ناقابلِ حل شکل اختیار کر جانے والا بحران محنت کشوں کو مجبور کررہا ہے کہ وہ اس بربادی سے نکلنے کی راہ تلاش کریں اور ان لوگوں کی جانب مرکوز ہوں جو ایک مربوط وضاحت پیش کر سکتے ہیں۔ دنیا کے متعلق سائنسی نکتہ نظر کی بنیاد پر صرف مارکسزم ہی یہ متبادل پیش کر سکتا ہے اوراس کے ساتھ ساتھ سرمایہ داری کے انقلابی خاتمے کی صورت میں اس کا حل بھی۔ یہی وجہ ہے کہ ایک فرسودہ نظام اور نظریے کے خلاف مارکسزم کا علم بغاوت صدیوں سے سربلند ہے!

Source