شاویز کی بیماری اور سرمایہ داری

8دسمبرکو صدر شاویز نے اعلان کیا کہ وہ کینسر کے دوبارہ علاج معالجے کیلئے کیوبا جارہاہے اور یہ بھی کہا ہے کہ اس طرح کی بیماری میں ہر قسم کے رسک ہواکرتے ہیں۔ شاویز نے کہا کہ اگر اسے کچھ ایساہوبھی جاتاہے کہ جس کے باعث وہ صدارت کے فرائض سرانجام نہیں دےپاتا تو اس کے نائب صدرماڈوروکو اس کی جگہ صدر بنادیاجائے۔ شاویز کا یہ اعلان بولیویرین موومنٹ والوں کیلئے ایک دھچکاثابت ہوا۔ پہلی بار ایساہواہے کہ شاویز نے اس قسم کی بات کی ہے کہ اس کے بغیر معاملات چلائے جاسکتے ہیں یا چلائے جانے پڑ سکتے ہیں۔ انقلابی قیادت کی یہ متوقع تبدیلی اس بات کا اشارہ کرتی ہے کہ شاویز کو اپنی صحت بارے تشویش لاحق ہوچکی ہے۔ اس اعلان کے بعد لاکھوں افراد اپنے اپنے شہروں کے مرکزی چوکوں پر جمع ہوگئے اور انہوں نے شاویز کے ساتھ اپنی ہمدردی اور یکجہتی کا بھرپور مظاہرہ کیا۔

اس موقع پر وینزویلا کی اشرافیہ اورعالمی سامراج بھی میدان میں کود پڑے کہ انہیں شاویز سے نجات ملنے جارہی ہے۔ انہوں نے بیان جاری کئے کہ آئین کی دفعہ 234 کے مطابق اگرصدر کچھ وقت تک کیلئے موجود نہیں رہتاتو اس کی جگہ نائب صدر باگ ڈور سنبھالے گا۔ جبکہ واقعہ یہ ہے کہ صدرآئین کی دفعہ235 کے تحت اسمبلی سے پانچ دنوں کیلئے چھٹی کی درخواست دیتا ہے۔ شاویز نے بھی یہ درخواست دی جسے اسمبلی نے منظور کرلیا۔ یہ چھٹی اسے اسمبلی نے 9 دسمبر کو دے دی۔ اس قسم کی آئینی موشگافیوں اور حیلہ بازیوں سے اپوزیشن کا ایک ہی مقصد ہے کہ کسی نہ کسی طرح شاویز سے چھٹکاراحاصل کیاجائے۔ وہ اس ا میدپر ہیں کہ شاویز جائے تو لوٹ کر ہی نہ آپائے۔

ہمیں ذہن میں رکھنا چاہئے کہ 1998ء کے بعد جب سے شاویز نے اقتدار سنبھالا ہے، وینزویلا کی اشرافیہ‘، بینکوں کے مالکان، جاگیردار، میڈیا، بڑے تاجر اور سامراج نے انقلاب کو شکست دینے اور شاویز سے چھٹکاراپانے کی ایک نہ رکنے والی مہم چلا رکھی ہے۔ اس کیلئے ان سب نے قانونی اور غیر قانونی ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کئے ہیں اور کر بھی رہے ہیں۔ اس مہم میں 2002ء کا شب خون بھی شامل تھا اور 2002/3ء کے دوران آئل انڈسٹری کی تالہ بندی اور سبوتاژ بھی اسی کا حصہ تھی۔ 2004ء کے گورمبا فسادات اسی مہم کا ایک اور اظہار تھے۔ جس کے دوران ایک سو کولمبیائی گوریلے دارالحکومت کے قریب سے گرفتار کئے گئے تھے۔ ایسے ہی 2004ء میں ہونے والا ریفرنڈم، اس کے ساتھ ہی ایک مسلسل کمپئین جس کے ذریعے سرمایہ کاری کو روکے رکھا جائے۔ خوراک کی فراہمی میں کیاجانے والا سبوتاژوغیرہ۔

اب شاویز کو بطور صدرہٹائے جانے کی اس مہم کا مقصد بھی وہ نتیجے حاصل کرنا ہے جو کہ اپوزیشن 7 اکتوبرکے حالیہ صدارتی الیکشن میں نہیں کر پائی تھی۔ یہ ایک دلچسپ امر ہے کہ کیا وجہ ہے کہ اپوزیشن شاویز کی ذات کے پیچھے اس طرح ہاتھ دھو کر پڑی ہوئی ہے۔ ایک ہی وجہ ہے کہ وہ بولیویرین انقلاب میں مرکزی کردار چلا آرہاہے۔ انقلاب کو اب تک سرگرمی سے رواں دواں رکھنے والے عوام اور شاویز کے مابین ایک علامتی نسبت اور تعلق قائم ہو چکاہے۔ شاویز بھی عوام کے اس دباؤ کو بخوبی جانتا اور سمجھتا ہے اور عوام بھی اسے اپنے میں سے ہی ایک فرد مانتے ہیں۔ بولیویرین تحریک کے کئی باقی رہنماؤں، وزیروں، گورنروں اور مقامی میئروں وغیرہ کیلئے یہ باعث تشویش ہے۔ ان میں سے کسی ایک کو بھی اس سیاسی اتھارٹی اور سماجی رتبے کا رتی برابر بھی نصیب نہیں جو شاویز کو اپنے ملک کے محنت کشوں اور غریبوں کی طرف سے میسر ہے اور جو انقلاب کی اساس بھی چلے آرہے ہیں۔ بہت سے ایسے بدعنوان مفادپرست حضرات ایسے ہیں جو کہ بولیویرین انقلاب سے چپک کر ذاتی مفادات کے حصول میں سرگرداں چلے آرہے ہیں۔ اپریل 2002ء کی شاویز کے خلاف بغاوت کو شکست دینے کیلئے انقلاب سے وابستہ عوام، محنت کش، نوجوان، کسان سڑکوں پر آگئے تھے، تب بھی بہت سے علاقائی گورنر نے کارمینا کی غیر قانونی حکومت کے تحت حلف اٹھا لیا تھا۔ اور جب عوام بغاوت کو شکست دے چکے تو انہوں نے فوراًہی اپنی وفاداریاں پھر سے بدل لیں۔

بہت سے اہم علاقوں مثلاً آراگوا، لارا، موناگاس وغیرہ میں ہم نے دیکھا کہ کس طرح وہاں کے گورنروں نے کشتی سے چھلانگ لگا دی تھی اور ردانقلاب سے جا ملے تھے۔ کئی تماشا دیکھتے رہے اور پھر وہ بعد میں بورژوا سیاستدانوں کے انداز میں اپنے عزیزواقارب کیلئے مراعات کے حصول میں جڑے رہے اور ہر قسم کی بدعنوانی کو اپنا وطیرہ بنائے رکھا۔ ریاستی اداروں میں موجود افسر شاہی نے کئی موقعوں پر عوام کیلئے کئے گئے انقلابی اقدامات کو روکنے کی بھر پور کوشش کی۔ جس کے بعد عوام خود ہی براہ راست شاویز تک پہنچے اور ان وزیروں اور گورنروں سے سب اقدامات پر عملدرآمدکروایا۔ اس ضمن میں ہمارے سامنے SIDOR کے ورکروں کی شاندار جراتمندانہ جدوجہد ہے جب وہ اپنے علاقائی گورنررانگیل کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے کہ جس نے انہیں کچلنے کیلئے نیشنل گارڈزکو بھیج دیاتھا۔ اسی کے ساتھ ہی وزیر محنت رامون رائیوروکے خلاف بھی اور اس جدوجہد کے بعد شاویز نے عالمی اجارہ دار کمپنیوں کو بے دخل کرتے ہوئے گوئیانہ کے اہم سٹیل پلانٹ کو دوبارہ قومی تحویل میں لینے کا حکم دیاتھا۔ اس کے بعد ورکروں نے مطالبہ کیا کہ بنیادی صنعتوں کو ورکروں کے کنٹرول میں دیا جائے اوریہ بات ریاستی مینیجروں ڈائریکٹروں اور وزیروں کے خلاف تھی۔ جس کے بعد شاویز نے گوئیانہ کے سٹیل پلانٹ کی سوشلسٹ پلاننگ کیلئے ایک میٹنگ طلب کی جس میں اس نے ورکروں کے مطالبات سے اتفاق کیا اور اس کے بعد کئی ریاستی صنعتوں میں ورکروں کو ڈائریکٹر ز تعینات کرنے کا سلسلہ شروع کردیاگیا۔ اس کے علاوہ بھی بے شمار ایسی مثالیں موجود ہیں کہ جن سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ ان اقدامات سے شاویز اور انقلابی عوام کے مابین تعلق مزید مضبوط ہوتا چلاگیا۔ اور جن کی وجہ سے افسرشاہی اور اصلاح پسندوں میں شدید بے چینی اور بے اعتمادی پیداہوتی چلی گئی۔

وینزویلا کے حکمران طبقات اور سامراج اس بات کو جان چکاہے کہ شاویز ’’ناقابل تصور‘‘ فردہے یعنی کہ وہ کسی بھی وقت کوئی بھی حیران کن اور جراتمندانہ اقدام اٹھا سکتاہے۔ جس سے ان کے مفادات اور مراعات کو سخت دھچکالگتا ہے۔ چنانچہ کوئی بھی شخص جو شاویز کی جگہ صدر کے منصب پر آئے گا اسے الیکشن میں شکست دینا بہت آسان ہو جائے گا۔ اسی دوران ہی بورژوازی کو رائے عامہ کو مصالحت ا ور اصلاح پسندی کی طرف راغب کرنا بھی آسان ہو جائے گا۔ شاویز کے بغیر شاویزازم، ان کے نزدیک ایک کمزور کیفیت میں بدل جائے گا۔ جس سے نجی ملکیت کا تحفظ بہت آسان ہوجائے گا۔

جونہی شاویز نے علاج کیلئے جانے کا اعلان کیا، اپوزیشن والوں نے ٹویٹرپر ’’شاویز؛ جوار رحمت میں‘‘ کے عنوان سے ہتک آمیز مہم شروع کر دی جس سے ان کی عمومی اخلاقیات واضح ہوتی ہے۔ اور یہ بھی پتہ چلتاہے کہ یہ لوگ کس قدر ’’جمہوریت پسند ‘‘ ہیں۔ کچھ پر جوش انقلاب مخالفین نے تو انقلاب کے خاتمہ بالخیر کا ہی اعلان کرنا شروع کردیا۔ اپوزیشن کے ترجمان El Nuevo Pais نے تو یہ شہہ سرخی جمائی ’’انقلاب انجام کو پہنچ گیا‘‘۔ جبکہ اپوزیشن کے ذہین ترین حصے نے البتہ ایک دوسری لائن اپنائی اوراپنی مسرت کا اظہار کرتے ہوئے واویلا شروع کر دیا کہ اب ہمیں قومی وحدت اورمصالحت کی طرف ساری توجہ دینی ہوگی۔ سیاسی تقسیم کو ختم کرتے ہوئے ڈائیلاگ کی راہ اپنانی پڑے گی۔

تاجروں کی تنظیم Fedecamaras جس نے اپریل 2002ء کے شب خون میں نمایاں کردار ادا کیاتھا، نے بھی اسی قسم کا بیان جاری کیا۔ 10دسمبر کو کی جانے والی پریس کانفرنس میں انہوں نے نائب صدرنکولس ماڈوروکے ساتھ فوری میٹنگ کا مطالبہ کیا تاکہ ہنگامی طورپر میکرو اکنامک سطح پر معاملات طے کئے جائیں۔ جن کی، ان کے بقول، اس وقت وینزویلا کو اشد ضرورت ہے۔ اصل میں یہ لوگ بنیادی طور پر حکومت سے ایکسچینج کنٹرول کے ضمن میں رعایتوں کا مطالبہ کر رہے ہیں تاکہ غذائی اشیا کی طے شدہ قیمتوں وغیرہ جیسے معاملات کو لبرلائز کیا جاسکے۔ تنظیم کے صدرجارج بوٹی نے اپنے خبث باطن کو سامنے لاتے ہوئے یہ الفاظ کہے کہ ہمیں اس کام کیلئے جنوری کا انتظار نہیں کرنا چاہئے بلکہ فوری طورپر ابھی فیصلے کرنے چاہئیں۔ ہم قائم مقام صدر سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے مالیاتی وزیروں کی میٹنگ طلب کر کے مناسب اورفوری اقدامات اٹھائے۔

ان لوگوں کی رعونت تو ملاحظہ فرمائیے۔ ابھی دو مہینے پہلے ہی ان کو الیکشن میں شکست ہو چکی ہے۔ لیکن اب یہ ملک کی حکمرانی اپنے ہاتھوں میں لینے پر اتر آئے ہیں۔ اور سب سے اہم معاشی فیصلے کرنا چاہ رہے ہیں۔ سرمایہ کاری کے تجزیہ نگار اور معاشی صحافی، وینزویلا کے نائب صدر کو ایک ایسا فرد قرار دینا شروع ہو چکے ہیں کہ جو ڈائیلاگ کی اہمیت کو اچھی طرح سمجھتا ہے۔ ’’ایسے بندے سے بات چیت کی جا سکتی ہے‘‘۔ جریدہ Stratfor اسے ایک عملیت پسند انسان قراردیتاہے جبکہ Barclays Capital پہلے ہی لکھ چکاہے کہ ماڈورو، اگر ملک کا سربراہ بنتاہے تو یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ اعتدال پسندی کا راستہ اپنائے گا۔ نائب صدرکیلئے سرمایہ داروں کی یہ نیک خواہشات ہر جگہ موجود ہیں۔ اور ان سب کا خلاصہ صرف اتنا ہے کہ کسی نہ کسی طرح شاویز سے جان چھوٹ جائے اور بس! اس کے بعد جو نیا حکمران آئے گا اس سے بڑے کاروباروں کیلئے رعایتیں اور سہولتیں بھی حاصل کی جاسکیں گی اورشاویز کے بعد منصوبہ بند معیشت کی طرف کی جانے والی ہر پیش قدمی کا خاتمہ ہو جائے گا۔

اکتوبر الیکشن میں شکست سے دوچارہونے کے بعد سے اپوزیشن نے ایک اور معاملے کو اچھالنا شروع کردیاہے اور وہ ہے نام نہادسیاسی قیدیوں کی رہائی اور ملک چھوڑکر جانے والوں کی واپسی۔ ان کے بقول وہ سبھی لوگ جنہیں کسی نہ کسی سیاسی وجہ سے قیدکیاہواہے اور وہ جو کسی نہ کسی سیاسی وجہ سے ملک چھوڑ کر چلے گئے ہیں، ان کیلئے ’’معافی ‘‘کااعلان کیا جائے۔ سب سے پہلے ہمیں ان معاملات بارے جاننا ضروری ہے۔ یہاں ہماری مراد لوگ نہیں بلکہ وہ سیاستدان ہیں کہ جنہوں نے قانون توڑا اور اس کی وجہ سے وہ قید کئے گئے ہیں۔ (ان میں اکثر وہ ہیں) جو قانون کی گرفت سے بچنے کیلئے ملک چھوڑکر چلے گئے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ جنہوں نے 2002ء کے شب خون میں کردار ادا کیاتھا۔ ان میں اس وقت صدر بن جانے والا پیڈروکارمونا بھی ہے جو کولمبیا بھاگ گیاتھا۔ اس کے علاوہ وہ لوگ بھی جنہوں نے آئل انڈسٹری کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی تھی، ا سے منظم کرنے والا مینوئل روازالیس بھاگ کر پیرو چلا گیاتھا۔ جبکہ کئی ان میں سے وہ ہیں جو کہ پبلک پراسیکیوٹر ڈانیلو اینڈرسن کے قتل کی سازش میں ملوث ہیں جو 2002ء کے شب خون کی سازش کی تحقیق کرتے ہوئے قتل کردیاگیاتھا۔ اس قسم کے سبھی افراد کو ان کے بہیمانہ جرائم پر نہ صرف پکڑاجانا چاہئے بلکہ اپنے کیے کی سزا بھگتنی چاہیے۔ ان میں سے کسی نے بھی اپنے جرائم پر نہ تو کبھی ندامت کا اظہار کیا نہ معافی مانگی۔

اس حقیقت کا جہاں تک تعلق ہے کہ ما ڈورونے اس معاملے کوحل کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے، تویہ بات محض بے بنیاد ہے۔ اپوزیشن لیڈرایڈگر زمبارنوجو کہ اس قسم کے جلا وطنوں کی تفصیلات جمع کرنے کیلئے میڈرڈ، میامی، بگوٹا وغیرہ کے دورے پر نکلاہواہے، کی طرف سے یہ بات سامنے لائی گئی ہے اور جس کا مقصدانقلاب کیلئے سرگرم لوگوں میں اضطراب پیدا کرنا ہے۔ ابھی تک حکومت کے کسی ترجمان نے اس بیان کی تردیدبھی نہیں کی ہے۔

اس ساری صورتحال میں جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں وہ یہ ہے کہ سرمایہ دار طبقات بولیورین موومنٹ کی قیادت پرمصالحت اور مراعات کیلئے ہر قسم کا دباؤ بڑھاتے چلے جا رہے ہیں۔ جبکہ دوسری جانب بولیویرین عوام ہر حال میں انقلاب کی پیش قدمی چاہ رہے ہیں، وہ انقلاب کی تکمیل چاہتے ہیں۔ لیکن ان کے سامنے اس سلسلے میں کوئی واضح قیادت موجود نہیں اور کسی جمہوری انقلابی ڈھانچے کے بغیر وہ انقلاب کے عمل کو پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا پارہے۔

یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ پچھلے چودہ سالوں کے دوران جب کبھی بھی وقت پڑا یا ضرورت پیش آئی تو لاکھوں لوگ منظم ہوکر میدان میں اترے ہیں۔ آغاز سے ہی بولیویرین سرکلز میں، الیکشن کے دوران قائم کئے گئے یونٹس کی شکل میں‘ UNT ٹریڈیونین کی شکل میں، PSUVْٓٗ قائم کرتے ہوئے‘ اس کے یوتھ ونگ JPSUV کو منظم کرکے اور اسی طرح کئی دیگر صورتوں میں۔ ان تنظیموں کے اندرعوام نے کئی ریڈیکل لیڈرزبھی بنائے ہیں کہ جنہوں نے خود کو عوام کے ساتھ ساتھ معاملات کو بھی باہم منسلک اور متحرک رکھا ہواہے۔ اور یوں اشرافیہ کے ساتھ ہر مرحلے پر فیصلہ کن لڑائی لڑی اور جیتی ہے۔ ہر بارایک ولولے کی کیفیت میں جمہوری بحث اور انقلابی جذبے سے کام کرنے والے ان جانبازسرگرم کارکنوں کو افسر شاہی دباتی چلی آئی ہے۔ PSUV کے یوتھ ونگ نے 2008ء میں اپنی کانگریس منعقد کی تھی جس میں ایک غیر جمہوری آئین منظور کروانے کی کوشش کو ناکام بنا دیا گیاتھا، اس کے بعد سے اب تک اس کی اگلی کانگریس نہیں ہو سکی۔ PSUV نے خود بھی اپنی ایک بائیں بازو کی انتہائی جمہوری تاسیسی کانگریس 2010ء میں منعقد کی لیکن پھر اس کے ڈھانچوں کو محض ایک انتخابی مشین بنا کے رکھ دیاگیا ہے۔ اس کے ارکان کو 16دسمبر کو ہونے والے علاقائی الیکشن کیلئے امیدواروں بارے کچھ بھی کہنے کا موقع نہیں دیا جارہا۔

بولیویرین انقلاب اس وقت واضح طورپر ایک دوراہے پر آکھڑاہواہے۔ جہاں کئی ایک سیاسی عوامل اپنی اپنی حکمت عملی مرتب اور لاگو کرنے کے درپے ہوچکے ہیں۔ مثال کے طورپر افسر شاہی گوئیانہ سوشلسٹ پلان کو تہس نہس کر چکی ہے اور سبھی ورکروں کو ان کے عہدوں سے فارغ کر دیاگیاہے۔ یہ ساراکچھ کھلے عام سبوتاژ مہم کے تحت کیاگیا ہے اور یہ سب ان کی رضامندی سے اور کیلئے کیا جارہاہے کہ جنہیں ورکرزکنٹرول سے تکلیف ہورہی تھی۔ FBT ٹریڈیونین کے ایک حصے نے اس مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیاہے۔ جبکہ اس کھلواڑ کو علاقائی گورنررانجل گومیز کی بھی مکمل پشت پناہی میسر تھی۔ جس کی وجہ سے ورکروں میں بہت بے چینی پھیل گئی اور اب وہ ایک اور بولیورین امیدوارارسینیگا کی بڑھ چڑھ کر حمایت کر رہے ہیں جو کہ کمیونسٹ پارٹی کے ٹکٹ پر کھڑاہواہے۔

بولیویرین موومنٹ کی قیادت ایک ملی جلی معیشت کی وکالت کرتی آرہی ہے۔ ان کے خیال میں ’’سوشلسٹ‘‘ عناصر ترقی پسندی کے حوالے سے بڑھیں گے اور آخر کار مستقبل قریب میں سرمایہ دارانہ عناصر پر غالب آجائیں گے۔ اس طریقے سے ہم مبینہ طور پر ایک سوشلسٹ سماج بنا ڈالیں گے اور اس طرح ہم سبھی سرمایہ داروں کو کچھ کہے بغیر جلد از جلد اپنا مقصدحاصل کر لیں گے۔

ہمارے نزدیک یہ عمل خودکشی کرنے کے مترادف ہے۔ کیونکہ اس سے مراد یہی ہے کہ سرمایہ دارانہ منڈی کی معیشت کے عمومی طریق کار کو چھیڑا جارہاہے اور وہ بھی ایک ذرائع پیداورا کو قومی تحویل میں لے کر پیداوار کو جمہوری منصوبے سے چلانے کے منظم متبادل کو اپنائے بغیر۔ ایسی صورتحال خوفزدگی، سبوتاژ، افراط زرمعیشت کی عمومی ابتری کو جنم اور پروان دیاکرتی ہے۔ اور جو پھر سب سے زیادہ سماج کی غریب ترین پرتوں کو متاثر کرتی ہے اور جو انقلاب کی سب سے بڑی فطری بنیادہوتی ہیں۔

اپنی صحت بارے تقریر کے دوران شاویز نے موومنٹ سے وابستہ لوگوں سے متحدومنظم رہنے کی اپیل کی ہے۔ ہم سب سے پہلے ہوں گے جو کہ ایک متحد ومنظم انقلابی موومنٹ کے حق میں ہیں۔ لیکن اختلافات موجود بھی ہیں اور جو حقیقی بھی ہیں۔ اتحاد کو قائم ودائم رکھنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ موومنٹ اجتماعی طورپران اختلافات پر بحث کرے اور ایک اجتماعی فیصلے کو ممکن بنائے۔ خاص طور پر اس وقت کہ جب افسر شاہی موومنٹ کے اندر جمہوریت کو روکتی اور اس میں اختلافات ابھارتی ہے۔

ایک بار پھر پچھلے اکتوبر میں بولیویرین عوام نے شاویز کو الیکشن میں کامیاب کیا ہے۔ اس نے ایک ایسے پروگرام پر الیکشن لڑ اجس میں ایک سوشلسٹ معیشت کی بات کی گئی اور پرانے ریاستی ڈھانچے کو اکھاڑ پھینکنے کا کہا گیا۔ اب کوئی وقت نہیں ہے کہ سرمایہ داروں سے کسی قسم کی کوئی بات چیت یا مصالحت کی جائے۔ یہ وقت ہے کہ اعلان کردہ پروگرام پر عملدرآمدکیاجائے۔ ہماری رائے میں یہ سب ذرائع پیداوار، بینکوں اور بڑی جاگیرداری کو اکھاڑنے اور ان سب کو ورکروں کے جمہوری کنٹرول میں دینے سے ہی ممکن ہوگا۔ ہوگو شاویز کی علالت سے ایک بار پھر یہ صداقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ صرف ایک اکیلا فرد کبھی بھی سوشلسٹ انقلاب کا فریضہ سرانجام نہیں دے سکتاہوتا۔ وقت آگیا ہے کہ مزدور اور کسان آگے بڑھیں اور فیصلے اپنے ہاتھوں میں لیں۔ ہر کھیت کھلیان‘ کارخانے اور کام کی جگہوں پر سے منتخب کردہ نمائندوں پر مبنی ایک کانگریس بلائی جائے جو کہ یہ طے کرے کہ انہیں انقلاب کو کامیاب بنانے کیلئے کیا فیصلے اور کیا عمل کرنے ہیں!

Translation: The Struggle (Pakistan)