وینزویلا: انقلاب کی تکمیل ضروری ہے

Urdu translation of Venezuela: Interview with ex-Minister of Trade Eduardo Samán (October 14, 2010)

تحریر: وینزویلا کے سابق وزیر تجارت ایڈورڈو سمان کے ساتھ انٹرویو طبقاتی جدوجہد ،وینزویلا

چنگاری ڈاٹ کام،22.11.2010

دس فروری کو وینزویلا کی اتھارٹیز نے ایڈورڈو سمان کو اطلاع دی کہ اسے وزیر تجارت کے عہدے سے ہٹایاجارہاہے ۔وینزویلا کے انقلابیوں کے ساتھ انتہائی قریبی تعلقات رکھنے کا الزام ایڈورڈو کی برخاستگی کا باعث بنا۔وہ انقلابیوں کے ساتھ ان کے ہر دکھ سکھ میں شریک ہوتاتھا ۔سب سے بڑھ کر وہ فیکٹریوں پر مزدوروں کے قبضے اورانہیں مزدوروں کے کنٹرول میں دینے میں بہت ہی متحرک تھا۔خاص طورپر سوکرے کے علاقے میں واقع لا گووی ٹا کے کارخانے کو مزدوروں کے کنٹرول میں دینے کے معاملے میں اس نے انتہائی سرگرم کردار ادا کیاتھا۔اس کی وزارت کے افسروں نے مالکان کو بھڑکانے میں خوب زورلگایا۔ایڈروڈو نے اپنی وزارت سے برخاستگی کا ذمہ دار انہی افسران پر عائدکیا۔وینزویلاسے شائع ہونے والے عالمی مارکسی رحجان کے جریدے ’’طبقاتی جدوجہد‘‘ نے ایڈورڈو سے انٹرویو کیا تاکہ اس سے وینزویلاکے ماضی حال اور مستقبل کے بارے اس کا نقطہ نظر معلوم کیا جاسکے۔ سوال:آپ وینزویلا کے اندر تو انتہائی مقبول ہیں ،تاہم اس انٹرویوکا مقصد آپ کو اور آپ کے نقطہ نظر کوعالمی سطح پر متعارف کراناہے۔کیونکہ یہ انٹرویو ہمارے رسالے کے علاوہ ہماری ویب سائیٹ مارکسسٹ ڈاٹ کام پر بھی شائع ہوگا۔سب سے پہلے توہم آپ سے آپ کے اپنے بارے میں کچھ معلومات جانناچاہیں گے۔آپ کی سیاسی زندگی کے خال وخد کیاہیں اورسرمایہ داروں کی جانب سے معاشی سبوتاژکے خلاف اپنی جدوجہد کے بارے کچھ بتائیں۔ جواب: شکریہ !مجھے خوشی محسوس ہورہی ہے کہ مجھے آپ سے گفتگو کا موقع مل رہاہے ۔میں 1964ء میں ایک عرب تارک الوطن گھرانے میں پیداہوا،جو کہ کاٹیا کے ایک ورکنگ کلاس ایریا میں آبادتھا۔ جب میں18سال کا ہواتو میں نے سیاست کو شعوری طورپر سمجھنا شروع کردیاتھا۔تب میں سیکنڈری سکول کے طالب علموں کی جانب سے ایک تحریک میں شریک ہواجوکہ یونیورسٹی تک تعلیم کے اپنے حق کیلئے سرگرم ہوئے تھے۔ہم طالب علم اعلیٰ تعلیم اور اچھے مستقبل کیلئے یونیورسٹی جانا چاہتے تھے۔میں فارمیسی کی تعلیم حاصل کرنے کا آرزومند تھا لیکن وینزویلا کی مرکزی یونیورسٹی میں صرف اشرافیہ اورامیروں کے بچے ہی تعلیم حاصل کر سکتے تھے ۔اس تحریک کے دوران ہی مجھے پہلی بار اس نابرابری کا ادراک ہوا جوکہ ہمارے سماج میں موجودتھی ۔امیروں کو اس کا بخوبی علم تھا کیونکہ وہ اپنے طبقاتی برتری کے شعور سے لیس تھے۔ لیکن میرے جیسے چھوٹے گھرانوں سے آنے والوں کیلئے اس کا فوری ادراک نہیں ہوتاتھا۔اور ایک عمر تک ہم یہی سمجھتے ہوتے ہیں کہ سماج میں سب ایک جیسے اور برابرہواکرتے ہیں۔1982ء میں مجھے ایک بھوک ہڑتال میں شامل ہونے کا موقع ملا ،جس کے نتیجے میں مجھے آخرکار یونیورسٹی میں داخل کرلیاگیا۔یوں میں نے 1989ء میں اپنی گریجویشن مکمل کرلی۔یہ کیراکس میں ہونے والی بغاوت سے کچھ ہی عرصہ پہلے کی بات ہے۔اسی دوران میں کمیونسٹ یوتھ لیگ کا بھی ممبر رہاتھالیکن میں یونیورسٹی میں اپنی تعلیم مکمل کرنے سے ایک سال پہلے ہی اسے چھوڑ گیاکیونکہ مجھے اس بات کی سمجھ آچکی تھی کہ کمیونسٹ پارٹی کی قیادت مکمل طورپرسیاسی زوال پذیر ی کا شکارہوچکی تھی۔اور اس کا ثبوت ان کے1993ء کے صدارتی الیکشن میں رجعتی صدارتی امیدوار، رافیل کالڈراکی حمایت کی صورت میں سامنے بھی آگیا۔ سوال:آپ ہمیں کچھ کیراکس بغاوت کے بارے اپنے تاثرات بتائیں۔ جواب:وہ ایک انتہائی بھیانک خواب کی مانند ہے۔ جب نہتے لوگوں کو وحشت وبربریت کا مظاہرہ کرتے ہوئے موت کے گھاٹ اتار دیاگیا۔مجھے یاد ہے میں ایک سکول آف میڈیسن میں لیکچر دے رہاتھا۔کیونکہ مجھے کسی دواساز ادارے میں جگہ نہ مل سکی تھی۔اور اس کی سیدھی وجہ یہ تھی کہ جب آپ ’’سرخے‘‘ مشہورہوچکے ہوں تو کوئی بھی آپ کو روزگار کیونکر دے گا۔کیراکس بغاوت ایک خودرو عوامی بغاوت تھی جسے کوئی بھی قیادت میسر نہیں تھی۔یہ درحقیقت اس غم وغصے کا اچانک اظہارتھا جو کہ ایک طویل عرصے سے لوگوں میں پنپتااور پھلتاپھولتاچلا آرہاتھا۔اس دن میں نے کیراکس کے مشرق میں واقع اپنے میڈیسن سکول سے اپنے گھر کی جانب کا سارا راستہ پیدل ہی طے کرنے کا ارادہ کیا ۔اس وقت سڑک پر لوٹ مارشروع ہو چکی تھی ۔لیکن حیران کن بات یہ تھی کہ پولیس اس سارے کھیل میں سب سے زیادہ ملوث اور سرگرم تھی۔اسی دوران ہی میں نے سڑکوں پر جبروتشددکے ابتدائی منظر دیکھے ۔ لیکن دوسرے دن دارالحکومت کوپوری طرح سے مسلح اور چوکناکردیاگیااور ہر طرف ہتھیاراٹھائے فوجی چاک وچوبند موجودتھے تاکہ وہ صورتحال کو اچھی طرح کنٹرول کر سکیں۔مگر یہ فوجی ایک تذبذب اورپشیمانی کی کیفیت میں بھی مبتلا تھے۔ صاف نظر آرہاتھا کہ وہ اپنے ہی بھائیوں اور بہنوں پر فائرنگ کرنے کیلئے ذہنی طورپر تیار نہیں نظرآرہے تھے۔ ہمیں بہرحال اپنے سیاسی مواد کو بچانا تھا کیونکہ وینزویلا کی بدنام زمانہ سیکرٹ ایجنسی DISIPشکاری کتوں کی طرح سے سیاسی کارکنوں کو گرفتار اور گم کرتی جارہی تھی۔چنانچہ اس وقت مجھے اپنی سبھی کتابوں سے محروم ہوناپڑا جن میں مارکس اینگلز اور لینن کی لکھتیں شامل تھیں۔کیراکس کی یہ سرکشی پچھلے بیس سالوں کے دوران جمع ہونے والی سیاسی بے چینی کا اظہارتھی۔ سوال :آپ کس طرح خوراک اور دیگر غذائی اشیا ء کی قلت اور دیگر مسائل کے خلاف جدوجہد کے رہنما کے طورپر سامنے آئے؟ جواب:مجھے2000ء سے2002ء کے دوران ،اس وقت کی وینزویلا کے نائب صدر ایڈینا بیستیداس کی طرف سے INDECUکا ڈائریکٹر بنادیاگیاتھاجو کہ ایک انتہائی جراتمند خاتون اور بائیں بازو کی ایک معروف رہنما بھی ہے۔یہ ادارہ صارفین کی تربیت اور ان کے حقوق کے دفاع کی غرض سے بنایاگیاتھا۔ہم نے 2008ء میں اس کا نام تبدیل کر کے INDEPABISرکھ دیا۔جس کا مقصد اشیائے ضرورت ا ورسروسز تک لوگوں کی فوری اور آسان رسائی کو یقینی بناناتھا۔ہم نے لفظ ’’صارف‘‘ کے معنی اور مفہوم کو یکسر ہی بدلنے کی ٹھان لی ہوئی تھی جوکہ سرمایہ داری کے تحت سمجھا اور برتاجاتاہے۔سرمایہ داری کے تحت صارف ایک ایسا فرد ہوتا اور سمجھا جاتا ہے جس کے پاس پیسہ ہو اور جس کے ذریعے وہ اشیا ء کو خرید سکتاہو۔ہم اس تاثراور تصورکو ہی بدل دینا چاہتے تھے۔ ہم یہ بات سمجھ اور جان چکے تھے کہ وینزویلا کو سرمایہ داری کے جن اصول و قواعدکے تحت چلایا جا رہا تھا ،ان کی موجودگی میں وینزویلاکو کسی طور تعمیروترقی سے نہیں روشناس کرایاجاسکتا۔ چنانچہ ہم نے اس بات کا اہتمام کیا کہ اس کا تجزیہ کیا جائے کس طرح سے اجارہ داریوں نے یہ سارا کھلواڑ منظم کیا ہوا ہے۔ بنیادی مسئلہ یوں ہے کہ ہم سرمایہ داری کے تحت وینزویلا میں صنعتکاری نہیں کر سکتے۔اس بارے کئی بار کوششیں بھی کی گئی ہیں لیکن یہاں کی اشرافیہ کسی طور اس موڈ میں نہیں ہے کہ وہ ایسا کچھ کرے۔وہ وینزویلا کو کرائے کا ایسا ملک سمجھتے ہیں کہ جو صرف تیل برآمد کرتا اور باقی سب کچھ درآمدکرتاہے۔ہمارے ملک میں پیٹروکیمیکل بنانے کی تو صنعت ہے لیکن اس سے منسلک کھلونے بنانے والی ایک بھی فیکٹری نہیں۔ سوال :آپ کی اپنی وزارت میں کیا ترجیحات رہیں اور آپ نے عوام کیلئے کیا کچھ کیا؟ جواب : میری وزارت میں موجود افسران کا یہ معاملہ رہاکہ وہ مجھے ایک ایسا وزیر سمجھ رہے تھے کہ جو وینزویلا کے سب سے بڑے خوراک ساز ادارےPolarکو تباہ کرنے پر تلا ہے۔اور ایسے میں ،میں بھی ان سے کیا کہہ سکتاتھا!ہاں میں سب کچھ کرناچاہتاتھا۔میں کیسے دیکھ سکتا تھا اور کیونکر برداشت کرسکتاتھا کہ ایک ہی کمپنی خوراک پر اپنی مکمل اجارہ داری مسلط کیے ہوئے ہے ؟اس کا کوئی بھی اخلاقی جواز نہیں تھا ۔کمپنی جب چاہتی تھی خوراک موجود ہوتی تھی اور جب نہیں چاہتی تھی، خوراک ناپید ہوجاتی تھی۔ہماری اس طبقاتی جدوجہد کے دوران پرائس کنٹرول ایک اہم ہتھیار تھا۔اور اسی کے ہی ذریعے ہم نے 2009ء میں اپنی مہم کا آغازکیا۔میری سرکردگی میں اور صدر شاویز کی منظوری کے بعد ،ہم نے پولر کمپنی کے چاولوں کے پلانٹ کا معائنہ کیا تو ہمیں معلوم ہواکہ یہ کمپنی صرف مہنگے چاول ہی تیار کرتی چلی آرہی ہے۔تاکہ یہ پرائس کنٹرول سے مبرا رہے۔اشیائے صرف اور پرائس کنٹرول کی اسی جدوجہد کے دوران ہی صدر شاویز نے مجھے تجارت کا وزیر بنانے کا فیصلہ کیاتھا۔اپنے وزیر بنائے جانے کے بعد سے ہی میں نے مقامی اشرافیہ اور عالمی کمپنیوں کی اجارہ داری کو توڑنے کی کوششیں شروع کردیں۔ہم نے اس سلسلے میں سب سے پہلے کیراکس میں ایک اجتماعی سوشلسٹ ریستوران قائم کیا جہاں لوگوں کو چالیس فیصد کم قیمت پر کھاناپینا فراہم کیاجاتاتھا۔اس کے ساتھ ہی ساتھ ہم نے مختلف شعبوں کی پیداوار اور ان کی تجارت کو بھی کھنگالنا شروع کردیا ،ان میں کافی کی صنعت بھی شامل تھی ۔تب ہمیں یہ معلوم ہوا کہ دوبڑی عالمی اجارہ داریاں ’’کافی میڈرڈ‘‘ اور ’’کافی ڈی امریکہ‘‘خام مال کے حصول کے ضمن میں انتہائی بد عنوانی کے ذریعے لوٹ مارکا بازار گرم کیے ہوئے ہیں۔ان کمپنیوں نے یہاں کی کافی کی مارکیٹ کے 80%پر اپنا اجارہ قائم کیاہواتھا ۔یہ فیصلہ کیاگیا کہ کافی ڈی امریکہ کے معاملات میں مداخلت کی جائے اور اس کے تاچیرا صوبے میں واقع روبیو کے علاقے میں موجود،مزدورں کی جانب سے قبضہ کرلئے جانے والے ایک پلانٹ کو نیشنلائز کیا جائے۔ سوال : آپ نے پورے ملک میں مزدوروں کے ساتھ مل کر سرگرمی کے ساتھ ان کے معاملات اور تحریک میں حصہ لیا ہے ،ان میں سے سوکرے کے صوبے میں واقع ،لاگوویٹا کا واقعہ بہت مشہور ہے ۔کچھ اس بارے بتاناپسند کریں گے؟ جواب: لاگویٹا فیکٹری ،کومانا شہر کے نزدیک واقع ہے ۔ جہاں جنوری اور فروری2009ء میں مزدوروں نے ہڑتال کر دی ہوئی تھی۔کیونکہ اس کا مالک بنیادی معاہدے اور بنیادی مزدورقوانین پربھی عملدرآمد نہیں کر رہاتھا ۔ہم نے اس معاملے میں مداخلت کا فیصلہ کیاتاکہ فیکٹری کو چلایاجاسکے ۔مگروہاں فیکٹری کی مشینری فرسودہ ہوچکی تھی اور کام کے قابل نہیں رہی تھی۔اس میں کام کرنے والے بھی عرصے سے ملازمت کر رہے تھے ۔اور مالک کا ارادہ تھا کہ فیکٹری کو بند ہی کردیاجائے۔ لیکن اگر فیکٹری بندہوتی تو اس کے نزدیکی علاقے پر شدید اثرات مرتب ہوتے ۔کیونکہ اس علاقے کے اکثریتی خاندانوں کی گزربسرکا سارا دارومدار ہی اس فیکٹری پر تھا۔ پلانٹ میں تین سو سے زائد مزدورکام کرتے تھے ۔ہمیں وہاں جا کر سب سے پہلے تو مزدوروں کو یہ باور کرانا تھا کہ ہم کسی طور نئے مالکان نہیں تھے ۔ہم نے اپنے سیانے سیاسی کامریڈزکو فیکٹری میں مزدوروں کے ساتھ شریک کردیا تاکہ وہ ان کو نہ صرف سکھا سکیں بلکہ ان سے سیکھ بھی سکیں۔ابتدائی عرصے میں سب سے اہم کام اس فاصلے کو ختم کرناتھا جو کہ کسی ادارے میں مزدوروں اور انتظامیہ کے مابین ہواکرتاہے۔ ہر سرمایہ دارانہ ادارے کے اندرمالک اس بات کو یقینی بناتاہے کہ مزدوروں کا ادارے کی انتظامیہ کے ساتھ کوئی تعلق نہ بننے پائے تاکہ مزدوروں کو کاروباری معاملات سے الگ تھلگ رکھا جاسکے۔اور کسی قسم کی گڑبڑ نہ ہونے دی جائے ۔اور یہ کوئی حیران کن بات بھی نہیں ہے ،اکاوئنٹ بکس اور بجٹ وغیرہ جیسے مالی معاملات والی دستاویزات تجارتی اسرارورموزکی حامل ہواکرتی ہیں اور ان میں حقیقی کمائی کی تفصیلات موجود ہواکرتی ہیں۔چنانچہ مالک ہر صورت میں مزدوروں کو ان معاملات سے بالکل الگ رکھنا چاہتے ہیں۔مئی2009ء میں جب ریاست کی طرف سے فیکٹری مداخلت کو دو ہی ہفتے ہوئے تھے ، فیکٹری نے اپنی صلاحیت کا 50%پیداکرنا شروع کردیا۔یعنی فیکٹری نے25سے30ٹن فی ہفتہ پیداواردیناشروع کر دی تھی۔منافع اگرچہ کم تھا لیکن فیکٹری کی آمدنی شروع ہو چلی تھی۔ہم نے عملی طورپر یہ ثابت کر دکھایا کہ فیکٹری چلائی جاسکتی ہے ،مزدوروں کو ان کی اجرتیں دی جاسکتی ہیں ۔مینٹینینس بھی ممکن ہو سکتی ہے اور سب سے بڑھ کر کہ پیداوار کی فروخت بھی ممکن ہوسکتی ہے ۔اس عرصے میں ہم نے ایک اعلیٰ سطحی باڈی بھی قائم کی اور یہ مزدوروں کی اسمبلی تھی۔چار مہینوں کے دوران ہم نے چالیس اسمبلیاں منعقدکیں جن میں ہر ایک مزدور نے شرکت کی ۔اسمبلی نے ایک ورکرز کونسل بھی منتخب کی تھی۔لیکن یہ کسی طرح بھی ٹریڈ یونین مخالف باڈی نہیں تھی۔ بلکہ اس کے برعکس یہ دونوں باڈیاں ایک دوسرے کی ممدومعاونت کرتی تھیں۔کونسل روزانہ کی بنیادوں پر فیکٹری کے امور کو چلاتی تھی جبکہ ٹریڈ یونین مزدوروں کے مطالبات کیلئے جدوجہد کرتی تھی۔حقیقت یہ ہے کہ ٹریڈ یونین قیادت میں سے آدھے سے زیادہ سرگرم مزدورنئی کونسل میں منتخب کئے گئے تھے۔ لیکن اس سرگرمی کے ساتھ سب سے اہم کام ان مزدوروں کے ساتھ ثقافتی اور سیاسی معیار میں اضافے کا شروع کیاگیا۔اس سلسلے میں ایک ورکرز تھیٹر گروپ بھی تشکیل دیاگیا۔مزدورں میں مطالعے کے رحجان کو پیداکرنے کی غرض سے ایک لائبریری بھی قائم کی گئی ۔اس کے علاوہ ہم نے حکومت کی جانب سے بھی ایک تعلیمی پروگرام وہاں شروع کیا۔یہ سب ایک انتہائی شاندار اور خوش کن تجربہ تھامگر بدقسمتی سے میرے وزارت سے باہر ہوجانے کے بعد یہ سب لپیٹ دیاگیا۔لیکن لاگویٹا کے تجربے نے ایک بات سب پر صاف عیاں کردی کہ ورکرز کنٹرول کسی طور ایک خواب وخیال یا سراب نہیں ہے ۔جیسا کہ ٹوبی ولڈارما اور اس جیسے دانشور کہتے چلے آرہے ہیں ۔ہم نے عملی طورپر یہ ثابت کردکھایاہے کہ مزدوروں کا کنٹرول ایک ٹھوس اور موثر نظریہ ہے اور یہ ظاہر وثابت کرتاہے کہ مزدور سماج کو چلانے کی صلاحیت سے مالا مال ہواکرتے ہیں۔ سوال:آپ کیا سمجھتے ہیں کہ آپ کوکیونکر وزارت سے ہٹادیاگیا؟ جواب :ہمارے ہاں یہ روایت چلی آرہی ہے کہ سبھی ناخوشگوار فیصلے تعطیلات کے اوقات میں لئے جاتے ہیں تاکہ ان پر کوئی بھی ممکنہ ردعمل سامنے نہ آسکے۔ میرے ساتھ بھی ایساہی کچھ ہوا۔ایک تو مجھے کسی بھی وجہ سے آگاہ نہیں کیاگیااور دوسرے لامحالہ طورپر صدر کو کسی کو بھی عہدے سے الگ کرنے کا اختیارہوتاہے۔تاہم میں سمجھتاہوں کہ خوراک کے شعبے سے وابستہ سرمایہ داروں نے یہ سارا کھیل رچایا۔مجھے پتہ چلاہے کہ انہوں نے حالیہ الیکشن کے دوران کسی قسم کی غذائی قلت نہ کرنے کاوعدہ کرنے کیلئے مجھے وزارت سے الگ کرنے کی شرط لگائی۔ میں ان کے راستے کا کانٹا بن چکاتھا جسے وہ بہر طور ہٹانا چاہتے تھے۔میری جگہ نئے وزیر تجارت ریکارڈو کنان نے آتے ہی ان کو غذائی اجناس میں اضافے کی رعایت دے دی۔میں کسی طور بھی ایسا نہ ہونے دیتا۔ سوال: حالیہ الیکشن نتائج کے بعد آپ کیا سمجھتے ہیں کہ بولیویرین انقلاب کا کیا مستقبل ہوسکتاہے ؟ جواب: موجودہ صورتحال میں دو قسم کے رحجانات عمل میں ہیں۔پہلا عمل انقلاب کی ریڈیکلائزیشن کا ہے ،جسے برقرار رکھنے کیلئے لازمی ہے کہ PSUVکے اندرٹھوس تبدیلیاں لائی جائیں۔جس سے میری مرادہے کہ افسر شاہی اور بدعنوانی کے خلاف ایک ناقابل مصالحت لڑائی کو ایجنڈابناکر اس پر عمل کیاجائے ۔ایک دوسری کیفیت جو کہ اس سارے منظرنامے میں موجود ہے وہ انقلاب کے اندر موجود کچھ دائیں بازو کے عناصر کی طرف سے سٹیٹس کو برقراررکھنے کی کوشش ہے۔یہ لوگ سب کچھ ویسے کا ویسے رکھنا چاہ رہے ہیں۔اگر یہ ہوگیا تو ایک ہلاکت ہمارا مقدر ہے۔انقلاب کو آہستہ آہستہ ہلاک کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ردانقلاب فوری طورپر صدرشاویز کے مدمقابل نہیں آئے گا۔وہ ابھی ایک اور ریفرنڈم نہیں کرانا چاہتے ہیں۔بلکہ وہ ابھی مزید دوسال انتظار کریں گے کہ جب صدارتی الیکشن ہوں گے۔اس عرصے میں سبھی غریب لوگوں میں ایک اتھاہ مایوسی اور بیزاری پیداکرنے کی بھرپور کوشش کریں گے۔وہ اس بیزاری اور مایوسی کو اپنا فیصلہ کن ہتھیار بناناچاہ رہے ہیں۔اور یہ بیزاری اور مایوسی ہی انقلاب کو اس کے اپنے اندر قتل کردے گی۔ اپوزیشن انتہائی عاجزی اور میٹھے انداز میں مہنگائی،جرائم کی شرح جیسے روزمرہ کے مسائل سے نمٹنے کی باتیں کررہی ہے۔دراصل وہ وینزویلا کو ایک ملک کے طورپر ترقی دینے کی خواہش ہی نہیں رکھتے ۔ان کا خود اپنی ہی پالیسیوں پر کنٹرول نہیں ہے ۔ان کی سبھی پالیسیاں اور سرگرمیاں امریکہ کی جانب سے تجویزاور مرتب کی جاتی ہیں۔ان کی ساری تگ ودوکا ہدف یہی ہے کہ وینزویلا کے تیل کے ذخائر کو ایک بارپھر خطے کی سامراجی قوتوں کے کنٹرول میں دیاجاہے۔پالیسیوں اور سازشوں کا اتنا بڑا جال صرف ایک ہی فرد شاویزکیلئے اور اس کے گرد بنا جارہاہے ۔آپ کے علم میں ہوگا جب پہلے پہلے ایک کمپیوٹر کو ایک انسان کے ساتھ شطرنج کھیلنے کیلئے رکھاگیاتھا ۔یہاں وہی ہورہاہے اور شاویز تنہا اس ساری مشینری کا مقابلہ اور سامنا کررہاہے۔ سوال: آپ نے یقینی طورپر ہمارے ساتھ بہت اہم مسائل پر گفتگوکی ہے ۔آپ ہمارے پڑھنے والوں کیلئے کیا پیغام دینا چاہیں گے؟موجودہ کیفیت میں آپ کیا سمجھتے ہیں کہ کیا کیا جانامناسب ہے؟ جواب: سب سے پہلے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم اپنی پارٹی PSUVکے اندر ہر سطح پر ایک کھلی بحث اتاریں۔ہمیںPSUVکے اندر ایک ریڈیکل رحجان تعمیر کرناہوگا۔ہمیں پارٹی میں سپلٹ کرنے اوراس میں تقسیم سے گریزکرتے ہوئے،اس کے اندر زندہ بحث اتارنی ہوگی اور اس بحث میں زندہ مسائل اور زندہ نظریات کو سامنے لاناہوگا۔صدر شاویز کو پارٹی کے اندر اس ریڈیکل رحجان کی حوصلہ افزائی کرنا ہوگی۔کیونکہ یہی رحجان ہی انقلاب کو ایک مکمل شکست سے بچ سکتاہے ۔کیونکہ یہی رحجان ہی سماج میں بڑھتی بے چینی کو قابوکرسکتااور پارٹی کو تقویت دے سکتاہے ۔افسرشاہی کے کھلواڑاور اس کی بدعنوانیوں سے بیزار ہوتے ہوئے لوگ ،اور انقلاب کی سست روی ،لوگوں کو گھر بیٹھنے اور بے اعتنائی کے رویوں سے دوچار کرسکتی ہے ۔لیکن یہ رحجان لوگوں کو نہ صرف دوبارہ باہم جوڑ سکتاہے بلکہ اس کی موجودگی ان میں امید کی شمعوں کو بھی روشن رکھ سکتاہے۔پارٹی کے اندر ایک منظم رحجان کی موجودگی،افسرشاہی کو چیلنج کر سکتی ہے ۔یہ بات کسی طور بھی درست نہیں ہے کہ وینزویلا کے انقلابی ’’ففتھ کالمسٹ‘‘ ہیں بلکہ یہ صورتحال کو کنفیوزکرنے کی ایک کوشش ہے اور بس۔حقیقی ففتھ کالمسٹ یہ افسرشاہی ہے جو کہ ہمارے بولیویرین انقلاب کے اندر تک موجودہے اور یہ ہم سب کا اولین فریضہ ہے کہ ہم سب کو اس ٹولے کواکھاڑ پھینکنے کیلئے متحدومنظم ہوناہوگا۔ہمیں انقلاب کو ایک نئے انقلابی جذبے کے ساتھ بچانا،چلانا اور ممکن کرناہوگا۔

Translation: Chingaree