ترکی: معاشی بحران اور خاتمے کی جانب بڑھتی اردگان حکومت

ترکی کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے معاشی بحران نے ترکی کے حکمران طبقے کو سیاسی بحران میں دھکیل دیا ہے۔ حکومتی پارٹی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (اے کے پی) اور انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی اس کی حمایتی نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی (ایم ایچ پی) کے اندر تقسیم اور دراڑیں نظر آنے لگی ہیں۔ یہ واقعات انقلاب کا پیش خیمہ ہیں۔

[Source]

انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

بحران کی شدت کے ساتھ رائے شماریوں میں اے کے پی کی مقبولیت کم ہو رہی ہے، مگر اپوزیشن پارٹیوں کی مقبولیت میں بھی کچھ اضافہ نہیں ہو رہا۔ یہ ترکی کے سماج میں جاری انقلابی عمل اور اس حقیقت کا اظہار ہے کہ عوام نظام کے بحران سے نکلنے کا راستہ تلاش کر رہے ہیں، مگر وہ کسی بھی سیاسی پارٹی کے اوپر اعتماد نہیں کر رہے۔

اردگان نے اپنی حکومت کے آغاز کے دنوں میں معاشی بڑھوتری کی بنیاد پر اپنی حمایت کو مضبوط کیا تھا۔ اسی کی بنیاد پر اس کی کامیابیوں کا طویل سلسلہ چلا۔ مگر وہ دن اب ماضی بعید کا حصہ بن چکے ہیں۔ اب اردگان بیتابی کے ساتھ اپنی بقا کو یقینی بنانے کے راستے ڈھونڈ رہا ہے۔ اپوزیشن کی مرکزی پارٹی، ریپبلکن پیپلز پارٹی (سی ایچ پی)، اس کے زوال سے فائدہ اٹھانے سے قاصر ہے، اور اگرچہ اس نے اردگان کی تقریباً بیس سالہ حکومت کو ختم کرنے کے لیے چھے پارٹیوں پر مشتمل اتحاد بنا لیا ہے مگر یہ اب بھی 2023ء کے صدارتی اور پارلیمانی انتخابات جیتنے کے حوالے سے غیر یقینی کا شکار ہے۔

ترک سرمایہ داری کئی سالوں سے یکے بعد دیگرے بحرانات کا شکار ہوتی آئی ہے۔ ابھی ملکی معیشت 2018ء کے معاشی انہدام سے نہیں نکلی تھی کہ اتنے میں کرونا وباء سے شدت اختیار کرنے والا عالمی معاشی بحران بھی آ پہنچا۔ اس کے بعد یوکرائن کی جنگ چھڑ گئی۔

یوکرائن کی جنگ کے باعث ترکی کی معیشت کو توانائی کے حوالے سے بڑا دھچکا لگا ہے، جو تقریباً اپنی توانائی کی ساری ضروریات کو درآمد کرتا ہے۔ نتیجتاً افراطِ زر میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ سرکاری اندازوں کے مطابق افراطِ زر مئی جون تک 60 فیصد بڑھنے کی توقع کی جا رہی تھی، مگر توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے افراطِ زر کی سطح میں اس سے بھی زیادہ اضافہ کیا ہے۔ ترکی ادارہ شماریات کے مطابق افراطِ زر کی شرح 69.97 فیصد ہے۔ مگر ایک غیر سرکاری تنظیم انفلیشن ریسرچ گروپ کے مطابق یہ 156.86 فیصد ہے۔ ترکی کے بدتر ہوتے معاشی بحران پر ہم اس سے پہلے ایک اور مضمون میں روشنی ڈال چکے ہیں۔

احتجاج

معیارِ زندگی کی گراوٹ نے ترکی بھر میں قیمتوں کے اضافے کے خلاف احتجاجوں کو اشتعال دیا ہے، جن میں عوام ان کی واپسی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ حکومت کے خلاف غصے میں اضافہ ہو رہا ہے اور سماج کی تمام پرتیں احتجاجوں میں شریک ہو رہی ہیں۔

قیمتوں کے اضافے کے خلاف اکثر احتجاج خود رو طور پر ہوئے ہیں، جن میں عوام اپنے طور پر اپنے اپنے محلوں میں سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ بعض کو یونینز اور کمیونٹی تنظیموں نے منظم کیا ہے، جن میں ”ہمارا گزارہ نہیں ہو رہا“ کا نعرہ لگایا گیا۔ احتجاجوں میں مظاہرین نے اپنے بجلی کے بل جلا کر یہ نعرے بھی لگائے ہیں کہ ”ہم قیمت ادا نہیں کریں گے“ اور ”چنگیز بل کی قیمت ادا کر سکتا ہے“، جو توانائی کی ان کمپنیوں میں سے ایک ہے جو محض ٹیکس کی مد میں اربوں ادا کرتی ہے۔

ماضی میں عوام اردگان کی جوابی قانونی کارروائیوں سے ڈرتے تھے۔ حکومت نے خوف کی ایک فضا قائم کی ہے جہاں سوشل میڈیا پر اردگان کے خلاف رائے دینے پر جیل کی سزا ہو سکتی ہے، حتیٰ کہ سکول کے بچوں کو بھی کھانے کے وقفے کے دوران صدر کے خلاف باتیں کرنے پر گرفتار کیا جا چکا ہے۔ مگر اس کے باوجود اے کے پی حکومت کے خلاف اب سڑکوں پر غصّے کا اظہار ہو رہا ہے۔

مظاہروں میں اے کے پی مخالف نعرے لگائے جا رہے ہیں، جیسا کہ ”ہم اے کے پی سے شدید تنگ ہیں اور اسے مزید برداشت نہیں کر سکتے“۔ معیارِ زندگی کے اوپر حملوں کے باعث عوام سرمایہ داری کی فطرت کو سمجھتے جا رہے ہیں۔ مارچ کرتے ہوئے عوام کے پلے کارڈز پر لکھا ہوتا ہے: ”بحران کی قیمت اسے پیدا کرنے والوں کو چکانی ہوگی“۔ مظاہرین میں سے ایک کا کہنا تھا: ”ہم مٹھی بھر کمپنیوں، جو ہمیں بحران کی قیمت چکانے پر مجبور کر رہی ہیں، کے منافعوں کی خاطر ٹھنڈ اور تاریکی میں جینا قبول کرنے کی بجائے ان بلز کو پھاڑیں گے!“

بحران نے محنت کش طبقے کے جاگنے کا عمل بھی شروع کر دیا ہے۔ ملک میں 1970ء کی دہائی سے بھی بڑی ہڑتالوں کی لہر دیکھنے کو ملی ہے، جب ترکی اپنی سب سے بڑی انقلابی تحریک کی لپیٹ میں تھا۔ جنوری سے لے کر مارچ تک دیوہیکل ہڑتالی لہر ملک بھر میں پھیل گئی، جب تمام معاشی شعبہ جات کے محنت کشوں نے ہڑتال میں حصہ لیا۔ ترکی کے اندر 2022ء کے پہلے دو مہینوں میں کم از کم 108 ہڑتالیں ہوئی ہیں، جن میں اے کے پی کے گڑھ سمجھے جانے والے علاقے بھی شامل ہیں۔

اے کے پی کے گڑھ غازی انتیپ میں چھے ہفتوں کے دوران 30 سے زائد ہڑتالیں ہوئی ہیں، جن میں 12 ہزار محنت کشوں نے شرکت کی ہے۔ ان ہڑتالوں کی اکثریت خود رو تھی، جن میں کوئی بھی ٹریڈ یونین شامل نہیں تھی۔ محنت کشوں نے اپنی لڑائی کے دوران کئی اسباق اخذ کیے ہیں: کہ وہ پیداواری عمل کے لیے کلیدی کردار کے حامل ہیں؛ کہ وہ اپنے کارخانوں اور اپنے مالکان کے منافعوں کو روکنے کی اہلیت رکھتے ہیں؛ اور ان کی تعداد اور اتحاد ان کی قوت ہے۔ محنت کش اپنی جدوجہدوں کو یکجا کر رہے ہیں، اور اپنے اوپر ہونے والے حملوں کے خلاف منظم ہوتے ہوئے محنت کشوں کے باعث ٹریڈ یونینز کی جانب رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔ افراطِ زر میں مسلسل اضافے کے پیشِ نظر محنت کش نئے اجتماعی معاہدوں کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اومت سین یونین کے کوآرڈینیٹر بشران اکسو نے ایک انٹرویو میں کہا:

”حتیٰ کہ اے کے پی اور ایم ایچ پی کو ووٹ دینے والے محنت کش بھی ادارہ شماریات کے دعوؤں کی بجائے اپوزیشن کے میڈیا پر یقین کرتے ہیں۔ (۔۔۔) اسی لیے محنت کش نئے معاہدوں اور اجرتوں کے دوبارہ تعین کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ بصورتِ دیگر، ان کے پاس زندہ رہنے کا کوئی چارہ نہیں۔“

اجتماعی معاہدوں کے مذاکرات کا نیا مرحلہ شروع ہونے کو ہے، جس سے ہڑتالوں کی ایک ایسی نئی لہر جنم لے گی جو پچھلی والی سے زیادہ شدید ہوگی۔

پچھلے موسمِ خزاں سے یونیورسٹی کے طلبہ بڑھتے ہوئے کرایوں کے خلاف اور سرکاری رہائش گاہوں تک رسائی کے لیے احتجاج کرتے رہے ہیں۔ ”ہمیں رہائش نہیں مل رہی“ کے نعرے کے گرد استنبول میں احتجاجوں کا آغاز ہوا اور وہ جلد ہی ملکی سطح پر یونیورسٹیوں تک پھیل گئے: مغربی صوبے چناق قلعہ سے لے کر جنوب مشرقی کرد صوبے دیار بکر تک۔ حکومت نے ہزاروں طلبہ کو گرفتار کرتے ہوئے جبر کے ذریعے جواب دیا ہے۔ البتہ ابھی تک تحریک کو نہیں دبایا جا سکا ہے۔

اپریل میں ملک بھر کے پنشنروں نے دارالحکومت انقرہ کی جانب مارچ کیا، جنہوں نے پنشن میں اضافہ کرنے اور قیمتوں میں اضافے کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ پنشنروں نے کئی مرتبہ پارلیمنٹ کی جانب مارچ کیا ہے اور پچھلے سارے عرصے میں کئی احتجاجوں کو منعقد کیا ہے۔ انہوں نے حکومت کو اپنے غم و غصّے کا نشانہ بنا کر یہ نعرے لگائے: ”قیمتوں میں نا قابلِ برداشت اضافے کو واپس لیا جائے! اے کے پی کا کام محض قیمتوں میں اضافہ اور جبر کرنا ہے! ہم اے کے پی کے سامنے نہیں جھکیں گے!“ اور انہوں نے محنت کشوں کے اتحاد کے حوالے سے بڑھتے ہوئے شعور کا اظہار کرتے ہوئے ”مزدور اتحاد زندہ باد!“ کا نعرہ لگایا۔

ملک بھر میں کسانوں کے بھی خود رو احتجاج سامنے آئے ہیں، جن میں کسانوں نے اپنے ٹریکٹروں کے ذریعے سڑکوں کو بلاک کیا اور قیمتوں میں اضافے کے خلاف احتجاج کیا۔ احتجاجوں کے پھیلنے کے ساتھ ملک بھر کے کسانوں نے متحد ہو کر اپنے مطالبات رکھنے کے لیے انقرہ کی جانب مارچ کیا۔ ان کسانوں کی اکثریت اے کے پی کے مضبوط گڑھ سمجھے جانے والے علاقوں سے ہے، جو عام حالات میں قدامت پسند ہوتے ہیں مگر ان کی موجودہ صورتحال ان کی شعوری تبدیلی کی باعث بن رہی ہے۔ غازی انتیپ میں ایک کسان نے ایک یوٹیوبر کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا: ”50 کلوگرام کی کھاد 40 کروڑ لیرا کی ہو گئی ہے۔ کیا مذہب سے کسی کا پیٹ بھرتا ہے؟ ہم سب مسلمان ہیں، مگر مذہب ایک چیز ہے اور سیاست دوسری۔ (۔۔۔) میری ضروریات اردگان یا قلیچ دار اوغلو نہیں بلکہ میری جیب میں پڑے پیسے پوری کرتے ہیں۔ لوگ بھوکے ہیں، وہ غربت میں رہ رہے ہیں“ اور اس نے اپنی بات کا اختتام یہ نعرہ لگا کر کیا کہ ”سوشلزم زندہ باد، انقلاب زندہ باد“۔

اردگان حکومت کی بنیاد

اردگان جس طرح سے معاشی بحران کو ٹالنے کی کوشش کر رہا ہے، اس کے باعث اس کی حمایت میں مزید کمی آئی ہے۔ موسمِ خزاں میں شرحِ سود کی مسلسل کمی نے کرنسی کو بے تحاشا گراوٹ کا شکار کیا۔ پچھلے سال ترک لیرا کی قدر میں 45 فیصد کمی آئی۔ اردگان نے بحران کو ”جنگِ آزادی“ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے اور اپوزیشن، جو افراطِ زر سے نمٹنے کے لیے شرحِ سود میں اضافے کا مطالبہ کر رہی ہے، پر ”حکومت کے اوپر حملے“ اور ”خوف و ہراس پھیلانے“ کا الزام لگایا ہے۔

درحقیقت اردگان سماجی دھماکے کو روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔ قرضوں میں جکڑی ہوئی معیشت کے اندر شرحِ سود میں اضافہ دیوالیہ پن کے سلسلے کو جنم دے گا، جو اس کی حکومت کا خاتمہ ثابت ہوگا۔ پہلے سے ہی پچھلے سال سے 2 کروڑ 50 لاکھ دیوالیہ ہونے کی خبریں موصول ہوئی ہیں، جن میں سے 23 لاکھ 2022ء میں ہوئی ہیں۔ مگر معیشت کو چلانے کے لیے شرح سود کو کم رکھنے کے نتیجے میں مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے اور اجرتوں میں بھی کمی ہوتی ہے۔ اس سے ایک اور طرح کا بحران جنم لے رہا ہے اور وہ بھی حکومت کے لیے خطرہ ہے۔

اس دوران، اردگان حکومت نے لیرا کو کسی طرح مستحکم کرنے کے لیے مرکزی بینک کے بیرونی زرِ مبادلہ کے ذخائر کو خرچ کیا ہے، ڈیپوزٹ پروٹیکشن سکیمیں متعارف کرائی ہیں اور دسمبر اور جنوری میں لوگوں کے پاس پڑے ہوئے سونے کو لیرا میں تبدیل کرنے کی مہم بھی چلائی ہے۔ اردگان سستی ترک برآمدات پر انحصار کرکے یہ امید کر رہا ہے کہ اس سے اتنی مقدار میں بیرونی آمدنی ہوگی (بشمول سیاحت) کہ ملک کا حالیہ خسارہ پورا ہو جائے گا، جس سے کرنسی مستحکم ہوگی اور افراطِ زر میں کمی ہوگی۔ اگرچہ اس کا یہ منصوبہ برقرار نہیں رکھا جا سکتا تھا، یوکرائن کے اوپر روسی حملے نے اس کو فوری طور پر روک دیا ہے کیونکہ ترکی بڑے پیمانے پر روسی توانائی، تجارت اور سیاحوں پر انحصار کرنے کے ساتھ ساتھ یوکرائن کے اناج اور سیاحوں پر بھی منحصر ہے۔ محض ترکی کی گیس درآمدات اس سال 40 ارب ڈالر تک پہنچنے کا امکان ہے، جبکہ مرکزی بینک کے کل ذخائر 15.96 ارب ڈالر کے ہیں۔ اس کے علاوہ جنگ کے نتیجے میں تیل اور اناج کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

اردگان اب بیتابی سے پیسوں اور سرمایہ کاروں کی تلاش میں ہے۔ حکومت برآمدات کرنے والوں کو اپنی 40 فیصد بیرونی آمدنی مرکزی بینک کو بیچنے پر مجبور کر رہی ہے، جو جنوری میں 25 فیصد تھی جب اس اقدام کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس اقدام کو سیاحت کے شعبے پر بھی لاگو کیا گیا ہے۔

حکومت کے بیرونی زرِ مبادلہ کے ذخائر خرچ ہو چکے ہیں اور اس کے اوپر بیرونی قرضوں کا بہت بڑا بوجھ ہے۔ مزید برآں، شرحِ سود کے حوالے سے اردگان کی ’غیر دقیانوسی‘ پالیسی کے باعث سرمایہ ملک سے باہر منتقل ہوا ہے، جو اس وجہ سے اور بھی زیادہ شدت کے ساتھ ہو رہا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک عالمی معاشی بحران کے باعث اپنی بیرونی سرمایہ کاری کو روک رہے ہیں۔ اردگان چاہے جو بھی کرے، وہ سرمایہ دارانہ قوانین کا انحراف نہیں کر سکتا۔ اگر وہ چلا بھی جائے، اس کے بعد جو بھی آئے گا اسی بحران کا شکار ہوگا۔

ملک کے بحرانات میں پھنسنے کے باوجود، جون 2023ء کے انتخابات کے پیشِ نظر عوام میں کسی سیاسی پارٹی کی مقبولیت نہیں ہوئی ہے۔

حکومتی پارٹی اے کے پی اور انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی اس کی اتحادی پارٹی ایم ایچ پی کی مقبولیت رائے شماریوں میں بالترتیب 25 اور 5 فیصد ہے۔ اس سے ان کا متوقع مجموعی ووٹ تقریباً 31 فیصد ہوگا، جو صدر کے انتخاب یا حکومت بنانے کے لیے درکار 51 فیصد ووٹ سے بہت کم ہے۔

حکمران طبقے میں دراڑیں

پارلیمنٹ میں اکثریت کھونے کے بعد اردگان نے پہلے 2015ء میں قوم پرست ووٹ حاصل کرنے کے لیے ایم ایچ پی کا رخ کیا۔ مگر جلد ہی وہ اقتدار میں رہنے کے لیے ان کی حمایت پر منحصر ہو گیا۔

جب اردگان نے 2002ء میں بھاری اکثریت کے ساتھ اقتدار حاصل کا تھا تو وہ اپنی مقبولیت برقرار رکھنے اور اپنی حمایت بڑھانے کا اہل اس لیے تھا کیونکہ وہ عالمی سطح پر معاشی ترقی کے باعث ترکی کی معاشی بڑھوتری کا دور تھا۔ ترکی 2008ء کے معاشی بحران سے نمٹنے کا اہل رہا، مگر اس کی معیشت کا سٹاک مارکیٹ پر انحصار بڑھتا گیا اور اس کا نتیجہ 2013ء میں نکلا۔

معاشی بڑھوتری سست رفتاری کا شکار ہوئی، افراطِ زر اور بیروزگاری میں اضافہ ہونے لگا اور کرنسی کا زوال شروع ہوا۔ ان بحرانات کے دوران حکومت کی جانب سے عوام کے معیارِ زندگی پر حملوں نے اردگان حکومت کے طبقاتی کردار کو واضح کیا، اور اس کی حمایت میں بتدریج کمی ہونے لگی۔ کرونا وباء سے بحران میں شدت آنے کے باعث اس عمل میں تیزی آئی۔

ترکی میں نومبر 2020ء اور نومبر 2021ء کے بیچ ایک جانب لاکھوں افراد کو بحران کی قیمت چکانے کے لیے غربت میں دھکیلا گیا جبکہ دوسری جانب 1 لاکھ 81 ہزار نئے کروڑ پتیوں کا جنم ہوا۔ وسیع پیمانے پر پھیلتی ہوئی غربت کے باوجود اردگان اور حکمران طبقے کی عیاش زندگی طبقاتی غم و غصّے کو جنم دے رہی ہے، اور سیاسی پولرائیزیشن کا باعث بن رہی ہے۔

کئی سالوں پر محیط عرصے کے دوران اردگان کی حمایت میں کمی آئی ہے اور اس کی حکومت کمزور ہوئی ہے، اس نے سیاسی استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے ریاستی مشینری پر اپنے اختیارات بڑھا دیے ہیں اور اپنی پارٹی کے اندر ہر طرح کے مخالفین ہٹا دیے ہیں۔ اس نے ریاستی و سماجی اداروں سے اپنے مخالفین ہٹا کر ان کی جگہ اے کے پی کے وفاداروں کو تعینات کیا ہے۔ اس نے اپنی کمزور ہوتی حکومت کو مستحکم کرنے کے لیے جمہوری حقوق اور آزادیوں کے اوپر بھی حملے کیے ہیں۔ 2017ء کے آئینی ریفرنڈم سے اردگان نے اپنے اختیارات میں مزید اضافہ کیا ہے۔ یہ سب کمزوری کی علامات ہیں۔ ان اقدامات نے اس کی حکومت مضبوط کرنا تو دور، اس کو مزید کمزور کر کے اس کے جواز کو ختم کر دیا ہے۔

اردگان حکومت کو درپیش عدم استحکام کا ظہور اس کی پارٹی میں بھی ہونے لگا ہے۔ اے کے پی کے دو بانی اراکین، احمد داؤد اوغلو اور علی باباجان، پارٹی سے اختلافات کی بنیاد پر الگ ہو گئے اور اپنی اپنی پارٹیاں بنا لیں؛ فیوچر پارٹی (جی پی) اور ڈیموکریسی اینڈ پروگریس پارٹی (دیوا)۔

گہرا ہوتا ہوا معاشی بحران حکمران طبقے کے مختلف دھڑوں پر دباؤ ڈال رہا ہے، اور یہ تناؤ سیاسی دراڑوں کا باعث بن رہا ہے۔ یینی چاغ اخبار کے مطابق، اے کے پی کے موجودہ 40 ممبرانِ پارلیمنٹ کے ساتھ 20 سابقہ ممبران کی جی پی کے ساتھ بات چیت جاری ہے۔

جی پی کے ڈپٹی منسٹر سیلچک اوزداغ کا کہنا ہے کہ ان وزراء کے مطابق ”اے کے پی بد انتظامی کا شکار ہے“۔ اطلاعات کے مطابق اے کے پی کا خاتمہ ہونے جا رہا ہے کیونکہ ممبرانِ پارلیمنٹ اپنے حلقوں میں دیوہیکل دباؤ کا شکار ہیں۔ اس سال کے شروع میں اے کے پی کے دو ممبرانِ پارلیمنٹ نے پارٹی چھوڑ کر باباجان کی دیوا پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔

بحران کے نتیجے میں حکومت کی اتحادی ایم ایچ پی کے اندر بھی دراڑیں پڑ رہی ہیں۔ ایم ایچ پی کا ممبر پارلیمنٹ باکی ایرسوئے اپریل کے مہینے میں سرخیوں کی زینت رہا جب اس نے افراطِ زر کی سرکاری شرح کو غلط قرار دیا اور قیمتوں میں اضافے کے خلاف باتیں کیں۔ ایرسوئے کو پارٹی سے معطل کیا گیا مگر اس دوران ہی اس نے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا۔ ایرسوئے کے معطل ہونے کے اگلے دن ایم ایچ پی کے ایک اور ممبر پارلیمنٹ سیدت بیلینچ نے یہ کہتے ہوئے ایرسوئے کے ساتھ حمایت کا اظہار کیا کہ اس کو بھی پارٹی قیادت پر تنقید کرنے کے حوالے سے ”اسی طرح کی دھمکیاں ملی ہیں“، اور پارٹی سے مستعفی ہو گیا۔ اب ایک تیسرا ممبر پارلیمنٹ بھی ایرسوئے کے بیان کے ساتھ حمایت کا اظہار کر رہا ہے۔

ایم ایچ پی کے ایک سابقہ ممبر پارلیمنٹ کے مطابق گویا پارٹی کو کسی کی بددعا لگ گئی ہے جو اس کے اندر دراڑیں پڑ رہی ہیں: ”اردگان کے لیے باحچیلی (ایم ایچ پی کا قائد) کی غیر مشروط حمایت ایم ایچ پی کے اندر بہت بڑے عدم استحکام کو جنم دے رہی ہے۔“

حکمران طبقے کے بیچ مزید دراڑیں ترک انڈسٹری اینڈ بزنس ایسوسی ایشن (ٹی یو ایس آئی اے ڈی) کے اندر بھی ظاہر ہوئی ہیں، جو روایتی طور پر کمال اسٹ بورژوازی اور سی ایچ پی اپوزیشن کا اتحادی تھا۔ ٹی یو ایس آئی اے ڈی اپنی ان تنبیہات سے پیچھے ہٹ گئی ہے جو اس نے اکتوبر اور دسمبر میں جاری کی تھیں اور ”ریگولیٹری اور نگران باڈیز کی خودمختاری“ کا مطالبہ کیا تھا اور اے کے پی حکومت کو ”معاشی سائنس کے قوانین“ ماننے کا کہا تھا جب اردگان کی مقرر کردہ شرحِ سود نے لیرا کو مسلسل گراوٹ کا شکار کیا تھا۔ ان عوامی احتجاجوں کے پیشِ نظر جو بحران کے باعث ملک بھر میں پھیل گئے ہیں، اس بزنس فیڈریشن نے ایک ’پروگرام‘ پیش کیا ہے۔

29 مارچ کو ایسوسی ایشن کی جنرل اسمبلی میں تونجائی اوزیلہان، ایسوسی ایشن کا سابقہ صدر اور بورڈ ممبر، نے پہلی تقریر کی جس میں اس نے اردگان کے ان دعوؤں کا براہِ راست جواب دیا کہ ”معیشت میں بہتری آئے گی“، اس کا کہنا تھا:

”ہمیں یہ سوچ کر پرسکون نہیں رہنا چاہیے کہ آنے والے عرصے میں بحران نہیں آئے گا۔ بحران، غیر یقینی کیفیت اور استحکام ہمارا نیا معمول بن چکا ہے۔“

اوزیلہان کا مزید کہنا تھا:

”ہماری تنقید ذاتی نہیں بلکہ سیاسی نوعیت کی ہے۔“

بہ الفاظِ دیگر، انہوں نے اردگان کو پیغام دیا کہ ”یہ محض کاروبار کا سوال ہے، اور، بد قسمتی سے، تم ہمارے نظام کے لیے خطرہ بن چکے ہو۔“

ملک بھر میں قیمتوں کے اضافے کے خلاف جاری احتجاج، اور سب سے بڑھ کر پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئی ہڑتالی لہر، بورژوازی کے لیے بہت بڑا خطرہ بنتا جا رہا ہے۔ وہ یہ نتیجہ اخذ کرنے لگے ہیں کہ انہیں اردگان سے جان چھڑانے کی ضرورت ہے، ورنہ انہیں عوام کی جانب سے انقلاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بحران کی شدت کے ساتھ نچلی سطح کا دباؤ اوپری دراڑوں کو مزید پھیلائے گا۔ حکمران طبقے کے بیچ تناؤ کا سطح کے اوپر اظہار ہوتا جائے گا جبکہ بورژوازی محنت کش طبقے سے نمٹنے اور اپنا نظام بچانے کی فکر میں لگے ہوں گے۔

نام نہاد اپوزیشن

اے کی پی کی حمایت میں کمی اور اس کے کمزور ہونے کے باوجود اپوزیشن کی حمایت میں اضافہ نہیں ہو رہا۔

اپوزیشن کی مرکزی پارٹی کمال اسٹ دھڑے کی سی ایچ پی نے بحران کے پیشِ نظر ایک مرتبہ پھر اپنا دیوالیہ پن اور نا اہلی ثابت کر دی ہے۔ اس کی قیادت نے اے کے پی کے سامنے حقیقی معنوں میں اپوزیشن پیش کرنے کی کوشش تک نہیں کی ہے، اور معاشی بحران کے حل کو ”پارلیمانی نظام کی جانب واپسی“ اور اردگان کے ”ون مین شو“ کے خاتمے تک محدود کر دیا ہے۔ سی ایچ پی وقت گزرنے کے ساتھ زیادہ سے زیادہ دائیں جانب جھک رہی ہے۔ پارٹی کی جانب سے دائیں بازو کے قوم پرست اور مذہبی امیدوار کھڑے ہو رہے ہیں، اور حتیٰ کہ اردگان کے حامیوں کو اپنی جانب مائل کرنے کے لیے اپنے ’سیکولر‘ کمال اسٹ ماضی کو چھوڑ کر اسلامی بیان بازی کو بھی اپنایا ہے۔ اس کے اتحادیوں میں گڈ پارٹی (آئی وائی آئی)، جو انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی ایم ایچ پی سے الگ ہوئی ہے؛ اسلامسٹ پارٹی فیلیسیٹی (ایس پی)؛ اور قدامت پسند ڈیموکریٹک پارٹی (ڈی پی) شامل ہیں۔

یہاں تک کہ اے کے پی کی تقسیم سے جنم لینے والی دو پارٹیوں دیوا اور جی پی کی حمایت کے باوجود بھی یہ اتحاد جیتنے کے لیے درکار ووٹ حاصل نہیں کر سکتا۔ رائے شماریوں کے مطابق 6 پارٹیوں کا مجموعی متوقع ووٹ تقریباً 40 فیصد ہے، اگرچہ 2023ء تک بہت کچھ تبدیل ہو سکتا ہے۔

نیشنل الائنس (سی ایچ پی کی قیادت میں موجود اتحاد) نے 48 صفحات پر مشتمل مشترکہ اعلامیہ جاری کیا، مگر اس میں کہیں بھی عوام کو کچلنے والے معاشی بحران کا حل پیش نہیں کیا گیا تھا۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ”پہلے تمام پارٹیاں اپنا معاشی پروگرام پیش کریں گی“ اور اس کے بعد ہر پارٹی میں سے ”ماہرین“ مل کر ”مشترکہ معاشی پروگرام اپنائیں گے“۔ بھوک، غربت اور بیروزگاری کے شکار کروڑوں افراد کے سامنے یہ الفاظ کتنے کھوکھلے ہیں! ان کا جاری کردہ اعلامیہ اس بات کا اظہار ہے کہ وہ عوام کی اذیتوں سے کس حد تک کٹے ہوئے ہیں۔

موسمِ خزاں میں کرنسی کے بحران کے دوران، پارٹی عوام کو متحرک کرنے پر مجبور ہوئی تھی اور ریلیوں کے سلسلے کا اعلان کیا تھا۔ سی ایچ پی کی توقعات کے برعکس ان کی پہلی ریلی میں 20 ہزار سے زائد لوگوں نے شرکت کی۔ مگر ہزاروں لوگوں کو متحرک کرنے کا خیال سی ایچ پی کے نزدیک اتنا خوفناک تھا کہ انہوں نے مزید ریلیاں منعقد کرنے کا ارادہ ترک کر دیا۔ قلیچ دار اوغلو نے کہا ہے ”وہ پیشہ ورانہ تنظیموں، مشہور تجزیہ کاروں، غیر سرکاری تنظیموں اور نوجوانوں کے ساتھ ملاقات کرنے پر زیادہ توجہ دیں گے“۔

سی ایچ پی عوام کے غم و غصّے کو قابو کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ قلیچ دار اوغلو (سی ایچ پی کا قائد) عوام کو کہہ رہا کہ ”سڑکوں پر احتجاج نہ کریں“ بلکہ اس کی بجائے ”پولنگ سٹیشن جا کر حکومتی پارٹی کو تبدیل کریں“۔ سی ایچ پی اگرچہ اردگان کی پالیسیوں سے متفق نہیں، مگر وہ ایک ایسی تحریک کو اشتعال دینے سے زیادہ خوفزدہ ہیں جو ان کے قابو سے باہر ہو کر ان کے نظام کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔ ترکی کا معاشی بحران صدارتی نظام یا ”ون مین شو“ کا نہیں بلکہ ترکی کے سرمایہ دارانہ بحران کا نتیجہ ہے۔

سی ایچ پی اور دیگر اپوزیشن پارٹیاں کمزور اے کے پی کو اس لیے شکست نہیں دے سکتیں کیونکہ وہ عوام کا اعتماد کھو چکی ہیں۔ اے کے پی کے کئی حامی اگرچہ اردگان کے خلاف ہو چکے ہیں، مگر ان کے سامنے کوئی متبادل موجود نہیں۔ آق سرائے سے ریلی میں شرکت کے لیے آئے ہوئے ایک کسان نے روزنامہ ایورنسل کو کہا: ”مسئلہ اے کے پی، سی ایچ پی یا گڈ پارٹی کا نہیں رہا۔ آج سے یہ ہمیں کھانا فراہم کرنے والی پارٹی کا سوال ہے۔ میں اسی کو ووٹ دوں گا جو مجھے بھوک سے بچائے گی۔ میں اس کے لیے ایچ ڈی پی کو بھی ووٹ کرنے کے لیے تیار ہوں“۔

پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (ایچ ڈی پی)

اس سیاسی ماحول میں کرد آبادی کی اکثریتی حمایت پر مبنی بائیں بازو کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (ایچ ڈی پی) میں بطورِ حقیقی اپوزیشن ابھرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ اس پارٹی نے دیگر بائیں بازو اور انتہائی بائیں بازو کی پارٹیوں کے ساتھ مل کر ایک تیسرا اتحاد قائم کیا ہے۔ اگر حقیقی معنوں میں بائیں بازو کی پارٹیوں کا اتحاد قائم کرتے ہوئے حقیقی سوشلسٹ پروگرام اپنایا جائے تو عوام کو متحرک کیا جا سکتا ہے۔

ایچ ڈی پی نے اہم جمہوری مطالبات سامنے رکھے ہیں: قومی اور مذہبی آزادی؛ خواتین پر ہونے والے صنفی جبر کے خلاف جدوجہد؛ عدل و انصاف، وغیرہ۔ اس نے معاشی مسائل کے حوالے سے پارلیمنٹ میں متعدد بل بھی پیش کیے ہیں: ہر تین ماہ بعد کم از کم اجرت میں اضافہ؛ ہر گھرانے کو 250 کلو واٹ بجلی کی مفت فراہمی؛ طلبہ کے قرضوں کی معافی، طلبہ کے وظیفوں میں 2 ہزار 500 لیرا تک کی بڑھوتری؛ حکومت کی جانب سے کسانوں کو ڈیزل اور کھاد کے آدھے اخراجات کی فراہمی؛ اور کم از کم پنشن کا 5 ہزار لیرا تک تعین (جو کم از کم اجرت سے تھوڑی زیادہ اور ”بھوک کی لکیر“ سے تھوڑی کم رقم ہے)۔

حتیٰ کہ پارٹی نے توانائی کی کمپنیوں کو قومیانے اور ٹیکسوں کی جائز ادائیگی کو یقینی بنانے کے لیے سیاستدانوں کے اثاثوں کی جانچ پڑتال کرنے والے قانون کے حوالے سے بھی بل پیش کیے ہیں۔

مگر محنت کش طبقے کے لیے ان فائدہ مند اصلاحات کی تجاویز (جو اگرچہ معتدل ہیں) پیش کرنے کے ساتھ ایچ ڈی پی نے سی ایچ پی کے اتحاد سے برطرف کیے جانے پر بھی چیخ و پکار بلند کی ہے! ایچ ڈی پی نے مسلسل یقین دہانی کرائی ہے کہ اگر نیشنل الائنس کے ساتھ ”اصولوں پر“ اتفاق کیا گیا تو وہ ان کے صدارتی امیدوار کی حمایت کے لیے تیار ہوں گے۔

اس قسم کا اتحاد طبقاتی دشمن کے ساتھ اتحاد ہوگا، اور ایچ ڈی پی کے ممبران نے ان باتوں کی مخالفت کی ہے، جن میں سے بعض کو سی ایچ پی کے ساتھ کرد سوال پر اتفاق کرنے کے امکانات کے خلاف آواز اٹھانے کے باعث مبینہ طور پر خاموش کرایا گیا ہے۔

اگر یہ پارٹی اسی طرح بورژوازی کے لبرل دھڑے کے ساتھ مفاہمت کے راستے پر چلتی رہی تو قیادت انتہائی لڑاکا اور ترقی پسند پرتوں سے کٹ کر رہ جائے گی۔

افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ ایچ ڈی پی کرد سوال پر حکمران طبقے کے کسی ایک یا دوسرے دھڑے کے ساتھ معاہدہ کرنے کی تگ و دو میں ہے۔ سی ایچ پی محض سیاسی مفادات کی خاطر ایچ ڈی پی کی جانب سے ان کے سماجی و معاشی سوالات پر اتفاق کے بدلے کرد سوال پر عارضی مفاہمت کر سکتی ہے، اور اگر اس سوال پر اتفاق ہو بھی گیا تو جب انہیں ایچ ڈی پی کی حمایت کی ضرورت نہیں رہے گی تو وہ کرد سوال پر ان کے ساتھ غداری کریں گے۔ کردوں کو پہلے ہی اس حوالے سے تلخ تجربہ ہو چکا ہے، جب اردگان نے کرد سوال کو اپنے لیے استعمال کیا تھا اور بعد میں مکمل یو ٹرن لے لیا۔

ایچ ڈی پی ملک بھر کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہڑتالی لہر کی قیادت نہیں کر سکی ہے، جو اس بات کا اظہار ہے کہ اس کی قیادت کی ذہنیت پارلیمانی معاہدوں تک محدود ہے۔ جب ہزاروں محنت کش کارخانوں سے کام چھوڑ کر نکل رہے تھے، ایچ ڈی پی نے خود کو پارلیمنٹ کے اندر تین ماہ بعد کم از کم اجرت بڑھانے کے بل تک محدود کر دیا تھا۔ پارلیمانی طریقوں میں کھو جانے کی بجائے ایچ ڈی پی کو طبقاتی بنیادوں پر مبنی پالیسیاں پیش کر کے پوری قوت کے ساتھ محنت کشوں کو سڑکوں کے اوپر متحرک کرنا چاہیے۔

مارکس وادی پارلیمنٹ میں اپنے نظریات کے پرچار کے خلاف نہیں ہیں۔ یہ عوام کو متحرک کرنے کا فائدہ مند ذریعہ ہو سکتا ہے۔ مگر جب عوام پہلے ہی متحرک ہو گئے ہوں، محض پارلیمانی طریقوں پر توجہ مرکوز کرنا عوام کو الجھن میں ڈال کر انہیں غیر متحرک کر سکتا ہے۔ پارلیمانی جمہوریت کے پیچھے مالکان اور بینکاروں کی مرضی ہوتی ہے، اور کوئی بھی پارلیمانی طریقہ کار ان کے خلاف نہیں جا سکتا۔ ایچ ڈی پی کے تجویز کردہ جمہوری اور معاشی مطالبات منوانے کا ایک ہی راستہ ہے، وہ یہ کہ عوام کو متحرک کر کے سرمایہ داری کا تختہ الٹا جائے؛ یعنی انقلاب کا راستہ۔

اگر ایچ ڈی پی سماج کی انتہائی لڑاکا اور ترقی پسند پرتوں کو کسی حد تک اپنی جانب مائل کرنے میں کامیاب ہو بھی گئی تو اس کی قیادت کی محدودیت ختم نہیں ہو جائے گی۔ اگر ایچ ڈی پی طبقاتی بنیادوں پر ایک پروگرام اپناتے ہوئے محنت کشوں کے روزمرہ مطالبات کی لڑائی کو سوشلزم کے ساتھ جوڑ دے تو وہ آسانی سے قومی بنیادوں پر قائم تقسیم کو پار کرتے ہوئے ترک اور کرد محنت کش طبقے کو متحد کر سکتی ہے، اور اس عمل میں باقی تمام پارٹیوں کا صفایا کر سکتی ہے۔ ایچ ڈی پی کے جمہوری مطالبات میں سے کوئی بھی حقیقی معنوں میں اس نظام کے تحت پورا نہیں ہو سکتا جس میں معیشت پر اقلیت کا قبضہ ہو۔

متحدہ محنت کش طبقے کا خطرہ

اردگان کی حکومت جیسے جیسے کمزور ہوتی جا رہی ہے، وہ بیتابی سے اقتدار کے ساتھ چمٹے رہنے کے راستے تلاش کر رہا ہے۔

اسی سلسلے میں حکومت نے ایچ ڈی پی کو کالعدم قرار دینے کا کیس پھر شروع کیا ہے۔ یہ کرد مخالف جذبات کو ابھارے گا اور ایچ ڈی پی کے 60 لاکھ ووٹروں کو تقسیم کرنے کا باعث بنے گا۔ وہ پارٹی جو ترک اور کرد محنت کشوں کو متحد کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، ترک سرمایہ داری کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔

اسی طرح حکومت خود کو برقرار رکھنے کے لیے انتخاباتی ہیرا پھیری سے بھی کام لے رہی ہے۔ چونکہ امکانات اے کے پی اور ایم ایچ پی کے ہار جانے کے ہیں لہٰذا انہوں نے اصلاحات کرتے ہوئے پارلیمنٹ میں داخل ہونے کے لیے درکار ووٹوں کو 10 سے کم کر کے 7 فیصد کر دیا ہے۔ یہ اقدام ان کی بقا یقینی بنانے کے ساتھ اپوزیشن کے اتحاد کو کمزور کرکے اس میں پھوٹ ڈالنے کا باعث بھی بنے گا، خصوصاً اے کے پی سے الگ ہونے والی دو پارٹیاں جو انہی کے حامیوں کے ووٹ لے رہی ہے۔

مردِ آہن کے طور پر مشہور اردگان کی شخصیت کے پیچھے درحقیقت ایک پریشان آدمی اور کمزور حکومت ہے، جس کے پاس وقت اور راستے دونوں ختم ہو رہے ہیں۔ اردگان اور اے کے پی حکومت کا تختہ آسانی سے الٹا جا سکتا ہے، بشرط یہ کہ متبادل ہو۔

ترکی کا بحران قابو سے باہر ہوتا جا رہا ہے، آبادی کی اکثریت کو اس لیے غربت میں دھکیلا گیا ہے تاکہ امیروں کی اقلیت اپنے منافعوں کی حفاظت اور اپنی دولت میں اضافہ کر سکے۔ عوام کو درپیش مسائل کا سرمایہ داری کے تحت کوئی حل نہیں۔ اس نظام میں رہتے ہوئے ان کی اذیتوں میں محض اضافہ ہی ہوگا۔ عوام 2023ء کا انتظار نہیں کر سکتے۔ ترک محنت کش طبقے نے پہلے سے ہی متحرک ہونا شروع کیا ہے، اور حکمران طبقے کے حملوں کا جواب دینے کے لیے سماج کی زیادہ سے زیادہ پرتیں سڑکوں کا رخ کر رہی ہیں۔ طبقاتی جدوجہد کے شدید ہونے کے ساتھ مزید محنت کش عمل کے میدان میں اتریں گے۔ سیاسی متبادل کی عدم موجودگی میں محنت کش ممکنہ طور پر ٹریڈ یونین کے محاذ کی جانب بڑھیں گے اور ٹریڈ یونینز کو لڑاکا تنظیموں میں بدلنے کی کوشش کریں گے۔ انفرادی لڑائیوں سے نتائج اخذ کرتے ہوئے محنت کش ناگزیر طور پر انقلابی نظریات کی جانب مائل ہوں گے۔

اس ابھرتی ہوئی ناگزیریت کو شعوری اظہار دینے کی ضرورت ہے۔ یہی انقلابی پارٹی کا فریضہ ہوتا ہے، جس کا قیام آج ترکی کے اندر سب سے اہم سوال ہے۔ ہمیں سب سے زیادہ طبقاتی شعور یافتہ عناصر پر مشتمل پارٹی تعمیر کرنی ہوگی، جو یہ وضاحت کرنے کی اہل ہو کہ محنت کشوں کو درپیش مسائل کا واحد حل توانائی کی کمپنیوں، بڑی اجارہ داریوں اور بینکوں کو اقلیتی امیروں کے ہاتھوں سے چھین کر محنت کشوں کے اختیارات میں دینا ہے۔ مختصر یہ کہ محض سرمایہ داری کا تختہ الٹ کر ہی ان مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے جو آج ترکی کے اندر عوام کو درپیش ہیں۔

ترکی میں جلد یا بدیر انقلابی دھماکہ ہو کر ہی رہے گا۔ سری لنکا کی حالیہ صورتحال ترکی کے مستقبل کی جھلک ہے، جہاں ناقابلِ برداشت حالات کے خلاف عوام سڑکوں پر امڈ آئے ہیں۔ ترکی کے اندر بھی یہی حالات پنپ رہے ہیں۔ مگر ایسے حالات میں اگر واضح پروگرام رکھنے والی انقلابی تنظیم موجود نہ ہو تو عوام کی توانائی پسٹن باکس کے بغیر بھاپ کی طرح ہوا میں تحلیل ہو سکتی ہے۔

ترک محنت کش طبقہ، جو مشرقِ وسطیٰ کا سب سے بڑا اور طاقتور محنت کش طبقہ ہے، عملی میدان میں اتر چکا ہے اور دیوہیکل مزاحمت کی تیاری کر رہا ہے، مگر اسے ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو فتح کی سمت اس کی رہنمائی کر سکے۔ محنت کش انقلابی پروگرام کے ذریعے اپنے ساتھ درمیانے طبقے، طلبہ، کسانوں اور غریبوں کو بھی ملا سکتے ہیں اور سرمایہ داروں اور ان کے نظام کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک سکتے ہیں۔ اس وقت یہی ہمارا سب سے اہم فریضہ ہے۔