یوکرائن جنگ: کیا تیسری عالمی جنگ کا آغاز ہو رہا ہے؟

یوکرائن میں موجودہ صورتحال کے حوالے سے ہمیں ایلن ووڈز (’مارکسزم کے دفاع میں‘ ویب سائٹ کے مدیر) آگاہ کر رہے ہیں۔ روس کی جارحیت کے آغاز سے مغربی میڈیا مسلسل غلیظ پروپیگنڈہ کر رہا ہے جس سے خوف و ہراس کی بھیانک فضا قائم ہو رہی ہے اور اب اخبارات تیسری عالمی جنگ کے امکانات پر چیخ و پکار کر رہے ہیں۔ اس دوران وہ سامراجی قائدین ”یوکرائن کی قومی خودمختاری کی پامالی“ پر تعفن زدہ منافقت کا اظہار کرتے ہوئے پیوٹن کی ملامت میں مصروف ہیں۔ یہ وہی گھناؤنے قاتل ہیں جو ماضی میں اپنے مفادات کیلئے جنگ کو سفاک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے آئے ہیں۔ مارکس وادیوں کو ہر ملک میں اپنے حکمران طبقے کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے منافقت زدہ سفاک ”حب الوطنی“ اور ”قومی اتحاد“ کی شدید مذمت کرتے ہوئے انہیں رد کرنا چاہیئے۔

[Source]

انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

اکثر کہا جاتا ہے کہ جنگ میں سب سے پہلے سچائی قتل ہوتی ہے۔ پروپیگنڈہ، جھوٹ اور آدھے سچ کی اس زہریلی فضا میں زمین پر عسکری صورتحال کا درست اندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔

سامراجی، یوکرائن پر فوج کشی کی شدید مذمت کر رہے ہیں۔ دیو ہیکل پروپیگنڈہ مشین پانچویں گیئر پر چالو ہے جس کا مقصد روس کو موردِ الزام ٹھہرانا اور یہ ثابت کرنا ہے کہ یوکرائنی افواج کی جرات مندانہ مزاہمت نے پیوٹن کے عسکری حملے کو ناکام بنا دیا ہے۔

روسی پیش قدمی کو روکنے اور یوکرائنی افواج کے تیزوتند حملوں کے نتیجے میں دشمن کو دفاعی حکمت عملی پر مجبور کرنے کے اعلانات کو انتہائی احتیاط سے پرکھنے کی ضرورت ہے۔ ان کا مقصد جو بھی ہو بہرحال صورتحال کی درست عکاسی کرنا ہر گز نہیں ہے۔

لیکن اس سارے ہیجانی شور شرابے کا مقصد عام افراد کو منطقی سوچ پر مجبور کرنا نہیں ہے۔ اس کے برعکس اس کا مقصد انہیں تمام منطقی بحث مباحثے سے بے بہرہ کر کے سوچ وبچار صلب کر لینا ہے۔ یہ بے مثال پروپیگنڈہ خوف و ہراس کی فضا قائم کرنے کے لئے کیا جا رہا ہے اور کم از کم ابتدائی مراحل میں اس میں کچھ کامیابی بھی ہو رہی ہے۔

پروپیگنڈے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ مغربی عوام کو اتحاد کی ضرورت پر قائل کیا جائے اور قومی اتحاد کے نام پر ”روسی جارحیت کے خلاف متحد“ ہوا جائے۔ لیکن کس کے ساتھ اتحاد کیا جائے؟ ظاہر ہے موجودہ قیادت اور حکومتوں کے ساتھ، امریکہ اور NATO کے ساتھ، یعنی اپنے حکمران طبقے اور سب سے زیادہ جارحانہ اور رجعتی سامراجی قوتوں کے ساتھ اتحاد کیا جائے۔

ساموئل جانسن نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ”بدمعاشوں کی آخری پناہ گاہ حب الوطنی ہے“۔ یہ بات اٹھارویں صدی میں جتنی درست تھی اتنی ہی آج بھی ہے۔ ان میں سے کسی ایک ”محب وطن“ مرد یا خاتون کو تھوڑا کھرچا جائے تو نیچے سے سب سے زیادہ سفاک، جھوٹے اور خون خوار بدمعاش نکلیں گے۔

یورپ میں سوشل ڈیموکریسی اور ٹریڈ یونینز کی رائٹ ونگ اصلاح پسند قیادت نے سب سے زیادہ گھٹیا کردار ادا کیا ہے جو روس مخالف کمپئین میں سرمایہ داروں اور سامراجیوں کی چاپلوسی کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لینے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ انہوں نے پوری دنیا کے سامنے اپنا گھناؤنا چہرہ ننگا کر دیا ہے کہ وہ ہر ملک کے محنت کش طبقے کے دشمنوں کے سب سے زیادہ وفادار کتے ہیں۔

دوسری طرف لیفٹ ونگ اصلاح پسندوں کا کردار بھی کچھ زیادہ بہتر نہیں ہے۔ تھوڑا یا زیادہ، ہر جگہ پر وہ موجودہ جنگ میں پنہاں طبقاتی مفادات کا سنجیدہ تجزیہ کئے بغیر ”معصوم ننھے یوکرائن کو بچاؤ“ کی چیخ و پکار میں شامل ہو گئے ہیں۔

تیسری عالمی جنگ؟

اس وقت مغرب میں عوام کا موڈ بہت کنفیوژن کا شکار ہے۔ ایک طرف تو یوکرائنی عوام اور مہاجرین کے لئے فطری ہمدردی ہے لیکن دوسری طرف یہ خوف بھی ہے کہ جنگ پھیل کر تیسری عالمی جنگ کی شکل اختیار کر لے گی اور دنیا کو ہولناک تباہی سہنا پڑے گی۔

اس خوف کو روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے حالیہ بیانات نے اور بھی بڑھا دیا ہے جن میں روسی جوہری قوتوں کو الرٹ رہنے کا کہا گیا ہے۔ لیکن یہ سب ہوائی باتیں ہیں۔ ہم واضح الفاظ میں بتا رہے ہیں کہ امریکہ اور روس کے درمیان نہ ابھی جنگ ہو گی اور نہ ہی اس کے مستقبل قریب میں کوئی امکانات ہیں۔

ہم یہاں وہ باتیں دہرا رہے ہیں جو کسی بھی مارکس وادی کے لئے ا بجد کا درجہ رکھتی ہیں۔ سرمایہ دار حب الوطنی، جمہوریت یا کسی اعلیٰ اصول کے لئے جنگیں نہیں کرتے۔ وہ منافعوں، بیرونی منڈیوں پر قبضوں، خام مال کے وسائل (جیسے تیل) اور اپنے حلقہ اثرورسوخ کو بڑھانے کے لئے جنگیں کرتے ہیں۔

کیا یہ بنیادی بات روزِ روشن کی طرح واضح نہیں؟ اور کیا یہ بات بھی واضح نہیں کہ ایک جوہری جنگ سے ان میں سے کوئی ایک مقصد پورا نہیں ہوتا بلکہ دونوں اطراف مشترکہ تباہی و بربادی ہو گی۔ اس صورتحال کو واضح کرنے کے لئے ایک لفظ بھی تخلیق کیا گیا ہے۔۔MAD (Mutually Assured Destruction)۔

ایک دو سال کے بچے کو بھی یہ واضح ہے کہ ایسی جنگ بینکاروں اور سرمایہ داروں کے مفادات میں نہیں ہو گی اگرچہ یہ بات ان چند بیوقوفوں کو نہیں سمجھ آتی جو اپنے آپ کو مارکس وادی کہلانا پسند کرتے ہیں۔

ایک اور فیصلہ کن وجہ، خاص طور پر امریکہ (اگرچہ باقی تمام ممالک میں بھی یہی جذبات ہیں) میں جنگ کی عوامی مخالفت ہے۔ ایک حالیہ رائے شماری کے مطابق امریکہ میں محض 25 فیصد عوام یوکرائن میں براہ راست جنگی مداخلت کی حامی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ عوام کی بھاری اکثریت اس کی مخالف ہے۔

یہ کوئی حیران کن معاملہ نہیں ہے کیونکہ عراق اور افغانستان میں شرمناک شکستیں امریکی عوام کے ذہنوں میں نقش ہیں۔ اس کا اظہار اسی وقت ہو گیا تھا جب اوبامہ شام میں براہِ راست جنگی مداخلت کرنے میں ناکام ہو گیا تھا۔

امریکی عوام بیرونی مداخلتوں اور جنگوں سے تنگ آ چکی ہے اور یہ طاقتور عنصر بائیڈن اور پینٹاگون کے ہاتھ باندھے ہوئے ہے۔ تیسری عالمی جنگ کے خوف کے برعکس یہ وہ حقیقی عنصر ہے جو ابھی تک انہیں یوکرائن میں روس کے ساتھ براہ راست لڑنے کے لئے افواج بھیجنے سے روکے ہوئے ہے۔

یہ حقیقت کہ پیوٹن نے اپنی جوہری قوتوں کو الرٹ رہنے کے حوالے سے شعلہ بیانی کی ہے، اس کی کوئی عسکری اہمیت نہیں ہے۔ سرمائے کے حکمت کار اور پینٹاگون اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں اور جانتے ہیں کہ نفسیاتی جنگ میں یہ ایک فضول چال ہے۔

ویسے یاد دہانی کے لئے سال 1973ء میں امریکہ خود اسرائیل اور مصر کے درمیان یوم کیپور جنگ میں اس گھناؤنی چال کا مرتکب ہوا تھا جب اس نے اعلان کیا کہ جوہری قوتوں کو تیسرے درجے پر الرٹ کر دیا گیا ہے (پہلا درجہ جنگ ہے)۔

اس طرح کی چالبازیوں سے برلن اور برسلز میں راتوں کی نیند شائد حرام ہو رہی ہو لیکن ان کا موجودہ یوکرائن جنگ میں کوئی کردار نہیں ہے اور نہ ہی سرمائے کے سنجیدہ حکمت کار اس پر کوئی توجہ دے رہے ہیں۔

کیا پابندیاں کامیاب ہوں گی؟

جنگ کے نتائج پر اثر انداز ہونے کا ایک ہی طریقہ تھا کہ یوکرائن میں براہِ راست افواج بھیجی جائیں۔ اب جبکہ یہ آپشن سرے سے موجود ہی نہیں ہے تو سامراجی ماسکو کے خلاف گالم گلوچ سے بھرا ہیجانی پروپیگنڈہ، روسی بینکوں اور کاروباروں پر نئی پابندیاں اور کیف کو کچھ عسکری امداد بھیجنے پر اکتفا کرنے پر مجبور ہیں۔

ان میں سے کسی ایک کام کا جنگ کے نتائج پر کوئی اثرا نہیں ہو گا۔

جن پابندیوں کا بہت چرچا کیا جا رہا ہے وہ ناکام ہوں گی کیونکہ ماضی میں بھی پابندیاں کبھی کامیاب نہیں ہوئیں اور پیوٹن پہلے سے ایسے اقدامات کر چکا ہے جن کے ذریعے روس کاتجارت اور فنانشل ٹرانزیکشنز کے لئے مغرب پر انحصار بہت حد تک کم ہو چکا ہے۔ بہرحال پابندیوں کو اثر انداز ہونے میں اگر سالوں نہیں تو مہینے ضرور لگتے ہیں اور اس سے بہت پہلے ہی یوکرائن کا فیصلہ ہو جائے گا۔

لیکن اس کی ایک اور بھی وجہ ہے جو کسی بھی کم عقل کو فوری سمجھ آ جانی چاہیئے۔ اس وقت مغرب شیخی مار رہا ہے کہ روسی بینکوں کو Swift (آن لائن ٹرانزیکشن اور عالمی تجارت کی عالمی سروس) نیٹ ورک سے نکال دیا گیا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ کچھ ہی بینکوں کو نکالا گیا ہے۔ یہ واضح ہے کہ وہ کلیدی بینک جو روسی تیل اور گیس یورپ کو برآمد کرنے میں شامل ہیں ان پر کوئی اثر نہیں پڑا۔

لیت و لعل سے کام لینے کے بعد جرمنی نے کہا ہے کہ وہ Nord Stream-2 گیس پائپ لائن کی سرٹیفکیشن روک رہا ہے۔ زیادہ درست بات یہ ہے کہ روک نہیں رہا بلکہ معطل کر رہا ہے۔ دونوں میں بڑا فرق ہے۔ ہم اعتماد سے کہہ سکتے ہیں کہ جس لمحے موجودہ جنگ ختم ہو گی (ہر صورت ایسا ہونا ہے) اس سمیت دیگر پابندیاں خاموشی سے ختم کر دی جائیں گی کیونکہ یورپی معیشت اور خاص طور پر جرمنی کے لئے ان کے اثرات شدید تکلیف دہ ہوں گے۔

تمام دعووں کے باوجود جرمنی مناسب قیمتوں پر تیل اور گیس کے متبادل ذرائع حاصل نہیں کر سکتا۔ ہمیں بخوبی معلوم ہے کہ اصول، اصول ہیں؛ لیکن کاروبار، کاروبار ہے۔ یوکرائن کو ہتھیار بھیجنے کا فوری فیصلہ۔۔جرمنی ہمیشہ اس کی مخالفت کرتا رہا ہے۔۔ایک سفاک قدم ہے۔ روسی پیش قدمی روکنے کے لئے اب اس کی کوئی حیثیت نہیں رہی لیکن اس سے عوام کی قیمت پر جنگ زیادہ تکلیف دہ اور طویل ہو جائے گی۔ مغرب کا دعویٰ ہے کہ عوامی تکلیف کے حوالے سے وہ بہت پریشان ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ یوکرائنی عوام کی تکلیف کے حوالے سے ہر جگہ محنت کش بہت زیادہ ہمدردی رکھتے ہیں۔ جب ایک روسی، جرمن، فرانسیسی یا امریکی محنت کش یوکرائنی عوام کے لئے ہمدردی کا اظہار کرتا ہے تو ہمیں اس پر یقین ہے۔ لیکن جب بائیڈن، جانسن، میکرون یا شولز یہی بات کرتے ہیں تو ایماندار لوگوں کو شدید نفرت ہوتی ہے۔

سامراجیوں کی غلیظ منافقت کی کوئی حد نہیں ہے۔

کیا حملہ ناکام ہو چکا ہے؟

سامراجی پروپیگنڈہ مشینری چیخ چیخ کر بتا رہی ہے کہ پیوٹن اپنے عزائم میں ناکام ہو چکا ہے اور روسی افواج کی پیش قدمی کو یوکرائینی افواج کی جرات مندانہ مزاحمت نے روک دیا ہے۔ کسی بھی مستند اطلاع کی عدم موجودگی میں حقائق کو جاننا بہت مشکل ہے۔ لیکن ان خبروں کو درست ماننا بھی مشکل کام ہے۔

پہلی حقیقت تو یہ ہے کہ یوکرائن کی سرحد پر تعینات 1 لاکھ 90 ہزار فوج کا ایک بہت ہی چھوٹا حصہ ابھی جنگ میں متحرک ہے۔ سست روی کو ایندھن، گولہ بارود، اشیاء خوردونوش وغیرہ کی سپلائی ضروریات اور روس کی سپلائی لائن کو خطرات سے بچانے کی ضرورت سے واضح کیا جا سکتا ہے۔ آخر کار یوکرائن ایک بہت بڑا ملک ہے۔

یہ بھی ذہن نشین ہونا چاہیئے کہ جس جس مرحلے پر فوج نے پیش قدمی روکی ہے پیوٹن نے مذاکرات کی پیشکش کی ہے۔ واضح طور پر اسے امید تھی کہ حملے کے ذریعے وہ یوکرائن کو مذاکرات کی میز پر لے آئے گا جہاں اس کے مطالبات مان لئے جائیں گے۔ اس حوالے سے کئی اشارے موجود تھے کہ یہ حکمت عملی کامیاب ہو رہی ہے۔

جمعے کی رات کو واضح تھا کہ یوکرائنی صدر ولودی میئر زیلینسکی مذاکرات کے لئے تیار ہے۔ وہ شدید پریشان نظر آ رہا تھا۔ لیکن انتہائی دائیں بازو کے عناصر اور امریکہ اور یورپ کے شدید دباؤ میں اس نے اپنا ارادہ بدل لیا۔ اس کے بعد اس نے جارحانہ رویہ اپنا لیا۔ اس کا مطلب واضح تھا کہ اب جنگ جاری رہے گی۔

یہ بھی ہو سکتا ہے کہ واقعی روسی فوج کو مزاحمت کا سامنا رہا ہو، یوکرائنی فوج کے کچھ حصے ابتدائی شاک سے باہر آ گئے ہوں اور اتنے منظم ہو گئے ہوں کہ اب وہ زیادہ بہتر مزاحمت کر رہے ہیں۔

یہ ہو سکتا ہے۔ جنگ کی حرکیات انتہائی پیچیدہ ہوتی ہیں، شکستوں کے فوراً بعد پیش قدمی ہوتی ہے، پیش قدمی کے فوراً بعد پھر شکست وغیرہ۔ لیکن کسی ایک واقعے کو لے کر یہ ثابت نہیں کیا جا سکتا کہ عمومی طور پر جنگ کس مرحلے میں ہے۔ حتمی تجزیئے میں یہ طاقتوں کا توازن ہے جو فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے اور اس وقت توازن کا دیو ہیکل جھکاؤ روس کی طرف ہے۔

پسپائی کے برعکس تمام اشارے واضح کر رہے ہیں کہ روسی فوج مسلسل مرحلہ وار پیش قدمی کرتے ہوئے ایک کے بعد ایک کلیدی مقام پر قبضہ کر رہی ہے۔ روسی افواج دارالحکومت کیف کو مختلف اطراف سے گھیرے میں لے رہی ہیں اور ملک کے دوسرے بڑے شہر خارکیف کا محاصرہ کر چکی ہیں۔ افواج کریمیا سے پیش قدمی کرتی ہوئی شمال اور شمال مغرب میں مائی کولیف پہنچ چکی ہیں اور شمال مشرق میں آزاف سمندر کے کنارے میلیتوپول اور بردیانسک پر قبضہ کر چکی ہیں۔ کلیدی شہر ماریوپول پر تقریباً قبضہ کیا جا چکا ہے اور دونیتسک سے جنوب میں آنے والی افواج کے ساتھ رابطہ قائم کر لیا گیا ہے۔

لیکن اس تمام صورتحال میں روسی ابھی بھی مذاکرات کے لئے زور لگا رہے ہیں۔ یہ واضح طور پر ایک پلان کا حصہ تھا۔ یہ کوئی حادثہ نہیں کہ یوکرائن نے منسک میں ایک میٹنگ کی پیشکش کو ٹھکرا دیا۔ ان کا احتجاج یہ تھا کہ بیلاروس روس کا اتحادی ہے اور اس جنگ میں معاونت کر رہا ہے۔ اس کے بعد اسرائیل اور آزربائیجان نے اپنی خدمات پیش کیں جنہیں پیوٹن نے فوری طور پر قبول کر لیا۔ جلد یا بدیر مذاکرات ہوں گے۔ سوال یہ ہے کہ کیا مذاکرات کامیاب ہوں گے؟

مذاکرات کی ٹیبل پر بیٹھنے میں زیلینسکی کے تحفظات واضح ہیں۔ اس وقت زمینی صورتحال ایسی ہے کہ کسی بھی مذاکرات میں یوکرائینی حکومت کی پوزیشن شدید کمزور ہو گی۔ پہلا سوال تو یہ ہے کہ زیلینسکی کس بنیاد پر مذاکرات کرے گا؟ وہ ایک ایسا جواری ہے جو بغیر پتوں کے ٹیبل پر بیٹھا ہے۔ اس حوالے سے مذاکرات میں گھٹنے ٹیکنے کے علاوہ اور تو کوئی راستہ نہیں ہے۔ لیکن واشنگٹن اور برلن کی شہہ پر زیلینسکی ہتھیار ڈالنے کے موڈ میں نہیں ہے۔

اس لئے مذاکرات کا نتیجہ مکمل ناکامی ہو گا۔ پہلے دن سے واضح تھا کہ اس مسئلے کا حل مذاکرات سے نہیں بلکہ میدانِ جنگ میں ہو گا۔ لیکن یہاں یوکرائن کے پاس کچھ نہیں ہے۔برلن سے چار مال گاڑیوں کے آ جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

سامراجیوں نے یوکرائن کو کیسے دھوکا دیا؟

ایسا لگ رہا ہے کہ سامراجیوں اور کیف حکومت کو امید ہے کہ روس میں کوئی تبدیلی پیوٹن کو ناکام بنا دے گی۔ وہ سفاکی سے روسی عوام کو اپیلیں کر رہے ہیں کہ کریملن میں اپنے حکمرانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پیوٹن اور اس کے اولیگارش مالکان روسی محنت کش طبقے کے دشمن ہیں۔ سماج میں اس کی حمایت مسلسل گر رہی ہے اور اسی لئے اس نے یوکرائن پر حملہ کرنے کی ٹھانی۔ یہ بھی درست ہے کہ کسی مخصوص مرحلے پر یہ چال اُلٹ پڑ سکتی ہے۔

لیکن یہ مشورہ کہ رجعتی سامراجی کسی شکل و صورت میں روس، یوکرائن یا کسی بھی اور ملک کی عوام کے خیرخواہ ہیں، ایک سفاک جھوٹ ہے۔

یوکرائنی عوام کو اچھی طرح پتہ چل چکا ہے کہ وقت آنے پر NATO اور مغرب کی امداد و یکجہتی کے سب وعدے سفید جھوٹ ثابت ہو چکے ہیں۔ ان کی نظر میں یوکرائنی عوام ایک سفاک کھیل میں مہرے ہیں، کارآمد قربانی کے بکرے جنہیں ایک فوجی قربان کئے بغیر روس کی بے عزتی کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

ان بدمعاشوں پر کسی قسم کا اعتماد نہیں ہونا چاہیئے۔ یہ مغرب میں محنت کشوں اور سوشلسٹوں کے لئے بھی درست ہے۔ کریملن میں موجود رجعتی بدمعاشوں کے خلاف جدوجہد روسی محنت کش طبقے کا فرض ہے۔ ہمارا فرض اپنے حکمران طبقے، NATO اور دنیا کی سب سے خوفناک ردِ انقلابی قوت امریکہ کے خلاف جدوجہد ہے۔

اس وقت روسی عوام کی نفسیات کو جانچنا ایک مشکل کام ہے۔ لیکن روسی عوام کی ایک دیو ہیکل اکثریت یوکرائن میں اپنی بہنوں اور بھائیوں کے خلاف جنگ سے شدید نفرت کرتی ہو گی کیونکہ ان کے لئے ان کے دلوں میں ایک خاص مقام ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ NATO اور امریکی سامراج ان کے حقیقی دشمن ہیں اور وہ ان سے جنگ کے لئے تیار بھی ہوں گے۔ لیکن وہ یوکرائنی عوام کو اس نگاہ سے نہیں دیکھتے اور یہ ایک درست صحت مند جذبہ ہے۔

اگر وہ پیوٹن کی جنگ کو قبول کر رہے ہیں (بھاری اکثریت اس کے خلاف ہے) تو تذبذب سے کر رہے ہیں۔ وہ ایسا کیف کی غلیظ حکومت اور رجعتی فسطائیوں اور دوسری عالمی جنگ میں نازیوں کے ساتھی سٹیپان باندیرا کے پیروکاروں میں گٹھ جوڑ، دونباس میں روسی بولنے والی عوام پر ان کے مشترکہ ظلم و جبر اور دیگر کرپٹ اور جابرانہ اقدامات کی وجہ سے کر رہے ہیں۔ کیف حکومت کے پیچھے انہیں سامراج کا خون میں لتھڑا پنجہ نظر آتا ہے۔

عالمی مارکسی رجحان کے روسی کامریڈز اس حوالے سے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ہمیں ان کی مثال کو بنیاد بناتے ہوئے اپنے ممالک میں اپنے حکمران طبقے اور سامراجیوں کے خلاف واضح اور واشگاف جدوجہد کرنی چاہیئے۔ اس کے علاوہ حقیقی انقلابیوں اور محنت کش طبقے کی عالمگیریت پر یقین رکھنے والوں کے پاس اور کوئی راستہ نہیں ہے۔

اس جنگ میں ہم کسی کی بھی حمایت نہیں کر سکتے کیونکہ دونوں طرف رجعتی جنگ ہے۔ حتمی تجزیئے میں یہ جنگ دو سامراجی گروہوں کے درمیان جنگ ہے۔ ہم ان میں سے کسی کی حمایت نہیں کرتے۔ غریب خون رستے یوکرائن کی عوام اس جنگ میں مظلوم ہے اور وہ ایسی دلدل میں پھنس چکے ہیں جو نہ ان کی بنائی ہوئی ہے اور نہ ان کی خواہش تھی۔

کوئی بھی اس جنگ کے نتائج کی پیش گوئی نہیں کر سکتا لیکن اس کے نتائج یوکرائن، روس اور عالمی محنت کش طبقے کے لئے مثبت نہیں ہوں گے۔ اس کا فوری اثر ہر جگہ گرتا ہوا معیارِ زندگی اور افراطِ زر ہو گا۔ عوام کو بتایا جائے گا کہ یہ ”امن اور جمہوریت“ کے دفاع کی قیمت ہے۔ غربت، بیروزگاری اور بے تحاشہ دیگر پریشانیوں کا شکار کروڑوں افراد کے لئے یہ ایک طفل تسلی ہو گی۔

جنگ کی وجہ سے انتشار اور پابندیوں کے مزید اثرات میں عالمی تجارت اور بھی زیادہ برباد ہو گی جو مستقبل قریب میں ایک معاشی گراؤٹ کو جنم دے گا۔ پوری دنیا میں معیشت منہدم ہو گی۔ دیو ہیکل سماجی اور سیاسی انتشار جنم لے گا اور طبقاتی جدوجہد نئے عروج کو پہنچے گی۔

ہر جنگ کے آغاز پر عوام کا شعور کنفیوژن کا شکار اور پروپیگنڈے میں پراگندہ ہوتا ہے جس سے شدید خوف و ہراس جنم لیتا ہے۔ ان حالات میں حکمران طبقے کے سب سے زیادہ رجعتی حصے ”قومی اتحاد“ کا سراب قائم کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔

”ہم سب کو بیرونی دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے متحد ہونا ہے! قومی دفاع کے لئے ہم سب کو قربانیاں دینا ہوں گی!“ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن بالآخر خوف و ہراس کے بادل چھٹ جاتے ہیں۔ مسلسل دہرایا گیا پروپیگنڈہ اپنی افادیت کھونا شروع ہو جاتا ہے۔ مسلسل بیروزگاری، بے گھری اور امیدوں کے ٹوٹنے سے حب الوطنی اور قومی اتحاد کا پیغام کھوکھلا ہو جائے گا۔

تاریخ گواہ ہے کہ خوفناک اور خونریز جنگوں کا اختتام اکثر انقلابات میں ہوتا ہے اور تاحال تاریخ نے اپنا آخری فیصلہ نہیں سنایا۔

 

سرمایہ داری اور سامراجیت مردہ باد!

عالمی سوشلسٹ انقلاب زندہ باد!

عالمی مارکسی رجحان زندہ باد!

دنیا بھر کے محنت کشو، ایک ہو جاؤ!

 

لندن۔ 28 فروری 2022ء