In Defence of October

Study the lessons of the Russian Revolution

About us 1917 Live

جمہوری آزادیوں پر پابندی نامنظور۔۔ریاستی جبر مردہ باد!

14 جولائی کو نصف شب کے وقت پروگریسو یوتھ الائنس کراچی کے کارکن محمد امین کو ریاستی اداروں نے ان کے گھر سے اٹھا کر جبری طور پر لاپتہ کر دیا گیا تھا۔ تب سے پروگریسو یوتھ الائنس سوشل میڈیا پر مسلسل سراپا احتجاج ہے اور اب ایک ہفتہ گزر جانے کے بعد ملک بھر میں احتجاجی مظاہروں کے کامیاب انعقاد کا سلسلہ بھی شروع کیا جا چکا ہے۔ ہمارا مطالبہ دو ٹوک اور واضح ہے کہ کامریڈ امین کو فی الفور بازیاب کیا جائے اور اگر ان سے کوئی جرم سرزد ہوا ہے تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے۔ مگر پروگریسو یوتھ الائنس یہ سمجھتا ہے کہ کامریڈ امین کی جبری گمشدگی کوئی مخصوص اور الگ تھلگ کاروائی نہیں ہے بلکہ ریاست کی طرف سے سیاسی کارکنوں، قلمکاروں، صحافیوں اور حکومتی و ریاستی پالیسیوں کے ناقدین کے خلاف عمومی ریاستی ردعمل کا ہی تسلسل ہے۔ بیرونی دباؤ، داخلی انتشار اور معاشی تناؤ کے باعث ریاست اس قدر بوکھلاہٹ اور تذبذب کا شکار ہے کہ وہ ہلکی سی بھی تنقید برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس لیے بائیں بازو کی انقلابی قوتوں کے ساتھ ساتھ دیگر ترقی پسندوں اور حتیٰ کہ دائیں بازو کے لبرل لکھاریوں کو بھی ریاستی جبر کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ آج مطیع اللہ جان کا اغوا اور پی ٹی ایم کے لیڈر فضل خان ایڈووکیٹ پر قاتلانہ حملہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اس طرح کے اقدامات ریاستی طاقت نہیں بلکہ اس کی کمزوری کی علامات ہیں۔ پروگریسو یوتھ الائنس اور ریڈ ورکرز فرنٹ عوام کی جمہوری آزادیوں پر ہر قسم کے حملے کی بھرپور مذمت کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ تمام جبری طور پر اغوا کیے گئے سیاسی و سماجی کارکنوں اور صحافیوں کو فی الفور بازیاب کیا جائے اور آئندہ کے لیے اس طرز کی غیر آئینی اور آمرانہ پالیسیوں کا سلسلہ ختم کیا جائے۔ وہ وقت گزر چکا جب کسی کو بھی غدار قرار دے کر عقوبت خانوں میں ڈال دیا جاتا تھا اور جو بھی ریاستی بیانیہ سامنے لایا جاتا تھا، عوام کی اکثریت اسے قبول کر لیتی تھی۔ اب لوگوں نے سوال اٹھانا شروع کر دیئے ہیں۔ سوال کرنے والوں کو مار دینے یا لاپتہ کر دینے سے سوال قتل نہیں ہو سکتے۔ سوال نہ صرف یہ کہ اپنی جگہ موجود ہیں بلکہ بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ ایک آواز دبائی جائے گی تو سینکڑوں لوگ ہم آواز ہو کر بولیں گے، سینکڑوں آوازوں کا گلہ گھونٹا جائے گا تو ہزاروں، لاکھوں اور کروڑوں آوازوں کا ہجوم حکمران طبقے کی نیندیں حرام کر دے گا۔


[Source]

سرمایہ داری کا عالمگیر بحران بے قابو ہو کر ماضی کے تمام بحرانوں پر سبقت لیتا جا رہا ہے۔ نام نہاد ورلڈ آرڈر منتشر ہو رہا ہے اور ہمیشہ کی طرح حکمران طبقات دنیا بھر میں اس بحران کا تمام تر بوجھ محنت کش طبقے پر ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ امریکہ سمیت تمام سامراجی ممالک جہاں ایک طرف داخلی طور پر فلاحی ریاست کی جعلسازی کے تکلف کو بالائے طاق رکھتے ہوئے عوام پر بدترین معاشی حملے کر رہے ہیں، وہیں ان معاشی حملوں کے خلاف ہونے والی ہر مزاحمت کو بزورطاقت کچل دینے کے زعم میں مبتلا ہیں مگر ہر جبر پہلے سے بڑی مزاحمت کی راہ ہموار کر رہا ہے۔ امریکہ میں حال ہی میں ابھرنے والی سیاہ فاموں کی تحریک نے اس سامراجی ریاست کو عوامی سطح پر چیلنج کیا اور جہاں پولیس کے عوام دشمن ادارے کے خاتمے کا مطالبہ نظر آیا وہاں کچھ جگہوں پر امریکی پرچم بھی نذر آتش کیا گیا۔ ایک واقعے میں احتجاجی مظاہرین وائٹ ہاؤس میں تمام حصار توڑ کر گھس گئے جس کے باعث صدر ٹرمپ خوفزدہ ہو کر زیر زمین بنکر میں کانپتے ہوئے پناہ لینے پر مجبور ہو گیا۔ دوسری طرف یہ عالمی قوتیں سابقہ نو آبادیاتی ممالک کے وسائل کی وحشیانہ لوٹ مار کے لیے اپنی پالتو ریاستوں کو بلا دریغ استعمال کرنے کی کوشش کر رہی ہیں تاکہ عالمی مالیاتی نظام کو زیادہ سے زیادہ مصنوعی آکسیجن فراہم کی جا سکے۔ آئی ایم ایف کے احکامات کے پیش نظر پاکستانی ریاست نے بھی نجکاری، ڈاؤن سائزنگ، جبری برطرفیوں اور پینشن کے خاتمے جیسے مزدور دشمن اقدامات بیک وقت شروع کر دیئے ہیں جس کے باعث پہلے سے مفلوک الحال محنت کش عوام غربت کی دلدل میں گردن تک دھنس چکے ہیں۔ رہی سہی کسر ذخیرہ اندوزوں، پاور کمپنیوں اور افسر شاہی کی بدمعاشی نے پوری کر دی ہے اور پاکستان میں ایک منظم معاشی قتل عام کا آغاز ہو چکا ہے۔ گندم اور دیگر زرعی اجناس نایاب ہوتی جا رہی ہیں، ادویات اور دیگر لوازمات زندگی بھی آئے روز عوام کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہیں۔ ایسے میں محنت کش طبقے، طلبہ اور کسانوں کے پاس مزاحمت کے سوا کوئی دوسرا راستہ باقی نہیں بچا۔ ساتھ ہی معصوم بچوں اور خواتین پر جنسی تشدد کے واقعات سماجی معمول کا حصہ بن چکے ہیں اور خواتین میں اس نظام اور پورے ثقافتی ڈھانچے کے خلاف نفرت کا لاوا پھٹنے کو بیتاب ہے۔ مظلوم و محکوم اقوام جن کے جبری الحاق کی معیاد بھی کب کی پوری ہو چکی، اپنے جمہوری حقوق کے لیے ایک دفعہ پھر سیاسی طور پر متحرک نظر آنا شروع ہو گئی ہیں۔ جہاں ایک طرف بدقسمتی سے ان تمام مزاحمتی تحریکوں اور بغاوتوں کو جوڑ کر ایک ناقابل تسخیر قوت بنانے والی کوئی انقلابی پارٹی سیاسی افق پر موجود نہیں ہے وہیں دائیں بازو کی تمام سیاسی پارٹیاں (حکومت اور حزب مخالف)، مذہبی تنظیمیں، قوم پرست قیادتیں اور سب سے بڑھ کر پولیس، افسر شاہی اور فوج سمیت تمام ریاستی ادارے بھی عوام کے سامنے الف ننگے کھڑے ہیں اور ان کو کسی سے بھی کوئی امید باقی نہیں بچی۔ ایسے میں عوام اور اس خون آشام سرمایہ دارانہ نظام کی محافظ ریاستی مشینری کے مابین ایک براہ راست ٹاکرے کا وقت قریب آن پہنچا ہے۔ عوام کے پاس بھی لڑنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں اور کسی بھی قسم کا معاشی ریلیف دینے سے قاصر کھوکھلی ریاستی مشینری کے پاس بھی جبر کے علاوہ کوئی آپشن باقی نہیں بچا۔ کراچی سمیت ملک بھر میں سیاسی کارکنوں، صحافیوں، قلمکاروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے خلاف جبری گمشدگیوں، مقدمات کی حالیہ لہر اور ٹریڈ یونین سرگرمیوں پر قدغنوں کو اسی تناظر میں دیکھنے اور اس کے مقابلے کی تیاری کرنے کی ضرورت ہے۔ پروگریسو یوتھ الائنس اور ریڈ ورکرز فرنٹ نے ہمیشہ تحریر و تقریر کی آزادی اور احتجاج کے حق سمیت عوام کے تمام جمہوری حقوق کا دفاع کیا ہے۔ اور آئندہ بھی ہم اپنا یہ تاریخی فریضہ کسی بھی قیمت پر سرانجام دیتے رہیں گے۔ بائیں بازو کی تمام قوتوں کو جمہوری حقوق کے دفاع کے لیے ایک موثر حکمت عملی مرتب کرنی ہو گی۔ پروگریسو یوتھ الائنس اور ریڈ ورکرز فرنٹ ہمیشہ اس مزاحمتی دستے کی صف اول میں موجود ہو ں گے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عالمی بحران کی شدت نے اقوام متحدہ سمیت تمام عالمی اداروں کے ضعف اور خصی پن کی قلعی بھی کھول کر رکھ دی ہے اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے حال ہی میں اپنے ایک ٹویٹ میں اپنی بے بسی کا کھلے عام اعتراف بھی کیا ہے۔ یہ ان اصلاح پسندوں کے لیے اہم سبق ہے جو اسی نظام میں رہتے ہوئے عوام کی نجات کا پروگرام پیش کر رہے ہیں۔ اس لیے پروگریسو یوتھ الائنس اور ریڈ ورکرز فرنٹ سمجھتے ہیں کہ کسی بھی سامراجی ملک یا ادارے سے بہتری کی توقع رکھنا عوامی حقوق کی تحریکوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف ہو گا۔ محنت کش عوام کا اتحاد ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے اور اس وقت عوام کو سائنسی سوشلزم یعنی مارکسزم لینن ازم کے نظریات کے تحت ترتیب دیے گئے ایک انقلابی پروگرام پر منظم کرنے کی ضرورت ہے۔

23.02.1917
The February Revolution
Strikes and protests erupt on women's day in Petrograd and develop into a mass movement involving hundreds of thousands of workers; within 5 days the workers win over the army and bring down the hated and seemingly omnipotent Tsarist Monarchy.
16.04.1917
Lenin Returns
Lenin returns to Russia and presents his ‘April Theses’ denouncing the Bourgeois Provisional Government and calling for “All Power to the Soviets!”
18.06.1917
The June Days
Following the First All-Russian Congress of Soviets, the reformist leaders called a demonstration to show the strength of "democracy". 400,000 people attended, the vast majority carried banners with Bolshevik slogans.
16.07.1917
The July Days
Spontaneous, armed demonstrations against the Provisional Government erupt in Petrograd. The workers and soldiers are suppressed by force, introducing a period of reaction and making the peaceful development of the revolution impossible.
9.09.1917
The Kornilov Affair
Following the July days, the Bolsheviks were driven underground and the forces of reaction were emboldened. This process culminated in the reactionary forces coalescing around General Kornilov, who attempt to march on Petrograd and crush the revolutionary movement in its entirety.
26.10.1917
The October Revolution
The Provisional Government is overthrown. State power passes to the Soviets on the morningm of 26th October, after the Bolsheviks’ Military Revolutionary Committee seize the city and the cabinet surrenders.
  • V. I. Lenin

    V. I. Lenin

    "The dominating trait of his character, the feature which constituted half his make-up, was his will..."
  • L. Trotsky

    L. Trotsky

    “Astounding speeches, fanfares of orders, the unceasing electrifier of a weakening army.”
  • G. Plekhanov

    G. Plekhanov

    "In the final analysis the brilliant aspects of Plekhanov’s character will endure forever."
  • G. O. Zinoviev

    G. O. Zinoviev

    "Zinoviev has won the reputation of being one of the most remarkable orators – a difficult feat."
  • Y. M. Sverdlov

    Y. M. Sverdlov

    “He did not die on the field of battle, but we are right to see him as a man who gave his life for the cause.”
  • V. Volodarsky

    V. Volodarsky

    “He was always to be seen in the front row, the on-the-spot leader. So, they killed him.”
  • 1
  • 2
  • 3

Reading Guides

  • The 1917 February Revolution

    The 1917 February Revolution

    The February Revolution saw a mass strike develop from below at a furious pace which posed the question of state power within a week of its inception. Workers in Petrograd took to the streets against intolerable bread shortages, the slaughter
  • Lenin Returns in April

    Lenin Returns in April

    This reading guide contains some of Lenin’s most important writings and speeches made in the April period, accompanied by works which provide further details of events at that stage of the Revolution.
  • The June Days 1917

    The June Days 1917

    This reading guide informs the May-June period of the Revolution with analysis, accounts of those who were involved and important speeches and writings of the time.
  • The July Days 1917

    The July Days 1917

    This selection of texts covers the background, events and consequences of the July Days. Next, we will turn our attention to one of those consequences – the Kornilov putsch in late August.
  • The Kornilov affair

    The Kornilov affair

    Kornilov’s failed coup brought the direct action of the masses into play again, and proved to them once and for all that they were the only force in society capable of transforming their own living conditions. For the first time,
  • The October Insurrection 1917

    The October Insurrection 1917

    The following series of articles provides in-depth analyses and first-hand accounts of the events immediately preceding, during and after the greatest event in human history: the October Revolution, in addition to reflections on its aftermath.
  • 1