سری لنکا: عوامی تحریک پر حکمرانوں کے حملے! ریاستی جبر کے انتقامی وار

9 جولائی کو سری لنکا کے احتجاجی عوام بڑی تعداد کے ساتھ کولمبو میں موجود صدر گوٹابایا راجاپکشا کی رہائش میں گھس گئے۔ یہ پورے ملک میں مارچ سے جاری احتجاجی تحریک کا نقطہ عروج تھا۔ انہوں نے اس سے پہلے ہی تین حکومتی کابینوں، مرکزی بینک کے گورنر، اور گوٹا کے اپنے بھائیوں کوعہدوں سے دستبردار کروایا تھا۔ گوٹا کے بھائیوں میں سے ایک وزیرِ خزانہ باسیل راجاپکشا، اور دوسرا تب کا طاقتور وزیراعظم مہندا راجاپکشا تھا جسے 9 مئی کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا گیا تھا۔

[Source]

جب 9 جولائی کو تحریک اپنے نقطہ عروج پر پہنچ کر بغاوت میں تبدیل ہو گئی تو مختصر عرصے کے لیے محنت کش عوام کیلئے ایک موقع بنا۔ عوام خود اعتمادی اور طاقت کے ساتھ آگے بڑھ رہے تھے، جبکہ حکمران طبقہ خوف و ہراس میں مبتلا تھا، اور فوج اور پولیس فورس میں دراڑیں پڑ رہی تھیں۔ عوام اقتدار پر قبضہ کر سکتے تھے۔

مگر موقع ہمیشہ کے لیے نہیں رہ سکتا۔ ایسی صورتحال میں یا تو عوام اقتدار پر قبضہ کر لیتے ہیں، یا پھر وہ اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں اور عارضی طور پر حالات رجعتی قوتوں کے قابو میں آجاتے ہیں۔ محنت کش طبقے کی فیصلہ کُن انقلابی قیادت کی عدم موجودگی میں یہی دوسری صورت دیکھنے کو ملی۔

تاریخ ان لوگوں کو بھی معاف نہیں کرتی جو موقع سے فائدہ نہ اُٹھا پائیں۔ 9 جولائی کو عوام نے گوٹا راجاپکشا کو مستعفی کروا دیا۔ مگر جیسے ہی وہ سڑکوں سے واپس لوٹے تو اس کا چمچہ رانیل وکرما سنگھے، جس کو اب عوام حقارت سے رانیل راجاپکشا کہتے ہیں، نے اس کی جگہ لے لی۔ رانیل نے تحریک کے تھم جانے سے فائدہ اُٹھانے میں دیر نہیں لگائی اور جبر کا آغاز کیا۔

سری لنکا کا انقلاب ابھی ختم نہیں ہوا، مگر اس موقع کے ضیاع میں سری لنکا اور دیگر ممالک میں موجود مزدور تحریک کے ہر اول دستوں کے لیے اہم اور توجہ طلب اسباق ہیں۔

حکمران طبقہ اصل خطرے سے واقف ہے

سری لنکا کی تحریک، جسے عوام نے (آراگلیا) ’جدوجہد‘ کا نام دیا ہے، بڑھتی ہوئی قیمتوں، اشیاء کی قلت اور لوڈشیڈنگ کے خلاف خود رو طور پر اُبھری تھی۔ ان مسائل نے امیروں کو چھوڑ کر تمام سری لنکا کے عوام کی زندگی کو ناقابلِ برداشت بنا دیا تھا۔ اگر اس تحریک کے دوران ٹریڈ یونینز مزدوروں اور کسانوں کی کمیٹیاں بنانے کی کال دے کر غیر معینہ مدت کی ہڑتال کی جانب بڑھ جاتیں، تو محنت کش طبقہ آگے کی جانب جست لگا دیتا۔ سری لنکا کے اندر سوشلسٹ انقلاب برپا کرنے کا موقع آ گیا تھا۔

مگر ’معتدل‘ ٹریڈ یونین قائدین آگے کا راستہ فراہم نہیں کر سکے۔ جن مہینوں کے دوران عوام متحرک تھے، اور گیل فیس سمیت دیگر مقامات پر قبضہ کر دیا تھا، تب یونینز نے محض ایک روزہ احتجاجی ہڑتال کی کال دی۔ نتیجتاً، قیادت کی خلا پُر کرنے کے لیے دیگر پرتیں سامنے آئیں۔ کولمبو میں عوامی جلسے کی جگہ ’گوٹا گو گاما‘ کے اندر درمیانے طبقے کی پرتوں نے قیادت سنبھالی۔ اس دوران، سری لنکا کے وکلاء کی بار ایسوسی ایشن (بی اے ایس ایل) جیسے دیگر گروہ خود کو تحریک کے ترجمان کے طور پر پیش کرنے کے اہل ہوئے، جنہوں نے کمزور اور معتدل مطالبات سامنے رکھے، جس کے باعث تحریک کے اندر زیادہ جواز رکھنے والی کسی اور باڈی کی جانب سے مختلف مطالبات پیش کرنا مشکل ہو گیا۔ ٹریڈ یونینز میں درمیانے طبقے کے عناصر کے غلبے اور طبقاتی جدوجہد کرنے والی قیادت کے فقدان کے باعث تحریک تذبذب کا شکار ہو گئی۔ اس ہچکچاہٹ کا اظہار آئینی سرابوں؛ عدلیہ کے سرابوں؛ ان دعوؤں میں کہ تحریک ”نہ دائیں بازو والی ہے نہ بائیں بازو والی“؛ ’عالمی برادری‘ سے جھوٹی امیدوں؛ اور حتیٰ کہ ان خیالات سے بھی ہوتا ہے کہ آئی ایم ایف جیسے سامراجی ادارے شاید رحم دلی کرتے ہوئے سری لنکا کو معاشی تباہی سے نکلنے میں مدد کریں گے۔

یہ تذبذب تحریک کے ابتدائی مرحلے کی عکاسی کرتی ہے۔ تجربہ اس سادہ لوحی کا خاتمہ کرے گا (اور ابھی سے کر بھی رہا ہے)۔ مگر حکمران طبقے کو کوئی ہچکچاہٹ یا تذبذب نہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ایک طبقاتی جنگ ہے اور وہ اس سے واقف ہیں کہ انہیں جیتنے کے لیے کیا کرنا پڑے گا۔ ان کے اندرونی اختلافات ہو سکتے ہیں، مگر انقلابی عوام کا خطرہ درپیش ہونے پر وہ خود بخود ایک ہی صف میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ مارکس وادیوں کی طرح، وہ اس بات کو سمجھتے ہیں کہ ان کے اقتدار کے لیے سب سے بڑا خطرہ منظم محنت کش طبقہ ہے۔

چنانچہ، تحریک میں نظریاتی درستگی کے فقدان اور ٹریڈ یونینز قائدین کی کمزوری کے باوجود، وکرما سنگھے کے جبر کی پوری قوت نے بائیں بازو اور ٹریڈ یونینز کو نشانہ بنایا ہے۔

جبر

نئے صدر کا عہدہ سنبھالنے سے پہلے ہی، وکرما سنگھے بطورِ نگران صدر جبر کی تیاریاں کر رہا تھا۔ اس نے تحریک پر الزام لگایا کہ اس کے اندر ”انتہا پسند“، ”فاشسٹ“ اور ”باغی“ ملوث ہیں۔ کھلے عام جبر شروع کرنے کے لیے وہ انتہائی کمزور تھا، چنانچہ اس کی بجائے اس نے ”باغیوں اور مظاہرین کے بیچ فرق کرنے“ کا ڈرامہ کیا۔

یہ ردّ انقلاب کا پرانا حربہ رہا ہے کہ تحریک میں شامل عوام کو فریب دے، ان کی حوصلہ شکنی کرے، ان کے بیچ اُلجھن پھیلائے اور انہیں تھکا دے، جبکہ اس کے ساتھ تحریک کے سب سے لڑاکا اور غیر مفاہمانہ پرت کے اوپر جبر جاری رکھے۔

21 جولائی کو، پارلیمنٹ نے رانیل کو نئے صدر کے طور پر ’منتخب‘ کیا۔ در حقیقت، اس کٹھ پُتلی کا کردار راجاپکشا خاندان کی جگہ لینے سے کچھ بڑھ کر ہے۔ اگرچہ میڈیا اس کے ’جمہوری‘ جواز کو پیش کرتا رہا ہے، مگر یہ محض فریب ہے۔ وہ جے آر جے وردھنے (جو رانیل کی ماں کا پھوپھی زاد بھائی ہے اور اس کا ماموں لگتا ہے) کے تحت بھی 1970ء اور 80ء کی دہائیوں میں بطورِ وزیر حکومت کا حصہ رہا ہے۔ یہ جے آر کی خونی، جابر اور نسلی قتلِ عام کی ذمہ دار حکومت ہی تھی جس کے تحت موجودہ بدنامِ زمانہ بوناپارٹسٹ آئین اور اس کا صدارتی نظام تشکیل دیا گیا تھا۔

رانیل کو کوئی عوامی مینڈیٹ حاصل نہیں۔ 2020ء کے پارلیمانی انتخابات میں اس کی پارٹی نے محض 2 فیصد ووٹ حاصل کیے تھے اور وہ یونائیٹڈ نیشنل پارٹی (یو این پی) کے واحد ممبر کے طور پر خصوصی نشست کے ذریعے پارلیمنٹ کا حصہ بنا۔ در حقیقت اسے عوام کی نہیں بلکہ حکمران طبقے کی حمایت حاصل ہے، جس نے ایک ہی کام کے لیے اسے اختیارات دیے ہیں اور وہ ہے جبر کرنا۔

جیسے ہی پارلیمنٹ نے اسے صدارت کے عہدے سے نوازا، جبر کا آغاز ہو گیا۔ ’گوٹا گو گاما‘ فوجی دستے بھیجے گئے، صحافیوں کو گرفتار کیا گیا اور ان کی فوٹیج چھین لی گئی۔ ایمرجنسی نافذ کی گئی۔

اس کے بعد بائیں بازو اور ٹریڈ یونینز کے کارکنان کی گرفتاریاں اور جبری گمشدگیاں شروع ہو گئیں۔

28 جولائی کو جوائنٹ ہیلتھ ورکرز یونین کے جنرل سیکرٹری ٹمپٹیے سگا تھا نندا تھیرو کی گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا گیا۔ 8 اگست کو انٹر یونیورسٹی سٹوڈنٹس فیڈریشن (آئی یو ایس ایف، سری لنکا کی سب سے بڑی سٹوڈنٹ یونین جو تحریک کے ہر اول دستے میں شامل رہی ہے اور جس کی قیادت بائیں بازو کی فرنٹ لائن سوشلسٹ پارٹی کر رہی ہے) کے سابقہ مرکزی منتظم مینگلا مڈومنگ کو کولمبو پبلک لائبریری کے باہر حراست میں لیا گیا۔

3 اگست کو سری لنکا ٹیچرز یونین کے سیکرٹری سینئر ٹریڈ یونین رہنما جوزف سٹالن کو گرفتار کیا گیا، اس کی گرفتاری وارنٹ میں لکھا تھا کہ اس نے 28 مارچ کو عدالتی حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ریلی کی تھی۔ نوجوان قائد پیات نکشالا کو بھی اسی عدالتی حکم کی مبینہ خلاف ورزی پر گرفتار کیا گیا۔

اور 4 اگست کو سیلون بینک ایمپلائیز یونین کے کارکنان پیلیتھا ایٹمپاوالا اور دننجیے سری وردھنے کو گرفتار کیا گیا۔

ستم ظریفی تو یہ ہے کہ ایک سال قبل جب جوزف سٹالن کو گرفتار کیا گیا تھا تو رانیل وکرما سنگھے نے اس کی مذمت کی تھی! اور اب، سوشل میڈیا پر وکرما سنگھے کے اپنے ٹریڈ یونین مشیر کی تصاویر گردش کر رہی ہیں جس میں اسے 28 مارچ کے اسی احتجاج میں شرکت کرتا دیکھا جا سکتا ہے جس میں شرکت کرنے پر جوزف سٹالن کو گرفتار کیا گیا تھا!

یہ واضح ہے کہ رانیل اپنے ہی حکومتی قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ مگر ہم اور کس چیز کی توقع کر سکتے ہیں؟ حکمران طبقے کے لیے قانون محض کاغذ کا ٹکڑا ہے، جسے وہ اپنی ضرورت کے مطابق بخوشی روند دیا کرتے ہیں۔ حکمران طبقہ آئین اور ”قانون کی بالادستی“ سے کوئی توقعات وابستہ نہیں کرتا، ہمیں بھی ایسا کرنے کی ضرورت ہے۔

عدالتیں حکمران طبقے کے مفادات پورا کرنے کے لیے وجود رکھتی ہیں۔ وہ انہی گرفتاری وارنٹس کو جاری کر رہے ہیں جس سے رانیل کی رجعتیت کو بھرپور فائدہ پہنچ رہا ہے۔ شدید خوف پھیلانے کی خاطر ان وارنٹس پر عمل درآمد سادہ لباس میں موجود پولیس افسران بے سراغ گاڑیوں کے ذریعے کرتے ہیں، اور گرفتار ہونے والے کئی دنوں تک کسی بھی رابطے یا ملاقات سے محروم رکھے جاتے ہیں۔ واضح طور پر یہ پیغام دیا جاتا ہے: ”ہم تمہیں غائب کر سکتے ہیں، اگلی دفعہ شاید تمہارا پتہ تک نہ چلے۔“

یہ انتہائی غیر معمولی مسئلہ ہے۔ در حقیقت تامل خاندانوں کی جانب سے اپنے پیاروں، جو 2009ء میں خانہ جنگی کے آخر میں لاپتہ ہو گئے تھے، کی واپسی کے لیے چلائی جانے والی مہم کو اس سال اگست میں 2 ہزار دن پورے ہو گئے۔ اور حالیہ عرصے میں کولمبو کے ساحلِ سمندر پر بڑی تعداد میں لاشیں برآمد ہوئی ہیں، جن میں سے بعض کے ہاتھ پیٹھ پر باندھے گئے تھے۔

سری لنکا کے حکمران طبقے اور اس کی تمام خونی روایات کی یہی حقیقت ہے۔ جبر کے ’قانونی‘ طریقوں کے ساتھ وہ بے شمار غیر قانونی اور دہشت گرد طریقے بھی استعمال کرتے ہیں۔

انقلابی کارکنان کے لیے یہ افسوسناک عمل ہوگا اگر وہ عارضی طور پر فاتح اپنے رجعتی دشمنوں سے رحم کی اپیل کریں، خود کو مفلوج کریں، اور وکلاء اور انسانی حقوق کے کارکنان کے مطالبات کے سامنے جھک جائیں۔

اس کی بجائے، سری لنکا کے محنت کشوں اور نوجوانوں کے سب سے انقلابی عناصر کو انقلاب کے پہلے مرحلے کے بارے میں کلیدی اسباق اخذ کرنے ہوں گے۔ انقلاب کا اختتام دو ہی صورتوں میں ممکن ہوتا ہے۔ یا انقلابی پارٹی کے ساتھ موجود محنت کش طبقہ بر وقت جان لیتا ہے کہ اسے اقتدار پر قبضہ کر کے پرانی سرمایہ دارانہ ریاست کو کچلنا پڑے گا اور اس کی جگہ نئی جمہوری مزدور ریاست قائم کرنی پڑے گی؛ یا پھر حکمران طبقہ اپنی ریاست کو برقرار رکھتے ہوئے انقلاب کو کامیابی سے تاخیر کا شکار کرتا ہے، اور پھر وہ عوام اور ان کی قیادت کے خلاف بھرپور انداز میں ریاست کی جابرانہ قوت کو متحرک کرتا ہے۔

لبرلز، اصلاح پسندوں اور امن پسندوں کی خواہشات چاہے جتنی بھی مخلص ہوں، زندگی اور موت کی اس جدوجہد میں درمایانہ رستہ کوئی نہیں ہے۔

وکرما سنگھے: کمزور ’مردِ آہن‘

رانیل وکرما سنگھے کو پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہوگا۔ رجعت کی فتح مستحکم ہونے سے بہت دور ہے اور سری لنکا کے انقلاب کا خاتمہ ابھی نہیں ہوا۔ دراصل محض انقلاب کا پہلا اور معصوم باب اختتام پذیر ہوا ہے۔ رانیل کی حکومت عارضی طور پر تحریک کی پسپائی کے باعث قائم ہے، اور اسے ان سرابوں کا سہارا حاصل ہے جو لبرلز نے اس سے وابستہ کیے ہیں۔ اس نے درمیانے طبقے کی ایک باریک اور دولت مند پرت کو متاثر کیا ہے، جو اب ’نظم و ضبط‘ کی بحالی کے لیے تڑپ رہے ہیں، اور امید کر رہے ہیں کہ ایک مستحکم حکومت آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ لینے کی اہل ہوگی اور ایک قسم کا معمول لوٹ آئے گا۔ مگر اس حکومت کی بنیادیں کمزور ہیں۔ سامراجی قوتیں نئی حکومت کی ظاہری طاقت سے بالکل دھوکہ نہیں کھا رہے۔ جیسا کہ ایک انٹرنیشنل کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی (جو قرضہ لوٹانے کی اہلیت کا تخمینہ لگاتی ہے)، فِچ ریٹنگز وضاحت کرتی ہے:

”پارلیمنٹ میں بڑی اکثریت نے نئے صدر کی حمایت کی، اور اس کی حکومت نے کچھ اپوزیشن ممبران کو بھی راغب کیا ہے۔ اس سے تھوڑی اُمید ملتی ہے کہ اس کے پاس بڑے پیمانے پر معاشی استحکام کی بحالی لانے اور قرضوں کو قابو کرنے کے حوالے سے درکار مشکل اصلاحات کرنے کے لیے مناسب حمایت میسر ہوگی۔ اس قسم کی اصلاحات کے باعث آئی ایم ایف کی حمایت حاصل ہو سکتی ہے، جو سری لنکا کے لیے دیوالیہ پن سے واپسی کی خاطر ہم ضروری سمجھتے ہیں“۔

”حکومت کی پارلیمانی حیثیت مضبوط دکھائی دیتی ہے، مگر حکومت کی عوامی حمایت کمزور ہے۔ صدر وکرما سنگھے پرانی حکومت میں گوٹابایا راجاپکشا کے تحت وزیراعظم رہا تھا، جسے احتجاجوں کے باعث اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا تھا۔ پارلیمنٹ اور حکومت میں سری لنکا پیپلز فریڈم الائنس کے سیاست دانوں کا بھی غلبہ ہے، یہ الائنس راجاپکشا خاندان کے ساتھ قریب سے وابستہ ہے۔ اس سے غیر مستحکم کرنے والے احتجاجوں کا خطرہ مزید بڑھ سکتا ہے اگر معاشی حالات میں بہتری نہ آئی تو اصلاحات کو عوامی اختلاف کا سامنا کرنا پڑے گا۔“

جلد یا بدیر یقینی طور پر تحریک دوبارہ اُبھرے گی۔ مغربی ساحل پر واقع چیلاؤ کے اندر مچھیروں کے نئے احتجاج دیکھنے کو ملے ہیں، جو مٹی کے تیل کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ سری لنکا کے اندر حالات ہی کچھ ایسے ہیں کہ عوام کے پاس بار بار جدوجہد میں داخل ہونے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔

پچھلی حکومت کی طرح یہ حکومت بھی نہ عوام کے مسائل حل کرنے کی اہل ہے اور نہ اس میں دلچسپی رکھتی ہے۔ سماج میں کسی نہ کسی طبقے کو بحران کا بوجھ اُٹھانا ہوتا ہے۔ اور سرمائے کی خدمت گار یہ حکومت معاشی استحکام لوٹانے اور قرض لینے کی اہلیت حاصل کرنے کی کوششیں محنت کشوں اور غریبوں کے اوپر بوجھ ڈال کر کرے گی: کرنسی کی قدر میں کمی کر کے، مزدور دشمن اقدامات کر کے، محنت کشوں کے حقوق چھین کر۔ محض اسی بنیاد پر آئی ایم ایف جیسے سامراجی قرض دہندگان بیل آؤٹ دینے کے لیے آگے بڑھیں گے۔

ہر گزرتے دن کے ساتھ محنت کشوں اور نوجوانوں کے ہر اول دستوں پر یہ واضح ہوتا جائے گا کہ سری لنکا کے انقلاب کی فتح کا مطلب اس جزیرے پر سرمایہ داری کا تختہ الٹنا ہے، جو جنوبی ایشیا اور دنیا بھر کے سوشلسٹ انقلابات کا تسلسل ہوگا۔

تحریک کی عارضی پسپائی ایک قیمتی تجربہ ثابت ہوگا۔ فی الحال، رانیل بذاتِ خود سری لنکا کے عوام کو طبقاتی جنگ کی بے رحمی کا سبق سکھا رہا ہے۔ اگرچہ تحریک کے دوران اتحاد کی خواہش نے حقیقی طبقاتی عنصر کو چھپا دیا تھا، مگر اب پسپائی کے بعد ردّ انقلاب کے مخصوص جابرانہ تشدد نے اس عنصر کو بے نقاب کیا ہے۔

جیسا کہ مارکس نے اپنی کتاب ’فرانس میں طبقاتی جدوجہد‘ میں 1848ء کے فرانسیسی انقلاب کی پسپائی پر بات کرتے ہوئے وضاحت کی تھی:

”چند ابواب کو چھوڑ کر، 1848ء سے لے کر 1849ء تک رونما ہونے والے انقلابی واقعات کے ہر اہم حصے کے اوپر یہ عنوان درج ہے: انقلاب کی شکست!

ان شکستوں میں جس چیز نے دم توڑا وہ انقلاب نہیں تھا۔ وہ قبل از انقلاب کی روایتی فضولیات تھیں، ان سماجی تعلقات کے نتائج جو ابھی شدید طبقاتی اختلافات کے نکتے پر نہیں پہنچے تھے، یعنی وہ اشخاص، سراب، تصورات اور منصوبے جس سے انقلابی پارٹی فروری انقلاب سے قبل آزاد نہیں تھی، ان سے اس کی آزادی فروری انقلاب کی کامیابی نہیں بلکہ شکستوں کے ایک سلسلے کے ذریعے ممکن تھی۔

مختصراً یہ کہ: انقلاب اپنی فوری کامیابیوں کے باعث آگے نہیں بڑھا، بلکہ اس کے برعکس طاقتور اور متحد ردّ انقلاب کے قیام کے باعث، لڑائی میں ایک ایسا دشمن سامنے آنے کے باعث آگے بڑھا جس نے پارٹی کو انقلابی کردار اپنانے پر مجبور کیا۔“