ایران: ایک نئے سماجی دھماکے کے دہانے پر

15 جولائی سے، ایران کے صوبہ خوزستان میں پانی کی قلت کے خلاف ہونے والے احتجاجوں نے ایک طاقتور مقامی تحریک کی شکل اختیار کر لی ہے، جو اب صوبے کے تمام اہم شہروں تک پھیل چکی ہے، جن میں شوش، سوسنگرد، ایذہ، دزفول، کوت عبداللہ، وایس، ماھشھر، حمیدیہ، چمران اور اھواز کے کئی علاقے شامل ہیں۔ حکومت نے مارشل لاء کا اعلان کر دیا ہے، مگر اس نے احتجاجوں کو روکنے کی بجائے مزید 16 صوبوں کے اندر احتجاجوں کو اشتعال دے دیا ہے۔


[Source]

انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

ایران کے اندر طبقاتی جدوجہد واضح طور پر شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ تیل کے محنت کشوں کی ہڑتال کو ایک مہینے سے زیادہ عرصہ ہوا کہ جاری ہے، جس نے 35 شہروں کے اندر 114 کام کی جگہوں پر محنت کشوں کو مشترکہ مطالبات کے گرد متحد کیا ہوا ہے۔ اھواز سٹیل ورکرز یونین نے ہڑتال کے بارے میں کہا کہ یہ ”محنت کشوں اور بے روزگاروں کے مستقبل کے لیے امید کی کرن“ ہے۔ ابھی تک، ہفت تپہ شوگر کین کمپنی، ریلوے کی تعمیراتی کمپنی، میونسپلٹی کے محنت کشوں، شعبہ صحت کے محنت کشوں وغیرہ سمیت دیگر کئی مختلف صنعتوں میں وسیع پیمانے پر ہڑتال اور احتجاج سامنے آئے ہیں۔

معیشت کا انہدام جاری ہے، معیارِ زندگی تیزی کے ساتھ گر رہا ہے اور طبقاتی جدوجہد شدت اختیار کرتی جا رہی ہے، جس کے باعث صورتحال کافی تشویشناک ہے۔ دو ہفتے قبل، رات کے وقت لوڈ شیڈنگ کے خلاف تہران، کرج اور مشھد کے اندر خود رو طور پر مظاہرے دیکھنے کو ملے، اگرچہ وہ جلد ہی منتشر ہو گئے۔ غریب اور محنت کش طبقے کے اوپر بے رحمی کے ساتھ دباؤ بڑھنے کے باعث تناؤ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔

خوزستان کی تحریک

مزدوروں کی ہڑتالوں اور احتجاجوں کے ساتھ ساتھ، ایران بھر میں 2018ء سے کسان بھی پانی کے ذخائر اور زمین پر سپاہِ پاسدارانِ انقلابِ اسلامی (آئی آر جی سی) کے ظالمانہ قبضے کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ اس کی وجہ سے ایران میں پانی کا شدید بحران مزید بد تر ہوا ہے، جس کے پیچھے حکومت اور نیم سرکاری اداروں کا مجرمانہ کردار ہے، جو لوگوں کے ذریعہ معاش پر اپنے منافعوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر، آئی آر جی سی کے منافعوں کی خاطر خوزستان میں حور العظیم کی مرطوب زمینیں تیل کی دریافت کی غرض سے خشک کی گئی ہیں، جس کے نتیجے میں ریت کے ایسے طوفان دیکھنے کو ملے ہیں جنہوں نے شہروں کو متاثر کیا ہے اور زراعت کو تباہ کیا ہے۔

ایرانی پانی کے ذخائر کے اس قسم کے انتہائی لاپرواہ انداز میں استحصال کے باعث 210 سے زائد شہروں کو پانی کی قلت کا سامنا ہے، جن میں سے 100 شہر شدید قلت کا شکار ہیں۔ اسی طرح، پانی کی قلت اور لوڈ شیڈنگ کے خلاف ایران بھر میں وقفے وقفے سے احتجاج ہوتے رہتے ہیں۔ اصفہان کے اندر ایک چھوٹے سے احتجاج کے دوران ایک نوجوان آدمی نے انٹرویو دیتے ہوئے وضاحت کی: ”اگر واقعی میں پانی کی قلت ہے تو یہ ہر جگہ پر ہونی چاہئیے، صرف غریب علاقوں میں نہیں۔“ خوزستان میں ایک کسان نے اپنی بے تحاشا مشکلات کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا: ”میرے پاس دودھ کی غرض سے پالی ہوئی 70 گائیں تھیں، جو پیاس سے مرنے والی تھیں۔ میں انہیں ذبح کرنے پر مجبور ہوا۔ اس سے میرا چند مہینوں کے لیے گزارہ ہو جائے گا۔ اس کے بعد، مجھے نہیں معلوم کہ میں کیا کروں گا۔“

جون کے اواخر تک، جب ملک میں درجہ حرارت 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا، صوبے کے دیہی علاقوں میں احتجاج بڑھ رہے تھے، جن میں آئی آر جی سی کے ساتھ پُر تشدد جھڑپیں بھی دیکھنے کو ملیں۔ 17 جولائی کو، خوزستان کے اہم شہروں میں کسانوں نے احتجاج منعقد کیے، جن میں ایسے نعرے لگائے گئے کہ، ”میں ہوں پیاسا، میں ہوں پیاسا“، اور ”ہمارا خون اور جان، کارون (ایک بڑا مقامی دریا) پر قربان“۔ ان پر آنسو گیس پھینکے گئے اور پولیس کی جانب سے جبر کیا گیا۔ اس عمل نے کسانوں اور مویشی پالنے والوں کو مزید اشتعال دلایا جو ابھی مویشیوں اور گاڑیوں کے ذریعے سڑکوں کو بلاک کر رہے ہیں، جبکہ دیگر شہروں کی جانب مارچ کر نے کے ساتھ ساتھ مقامی حکومتی عمارات کے سامنے احتجاج منعقد کر رہے ہیں۔

18 جولائی کو، حکومتی تشدد نے صوبے بھر میں وسیع پیمانے پر تحریک کو اشتعال دیا اور تمام اہم شہروں کے اندر تحرک دیکھنے کو ملا، جن میں شوش، سوسنگرد، ایذہ، دزفول، کوت عبداللہ، وایس، ماھشھر، حمیدیہ، چمران اور اھواز کے کئی علاقے شامل تھے۔ مظاہرین کے نعرے بھی سیاسی رنگ اختیار کرتے رہے؛ ”مرگ بر خمینی“، ”مرگ بر آمر“، اور ”ملائیت ہائے ہائے، دیس ہمارا چھوڑ دو!“ جیسے نعرے لگائے گئے۔ آتش زنی کر کے شہروں کو جانے والی اہم سڑکیں بلاک کر دی گئیں۔ سیکیورٹی فورسز شروع میں حالات پر اپنا اختیار کھو بیٹھیں۔ ایذہ اور سوسنگرد کے اندر مظاہرین کے مشتعل ہجوم نے حکومتی عمارات پر قبضہ کر لیا۔

حکومت نے اپنی محدود فورسز کے ذریعے جوابی کارروائی کرتے ہوئے براہِ راست فائرنگ کر کے مظاہرین کو منتشر کرنے کی کوشش کی۔ کم از کم 10 لوگوں کی اموات کی تصدیق کی جا چکی ہے، مگر متاثر ہونے والے افراد کی حقیقی تعداد اس سے زیادہ ہی ہے۔ بہرحال، ان کے قاتلانہ اقدامات عوام کو منتشر نہ کر پائے۔

حکومت نے شروع میں اس بات کو جھوٹ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ملک گیر سطح پر احتجاج ہو رہے ہیں، اور صوبے کے اندر انٹرنیٹ پر پابندیاں لگائی گئیں۔ البتہ ان کی دھوکہ دہی تب بالکل ناکارہ ہو گئی جب بے شمار تنظیموں کی جانب سے احتجاجوں کی حمایت میں بیانیے جاری کیے گئے۔ صدر روحانی نے صوبوں میں پانی کے بحران تک کا انکار کر دیا، اور اس نے تحریک کو عرب علیحدگی پسند سازش کے طور پر دکھانے کی کوشش کی۔ مگر مظاہرین نے فوری طور پر تحریک کو نسلی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی اس کوشش کو رد کر دیا، اور ”بختیاری (ایک ایرانی نسلی گروہ) اور عرب، ایک ہیں“ جیسے نعرے بلند کرنا شروع کر دیے۔

عوام کو تقسیم کرنے میں ناکام ہونے کے بعد، 23 جولائی کو پورے صوبہ خوزستان میں غیر اعلانیہ مارشل لاء نافذ کر دیا گیا۔ اس کے بعد گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہو گیا، مگر احتجاج اب بھی جاری ہیں، اگرچہ چھوٹے پیمانے پر۔ مگر جبر کے باعث احتجاج ایران کے دیگر علاقوں تک بھی پھیل چکے ہیں، جہاں تبریز میں بڑے احتجاج وقوع پذیر ہونے کے ساتھ ساتھ تہران، اردبیل، قزوین، کرج، کرمانشاہ اور دیگر جگہوں پر چھوٹے احتجاج دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ تبریز کے اندر، جو صوبہ آذربائیجان کا دارالحکومت ہے، احتجاجوں کے دوران مظاہرین نے یہ نعرے لگائے، ”آذری، عرب اور ایرانی، ایک ہیں ایک ہیں“، ”پولیس گردی ہائے ہائے“ اور ”بابک (آٹھویں صدی میں کسان بغاوت کا مقامی قائد) کے بیٹے ہیں ہم، سر پہ کفن باندھے ہیں ہم“۔ ان احتجاجوں کے جواب میں سیکیورٹی فورسز نے تیزی کے ساتھ کاروائی کی، جنہوں نے انٹرنیٹ اور بجلی کی سہولیات کو اس خوف سے بند کر دیا کہ کہیں یہ احتجاج پھیل کر بغاوت کی شکل نہ اختیار کر جائیں۔

ایران بھر میں بے چینی بڑھتی جا رہی ہے اور تیزی کے ساتھ مزید شدت اختیار کر سکتی ہے۔ 26 جولائی 2021ء سے خوزستان سے متاثر ہو کر تہران کے چھوٹے احتجاج تیزی سے بڑھ چکے ہیں، جہاں ایک دفعہ پھر یہ نعرہ لگایا جا رہا ہے کہ ”آذری، عرب اور ایرانی، ایک ہیں ایک ہیں“، اس کے علاوہ یہ نعرہ بھی لگایا جا رہا ہے کہ ”اے خدایا! ہم بجلی مانگتے ہیں“۔ ایک مرتبہ پھر ان نعروں نے جلد ہی سیاسی شکل اختیار کر لی اور اس قسم کے نعرے لگائے جانے لگے کہ ”مرگ بر آمر“، اور ”ہائے خمینی ہائے ہائے، ایران سے نکل جاؤ!“۔

ایران بھر کی مزدور تنظیموں نے، شروع سے ہی احتجاجوں کی حمایت میں بیانیے جاری کیے ہیں۔ ان میں ہفت تپہ ورکرز یونین اور 15 دیگر تنظیمیں شامل ہیں، جن کے علاوہ تیل کے محنت کشوں کی ہڑتال کو منظم کرنے والی کونسل نے بھی الگ بیانیہ جاری کیا ہے۔ ہفت تپہ شوگر کین کمپنی کی لڑاکا ٹریڈ یونین، جو خوزستان کے اندر بھی موجود ہے، نے ایک نئی ہڑتال کا اعلان بھی کر دیا ہے جس میں وہ پانی کی فراہمی اور کرپٹ مالکان کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ان کے اراکین نے احتجاجوں میں شرکت کی ہے مگر ایک منظم قوت کے طور پر نہیں۔ ابھی تک ان کی حمایت اعلانات تک محدود ہے۔ آج محنت کش طبقے کو اس تحریک میں ایک منظم قوت کے طور پر شرکت کرنا ہوگی وگرنہ، 2018ء اور 2019ء کی طرح دوبارہ ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑ ے گا۔

2020ء کے تجربات سے لیس تیل کے شعبے سے تعلق رکھنے والے محنت کشوں کی ہڑتال

2018ء سے جاری طبقاتی جدوجہد کے نتیجے میں مزدور تنظیمیں قائم کی گئی ہیں اور مشترکہ پروگرام کے گرد مہمات کا آغاز کیا گیا ہے۔ تیل کے شعبے کے محنت کشوں کی موجودہ ہڑتال اگست 2020ء والی ہڑتال کی ناکامیوں میں سے پروان چڑھی ہے، جس میں تیل کے شعبے سے وابستہ 20 ہزار محنت کش متحرک ہوئے تھے۔ البتہ، مشترکہ قیادت کے فقدان کی وجہ سے سرکاری یونینز میں موجود ریاستی کارندے ان تحریکوں کو اپنے قابو میں کرتے آئے ہیں۔ 2020ء والی ہڑتال کے شرکاء نے اس عمل کو یوں بیان کیا: ”انہوں نے ریاست کے اندرونی تنازعات کے دوران اپنی حیثیت مضبوط کرنے اور حالات کو ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرنے کی غرض سے ہماری ہڑتال کو اپنے قابو میں کرنے کی کوشش کی۔“ سرمائے کے ان کارندوں نے محنت کشوں کو ریاست کے کھوکھلے وعدوں کو قبول کرنے پر مجبور کیا۔ ان جھوٹے وعدوں کے علاوہ انہوں نے زیادہ لڑاکا محنت کشوں کی گرفتاریوں اور برطرفیوں کی مہم بھی شروع کر دی۔

2021ء کے آغاز سے، جب ریاستی مزدور تنظیمیں الگ سے احتجاجوں کی کال دے رہی تھیں اور کم از کم اجرت کے حوالے سے پارلیمان کو عرضیاں پیش کر رہی تھیں، تب دوسری طرف پہلے سے ہی ملک گیر ہڑتال کی کال دی جا چکی تھی۔ یہ تمام رجحانات محنت کشوں کی ہڑتال منظم کرنے والی کونسل میں ضم ہو گئے، جس نے اسلامی لیبر کونسل سمیت دیگر ریاستی تنظیموں پر کھلے عام تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ ”محض مالکان کی خدمت پر مامور وہ آلات ہیں جن سے ہم محنت کشوں کو قابو میں رکھا جاتا ہے“، اور محنت کشوں کو ہفت تپہ سے اسباق اخذ کرتے ہوئے ہڑتالی کمیٹیاں قائم کرنے کی اپیل کی۔ تیل کے محنت کشوں، خصوصاً غیر مستقل معاہدوں پر کام کرنے والوں کی قوتِ برداشت جواب دے چکی تھی۔ ہڑتال 20 جون 2021ء کو شروع ہوئی اور تیزی کے ساتھ پھیلتی چلی گئی، جس میں کام کی ہر ایک جگہ پر ہڑتالی کمیٹیاں (جن کو ”جنرل اسمبلیاں“ کہا جاتا ہے) قائم کی جانے لگیں۔

محنت کشوں کی ہڑتال منظم کرنے والی کونسل کے مطالبات، جن کے ساتھ کام کی جگہوں کی ہڑتالی کمیٹیوں نے حمایت ظاہر کی ہے، میں مندرجہ ذیل مطالبات شامل ہیں:

1۔ بنیادی ضروریاتِ زندگی کی مناسبت سے اجرتوں میں اضافہ کر کے کم از کم اجرت 1 کروڑ 20 لاکھ تومان مقرر کرنا۔

2۔ کنٹریکٹنگ کمپنیوں (قومیائی گئی تیل کی صنعت کے نجی رابطے بشمول سٹافنگ کمپنی) اور رسمی نوکریوں کا خاتمہ کرنا۔

3۔ غیر مستقل اور مستقل کنٹریکٹ پر کام کرنے والے محنت کشوں کے بیچ تفریق کا خاتمہ کرنا۔

4۔ تاخیر کیے بغیر تنخواہوں اور بونس کی ادائیگی کرنا۔

5۔ خود مختار ٹریڈ یونینز قائم کرنے کا حق دینا۔

6۔ ”بیس دس“ منصوبے کو لاگو کرنا، یعنی مہینے میں 20 دن کام اور 10 دن چھٹی۔

محنت کشوں کے مطالبات کو ملک بھر میں بڑے پیمانے پر سراہا گیا۔ حتیٰ کہ ٹرک ڈرائیوروں، بشمول تیل ٹینکر کے ڈرائیوروں نے یہ دھمکی دی کہ اگر حکومت اگست کے مہینے تک ان کے مطالبات تسلیم نہیں کرتی تو وہ بھی اس ہڑتال میں شریک ہو جائیں گے۔

114 مزدور تنظیموں، بشمول ہفت تپہ ورکرز یونین، نے یکجہتی کا ایک مشترکہ بیانیہ جاری کیا، جس میں درج تھا کہ: ”ہڑتال سے ان محنت کشوں کے اتحاد و یکجہتی اور محنت کش طبقے کی بڑی یونین کے قیام کے امکانات کا اظہار ہوتا ہے۔ یہ اتحاد اور یکجہتی تمام محنت کشوں کے لیے ایک نمونہ ہے، تمام محنت کشوں کو وسیع پیمانے پر پھیلی ہوئی آزادانہ مزدور تحریک کی ضرورت کا احساس ہونا چاہئیے۔“ ان تنظیموں نے تیل کے شعبے کے محنت کشوں کے مطالبات کو اپنے چارٹر آف ڈیمانڈز میں ضم کر دیا، جن میں آزادانہ مزدور تحریک کا مطالبہ بھی شامل ہے، جس کے ذریعے انہوں نے تیل کے محنت کشوں کی خود مختار یونینز قائم کرنے کے حق کے مطالبے کو آگے بڑھایا۔

طلبہ نے بھی حمایت کرتے ہوئے اسی قسم کا بیانیہ جاری کیا، جس میں درج تھا: ”ہم، اس دیس کے طلبہ، محنت کش طبقے کی جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں اور خود کو اسی طبقے کی اولاد سمجھتے ہیں“۔ انہوں نے مزید آگے کے مطالبات بھی رکھے، جن میں سب کے لیے رہائش، تعلیم، علاج، فلاح و بہبود، 15 تومان کم از کم اجرت جس میں ہر سال افراطِ زر کی مناسبت سے تبدیلی کی جائے، برطرفیوں پر پابندی، نجکاری اور سرکاری اداروں میں نجی معاہدوں پر پابندی کے مطالبات شامل ہیں۔

ریاست نے ہڑتالوں کے حوالے سے مذاکرات کرنے کی پہلی شرط یہ رکھی ہے کہ تیل کے شعبے کے محنت کش پہلے اپنی ہڑتال کو ختم کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ، انہوں نے ہڑتال کو پھیلنے سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے، اور ہر قسم کے جھوٹے وعدوں کا سہارا لیا ہے تاکہ محنت کشوں کو ہڑتال ختم کرنے پر اکسایا جا سکے۔ روحانی حکومت اور صدارتی انتخابات جیتنے والے رئیسی دونوں نے وزارتِ تیل کی جانب سے نوکری پر رکھے جانے والے محنت کشوں کے ساتھ اجرتوں میں اضافے کے وعدے کیے ہیں۔ البتہ محنت کشوں کے ارادے پختہ ہیں، جن کی ہڑتال منظم کرنے والی کونسل نے وضاحت کی: ”ہم محنت کش اپنے حقوق محض اتحاد، یکجہتی اور ثابت قدمی کے ذریعے حاصل کر سکتے ہیں۔ اس میں ایک یا دو مہینے لگ سکتے ہیں، جس کے دوران مالیاتی مشکلات کا سامنا بھی ہوگا۔ مگر ایسا کرنا لازمی ہے، اجرتوں میں برائے نام اضافے کے لیے نہیں بلکہ ضروریاتِ زندگی کے لیے درکار کم از کم اجرت کے تعین کے لیے۔“

ہڑتال کرنے والے محنت کشوں کی ثابت قدمی اور نظم و ضبط کے باوجود، ہڑتالی کمیٹیوں کے مشترکہ پروگرام کو کامیابی سے ہم کنار کرنے کے لیے ضروری ہے کہ تیل کے شعبے سے وابستہ تمام محنت کشوں کو یکجا کیا جائے۔ بعض کام کی جگہوں میں، صرف وہی محنت کش ہڑتال پر ہیں جو غیر مستقل معاہدوں پر کام کر رہے ہیں، جس کے باعث مالکان کو انہیں برطرف کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

بہرحال ہڑتال کے مزید پھیلنے کی گنجائش موجود ہے۔ مثال کے طور پر، عسلویہ کے اندر گیس کے شعبے سے وابستہ محنت کشوں نے بھی دھمکی دی ہے کہ اگر ان کے مطالبات تسلیم نہیں کیے گئے تو وہ 3 اگست کو ہڑتال میں شامل ہوں گے۔ یہ ضروری ہے کہ جدوجہد کو جاری رکھا جائے تاکہ ساتھی محنت کشوں کو مزدور تحریک میں موجود سرمایہ دار طبقے کے کارندوں کی سازشوں سے بچایا جا سکے۔

مزید برآں، اپنے مطالبات کے لیے وسیع پیمانے پر حمایت حاصل کر کے، ہڑتالی کمیٹی کو ایران کے اندر جاری عموعی طبقاتی جدوجہد کے ساتھ فوری جڑت بنانے کی ضرورت ہے۔ خاص کر خوزستان کے اندر، جہاں تحریک جاری ہے اور اب مارشل لاء کا اعلان بھی کیا جا چکا ہے۔ تیل کے شعبے کے محنت کشوں کو مقامی سطح پر دیہات اور محلّوں کی کمیٹیاں قائم کرنے اور انہیں ہڑتالی کمیٹیوں کے ساتھ متحد کرنے کی فوری کال دینی چاہئیے، تاکہ حکومت کے خلاف مشترکہ جدوجہد کو آگے بڑھایا جا سکے۔

بربریت یا انقلاب

ایرانی سرمایہ دار طبقے کی بنیادیں ہمیشہ سے خستہ حال ہیں، اور ملّا ریاست کا حال بھی کوئی مختلف نہیں ہے۔ موجودہ معاشی بحران، جس کے پیچھے امریکہ کی وجہ سے لگنے والی پابندیوں کا بھی ہاتھ ہے، نے سرمایہ دارانہ ریاست کے خونخوار کردار میں مزید اضافہ کیا ہے۔ انفراسٹرکچر اور صنعتیں انہدام کا شکار ہیں۔ اس کی موجودہ علامات میں سے مسلسل ہونے والی لوڈ شیڈنگ اور ملک بھر میں کارخانوں سے ہونے والی برطرفیاں شامل ہیں، جبکہ بے روزگاری کی شرح پہلے سے ہی بہت زیادہ ہے۔ معیشت وینٹی لیٹر پر پڑی ہوئی ہے، جسے پیسے چھاپ کر زندہ رکھا جا رہا ہے جبکہ افراطِ زر کی شرح 50 فیصد سے اوپر ہے۔ تمام مشاہدات کے تناظر میں، ریاست بند گلی میں پھنس چکی ہے۔

یہ صورتحال محنت کش طبقے کے لیے کسی بھیانک خواب سے کم نہیں۔ محنت کش اپنی اجرت کا 90 فیصد محض خوراک پر خرچ کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جبکہ کرونا وباء کی پانچویں لہر جاری ہے۔ صرف 25 جولائی کو 27 ہزار 441 نئے کیس اور 264 اموات رپورٹ ہوئیں۔ مگر حقیقی تعداد اس سے بھی تین چار گنا زیادہ ہونے کے امکانات ہیں۔ کرونا کے حوالے سے حکومتی اقدامات کا نتیجہ لوگوں کو ان کے ذرائع معاش سے محروم کرنے کے علاوہ کچھ نہیں نکل رہا جبکہ میڈیکل سٹاف سے بے تحاشا کام کروا کر بھی انہیں گزارے لائق اجرتیں نہیں دی جاتیں۔ اور ابھی تک آبادی کے محض 2.8 فیصد حصّے کو ہی ویکسین لگائی جا سکی ہے۔ محنت کش طبقے اور غریبوں کی قوتِ برداشت جواب دینے کو ہے، جو مزید خاموش نہیں رہ پائیں گے۔ موجودہ صورتحال میں سماجی دھماکے کی تیاری کی تمام خصوصیات دیکھی جا سکتی ہیں۔

حکمران طبقہ اپنے بحران کی گہرائی سے خوب واقف ہے۔ آج طبقاتی جدوجہد، شعبہ صحت کے محنت کشوں، صنعتی محنت کشوں، بازار میں کام کرنے والوں، کسانوں اور چھوٹے چھوٹے کاروباروں کے مالکان سمیت سماج کی ہر پرت کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ حکمران طبقہ ماضی کی طرح اسلامی اور قوم پرست ہیجان انگیزی پر انحصار نہیں کر سکتا؛ طبقاتی جدوجہد نے پوری ریاست کو بحران میں دھکیل دیا ہے۔ حالیہ صدارتی انتخابات میں ریاست کے مختلف دھڑوں کے مابین مقابلہ بازی کا ڈرامہ ترک کیا گیا تھا۔ اس کے برعکس، ریاستی مشینری انتہائی قدامت پرست رئیسی کے پیچھے کھڑی ہو گئی، جو ابھی صدر منتخب کیا جا چکا ہے (اور جس کی حلف برداری 5 اگست کو ہوگی)۔ آنے والی رئیسی حکومت اور ریاست کا پُر تشدد جبر کے اوپر بڑھتا ہوا انحصار ریاستی مایوسی کی عکاسی کرتا ہے۔ اسی لیے محنت کش طبقے کو لازمی طور پر سیاسی جدوجہد کے لیے تیار ہونا پڑے گا۔

ایرانی سماج میں موجود عمومی اذیتوں کے پیچھے ملّا ریاست اور اس کے خونخوار سرمایہ داروں کا ہی ہاتھ ہے۔ 2020ء سے لے کر اب تک ایران کے کروڑ پتیوں کی دولت میں 27.3 فیصد اضافہ ہوا ہے، جبکہ مزدوروں کو گزارے لائق اجرت میسر نہیں اور کسان قحط کے باعث اپنے ذریعہ معاش سے محروم ہو رہے ہیں۔ ان خونخواروں کو ایرانی عوام کی زندگیوں میں کوئی دلچسپی نہیں، اور جب تک انہیں مجبور نہیں کیا جاتا تب تک وہ اپنی دولت یا اقتدار کو ہاتھ سے جانے نہیں دیں گے۔ ایرانی محنت کشوں کے پاس دو ہی راستے ہیں؛ بربریت یا انقلاب۔

ملّا حکومت کے خلاف ملک گیر جدوجہد کی جانب بڑھو!

کئی سالوں کے احتجاجوں، تحریکوں اور ملک گیر سطح کی ہڑتالوں کے بعد، جو 2018ء سے جاری ہیں، ملّا حکومت ابھی تک عوامی تنظیم اور عوامی قیادت کے فقدان کے باعث بر سرِ اقتدار ہے۔ خوزستان میں ابھرنے والی موجودہ تحریک، 2018ء اور 2019ء کی تحریکوں کی طرح، محنت کش طبقے کی قیادت کی سرگرم اور منظم حمایت کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اگرچہ آزادانہ مزدور تحریک کی کال آگے کی جانب ایک اہم قدم ہے، بہر حال ایران کے اندر بحران کی گہرائی کا تقاضا ہے کہ ملّا حکومت کے خلاف سیاسی جدوجہد کی جائے۔

اس قسم کی تحریک کو وسیع پیمانے پر حمایت حاصل ہوگی، جیسا کہ ماضی کے واقعات سے ظاہر ہوتا ہے۔ ایسی تحریک کے ابھار کے لیے ضروری ہوگا کہ موجودہ مزدور تنظیمیں مشترکہ پروگرام کے گرد متحد ہونے کی مہم کا آغاز کریں۔ اس قسم کے پروگرام میں ان کے موجودہ مطالبات سمیت یہ سیاسی مطالبات بھی شامل ہوں گے کہ: محنت کشوں کے اختیارات کے تحت تمام نجی کمپنیوں کو سرکاری ملکیت میں لینا، اور سرکاری اداروں میں محنت کشوں کے اختیارات متعارف کرانا، اس کے ساتھ ساتھ قانون ساز اسمبلی کے انتخاب کے ذریعے ملّا حکومت کے خاتمے کا کھلے عام پیغام۔

ایرانی محنت کش طبقے نے آمرانہ حکومتوں کے دوران کئی مرتبہ ملک گیر سطح پر مزدور تنظیمیں قائم کی ہیں۔ وہ ایک مرتبہ پھر بھی ایسا کر نے کے اہل ہیں۔ ایسی تنظیم میں محنت کش طبقے کو متحد کرنے کے باعث طبقاتی جدوجہد میں ایک نئے مرحلے کا آغاز ہوگا اور ریاست مکمل طور پر مفلوج ہو کر رہ جائے گی۔ خوزستان میں شروع ہونے والی تحریک ابھی ناکام ہونے سے دور ہے اور اب بھی تیزی کے ساتھ پروان چڑھ سکتی ہے۔ البتہ یہ تحریک کوئی آخری تحریک ثابت نہیں ہوگی۔ ریاست کے پاس عوام کو نہ ختم ہونے والی اذیتوں کے علاوہ دینے کو کچھ نہیں ہے۔ ایرانی عوام مزید اسے برداشت نہیں کریں گے۔ ملّا حکومت کا تختہ تب ہی الٹا جا سکتا ہے اور عوامی مطالبات تب ہی پورے کیے جا سکتے ہیں جب عوام ملک گیر سطح کی مزدور تحریک کے تحت متحد ہو جائیں۔