ملکہ برطانیہ کی موت: ظلم، جبر اور انسانیت دشمنی کی علامت سے جہاں پاک ہوا

برطانیہ پر سب سے طویل حکمرانی کرنے والی ملکہ الزبتھ دوم کا دور ماضی کے استحکام کی علامت تھا۔ اس کی موت نئے بحرانی دور کا اعلان ہے۔۔۔برطانوی اسٹیبلشمنٹ کا ایک اور ستون منہدم ہو کر انقلابی مستقبل کا اعلان کر رہا ہے۔

[Source]

یہ ناگزیر تھا۔ بی بی سی کے ایک نمائندے نے بارگین ہنٹ پروگرام میں مداخلت کرتے ہوئے بکنگھم محل کا ایک اعلامیہ پیش کیا۔

کچھ پہلے ہی خبر دے چکے تھے۔ بی بی سی ورلڈ نیوز کی میزبان یالدا حکیم نے ٹوئٹر پر پہلے ملکہ کی موت کے اعلان کی خبر سنائی اور اس کے بعد اس حوالے سے معافی بھی مانگی۔

آرچ بشپ کینٹر بری جسٹن ویلبی نے ”خدا کی موجودگی“ کا ٹوئٹ کیا۔

لیکن بی بی سی کا اعلان اور ملکہ کے خاندان کا بالمورال محل میں فوری اکٹھا ہونا۔۔۔بیٹے، بیٹی، پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں، سسرال، میکے، شہزادے اور شہزادیاں۔۔۔ہی کافی تھا۔ یہاں تک کہ شہزادہ اینڈریو نے بھی اپنی ماں کی آخری سانس پر گھٹیا چہرہ دِکھا دیا۔

استحکام سے عدم استحکام تک

برطانوی تاریخ کی سب سے طویل حکمران ملکہ الزبتھ دوم کی موت کے بعد ایک دور ختم ہو چکا ہے۔ لیکن وہ اپنے پیچھے کیا چوں چوں کا مربہ چھوڑ گئی ہے!

وہ 70 سال تخت پر براجمان رہی۔۔۔اوریہ کیا سال تھے!

ہے!

الزبتھ خوش قسمت تھی کہ وہ ایک عالمی معاشی اُٹھان کے دور میں تخت پر براجمان ہوئی جس کی بنیاد پر عوام میں مستقبل کے حوالے سے امیدیں پیدا ہوئیں۔ یہ اُٹھان 25 سال جاری رہی جن میں بڑھتے معیارِ زندگی نے سماجی استحکام قائم رکھا۔

لیکن 1974ء کے عالمی معاشی بحران کے بعد اگلے 50 سال یکسر مختلف تھے اور برطانوی سرمایہ داری کے بڑھتے مسائل اور تیز تر انہدام نے جنگجو صنعتی مزدور بغاوتوں اور طبقاتی جدوجہد کے دور کا آغاز کر دیا۔

1970ء کے انتشار نے تھیچرازم اور برطانیہ میں صنعتی انہدام کو جنم دیا۔ یہ بذاتِ خود سماج میں بڑھتی سماجی پولرائزیشن کا اظہار تھا۔

اسٹیبلشمنٹ کا ستون

ان سالوں میں بادشاہت اسٹیبلشمنٹ کا وفادار ستون رہی۔

شاہی سوانح نگار اور ”ہمارے عہد کی ملکہ“ کے مصنف رابرٹ ہارڈمین کے مطابق ”وہ مستقل مزاجی، بقاء اور استحکام کی علامت تھی“۔

فنانشل ٹائمز نے بھی انہی جذبات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ ”وہ برطانیہ کے لئے دوسری عالمی جنگ کے بعد سے اکسویں صدی تک مستقل مزاجی اور استحکام کی علامت تھی“۔

بادشاہت کا مقصد ہی یہ تھا کہ سیاست سے بالاتر ہو کر ”قوم کا نجات دہندہ“ بنا جائے۔ ہر شاہانہ تقریب، واقعہ اور دقیانوسی تقریر کو انتہائی احتیاط سے مستقل مزاجی کے ساتھ اس خیال کی ترویج کیلئے استعمال کیا جاتا تھا۔

بحران زدہ بادشاہت

لیکن برطانوی سرمایہ داری کے بحران کے ساتھ اس کے اداروں کا بحران شدت اختیار کرتا گیا جن میں بادشاہت بھی شامل ہے۔

شاہی خاندان کی مختلف شخصیات کی آپسی میں لڑائیاں اور چپقلشیں، کھلے عام غیر فعال ذاتی تعلقات، سکینڈل اور غلاظت کی بدبو۔۔۔شاہانہ ڈھول تماشے اور دکھاوے کے پیچھے یہ کوڑا کچرا گلتا سڑتا رہا۔

خاص طور پر بچوں سے جنسی زیادتی کے ایک سزا یافتہ مجرم کے ساتھ شہزادہ اینڈریو کے تعلقات ”دی فرم“ (بادشاہت اور شاہی خاندان کے لئے استعمال کی جانے والی اندرونِ خانہ اصطلاح) کے گلے کا طوق بن گئے۔

اس ساری صورتحال میں بادشاہت کا کام ان طوفانوں سے بچتے ہوئے، تمام لڑائیوں اور چپقلشوں سے بلند تر ہو کر استحکام کے احساس کا احیاء کرنا تھا۔

انتشار اور ہنگامہ خیزی

لیکن یہاں اعتراف کرنا پڑے گا کہ اس کی طویل عمری اور مسند پر براجمانی سے دیگر شاہی شخصیات کے برعکس الزبتھ کے حوالے سے عوام میں کچھ مخصوص دلفریب جذبات موجود ہیں۔

ایسا لگتا تھا کہ تمام تر مسائل خاص طور پر 1992ء کے ”بھیانک سال“ (اس سال دونوں شہزادوں چارلس اور اینڈریو کی شادیاں ختم ہوئیں، چارلس کی بیوی ڈیانا نے ساری دنیا کو محل کی خوفناک زندگی اور شہزادے کی معشوق کامیلا کا بتایا، اینڈریو کی بیوی سارہ کی اپنے عاشق کے ساتھ تصویریں شائع ہوئیں، ملکہ کی اکلوتی بیٹی این کی طلاق ہوئی، شاہی خاندان کے مختلف اشخاص کی ریکارڈنگ پر میڈیا کا سکینڈل فاش ہوا؛ ایک وقت ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اندرونی لڑائیوں اور سکینڈلوں کی تپش میں شاہی خاندان ختم ہو جائے گا) کے باوجود وہ معاملات کو مستحکم اور فعال رکھتی ہے۔

برطانوی سرمایہ داری کے بڑھتے بحران کے ساتھ وہ ماضی کے استحکام کی نشانی تھی جس کیلئے کچھ لوگ اشکبار تھے۔۔۔ایسا ماضی جو ہمیشہ کے لئے ختم ہو چکا ہے۔

شدید سماجی اور معاشی ہنگامہ خیزی کے دوران اس کی موت کا مطلب ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا انتہائی اہم ستون برباد ہو چکا ہے۔

حکمران طبقے کے لئے یہ انتہائی خطرناک ہے کیونکہ چند دن پہلے ہی نئی وزیرِ اعظم بھی منتخب ہوئی ہے۔

ملک میں ایک ہی ہفتے میں ایک نئے بادشاہ اور ایک نئی وزیر اعظم برطانوی سرمایہ داری کے شدید انتشار کا اظہار ہیں اور عدم استحکام مزید تیز تر ہو گا۔

یہ خیال کہ چارلس آگے بڑھ کر کوئی بھی کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے خام خیالی ہے۔ اس کے حوالے سے عوامی جذبات مختلف ہیں۔۔۔اتنے مختلف کہ کچھ نے بادشاہت اگلی نسل کو منتقل کرنے کی بات کی ہے۔

خفیہ ہتھیار

آج کے بعد اب یہ بادشاہت تبدیل ہو چکی ہے۔ اس کی ساکھ مجروح ہے اور عوام کی روزمرہ زندگی سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

حکمران طبقے نے کسی لطیف جذبے کے تحت بادشاہت کو قائم نہیں رکھا بلکہ اس کی بنیاد طبقاتی مفادات ہیں۔

حکومت اور افواج اپنی وفاداری کا حلف بادشاہ یا ملکہ کے نام پر لیتے ہیں۔ بادشاہت کے پاس ایسے حقوق اور طاقتیں موجود ہیں جو کسی بھی ایمرجنسی میں استعمال کئے جا سکتے ہیں اور استعمال کئے جائیں گے۔

ان حقوق اور قوتوں کا استعمال اس وقت ہو گا جب برطانوی سرمایہ داری کو حقیقی خطرات لاحق ہوں گے۔

دوسرے الفاظ میں بادشاہت وہ خفیہ ہتھیار ہے جسے بحران کے ادوار اور خاص طور پر انقلابی ادوار میں استعمال کیا جاتا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ بادشاہت 1960ء کی دہائی میں ولسن حکومت کے خاتمے اور اس کی جگہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی آمریت لاگو کرنے کی منصوبہ بندی میں ملوث تھی۔ سازش کی ناپختگی کے سبب اسے ترک کر دیا گیا۔

1975ء میں شاہی استحقاق کو استعمال کرتے ہوئے آسٹریلیا کی لیبر پارٹی کے جمہوری منتخب گَف وہیٹ لام کی حکومت کو برخاست کر دیا گیا۔ یہ ایک مشق تھی کہ برطانیہ میں بھی ایسا کرنا پڑ سکتا ہے۔

یہ بادشاہت کا حقیقی رجعتی کردار ہے جسے مستقبل میں محنت کش تحریک کے خلاف استعمال کیا جائے گا۔

اس کے باوجود بدقسمتی سے ٹریڈ یونین قیادتیں شاہی خاندان کو ”تعزیت پیش کرنے میں“ ایک دوسرے پر سبقت لینے کی کوششیں کر رہے ہیں جس میں ہڑتالیں منسوخ اور اس سال کی ٹریڈ یونین کانگریس ملتوی کر دی گئی ہے۔

طبقاتی تقسیم

ہم واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ تمام ڈھول تماشے اور دکھاوے کے پیچھے حکمران طبقے کا انتہائی خطرناک ہتھیار چھپا ہوا ہے۔

لیکن آج یہ ہتھیار کند ہو چکا ہے۔ اس میں ملکہ کی موت اور چارلس اور کامیلا کی تخت پر براجمانی نے بھی کردار ادا کیا ہے۔

اس تبدیلی کا حکمران طبقے کے لئے اس سے برا وقت نہیں ہو سکتا تھا۔

آج برطانیہ اور پوری دنیا ایک تاریخی ہولناک بحران کا شکار ہے۔

اسٹیبلشمنٹ ملکہ کی موت کو سفاکی سے استعمال کرتے ہوئے بڑھتی طبقاتی جدوجہد کا سدِ باب کرنے کی کوشش کرے گی۔ دس دن کے سرکاری سوگ کے دوران جھنڈے لہرا لہرا کر شاونسٹ موڈ اور غلیظ قوم پرستی کو ابھارنے کی کوششیں کی جائیں گی۔

لیکن قوم پرستی اور ”قومی اتحاد“ کا موڈ قلیل مدتی ہو گا اور بڑھتے بحران کے ساتھ طبقاتی خلیج مسلسل بڑھے گی۔ موجودہ توانائی کا بحران، سر پر کھڑی کساد بازاری اور معیارِ زندگی پر تابڑ توڑ حملے ان سلگتے عوامی مسائل کو زیادہ بلند پیمانے پر سامنے لے کر آئیں گے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹرس کی نئی حکومت کے بیوقوفانہ اقدامات بھی ایک معیاری کردار ادا کریں گے کیونکہ اس حکومت کا مقصد ہی مالکان کی نوکری میں محنت کشوں پر طبقاتی جنگ لاگو کرنا ہے۔

بادشاہت ختم کرو!

حکمران طبقے کا استحکام بخارات بن کر اُڑ چکا ہے اور اس کی جگہ مسلسل نامیاتی عدم استحکام نے لے لی ہے۔ ہر ٹھوس شے اب تحلیل ہو رہی ہے۔

واقعات شعور کو جھنجھوڑتے ہوئے انقلابی شورش کی بنیاد رکھیں گے۔

بادشاہت کا کند اور مجروح ہتھیار حکمران طبقے کے ہاتھوں میں ایک ناکارہ اوزار ہو گا۔ ایک ایک کر کے پرانے نظام کے ستون زمین بوس ہو رہے ہیں۔

ملکہ الزبتھ دوم کی موت ایک دور کے اختتام کا اعلان ہے۔۔۔عمومی امن کا دور اور اب ایک نئے طوفانی پرطلاطم خیز دور کا آغاز ہوا چاہتا ہے۔

برطانیہ میں سوشلسٹ انقلاب سرمایہ داری کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکے گا۔ اس عمل میں بادشاہت کی غلیظ گلی سڑی عمارت اور اس سے منسلک تمام جاگیردارانہ خباثت کا خاتمہ بھی ہو گا۔