یورو کا بحران اور بائیں بازو کا تذبذب

یونان کا بحران ایک فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو رہا ہے۔ موجودہ الیکشنوں سے پیشتر بے شمار یقین دہانیاں کروائی گئیں تھیں لیکن ہر کوئی جانتا ہے کہ نقصانات کو کم سے کم کرنے کے لئے در حقیقت یونان کو یورو زون نکالنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں جس کا تمام تر ملبہ بعد میں ’’غیر ذمہ دار‘‘ یونانی شہریوں پر ڈال دیا جائے گا۔

رمایہ دار یورپ (اور در حقیقت پوری دنیا کے) نا خدا ایسے بھنور میں جا پھنسے ہیں جس سے نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ماضی قریب میں کچھ سخت گیر عناصر ’’غیر ذمہ دار ‘‘ یونانیوں کا راگ الاپتے ہوئے یہ دھمکیاں سے رہے تھے کہ یورپین سنٹرل بینک، یورپی یونین اور آئی ایم ایف کی شرائط نہ ماننے کی صورت میں یونان کو الگ کر کے اس کے حال پہ چھوڑ دیا جائے گا۔لیکن اس بات کا ادراک ہونے کے بعد ان کا رویہ کچھ نرم ہونا شروع ہو گیا کہ یونان کے یورپی یونین سے اخراج سے بات ختم نہیں ہوگی بلکہ ایک نہ ختم ہونے والے زنجیری عمل کا آغاز ہو گا جس کے خوفناک اثرات کا اندازہ بھی شاعد ممکن نہیں۔

لیکن کسی کے پاس اس مسئلے کا متبادل حل بھی موجود نہیں ہے۔ اگر یونان کو معاہدات سے منحرف ہونے کی اجازت دی جاتی ہے تو دوسرے مقراض ممالک بھی اسی نرمی کا مطالبہ کریں گے جس سے ایک کرنسی پر اعتماد اور پبلک و پرائیویٹ قرضوں کے معاہدوں پر اعتماد گر جائے گا۔

یورو بانڈز: مسئلے کا حل یا نیا مسئلہ؟

پبلک قرضوں کا مسئلہ اب براہِ راست سپین کی جانب رخ موڑ رہا رہے، جس کے بعد اگلی باری اٹلی کی ہو گی اور تضادات یورو زون کے قلیدی تصور ہر سوالیہ نشان اٹھا رہے ہیں۔سپین اور اٹلی کی معیشتوں اور قرضوں کے حجم کو دیکھنے کے بعد ایک کرنسی کے بحال رہنے کے تمام تر خواب چکنا چور ہوتے ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔جرمن حکومت کے سخت گیر رویے سے تشویش اور احتجاجات کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو رہا ہے جس میں اٹلی، فرانس، سپین حتیٰ کہ اوبامہ انتظامیہ ایک مشترکہ سیاسی اتحاد کے ساتھ جرمنی کی حکومت سے قرضوں کی شرائط نرم کرنے اور سرمایہ کاری کے لئے کچھ رقم خرچ کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔اس سلسلے میں نیا نعرہ ’’یورو بانڈز‘‘ کا لگایا جا رہا ہے۔

ایسے بانڈز جاری کرنے کی تجویز پیش کی جارہی ہے جن کی ضمانت انفرادی ریاستوں کی بجائے یورو زون کے تمام ممالک ایک خصوصی فنڈ یا بنک کے ذریعے دیں۔ تاکہ زیادہ شرح سود پر قرضے ادا کرنے والے کمزور ممالک کے مسائل کا تدارک کیا جا سکے جبکہ دوسری طرف جرمنی ایک فیصد سے بھی کم شرح سود پر قرض لے سکتا ہے۔کاغذ پر یہ سب بہت معقول لگتا ہے، یعنی کے طاقتور ممالک کمزور ممالک کی مدد کرنے کا بیڑہ اٹھائیں اور کمزور ممالک مل جل کر قرضوں کے مسئلے سے چھٹکارہ پانے کے خواہشمند ہیں۔

اگر ایک لمحے کے لئے یہ فرض بھی کر لیا جائے کہ یہ سب کچھ ممکن ہے تو آئیے اس کے نتائج پر غور کرتے ہیں:سب سے پہلے تو یہ بات واضح نہیں ہے کہ ایک ایسا فنڈ جس کے ضامن اٹلی اور جرمنی جیسے متضاد معاشی کیفیت رکھنے والے ممالک ہوں گے کیونکر قابلِ برداشت اور متفقہ شرح سود پر قرضے مہیا کر سکے گا؟منڈیوں میں اس سے یہ نتیجہ نکلے گا کہ ’’بری ‘‘ معیشت کا اثر ’’اچھی‘‘ معیشت پر پڑ سکتا ہے لہٰذہ زیادہ شرح سود کا مطالبہ کیا جائے گا۔دوسری طرف اگر قومی بانڈز اور یورو بانڈز پر مبنی دوگلی منڈی مختلف ممالک کے درمیان دوبارہ پھر انہی اختلافات اور تضادات کو ابھارے گی جو اس وقت موجود ہیں۔یعنی یورو بانڈز معاشی خطرات(risk) کو تمام ممالک میں تقسیم کرنے کی بجائے اس کے الٹ کا باعث بنیں گے اور معاشی بحران کی وباء کے پھیلاؤ کا باعث بنیں گے۔

یورو کا بحران، یورپ کا بحران

اصل مسئلہ تکنیکی اصطلاحات یا ایک دوسرے پر الزام تراشی کرنے والی حکومتوں کے درمیان تنازعات پر مبنی نہیں ہے۔بلکہ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یورو کا بحران بذاتِ خود کوئی مسئلہ نہیں بلکہ عالمی سرمایہ داری کے بحران کی ایک کڑی اور اظہار ہے۔قرضوں کا بحران اور ایک کرنسی کو قابو کرنے میں مشکلات اپنے آپ میں کوئی وجہیں نہیں ہیں بلکہ سرمایہ داری کے بنیادی تضادات کا ایک اظہار ہیں۔یورپی ممالک ایک ایسی سرمایہ دارانہ معیشت کے اندر مقابلہ بازی کے لئے بہت چھوٹے ہیں جس میں پیداوار اور دولت بہت عرصہ پہلے ہی قومی ریاست کی حدود سے تجاوز کر چکے ہیں۔ساٹھ سال سے یورپی بورژوازی اس تضاد کو معاشی انضمام کے طریقوں سے حل کرنے کی کوشش کرتی چلی آرہی ہے۔اس بحران سے اس مارکسی تناظر کی تصدیق ہوتی ہے کہ نجی ملکیت اور قومی ریاست کی محدودیت انسانیت کے ذرائع پیداوار کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

جرمی کے سابق وائس چانسلر اور وزیرِ خارجہ جوسکا فشر نے 26مئی کو ایک انٹرویو میں دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ پورا یورپ اگر ایک وفاقی ریاست کی شکل اختیار نہیں کرتا تو یہ بحران ایک تباہ کن شکل اختیار کر لے گا۔اپنے انٹرویو میں انہوں نے کہا ’’ یا تو یورو ٹوٹے گا، بڑے پیمانے پر دوبارہ سے نیشنلازیشن ہوگی، یورپی یونین بکھر جائے گی جس سے ابھرنے والا عالمی معاشی بحران اتنا گہرا ہو گا کہ ہماری نسل نے پہلے کبھی ایسا نہیں دیکھا ہو گا۔یا پھر پورا یورپ، یورو زون کی ایک سیاسی یونین کی طرف آگے بڑھے گا۔یورو زون کی حکومتیں اور عوام زیادہ دیر تک معاشی نمو میں رکاوٹ بننے والی آسٹیریٹی کو برداشت نہیں کریں گے۔ میں آنے والے چند مہینوں یا ہفتوں کی بات کر رہا ہوں‘‘۔

فشر دراصل ایک قومی اتحاد کی بات کر رہا ہے جو’’ یورو بانڈز کو استعمال کرتے ہوئے پورے یورپ کی مالیاتی و سیاسی یونین کی طرف بڑھے گی‘‘۔اس سلسلے میں پہلا مرحلہ میں بقول فشر ’’تمام قرضے کو اجتماعی طور پر یورپ کی تحویل میں لینا ہو گا۔ہمیں ایک وفا ق کے قیام کے لئے ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔1781ء میں امریکہ میں بھی ایسی ہی صورتحا ل تھی۔ الیگزینڈر ہملٹن نے اس صورتحا ل میں کیا کیا؟اس نے تمام ریاستوں کے قرضے کو وفاق کی تحویل میں لے لیا جو کہ برطانیہ کے خلاف جنگ کی وجہ سے پہلے دیوالیہ ہو چکی تھیں۔اگر اس نے ایسا نہ کیا ہوتا تو نو مولود کنفیڈریشن بچ نہ پاتی۔ ہمیں بھی جلد از جلد یہی کرنا ہوگا‘‘۔

فشر جو کہ ماضی میں انتہائی بائیں بازو کی لفاضی کرتا رہا ہے اب دراصل اپنے آپ کو ایک ماہر تاریخ دان کے طور پر روشناس کروانے کی کوشش میں یہ مشورہ دے رہا ہے کہ یورپ میں ایک سرمایہ دارانہ انقلاب کی ضرورت ہے جیسا کہ امریکہ میں 1776ء میں وقوع پزیر ہو ا تھا۔لیکن صرف دو سو سال سے وقفے سے!

کیا فشر (اور اس طرح کے دوسرے درمیانے بائیں (centre left) کے نمائندوں )کی جانب سے پیش کئے گئے تاریخی تجزئے میں کوئی معقولیت نظر آتی ہے؟امریکہ کی پیدائش ابھرتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام کے ترقی پسند کر دار کی مرہونِ منت تھی۔یہ انقلاب پر مبنی ایک سماجی جراحی کا عمل تھا جس کی حتمی فتح ایک صدی کے بعد ایک خونی خانہ جنگی (1860-55)پر مکمل ہوئی اور اس خانہ جنگی میں بھی سوال ایک ’’ایک کنفیڈریشن یا فیڈریشن ‘‘کا تھا۔اس تاریخی عہد میں نہ صرف ابھرتی ہوئی بورژوازی بلکہ محنت کش طبقے نے بھی انقلابی عمل کی حمایت کی جیسا کہ یورپ میں قومی ریاست کی حمایت میں محنت کش طبقے کے مفادات بھی پوشیدہ تھے۔

لیکن آج کی صورتحال کیا ہے؟آج بورژوازی کے پاس دینے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے۔موجودہ بحران سے پیشتر بھی یورپ کا انضمام آبادی کی اکثریت کے لئے نقصان دہ ہی تھا: نجکاری، گرتی ہوئی قوتِ خرید، کم ہوتی ہوئی اجرتیں، فلاحی بجٹ میں کٹوتیاں۔۔ اور آج یہ تمام چیزیں کٹوتیوں کی وجہ سے پورے برِ اعظم میں اپنی انتہا کو پہنچ گئی ہیں۔

بورژوازی اندرونی طور پر تقسیم کا شکار ہے۔اس کے ایک دھڑے نے ایک منڈی اور یورو کے قیام سے بڑے پیمانے پر فائدے اٹھائے ہیں، جن میں جرمنی کی مالیاتی اور پیداواری صنعت شامل ہے۔جبکہ بورژوازی کے بہت بڑے حصے خاص طور پر درمیانے اور چھوٹے پیمانے کے کاروبارخاص طور پر چھوٹے ممالک مثلاً اٹلی میں تباہ ہو کر رہ گئے ہیں اور کسی بھی قسم کی معاشی یا سیاسی فیصلہ سازی میں شریک نہیں ہیں۔آخر کون سی قوت اس صورتحال میں سرمایہ دارانہ بنیادوں پر یورپ کو متحد کرتے ہوئے دو صدیوں کے بعد بورژوا انقلابوں کی دہرائے گی؟

تھیوریٹیکل نقطہ نظر سے یورپ کا اتحاد پیداواری قوتوں کی بڑھوتری کے لئے ضروری ہے۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ فریضہ موجودہ طرزِ پیداوار کی حدود کے اندر مکمل نہیں ہو سکتا۔ایسی بنیادوں پر اتحاد کی کوششیں یا تو ناکام ہو ں گی یا پھر پہلے سے زیادہ نقصان دہ۔یہ کوئی حادثہ نہیں ہے کہ گزشتہ بیس سال سے جاری یورپ کو متحد کرنے (اور رکھنے )کے عمل کے ردِ انقلابی اور نقصان دہ نتائج برآمد ہوئے ہیں۔سماجی حالات، فلاحی ریاست، ٹریڈ یونین اور جمہوری حقوق، سب پر اس کے منفی اثرات پڑے ہیں۔نہ صرف ایسے کسی مقصد کے لئے عوامی حمایت کا ملنا نا ممکن ہے بلکہ اس کے لئے آمرانہ طریقہ کار چاہئے ہو گا جیسا کہ یونان کی صورتحال سے واضح ہے۔

ایک بنیادی تضاد یورپی بحران سے نمٹنے کی تمام تر تجاویز کو ناکام بنا دیتا ہے۔تمام قومی قرضوں کو وفاقی تحویل میں لینے کی تجویز کا مطلب ہے پورے یوروزون کا ایک بجٹ، ٹیکس اور ٹیکس اکٹھا کرنے کا ایک نظام۔۔ یعنی کہ ایک متحدہ ریاست۔ لیکن سرمایہ داری کے عالمی نظام کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ایسا بالکل بھی با ممکن نظر آتا ہے۔

اصلاح پسندی کا کردار

اصلاح پسند افسر شاہیاں ہمیشہ بورژوازی کی پیروی کرتی ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ وہ طاقتور بورژوازی کو سجدہ کرتی ہیں۔انہوں نے موجودہ چند دہائیوں میں یورپی انضمام کے عمل کی اس امید پر حمایت کی کہ اس کے سماجی اصلاحات کی بنیادیں فراہم ہو سکیں گی۔آج کل وہ جرمن سرمایہ سے چپکے ہوئے ’’ غیر ذمہ دار اور خود غرض ‘‘ نہ ہونے اور کمزور ممالک کو بچانے کی فریاد کر رہے ہیں جس کا مقصد درحقیقت سماجی بھلائی کی لفاظی کی ضمانت لے کر اپنے سیاسی کیریر بچا نا ہے۔اپنے طور پر کسی قسم کے قابلِ قدر نتائج نہ ملنے کے بعد اب وہ مونٹی، ہالیندے اور راجوئے کے پیچھے اس امید پر پھر رہے ہیں کہ وہ برلن کو کسی قسم کی نرمی پر آمادہ کر سکتے ہیں۔

کئی دہائیوں سے یورپ کے اتحاد کا تصور یورپ کی بڑی سیاسی قوتوں میں بہت مقبول رہا ہے۔یورپین پاپولر پارٹی، یورپی سوشلسٹ اور لبرل ڈیموکریٹک گروپس نے دوسرے بہت سے قومی معاملات کے ساتھ ساتھ اس عمل کے حمایت کی ہے اور آج تک کر رہے ہیں۔نجکاری اور فلاحی ریاست کے خلاف محنت کشوں کے آواز کو ماند کرنے کے لئے ٹریڈ یونین افسر شاہی نے جب بھی اس اتحاد کی تھوڑی بہت مخالفت کی تو اس آواز کو ’’یورپ کو اس کی ضرورت ہے‘‘ کے نعرے سے دبا دیا گیا۔

بحران نے اس تمام تر اتحاد کی اصلیت کو بے نقاب کر دیا ہے اور اس کی حمایت کرنے والی سیاسی قوتوں کو بھی بحران زدہ کر دیا ہے۔موجودہ الیکشن کے نتائج اس بات کی گواہی دے رہے ہیں۔یونان میں جن جماعتوں نے ’’یاد دہانی‘‘ (Memorandum)پر دستخط کئے تھے، جو کہ در حقیقت یونان کے عوام کا گلا گھونٹنے کا ایک معاہدہ ہے، وہ الیکشن میں بری طرح سے کچلی گئی ہیں۔ ان میں پیسوک قابلِ ذکر ہے۔دوسری طرف سوشلسٹ ہالینڈے کی فرانس میں کامیابی کے بعد سٹاک مارکیٹ میں بہتری دیکھنے کو ملی۔منڈیاں الیکشن میں کئے گئے سماجی انصاف کے وعدوں سے زیادہ خوفزدہ نہیں تھیں، بلکہ ان میں مارکل سرکوزی گٹھ جوڑ کے ٹوٹنے کے بعد کچھ ’’بڑھوتری ‘‘ کی امید ہے جو کہ یورپی یونین کی لاکھوں لوگوں میں گرتی ہوئی ساکھ میں کچھ بہتری لا سکے۔

یورو سے اخراج؟

فرانس میں میلاشون، یونان میں سیریزا اور سپین میں بائیں بازہ کے اتحاد کی الیکشن میں مقبولیت سے اندازہ ہوتا ہے کہ لوگ یورپی سوشلسٹوں کے بائیں بازوکو ایک متبادل کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔لیکن یہاں یہ باتا ضروری ہے کہ ان بائیں بازو کی سیاسی قوتوں کی قیادت کو یورو کے بحران کی واضح اور ٹھوس سمجھ بوجھ نہیں ہے۔

سرمایہ داری کے اندر رہتے ہوئے قومی کرنسیوں میں واپسی سے عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔یوبی ایس سوٹزر لینڈ کی جانب سے ستمبر میں شائع کی گئی ایک تحقیقی رپورٹ سے یونان کے یورو سے نکلنے کی صورت میں پیدا ہونے والے حالات کا اندازہ ہوتا ہے:

’’تمام عناصر کو مدِ نظر رکھتے ہوئے، علیحدہ ہونے والے ملک 9500سے 11500یورو فی کس کی قیمت ادا کرنی ہوگی (۔۔۔)اور اس کے بعد 3000سے 4000یورو فی کس کی قیمت ہر سال ادا کرنی ہوگی۔یہ بہت محتاط اندازے ہیں۔ سماجی انتشار کے معاشی نتائج، علیحدہ ہونے والے ملک کا ٹوٹ جانا وغیرہ وغیرہ ان میں شامل نہیں‘‘۔

’’قومی آزادی‘‘ عالمی بحران کاپریشر برداشت نہیں کر سکتی۔برطانیہ کی مثال ہمارے سامنے ہے جس جو کہ یورو سے باہر ہے اور اس کی کرنسی فرضی لیرا یا دراشما سے کہیں زیادہ مظبوط ہے۔بعض تحقیقات کے مطابق علیحدگی کی صورت میں معیارِ زندگی میں گراوٹ 1930ء سے بھی بد تر ہوگی۔

سرمایہ داری اور ایک کرنسی کے اندر رہتے ہوئے یورپی یونین کے ڈھانچے میں اصلاح کر نے کا خیال بھی اتنا ہی خوفناک ہے۔’’جمہوری اور عوامی ‘‘ یورپ کا جو خواب ہمیں برسوں سے دکھایا گیا تھا جو معاشی عروج کے زمانے میں پورا نہیں ہوا وہ اس بحران کے عہد میں کیسے پورا ہو سکتا ہے؟ بائیں بازو کی کوئی بھی قیادت پچھلے چار سال سے جاری اس بحران کاتجزیہ کرنے سے ناکام رہی ہے۔یورپ کے بائیں بازو کے متبادل رہنما جن میں سیریزا کو حمایت کرنے والے بھی شامل ہیں، اس دھوکے میں مبتلا ہیں کہ میمورنڈم پر دستخط کئے اور یورو سے نکلے بغیر بہتری ہو سکتی ہے۔

بحران زنجیر کی نازک کڑیوں کو توڑنے کی طرف بڑھ رہا ہے، جس کا مطلب ہے کہ اپنی نوعیت میں ایک عمل ہونے کے باوجود اس کا اثر مختلف ممالک میں مختلف طریقے سے پڑے گا۔آج یونان میں اور کل سپین اور اٹلی میں بائیں بازو کی قوتوں کو متبادل کے متلاشی لاکھوں لوگوں کو ٹھوس جوابات اور لائحہ عمل دینا ہوگا۔یونان کے تجربے سے ہم یہ سبق سیکھ سکتے ہیں جہاں سیریزا جیسی ایک پارٹی جسے کچھ سال پہلے تک ایک پارلیمانی گروپ کے طور پر اپنا وجود برقرار رکھنے میں بھی دشواری تھی، کچھ ہی عرصے میں حکومت بنانے کے قریب پہنچ گئی۔

اس صورتحال میں کچلے جانے سے بچنے کے لئے اسے ڈرامائی اقدامات کرنے ہوں گے: میمورنڈم کی تنسیخ، قرضوں کی ضبتگی، سرمایے کی تمام تر حرکت کی فوری روک تھام، بینکوں کی نیشلائزیشن وغیرہ وہ اقدامات ہیں جو عوام کے معاشی حالات میں بہتری کے لئے اور معیشت کا کنٹرول سنبھالنے کے لئے کرنے ہوں گے۔

اگر اس طرح کا کوئی عمل جرمنی میں شروع ہوتا ہے تو یہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ ایک کرنسی کا وجود بذاتِ خود ایک انقلابی تبدیلی کی بڑھوتری کا باعث بن سکتا ہے۔لیکن در حقیقت حالات دوسری طرف جا رہے ہیں اور ایک متبادل معاشی پالیسی کو آخر کار ایک کرنسی (یورو) سے ٹکراناپڑے گا۔

ان حالات میں یہ ضروری ہے کہ ہم مزدور تحریک میں ایک بحث کا آغاز کریں۔جو کچھ یونان میں ہو رہا ہے وہ ہماری توقعات سے بھی جلد سپین اور اٹلی میں ہو سکتا ہے۔سرمایہ دارانہ یورپ کے انہدام کی بنیادوں پر ہی ایک حقیقی یونین تعمیر ہو سکتی ہے۔نہ صرف یورپ بلکہ پورے کرہ عرض پر صرف ایک ایسی معیشت کی بنیاد پر آگے بڑھتے ہوئے ہی انسانی اتحاد کی جمہوری اور سوشلسٹ بنیادیں قائم کی جاسکتی ہیں جو سرمائے کے تسلط سے آزاد ہو۔

Translation: The Struggle (Pakistan)