غلاموں کے غلام

تاریخ گواہ ہے کہ کسی بھی نظام کا عروج ہو یا زوال، حکمران اس کی قیمت محکوم طبقے سے ہی وصول کرتے ہیں۔ آج سرمایہ دارانہ نظام اپنی تین سو سالہ تاریخ کے بدترین معاشی بحران کا شکار ہے۔ اس بحران سے نکلنے کا کوئی طریقہ اس نظام کے معیشت دانوں کے پاس نہیں ہے۔ تیسری دنیا کے سابق نو آبادیاتی ممالک میں آبادی کی وسیع اکثریت کو مغرب کے ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک کا بلند معیار زندگی نصیب نہیں ہوا۔ لیکن یورپ اور امریکہ میں بھی وہ مراعات اور سہولیات محنت کش طبقے سے چھینی جارہی ہیں جو انہوں نے کئی صدیوں کی جدوجہد کے ذریعے حاصل کی تھیں۔

پاکستان جیسے ممالک کے عوام نے کبھی خوشحالی اور آسودگی کا رخ نہیں دیکھا۔ انہیں کبھی ’’نیم انسانی‘‘ زندگی گزارنے کا موقع بھی نہیں ملا۔ مسلسل زوال پزیر معیشت نے آج ذلتوں کو ہولناک بربادیوں میں بدلنا شروع کردیا ہے۔ نہ صرف تیسری دنیا کے ان سماجوں کی سیاست اور معیشت سامراج کے تسلط میں ہے بلکہ سماجی اقدار کا تعین بھی سامراجی آقا کرتے ہیں۔ ’’انسانی حقوق‘‘، جمہوریت اور ’’آزادی‘‘جیسی اصطلاحات سامراجی منافقت کا چربہ بن کے رہ گئی ہیں۔ یہاں کے حکمران، این جی اوز اور ’’سول سوسائٹی‘‘ سامراج کے دوہرے معیاروں کو ہی اصل معیار تسلیم کر کے اس منافقت کو پورے سماج پر تھونپ دیتے ہیں۔ ’’ہیومن رائٹس واچ‘‘ اور ’’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘‘جیسے ادارے بھی دوسری این جی اوز اور ریاستوں کے ذریعے ’’انسانی حقوق‘‘ اور سماجی اقدار کی تمام تعریفوں کو اس معیار کے مطابق ترتیب دیتے ہیں جس سے سامراجی مفادات پر کوئی ضرب نہ لگے۔ سامرج کے ناپسندیدہ حکمران اور ریاستیں درندہ صفت اور انسانی حقوق کی پامالی کے مرتکب قرار پاتے ہیں جبکہ پہلی اور دوسری عالمی جنگوں میں آٹھ کروڑ پچاس لاکھ انسانوں کی جان لینے والا سامراج ہر جرم سے بری قرار دے دیا جاتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد کوریا، ویت نام، فلپائن، انڈونیشیا، تھائی لینڈ، ہانڈراس، فلسطین، نکاراگوا، سوڈان، یمن، سومالیہ، کانگو، موزمبیق، انگولا، شام، لیبیا، ایل سلواڈور، کولمبیا، ونزویلا، عراق، افغانستان، پاکستان اور چلی جیسے ممالک میں سامراج کی براہ راست قتل و غارت گری یا وحشیانہ آمریتوں کے ذریعے بالواسطہ درندگی کو بھی ’’انسانی حقوق‘‘ کی خلاف ورزی کے زمرے میں لایا جانا منع ہے۔

سامراج کا ہمارے حکمرانوں، ریاستوں، سفارت کاری، خارجہ پالیسی وغیرہ پر کنٹرول معاشی غلبے کی وجہ سے ہے۔ نوآبادکاری کی اس نئی شکل کا آغاز دوسری جنگ عظیم کے بعد ہوا تھا۔ 1944ء میں بریٹن ووڈز معاہدے کے تحت معاشی، تجارتی و اقتصادی نظام اور منڈی کا ایسا عالمی ڈھانچہ ترتیب دیا گیا جس مقصد براہ راست حاکمیت کے خاتمے کے بعد بھی سامراجی استحصال کو جاری و ساری رکھنا تھا۔ ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور بعد ازاں WTO جیسے مالیاتی ادارے سامراجی استحصال کی مشینری کو رواں رکھنے کے لئے بنائے گئے تھے۔

جس ملک میں بھی سرمایہ دارانہ نظام موجود ہوگا وہ سامراج کے استحصال اور مالیاتی آمریت سے کبھی نہیں بچ سکتا۔ پاکستان میں 1968-69ء کی انقلابی تحریک کے دباؤ کے تحت پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت نے اپنے ابتدائی دو سالوں میں سامراج کی استحصالی معاشی پالیسیوں کو چیلنج کرنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ نہیں کیا گیاجس کی وجہ سے اس مالیاتی جبر کے ہاتھوں شکست ناگزیر تھی۔ ’’خود مختیاری‘‘ اور ’’قومی غیرت‘‘ کی تمام تر نعرے بازی کے باوجود اس کے بعد آنے والی کوئی بھی فوجی یا سویلین حکومت سامراجی مالیاتی اداروں کی گرفت سے نکل سکی ہے نہ ہی اس نظام کا خاتمہ کئے بغیر ایسا ممکن ہے۔

عالمی منڈی کا طریقہ واردات بڑا دلچسپ مگر سادہ ہے۔ سامراجی قوتیں غریب ممالک کے خام مال اور محنت کی قیمتیں انتہائی کم جبکہ ترقی یافتہ ممالک کی ملٹی نیشنل اجارہ داریوں کی مصنوعات کی قیمتیں زیادہ رکھتی ہیں۔ گلوبلائزیشن یا عالمگیریت کی وجہ سے ملٹی نیشنل کمپنیوں کی مصنوعات کہیں بھی بنیں یا بکیں، منافع چند تجوریوں میں ہی بھرا جاتا ہے۔ تجارت کے اس عدم توازن سے تیسری دنیا کے ممالک ناگزیر طور پر ریاستی خسارے کا شکار ہوجاتے ہیں اور یہاں سے ایک نئی واردات کا آغاز ہوتاہے۔ ان خساروں کو پورا کرنے کے لئے آئی ایم ایف اور دوسرے سامراجی مالیاتی اداروں سے قرض لئے جاتے ہیں۔ بھاری شرح سود پر ملنے والے یہ قرضے مزید سخت شرائط اپنے ساتھ لے کر آتے ہیں جس سے خسارہ مزید بڑھ جاتا ہے۔ قرض ادا کرنے کے لئے مزید قرض لینا پڑتا ہے۔ یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوتا۔ اگر کوئی ریاست اس گھن چکر سے نکلنے کی کوشش کرے تو ’’اقتصادی پابندیوں‘‘ کی دھونس دے دی جاتی ہے۔ رفتہ رفتہ پورا ملک سیاسی اور اقتصادی طور پر سامراج کی گرفت میں آجاتا ہے۔ سامراج کے سودی قرضوں اور تجارتی و ریاستی خسارے کا تمام بوجھ مہنگائی اور بالواسطہ ٹیکسوں کی شکل میں عوام کے کندھوں پر لاد دیا جاتا ہے۔ ملک کی دولت صحت، تعلیم اور عوام کے سہولیات پر خرچ ہونے کی بجائے سامراجی اداروں اور بینکوں کی تجوریوں میں جمع ہونے لگتی ہے۔

’’اسلامی اقدار‘‘ کی پاسبان موجودہ ’’محبت وطن‘‘ حکومت بھی اسی ’’معاشی ماڈل‘‘ پر عمل پیرا ہے۔ اس حکومت نے آئی ایم ایف کی ’’گڈبک ‘‘ میں رہنے کے لئے اپنے پہلے مالیاتی سال میں 12اپریل تک عوام اخراجات میں شدید کٹوتیاں کی ہیں۔ ’’عوامی ترقی پر اخراجات کا پروگرام‘‘ (PSDP) چلانے والے پلاننگ اور ترقیاتی امور کے محکمے کو بجٹ میں مختص 125.5 ارب روپے میں سے صرف 26 کروڑ 60 لاکھ روپے دئیے گئے ہیں۔ یعنی مختص شدہ رقم کا صرف 0.02 فیصد خرچ کیا گیا ہے۔ آئی ایم ایف نے اپنا سود اور قرضے کی قسط وصول کرنے کے بعد حکومت کو ترقیاتی پروگراموں میں مزید 26 فیصد کٹوتی کا حکم دیا ہے۔ ملکی بجٹ کا سب سے بڑا حصہ پہلے ہی ان سامراجی مالیاتی اداروں کو سود کی ادائیگی کی نذرہوجاتا ہے۔ حالیہ مالی سال میں ایٹمی پروگرام کے لئے مختص کی گئی رقم کا 85 فیصد ادا کیا جاچکا ہے جبکہ بجلی اور پانی کے شعبے کو صرف 40 فیصد رقم کی ادائیگی ہوئی ہے۔ آنے والے بجٹ میں ’’دفاعی اخراجات‘‘میں بڑے اضافے کا عندیہ پہلے ہی دے دیا گیا ہے۔ پاکستان کا شمار پہلے ہی تعلیم، علاج اور عوامی سہولیات پر کم ترین ریاستی اخراجات کرنے والے ممالک میں ہوتا ہے اور اب ان اخراجات میں مزید کٹوتیاں کی جارہی ہیں۔ یہ اعداد و شمار واضح طور پر اشارہ کرتے ہیں کہ یہ جمہوریت دراصل کس کی آمریت ہے!

ہمارے حکمران سامراج کے غلام ہیں اور ہم عوام ان غلاموں کے غلام بن کر رہ گئے ہیں۔ لیکن ہمارے حکمران سامراجیوں کے غلام ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے کمیشن ایجنٹ اور دلال بھی ہیں۔ اس ملک میں کا ہر بڑا سیاستدان، جرنیل، جج یا بیوروکریٹ یا تو خود سرمایہ دار ہے، یا پھر کسی سرمایہ دار کا رشتہ دار ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری کو ’’سازگار‘‘ ماحول فراہم کرنے کے لئے عوام کا خون نچوڑنے والے سیاستدانوں اورسرمایہ داروں کی اپنی دولت یورپ، امریکہ یا آف شور بینکوں میں پڑی ہے اور یہ سرمایہ کاری بھی وہاں ہی کرتے ہیں۔ یہ حکمران سامراج کے جلاد ہیں جنہوں نے پورے معاشرے کو سماجی اور معاشی طور پر سامراجی بیڑیوں میں جکڑ رکھا ہے اور عوام کے شعور پر نان ایشوز کے تالے لگا دئیے گئے ہیں۔ ذہنوں کو مسلسل ماؤف رکھنے کے لئے کبھی جمہوریت اور آمریت کا کھلواڑ کیا جاتا ہے تو کبھی لبرل ازم اور قدامت پرستی کا جعلی تضاد ابھاردیا جاتا ہے۔ لیکن تاریخ بہت کفایت شعار ہوتی ہے۔ بغاوت کو جتنا دبایا جاتا ہے یہ اتنی ہی شدت سے بھڑکتی ہے۔ انقلابات ماضی کی تمام تر فرسودہ اقدار، روایات اور نفسیات کو پاش پاش کر ڈالتے ہیں۔ حکمرانوں کے تخت و تاج تاراج ہوجاتے ہیں۔ محنت کش عوام جب میدان عمل میں اترتے ہیں تو غلامی کی ہر زنجیر کو توڑ ڈالتے ہیں۔ مارکس اور اینگلز نے کیمونسٹ مینی فیسٹو کا اختتام محنت کشوں کے نام اسی پیغام سے کیا تھا کہ ’’تمہارے پاس کھونے کو صرف زنجیریں ہیں اور پانے کو سارا جہان پڑا ہے۔‘‘

Source