پاکستان اسٹیل مل ۔ تعمیرمضمر ہے اسی خرابے میں

Urdu translation of Pakistan Steel: White Elephant or Healthy Prey? (September 23, 2011)

کامریڈ ماجد

چنگاری ڈاٹ کام،22.09.2011

پاکستان اسٹیل مملکت خداداد کا واحد فولاد ساز ادارہ ہے جس کا پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ملک میں معرض وجود میں آنا کسی معجزے سے کم نہیں۔پاکستان اسٹیل کا خیال پہلی بارایوب خان کے دور حکومت میں پیش کیا گیا لیکن امریکہ سمیت کسی بھی سامراجی ملک نے مدد کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ بنیادی صنعتوں کا کسی ملک میں پھیلاؤ ان کی لوٹ مار میں کمی کا باعث بنتا ہے۔انیس سو باہتر میں اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقارعلی بھٹو کی کاوشوں سے سوویت یونین کے تعاون کی ساتھ اسٹیل مل کا سنگِ بنیاد رکھا گیا۔ابتدا سے ہی تمام مذہبی جماعتوں،لوہے کی درآمد سے وابستہ سرما یہ د اروں اور مالیاتی سرمائے کے وظیفہ خواروں اور ریاستی بیوروکریسی کے نمائندوں نے اس کے خلاف ایک شدیدترین مہم کا آغاز کیا اور اسے ایک سفید ہاتھی قرار دیا گیا۔پاکستان اسٹیل نے انیس سو بیاسی میں اپنی پیداوار کا باقاعدہ آغاز کیا۔پاکستان اسٹیل کی بنیادی دستاویز اس حقیقت کی غماز ہے کہ پاکستان اسٹیل کی تعمیر کا بنیادی مقصدیہ تھا کہ اس کا قیام ملک کی انجینئرنگ انڈسٹری کو سبسڈی دے کے بنیادی صنعتوں کے قیام میں مددگار ثابت ہو گا۔

اس اد ارے سے بلواسطہ اور بلاواسطہ طور پر آٹھ سے دس لاکھ لوگوں کا روزگار وابستہ ہے اور پاکستان اسٹیل ملک کی ضروریات کا تیس فیصد فولاد پیدا کرتی ہے جبکہ اس کے ڈیزائن میں یہ خصوصیت موجود ہے کہ اس کو تھوڑی سی تبدیلی کے بعد اس قابل بنایا جا سکتا ہے کہ دوگنی پیداوار حاصل کی جا سکے۔لیکن جس دن سے یہ ادارہ وجود میں آیا ہے لوہے کی تجارت سے سے وابستہ درآمدکنندگان،مالیاتی سرمائے کے وظیفہ خواروں اور ریاستی بیوروکریسی کے اہلکاروں نے اس ادارے کو سبوتاژ کرنے کی مکروہ کوششوں کا آغاز کر دیا جو کہ آج تک جاری و ساری ہے۔

ان تمام مذموم کوششوں کے باوجود اسٹیل مل نے پاکستان میں بنیادی معاشی ڈھانچے کو کسی حد تک تعمیر کیا جو کہ عالمی سرمائے کے بڑھتے ہوئے کردار کے باعث فعال نہیں ہو سکا۔پاکستان سٹیل کے محنت کش جوکہ انتہائی شاندار انقلابی روایات کے حامل ہیں نے متعدد مواقع پر ایک طبقے کے طور پر اپنی قوت کو منوایا اور خاص طور پر جب آئی ایم ایف اور عالمی سامراجی اداروں کی پالیسیوں کے تحت مشرف حکومت نے اسٹیل مل کی نجکاری کا فیصلہ کیا اور دو سو ارب مالیت کے ادارے کو صرف بائیس ارب میں بیچنے کی کوشش کی گئی جس کو محنت کشوں کی طبقاتی جڑت نے ناکام بنا دیا لیکن طبقے کو اپنی طاقت کے احساس سے عاری اور محروم رکھنے کے لیے ایک عدالتی فیصلے کے ذریعے اس نجکاری کو کالعدم قرار دیا گیا۔اس فیصلے میں نجکاری کو غلط قرار نہیں دیا گیا بلکہ کم قیمت پر بیچنے کی وجہ سے اس ڈیل کو ختم کر دیاگیا۔بہرحال اسٹیل مل وقتی طور پر نجکاری کے چنگل سے باہر آگیا۔لیکن وہ کالی طاقتیں جنہوں نے اس ادارے کو کوڑیوں کے مول خریداتھا وہ چپ کر کے بیٹھنے والی نہیں۔ان سرمایہ داروں نے ریاستی افسر شاہی سے مل کر سازشوں کا بازار مزید گرم دیاہے جبکہ پیپلزپارٹی کی موجودہ حکومت نے بھی دامے درمیسخنے ان عناصر کی امداد کی ہے ۔زرداری اینڈ کمپنی نے بھی دوستیوں کا حق خوب ادا کیا اور ایک انتہائی کرپٹ بیورو کریٹ معین آفتاب شیخ کو چےئرمین جبکہ ثمین اصغر کو ڈائریکٹر کمرشل بنا کے ادارے کی بہتری کے تمام امکانات کو ہی ختم کر دیا ہے ۔

اس وقت ادارے کی مالی حالت اس کیفیت میں پہنچ چکی ہے کہ عید پر ملازمین کو بونس تو ایک طرف تنخواہیں بھی ادا نہیں کی گئیں،کل پیداوار گرتے گرتے بیس فیصد تک آن پہنچی ہے،بجلی پیدا کرنے کا یونٹ جو کہ اسٹیل مل اور اسٹیل ٹاؤن کی ضروریات پوری کر سکتا ہے بند پڑا ہے خام مال کی شدید قلت ہےiron ore,cokeدستیاب نہیں ہے ۔ماہوار گیس،بجلی اور فیول کے بلوں کی ادائیگی میں ایک ارب روپے سے زیادہ ادا کرنا پڑ رہا ہے۔

اسٹیل مل کو اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے ساٹھ فیصدپیداواری گنجائش(production capacity) پر چلانا ضروری ہے جو کہ خام مال نہ ہونے کے باعث صرف ایک چوتھائی پیداوار دے رہا ہے جس کے باعث ادار ہ ماہانہ ڈیڑھ ارب روپے کے خسارہ میں جا رہا ہے۔

حالیہ عالمی ما لیاتی بحران اور اور دگرگوں ہوتی ملکی معیشت میں اتنی گنجائش موجو د نہیں ہے کہ وہ کسی ادارے کو بیل آؤٹ دے سکے چناچہ اسٹیل مل انتظامیہ نے ورکرز کی گریجوئٹی اورPF. fund میں جمع اربوں روپے نکال کر اپنے اللے تللوں میں اڑا دیے ہیں لیکن معاشی صورتحال روز بروز بگڑتی جا رہی ہے۔

اس تمام صورتحال میں اسٹیل مل سی بی اے پیپلز ورکر یونین کا کردار ایک معاشی اور سیاسی دلال کا رہ گیا ہے جو کہ محنت کشوں کی تمام پرتوں سے بیگانہ ہو چکی ہے اور مزدور سیاست سے عملی طور پر لا تعلق۔یہ مزدور طبقے کے میر جعفر اور میر صادق صرف اپنی عیاشوں کے بچاؤ کی خاطر انتظامیہ کے دلال بن چکے ہیں ۔ذوالفقار علی بھٹو کا نام بیچ کر اپنی جیبیں بھرنے والے یہ کاسہ لیس اور جی حضوریے محنت کش طبقے کے اجتماعی جسم پر ایک ناسور بن چکے ہیں ۔ دو ہزار دس جون میں پیپلز یونین پچانویں فیصدووٹ لے کر منتخب ہوئی تھی لیکن تب سے لے کر آج تک اپنا چارٹر آف ڈیمانڈ ہی پیش نہیں کر سکی۔جب ایک طرف مزدوروں کو تنخواہیں نہ ملیں ۔ پچاس سے زائد گاڑیاں بمعہ پٹرول مزدور اشرافیہ کے استعمال میں ہیں چھ سو سے زائد شاپ نمائندے اور یونین عہدیداران اپنی ڈیوٹیوں سے مستشنٰی ہیں جن کی تعداد اگر حال ہی میں مستقل ہونے والے ملازمین کو شامل نہ کیا جائے تو کل ورک فورس کا دس فیصد بنتی ہے۔

ایسی کاسہ لیس یونین جو کہ ووٹ محنت کشوں کے لے اور بھڑوت انتظامیہ کی کرے محنت کش طبقے کو سوائے طفل تسلیوں کے کچھ نہیں دے سکتی۔ ایک اور انتہائی گھناؤنی اور مکروہ سازش جس میں انتظامیہ اور مزدور یونین اشرافیہ مکمل طور پر شریک ہیں کی جا رہی ہے ۔حال ہی میں مستقل ہونے والے اور پرانے ملازمین کے درمیان تنخواہوں کا فرق دو گنا سے بھی زیادہ ہے اور اس فرق کو طبقاتی یکجہتی کو توڑنے کے ہتھیار کے طور پرا ستعمال کیا جا رہا ہے۔لیکن پاکستان اسٹیل کے محنت کشوں کی طبقاتی جدوجہد کی شاندار روایات موجود ہیں اور وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ آپس کی نفرتیں دراصل ان طاقتوں کو مضبوط کریں گی جو کہ روز اول سے ہی پاکستان اسٹیل کو بند کرا کے بیچنے کے درپے ہیں۔

نئے مستقل ہونے والے ملازمین اس وقت انتہائی غصے کی کیفیت میں ہیں،روایتی یونین کی غداری ،بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال ،بڑھتی ہوئی مہنگائی نے اب ان کے پاس کوئی راستہ نہیں چھوڑا کہ وہ ایک فیصلہ کن لڑائی کی طرف جائیں اور یقیناًیہ لڑائی نہ صرف انتظامیہ ، حکومت اور ظالم نظام کے خلاف ہو گی بلکہ سی بی اے کے خلاف بھی ہو گی۔آج عالمی سطح پر محنت کش طبقہ تاریخ کے میدان میں بار بار نمودار ہو رہا ہے۔پاکستان میں بھی ایک کے بعد دوسرے ادارے میں تحریکیں چلی ہیں ۔ماضی قریب میں کے ای ایس سی اور پی آئی اے کے محنت کشوں کی جدوجہد اس کی شاندار مثالیں ہیں ۔یہ تحریکیں قیادتوں کی نظریاتی اور لائحہ عمل کی کمزوریوں اور آپسی جڑت نہ ہونے اور سماج میں عمومی طور پر سیاسی جمود کی فضا کے غلبے کی وجہ سے ناکامی سے دوچار ہوئی ہیں مگر انہیں فیصلہ کن شکست نہیں ہوئی ۔ پی آئی اے میں بھی بڑی رائٹ سائزنگ کا عندیہ دے دیا گیا ہے ۔ریلوے مزدوروں میں بھی شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔

پی ٹی سی ایل کے محنت کش بھی زخم خوردہ ضرور ہیں مگر ایک نیا سیاسی ریلا اس تحریک کو ایک بلند سطح پر پھاڑ سکتا ہے۔واپڈا کے مزدور بھی اپنی قیادت کا شاید آخری امتحان لینے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔اس حوالے سے ضرورت اس بات کی ہے کہ ان تمام ادارے کے محنت کشوں کو روایتی اور غدارقیادتوں کے چنگل سے آزاد کرا کے اور صنعتی مزدوروں کے ساتھ ان کی جڑت کو مضبوط کرتے ہوئے ایک نظریاتی اور سیاسی وحدت میں منظم کیا جا ئے۔ پی ٹی یو ڈی سی اس تاریخی فریضے کی ذمہ داری کا چیلنج قبول کرتی ہے۔

Translation: Chingaree.com