دہشت گردی کی سیاسی معاشیات

Urdu version of Pakistan: The political economy of terrorism by Lal Khan (June 6, 2011).

تحریر: لال خان ۔ ترجمہ: فرہاد کیانی

چنگاری ڈات کام،03.06.20011

پاکستان میں ہنگامہ خیز تسلسل کے ساتھ ہونے والے دہشت گردی کے حملوں کی وحشت اس ملک کے عوام کے بدن پر ایک رستا ہوا گھاؤ بن گئی ہے۔ ہر سو مایوسی اور نا امیدی طاری ہے۔لیکن اشرافیہ کے دانشوروں کی جانب سے اس موضوع پر لاامتناعی اور لا حاصل بحث ان سوالات کی وضاحت کی بجائے ان کو مزید الجھانے کا باعث ہے۔ اس لیے یہ انتہائی ضروری ہے کہ اہم اور غیر اہم میں تفریق کرتے ہوئے اس مسلے کی جڑ کو سمجھا جائے۔

مسئلہ صرف اس بربریت کا براہِ راست نشانہ بننے والوں کے جسمانی زخموں کا نہیں، بلکہ اس کی وجہ سے عوام پر لگنے والے نفسیاتی گھاؤ محنت کشوں کے حوصلوں کو پست ، آبادی کی وسیع پرتوں کو پیچھے دھکیلتے، تحریک کو غیر منظم اور انقلاب کو گھائل کرتے ہیں۔

تشدد آمیز لڑائیاں حیران کن حد تک متضاد مقاصد کے حصول پر مبنی ہو سکتی ہیں۔پاکستان میں خون ریزی کے موجودہ ریلے کی وجوہات بہت پیچیدہ ہیں اور اس میں ملوث افراد اس بھی زیادہ مشتبہ۔خون کی اس ہولی اور وحشت کے پیچھے سرکردہ افراد اور ذمہ داران صرف انہی لوگوں تک محدود نہیں ہیں جن کے بارے میں ہمیں یقین دلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

علاوہ ازیں، اس دہشت گردی کی مضبوط معاشی بنیاد ہے اور یہ انتہائی منافع بخش کاروبار بن چکی ہے۔خود کش بم دھماکے اور دہشت گرد حملے کرنا انتہائی مہنگا کام ہے۔ ان میں سرمایہ کاری کرنے والے لازمی طور پر بہت بڑے منافعے کماتے ہوں گے۔ کوئی بھی سرمایہ دار محض نیکی کمانے کی غرض سے اتنی بڑی سرمایہ کاری نہیں کرتا۔

اس سب کا آغاز اس خطے میں سامراجی رد انقلابی مسلح بغاوت سے ہوا جب اپنے ڈالر جہاد وں کے اخراجات پورے کرنے کے لیے منشیات اور دوسرے مجرمانہ نیٹ ورک کھڑے لیے گئے۔ سامراجیوں نے جہاں بھی مداخلت کی وہاں ایسے ہی مالیاتی نیٹ ورک کھڑے کیے ہیں۔ہنڈارس، ویتنام، نکارا گوا وغیرہ محض اس کی چند مثالیں ہیں۔

افغانستان و پاکستان میں یہ نیٹ ورک گزشتہ تیس برس سے پھل پھول رہا ہے اور کالے دھن کی شکل میں سرمایے کا بہت بڑا ارتکاز بن چکا ہے جس کا حجم پاکستان کی با ضابطہ معیشت سے تین گنا زیادہ ہے ۔اغواء برائے تاوان، قتل، بھتہ، چوریاں، کرپشن اوردیگر مجرمانہ کاروائیاں بھی اس ارتکاز میں بے پناہ اضافے میں معاون ہیں۔ نام نہاد ’غیر ریاستی عناصر‘ (non-state actors) اس غیر ریاستی مافیا معیشت کے سرطان کے پھوڑے ہیں ۔

ا س کالے دھن سے ریاست کے مختلف حصے منسلک اور ان کے مفادات اس سے وابستہ ہیں اور انہی مفادات کے تحفظ کے لیے اکثر دہشت گردی کو استعمال کیا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ ، دہشت گردی کے واقعات دہشت گرد گروہوں کے اندر مسلسل بننے والے دھڑوں کے درمیان آپسی لڑائیوں کا اظہار بھی ہوتے ہیں جن کو مذہبی عسکری رہنما چلا تے ہیں جن میں بعض اتنے مذہبی بھی نہیں ہیں۔اس دہشت گردی کی کئی جہتیں ہیں اور سماجی اور معاشی حالات کی تنزلی کے ساتھے یہاں وفاداریاں مسلسل بدلتی رہتی ہیں۔اس کے محرکات جزوی یا کلی طور پر مالیاتی ہوس پر مبنی ہوتے ہیں نہ کہ مذہبی جنون پر، کم از کم اس پاگل پن کو چلانے والے سرغنہ وں کی سطح پر تو یہ بات درست ہے۔ اس نئے عظیم کھلواڑ (Great Game) میں ملوث مختلف ریاستوں کا کردار بھی نا قابل تردید ہے۔ لیکن اس کے علاوہ اور بھی طاقتیں اس کھیل میں شامل ہیں۔

وکی لیکس میں ظاہر ہونے والے نومبر 2008 ء میں لاہور میں امریکی قونصل خانے کے اس وقت کے پرنسپل آفیسر کی جانب سے بھیجے گئے ایک سفارتی مراسلے کے مطابق سعودی بادشاہت اور خلیج کے دیگر رجعتی شیخوں کی جانب سے دس کروڑ ڈالر کی رقم جنوبی پنجاب میں کچھ ملاؤں کو بھیجی گئی۔اس رقم کا ایک حصہ نوجوانوں کو بھرتی اور ان کے ذہنوں میں زہر بھرنے کے لیے استعمال کیا گیا جس کا مقصد انہیں جہادی اور ممکنہ طور پر خود کش بمبار بنانا تھا۔ لیکن یہ تو صرف وہ حصہ ہے جو منظر عام پر آیا ہے۔ ان بے پناہ دولت مند اور وحشی حکمرانوں کی جانب سے ان مذہبی بنیاد پرست دہشت گرد نیٹ ورکوں کو دی جانے والی اصل رقم شائد کبھی بھی منظر عام پر نہ آ پائے۔ عرب کے یہ جابر حکمران اپنے عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم پر تاریخ کے انتقام سے خوفزدہ ہیں۔انہوں نے پہلے بھی پاکستانی فوج کو استعمال کیا ہے اور ایک مرتبہ پھر وہ اس جبر کے خلاف اٹھنے والی عوامی بغاوتوں کو کچلنے کے لیے ان رجعتی طاقتوں کو استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔

1970ء میں اردن کے دارالحکومت عمان میں فلسطینیوں کی بغاوت کو کچلنے کے لیے شاہ حسین نے برگیڈئیر (بعد میں جنرل) ضیا الحق کی کمان میں پاکستان آرمی کے دستے کو استعمال کیا۔ سات ہزار سے زائد فلسطینی قتل کر دیے گئے۔ اس وقت کے اسرائیلی وزیر اعظم موشے دیان نے طنزیہ انداز میں کہا تھا کہ شاہ حسین نے بیس دنوں میں اتنے فلسطینی مار ڈالے ہیں جتنے اسرائیل نے بیس سالوں میں نہیں مارے۔ فلسطینی اب بھی اس واقعے کو ’’سیاہ ستمبر‘‘ کے نام سے مناتے ہیں۔

دہشت گردی کے متعلق نام نہاد دانشوروں کی چیخ و پکار کا سب سے المناک پہلو یہ ہے کہ وہ ریاستی دہشت گردی اور سامراجی خونریزی کو جائز قرار دیتے ہیں۔لبرل اور بنیاد پرست تجزیہ نگار دونوں ہی اس بربریت کو نہ صرف حق بجانب قرار دیتے ہیں بلکہ اس کے لیے حمایت اکٹھی کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں ۔ مرنے والے فوجیوں کی اکثریت کسانوں اور غریب خاندانوں کے بچے ہوتے ہیں۔ پاکستان کے عام عوام پولیس اور ریاستی جبر کی دیگر طاقتوں کے ہاتھوں ہر روز بدمعاشی اور ظلم برداشت کررہے ہیں ۔ ماورائے عدالت قتل ایک معمول بن چکے ہیں ۔بلوچستان میں بے گناہوں کو اٹھا لیا جاتا ہے اور بعد میں ان کی مسخ شدہ لاشوں کو پھینک دیا جاتا ہے۔ اذیت ناک مہنگائی ، غربت اور اس معاشی دہشت گردی کو اس استحصالی نظام کے نمائندے انتہائی بے غیرتی کے ساتھ عوام پر مسلط کر رہے ہیں ۔ ہزاروں نہیں تو سینکڑوں جن میں اکثریت بچوں کی ہوتی ہے، ہر روز بھوک، خوراک کی کمی، افلاس اور قابل علاج بیماریوں کے ہاتھوں اس معاشی قتل عام کا شکار ہو رہے ہیں جس کے بارے میں یہ درندہ صفت اشرافیہ بے حس ہے۔

تاریخ میں ایسے ان گنت واقعات موجود ہیں جب جابر حکمرانوں نے اپنے خلاف عوامی بغاوتوں کو زائل کرنے اور ان کا رخ موڑنے کے لیے اپنی ہی حکومت کے ایک حصے کے خلاف دہشت گردی کو استعمال کیا ۔لیون ٹراٹسکی نے دہشت گردی کے متعلق محنت کش تحریک کی پوزیشن کو واضح کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’ ہم انفرادی دہشت گردی کی اس لئے مخالفت کرتے ہیں کیونکہ انفرادی انتقام ہمیں تسکین نہیں پہنچاتا۔۔۔

انسانیت کے خلاف تمام جرائم کو ہوتے ہوئے دیکھنا، وہ تمام تذلیل جوانسانی جسم اور روح کے ساتھ کی جاتی ہے، اسے موجودہ معاشرے کے اظہار کے طور پر سمجھنا اور اپنی تمام توانائیوں کوموجودہ نظام کے خلاف جدوجہد میں اکٹھے کرنا۔۔ ۔یہی وہ رستہ ہے جس پر انتقام کے بھڑکتے ہوئے جذبات اپنی اعلی ترین تسکین پا سکتے ہیں۔‘‘

پاکستان میں تباہی پھیلاتی ہوئی دہشت گردی کی جڑیں اس ملک کے معاشی نظام کی بنیادوں اور اس پر کھڑی ریاست کے ڈھانچوں میں ہیں۔ اس معاشی ڈھانچے کی مزید شکست و ریخت ریاست اور سماج میں مزید تنازعات اور تضادات کو جنم دے رہی ہے۔اذیت، غربت اور محرومی اس مایوسی، بے یقینی اور بے گانگی کو ہوا دیتی ہیں جو نا پختہ ذہنوں کو مذہبی جنونیت کے پاگل پن اور تعصب میں جھونک دیتی ہیں۔ کالے دھن کی معیشت اس عمل میں معاونت اور اسے سہل بناتی ہے۔

جب تک دہشت گردی کو پیدا کرنے والی سیاسی معیشت کا خاتمہ نہیں کیا جاتا یہ نہ ختم ہونے والی جنگ سماج کو تاراج کرتی ہی چلی جائے گی۔ یہ پاکستانی سرمایہ داری کی بیماری اور اس کے نامیاتی بحران کا نچڑا ہوا عرق ہے۔عوام کی اکثریت میں بنیاد پرستانہ بربریت اور سامراجی سفاکی کے خلاف نفرت اور غصہ پل رہا ہے۔ جب محکوم عوام اٹھ کھڑے ہوں گے ، تو حکمران طبقات اور ان کے سامراجی آقا ریاستی اور غیر ریاستی دہشت گردی کو ان کے خلاف بے لگام استعمال کریں گے۔ لبرل اور بنیاد پرست اس بوسیدہ نظام کو بچانے کے لیے متحد ہو جائیں گے۔ لیکن جب محنت کش طبقہ ایک مارکسی لینن اسٹ قیادت کے ساتھ پر زور طبقاتی لڑائی کے لیے متحد ہو کر تاریخ کے میدان میں داخل ہو گا تو پھر کوئی طاقت اسے شکست نہیں دے سکتی۔