خود مختاری کا واہمہ

Urdu translation of Pakistan: The myth of sovereignty (May 6, 2011)

تحریر: لال خان چنگاری ڈات کام14.05.2011

ایبٹ آباد میں امریکی آپریشن کے بعد میڈیا اور دانشوروں کی جانب سے کی جانے والی چیخ و پکار اور خوف وہراس اور اسے ’پاکستان کی خودمختاری‘ کی خلاف ورزی قرار دینا بہت تعجب انگیز ہے۔ کیا پاکستان تاریخ میں کبھی بھی حقیقی اور مکمل طور پر خودمختاررہا ہے؟ اس ملک کی 64سالہ تاریخ میں یہاں کا حکمران طبقہ قومی جمہوری انقلاب کے فرائض پورے کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا، حتیٰ کہ ایک جدید متحد قومی ریاست کی تشکیل بھی نہیں کی جا سکی۔ ان نا مکمل فرائض نے ایک ایسے سماج کو جنم دیا ہے جو معاشی طور پر مستقل بحران کا شکار ہے، جو ہمیشہ دیوالیہ پن کے دہانے پر کھڑی رہتی ہے اور اس کیفیت میں دن بدن ابتری آتی جا رہی ہے۔

ہمیشہ سامراجی امداد پر انحصار کیا جاتا رہا ہے جو پہلے سے ہی مفلوک الحال عوام پر ہر وقت بڑھتا ہوا ایسا بوجھ ہے جو انہیں کچلے جا رہا ہے۔

4مئی کو وزارت خزانہ میں بجٹ پر دی جانے والی پر زینٹیشن کے مطابق اگلے مالی سال 2010-11ء میں کل ملکی مالی وسائل کا82فیصد صرف تین شعبوں پر خرچ کیا جائے گا جو قرضوں کی واپسی، دفاع اور سول انتظامیہ کے اخراجات ہیں۔ اگرچہ یہ بہت محتاط اعداد و شمار ہیں لیکن پھر بھی ان سے معیشت کی زبو ں حالی اور سماجی ترقی اور عوام کے کرب کے متعلق ہمارے حکمران طبقے کا گھناؤناکردار واضح ہوتا ہے۔ لوٹ کھسوٹ اور دولت کی ہوس حکمران اشرافیہ کا خاصہ ہے جبکہ اس معاشی بربادی کا عذاب عوام کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ فوجی اور سول حکمران باری باری اقتدار میں آ کر قومی دولت سے اپنی لوٹ مار بڑھاتے رہے ہیں۔لیکن عالمی سرمایہ داری کے موجودہ بحران کی وجہ سے محنت کش طبقے کے مصائب میں بے پناہ اضافہ ہو گیا ہے۔ توانائی اور خوراک کی قیمتوں میں تیز ترین اضافہ ہوا ہے۔ تعلیم اور علاج ایسی عیاشیاں بن گئی ہیں جو عوام کی قوت خرید سے با ہر ہیں۔ عوام کے لیے فقط زندہ رہنا ایک جدو جہد بن چکا ہے۔ اس صورتحال کی مثال تو اس بد بخت سر زمین کی ہنگامہ خیز تاریخ میں بھی نہیں ملتی۔پاکستان ایک قومی ریاست کی شکل میں قائم نہیں ہوا تھا بلکہ یہ مختلف قومیتوں پر مشتمل تھا، حتیٰ کہ ملک کا نام بھی مختلف خطوں کے ناموں کو جوڑ کر بنایا گیا ہے۔ نظام کی ناکامی نے ان قومی تضادات کو مزید پیچیدہ اور خونی بنا دیا ہے جو کہ اب موجودہ نظام کے اندر رہتے ہوئے ناقابل حل ہو چکے ہیں۔اس کی ساری تاریخ میں اس کی وحدت مستقل خطرے میں رہی ہے۔مشرقی بنگال کی علیحدگی اس کمزور قومی وحدت اورخودمختاری کے واہمے کا واضح اظہار تھی۔اس واقعے کے بعدسے اب تک صورتحال مزید خراب ہوئی ہے اور بلوچستان اور دوسرے علاقوں میں ہونے والے واقعات ریاست کی جانب سے طاقت کے زور پر وفاق کو متحد رکھنے کی کوششوں میں بے بسی کا اظہار ہیں جہاں جبر اور ریاستی دہشت گردی کو اس مقصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

بنیادی ڈھانچہ گل سڑ رہا ہے اور سماج متواتر افرا تفری، مایوسی، دہشت گردی، تشدد اور ریاستی جبر میں دھنستا چلا جا رہا ہے۔

فوجی آمریتیں ریاستی جبر اور تشدد کے ذریعے عوام کو دبانے کی کوششیں کرتی رہی ہیں ، اور جب اس میں ناکامی کا سامنا ہوا تو عوام کے انقلابی ابھاروں کو نام نہاد جمہوریت کے راستے پر زائل اورمسخ کر دیا گیا۔

لیکن جمہوریت لوگوں کو کچھ بھی دینے میں ناکام رہی اور سماج کو بربادی، غربت، محرومی اور بیماری کی اندھی کھائی میں دھکیل دیا گیا۔ عوام کی اکثریت کی زندگی ایک درد ناک عذاب بن چکی ہے ۔ تقریباً آدھی ووٹر فہرستوں کے جعلی ہونے کا حالیہ انکشاف اس جمہوری ناٹک کو بے نقاب کرنے کے لیے کافی ہے۔اس ٹوٹے پھوٹے جمہوری اقتدار میں سامنے آنے والی سیاسی جماعتوں کی سماجی اور معاشی پالیسیوں میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے۔ ٹی وی شوز اور پارلیمنٹ میں پارٹی لیڈروں کی تقاریر کو سن کر شیکسپیئر کے ڈرامے ہیملٹ کا یہ جملہ یاد آجاتا ہے :’’پولونیئس: عالیجاہ آپ کیا سن رہے ہیں؟ ہیملٹ: الفاظ، الفاظ،الفاظ‘‘۔اس کیفیت میں جب معیشت بربادی کا شکار ہے اور سماجی ڈھانچہ تار تار ہو رہا ہے، فوجی سربراہان مداخلت کر کے براہ راست فوجی حکومت کے ذریعے ملک چلانے پر آمادہ نہیں ہیں۔ لیکن ریاستی اور فوجی ادارے اس بحران سے محفوظ نہیں رہ سکتے جو ان تضادات کو ہوا دے رہا ہے جو ان اداروں کو جڑوں سے ہلا رہے ہیں۔

حال ہی میں امریکی نیوی سیلز (کمانڈو) کی جانب سے اسامہ بن لادن کے اغواء اور قتل نے ان تنازعات کو مزید بھڑکا دیا ہے اور فوج کو شرمندگی اور بے عزتی کا سامنا ہے۔ امریکیوں اور پاکستانی فوج میں اعتماد کی کبھی بھی اتنی کمی نہیں رہی۔ اس آپریشن سے پاکستانی فوج کے اعلی حکام کو اس سے بے خبر رکھنااور دوران آپریشن پاکستان کے ریڈار کے نظام کو جام کرنا سامراجیوں کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اہم ترین اتحادی پر عدم اعتماد اور ان کی جھنجھلاہٹ کا اظہار ہیں۔سی آئی کے ڈائریکٹر لیون پیناٹا کے ایبٹ آباد فوجی چھاؤنی کے علاقے میں اسامہ بن لادن کی پناہ گاہ کے متعلق بیان کہ’’پاکستانی فوج شریکِ جرم ہے یا پھر نا اہل‘‘ ریاست کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کے محافظوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔

اس لیے خودمختاری کی خلاف ورزی کے بارے میں شور مچانا مضحکہ خیز ہے۔

معاشی خودمختاری کے بغیر، سیاسی خودمختاری ایک دھوکہ اور فریب ہے۔ 1948ء میں قائم ہونے والے پہلے معاشی منصوبہ بندی کمیشن کے ممبران کی اکثریت امریکی ماہرین پر مشتمل تھی۔ بعد کی ساری حکومتیں، 1970ء کی دہائی کے ابتدائی چند برسوں میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے علاوہ، غلامانہ انداز میں سامراجی احکامات کی تعمیل کرتی رہیں۔3جنوری1966ء کو ایوب خان نے کہا تھا کہ ’’ضرورت پڑنے پر پاکستان امریکہ کا سیٹلایٹ (Satellite)بننے پر رضا مند ہو گا‘‘۔حتیٰ کہ پاکستان نے اکتوبر 1956ء میں جنگ سویز کے دوران برطانیہ اور فرانس کی جانب سے مصر پر حملے کی حمایت کی۔ موجودہ ہولناک جنگ کا آغاز سامراج نے تین دہائیاں قبل کیا تھا۔اسامہ بن لادن کو 1978ء میں اس جہاد میں شامل کرنے والا کوئی اور نہیں بلکہ امریکی قومی سلامتی کا مشیر زبگنیو برزنسکی تھا۔آئی ایس آئی اور پاکستانی فوج کو جنرل ضیاالحق نے امریکی ایما پراس نہ ختم ہونے والی جنگ میں جھونک دیا۔اب اس کالی معیشت کے اندرونی اختلافات وفاداریوں کو تبدیل اور دوستوں کو دشمنوں میں بدل رہے ہیں۔اعتماد میں شدید کمی کے باعث مغربی سامراجی ایک کے بعد دوسری فاش غلطی کیے جا رہے ہیں۔لیکن پھر بھی سامراجیوں، بنیاد پرستوں اور پاکستانی جرنیلوں کے درمیان یہ اتحاد گھسٹتا چلا جائے گا۔

کیونکہ آخری تجزیے میں ان سب کے مفادات اس سرمایہ دارانہ نظام کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں جو اپنے پر مرگ انحطاط سے گزر رہا ہے۔ لیکن یہ اتحاد کمزور، غیر مستحکم اور دھوکہ دہی پر مبنی ہو گا۔ تنازعات ابھرتے رہیں گے جن کے نتائج سارے خطے کے لیے بہت خطر ناک ہوں گے۔ اس آگ کے شعلے اس خطے کے لاکھوں بے گناہوں کو زخمی اور قتل کرتے رہیں گے۔جب تک موجودہ سماجی اور سیاسی نظام قائم رہے گا، یہ خطہ بربریت میں دھنستا چلا جائے گا۔سامراج کی وحشت اور بنیاد پرستی کی درندگی سے ثقافت اور تہذیب کے وجود کو خطرہ درپیش ہے۔ اگرچہ یہ ایک دشوار کام لگتا ہے لیکن ایک سوشلسٹ تبدیلی کے بغیر انسانیت کی بقا کو سنجیدہ خطرہ لاحق ہے۔

Translation: Chingaree.com