آ ل پارٹیز تماشہ

Urdu translation of Pakistan: Imperialism and the All-Party Circus 05 October 2011).

تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی ایک زوال پذیر نظام کے حکمرانوں کو بحرانوں کا سامنا ہوتا ہے تو وہ ایسی حرکات کرتے ہیں جو خود ان کومزید بے نقا ب کر دیتی ہیں‘ ان کومزید کمزور اور لاغر کر دیتی ہیں ۔ قدیم روم میں جب سماجی و معاشی بحران شدت پکڑتے تھے تو وہ افریقہ سے گندم منگوانے کی بجائے شیر منگواتے تھے اور روم کے مرکزی سٹیڈیم (کلازیم)میں ان کو غلاموں پر چھوڑ کر عوام کو بہکاوے دینے والے خونخوار تماشے کروایا کرتے تھے۔ لیکن یہ تماشے ان کی اقدار کے عبرتناک انجام اور سلطنت روم کے انہدام کو نہیں بچا سکے تھے۔تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کوئی معاشرتی نظام اپنی تاریخی متروکیت کو پہنچ جاتا ہے تو اس کو بچانے کے لیے ہر ہتھکنڈا ناکام اور ہر حربہ نامرادثابت ہوتا ہے۔ جب 1968 ء کے انقلابی ریلے کو زائل کرنے کے لئے اسی قسم کی آل پارٹیز (گول میز ) کانفرنس بلائی گئی تھی تو چیئر مین ذوالفقار علی بھٹو نے اس کا بائیکاٹ کر کے اس کو مسترد کر دیا تھا۔کیونکہ اس کو اس حاکمیت کی موت بہت واضح نظر آرہی تھی۔

امریکی حملے کے خطرے کا مقابلہ کر نے اور قوم کو یکجا کرنے والی حالیہ آل پارٹیز کانفرنس جس صورتحال میں بلائی جا رہی ہے وہاں حکمرانوں کو کسی متحرک انقلابی ریلے کا سامنا نہ ہونے کے باوجود بھی اس حاکمیت اور اس معاشی و سماجی نظام کی ٹوٹتی ہوئی کیفیت اور اس کی بربادی کا خطرہ لا حق ہے ۔اس ریاست اور حاکمیت کو خطرہ امریکی حملے سے اتنا نہیں جتنا اپنے آپ سے ہے۔ امریکی سامراج پہلے ہی اپنی کئی جارحیتوں کے ہاتھوں تباہی کا شکار ہے۔ 19 کروڑ کی آبادی والے ملک‘ جو ایٹمی طاقت بھی ہے‘ پر حملہ کرنے کا منصوبہ اس کے کٹر ترین دشمن بھی بنانے سے قاصر ہیں۔لیکن اس آل پارٹیز کانفرنس میں شریک تمام ’’پارٹیاں‘‘اور ان کے لیڈر اس میں شراکت سے اس بوسیدہ اور انسان دشمن سرمایہ دارانہ نظام سے اپنے مادی مفادات ، دولت اور سیاست کی وابستگی کا اظہار کر رہے ہیں ۔ چونکہ سب کا معاشی سماجی اور مالیاتی ایجنڈا اور مقاصد ایک ہی ہیں اس لئے ان کا اس سیاسی مفاہمت اور اشتراک میں ذمہ داری لینا بھی اس بوسیدہ نظام کی بقا کا تقاضہ ہے۔ پورے ملک میں انہی حکمرانوں کا مالیاتی طور پر آزاد میڈیا منڈی کی بازارو معیشت کی آزادی کی اس کاوش کو ایک فیصلہ کن سیاسی سنگ میل بنا کر پیش کر رہا ہے۔ قومی سا لمیت کے تقدس ،قومی یکجہتی اور ملکی بقا کے نعرے بلند کئے جارہے ہیں۔ ایک مردہ حب الوطنی کو زندہ کرنے کی سعیِ ناکام کر رہے ہیں۔عوام میں قومی شاونزم کو مذہبی تڑکہ لگا کرابھارنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جب ایک حملہ ہو ہی نہیں رہا تو اس حملے کا خطرہ کیسا؟ اس کا شور کیوں؟اور اس کا واویلا کس لئے؟جو حملے ہورہے ہیں وہ ڈرون‘ بم اور آگ برساتے رہیں گے سامراج اپنے مقاصد کے لئے مختلف قسم کے اسامے اٹھانے اور لے جانے کے ناٹک کرتا رہے گا۔ کیا پچھلے 30 سال سے سامراجیوں کو یہ پتہ نہیں تھا کہ آئی ایس آئی اور ان مذہبی بنیاد پرستوں کا کیا رشتہ ہے۔ اس جنونیت کو آئی ایس آئی سے بنوانے والے اور اس کالے دھن کے ناسور کو پروان چڑھانے والے امریکی سامراجی اور سعودی حکمران ہی نہیں تھے؟اب یہ ناٹک یہ الزامات اور دھمکیاں کیسی؟لیکن یہ پھر ایک معاشی، سماجی، فوجی، سفارتی اور سیاسی طور پر کینسر زدہ سامراج کا اپنے انہدام اور اپنی موت کو ٹالنے کی ایک ناکام کو شش ہے۔تاریخ کی ایک اور سامراجی سلطنت کے زوال کو روکنے اور شکست و ریخت سے بچنے کی ایک ناکارہ پالیسی ہے جس سے وہ بچ نہیں سکے گا۔

لیکن پاکستان کے عوام کے مسائل کچھ اور ہی ہیں۔ یہاں ہر روز ہزاروں بچے بھوک اور قابل علاج بیماریوں سے مر رہے ہیں،محنت کش طبقے کی خواتین زچگی کے دوران دم توڑ رہی ہیں۔بزرگ موت سے پہلے ہی مر رہے ہیں۔تعلیم ،علاج، صحت ،بجلی ،پانی ،نکاس ،روزگار اور تمام بنیادی ضروریات کی محرومی میں سارا سماج مر رہا ہے۔پاکستان کو متحداور قائم رکھنے کی بات ہورہی ہے‘ یہاں کے باسیوں کی زندہ موت کا کوئی ذکر نہیں ۔ان 19 کروڑ محکوموں اور مظلوموں کی سا لمیت کیسی،کون سی قوم،تقدس کیسا،کون سا وطن ناموس کیا؟

جن کی زندگی تڑپتی اور سسکتی ہے اور موت ناچتی ہے! لیکن یہ متحد ہو کر لڑگئے تو پھر حکمرانوں کاپاکستان نہیں بچے گا!

نجکاری ،مہنگائی ،غربت،بے روز گاری،دہشت گردی، ریاستی بربر یت ،مذہبی جنونیت ،بدعنوانی اور زندگی کی ذلت انگیزی کے حملوں کا خطرہ نہیں ہے۔یہ ہمیشہ سے ہورہے ہیں لیکن اب ان کی بربریت اتنی بڑھ چکی ہے کہ پورا سماج تیزی سے تباہی اور بربادی کی اندھی کھائی میں غرق ہورہا ہے۔اس حملے کے خلاف کبھی کیوں آل پارٹیز کا نفرس نہیں بلائی گئی یا بلائی جاتی۔

کیونکہ حکمران سیاست کے تمام نمائندے اس میں ملوث ہی نہیں بلکہ ان سے اپنی تجوریاں بھر رہے ہیں اور اس حکمران سیاست میں شہرت اور مقام خرید کر اپنی دولت کے انباروں کو ابھار رہے ہیں۔فوج ،عدلیہ اور ریاست کے ادارے نہ صرف اس لوٹ اور استحصال کے محافظ ہیں بلکہ اس کے ذمہ دار بھی ہیں۔1968 ء کی اسی قسم کی آل پارٹیز کانفرنس کا بائیکاٹ بھٹو نے اسی لئے کیا تھا کیونکہ اس معاشی اور سماجی جارحیت کے خلاف انقلابی سوشلزم کی جنگ لڑنے کا نعرہ اور اعا دہ پیپلز پارٹی کے پروگرام میں دیا گیا تھا۔ وہ معرکہ ایک مارکسی قیادت اور لینن اسٹ پارٹی کے فقدان کی وجہ سے محنت کشوں کی طبقاتی جدوجہد ہار گئی تھی۔ لیکن آج کی پیپلز پارٹی تو ان عوام کے غاصبوں اور حملہ آوروں میں کھڑی ہے۔

ایسے چلے گی نہیں!یہ آل پارٹیزکانفرنس عوام کی ذلتوں اور بربادیوں کا ایک تماشہ ہے۔ ان کی تضحیک ہے۔ حکمران طبقات کے مختلف دھڑوں کا عوام کے خلاف مصالحت کا اعادہ ہے۔ لیکن آج جو عوام کے زخموں کا تماشہ کر رہے ہیں کل پھر ابھرنے والی انقلابی تحریک ان کو معاف نہیں کرے گی۔ ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ان حکمران طبقات اور ان کی ریاست کو نیست ونابود کر کے ان بربادیوں کا انتقام لے گی۔

Source: Chingaree.com (Pakistan)