Urdu

اس سال مارچ کے مہینے میں لوئی ول شہر کے تین پولیس افسران بریونا ٹیلر اور اس کے بوائے فرینڈ کے گھر کے اندر زبردستی گھس گئے۔ پولیس نے اپارٹمنٹ میں 32 فائر کیے اور گولیوں کی بوچھاڑ نتیجے میں ٹیلر دم توڑ گئی۔ سرمایہ دارانہ عدالتوں کے حالیہ فیصلے میں کسی بھی افسر پر ماورائے عدالت قتل کا فرد جرم عائد نہیں کیا گیا۔ فیصلے کے خلاف شدید غم و غصّے کا اظہار کیا گیا اور ملک کے کم از کم درجن شہروں میں ہزاروں لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔

کئی ہفتے جارج فلائڈ کے قتل پر نسل پرستی اور پولیس تشدد کے خلاف جنم لینے والے احتجاج پورے امریکہ کو جھنجھوڑتے رہے۔ سماج کی ہر پرت نے اس تحریک کی حمایت کی۔ ایک اندازے کے مطابق امریکی یعنی تقریباً 2 کروڑ 50 لاکھ افراد نے کسی نہ کسی احتجاج میں کم از کم ایک مرتبہ شرکت کی۔ اگرچہ کچھ شہروں میں عوامی احتجاج ابھی بھی جاری ہیں لیکن زیادہ تر ملک میں عوامی سیلاب کا ریلا ختم ہو گیا ہے کیونکہ انہیں اس سے انقلابی راستہ نہیں ملا۔۔ فی الحال۔

مارکسی یونیورسٹی کا اختتام بھی اس کے آغاز کی طرح ناقابلِ یقین رجائیت کے ساتھ ہوا! مارکسی یونیورسٹی کے انعقاد سے لے کر اختتام تک 115 ممالک سے تقریباً 6500 افراد نے خود کو رجسٹر کرایا۔ شروعاتی سیشن کو تقریباً دس ہزار لوگوں نے دیکھا اور تقریب کے دوران تقریباً دو لاکھ اسی ہزار یوروز کے لگ بھگ چندہ بھی جمع کیا گیا۔ یہ دنیا میں کہیں بھی اعلیٰ معیار کی سیاسی بحثوں کے لحاظ سے بلاشبہ ایک حقیقی تاریخی واقعہ تھا۔ یہ سکول حقیقی مارکسی نظریات اور روایت کی قوت کا اور دنیا بھر سے اس تقریب کو کامیاب بنانے والے کامریڈز اور حامیوں کے انقلابی عزم کا ایک زبردست ثبوت تھا۔

14 جولائی کو نصف شب کے وقت پروگریسو یوتھ الائنس کراچی کے کارکن محمد امین کو ریاستی اداروں نے ان کے گھر سے اٹھا کر جبری طور پر لاپتہ کر دیا گیا تھا۔ تب سے پروگریسو یوتھ الائنس سوشل میڈیا پر مسلسل سراپا احتجاج ہے اور اب ایک ہفتہ گزر جانے کے بعد ملک بھر میں احتجاجی مظاہروں کے کامیاب انعقاد کا سلسلہ بھی شروع کیا جا چکا ہے۔ ہمارا مطالبہ دو ٹوک اور واضح ہے کہ کامریڈ امین کو فی الفور بازیاب کیا جائے اور اگر ان سے کوئی جرم سرزد ہوا ہے تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے۔ مگر پروگریسو یوتھ الائنس یہ سمجھتا ہے کہ کامریڈ امین کی جبری گمشدگی کوئی مخصوص اور الگ تھلگ کاروائی نہیں ہے بلکہ ریاست کی طرف سے سیاسی کارکنوں، قلمکاروں، صحافیوں اور حکومتی و ریاستی پالیسیوں کے ناقدین کے خلاف عمومی

...

فلسطین کی آزادی کے لیے متحرک صامدون نیٹ ورک نے ایک کھلا خط جاری کیا ہے۔ آئی ایم ٹی کی جانب سے لکھے گئے اس خط کے درج ذیل جواب میں فلسطین کی تحریکِ آزادی کی مکمل حمایت کرتے ہوئے جدوجہد کے درست طریقہ کار کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اپنے اس خط میں صامدون نیٹ ورک نے تحریک آزادی کے کارکنان سے اپیل کی ہے اور کہا ہے کہ ”فلسطینی قیادت کے جانے کا وقت آ گیا ہے!“۔ یہ خط بھی آئی ایم ٹی کے جواب کے بعد نیچے شائع کیا جا رہا ہے۔

نجی شعبے کی منافع خوری، بے دریغ پیداواری طور طریقے، ماحولیات کی تباہی اور طبی تحقیق میں کم تر سرمایہ کاری نے ایک ایسا طوفان برپا کر دیا ہے جس میں عالمی وبائیں عام ہوتی جا رہی ہیں اور ان کی روک تھام کے لیے ہماری صلاحیت معدوم ہوتی جا رہی ہے۔ سرمایہ داری نے نہ صرف اس ان دیکھے اور قاتل دشمن کو جنم دیا ہے بلکہ اس کے خلاف جدوجہد میں یہ سب سے بڑی رکاوٹ بن چکا ہے۔

برنی سینڈر دوڑ سے باہر ہو چکا ہے۔ یہ ان لاکھوں لوگوں کے لیے دھچکا ہے جنہیں امید تھی کہ اس کی کیمپئین امریکہ پر حکمرانی کرنے والے ارب پتیوں کے خلاف لڑنے کے لیے ایک آگے کا راستہ فراہم کرے گی۔ لیکن یہ ایک اہم موڑ بھی ہے۔ یہ لاکھوں لوگوں کے لیے ایک آخری تنکا ثابت ہوگا۔ یہ آخری بار ہوگا کہ انہوں نے سرمایہ داروں کے بنائے ہوئے دو پارٹی نظام کے اندر رہتے ہوئے کام کرنا چاہا۔

پوری دنیا کے حالات بجلی کی سی رفتار سے تبدیل ہو رہے ہیں۔ اس نئے کرونا وائرس (9-COVID) نے ایک کے بعد دوسرے ملک میں ظاہری استحکام کا پول کھولنا شروع کر دیا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے تمام تضادات سطح پر آنا شروع ہوگئے ہیں۔

پورے یورپ میں کرونا وائرس نے سب سے زیادہ تباہی اٹلی میں مچائی ہے۔ یہ صورتحال حکومت کی دائمی ناکامیوں کی عکاسی کرتی ہے جس کے اقدامات تاحال مکمل طور پر ناکافی رہے ہیں اور اس کی پوری کوشش ہے کہ ان حالات کا معاشی بوجھ محنت کش طبقے کے کندھوں پر ڈال دیا جائے۔

کرونا وائرس کی حالیہ وباء سے ایران خاص طور پر شدید متاثر ہوا ہے جس میں ریاستی بیوقوفیوں، غلط بیانی اور امریکی پابندیوں نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اس بحران نے گلی سڑی ایرانی سرمایہ داری کو مزید ننگا کر دیا ہے اور ریاست کے خلاف پہلے سے ابلتا شدید عوامی غم و غصہ اب چھلکنے کو تیار ہے۔

محنت کش خواتین کے عالمی دن پر ہم اپنے قارئین کے لیے مارکسی استاد اور انقلابِ روس کے عظیم قائد لینن کا ایک انٹرویو شائع کر رہے ہیں جو کہ جرمن کمیونسٹ رہنما کلارا زیٹکن نے کیا۔ اس انٹرویو میں لینن عورت کے سوال، اس کے مختلف پہلوؤں، محنت کش خواتین کو منظم کرنے، مزدور تحریک کے ساتھ اس کے تعلق اور عورت کی نجات کے لیے سوشلسٹ سماج کی جدوجہد پر روشنی ڈالتا ہے۔

كان صعود النظام الإقطاعي، في أعقاب انهيار روما، مصاحبا بمرحلة طويلة من الركود الثقافي في كل أنحاء أوروبا شمال جبال البيرينيه. وباستثناء اختراعين فقط هما: دولاب الماء وطواحين الهواء، لم تحدث آنذاك أي اختراعات حقيقية طيلة أكثر من ألف سنة تقريبا. وبعد مرور ألف سنة على سقوط روما، بقيت الطرقات اللائقة الوحيدة في أوروبا هي الطرق الرومانية. وبعبارة أخرى كان هناك كسوف كامل للثقافة. وقد كان ذلك نتيجة لانهيار القوى المنتجة التي تعتمد عليها الثقافة في نهاية المطاف. هذا ما نعنيه بالخط التنازلي في التاريخ، وهو الشيء الذي يجب ألا نتخيل أن تكراره مستحيل.

ریڈ ورکرز فرنٹ کی جانب سے بنائی گئی یہ دستاویزی فلم ایک ٹیکسٹائل مزدور کی زندگی کا احاطہ کرتی ہے۔ گو کہ اس مختصر دورانیے کی فلم میں ملتان کے علاقے شریف پورہ میں پاور لومز میں کام کرنے والے ایک مزدور کے تلخ حالات زندگی کو فلمایا گیا ہے مگر یہ ہرپاکستانی مزدور و محنت کش کی زندگی کی عکاسی کرتی ہے۔ وہی محنت کش جو اپنی محنت سے تمام تر دولت پیدا کرتے ہیں۔ جن کے دم سے یہ ساری رنگا رنگی ہے۔ ہمارے گرد یہ ساری چکا چوند ان مزدوروں کی محنت کی بدولت ہے۔ مگر جن کی اپنی زندگیاں گھٹا ٹوپ اندھیروں میں بسر ہوتی ہیں۔ جنم سے لے کر موت تک ان کی زندگیوں کا ہر لمحہ کسی عذاب سے کم نہیں۔ زندگی کی جہنم میں گزارہ کرنے کے لیے ہر گھڑی مرتے ہیں۔

آج شام لاہور کے علاقے بیگم کوٹ میں واقع آٹو سپئیر پارٹس بنانے والی فیکٹری راوی آٹوز میں مالکان کے بھیجے ہوئے کرائے کے غنڈوں نے اندھا دھند فائرنگ کر کے رضوان نامی ایک محنت کش کو قتل جبکہ دو کو شدید زخمی کر دیا۔ فیکٹری میں پچھلے کئی ماہ سے بڑے پیمانے پر جبری برطرفیوں کا سلسلہ جاری تھا جبکہ مزدوروں کو پوری اجرت بھی نہیں دی جا رہی تھی۔ اس پر جب یونین نے احتجاج کا اعلان کیا تو فیکٹری مالک کامران افضل کی جانب سے محنت کشوں کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئیں جن پر عمل کرتے ہوئے آج اس کے بھیجے ہوئے غنڈوں نے مزدوروں کے رہائشی کوارٹرز میں گھس کر آرام کرتے مزدوروں پر فائر کھول دیا۔ اطلاعات کے مطابق فیکٹری کا مینیجر بھی نہ صرف موقع پر موجود تھا بلکہ غنڈوں کو ہدایات دینے میں بھی پیش پیش

...

مجھے ابھی ابھی اپنے ایک عزیز دوست اور کامریڈ تنویر گوندل (جنہیں یہاں لال خان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے: مترجم) کی وفات کی خبر ملی ہے۔ وہ پچھلے کچھ عرصے سے کینسر کے مرض میں مبتلا تھا، مگر اس کے باوجود اس کی وفات کی خبر نہایت درد ناک ہے۔