Argentina: A un año de la asunción: la reacción, impotente para voltear al gobierno
Hay que pasar a la ofensiva y profundizar las conquistas sociales y democráticas
Hay que pasar a la ofensiva y profundizar las conquistas sociales y democráticas
30نومبر1967ء کی دھندلی صبح پاکستان کے مختلف علاقوں سے تین سوکے قریب افراد ہر طرح کی مشکلات اور سماج کے جمود کا مقابلہ کرتے ہوئے سماجی و معاشی انصاف کی جدوجہد میں لاہور میں اکٹھے ہوئے۔ موسم خزاں کی فضا میں انقلاب کی مہک تھی۔ پارٹی کی تاسیسی دستاویزات غیر مبہم تھیں، ’’پارٹی کے پروگرام کا حتمی مقصد طبقات سے پاک معاشرے کا قیام ہے جو صرف سوشلزم کے ذریعے ہی ممکن ہے‘‘۔ لیکن پی پی پی کو عوامی قوت بنانے والے واقعات کا نکتہ آغاز راولپنڈی میں طلباء کی بغاوت سے ہوا جس نے ملکی تاریخ کے سب سے طاقتور انقلاب کا آغاز کیا۔ چھ نومبر 1968ء سے 25 مارچ 1969ء تک اقتدار عوام کے ہاتھ میں تھا۔ پاکستان کی تاریخ میں یہی139دن اس ملک کے مجبور عوام کے ہیں۔ پہلی مرتبہ پاکستان کے پرولتاریہ کا نکتہ نظر نام نہاد ’جمہوری انقلاب‘ سے آگے بڑھ کر انقلابی سوشلزم اور سرمایہ داری اور جاگیر داری کے خاتمے تک بلند ہوا۔ جہاں بائیں بازو کی زیادہ تر جماعتیں جمہوریت کی جدوجہد کر رہی تھیں وہاں پیپلز پارٹی کا سوشلسٹ پروگرام اپنی تقدیر بدلنے کی خاطر تاریخ کے میدان میں آئے عوام کی امنگوں کے عین مطابق تھا۔ اس انقلابی تحریک سے نہ صرف اسلام آباد بلکہ اس سے کہیں دور اقتدارکے ایوان لرز اٹھے۔ اس وقت کے امریکی اور برطانوی سفارتی اہلکاروں کے ڈی کلاسی فائیڈ مراسلوں سے سامراج کو لاحق خوف کا بخوبی اندازہ لگایا جس سکتا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک پر زور عوامی طاقت اور روایت بننے کی بنیادہ وجہ بھی یہی ہے، جو ابھی تک قائم ہے اگرچہ اس کی حالت قابلِ رحم ہو چکی ہے۔
A raiva espalhou-se rapidamente à medida que milhares e milhares de pessoas iam se aglutinando na Praça Tahir para protestar contra o presidente Morsi e seu partido, a Irmandade Muçulmana. Por toda a praça viam-se slogans como: “A Irmandade Muçulmana roubou a revolução”, ou: “A Irmandade Muçulmana é mentirosa”. Durante todo o dia, chegavam à praça ondas intermináveis de marchas vindas da cidade velha (parte mais antiga da cidade do Cairo onde moram as pessoas mais pobres. Nota do Editor). Em tamanho e radicalismo os protestos de ontem (dia 27 de novembro) só se equiparam aos que levaram à queda do ditador Hosni Mubarak em Janeiro de 2011.