انتخابی مہم کی جعل سازی
پنجاب اور پختوں خواہ میں بے پناہ وسائل کے استعمال سے منعقد کئے جانے والے ’’دائیں بازو‘‘ کے جلسوں کے برعکس الیکشن سے محض چند دن پہلے پورا سماج سناٹے میں ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ انتخابات کا دور دورہ ہو اور عام لوگ اس سے یوں لاتعلق ہوجائیں۔ ہم نے بچپن سے بے شمار انتخابات دیکھے ہیں، اتنا جوش خروش انتخابی جلسوں میں نہیں ہوتا تھا جتنا محلوں، دوکانوں، بازاروں اور گلی کوچوں میں۔ جہاں ووٹر، نوجوان، بچے اور بزرگ گرما گرم سیاسی بحثوں میں مصروف ہوا کرتے تھے۔ اپنی پسند کی پارٹی کے حق میں دلائل دینے والوں اور مخالف پارٹی کے خلاف چارج شیٹ کرنے والوں نے باہیں ٹانگی ہوتی تھیں اور بیچ بچاؤ کرانے والے روک رہے ہوتے تھے۔ بچے گلیوں میں اپنی اپنی پارٹی کے پرچم لے کر نعرے بازی کرتے۔ بزرگ تجزے کرتے اور خبروں کا نچوڑ پیش کرتے، مگر اب یہ سب نہیں ہورہا۔ اب تو لگتا ہے کہ ’’پیڈ کارکنوں‘‘ اور بہت ہی سرگرم پرتوں کے علاوہ باقی ملک اس الیکشن سے خود کو بچانے کی کوشش کررہا ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ کوئی جادو اگلے چند روز میں کیفیت کو بدل دے گا بلکہ لگتا ہے کہ ووٹروں کی نسبتاََ کم تعداد اپنا ووٹ کاسٹ کرنے جائے گی۔ اس بیگانگی کی وجہ بہت سیدھی ہے۔ لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد کا اس نظام اور اس کے زیرِ اثر ہونے والے انتخابات سے اعتبار اٹھ گیا ہے۔ لوگوں نے ہر الیکشن سے پہلے نعرے اور وعدے سنے ہیں اور انتخابات کے بعدصرف جواز سننے کو ملے ہیں۔ ماضی قریب میں تقریباََ ہر سیاسی جماعت کئی کئی بار اقتدار میں مکمل پر جزوی طور پر شریک کاررہی ہے مگر لوگوں کے مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھتے ہی چلے گئے ہیں۔