Urdu

اپرو ایبو دِگنی داد (بائیں بازو کی پارٹیوں کا اتحاد) کے امیدوار گیبریئل بورِک نے 56 فیصد ووٹ حاصل کر کے صدارتی انتخابات جیت لیے ہیں۔ انتخابات میں ملکی تاریخ کے سب سے زیادہ ووٹ ڈالے گئے، جن میں 46 لاکھ ووٹ بورک کو پڑے جبکہ اس کے مقابلے میں ماضی کے آمر پنوشے کے پیروکار ہوزے اینتونیو کاست کو 10 لاکھ ووٹ کم پڑے، جس نے 44 فیصد ووٹ حاصل کیے۔

اس ایک مہینے میں 230 سے زائد ہڑتالوں اور احتجاجوں نے ایران کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ ان میں سب سے زیادہ نمایاں 11-13 دسمبر کو منظم ہونے والی اساتذہ کی ہڑتال تھی جس میں پورے ملک کے کئی سو شہروں میں بیسیوں ہزاروں اساتذہ نے شرکت کی۔ ملا ریاست نے ردِ عمل میں 200 سے زیادہ اساتذہ اور ٹریڈ یونین ممبران کو گرفتار کر لیا ہے۔

درج ذیل میانمار کے مارکسی انقلابی میگزین ’جدوجہد‘ کا تاسیسی اداریہ ہے، جو عالمی مارکسی رجحان کے حامی ہیں۔ ملک کے سخت ترین حالات کے باوجود مارکسی انقلابیوں کا ایک گروہ پی ڈی ایف میگزین شائع کرنے میں کامیاب ہوا ہے، جسے وہ اپنے فیس بک پیج ”ریولوشنری مارکسزم“ (جس کے ابھی 7 ہزار سے زائد لائکس ہو چکے ہیں) کے ذریعے تقسیم کرتے ہیں۔ میگزین کی کاپی حاصل کرنے کے لیے آپ پیج پر رابطہ کر سکتے ہیں۔ قارئین کے لیے بعض نکات کی وضاحت کی خاطر مندرجہ ذیل ترجمہ برمی زبان کی اصل تحریر سے تھوڑا مختلف ہے۔

حال ہی میں کرونا وائرس کی ایک نئی پریشان کن قسم نے جنم لیا ہے جسے B.1.1.529 یا اومیکرون کہا جاتا ہے۔ اس قسم کا سامنے آنا لاپرواہی کے ساتھ فوری سرمایہ دارانہ مفادات کو ترجیح دینے کا نا گزیر نتیجہ ہے، جس کے باعث اس وباء کا کوئی انت دکھائی نہیں دے رہا۔

سوڈانی انقلاب میں ایک نیا موڑ آیا ہے۔ ’کُو‘ کے ذریعے اقتدار سے ہٹائے گئے عبداللہ حمدوک کو 28 دنوں بعد فوجی حکومت نے بطورِ وزیراعظم دوبارہ بحال کر دیا ہے۔ سڑکوں کے اوپر موجود عوام، جو ایک مہینے تک سویلین حکومت کی خاطر لڑتے ہوئے اپنا خون بہاتے رہے، نے اس خبر کا خیر مقدم نہیں کیا بلکہ ان میں اس حوالے سے غم و غصّہ پایا جا رہا ہے۔

پچھلے سات سالوں میں مودی سرکار نے انڈین عوام کے الام و مصائب میں مسلسل اضافہ کیا ہے جسے کورونا وباء نے اور بھی اذیت ناک بنا دیا ہے۔ گڈز اور سروسز ٹیکس (GST) کا اجراء، ڈی مونیٹائزیشن اور اچانک غیر منصوبہ بند لاک ڈاؤن نے عوام کی دگرگوں حالت کو اور بھی گھمبیر کر دیا ہے۔

ایک سال کی طویل جنگ کے بعد بالآخر انڈیا کے کسانوں نے دائیں بازو کی مودی سرکار اور اس کے آقا سرمایہ دار مالکان کو شکست کی دھول چٹا کر تینوں رجعتی زرعی قوانین منسوخ کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ یہ کسانوں کی عظیم فتح ہے جو ستمبر 2020ء سے جاری شاندار جرات مندانہ اور ثابت قدم جدوجہد کا نتیجہ ہے۔

31 اکتوبر بروز اتوار رسمی طور پر کوپ 26 (COP26-Conference of Parties؛ اقوام متحدہ کی 26ویں کانفرنس برائے ماحولیاتی تبدیلی) کے مذاکرات شروع ہوئے، جو ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے اقوامِ متحدہ کی حالیہ کانفرنس ہے۔ یہ گلاسگو میں منعقد ہوئی جہاں بورس جانسن نے دو ہفتوں کے مذاکرات، پینل ڈسکشن اور پریس کانفرنس کے لیے دنیا بھر کے سربراہانِ مملکت کو خوش آمدید کہا، جہاں ماحولیاتی تبدیلی پر اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے لیے کاروباری شخصیات بھی موجود تھیں۔

پیر کے دن جنرل عبدالفتح البرہان کی سربراہی میں عبوری فوجی کونسل (TMC) کے لانچ کردہ کُو کا مقصد اقتدار پر تیز تر اور فیصلہ کن قبضہ تھا۔ لیکن کُو کی منصوبہ بندی کرنے والوں کے خواب و خیال میں کہیں گمان ہی نہیں تھا کہ پورے ملک کے طول و عرض میں لاکھوں کی تعداد میں انقلابی عوام اُٹھ کھڑی ہو گی اور احتجاجوں اور ہڑتالوں کے ذریعے کسی بھی فوجی آمریت کا راستہ روکنے کی جدوجہد شروع کر دیں گے۔ سال 2019ء میں رونما ہونے والے سوڈانی انقلاب سے عوام نے اہم اسباق سیکھے ہیں۔ یہ انقلاب کبھی بھی شکست خوردہ نہیں ہوا تھا۔ تجربہ کار عوام نے فوج کو ایک بند گلی میں لا کر کھڑا کر دیا ہے۔ اب انہیں فیصلہ کن فتح کی ضرورت ہے۔

ایک نئے فوجی کُو کی صورت میں سوڈان کی عبوری حکومت کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ سال 2019ء میں عوامی بغاوت اور ردِ انقلاب کے درمیان مفاہمت کا ناگزیر نتیجہ اب اپنے منطقی انجام کو پہنچ چکا ہے۔ غم و غصے میں بپھری عوام ایک مرتبہ پھر سڑکوں پر اتر کر ثابت کر رہی ہے کہ سوڈانی انقلاب کا زور ابھی ٹوٹا نہیں ہے۔ اس مرتبہ فوجی قیادت کے خلاف فیصلہ کن فتح تک نامصالحت جدوجہد ناگزیر ہو چکی ہے۔ 2019 میں عالمی مارکسی رجحان کی جانب سے لکھا گیا آرٹیکل جس میں موجودہ صورت حال کی پیش گوئی کی گئی تھی پڑھنے کیلئے...

امریکہ کے مختلف صنعتی شعبہ جات اس مہینے ہڑتالی لہر (جس کا نام اکتوبر کی مناسبت سے ’سٹرائیک توبر‘ رکھا گیا ہے) کی ضد میں آ گئے ہیں، جن میں شعبہ صحت سے لے کر تعمیراتی شعبہ؛ کارپینٹری سے لے کر کوئلے کی کان کنی کا شعبہ؛ میڈیا سے لے کر مواصلات کا شعبہ؛ سنیک فوڈز سے لے کر اناج کے شعبے شامل ہیں۔ مجموعی طور پر، اس مہینے ہڑتال کرنے کے حق میں 1 لاکھ محنت کشوں نے ووٹ ڈالا ہے۔

20 اکتوبر کو کورین کنفیڈریشن آف ٹریڈ یونینز (KCTU) کے80 ہزار سے زیادہ ممبران اپنی قیادت کی آواز پر جنوبی کوریا کے 14 علاقوں میں سڑکوں پر آ گئے۔ مزید 50 ہزار محنت کش دوپہر 2 بجے اپنی نوکریوں سے واک آوٹ کر گئے۔

اس وقت پوری دنیا میں صنعتوں کو مزدوروں کی شدید قلت کا سامنا ہے جس سے پیداوار منجمد ہو گئی ہے اور سپلائی چینز برباد ہو رہی ہیں۔ سرمایہ دارانہ منڈی کا مطلب انتشار اور بحران ہے۔ صرف ایک سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت ہی نجات کا واحد راستہ ہے۔

​​جنوبی کوریا کی حالیہ پروڈکشن سکویڈ گیم شاندار طریقے سے سرمایہ داری کی تلخ حقیقت، یعنی شدید مقابلہ بازی کو بے نقاب کرتی ہے۔ ایک جانب یہ نیٹ فلِکس کی مقبول ترین سیریز بن چکی ہے جبکہ دوسری جانب کوریا کے محنت کش عام ہڑتال کی تیاری کر رہے ہیں۔