ڈوبتی معیشت میں نئے صوبے

انسانی نفسیات کی سب سے غیر معمولی خاصیت موافقت ہے۔ عوام کی برداشت کی حدوں کو آزمایا جا رہا ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ وحشت ناک سماجی کیفیت مزید تاریک تر ہوتی جا رہی ہے۔عوام میں مہنگائی،بے روزگاری، بجلی کی قلت اور محرومی کے خلاف غصہ اور بغاوت سلگ رہے ہیں۔ اس اذیت ناک کیفیت کے خاتمے کے لیے دائیں بازو کی پاپولسٹ لفاظی کے علاوہ کوئی متبادل پیش نہیں کیا جا رہا۔ اپنی مخصوص بے صبری اور جلد بازی میں تیزی سے رنگ بدلنے والی پیٹی بورژوازی اس پاپولزم کے پیچھے چل رہی ہے لیکن یہ اسی انداز میں واپس بھی آئے گی۔ عوامی تحریک ابھی پھٹنی ہے اور محنت کش طبقہ اس وقت میدان میں آئے گا جب اسے گلتے سڑتے سماجی و معاشی نظام سرمایہ داری کے دیے ہوئے سلگتے ہوئے مسائل کا کوئی حقیقی حل نظر آئے گا۔

حکمران اشرافیہ کے تمام حصے ان ایشوز کا راگ الاپ رہے ہیں جن کا عوام کی روز مرہ زندگی اور ان کی رنجشوں سے کوئی تعلق نہیں۔ عدلیہ کا بحران اور توہینِ عدالت عوام کی وسیع اکثریت کے لیے بے معنی ہیں، میمو اور اس جیسے دیگر سکینڈل عوام کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتے اور نہ ہی اس قومی ریاست کی سا لمیت کو درپیش نام نہاد خطرات‘ جنہوں نے عوام کو محرومی اور اجرتی غلامی کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔ اب اشرافیہ ایک اور نوٹنکی پر اتر آئے ہیں۔جو ہزارہ، سرائیکی بیلٹ اور دوسرے علاقوں میں نئے صوبوں کا قیام ہے۔ مارکسی نقطہ نظر سے کسی بھی قومیت کے عوام کو اپنے انتظامی یونٹ خودمختاری اور حتیٰ کہ علیحدگی کا حق حاصل ہے اگربات یہاں تک پہنچے اور عوام کی اکثریت کی یہ خواہش ہو تو۔ اصل مقصد استحصال کا شکار عوام کی نجات ہے۔ لیکن اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کے لیے ان جذبات کا استحصال کر کے پاکستانی حکمران طبقات آگ سے کھیل رہے ہیں۔ ایک ایسے ملک میں جس کی تاریخ قومی جبر کی لعنت سے بھری پڑی ہے اور خصوصاً بلوچستان میں یہ گھاؤ ناسور بن گیا ہے، وہاں قومی مسئلے کو مزید پیچیدہ بنانا بورژوازی کے حواس باختہ ہونے کو ظاہر کرتا ہے۔

دو قومی مفروضے کے با وجود پاکستان ایک قومی ریاست کے طور پر معرض وجود میں نہیں آیا تھا یہ مختلف قومیتوں پر مشتمل تھا جو اس کے نام کے اجزاء سے ظاہر ہے۔تاہم ساٹھ سال گزر جانے کے باوجود یہ قومی ریاست نہیں بن سکا۔بلکہ مختلف قومیتوں کے مابین مخاصمتیں شدید تر ہوئی ہیں۔ مشرقی بنگال کی علیحدگی مذہب کے نام پر قومی ریاست کی تخلیق میں ناکامی کا پہلا ثبوت تھا۔پاکستانی ریاست کے قومی جبر اور ظلم کے خلاف بلوچستان میں مسلسل بغاوت جاری ہے۔وقتاً فوقتاً اور نسل در نسل یہ ابھر کر سامنے آتی ہے۔سامراجی معدنیات سے مالامال اس خطے پر گدھوں کی طرح جھپٹ رہے ہیں اور یہاں انکی درپردہ جنگ جاری ہے جس میں بلوچستان کے بدحال عوام قتل ہو رہے ہیں۔ریاست کی جانب سے پاکستانی شاؤنزم کو مسلط کرنے میں پنجابی اشرافیہ پیش پیش ہیں۔ لیکن وہ پنجابی عوام کے خلاف مظالم کے بھی ذمہ دار ہیں۔ خونی بٹوارے میں مرنے والے ستائیس لاکھ انسانوں میں بڑی اکثریت پنجابی محنت کشوں اور کسانوں کی تھی۔ تب سے اب تک پنجابی حکمران اشرافیہ بے رحمی سے اس قوم کے محنت کشوں کا استحصال اور ان کا خون نچوڑ رہا ہے۔ ان کی جانب سے محکوم قوموں کے قومی استحصال کے جرم کا پہلا اور سب سے بڑا نشانہ پنجابی قوم پرستی، زبان اور ثقافت رہی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ پاکستان کی مشرقی اور مغربی طویل ترین سرحدیں زندہ ثقافتوں اور ان کے دونوں طرف آباد ایک ہی قوم کو چیر کر بنائی گئی ہیں۔ مغرب میں 1893ء میں برطانویوں کی جانب سے کھینچی گئی ڈیورنڈ لائن پشتونوں کو تقسیم کرتی ہے جہاں کوئی مذہبی تفریق بھی موجود نہیں۔ یہ مصنوعی سرحدیں سماج کو تاراج کرتے ہوئے وحشت ناک سماجی اور معاشی بحران کو برداشت نہیں کر سکتیں۔ لیکن بورژوا بنیادوں پر قومی مسئلے کو حل نہیں کیا جا سکتا۔ یورپ سے لے کر امریکہ تک کی پرانی سرمایہ دارانہ قومی ریاستیں ذرائع پیداور کے اس بحران کو برداشت نہیں کر پا رہیں جو قومی سرحدوں سے باہر نکل کر عالمی سطح پر رونما ہو رہا ہے اور اس کی وجہ ٹیکنالوجی کی ترقی اور سرمایہ دارانہ استحصال کا پھیلاؤ ہے۔ ہر سیاسی اکائی پر عالمی منڈی کا کچل دینے والا غلبہ ہے۔ سرمایہ داری میں رہتے ہوئے کوئی بھی نہیں بچ سکتا ۔ لیکن محکوم قوموں کے محنت کش طبقات کی نجات کے لیے ضروری ہے کہ عوامی بغاوت کے اندر موجود دشمن کا مقابلہ کیا جائے۔ ’مصالحت‘ کا رجعتی نظریہ مختلف قومیتوں کے سیاسی اشرافیہ پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ اشرافیہ لوٹ مار کی بندر بانٹ میں اکٹھے ہوتے ہیں لیکن جوں ہی لوٹ کا مال ختم ہوتا ہے ، یہ بھی الگ الگ ہو جاتے ہیں اور دیگر مسائل کے علاوہ وہ قومی سوال کو لوٹ مار میں اپنا حصہ بڑھانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ قومی آزادی کے لیے یہ ضروری ہے کہ محنت کش عوام قومی جبر کے خلاف جدوجہد کے دریا کو طبقاتی جدوجہد کے سمندر میں جا ملائیں۔ موجودہ جغرافیائی حدبندیوں کے اندر رہتے ہوئے قومی مسئلے کو حل نہیں کیا جا سکتا۔ انسانیت کی آزادی کے لیے لینن کا انتہائی اہم کارنامہ قومی سوال کا حل تھا۔ 1920ء میں لینن نے لکھا تھا ’’حق خود ارادیت کو تسلیم کرلینے کا مطلب علیحدگی کے خلاف پروپیگنڈا اور تحریک سے دستبرداری نہیں اور نہ ہی بورژوا قوم پرستی کو بے نقاب کرنے سے‘‘۔

تاہم ڈوبتی ہوئی معیشت کے ساتھ قومی مسئلہ مزید بھڑکے گا اگرایک انقلابی لینن اسٹ پالیسی نہ اپنائی گئی ،حکمران طبقات قومی سوال کواس طبقاتی اور قومی جبر کے نظام کا تختہ الٹ دینے والی تحریکوں میں طبقاتی جڑت کو توڑنے کے لیے استعمال کریں گے۔ پاکستان میں سرمایہ داری کے انتہائی جانے مانے ماہرین بھی معیشت کے بارے میں نا امید ہیں۔ سابقہ وزیر خزانہ اور عالمی بینک میں ماہرِ اقتصادیات شاید جاوید برکی نے حال ہی میں لکھا کہ ’ ’ ایک غیر معمولی طور پر کمزور سال کے بعد 2012ء میں معیشت 2011ء کی مدہم کارکردگی سے بہتر نہیں ہو گی۔ ۔ ۔ غریبوں کی پہلے سے ایک بڑی فوج میں ایک کروڑ افراد کا اضافہ ہو جائے گا۔ بیروزگاری کی شرح میں اضافہ ہو گا جس کا زیادہ اثرشہر ی علاقوں۔۔خاص طور پر بڑے شہروں میں محسوس ہو گا۔ امیر خود کو عمومی غربت کے اندر امارت کے جزیروں میں الگ تھلگ کرنا جاری رکھیں گے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں یہ سب سماجی اور سیاسی بے چینی کا باعث بنتا ہے۔ میں 2012ء میں پاکستان کے لیے آسان وقت نہیں دیکھ رہا۔ ‘‘

عوام کے حالات میں مزید گراوٹ آئے گی۔ دولت کی منصفانہ تقسیم، ملکیتی رشتوں کی تبدیلی، ذرائع پیداوار، معیشت، زراعت اور معدنی وسائل پر محنت کش طبقے کی اجتماعی ملکیت کے بغیر، موجودہ نظام میں کوئی بھی انتظامی تبدیلی عوام کی اذیت کو کم نہیں کر سکتی۔ سماج کے زندہ جسم کو عذاب اور تکلیف دینے والے سرمایہ دارانہ نظام کے سرطان کو جراحی سے نکالنا ہو گا۔ اس کامیابی کو حاصل کرنے کا واحد راستہ ایک سوشلسٹ انقلاب ہے۔