سلسلے یہ ملاقاتوں کے!

نریندرا مودی کی جانب سے حلف برداری کی تقریب پر میاں نواز شریف کو دی جانے والی دعوت، میاں صاحب کی قبولیت اور راشتریا بھون پہنچ جانے کے واقعات کو علاقائی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ پر غیر معمولی کوریج تو ملی ہے لیکن یہ سارے اقدامات اور واقعات بحث وتکرار اور تنازعات کا باعث بھی بنے ہیں۔

یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ برصغیر جنوب اشیا میں امن کی جانب کوئی بھی پیش رفت ایک مثبت عمل ہے۔ تعلقات کی بہتری اور جنگوں کے خطرے نکلنے کی خواہش اس خطے کی ڈیڑھ ارب آبادی کوہے۔ آج ایسے بہت کم حلقے رہ گئے ہیں جو اس وقت بھی کسی قسم کی دوستی اور قربت کی پیش رفت کو مسترد کررہے ہوں۔ لیکن عوام کی سوچ، جذبے اور موڈ بدلتے رہتے ہیں۔ آج سے چند مہینے قبل جب تک بی جے پی کو اتنی اکثریت حاصل نہیں ہوئی تھی اور مودی ہندوستان کے قصر اقتدار میں نہیں پہنچا تھا تو پاکستان اور ہندوستان میں ایک بڑی اکثریت نہ صرف اس کی کٹر پالیسیوں اور مذہبی جنونیت سے انتہائی خوفزدہ تھی بلکہ اس کے قاتلانہ ماضی سے بہت زیادہ ڈر اور نفرت دلانے کے رجحانات بھی زوروں پر تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندو بنیاد پرستوں کی مختلف جنونی مذہبی پارٹیوں کی چھتری بی جے پی کو اسکی تاریخ کی سب سے بڑی پارلیمانی اکثریت تو ملی ہے لیکن اس کو پورے ہندوستان سے صرف 31فیصد ووٹ حاصل ہوئے ہیں۔ اس سے پارلیمانی جمہوریت میں ’’جمہور کی رائے‘‘ کا ناٹک بھی بے نقاب ہوتا ہے۔ عوام کی اس جمہوریت اور فیصلہ سازی میں عدمِ نمائندگی کی یہ ایک معمولی سی جھلک ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی سرمایہ دارانہ جمہوریت میں بھی اصل فیصلے کارپوریٹ آقا ہی کرتے ہیں جو آبادی میں ایک فیصد سے بھی کم تناسب رکھنے کے باوجود حکمرانی، حکومت اور اقتدار پر قابض ہیں۔ یہ کھلواڑ امریکہ سے لے کر برطانیہ، یورپ اور پاکستان تک، ہر پیسے کی جمہوریت میںیکساں ہے۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ سماج کی کوکھ بحران کی شدت سے اندر ہی اندر دھک رہی ہوتی ہے، جمہور بے چین ہوتا ہے لیکن سطح پر نظر آنے والی عمومی سماجی نفسیات اور سوچوں پر حکمرانوں کے نظریات، سیاسی پارٹیوں اور لیڈروں کا اثر ورسوخ ہی حاوی نظر آتا ہے۔ حکمرانوں کے یہ رجحانات مسلط کرنے میں درمیانہ طبقہ اور کارپوریٹ میڈیا اہم کردار ادا کرتا ہے۔

جونہی مودی وزیرِ اعظم کے طورپر کامیاب ہوا اور طاقت کے ایوانوں کی جانب بڑھنے لگا تویہی درمیانہ طبقہ اور ہندوستان کے انتہائی رجعتی میڈیا کے بیشتر اینکر پرسنز اور تجزیہ کار، اس ریاستی جاہ وجلال اور طاقت کی چمک سے ذہنی طور پر مغلوب اور مفلوج ہو کر عوام کو بھی اس جشن کے نشے میں مبتلا کرنے لگے۔ محنت کشوں میں میں زندگی کی بہتری اور حالات کے سنورنے کی جھوٹی امیدیں پیدا کی جانے لگیں۔ لیون ٹراٹسکی نے ایک مرتبہ لکھا تھا کہ’’ درمیانہ طبقہ صرف ایک خدا کو جانتا ہے اور وہ طاقت ہے۔ طاقت کا یہ خدا چاہے کسی روپ میں بھی ہو، ان کی نفسیات پر حاوی ہوتا ہے۔‘‘

مودی نے نواز شریف کو دعوت اچانک نہیں دے دی بلکہ یہ ایک پہلے سے طے شدہ منصوبہ بندی کے تحت ہوا ہے۔ نواز شریف بھی بہت سوچ سمجھ کر اور بہت سوں کو منا کر دہلی گئے ہیں۔ سینئر صحافی جاوید نقوی کی دہلی سے آنے والی ایک رپورٹ کے مطابق پہلی پالیسی صرف میاں صاحب کو دعوت دینے کی تھی، لیکن پھر آر ایس ایس اور بی جے پی کے دوسرے جنونی حلقوں کو ’’دلاسہ‘‘ دینے کے لئے سارک ممالک کے سارے سربراہان کو مدعوکرلیا گیا۔

اب ایسا بھی نہیں ہے کہ مودی بالکل ہی پاگل مذہنی جنونی ہے۔ وہ بہت عیار سیاست دان ہے۔ سرمایہ دار طبقہ اپنی حاکمیت کو طول دینے اور استحصال کو جاری رکھنے کے لئے عوام کو مذہبی جذبات میں بالواسطہ طور پر الجھا کر اس نظام کا مطیع بنواتا ہے۔ ہندوستان اس وقت ایک شدید معاشی بحران کا شکار ہے۔ یہاں کے کارپوریٹ سرمایہ دار اور سرمایہ کاری کرنے والی سامراجی اجارہ داریاں اپنے سیاسی نمائندوں سے ایسی پالیسیاں بنوانے کے لیے کوشاں ہیں جن سے ان کے کاروبار کے منافعوں کی شرح میں اضافہ ہو اور معاشی واقتصادی استحکام پیدا ہوسکے۔ بی جے پی اور نریندرا مودی تمام تر شعبدہ بازی کے برعکس اصل میں ہندوستان کے کارپوریٹ سرمائے کے مفادات کی نمائندگی کرتے ہیں۔ وہ نہ صرف اس خطے میں علاقائی تعلقات کو ایک خاص حد تک کشیدہ رکھنا چاہتے ہیں بلکہ محنت کشوں پر زیادہ شدید حملے کرکے انکی رعائتوں اور سبسڈیوں میں کٹوتیاں کروا کے شرح منافع میں رکاوٹ اور بحران کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان میں بھی نواز لیگ اس ملک کے سرمایہ دار طبقے کی ہی’’بزنس فرینڈلی‘‘ جماعت ہے۔ ان کے مقاصد بھی بی جے پی سے قطعاً مختلف نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میاں صاحب نے دہلی میں برکھا دت کو دیئے جانے انٹرویو میں یہ کہہ دیا کہ’’ہم وہیں سے دوبارہ یہ تعلقات شروع کرنا چاہتے ہیں جہاں سے میں اور واجپائی صاحب نے اس عمل کو چھوڑا تھا۔‘‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ ماضی میں ہندوستان کے سرمایہ دار طبقے کی کلاسیکی پارٹی کانگریس تھی لیکن یہ جماعت اب بدعنوانی اور دوسرے جرائم کی وجہ سے متروکیت کا شکار ہوچکی ہے اور ہندوستان کے سرمایہ داروں کی نئی نسل نے اپنے سارے داؤ اس ہندو جنونی پارٹی بی جے پی پر لگا دیئے ہیں۔ پاکستان میں پیپلز پارٹی اپنے آغاز میں سرمایہ دار دشمن اورمحنت کشوں کی سوشلسٹ روایت رہی ہے، لیکن اسکی قیادت پچھلے30 سال سے پاکستان کے حکمران طبقات، ریاست اور سامراج کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ تاہم تمام تر کوششوں کے باوجود بھی اس کو حکمرانوں کا وہ اعتماد حاصل نہیں ہوسکا جو ان کو مسلم لیگوں پر ہے۔

’’ پاک بھارت تعلقات‘‘ کے اس نئے سلسلے میں ساری بات چیت دشمنی کومحدود حد تک قائم رکھتے ہوئے اسی کے دائرہ میں ظاہری دوستی کا ناٹک رچانے کے لیے ہی ہوگی۔ اس ناٹک کو کبھی امن، کبھی دوستی اور کبھی ہمسایوں کے اچھے تعلقات کا نام دیا جائے گا۔ ویزے صرف بڑے کاروباری حضرات کے لیے ہی مکمل طورپر کھلیں گے، آنے جانے کی آزادی بھی انہی کو ہوگی جبکہ عام لوگوں کے ملن کو محددو د ہی رکھا جائے گا۔

پچھلے5 سالوں میں ایشیا سے بڑے پیمانے پر مغربی سرمایہ واپس یورپ اور امریکہ منتقل ہوا ہے۔ لیکن سرمائے کی اس واپسی کے باوجود یورپ اور امریکہ میں جاری معاشی زوال کی وجہ سے ایشیائی ممالک کی پیداوار کی کھپت میں اضافہ نہیں ہوگا۔ اس صورتحال سے برصغیر کے حکمران طبقات شدید تشویش میں مبتلا ہیں اور اس کوشش میں وہ منڈی کے لئے ہر کونے کھدرے کی تلاش کرکے برآمدات بڑھانا چاہتے ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان میں’’ تجارت‘‘ بڑھانے کا شور اسی لیے دونوں طرف سے مچایا جارہاہے۔ تجارتوں کے بڑھانے سے حکمرانوں کے منافعے تو بڑھ سکتے ہیں لیکن غریبوں کی زندگیوں میں بہتری نہیں آیاکرتی۔

اگریہ سارے ہتھکنڈے ناکام ہوگئے، جس کے کافی امکانات ہیں، تو ہندوستان اور پاکستان میں معاشی اور اقتصادی بحران مزید شدت اختیار کر ے گا۔ دونوں طرف رجعتی لابیاں، مذہبی سیاست اور ریاستی نفرتوں کو ’’قومی غیرت‘‘ کے نام پر ہوا دیں گی۔ پھر مودی بھی اپنے اصل رنگ میں نظر آئے گا اور آج ہزاروں سال کی مشترکہ ثقافت اور گہرے رشتوں کی بات کرنے والے میاں صاحب بھی پاکستان کی سا لمیت کے لئے مر مٹ جانے کا شور کریں گے۔ تناؤ بڑھے گا، جنگی صورتحال کاماحول پیدا کیا جائے گا۔ ہندوستان اور پاکستان میں اس بحران کے خلاف ابھرنے والی محنت کشوں کی تحریکوں کو کچلنے کے لیے قومی اور مذہبی جنون کو پوری طرح مسلط کیا جائے گا۔ یہ حکمران نہ تو اب جنگ کرسکتے ہیں اور نہ امن رکھ سکتے ہیں۔ دوستی اور دشمنی کا یہ کھیل چلتا رہے گا، کیونکہ نظام اتنا برباد ہے کہ کہ سماجوں کو ترقی نہیں دے سکتا اور بدحالی میں کوئی استحکام ممکن نہیں۔ لیکن ان دوستیوں اور دشمنیوں کے کھلواڑ میں محنت کش عوام کب تک بربادیوں کا نشانہ بنتے رہیں گے؟ استحصالی حکمرانوں کے ناٹک اب زیادہ دن تک چلنے والے نہیں ہیں!

Source