مصر کی گلیوں میں عوام کی واپسی

 Urdu translation of The Masses Return to the Streets in Egypt: Revolution Until Victory! (July 11, 2011)

تحریر: برائن ایدمز اور وکٹوریہ یرسٹرام

چنگاری ڈاٹ کام، 16.07.2011

آٹھ جولائی کو قائرہ کی گلیوں میں لاکھوں لوگوں نے احتجاجی مظاہرہ کیااور اسی طرح اسکندریہ اور سوئز سمیت مصر کے ہر شہر میں ہزاروں بلکہ لاکھوں نے سڑکوں پر احتجاجی جلوس نکالے۔ حسنی مبارک کے دھڑن تختے کے بعد سے اب تک ہونے والا یہ سب سے بڑا احتجاج تھا۔ مصر کے محنت کشوں اور نوجوانوں کے حالات زندگی میں ابھی تک کوئی بہتری نہیں آئی اور تحریر چوک ایک بار پھر انقلاب کا مرکز بنتا جا رہا ہے۔

اس مضمون کے مصنفین نے گزشتہ ماہ مصر کا دورہ کیا تاکہ حسنی مبارک کے خاتمے کے بعد انقلاب اور تمام صورتحال کا ازخود جائزہ لیا جا سکے۔

انقلاب کا عہد

ہم 10 جون کو مصر پہنچنے کے بعد سب سے پہلے تحریر چوک گئے جہاں سے25 جنوری کو انقلابی تحریک کا آغاز ہوا تھا۔ تحریر چوک مصر کے محنت کشوں اور نوجوانوں کے لئے تبدیلی کی علامت بن چکا ہے ااور وہ ابھی بھی ہر جمعہ کو ہزاروں کی تعداد میں حکومت کے خلاف حالات زندگی کو بہتر کرنے کا مطالبہ لے کر احتجاج کرتے ہیں۔ وہاں موجود نوجوان انقلاب کے تجربات اور اپنے مطالبات کے بارے میں ہمیں آگاہی دینے کے لئے بیتاب تھے اور جب ہم نے انھیں یہ بتایا کہ ہم عرب انقلاب کی مکمل حمائیت کرتے ہیں اور مصر اور تیونس کے انقلابات ہمارے اپنے ممالک کے نوجوانوں کے لئے ایک نئی شکتی اور تقویت کا ذریعہ ہیں تو ان کی خوشی اور جذبات قابل دید تھے۔بین الاقوامیت کا جذبہ ان میں فطری طور پر موجود ہے ان کے اندر ایک سلگتی ہوئی خواہش موجود ہے کہ دنیا ان کے انقلاب کے بارے میں جانے ، دنیا بھر کے نوجوان اور محنت کش ان کے ساتھ یکجہتی کریں اور ان کا انقلاب پورے کرہ ارض پر پھیلے۔

یہ نوجوان انقلاب کی زندہ مثال ہیں یعنی تاریخی تبدیلی کا وہ جاندار نقطہ آغاز جب سیاست سے لا تعلق رہنے والی عوام کی اکثریت یکدم ایک سیاسی قوت کے طور پر سماج پر اپنی حاکمیت قائم کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ ہم جتنے نوجوانوں سے ملے وہ تمام 25 جنوری کے بعد اپنی زندگی میں پہلی بار سیاسی عمل میں شریک ہونا شروع ہوئے۔ان کو انتہائی بدترین حالات کا سامنا تھااور اب بھی ہے۔ نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح 25 فیصد سے زیادہ تھی، بڑھتی ہوئی مہنگائی معیارزندگی میں تیز ترین گراوٹ کا اور مستقبل کے حوالے سے مکمل نا امیدی کا باعث تھی۔ لیکن 25 جنوری کی تحریک نے مایوسی اور نا امیدی کی اس کیفیت کو یکسر تبدیل کر دیا۔ مصر کے نوجوانوں نے اپنی زندگیوں میں پہلی بار اٹھ کر کہا کہ بس بہت ہو گیا! اور لاکھوں کی تعداد میں ایک تحریک میں قائرہ اور ملک بھر کی شاہراہوں پر اپنے مستقبل کی لڑائی لڑنے لگے۔ ان لوگوں کے لئے جنہوں نے عوام کی معاشرے کو تبدیل کر دینے کی امکانی طاقت کو دیکھا اور محسوس کیا ہے اس کی بہت کم گنجائش باقی ہے کہ وہ یہ جدوجہد ترک کر کے گھروں میں بیٹھ جائیں۔ ایک طالبعلم نے اس صورتحال کو یوں بیان کیا ہے.... میں لڑائی کے لئے تیار ہوں ، میں مرنے اور مارنے دونوں کے لئے تیار ہوں لیکن میں کسی بھی صورت یہ جدوجہد چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوں۔ جن نوجوانوں اور محنت کشوں سے ہماری بات چیت ہوئی وہ انقلاب کے بارے میں ایسے ہر گز گفتگو نہیں کرتے جس سے کوئی ایسا تاثر ابھرے کہ انقلاب گزرے ہوئے کل کا کوئی واقع تھابلکہ وہ اس انداز سے گفتگو کرتے ہیں کہ انقلاب کا عمل ابھی جاری وساری ہے۔ عمر نامی ایک طالبعلم جو امریکہ میں زیر تعلیم ہے اور چھٹیاں گزارنے اپنے گھر آیا ہوا ہے نے بتایاکہ کیسے لوگ ایک انقلابی عہد کے بارے میں بات کرتے رہتے ہیں ایک ایسا عہد جو اس وقت تک ختم نہیں ہو گا جب تک کہ زندگی کے مادی حالات تبدیل نہیں ہو جاتے، جب تک کہ تمام لوگوں کوروزگار، علاج معالجے اور تعلیم سمیت تمام بنیادی سہولیات نہیں مل جاتیں۔ انقلاب نے ہمارے لوگوں کے شعورکو مکمل طور پر تبدیل کر دیا ہے۔ 25 جنوری سے پہلے لوگ اپنے گردوپیش سے مکمل بیگانہ ہوتے تھے، تمام گلیاں گندگی سے اٹی ہوتی تھیں اور کوئی ان پردھیان نہیں دیتا تھا مگرانقلاب کے بعد اس بیگانگی کا خاتمہ ہو چکا ہے لوگ اس ملک کو پھر سے اپنا سمجھنا شروع ہو چکے ہیں ، گلیاں اب صاف ستھری ہیں،لوگوں کے اندر تعظیم اور ملک کی اجتماعی ملکیت کا ایک انوکھااحساس ہے جو پہلے نہیں ہوتا تھا۔

ظاہری تبدیلی

مصر کے تمام لوگوں کو اس بات کا بخوبی احساس بھی ہے اور ہمارے ساتھ گفتگو میں انھوں نے اس کا اظہار بھی کیا کہ انقلاب کے باوجود کوئی حقیقی تبدیلی نہیںآئی۔ یہاں تک کہ بنیادی جمہوری حقوق بھی نہیں حاصل کیے جا سکے، معاشی حالات اگر بدتر نہیں ہوئے تو بہتر بھی نہیں ہوسکے۔ اکانومسٹ جریدے نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں انقلاب کے بعد مصر کی معاشی صورتحال کی درجہ ذیل رپورٹ پیش کی ہے۔ سرکشی کے بعد جی ڈی پی میں سال کی پہلی سہ ماہی میں 4 فیصدگراوٹ آچکی ہے، صنعتی پیداوار 12 فیصد کم ہو گئی ہے۔ سیاحت سے حاصل ہونے والی آمدن کا تقریباً خاتمہ ہو چکا ہے جس کی وجہ سے ادائیگیوں کا توازن بہت بگڑ چکا ہے اور غیر ملکی کرنسی کے ذخائر مسلسل کم ہو رہے ہیں۔ سرکاری تخمینوں کے مطابق حکومت کو مالی سال کے دوسرے نصف میں 11 ارب ڈالر کے خارجی خسارے کا سامنا کرنا ہو گا(اکانومسٹ25 جون2011 )۔ معیشت کی یہ زبوں حالی سب کے سامنے ہے اور آسانی سے سب کی سمجھ میں آنے والی ہے۔ مصر کے محنت کشوں ، نوجوانوں اور یہاں تک کہ سیاحوں کے لئے بھی یہ بالکل واضح ہے کہ مبارک کے اقتدار کے خاتمے کے باوجود عوام کی حالت زار میں کوئی بہتری نہیں آئی۔جتنے لوگوں سے ہم نے گفتگو کی ان میں سے کوئی بھی اس غلط فہمی کا شکار نہیں ہے کہ انقلاب محض جمہوری رعائتوں کے حصول تک محدود ہے بلکہ ہر کوئی حقیقی تبدیلی کی سلگتی خواہش سے لبریز ہے۔ انقلاب کی حقیقی قوت محرکہ منظم محنت کش طبقہ تھا۔ نئی بننے والی انڈیپنڈنٹ ٹریڈ یونین فیڈریشن کے سربراہ طلال شکور نے صورتحال کو ان الفاظ میں بیان کیا۔انقلاب سے پہلے حکومتی اثر سے آزاد محض چار یونینیں تھیں مگر انقلاب کے دوران اور بعد میں ہر ادارے میں نئی آزاد یونینیں اور فیڈریشنیں بنی ہیں اور ان کے پلیٹ فارم سے ہونے والی ہڑتالوں کے نتیجے میں حکومت کم از کم اجرت میں اضافہ کرنے پر مجبور ہوئی جو اب سات سو مصری پاؤنڈ(118$ ) کی گئی ہے اور اسی طرح کم از کم پنشن کی رقم میں بھی جلد اضافہ متوقع ہے مگر ہم ابھی مطمئن نہیں ہیں۔ملک میں جاری ہڑتالوں کے خلاف ریاستی جبر مصر کے فوجی حکمرانوں کی منافقت کو عیاں کرتا ہے اور ساتھ میں اس حقیقت کو بھی کہ ابھی تک ہڑتال جیسا بنیادی جمہوری حق بھی تسلیم شدہ نہیں ہے۔ فوجی کونسل انقلاب کے حق میں منافقانہ بیان بازی سے زیادہ کچھ نہیں کر رہی اور نہ ہی کر سکتی ہے چونکہ فوجی کونسل پرانی ریاستی مشینری اور حکمران طبقے کاصرف حصہ ہی نہیں بلکہ اس وقت اس نظام اور حکمران طبقات کے مجموعی مفادات کی محافظ بھی ہے۔ حسنی مبارک کے ٹولے کی تمام تر لوٹ مار کی محافظ ہونے کے علاوہ فوجی کونسل خود اس لوٹ مار میں حصہ دار رہی ہے اس لئے فوجی کونسل سے ہر گز یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ عوام کی خواہشات کے مطابق مبارک اور اس کے ٹولے کے خلاف کوئی کاروائی کرے گی کیونکہ اس کی زد میں فوجی کونسل اور اس کے مفادات بھی آتے ہیں۔

انقلاب میں پھوٹ

انقلاب کے ابتدائی مراحل کے بعد تمام مراعات یافتہ پرتیں موجودہ کیفیت،اسٹیٹس کو، کو برقرار رکھنے کے لئے اس بات کا واویلا کر رہی ہیں کہ انقلاب مکمل ہو چکا ہے چونکہ جمہوریت کا مطلب لبرل بورژوازی کے لئے ایک دولت مند اقلیت کو اکثریت کو لوٹنے کی آزادی سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا۔ یہ امیر لٹیرے جو انقلاب کے وقتی ساتھی ہوتے ہیں اب انقلاب کو محض اپنی دولت میں اضافے کے ذریعے کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ جبکہ اس کے برعکس سماج کی وسیع اکثریت کے لئے انقلاب کا مطلب ان کی زندگی کے تمام بنیادی مسائل کا حقیقی خاتمہ ہے اسی لئے وہ اس کو حتمی فتح تک لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بیشتر علاقوں میں انقلاب کے ابتدائی ایام میں بننے والی عوامی اسمبلیاں ابھی تک متحرک ہیں ۔ مختلف اداروں میں تنخواہوں میں اضافے اور دیگر بنیادی حقوق کے حصول کے لئے ہڑتالیں بھی جاری ہیں تاہم ان تمام بکھری ہوئی لڑائیوں کو جوڑتے ہوئے آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ مختلف طبقات کی نمائندگی کرنے والے مختلف سیاسی رحجانات بھی ابھر رہے ہیں اور ستمبر میں ہونے والے انتخابات کی تیاری کر رہے ہیں ۔ اخوان المسلیمین حسب روائیت ایک مہلک کردار ادا کرتے ہوئے لبرل بورژوازی کی دم چھلہ بنی ہوئی ہے اور بعض نام نہاد مارکسسٹ اس کی دم سے چمٹے ہوئے ہیں۔ واحد عوامی پارٹی، تاگامو، انقلاب میں موجود مختلف رحجانات کی وجہ سے مختلف دھڑوں میں بٹ چکی ہے۔ نوجوانوں کی وسیع اکثریت جو انقلاب کے ہر اول دستے کے طور پر متحرک رہی ان تمام پارٹیوں سے بد ظن ہے۔ نوجوانوں میں موجودہ سیا سی پارٹیوں کی بدعنوانی اور بیوروکریٹ قیادت سے نفرت اور حقارت کا یہ رویہ جو سپین ، برطانیہ اور یونان کی تحریکوں میں بھی واضح نظر آیا کئی حوالوں سے ایک آگے کا قدم ہے۔ مصر میں کئی ایک نوجوانوں نے اس صورتحال کے پیش نظر ایک قابل ذکر پہل گامی کرتے ہوئے نوجوانوں کے ایک نئے اتحاد کی بنیاد رکھی ہے جس کا نام ہے(Union of Egyptian Socialist Youth)UESY۔اس تنظیم کو بنانے والے نوجوانوں میں سے ایک احمد بلال کا کہنا ہے کہ مصر میں بے شمار سوشلسٹ تنظیمیں ہیں مگر نوجوان ان پرانے لیڈروں سے اکتا گئے ہیں۔ہم اس تنظیم کو پورے مصر میں پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں اور ہر شہر اور قصبے میں ہماری برانچیں موجود ہیں۔ہم محنت کشوں کے ساتھ مل کر حکومت کے خلاف جدوجہد کرتے ہیں اور ان کی ہڑتالوں کی حمائیت میں یکجہتی مہمیں منظم کرتے ہیں۔ہم دنیا بھر کے انقلابیوں کے ساتھ بھی جڑات بنانے کی کوشش کر رہے ہیں چونکہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری لڑائی ایک ہے۔اس تنظیم کی تعمیر ایک انتہائی اہم اقدام ہے جس کے ذریعے نوجوانوں کو ایک انقلابی پروگرام کی بنیاد پر منظم کرتے ہوئے جدوجہد کو بلند معیار پر لے جایا جا سکتا ہے۔

فتح تک انقلاب

8 جولائی کو ہونے والے ملک گیر احتجاج نے مصر کے سماج میں موجود تمام تضادات کو عیاں کر دیا ہے۔ الجزیرہ کی ویب سائٹ کے مطابق ایک شخص محمد محمود نے کہا، ہم سب کچھ بدل دینا چاہتے ہیں حکمرانوں نے ہر چیز کو بد عنوان کر دیا ہے ہم فیلڈ مارشل سمیت پوری حکومت کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ 9 جولائی کو مصر کے وزیراعظم احسام شارف نے اعلان کیا کہ مظاہرین پر گولی چلانے والے تمام پولیس اہلکاروں کو معطل کیا جائے گا۔

وزیراعظم کے اس کھوکھلے بیان نے مظاہرین کومطمئن کرنے کی بجائے مزید مشتعل کیا۔اہرام آن لائن ویب سائٹ کی رپورٹ کے مطابق ایک نوجوان انجنیئر شریف نے کہا وزیراعظم ہمیں دھوکہ دینے کی کوشش کر رہا ہے اس نے پولیس اہلکاروں کو معطل کرنے کی تاریخ تک نہیں بتائی اگر حکومت سنجیدہ اقدامات نہیں کر سکتی تو استعفیٰ دے دے۔قائرہ میں ہونے والے واقعات انقلاب کی حقیقی فطرت کی عکاسی کرتے ہیں جہاں انڈیپینڈنٹ ٹریڈ یونینوں نے ایک 11 نقاطی مطالبات کی فہرست کا اعلان کیا۔

ان میں فوجی عدالت سمیت ہڑتال مخالف قوانین کے علاوہ تمام ایسے نئے پارلیمانی قوانین جو انقلاب کے راستے میں رکاوٹ ہیں کے فوری خاتمے کا مطالبہ کیا گیاہے۔شہداء انقلاب کے ورثاء کو معاوضے دینے اور ملک کی لوٹی گئی تمام دولت کو واپس حاصل کرنے کے ساتھ وزارت داخلہ کی ازسر نو تشکیل اور عوام پر گولی چلانے والے تمام اہلکاروں کو فوری سزا دینے کے مطالبات بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ کم از کم اجرت کو 1200 مصری پاؤنڈ کرنے کا مطالبہ بھی شامل ہے۔ سیاسی اور معاشی مطالبات کی یہ فہرست فوجی کونسل پر مکمل عدم اعتماد اور انقلاب کو جاری رکھنے کے عمومی جذبے کی عکاسی ہے۔ مصر کا انقلاب ایک نئے مرحلے میں داخل ہو رہا ہے۔ مبارک کے دھڑن تختے کے بعد خوش فہمیوں سے بھر پور فتح کا جوش وخروش اب اس سنجیدہ احساس میں تبدیل ہو چکا ہے کہ محض مبارک کے اقتدار سے الگ ہونے سے کچھ نہیں بدلا اور انقلاب ابھی زیادہ آگے نہیں بڑھا۔ مصر کے انقلابیوں کا سب سے اولین فریضہ یہ ہے کہ یہ وضاحت کی جائے کہ محنت کشوں اور عوام کے موجودہ مطالبات کو پورا کرنے اور ان کے مسائل کو حل کرنے کا واحد طریقہ ہے کہ محنت کش اقتدار پر قبضہ کریں۔

UESY کے نوجوانوں کا حالیہ احتجاجوں میں یہ ایک درست نعرہ تھا اور ہمیں زیادہ بلند آواز میں اس نعرے کو دہراتے ہوئے حتمی نجات کی طرف تیزی سے پیش قدمی کرنا ہو گی.... فتح تک انقلاب

Translation: Chingaree.com