ملائشیا: حکومت کے خلاف مظاہرے اور ریاست کا جبر

Urdu translation of Malaysia and its July Days (August 5, 2011)

تحریر: ٹیڈ سپراگ ۔ ترجمہ، عمران کمیانہ

چنگاری ڈاٹ کام،12.08.2011

حکمران طبقات اکثر و بیشتر امن و آشتی کا درس دیتے نظر آتے ہیں۔لیکن 9 جولائی کو، کوالا لمپور میں ہونے والے ہزاروں افراد کے مظاہرے نے ملا ئیشیا کے حکمران طبقات کا امن و سکون برباد کر دیا ہے۔اس ریلی ،جسے برسیح2 (Bersih 2.0) کا نام دیا جا رہا ہے، میں مختلف این جی اوز اور سول سوسائٹی بھی شریک تھی۔

مشرق وسطیٰ کی حکومتوں سے سبق سیکھتے ہوئے UMNOحکومت نے ریلی سے کئی ہفتے پہلے ہی کریک ڈاؤن کا آغاز کر دیا تھا اور اس سلسلے میں سب سے پہلے سوشلسٹوں کو نشانہ بنایا گیا کیونکہ حکومت جانتی تھی کہ صرف یہی لوگ تحریک کو واضح پروگرام دے سکتے ہیں۔ حکمران طبقات این جی اوز، سول سوسائٹی اور لبرل ڈیموکریٹس کے کردار سے بھی اچھی طرح واقف ہیں جو آگے بڑھتی ہوئی تحریکوں میں ہمیشہ ہچکچاہٹ اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور کبھی بھی سیاسی طور پر تحریکوں کی رہنمائی نہیں کر سکتے۔کسی بھی تحریک کو منظم سیاسی رخ دینے کے لیے ایک سوشلسٹ پروگرام رکھنے والی سیاسی پارٹی درکار ہوتی ہے ۔ PSM جو

پچھلے کچھ سالوں سے معاشرے کے پسے ہوئے طبقات کی نمائندگی کرتے ہوئے مضبوط سیاسی قوت بنتی جا رہی ہے ، اس پارٹی کا کردار ادا کر سکتی ہے۔دو سال قبل یہ جماعت اپنا MPبھی کامیاب کروا چکی ہے جس کی وجہ سے حکمران اور بھی خوفزدہ ہیں۔

مظاہرے سے دو ہفتے قبل PSMکے تیس ارکان کو ، جن میں ممبر پارلیمنٹ ڈاکٹر مائیکل دیوراج بھی شامل تھے ، اس وقت گرفتار کر لیا گیا جب وہ ریلی کی تشہیری مہم چلا رہے تھے۔ان پر بادشاہ کے خلاف اعلان جنگ اور کیمونسٹ پارٹی کی ازسرنو تعمیر کے الزامات عائد کیے گیے۔حقیقت یہ ہے کہ ہر وہ انقلابی جو ملائیشیا میں حقیقی جمہوریت کی بات کرے اس پر بادشاہ کے خلاف اعلان جنگ کرنے اور غربت کے خاتمے کی بات کرنے والے ہر شخص پر کیمونزم کو ہوا دینے کا الزام لگا دیا جاتا ہے،کیونکہ سرمایہ داری کی وجہ سے پیدا ہونے والے تمام تر مسائل کا قلعہ قمع صرف کیمونزم ہی کر سکتا ہے۔

ملائیشیا کے حکمران طبقے کا تمام تر جمہوری ڈھونگ تب بے نقاب ہوا جب اسے کھل کر عوام کی مخالفت کرنی پڑی ۔ 9 جولائی کی ریلی میں سولہ سو سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیاجو کہ ملائیشیا میں ایک دن میں گرفتارہونے والے افراد کی سب سے بڑی تعداد ہے۔

وزیر اطلاعات و ثقافت ڈاکٹر رئیس یتیم نے اس سلسلے میں بیان دیا کہ ’’پولیس کو لوگوں کے ساتھ ہمیشہ مسکراتے ہوئے دوستانہ رویہ نہیں اپنانا چاہیے، اس صورت میں عام آدمی کے دل سے خوف جاتا رہے گا۔ہمیں بہت زیادہ نرم گو پولیس نہیں چاہیے جو ریاست کا دفاع نہ کر سکے‘‘۔اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وزارت ثقافت در حقیقت خوف پر مبنی ثقافت کو پروان چڑھاناچاہتی ہے۔

یہ سچ ہے کہ برسیح2 میں کیے جانے والے مطالبات بالکل معتدل نوعیت کے ہیں جن میں انتخابی عمل میں اصلاحات ، کرپشن اور بیہودہ سیاست کا خاتمہ شامل ہے۔لیکن عالمی بے چینی کے اس عہد میں ان کا کردار انقلابی بن سکتا ہے،اسی لیے حکومت معمولی اصلاحات کرنے کے موڈ میں بھی نظر نہیں آتی خاص طور پر عرب ممالک میں آمر حکومتوں کا عوام کے ہاتھوں ہونے والا دھڑن تختہ دیکھنے کے بعد! UMNOکی ایک خاتون لیڈر نے اپنے بیان میں کہالوگوں کو چاہیے کہ عرب میں ہونے والے واقعات کومثال نہ بنائیں۔

اسی دوران UMNOنے عرب ممالک کی حکومتوں سے کئی اسباق سیکھے ہیں اور یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ متزلزل رویہ اپنانے کی صورت میں بن علی یا حسنی مبارک جیسا حشر ہوسکتا ہے جبکہ جبر کر کے بحرین ،شام اور لیبیا کی طرح بچا جا سکتا ہے۔وزارت خواتین نے تو شام کی پیروی کرتے ہوئے یہاں تک کہا کہ مظاہرین کے بچے بھی چھینے جا سکتے ہیں۔

میڈیا کے ذریعے ،جو کہ مکمل طور پر حکومت کے کنٹرول میں ہے، اس تحریک کو حرام اور غیر اسلامی بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ تاہم تمام تر دھمکیوں اور گرفتاریوں کے باوجود کوالالمپور کی سڑکوں پر ہزاروں لوگ موجود تھے جبکہ لاکھوں دوسرے افراد نے بھی مظاہرین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔ اس تحریک کی نوعیت ایسی ہے کہ یہ جمہوری مطالبات سے آگے بڑھ سکتی ہے ۔

انتخابی اصلاحات کے مطالبے کے پیچھے دراصل عوام کیUMNOسے شفاف انتخابات کے ذریعے چھٹکارہ حاصل کرنے کی خواہش پوشیدہ ہے۔اور یہ خواہش ایک منظم سیاسی تحریک این جی اوز اور سول سوسایٹی کے ملغوبے سے نکل کر ہی حاصل کر سکتی ہے۔

جمہوری مطالبات کے پیچھے دراصل روٹی کا مسئلہ بھی پوشیدہ ہے۔ملائشیا میں معاشی ناہمواری بہت بڑے پیمانے پر موجود ہے جبکہ حکومت ہمیشہ یہی ڈھنڈورہ پیٹتی ہے کہ ملک اپنے ہمسائے انڈونیشیا کی نسبت زیادہ خوشحال ہے۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ملائیشیا کے امیر ترین دس فیصد لوگوں کے پا س غریب ترین دس فیصد لوگوں سے 22 گنا زیادہ دولت ہے۔یہی حالات اس تحریک کی کامیابی کے لیے سازگار حالات مہیا کر رہے ہیں۔9جولائی کے مظاہرے کے بعد ہونے والا کریک ڈاؤن اور جبر عام شہریوں کے سیاسی شعور میں اضافے کا باعث بنا ہے۔مختلف انٹرنیٹ فورمز اور اخباری رپوٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ نوجوان حکومتی جھوٹوں پر اعتبار کرنے کی بجائے ان واقعات سے متاثر ہو رہے ہیں۔

آگے کیا ہونے والا ہے؟یہ سوال بہت سے لوگوں کے ذہن میں گردش کر رہا ہے۔این جی اوز کی رہنمائی میں کوئی بھی تحریک نظام تبدیل نہیں کر سکتی لہٰذا تمام تر ذمہ داری محنت کش طبقے پر لاگو ہوتی ہے جوکہ سماج کی سب سے باشعور پرت ہے۔محنت کش طبقے کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس تحریک کی رہنمائی کرتے ہوئے ا سے طبقاتی رنگ دے اور ٹریڈ یونینز کو استعمال کرتے ہوئے عام ہڑتال کی کال دی جائے۔ہڑتال کے دوران کیے جانے والے بڑے مظاہرے ایک طاقتور ہتھیار ثابت ہونگے۔ اگر ملائیشیا کے حکمران عرب ممالک کی حکومتوں سے سبق لے سکتے ہیں تو محنت کشوں کو بھی اپنے عرب بہنوں اور بھائیوں سے سبق سیکھنا چاہیے۔محنت کشوں کی ایک طبقے کے طور پر تحریک میں شمولیت کے بغیر بن علی اور حسنی مبارک سے چھٹکارا ممکن نہیں تھا۔ اگر بر سیح تحریک کامیاب ہونا چاہتی ہے تو اسے بھی یہی اقدامات کرنے ہونگے

Source: Chinaree.com