اسرائیل ۔ مذہبی و قومی تعصب کو چیرتی طبقاتی تحریک

Urdu translation of Arab revolution reaches Israel – next step, a general strike! (August 8, 2011)

تحریر: والٹر لیون ۔ ترجمہ
؛اسدپتافی

چنگاری ڈاٹ کام،12.08.2011

آج سات اگست ہے اوریہاں تل ابیب میں ناقابل یقین مناظر میرے سامنے ہیں۔پانچ لاکھ سے بھی کم آبادی و الے اس شہر میں تین لاکھ سے بھی زائد انسان سڑکوں پر نکلے ہوئے ہیں ۔اتوار کے دن دوسرے شہروں میں بھی مظاہرے ہوئے ہیں ۔ ،یروشلم میں تیس ہزار سے زائد لوگوں نے مظاہرے کئے ہیں ۔اسی طرح دوسرے شہروں میں بھی ہزاروں لوگ سڑکوں پر نکلے ۔مکمل تعداد کا تو کہنا مشکل ہے لیکن اندازہ یہی لگایا جارہاہے کہ ان مظاہروں میں شریک ہونے والوں کی تعداد چار سے پانچ لاکھ کے درمیان تھی ۔یاد رہے کہ ہمارے ملک اسرائیل کی کل آبادی سات لاکھ ستر ہزار ہے ۔ احتجاج کرنے والوں کے مقبول نعروں اور مطالبات میں سے ’’ سماجی انصاف ‘‘’’ایک مصر یہاں بھی ہے اور اپنے مبارک کی رخصتگی مانگ رہاہے ‘‘۔عربی زبان میں’’ استعفیٰ دو(ارحل)‘‘ کے نعرے کے بینرز مظاہروں میں نمایاں نظر آرہے ہیں۔

ابتر ہوتی ہوئی صورتحال

رائے عامہ کے تجزیوں سے یہ بات سامنے آچکی ہے کہ نوئے فیصد سے زائد اسرائیلی اپنے ان احتجاج کرنے والوں کے مطالبات کے حامی ہیں۔اسرائیل جیسے نسل پرستی اور سماجی طورپر منقسم ملک کیلئے اس قسم کے اعداد وشمار انتہائی حیران کن بھی ہیں اور چشم کشا بھی ۔

لیکن یہ طے ہے کہ اسرائیلی سرمایہ داری نے جو صورتحال پیدا کر دی ہے اس سے سماج میں اضطراب اور تناؤ حدوں کو پہنچ رہاہے ۔ایک طالب علم ایہود روتم نے جو کہ بار ورکر بھی ہے،کا کہنا ہے ’’اس ملک میں زندہ رہنا محال ہو چکاہے ۔ہم فوج میں جاتے ہیں ،یہ اور وہ کام پر جاتے ہیں ،ہر طرح کی محنت مشقت کرتے ہیں لیکن ٹیکس اتنے بھاری بھرکم ہیں کہ کسی طرح سے بھی گزارہ نہیں ہوپاتا اور ہر مہینے کے آخرمیں جیبیں خالی رہتی ہیں‘‘۔اس کی دادی بیتی ایپل کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے یہاں روزگار کی کمی نہیں ہے لیکن اس سے جو کچھ اور جتنا کچھ بھی ملتا ہوتا ہے وہ بہت ہی کم ہے ہم بہت ہی سخت جانی و جانفشانی سے کام کرتے ہیں لیکن ہماری آمدنیاں ہمارا پورے مہینے کا ساتھ دینے سے قاصر ہوتی ہیں‘‘۔ایک بزنس ویب سائٹ فوربز کا کہنا ہے ’’ یہاں عمومی تنخواہ پچیس سو ڈالر فی مہینہ ہے ،استاد اور سوشل ورکر دو ہزار ڈالر ماہانہ تنخواہ لیتے ہیں ۔مشرقی یروشلم میں تین کمروں کے گھر کا کرایہ پانچ سوڈالر ماہانہ ہے جبکہ تل ابیب میں یہ اس سے بھی زیادہ ہے ۔

یروشلم اور تل ابیب کے میٹرو پولیٹن مراکزمیں ایک ہزار سکوائرفٹ پر مشتمل معیاری مڈل کلاس اپارٹمنٹ کی قیمت چھ لاکھ ڈالر ہے جبکہ اس سے کم درجے کے علاقے میں اپارٹمنٹس کی قیمتیں دو لاکھ سے تین لاکھ ڈالرز تک ہے ‘‘۔

اسرائیل کی بیس فیصد سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے نیچے رہ رہی ہے اور پنشنروں کی تو حالت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ان کی اکثریت کوڑے دانوں سے غذا تلاش کرکے اپنا پیٹ پالنے پر مجبور ہو چکی ہے ۔’’اپنا پیارا یہودی وطن‘‘ اسرائیل کے غریب اور محنت کش عوام کیلئے ایک اذیت گاہ کی صورت اختیار کر چکاہے۔

ابھرتاہواسیاسی شعور

مصر یونان اور دیگر ملکوں میں ابھرنے والی انقلابی تحریکوں کے دوران مصالحت پسند خواتین وحضرات نے بھر پور کوشش کی کہ معاملات کو اس طرح بیان اور ظاہر وثابت کیا جائے کہ جیسے کچھ خاص نہیں ہو رہا اور سب کچھ معمولی اور معمول کی بات ہے ۔یہاں بھی کچھ ایسے ہی عنصر موجودہیں۔نیشنل سٹوڈنٹس یونین کے چیرمین اٹزک شمولی نے کہا ہے کہ ’’ہم حکمران ٹولے کی تبدیلی کا کوئی مطالبہ نہیں کر رہے ،ہم ایک ایسی معاشی پالیسی کا مطالبہ کر رہے ہیں جو کہ انسانی ہو اور جو کہ لوگوں کو تباہی کی طرف نہ دھکیلے ،جو کہ لوگوں کی محرومیوں پر نظر رکھے اور جو کہ محض اعدادوشمار کا گورکھ دھندہ نہ ہو ‘‘۔

لیکن معاملہ اور مسئلہ اب صرف بیان بازیوں سے کہیں آگے جا چکاہے ۔لوگ اب آگے دیکھ اور سوچنا شروع ہوچکے ہیں ۔ان مظاہروں میں جو نعرے لگائے گئے ہیں وہ اس کی درست غمازی کرتے ہیں ’’انسانوں پر منافعوں کو ترجیح دینا بند کی جائے ‘‘’’سماجی برابری ہر ایک کیلئے ‘‘’’ورکنگ کلاس ہیروز ندہ باد‘‘’’نجکاری کا واحد علاج انقلاب ہے ‘‘۔ایک بہت بڑے پلے کارڈ پر مشہور سوویت ریڈ آرمی ریکروٹنگ کو دکھایا گیا جس پر لکھا ہواتھا’’محنت کش طبقہ‘‘۔یروشلم جسے رجعتیت اور مذہبی تنگ نظری و انتہا پسندی کا مرکز وگڑھ سمجھا جاتا ہے ،وہاں بھی مظاہرین نے سرخ جھنڈے اٹھائے ہوئے تھے ۔اسرائیل کے میڈیا کے تمام تر واویلے کے باوجود کہ یہ تو ایک مڈل کلاس شو ہے ،یہ بات واضح ہوچکی ہے اور ہوتی چلی جارہی ہے کہ محنت کش طبقہ طبقاتی شعور سے لیس ہورہاہے اور یہ سلسلہ بڑھتا جارہاہے ۔

تحریک کا پروگرام

عرب ملکوں یورپ سمیت دنیا میں ابھرنے والی انقلابی تحریکوں میں سے ایک اہم عنصر جو سامنے آرہاہے وہ یہ کہ سماج کے سبھی طبقات اپنی اپنی حکومتوں کے خلاف مشتعل ،متحدا ورمتحرک ہو چکے ہیں اور یہ جان چکے ہیں کہ یہ حکومتیں سماج کے کسی بھی حصے کو مطمئن کرنے سے قاصر ہو چکی ہیں ۔

دوسرے انقلابی ابھاروں کی طرح اسرائیل کے اس ابھار میں بھی فیس بک اور سینہ بہ سینہ فروغ پانے والی لوگوں کی تشویش ا ور بے چینی نے اہم کردار ادا کیاہے۔ تنظیم کی اس کمی کی خامی کے باوجود تحریک خود کو ٹھوس مطالبات کے گرد منظم و متحرک کرنے میں کامیاب ہے۔

؛عام لوگوں کیلئے مناسب گھرتعمیر کئے جائیں۔

؛اشیا ء کی قیمتوں میں اضافے کو روکنے کیلئے موثر قانو ن سازی۔

؛ویلیو ایڈڈ ٹیکس جیسے ظالمانہ بالواسطہ ٹیکسوں میں کمی ۔

؛نجکاری کے عمل کو روک دیا جائے اور کسی اور وقت تک لئے اٹھا رکھی جائے ۔

؛اوسط اجرتوں میں کم ازکم پچاس فیصد اضافہ کیا جائے ۔

؛نرسریوں کی حد تک تعلیم کو سب کیلئے مفت کیا جائے ۔

؛علاج معالجے کی سہولتوں کو بہتر کیا جائے ،ڈاکٹروں،نرسوں،بستروں اور طبی آلات کی فراہمی اور تعداد میں اضافہ کیا جائے ۔

یہ مطالبات سٹوڈنٹس یونین کی جانب سے سامنے آئے ہیں جسے چار وناچا ر تحریک کی قیادت کیلئے سامنے آنا پڑگیا ہے ۔ان میں جس بات کی کمی ہے وہ یہ ہے کہ ان مسائل و مطالبات کے حصول کا لائحہ عمل واضح نہیں کیا گیا کہ یہ سب کیسے ممکن ہو سکے گا ۔

اسرائیل کی سرمایہ داری کہ جو صرف اور صرف مٹھی بھر بالادست طبقات کے مفادات ہی کی تشفی کرتی آرہی ہے اور جو کہ اسرائیل کی اکثریتی آبادی کو محض زندہ رہنے کا ہی سامان فراہم کر پارہی ہے اور جو کہ مظلوم فلسطینیوں کے بدترین اور ہمہ وقت استحصال پر اپنے آپ کو قائم رکھے آرہی ہے ،اس میں اس کی گنجائش ہے نہ صلاحیت کہ وہ ان مطالبات کو پورا کر سکے ۔چنانچہ یہ تحریک اپنی کیفیت اور ہئیت میں اسرائیل کی ریاست اور اس میں رائج نظام کیلئے براہ راست ایک چیلنج ہے ۔

اس حوالے سے ان سبھی ٹھوس مطالبات کو سرمایہ داری کے ساتھ جوڑنا ہو گا۔اور یہ سوال سامنے لانا ہو گا کہ یہ کیسے ان مطالبات کیلئے رقم فراہم کرے گی ؟اس کا ایک ہی جواب ہے کہ یہ بینکوں اور بڑی اجارہ داریوں کو قومی تحویل میں لینے اور ان سب کو محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں دینے سے ہی ممکن ہوگا اور تبھی جاکر ہی ملک کی اکثریتی آبادی کو درپیش مسائل سے نجات مل سکے گی ۔

مسئلے اور ان کے حل

سڑکوں پر احتجاج کیلئے آنے والے لوگوں کی بڑی تعداد اس بات کو سمجھ چکی اور اس کا اظہار بھی کر رہی ہے کہ بنیامین نیتن یاہوکی حکومت کو اب رخصت ہونا ہوگا۔ہم اس سے اتفاق کرتے ہیں ۔ لیکن احتجاج اور مظاہرے خواہ کتنے ہی بڑے کیوں نہ ہوں ،حکومتوں کو ہٹانے اکھاڑ پھینکنے کیلئے کافی نہیں ہواکرتے ۔جیسا کہ ہم نے عرب انقلابات میں بھی دیکھا ہے ۔تبدیلی کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ منظم محنت کش طبقے کی طرف سے فیصلہ کن مداخلت ممکن کی جائے۔ اس سلسلے میں میونسپل ورکرز کی طرف سے پچھلے ہفتے کی گئی ہڑتال ایک اہم ابتدائی پیش رفت تھی۔اب وقت آگیا ہے کہ ہستادروت ایک عام ہڑتال کی کال دے ۔اسی طرح لازمی ہے کہ اگر تحریک کو جاری و ساری رکھنا ہے تو اسے لا محالہ خودکو منظم کرنا پڑے گا۔کام کی جگہوں اور اڑوس پڑوس میں ایکشن کمیٹیاں قائم کی جائیں جنہیں منتخب شدہ نمائندوں پر مشتمل ہونا چاہئے اور جو کہ مقامی سطح سے لے کر ملکی سطح تک باہم منظم و مربوط ہوں۔تحریک نے اپنا ہدف نیتن یاہو کی رخصتی کو بنایا ہے لیکن اگر اس کی حکومت جاتی بھی ہے توا س کی جگہ کون لے گا؟سنٹرسٹ کادیمہ پارٹی نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے لیکودکی سربراہی میں قائم مخلوط حکومت پر سخت نکتہ چینی شروع کر دی ہے ۔لیکن ’’نیو لبرل ازم ‘‘پر ان کی اس تنقید کے باوجود بھی سچ یہ ہے کہ ان کے پاس اس کا کوئی متبادل بھی نہیں ۔لیبر پارٹی انیس سو ستر کے بعد سے مسلسل زوال پذیرہ کا شکار چلی آرہی ہے کہ جب اس نے اسرائیلی ریاست کے ساتھ اپنے تعلقات استوار کر نا شروع کر دیے تھے ۔

اسرائیلی ریاست کی جانب سے یونینائزڈ صیہونی ورکروں کو روزگار فراہم کرنے کی نام نہاداجارہ داری کے بغیرلیبر پارٹی کے پاس کوئی رستہ نہیں تھا کہ وہ دائیں بازو کی آزاد منڈی کی پالیسیوں کو اپنا وطیرہ بناتی۔دس سالوں سے زائد عرصے کے دوران اس نے کئی دائیں بازو کی پارٹیوں کے ساتھ مل کر حکومتیں تشکیل دیتی آرہی ہے ۔

اسرائیلی کمیونسٹ پارٹی واحدسیاسی قوت ہے جس نے اسرائیل کے محنت کش طبقے غریب عوام اورفلسطینی عوام کے خلاف ظلم و استبداد و استحصال کے خلاف ہمیشہ صدائے احتجاج بلند کئے رکھی ہے ۔ہر چند ان کی مقدار اتنی زیادہ نہیں ہے لیکن ان کی حمایت اور اثرپذیری کا اظہار دو ہزار چھ میں تل ابیب کے بلدیاتی انتخابات میں سامنے آیا تھا اور یہ عیاں ہو گیاتھا کہ ان کی نیچے بنیادیں موجود بھی ہیں اور مضبوط بھی ،خاص طور پر نوجوان نسل میں ۔لیکن پھر دائیں بازوپر تنقید اور احتجاج کرنا یا کرتے رہنا ایک بات ہوتی ہے اور جبر واستحصال کے خلاف کوئی متبادل پروگرام دینا ایک اور بات ۔اسرائیلی کمیونسٹ پارٹی کو ایک واضح سوشلسٹ پروگرام پیش کرنااور اس پر سٹینڈ لیناہوگا۔

؛ ہر پرائیوٹائزیشن کا فوری خاتمہ

۔سبھی بینکوں اور بڑی اجارہ داریوں کو قومی تحویل میں لے کر ان اداروں میں کام کرنے والے محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں دیا جائے گا۔ان اداروں کے منافعوں کو لوگوں کی رہائش ،تعلیم اور علاج معالجے کیلئے بروئے کار لایا جائے ۔

؛اسرائیلی عربوں کے خلاف ہمہ قسم کے متعصبانہ نسلی قوانین کا فوری خاتمہ کیا جائے گا۔اور سبھی شہریوں کو رہنے ،کام کرنے اور علاج معالجے کی یکساں سہولتیں فراہم کی جائیں گی ۔

؛فلسطین پر قبضہ فی الفور ختم کیا جائے گا ۔فلسطینی ،اسرائیلی ا ور عرب محنت کشوں کی مشترکہ قیادت میں ایک جدوجہد کو منظم و متحرک کیا جائے گا جو کہ سرمایہ دارانہ نظام کے ہر جبر کا خاتمہ ممکن کرے گی ۔

؛مشرق وسطیٰ کی سوشلسٹ فیڈریشن کا قیام عمل میں لایا جائے گا جس کے اندر سبھی قومیتوں کو برابر ی کی سطح پر حقوق اور وسائل فراہم کئے جائیں گے ۔

ایسا ہی پروگرام عوام کی وسیع تر پرتوں کی توجہ اور حمایت حاصل کرسکے گا ۔اور یہ خطے کے عوام کے مسائل کو سامنے لاتے ہوئے دور تک اور نیچے تک اپنے اثرات مرتب کرے گا۔اسرائیل کی اس تحریک کو بہر طور فلسطین کے مظلوم و مقہور عوام کی تائید و حمایت بھی حاصل کرنی چاہئے اسرائیلی عرب بلاشبہ اس میں بھرپور شرکت کر رہے ہیں لیکن جب غزہ اور مغربی کنارے میں رہنے والے یہودی محنت کش اس تحریک میں شامل ہوں گے تو اس سے خطے میں سرمایہ دارانہ نظام کو حقیقی اور سنجیدہ چیلنج پیش آجائے گا۔

فلسطینیوں کی نمائندگی کرنے والے بعض عناصر اسرائیل کی اس تحریک بارے بغض و کم نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے اسرائیل کے ’’مراعات یافتہ ‘‘طبقے کا شغل قراردینے پر تلے ہوئے ہیں ۔اور کہتے ہیں کہ اس تحریک میں شامل ہونے سے فلسطینی اپنا ہی استحصال کریں گے۔ان کا کہنا ہے کہ عربوں کی جانب سے اس تحریک کو حمایت نہیں دی جانی چاہئے ۔اس قسم کے نقطہ نظر سے انقلابی مارکسزم کا کوئی سروکار نہیں اور نہ ہی یہ فلسطین کی آزادی کی جدوجہد کو آگے لے جاسکے گا۔

اسرائیل ایک ایسا سماج ہے جو کہ طبقات میں تقسیم ہے لیکن جسے اسرائیل کے صیہونی حکمران ہمیشہ ’’دہشت گردی‘‘ کے خطرے کے زیر اثر رکھتے ہوئے اسرائیلی یہودیوں کو ایک ہی پلیٹ فارم پر متحد رکھنے کی کوششیں کرتے چلے آرہے تھے ۔اور یہی وہ نکتہ ہے جس نے اسرائیلی حکمران طبقات کو مضبوطی فراہم کیے رکھی۔اس تحریک نے ہی اسرائیلی سماج کو پہلی بار طبقاتی بنیادوں پر چیرا ہے اور یہاں کے صیہونی حکمران طبقے کی کمزوری کو عیاں اور شدید کرنا شروع کردیاہے ۔اس کمزروی کو فلسطینی عوام کی یکجہتی میسر آجانے سے اور بھی تقویت ملے گی ۔

جوں جوں یہ تحریک آگے کی جانب پیش قدمی کرے گی ،توں توں یہ فلسطین میں جاری ظلم واستبداد کو بھی اپنا مطمع نظر بنائے گی اور اس کی ابتدا ہوبھی چکی ہے۔لوگوں نے یہ سوال اٹھانا اور پوچھنا شروع کر دیے ہیں کہ فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں تو تعمیرات کیلئے حکومت کے پاس بڑے پیسے ہیں لیکن یہاں اپنے ہی ملک میں لوگوں کو گھروں کی سہولت دینے سے یہ حکومت قاصر چلی آرہی ہے ۔اور جب پولیس نے احتجاج کیلئے سڑکوں گلیوں میں جمع ہوتے ہیں اور پولیس ان کو مارنے کیلئے بھاگتی ہے تو سبھی نعرے لگانے شروع کردیتے ہیں ’’پولیس سٹیٹ مردہ باد‘‘’’پولیس سٹیٹ مردہ باد‘‘۔اب بہت سوں کو یہ پتہ چلنا شروع ہوگیاہے کہ یہ ریاست اور یہ پولیس جو کہ ’’عربوں‘‘کی پیداکردہ ’’دہشت گردی‘‘ کے خاتمے کے لیے وجود میں لائی گئی ہے ،یہ دراصل اپنے ہی ملک کے اقلیتی امیر طبقے کے مفادات کے تحفظ کی ہی علمبردار ہے۔

اور پھر یہ نعرے’’مبار ک،اسد ، نتن یاہوبھائی بھائی‘‘واضح اظہار کرتے ہیں کہ اسرائیل کے احتجاج کرنے والوں کو بخوبی ادراک ہے کہ کیسے ان کے عرب بھائیوں اور بہنوں نے اپنے اپنے استحصالی حکمرانوں کے تخت اکھاڑ پھینکے ہیں ۔تل ابیب میں آویزاں عربی زبان میں لکھے ہوئے بینرز بھی اسی شعور کی عکاسی و غمازی کرتے ہیں ،جن میں درج ہے کہ ’’یہ بھی مصر ہے‘‘ اسی طرح یہ نعرہ بھی کہ ’’ مصری کی طرح چلنا سیکھو!‘‘ ۔اس قسم کی باتیں ،آج سے ایک ماہ پہلے اسرائیل میں سوچنا بھی محال تھا۔تحریک کا سب سے بنیادی اور مرکزی نعرہ ’’ لوگ سماجی انصاف چاہتے ہیں ‘‘تھا اور جسے نعرے کی صورت میںآدھاعربی اورآدھا عبرانی زبان میں لگایا جاتاہے اور جو کہ عرب انقلاب کے سب سے معروف نعرے کی نقل ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’’ہم تمہاری حکمرانی ختم کرنے کیلئے میدان میں نکلے ہوئے ہیں ‘‘۔

یہ تحریک اسرائیل کی پچھلے ساٹھ سالوں کی تاریخ کی سب سے شاندار اور حیران کر دینے والی تحریک ہے۔ اور یہ اپنے آغاز میں ہی بہت آگے کی جانب پیش رفت کر چکی ہے ۔اس کا تسلسل اسے سرمایہ دارانہ نظام کے زیادہ خلاف کر سکتا اور انقلاب کے زیادہ نزدیک لا سکتاہے ۔اس وقت کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ ایک قیادت تعمیر کی جائے ۔

ایسی ایک قیادت جو نہ صرف معروضی صورتحال کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے انہیں پورا کر سکے بلکہ تحریک کے مطالبات کو بھی آخر تک لے جانے میں اپنا کردار اداکرسکے ۔یہاں تک کہ مارکس وادیوں کا ایک چھوٹا سا گروہ بھی ان حالات میں پیشہ ورانہ مہارت اور جذبے کے ساتھ لیس ہوکر عوام کی تمناؤں کے ساتھ خود کو منسلک و مربوط کرتے اور رکھتے ہوئے بہت بڑے نتائج حاصل کرسکتاہے ۔

Translation: Chingaree.com