اسرائیل : محنت کش طبقے کا تاریخ کا سب سے بڑا مارچ

Urdu translation of Israel witnesses biggest march in its history (September 5, 2011)

تحریر: ڈینیل مورلے ۔ ترجمہ: اسد پتافی

چنگاری ڈاٹ کام،16,09,2011

تین ستمبر کو اسرائیل کے محنت کش عوام نے انتہائی واشگاف انداز میں اعلان کیا کہ وہ اب اسرائیلی حکمران طبقات کے ’’تقسیم کروا ور حکمرانی کرو‘‘ کے مکروفریب کا شکار ہوں گے اور نہ ہی وہ اپنی تحریک کو موسم کی سختیوں کی بھینٹ چڑھنے دیں گے۔پانچ لاکھ افراد اسرائیل بھر میں سڑکوں پر نکل کر سماجی انصاف اورانقلاب کے نعرے لگاتے رہے ۔صرف تل ابیب کے اندر تین لاکھ افراد نے مارچ کیا ۔یروشلم میں پچاس ہزار افراد نے مظاہرے میں شرکت کی ۔یہ اب تک یروشلم میں ہونے والے مظاہروں میں دوگنا بڑاتھا۔ان شہروں میں مظاہرے کرنے والوں نے جو نمایاں نعرہ لگایا وہ’’ نجکاری کا ایک علاج انقلاب انقلاب‘‘ تھا۔اس کے ساتھ ہی حیفہ شہر میں بھی چالیس ہزار افراد نے مارچ کیا ۔یہاں ایسا لگتا تھاکہ سرخ پرچموں کا جیسے ایک سمندر سڑک پر امڈ آیاہو ۔ان شہروں کے علاوہ بھی دیگر کئی شہروں میں مظاہرین سڑکوں پر نکلے اور ان میں شرکت کے سبھی پچھلے ریکارڈ ٹوٹ گئے اور مظاہروں کے منتظمین خود اس سے حیران رہ گئے ۔

مظاہرے اور احتجاج کی اس نوعیت اور شدت نے اسرائیل کی مروجہ سیاست کے تانے بانے ادھیڑ کے رکھ دیے ہیں ۔حکمران طبقات مجبور ہوگئے ہیں کہ وہ اپنے عوام کو درپیش حقیقی مسائل کی طرف دھیان اور توجہ دیں جن میں عرب اور اسرائیلی دونوں شامل ہیں۔سبھی حیران وپریشان ہیں کہ اتنی بڑی تعداد میں اسرائیلی کسی سیکورٹی کے خطرے کی پرواہ کئے بغیر سڑکوں پر امڈتے چلے آرہے ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ اسرائیلی سماج دہائیوں سے سطح کے نیچے مسلسل تغیر وتبدیلی سے گزرتا آرہاہے اور یہاں معاشی بدحالی و بے یقینی اور نابرابری اپنی انتہاؤں کو پہنچ چکی ہے ۔ترقی یافتہ دنیا میں امریکہ کے بعد یہ سب سے بڑی بدحالی و نابرابری ہے ۔اور اس کیفیت نے اب اپنے اظہار کے نئے نئے راستے ڈھونڈنا شروع کر دیے ہیں۔اور اس اظہار نے عہد شکن و عہدسازاثرات بھی مرتب کرنا شروع کردیے ہیں۔

اسرائیل کی یہ نئی تحریک اس عالمگیر سیاسی رد عمل کا تسلسل ہے جو پچھلی دہائیوں کے دوران سرمایہ داروں کی طرف سے کی جانے والی رد اصلاحات اور ان کے نتیجے میں دنیا بھر میں عام لوگوں کے معیار زندگی میں آنے والی زوال پذیری کے جواب میں ابھر کر سامنے آرہاہے ۔اسرائیل سے لے کر نیوزی لینڈ ہر طرف ہر جگہ یہ کیفیت موجود ہے ۔کئی دہائیوں تک یہ سار اغم وغصہ، طویل ہوچکے اوقات کار اور ذاتی وانفرادی قرضہ بازی کے رحجانات کے تلے دبا اور چھپارہا۔قرضوں کے اس ہیجان نے ورکروں کے اندرایک نام نہاد مڈل کلاس لائف سٹائل جنم دیا۔

سرمایہ داری کا حالیہ بحران کہ جس کا کوئی بھی حل نکلتا نظر نہیں آرہا‘جس کی جھنجھلاہٹ نے کئی دانشوروں اور مبصروں کو شدید پریشان کر دیاہے اور انہیں اسرائیل کی اس تحریک کی مڈل کلاس’’فطرت‘‘کی کوئی سمجھ نہیں آرہی ۔سرمایہ دارانہ نظام کیلئے یہ ممکن ہی نہیں رہا کہ وہ ورکنگ کلاس کو مڈل کلاس کے طورپر زندہ رکھنے کے اسباب و حالات فراہم کر سکے ۔اسی بے بسی کا اظہار بی بی سی پر جان گرے نے اپنے مضمون Revolution of Capitalismمیں بھی کیاہے ۔ جنوبی اسرائیل میں پچھلے دنوں ہونیو الے پر تشد د واقعات نے بھی تحریک کو کسی طور متاثر نہیں کیا ۔لاکھوں اسرائیلی عوام کی حالت یہ ہوچکی ہے کہ وہ اپنے گھروں کے کرائے اور بلوں کی ادائیگی کے بھی قابل نہیں رہے۔

(رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق 90فیصد اسرائیلی اس تحریک کی حمایت میں ہیں)ان حالات میں ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ اپنے حالات زندگی کے دفاع کیلئے اٹھ کھڑے ہوں۔ جریدے ’’گارڈین ‘‘نے ایک مڈل کلاس اسرائیلی خاتون کا انٹرویوشائع کیاہے ۔اس بیچاری کی کیفیت یہ ہوچکی ہے کہ وہ اپنے والدین کے رحم وکرم پر جینے پر مجبور ہوچکی ہے ۔ گھرمیں تیار کیا گیا ’’مصریوں کی طرح جینا ہے ‘‘کے نعرے والاایک بینر اٹھائے ہوئے 34سالہ ریوتی ہرٹزنے کہا کہ ہر مہینے کے آخر میں لاکھوں اسرائیلیوں کیلئے یہ بات شرمندگی کا باعث بنی ہوتی تھی کہ وہ اپنے بلوں کی ادائیگی کے بھی قابل نہیں رہے ۔ہر بندہ اپنی اپنی جگہ اکیلا ،تنہا پریشان اور ہراساں جینے پر مجبور کردیاگیاتھا اور وہ یہی سوچتا تھا کہ یہ صرف تنہا مجھ پر ہی بیت رہی ہے ۔لیکن ان مظاہروں نے اس سوچ کو تہس نہس کر کے اسے بدل کے رکھ دیا ہے ‘‘۔

اس نے بتایا کہ’’ وہ اور اس کا خاوندروئی جو کہ ایک ٹیچر ہے ،آج سے دس سال پہلے جب ملے تھے توان دونوں کی آمدنیاں برابرتھیں ۔اب ہم کچھ زیادہ کی ڈیمانڈ بھی نہیں کر رہے۔ہاں صرف اتنا مل جائے کہ ہم مہینے کے آخرمیں اپنے والدین کو تکلیف نہ دے سکیں‘‘۔ اسرائیل میں کام کر رہے ایک ادارے تاؤب سنٹر برائے سوشل پالیسی سٹڈیزکے مطابق یہاں امریکہ کے 175میں سے 174بڑے شہروں کے مقابلے میں رہائش بہت مہنگی ہے ۔7.7سالوں تک لگاتار کام کرنے کے بعد حاصل ہونے والی آمدنی کے بعد یہاں اس قابل ہواجاسکتا ہے کہ آپ کوئی فلیٹ لے سکیں ۔

آسٹریلیا میں یہ مدت 6.8 سال ،نیوزی لینڈ میں5.7سال،برطانیہ میں5.1سال،آئر لینڈ اور کینیڈا میں 3.7سال جبکہ امریکہ میں یہ مدت3سال کی ہے ۔دودھ ۔پنیر اورانڈوں کی قیمتیں OECD دنیا کے امیر ترین ملکوں کی تنظیم کے رکن ممالک کے مقابلے میں ،2005ء کے حساب سے 6گنا زیادہ، جبکہ2008ء کے حساب سے44فیصد زیادہ ہیں۔آٹو موبائل مارکیٹ میں تو یہ تفریق اور بھی زیادہ حیران کن ہے ۔

2005ء کے حوالے سے یہاں کاروں کی قیمتیں مذکورہ بالا ممالک سے 46فیصد جبکہ2008ء کے حوالے سے70فیصد زیادہ ہیں ۔ مرکزی اقتصادی بیوروکے مطابق2010ء میں ہاؤسنگ اور خوراک کی قیمتیں سب سے نچلی پرتوں میں مجموعی اخراجات کا پچاس فیصد بن چکی تھیں ،اس سے اوپر کی درمیانی پرت میں43فیصدجبکہ اوپر کی پرت کی آمدنیوں کا ایک تہائی ان پر خرچ ہورہاتھا۔ (Source: Globes.co.il)

تحریک:اب کہاں اور کس طرف!

اس عوامی انقلابی تحریک کو پیش قدمی جاری رکھنی ہوگی اور ایک فتح کے بعد دوسری جیت کی طرف توجہ دینی ہوگی ۔تحریک کی سب سے بڑی اور واضح کامیابی یہ ہے کہ اس نے لاکھوں اسرائیلی مزدوروں اور نوجوانوں کے شعور کوشکتی ،گہرائی اور وسعت بخشی ہے ۔ اب ان سب کو اپنی گرانمایہ اور دیوہیکل طاقت کا احساس سرشارکر چکاہے ۔اب لوگوں کی بڑی تعداد حکمران طبقات کی جانب سے مسلط کردہ نسل پرستانہ تعصب و منافرت کے مکروفریب کو سمجھ چکی ہے ۔

کئی گروپوں کو یہ شکایت ہے کہ تحریک نے ابھی تک قبضے کی صیہونی پالیسی کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا ۔لیکن جس تحریک میں لاکھوں افراد جو ش اورجذبے سے متحرک ہو چکے ہوں۔اور وہ اپنی زندگیوں کی انتہائی تلخ اور شدید ضرورتوں اور تضادات سے نمٹنے کیلئے سرگرم ہوں وہ کسی گروپ کے خیالات کے مطابق نہیں چلتے بلکہ عوامی مطالبات اور سماجی تضادات کے مطابق چلتے ہیں۔ یہ تحریک اپنے اس قسم کے ناقدین کی نکتہ چینیوں کی سزاوار نہیں ہے ۔ہمیں یہ بات ملحوظ خاطر رکھنی چاہئے کہ فلسطین پر قبضے کی صیہونی پالیسی کا اسرائیلی عوام کے شعور سے کوئی تعلق نہیں اور یہ تحریک صیہونی ریاست اور سامراجی سرمایہ دارانہ نظام پر اعتمادنہ کرتے ہوئے ان کے خلاف برسرپیکار ہو چکی ہے ۔

لاکھوں عوام کی اپنی حکومت کے خلاف مزاحمتی تحریک اسرائیلی اور عرب دونوں ورکنگ کلاس کی نجات کا پہلا قدم ہے۔ گھروں کی انتہاکو پہنچی قیمتوں ،سماجی خدمات کے شعبوں کی نجکاری کے ساتھ ساتھ فوج اور آبادکاری پر ہونے والے شدومدسے ہونے والے فضول اخراجات کی کیفیت میں انقلابی تحریک درست اسباق اخذ کرنا شروع کر چکی ہے ۔تل ابیب کے مظاہرے میں جو نعرہ بینروں پر نمایاں طورپر آویزاں تھا وہ یہ تھا ’’ سماجی انصاف کیلئے لازم ہے کہ آبادکاری کا عمل ختم کیاجائے ‘‘۔ ان آبادکاریوں پر سالانہ ایک ارب ڈالر خرچ کئے جارہے ہیں ۔

اسرائیل کے معروف سیاسی کالم نگار ناہم بارنیا نے رپورٹرز کو بتایاہے کہ ’’یہ لوگ (احتجاجی مزدور)دیکھ اور جان چکے ہیں کہ بہت بھاری سرمایہ طفیلی انداز میں ایسے شعبوں میں خرچ کیا جارہاہے ۔توہین آمیز انداز میں مقبوضہ علاقوں میں آبادکاری کو ترجیح دی جارہی ہے جو کہ انتہائی غلط عمل ہے اور جو بھی کیا جارہاہے اس سے صرف انہی لوگوں کے مفادات میں بڑھوتری ہورہی ہے جو کہ اقتدار کے مرکز میں موجودہیں‘‘۔ احتجاج میں شریک شاہین ناصر نے ہارٹز کو بتایا کہ ’’آج ہم نے کھیل کے قواعد وضوابط بدلنے کی ابتدا رکھ دی ہے ۔اب حمس اور فاواکی طرز کی کھانے کی اشیاء سے قائم کردہ کوئی مصنوعی سانجھ قائم نہیں رہے گی ۔ہاں البتہ اب ہم ایک حقیقی سانجھ کے ساتھ یہاں موجود ہیں ۔ہم دونوں عرب اور اسرائیلی ایک آواز ایک زبان ہو کر سماجی ناانصافی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں ۔اور ہم اسے حاصل کر کے ہی دم لیں گے ‘‘۔

اسرائیل کی جیل میں قید الفتح کے ایک لیڈر مروان برغوتی نے اعلان کیاہے کہ 20ستمبر کو دس لاکھ فلسطینی پر امن عوامی مارچ کریں گے ۔اس دن اقوام متحدہ میں فلسطین کے مسئلے پر دو قومی ’’حل‘‘ پر بحث مباحثہ ہوگا۔ہم کسی طور دو قومی حل کی حمایت نہیں کرتے ۔کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام کے تحت ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام ممکن ہی نہیں ۔ لیکن اس مرحلے پر اس قسم کا بڑا مظاہرہ اپنے محدود مقاصد سے آگے نکل کر اسرائیل کی عوامی تحریک کے ساتھ جڑے گا ۔صیہونی بربریت اور سرمایہ دارانہ وحشت کے خلاف عربی اور یہودی محنت کشوں کی مشترکہ جدوجہد ہی تو اسرائیل کی تحریک کا مطمع نظر ہے ۔

اور اسرائیل کے عوام کو حاصل ہونے والا یہ شعور و ادراک ایک بہت بڑی کامیابی ہے ۔ نیتن یاہو کی حکومت عوام کے اس جوش وجذبے سے بوکھلا کے رہ گئی ہے اور اس نے مظاہرین کے مطالبات کی شنوائی اور ان پر غوروخوض کیلئے ایک کمیٹی قائم کر دی ہے جو ایک مہینے کے اندر اپنی رپورٹ مرتب اور پیش کرے گی ۔جبکہ اس عرصے میں مظاہروں کے منتظمین نے اپنے مطالبات پورے ہونے تک اپنی تحریک جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے ۔نیتن یاہو پہلے ہی قرار دے چکاہے کہ مظاہرین کے بہت سے مطالبات کو تسلیم نہیں کیا جاسکتا چنانچہ کمیٹی کی رپورٹ سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔تاہم اگر کوئی غلطی سرزد نہ ہوئی تو یہ بات طے ہے کہ یاہو حکومت لڑکھڑا رہی ہے اورایک ایسی کیفیت میں کہ جب تحریک زوروں پر ہے اور اسے سماج کے90فیصد حصوں کی تائید وحمایت بھی حاصل ہے،اس بات کے امکان روشن ہیں کہ اس حکومت کا دھڑن تختہ ہو جائے ۔لیکن سوال یہ ہے کہ اس کے جانے کے بعد متبادل کون اور کیساہوگا؟ احتجاجی تحریک کی قیادت کرنے والا سٹوڈنٹ لیڈراتزک شمولی جو کہ ایک کاروباری پس منظر کا حامل ہے ، واضح طورپر نظام کے اندر رہتے ہوئے بدلاؤ چاہتاہے ۔وہ اسرائیل کی تباہ کن معیشت کو ایک انسان دوست معیشت میں دیکھنے کا خواہاں ہے ۔لیکن اسے اس بات پر کوئی سمجھ بوجھ نہیں کہ اس کا یہ خواب کیسے اور کس طرح سے ممکن ہوگا ۔تحریک کو آگے لے جانے کیلئے درکار کوئی واضح پروگرام نہ ہونے کی وجہ سے اسے سمجھ ہی نہیں آرہی کہ کیا ہوگا اورکیا کیا جائے! دوسری طرف ڈافنی لیف جسے تحریک کی شروعات کرنے والی کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔کھلے عام سرمایہ دارانہ نظام کے مسائل پر بات کرتی آرہی ہے اور وہ سارے سماجی نظام کو ہی تبدیل کرنے کی بات کر رہی ہے۔ جب وہ ان نکات پر بات رکھتی ہے تونیچے سے مجمع اس کی بھرپور پذیرائی اور حوصلہ افزائی کرتاہے ۔عوام کی یہ کیفیت اور جوش وجذبہ اس بات کی مکمل عکاسی کر رہاہے کہ وہ ایک مختلف قسم کے سماج کیلئے کتنے بیتاب ہیں اور اس کی ضرورت کو اچھی طرح سمجھتے بھی ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس بات کو سمجھنا بہت ضروری بھی ہے کہ یہ سب کیسے ممکن ہو سکے گا ۔

کیا فوجی اخراجات اور آبادکاری پر خرچ کی جانے والی رقوم کو کم کرنے سے گھروں اور اشیائے زندگی کی قیمتوں میں کمی ہو سکے گی ؟عالمی سرمایہ داری کی موجودہ بحرانی کیفیت میں اسرائیل جیسے ملک میں ایسا ہونا محال ہے اور اگر زور لگایا بھی جائے تو اس کے محض معمولی اثرات ہی مرتب ہوں گے ۔اس سے بھی اہم یہ ہے کہ حکومت کے مقابلے میں جدوجہد کی کامیابی کے ضمن میں سیاسی حکمت عملی اور سمجھ بوجھ درکار ہے۔ آخرکار کیونکر گھروں کی قیمتیں بڑھتی ہی چلی جارہی ہیں ؟آخر کیوں نیتن یاہو بھی دوسرے عالمی لیڈروں کی طرح سے نجکاری اور کٹوتیوں و چھانٹیوں کی پالیسیوں پر ہی کمر بستہ چلا آرہاہے ۔کیونکر نتین یاہو نے نئی آبادیوں میں رہنے والے لوگوں کو مسلح کرنا شروع کیاہے کہ جہاں اس کی سماجی بنیادیں موجود ہیں۔

ان سبھی سوالات کا جواب اسی وقت ہی مل سکتا ہے جب ہم سرمایہ دارانہ نظام کے بحران کو سمجھیں اور اس کے نتیجے میں سامنے آنے والے سیاسی عواقب و عوامل پر نظر رکھیں ۔نتن یاہو کبھی بھی عام لوگوں کے گھروں اور دوسری سہولتوں کیلئے پیسہ مختص نہیں کرے گا کیونکہ وہ سرمایہ داروں کا نمائندہ ودلال ہے ۔ اور یہ سرمایہ دار ہی ہیں کہ جو اس سارے عرصے میں جائیدادوں کے کاروبار سے بھاری منافع کماتے اوراپنی تجوریاں بھرتے چلے آرہے ہیں او ر اپنے اثاثے بڑھا چکے ہیں۔نتن یاہو کسی طور بھی آبادکاریوں کو دی جانے والی سبسڈیز سے دستبردار نہیں ہوگا کیونکہ یہی تنگ نظر علاقے ہی اس کی سیاسی حمایت کا مرکز ہیں۔اور اسی وجہ سے ہی اس نے اس علاقے کے لوگوں کو مسلح کرنا شروع کر دیاہے۔

ڈافنی لیف اور اس جیسے باشعور لیڈروں کو اپنی اس شاندار تحریک کو زیادہ جرات اور بلوغت کے ساتھ رہنمائی کرتے ہوئے اسے آگے لے جانا چاہئے ۔ایک سرمایہ داری کی گماشتہ حکومت کی موجودگی میں مظاہروں کو جاری رکھنے اور خیموں کوقائم رکھنے کی اپنی ایک حد ہواکرتی ہے۔لازمی ہے کہ تحریک میں شریک لاکھوں لوگوں کے جذبے اور ولولے کو سمجھتے ہوئے جو کہ اپنے پاؤں پرکھڑے ہوچکے ہیں ،ایک عام ہڑتال کا اہتمام کیاجائے جو اسرائیل کے محنت کش طبقے کو یکسر جھنجھوڑ دے گی اور اسے تبدیل کر کے رکھ دے گی۔

اور اگر تب بھی مطالبات نہ مانے گئے تو محنت کش طبقہ ایک غیر معینہ ہڑتال کی طرف جائے گا ۔اس قدر وسیع عوامی تائیدوحمایت کے ہوتے ہوئے کسی قسم کے خوف اور خدشے کی کوئی اہمیت نہیں رہتی۔فلسطینیوں اور اسرائیل میں رہنے والے عربوں کو بھی اس میں شریک ہونے کی تحریک دی جائے ۔ان کی شرکت حکمران طبقے کیلئے موت کی گھنٹی ثابت ہو گی۔

اس قسم کا جوش جذبہ اور ولولہ انگیزی اس وقت بھرپور انداز میں موجود ہے اور اس کی موجودگی آئندہ درکار بھی رہے گی۔یہ بات حتمی ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے ہوتے ہوئے عربوں اور یہودیوں کو درپیش مسائل کا حل ممکن ہی نہیں ہے ۔ اس نظام نے پچھلے 64سالوں میں دونوں کو سوائے جنگوں اور تباہیوں کے کچھ بھی تو نہیں دیا۔

Translation: Chingaree.com