ایران؛ جودریاجھوم کے اٹھے ہیں، تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے

Urdu translation of Iran: Report by activists of Militant on the clashes in Tehran on Ashura, 27th December 2009 (January 15, 2010)

چنگاری ڈاٹ کام،17.03.2010۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ،، ذیل میں ہم ایران میں یوم عاشورکے موقع پرستائیس دسمبرکو تہران میں پیش آنے والے واقعات کے ایک چشم دید گواہ کی تحریر شائع کر رہے ہیں ،جسے پڑھ کر ہمیں اس جوش وجذبے کا بخوبی ادراک ہوتا ہے جو ایران کے بپھرے ہوئے عوام پولیس اور ریاستی اداروں کی بدترین بربریت کے خلاف بروئے کار لا رہے ہیں۔اس رپورٹ میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح سے اس بار پولیس نے عوام کو نہیں بلکہ عوام نے پولیس کو گرفتار کرلیااور ان کی نہ صرف یونیفارم بلکہ افسرانہ بیجوں سے بھی محروم کردیا۔اور جیسا کہ کامریڈ نے اپنی رپورٹ میں بیان کیا ہے کہ ’’جس قسم کی باغیانہ سرکشی کا ماحول ہم نے دیکھاوہ کسی طور بھی واپس ہوتا نظرنہیں آرہاتھا‘‘۔ ترجمہ ؛اسد عزیز پتافی، ۔ ۔ ۔۔ ہم دس پندرہ کے قریب دوست احباب صبح صبح نکلے ۔جب ہم خیابان انقلاب پہنچے توہمیں وہاں لوگوں کا ایک جم غفیر نظر آیا۔جو ہمارے لئے قطعی اجنبی تھے۔کیونکہ ابھی کل ہی کے دن ہم نے اس سے تھوڑے لوگ دیکھے تھے ۔ہماراخیال تھا کہ آج بھی کل ہی جتنا لوگ ہوں گے ۔ہم نے دیکھا کہ شاہراہ انقلاب کی دونوں طرف لوگ جوق در جوق ’’میدان انقلاب ‘‘کی جانب رواں دواں تھے۔’’انقلاب چوک ‘‘پر پہنچنے سے پہلے ہی سادہ کپڑوں میں ملبوس ایک ریاستی ایجنٹ نے ہمیں دیکھتے ہی ہمارے ایک ساتھی سے پوچھ گچھ شروع کردی لیکن پھر ہمارے متوجہ اور مشتعل ہونے پر اس نے راہ فرار اختیارکر لی۔اس کے جاتے ہی ہم نے نعرے لگانے شروع کردیے ’’ریاستی ایجنٹ مردہ باد‘‘۔جس کا سب نے بآوازبلند جواب دینا شروع کردیا۔ہم فردوسی چوک پر البروز کالج کو ملانے والے پل کے اس طرف پہنچ گئے۔اس دوران ہی لوگوں نے اچانک سڑک سے گلیوں کی طرف بھاگ رخ کرنا شروع کردیاتاکہ وہ ان میں خود کو صف بند کر سکیں ۔کیونکہ سڑکوں پر موٹرسائیکل سوار پولیس دستوں نے ان پر بے رحمانہ تشدد شروع کردیاتھا ۔اس دوران جب پولیس اور سادہ کپڑوں میں ملبوس ریاستی بدمعاشوں نے ہم عوام پر بے رحمانہ تشدد کرناشروع کر دیا ،ہم البروز کالج کے عقب میں چلے گئے۔اس اچانک حملے کی وجہ سے میں اپنے ساتھیوں سے بچھڑگیااور اپنے تحفظ کیلئے کہیں چھپنے پر مجبورہوگیا۔میرے ساتھ کئی اور مظاہرین بھی تھے۔البروز کالج کے سامنے مظاہرین اور ریاستی اداروں کے مابین شدید تصادم شروع ہوگیا۔تب تک طاقت کا توازن پولیس اور باسیج،، ایرانی خفیہ ادارے،، کے حق میں تھا اور وہ حاوی نظر آرہے تھے۔مگر پھر اچانک ہی سب کچھ بدلنا شروع ہوگیا۔میں اس وقت عین کالج والے پل کے نیچے موجودتھاجب مجھے یہ محسوس ہونا شروع ہواکہ سادہ کپڑوں والے ایجنٹ اور پولیس والے اپنی موٹر سائیکلیں چھوڑ کر بھاگنا شروع ہوگئے ہیں ۔میں نے دیکھا کہ دوسری طرف سے عوام کی سنگ باری نے انہیں دم دباکر بھاگنے پر مجبور کردیا۔ایک لمحے تک کیلئے تو جیسے ساری کیفیت اورسارا تاثر بدل کے رہ گیا۔ یوں لگتا تھا کہ مظاہرین کے اندر جیسے جوش وجذبے اور لڑ مرنے کی قوت عود کر آئی تھی۔مظاہرہ کرنے والے پل پر اپنا قبضہ جماچکے تھے۔اور انہوں نے پولیس اور باسیج والوں کی موٹر سائیکلوں کو قبضے میں لے کر ان کو آگ لگانا شروع کردیا۔ سیدرات بینک کی ایک شاخ جو کہ پل کی ایک نکڑ پر واقع تھی اسے مظاہرین نے نذرآتش کردیا۔اس دوران میں کچھ دیر کیلئے پاس ہی واقع حافظ سٹریٹ کی طرف چل پڑا تاکہ میں وہاں ہونے والے واقعات کو دیکھ سکوں ۔ہر طرف ولولہ انگیز کیفیت اپنے جوبن پر دکھائی دے رہی تھی۔میں یہ سب دیکھتا واپس البروزکالج کی طرف واپس آگیا۔تب تک پولیس نے پل کا کنٹرول دوبارہ حاصل کرلیاتھا۔لوگوں نے پل کے نیچے سے پولیس پر سنگ باری شروع کی ہوئی تھی۔ پتھروں کی یہ برسات اس قدر شدید تھی کہ مجھے یہ تشویش لاحق ہوگئی کہ میں بھی اس کی زد میں آکر کہیں زخمی نہ ہو جاؤں۔چنانچہ میں ایک طرف ہوگیا تاکہ میں زخمی نہ ہوسکوں۔اسی دوران ہی پل کی طرف سے براہ راست فائرنگ شروع کر دی گئی۔ میں نے وہیں ایک گڑھے میں پناہ لے لی ۔ بعد ازاں میرے دوستوں نے مجھے بتایا کہ انہوں نے فائرنگ سے بچنے کیلئے جلتی ہوئی بینک کی عمارت میں پناہ لی تھی۔فائرنگ کے رکنے کے بعد میں نے اپنے دوستوں کو تلاش کیا ۔اور اس کے بعد ہم سب حافظ سٹریٹ کی طرف بڑھ گئے۔وہاں بھی ریاستی بدمعاش اپنے لوگوں پر آنسوگیس اور مرچوں کا سپرے کر رہے تھے ۔ہر طرف لوگ سڑکوں پر آگ کے الاؤ جلا رہے تھے تاکہ آنسوگیس کے بداثرات سے بچ سکیں۔لوگ ہر طرف زوروشور سے نعرے بلند کر رہے تھے’’ہم شرمسارہیں ہم شرمندہ ہیں ، ہمارے لیڈرایسے بیہودہ ہیں‘‘۔’’یہ محرم کا مہینہ ہے یہ شہادتوں کا مہینہ ہے‘‘اور ’’خامنائی مردہ باد ‘‘خامنائی جاوے ہی جاوے‘‘’’جو ہمارے ایک بھی بھائی کو مارے گا،ہم اسے بھی ماریں گے‘‘’’یا حسین ،میر حسین‘‘اور ’’مرگ برآمر‘‘۔ہم دوست ایک بار پھر البروز کالج کی طرف چل پڑے۔انقلاب سٹریٹ میں صورتحالایک خانہ جنگی کی سی ہو چکی تھی ۔میں نے اپنے ایک ساتھی کے ساتھ مل کر لوگوں کی مدد کرنی شروع کر دی اور راستے بلاک کرنے لگے تاکہ پولیس اور باسیج موٹرسائیکلوں پر عوام پر حملے نہ کر سکے۔ایسے میں ہم نے دیکھے کہ چند لوگوں نے کسی کو پکڑاہواہے اور اسے گھسیٹتے ہوئے مجمع کی طرف لا رہے ہیں ۔وہ پولیس کے ایک افسر کو پکڑ نے میں کامیاب ہو چکے تھے ۔انہوں نے بینک کے ساتھ ہی واقع ایک مکان کو عوام کی طرف سے گرفتارکئے گئے پولیس اور باسیج والوں کی قید گاہ بنا دیاگیا۔ اور پھر تو جیسے یہ سلسلہ زورہی پکڑنے لگا۔انہیں پکڑ کر ان کی وردیاں اتارلی جانے لگیں اور ان کا اسلحہ بھی ضبط کیاجانے لگا۔ان میں سے کچھ کی خوب خاطر تواضع بھی کی جاتی رہی جس کے بعد انہیں عوامی قیدخانے میں ڈالا جاتارہا۔اس دوران بے شمار وردیاں ،شیلڈز ،اسلحہ وغیرہ عوام کے ہاتھ لگ گیا۔اس کے بعد ہم ایک بارپھر حافظ سٹریٹ کی طرف مڑے اور دھیرے دھیرے عوام کے ہجوم کے ساتھ چلتے رہے۔اس دوران میں اپنی دو خواتین کامریڈز کے ہمراہ اپنے دوستوں سے ایک بار الگ ہوگیا۔لیکن ہم عوام کے ساتھ چلتے رہے۔’’امیر کبیر یونیورسٹی‘‘کے سامنے لوگوں کی پولیس اور باسیج کے ساتھ پھر سے جھڑپیں ہونی شروع ہو چکی تھیں۔لوگوں کے پاس ماتمی ڈھول تھے جنہیں وہ بجاتے اور نعرے بلندکرتے جا رہے تھے۔پولیس کی ایک ویگن اس دوران عوام کے جم غفیر میں پھنس گئی۔مجمع اس پر سنگ باری کرنے لگا۔پولیس والوں کیلئے یہ سب کچھ ناقابل یقین اور حیران کن تھا ۔پولیس والوں کو زبردستی اتار دیاگیا اور ان کو وردیوں سے محروم کرکے ان پر عوام ٹوٹ پڑے۔ان کا اسلحہ عوام نے لے لیا اوران کی گاڑی کا نذر آتش کردیاگیا۔تیلغانی اور حافظ سٹریٹ کے سنگم پر عوام اور پولیس کے مابین اور بھی زیادہ متشدد جھڑپیں جاری تھیں۔وہاں پر عوام پل کے نیچے تھے جبکہ پولیس والے پل کے اوپر۔عوام پولیس والوں پر پتھر اور دیگر اشیا پھینک رہے تھے ۔پولیس والے اوپر سے ہم پر پتھر بازی کر رہے تھے اور ہم نیچے سے۔ہم یہ سب کرتے کراتے حافظ سٹریٹ سے ہوتے ہوئے حافظ پل کے آخرتک پہنچ گئے۔پولیس والے پل پر ہی موجود تھے ۔عوام نیچے سے شدیدنعرے بازی کررہے تھے جن کی شدت پولیس والوں کو خوفزدہ کئے جا رہی تھی۔اس دوران ہی لوگوں نے پولیس کے ارد گرد چاروں طرف بنچیں ،ٹریفک کے سائن بورڈز اور ریت کی بوریاں وغیرہ رکھ کر ان کو محصور سا کردیا۔ ارد گرد کی سبھی سڑکوں اور گلیوں پر ریت بچھا دی گئی تاکہ پولیس اور باسیج کے موٹر سائیکل سوار وں کی حرکات وسکنات کو مشکل اور منجمد کیا جاسکے۔ایران کی اسلامی جمہوریہ،خامنائی کے خلاف سخت اور شدید نعرے بازی اس دوران مسلسل جاری رہی۔کبھی کبھار میر حسین موسوی کے حق میں بھی نعرے لگائے جاتے رہے۔ ہم تب تک کریم خانے زاد سٹریٹ پہنچ چکے تھے جہاں سے ہمارا خیال تھا کہ ہم ہفتے تیرHaft-e Tirجائیں گے۔ لیکن وہاں ہم نے دیکھا کہ مسلح پولیس کی درجنوں گاڑیاں پوری تیاری کے ساتھ براجمان تھیں ۔ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم اب ولی العصر چوک کی طرف جاتے ہیں۔اس دوران میں نے ایک انتہائی دلچسپ منظر دیکھا ۔کوئی میاں بیوی اور ان کا بچہ ایک جگہ کھڑے تھے اور وہ پولیس والوں سے چھینی جانے والے سووینیرز وغیرہ کی تصاویرا تار رہے تھے۔اور پھر اچانک میں نے دیکھا کہ پولیس والوں کی یک اشتعال انگیزحرکت کے نتیجے میں عوام نے اچانک ہی پولیس کی گاڑیوں پر ہلہ بول دیا۔اس سے پہلے عوام کچھ فاصلے سے ان گاڑیوں پر پتھراؤ کر رہے تھے ۔اس کے بعد لوگ اچانک ان کے قریب پہنچ گئے اور انہیں اپنی زد میں لے لیا۔سب کو باہر نکال کر گاڑیوں کو آگ لگا دی گئی ۔اسی دوران ہی کچھ لوگوں نے ان کی وردیاں پھاڑ ڈالیں اور ان سے اسلحہ چھین لیا۔اس دوران لوگوں نے کریم خان بولیوارڈپر لگائے گئے جنگلے اکھاڑ پھینکے۔اور یوں لگ رہاتھا کہ جیسے کوئی ٹینک وہاں سے گذرگیاہو۔تمام سڑکیں اور گلیاں پتھروں سے اٹی ہوئی تھیں ۔ہم سب مظاہرین ولی العصر سکوائر کی طرف پیش قدمی کر رہے تھے۔ جب ہم نے پولیس کی طرف سے بدترین تشدد ہوتے دیکھا۔جنگلے لگی ہوئی پولیس کی گاڑیاں لوگوں پر چڑھائی جا رہی تھیں ۔ایک نوجوان لڑکی اور ایک نوجوان لڑکا بھی اس وحشیانہ کاروائی کے دوران گاڑیوں تلے آکر کچل دیے گئے۔اس کے بعد کچھ دیر کیلئے لوگ ایک طرف کو تتر بتر ہوگئے۔تب ہمیں محسوس ہوا کہ ہم ایک بند جگہ پھنس چکے ہیں ۔اس کیفیت میں ہی پولیس اور باسیج نے ہمیں گھیر لیا ۔ہم میں سے ایک کوتشدد کی وجہ سے گھٹنوں اور سر میں شدید چوٹیں آئیں ۔ہم نے ایک گھر میں داخل ہونے کی کوشش کی ،اس دوران ہمیں باسیج کے گھیرے سے نکلنے کا راستہ اور موقع مل گیا۔اور ولی العصر سکوائر پہنچ گئے۔لیکن وہاں کچھ بھی نہیں تھا اور لوگ منتشرہوچکے تھے۔ دوبج چکے تھے اور ہمیں کچھ وقفہ مل گیاجس کے دوران ہم نے اپنے ایک بچھڑے ہوئے ساتھی کو ڈھونڈنے کا سوچا۔اسی وقت ہی باسیج والوں نے موٹرسائیکلوں پر اپنا گشت شروع کردیاتھا۔وہ کریم خانے سٹریٹ اور ولی العصر سکوائر کے ارد گرد چکر لگا رہے تھے اور چیخ پکار کرتے پھر رہے تھے ۔وہ آس پاس موجود لوگوں پر تشدد کرتے پھر رہے تھے۔اس کے بعد ہم واپس اس جگہ پہنچے جہاں صبح ہم نے احتجاج شرو ع کیاتھا۔ہم سب محفوظ تھے اور کوئی بھی ہم میں سے گرفتار نہیں ہواتھا۔ہم نے کچھ آرام کرنے اور اس کے بعدمحسنی سکوائرمیں واقع میراددسٹریٹ جانے کا فیصلہ کیا ۔جہاں شام غریباں کی تقریب ہوناتھی اور جہاں احتجاج ہوناتھا۔وہاں جانے سے قبل ہم نے شاہراہ آزادی اورشاہراہ انقلاب کی طرف جانے کا فیصلہ کیا۔تاکہ وہاں کی صورتحال کا پتہ چلاسکیں۔یہ سڑکیں اور شاہراہیں ٹوٹے ہوئے شیشوں اور پتھروں سے اٹی ہوئی تھیں ۔بہت سی اشیا جل اور سلگ رہی تھیں جبکہ پولیس اور باسیج کی بھاری تعدادبھی موجود تھی ۔سب تھکے ہارے ہوئے بھی تھے اور ایک طرف لگ کے کھڑے ہوئے تھے۔ لیکن اس کے بعد پھر باسیج اور پولیس والوں کی سازشیں پھر سے سامنے آنی لگیں۔وہ گلیوں میں گھومنا شرو ع ہوگئے ۔خاص طور پر باسیج والے لوگوں پر اپنا غصہ اتارنے لگے ۔یہاں یہ بات قابل ذکر اور قابل توجہ ہے کہ آزادی سٹریٹ اور انقلاب سٹریٹ میں ہونے والے مظاہروں کے دوران باسیج والوں کو مظاہرین کی طرف بڑھنے یا دیکھنے کی جرات تک نہیں ہوئی۔ہاں البتہ اس وقت جب کہ عوام سڑکیں خالی کر کے جا چکے تھے،تب انہوں نے خالی سڑکوں پر ہوا میں ادھر اُدھرمنہ کرکے گالم گلوچ کر کے اپنا مورال بلند کرنے اور رکھنے کی کوشش کی۔ جب ہم محسنی سٹریٹ پہنچے تو وہاں اتنی بڑی اور بھاری تعداد میں پولیس اور باسیج والے موجود تھے کہ وہاں کسی عام آدمی کا چند لمحوں کیلئے ٹھہرنا ہی ناممکن تھا ۔ ہم کچھ وقت کیلئے علاقے کا جائزہ لیتے رہے۔تب ہمیں معلوم ہوا کہ میر حسین موسوی کے بھتیجے کی لاش کو مغربی تہران میں واقع ابن سینا ہسپتال لے جایا گیا ہے۔یہ بھی پتہ چلا کہ وہاں بھی لوگوں کی پولیس اور باسیج کے ساتھ جھڑپیں ہوئی ہیں ۔ہم وہاں چلے گئے ۔یہ کوئی ساڑھے نوبجے رات کا وقت تھا اور لوگ وہاں سے واپس جا رہے تھے ۔تاہم پولیس اور باسیج والے بڑی تعداد میں وہاں علاقے اور ہسپتال کے اردگردموجود تھے ۔ارد گرد کی سڑکوں پر وردیوں کے کٹے پھٹے ٹکڑے،ٹوپیاں ،اور جیکٹیں وغیرہ بکھری ہوئی تھیں۔جن سے یہ صاف ثابت ہورہاتھا کہ وہاں بھی انتہائی سخت اور جانگسل مقابلہ ہواتھا۔ میں اور میرے ساتھی تو سب واپس اپنے اپنے گھروں کی طرف جانے لگے۔لیکن جس قسم کی باغیانہ سرکشی کا ماحول ہم نے دیکھاوہ کسی طور بھی واپس ہوتا نظرنہیں آرہاتھا۔