ایران جہاں پہلے انقلاب اوراب انتخاب چوری ہوا

Urdu translation of Iran: regime steps up terror – a general strike is needed! (June 26, 2009)

 

چنگاری ڈاٹ کام،02.07.2009۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہمارے لیفٹسٹوں کی ایک بڑی تعداد یہ سوال پوچھ رہی ہے کہ کیا ایران کی تحریک کو ترقی پسند سمجھا جاسکتا ہے؟ دراصل وہ اس پروپیگنڈے کی گرفت میں آئے ہوئے ہیں کہ یہ ساری کی ساری تحریک سامراج کا منصوبہ ہے جس کا مقصد اورہدف ایران میں قائم اسلامی حکومت کا خاتمہ کرناہے۔ ہمارے ان احباب کو وہ سب کچھ نظر نہیں آرہاہے کہ جو ایران میںہورہاہے۔ایران میں درحقیقت انقلاب کا آغازہوچکاہے۔ اس وقت وہاں جس بات کی جس کام کی اشد ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ وہاں کے محنت کش طبقے کو پیش قدمی کےلئے تیار کیا جائے ۔ کل شام لندن میں ایک میٹنگ کے دوران ایک ایرانی طالبعلم کو میرے حسین موسوی بارے سخت نقطہ نظرپسند نہیں آیا۔ جواس کے خیال میں ایران کی اپوزیشن کا متحدہ ومتفقہ لیڈر بن چکاہے اور جو کہ ایران کا بہادر ترین آدمی ہے۔ میں نے اس نوجوان کو جواب دیا کہ ایران میں جاری تحریک اس وقت تک اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہوسکتی ہے جب تک کہ اسے محنت کش طبقے کی طرف سے عام ہڑتال کا تعاون میسر نہیں آتا۔ میں نے واضح کیا کہ موسوی عام ہڑتال کے اشارے تو کررہاہے مگر وہ عام ہڑتال کی کال دینے سے گرےز کررہاہے۔ اس نوجوان طالبعلم نے کہا کہ ایر انی انقلاب نہیں بلکہ اصلاحات چاہتے ہیں ۔ میں نے جواب دیا کہ ممکن ہے آپ کی بات درست ہو تاہم احتجاج کرنے والے ایرانی جو کچھ بھی چاہ رہے ہیں وہ ماسوائے انقلابی طورطریقوں سے حاصل نہیں ہو سکتا نہ ہو سکے گا۔ اور یہ کہ سماج کو بدلنے کےلئے سب سے موثر اور حقیقی طاقت صرف اورصرف محنت کش طبقے کی واقعات میں بھرپور شمولیت ہواکرتی ہے۔ مجھے علم نہیں کہ وہ نوجوان میری اس بات سے مطمئن ہوا کہ نہیں تاہم مجھے یہ احساس ضرور ہے کہ میری دلیل نے اسے کم از کم سوچنے پریقینا مجبورکردیا۔ ایران کے اندر بہت سے لوگ اب بہت سے معاملات بارے بہت کچھ سوچ رہے ہیں ۔ یہ انتہائی بدقسمتی کی بات ہے کہ ہمارے یہاں مغرب میں بہت سے سوچنے والوں نے تو جیسے سوچنا ترک ہی کردیا ہے۔ میں نے اس مہینے جون کی بائیس تاریخ کو اپنی زندگی کی سب سے خراب اور بیہو دہ تحریر پڑھی ہے جوکہ جریدے” گلوبل ریسرچ ،، میں جیمز پیر اس نے ”ایرانی انتخابات ،، چوری شدہ انتخابات کاتنازعہ،، کے عنوان سے لکھی ہے۔ مجھے اس مضمون کا صدمہ یوں بھی ہے کہ اس کا مصنف ایک معروف تجزیہ نگار ہے جس نے کئی اعلیٰ اور عمدہ مضامین لکھے ہوئے ہیں ۔ بدقسمتی سے وہ موازنے کے مظہر کے گھن چکر میں بری طرح گھر چکاہے کہ جس کا عمومیت سے کوئی سروکار نہیں ہواکرتا اور یوں ایک غلط طرز اپناے کی وجہ سے وہ غلط اندازے اور تجزیے کا شکارہوچکاہے۔ اس کے مذکورہ مضمون میں ہم درج ذیل پڑھتے ہیں ۔ ”اس وقت رائے عامہ کے سبھی محورومراکز جن میں الیکٹر انک اور پرنٹ میڈ یا بھی شامل ہیں ، کے لبرل ، ریڈیکل، آزادی پسنداور قدامت پسند ویب سائیٹیں سب ایک زبان ہوکر وہاں کی اپوزیشن کے اس دعوے کی حمایت پر اتر ے ہوئے ہیں کہ یہ فراڈالیکشن تھے۔ نیوکنزرویٹو، لبرٹیرین کنزرویٹواور ٹراٹسکائیٹ، سب بیک زبان ” صہو نےوں ،، کے پروپیگنڈ ے کاحصہ بن کر اپوزیشن کے احتجاج کرنے والوں کو جمہوری انقلاب کا ہراول دستہ قرار دینے پر تلے ہوئے ہیں،، ۔ پیٹر اس اپنے مضمون میں باربار ایرانی حکومت کے اس الزام کی تائید کرتانظر آتاہے جس میں اس کا دعویٰ ہے کہ ایران میں جو کچھ بھی ہورہاہے وہ سب سامراج کا کیا دھرا ہے اور اسی کی حکم سے ہورہاہے۔ اپنے اس مضمون اورا س دعوے کی تائید میں اس نے ایک بھی دلیل پیش نہیں کی ۔ اس کے برعکس اس نے سٹالنزم کے اسلوب کو اپناتے ہوئے ٹراٹسکائیٹو ں کو بیک وقت سی آئی اے اور صیہو نےت کے ساتھ ایلفی لگا کے جوڑنے کی مذموم کوشش کی ہے۔ یہ زبان یہ طریقہ اور یہ اندازگفتگو وینسکی کاتو ہوتا تھا لیکن یہ کسی طور مارکس اور لینن کا اسلوب تحریر وبیان نہیں ہوتاتھا۔ یہ اسلوب اور دشنام طرازی ایک ایسے سٹھیائے ہوئے شخص کا ہے جو کہ اس قدر حواس باختہ ہوچکا ہے کہ جو انقلاب اور رد انقلاب میں امتیاز کی حس سے بھی محروم ہوچکاہے۔ اگر اس کو درست بھی تسلیم کر لیا جائے کہ امرےکہ نے ایران میں حکومت بدلنے کی تیاری کی ہوئی ہے یا وہ کررہاہے تو اس سے قطعی یہ مطلب نہیں نکلتا ہے کہ وہاں جاری تحریک پر بھی سامراج کا کنٹرول ہے یا اسی نے ہی اسے شروع کیاہے ۔ جیسا کہ پیٹر اس اورا س جیسے دوسرے خود گزیدہ لیفٹیسٹ لکھ اور کہہ رہے ہیں۔ اس بات میں رتی برابر شک بھی نہیں کہ امریکہ بہادر ایران میں موجود حکومت کو بدلنے اور ہٹانے کے درپے تھا اور ہے۔ اور ایسا وہ پچھلی تین دہائیوں سے چاہ رہاہے ۔ اور یہ بات بھی ہم سب کو معلوم ہے کہ واشنگٹن نے اس حوالے سے ایک خاص فنڈ بھی مختص کیا ہوا ہے۔ ہم سب یہ بھی جانتے ہےں کہ سامراجی ایران کو نیچا دکھانے کی کوششوں میں چلے آرہے ہیں اور ایران کو عالمی امن اور مشرق وسطیٰ مےں استحکام کےلئے ایک خطرے کے طورپر پیش کرتے چلے آرہے ہیں۔ مگر اس وقت قابل توجہ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ صورتحال امریکیو ں کےلئے کتنی تشویشنا ک بن چکی ہے۔ امریکہ بھی یورپ کی طرح اس الیکشن پر اپنی نظریں گاڑے ہوئے تھا۔ یورپ کاواحد ملک فرانس ہے جس کے صدر سرکوزی نے ایران کے الیکشن کو فراڈ قراردیا ہے اور ایرانی حکومت پر دھاندلی کا الزام لگایا ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ پیٹر اس جیسے دانشورکیا لکھ اور کہہ رہے ہیں ، امریکہ میں نیو کنزرویٹو دائیں بازوکے لوگ کہہ رہے ہیں کہ ایران میں احمدی نژاد الیکشن جیت چکاہے۔ اس کھلے تضاد کو سمجھنا آسان کام ہے۔ یہ سب کے سب رجعتی عناصر ایرانی عوام کو مایوسی سے دوچار کرنے کی جستجو میں مگن ہیں ۔ ہاں البتہ وہ یہ ضرور چاہتے ہیں کہ ایرانی عوام پر آسمان کی بلندیوں سے بم ضرورگرائے جائیں ۔ اور پھر ان صیہو نیو ں کے بارے پیٹر اس کا کیا خیال ہے؟ جن پر وہ الزام لگا رہاہے کہ وہی ایران کے موجودہ شور شرابے کے پیچھے سرگرم اور ملوث ہیں ۔ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ امریکہ کے رجعتی نیوکنزرویٹو کی طرح ان صیہو نیوں کا بھی کہنا ہے کہ احمدی نژاد منصفانہ اور شفاف طریقے سے الیکشن جیت چکاہے۔ اور ایسا وہ کیونکر کہہ رہے ہیں ؟کیونکہ اسرائیل کے رجعتی طبقات ایران کے ساتھ جنگ چھیڑ نے کے موڈ میں ہیں تاکہ اس کی ایٹمی تنصیبا ت کو تباہ اور اس کی عسکری صلاحیت کو کمزور کیا جائے۔ یہ ہے وہ کیفیت جسے ہم دیکھ رہے ہیں ۔ یہ ہم ٹراٹسکائیٹ نہیں ہیں جو کہ رجعتی امریکہ اور ظالم صیہونیوں کے ساتھ یونائٹڈ فرنٹ بنائے ہوئے ہیں بلکہ یہ دونوں ہی جناب جیمز پیٹر اس کے ایرانی الیکشن بارے تجزیے کو دل وجان سے تسلیم کر رہے ہیں ۔ جیسا کہ ایک پرانی کہاوت ہے کہ بعض اوقات ضرورت دواجنبیوں کو بھی ایک دوسرے کا ہم بستر بنادیاکرتی ہے۔ تاہم ہم اس حوالے سٹالنسٹ الزام تراشی اور بیہو دہ پن والا وطیرہ اختیار نہیں کریں گے اور ہم کامریڈ پیٹر اس پر قطعی یہ الزام نہیں لگائیں گے کہ وہ امریکہ اور اسرائیل کے رجعتیوں کے ساتھ یونائٹڈ فرنٹ کا حصہ بن چکے ہیں ۔ تاہم ہم یہ ضرور کہیں گے کہ وہ ایک فاش غلطی کا ارتکاب کرچکے ہیں ۔ اور اس غلطی کی وجہ بھی صاف اور ظاہر ہے۔ پیٹراس اور اس جیسے دوسرے دانشور یہ دیکھ چکے ہیں(اور درست دیکھ اور جان چکے ہیں)کہ امریکی سامراج وینز ویلا ، بولیویا ، جارجیا، یوکرائن سمیت کئی ملکوں کے اندرونی معاملات میں بھرپور مداخلت کرتا چلا آرہاہے ۔ اور امریکہ ان سب ملکوں کے اندرموجود اپوزیشن کومنظم کرنے کے ساتھ ان کو حوصلہ اورسرمایہ فراہم کرنے سے بھی نہیں ہچکچایااور وہاں وہ لوگوںکو گھیر گھار کے سڑکوں پر بھی لے آتارہاہے۔(اورخواہ اس کا کوئی جواز ہویا نہیں )اس کےلئے وہ حکومتوں پر الیکشن میں دھاندلی کا الزام لگاتا ہے کیونکہ یہ حکومتیں امریکہ کو ایک آنکھ نہیں بھاتی ہیں ۔ یہ بات مکمل طورپر درست ہے۔ اس سے کسی حد تک وینز ویلا کے اندر کچھ لوگوںکے اس رد عمل کی وضاحت کرتی ہے ، جس میں شاویز بھی شامل ہے ، جو وینزویلا میں بولیویرین حکومت کے خلاف وہاں کی مڈل کلاس کی رجعتی تحریکescualidosاور ایران میں جاری عوامی مزاحمت کو ایک ہی رخ اور زاویے سے دیکھ رہے ہیں ۔ ایسی ہی مشابہت اور مماثلت بولیویا میں صدر ایواموریلز کے خلاف نیم فاشسٹ گروپوں کی طرف سے کی جانے والی بدمعاشی وبربریت کے ساتھ بھی سمجھی اور بتائی جا رہی ہے۔ تاہم اس قسم کی دلیل بازی میں ایک انتہائی فاش غلطی پنہاں ہے ۔ اور وہ یہ کہ وینزویلا میں شاویز اور بولیویا میں موریلز کی حکومتیں عوامی اور ترقی پسند حکومتیں ہیں ۔ اور جنہیں اپنے ملکوں کی انتہائی بدقماش اشرافیہ کی طرف سے شدید مزاحمت ومخالفت کا سامناہے۔ جو کئی صدیوں اور نسلوں سے ان ملکوں پر اپنی حکمرانی کر چکے ہیں اور اب وہ اقتدار سے محرومی کے بعدسرتوڑ کوششیں کررہے ہیں کہ دوبارہ سے وہی حکمرانی و اپس اپنے قبضہ قدرت میں کرلیں ۔ اور اس ضمن میں انہیں امریکی سامراج کی مکمل اور ہر ممکن امدادوآشیرباد بھی میسر ہے۔ یہ ٹھوس اور ناقابل تردید حقائق ہیں اور انہی کی وجہ سے ہم مارکس وادی ان عوامی حکومتوں کے خلاف ہر قسم کی سازش کی بھرپور مخالفت کرتے چلے آرہے ہیں ۔ اور یہ سازشیں جمہوریت کے کھوکھلے نعرے کے تحت بپا کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں ۔ سوال یہ ابھرتاہے کہ ایران میں جو صورتحال چل رہی ہے اس بارے کیا رویہ اور روش اختیار کی جائے ؟ایران کی حکومت کسی طور بھی نہ تو محنت کش طبقے کی حامی یا خیرخواہ حکومت نہیں ہے ،نہ ہی یہ کوئی ترقی پسند حکومت ہے۔ بلکہ یہ ایک رجعتی ملائیت کی حامل حکومت ہے ۔ جو اپنی ابتدا سے ہی محنت کشوں کو دباتی اور کچلتی آرہی ہے۔ جو کسی قسم کے ٹریڈیونین حقوق دینے اور ماننے کو تیار نہیں ہے۔ اس نے ٹریڈیونین کےلئے سرگرم کارکنوں کو گرفتار کیا ،انہیں اذیت کا نشانہ بنایاحتیٰ کہ ان کو زندگیوں سے بھی محروم کردیاگیا۔ وینزویلا میں اگر محنت کش کسی کارخانے یا ادارے پر قبضہ کرلیتے ہیں تو حکومت خوشی سے اور کھلے دل سے اسے نیشنلائز کرلیتی ہے اور مزدوروں کے مطالبات کو فوری طورپر تسلیم کرلیتی ہے ۔ اگر ایران میں محنت کش ایسا کچھ کریں تو حکومت ان کے ساتھ بربریت پر اترآئے گی اور ان کو پس زنداں ڈال دے گی اوران پر تشدد کرے گی۔ یہ حقائق ہیں اور حقائق ہمیشہ ایک ٹھوس چیز ہواکرتے ہیں ۔ اور ان سے یہ صاف عیاں ہوتا ہے کہ ایران میں قائم ملا شاہی کے تحت ترقی یا ترقی پسندی نام کی کوئی شے موجود نہیں ہے نہ ہو سکتی ہے۔ اور ایران میں ایسی کوئی ایک بھی بنیادی وجہ موجود نہیں ہے کہ جسے وینزویلا اور بولیویا کی صورتحال کے ساتھ مشابہ اور مماثل قراردیاجائے۔ ایران میں احمدی نژد کی کامیابی کو سراہتے ہوئے ہوگو شاویز نے انتہائی بھیانک غلطی کی ہے اور اس نے ایران کے عوام میں اپنے تاثر کو سخت مجروح کیا ہے۔ اور آخری تجزیے میں بولیرین انقلاب کے حقیقی ہمدرد صرف اور صرف عوام ہی ہیں ۔ ہم مارکس وادی دنیا کے ہر ملک میں عوام کی ہر اس تحریک کی حمایت کرتے ہیں ، کرتے آرہے ہیں اور کریں گے جو اپنے ملک میں ناانصافی اور استحصال کے خلاف شروع کرتے ہیں ۔ یہ پوزیشن وینزویلا اور بولیویا بارے بھی تھی اور اب ایران کے بارے بھی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انقلاب آخر ہوتاکےاہے؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اپنی معرکة الآرا تصنیف ”روس کے انقلاب کی تاریخ،، میں ٹراٹسکی نے ایک انقلاب کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے۔ ” ہر انقلاب کا مسلمہ عنصر،تاریخی واقعات میں عوام کی براہ راست مداخلت ہوتی ہے۔ عمومی حالات میں ریاست،خواہ وہ بادشاہت پر مبنی ہویا جمہوریت پر، اپنے آپ کو قوم سے بلند وبالارکھتی ہے۔ حالات و واقعات کی باگ ڈور ،بادشاہوں، وزیروں، افسروں، ارکان پارلیمنٹ،اور صحافیوںکے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ لیکن ان مخصوص حالات میں جب پرانا نظام عوام کےلئے ناقابل برداشت ہو جاتا ہے، تو وہ تمام حدودوقیود توڑکر سیاسی عمل میں شامل ہو جاتے ہیں، اور اپنے روایتی نمائندوںکو ایک طرف دھکیل دیتے ہیں اور اپنی مداخلت سے ایسے سازگارحالات تخلیق کرتے ہیں کہ جس سے حکومت بدل جائے۔ اب یہ عمل اچھا ہے یا برا، اس کا فیصلہ ہم ماہرین اخلاقیات پر چھوڑتے ہیں۔ ہم حقائق کو ان کے معروضی ارتقاکے حوالے سے دیکھیں اور پرکھیں گے۔ ہمارے لئے ہر ا نقلاب کی تاریخ ، سب سے پہلے عوام کی اپنی تقدیروںپر اپنی ہی حکمرانی قائم کرنے کےلئے زورآور مداخلت کی تاریخ ہے،،۔ کیایہ سب الفاظ اس ساری کیفیت پر منطبق نہیں ہوتے جو واقعات وحالات کی صورت میں ایران میں ہمیں اپنی آنکھوں کے سامنے کارفرما نظر آرہی ہے؟پچھلے ہفتوں کے اندر ہزاروں لاکھوں بہادر مردوزن تہران، اصفہان ، شیرازسمیت ایران کے کئی شہروں میں سڑکوں پر نکل آئے۔ بجا کہ یہ شاندار تحریک قیادت سے محروم ہے اور اس حوالے سے کنفیوژن کا شکار ہے۔ لیکن پھر ہر اےک انقلاب اپنی ابتدائی کےفےت مےں اےسے ہی تذبذب اور بے یقینی کا حامل ہواکرتا ہے۔ جب میں نے ایران پر اپنا دوسرا مضمون لکھاتھا تو اس کا عنوان ”ایران مےں انقلاب،، نہیں تھا بلکہ ”ایران میں انقلاب کا آغاز ہو چکا ہے،، تھا۔ جس میں نے واضح کیاتھا کہ انقلاب کسی طور بھی ایک سنگل ا یکٹ ڈرامہ نہیں ہواکرتا ۔ بلکہ یہ ایک پیچیدہ اور متنوع عمل کا ایک سلسلہ ہواکرتا ہے جو اپنے وقت میں طویل ہوتا ہے اور اپنی چال چلن میں کئی قسم کے نشیب وفراز سے گزرتا ہے۔ اپنے اس مضمون کے ا ندرمیں نے ایران میں جاری تحریک کا سپین کے انقلاب سے موازنہ کیاتھا جو کہ سات سالوں تک جاری رہاتھا۔ اس دوران اس میں بے شمار شاندار انقلابی ابھار سامنے آئے تھے۔ اور اسی دوران ہی اس تحریک میں شکستوں کی بھی کئی کہانیاں سامنے آئیں ۔ جبکہ اس دوران انیس سو چوتیس سے انیس چھتیس کے دو سال توانتہائی بھیانک رد انقلاب کے حامل تھے۔ ایران میں بھی پچھلے دوہفتوں میں ہم نے دیکھا ہے وہ انقلاب کے عمل کا ابتدائیہ ہے۔ یہ ایسے مناظر ہیں جنہیں دیکھنا پرکھنا اور سمجھنا انقلابات کی تاریخ کے ہر طالبعلم کےلئے اشد ضروری ہے۔ جب بھی کوئی انقلاب شروع ہوتا ہے تو ایسے میں محنت کش طبقہ غیر متحرک اور بے نیازہوتا ہے اور وہ عوام کے اندر خودکو گم کئے ہوئے ہوتا ہے۔ عوام اس کیفیت میں عام طورپر اپنے تعصبات سمیت داخل ہوتے ہیں ۔ ایسے میں ”جمہوریت بارے خوش فہمیاں ،، تحریک پر حاوی کی جاتی ہیں ۔ ایران کے انقلاب کے حوالے یہ ایک نتہائی ناگزیر مرحلہ ہے۔ جیسا کہ روس میں فروری میں ہواتھا۔ اسی طرح اپریل انیس سو اکتیس میں سپین میں ،یہاں تک کہ عظیم فرانسیسی انقلاب کے ابتدائی اٹھارہ مہینو ں میں یہی اور ایسا ہواتھا۔ جمہوریت کے حوالے سے پیداہونے والے اس پرجوش واہمے سے تحریک میں عوام الناس میں ایک ولولہ پیداہوتا ہے جس سے انہیں اپنی منزل سامنے دکھائی پڑتی ہے۔ ہر شے ممکن نظرآرہی ہوتی ہے اور سارا عمل سیدھا معلوم ہو رہاہوتا ہے۔ اور یوں فطری طورپر جمہوریت پسند قیادت کے بارے بہت سی توقعات اور خوش نظری پیداہوجایاکرتی ہے۔ اور یہی کیفیت میرے اس نوجوان ایرانی طالب علم کی تھی جس کی کل مجھ سے ملاقات ہوئی تھی۔ یہ ضروری ہے کہ تحریک آگے بڑھنے کےلئے مشکلات میں سے گزرے۔ اس دوران اسے شکستوں سے بھی پالاپڑ سکتا ہے ۔ اور ایک بہت بڑا سیاسی سبق سیکھنے کےلئے ماتم جسم وجاںکے کئی مرحلوں اور بہت ہی تلخ تر امتحانوں سے گزرناہوتاہے۔ تب کہیں جاکر اس قسم کے توہمات تعصبات اور توقعات کی آلائش سے تحریک خود کو الگ اور پاک کر سکے گی۔ ہر انقلاب کی عمومی خاصیت عوام الناس کی واقعات و معاملات میں براہ راست اور سرگرم شرکت ہوتی ہے اور وہ عرصے سے چلے آرہے تعطل اور جمود کو توڑکے رکھ دینے کے موڈ میں ہوتے ہیں۔ بلاشبہ اس تحریک کا کردار بھی متذبذب اور غیر مربوط ہے مگر پھر یہ انقلاب کا زندہ عمل ہی ہوتا ہے جس کے دوران عوام وہ کچھ سیکھتے ہیں کہ جو وہ کبھی نہیں سیکھے نہیں ہوتے ہیں۔ ابتدائی مرحلوں کے دوران طبقاتی امتیاز و شعور اتنا واضح اور نمایاں ہوتاہے۔ اس دوران بورژواجمہوری قیادت تحریک کے کاندھوں پر سوار ہو جاتی ہے۔ اس بات میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ تیس سالوں تک کی ملاﺅں کی آمریت کے بعد ایران کے عوام تبدیلی کےلئے تڑپ رہے ہیں ۔ اور تبدیلی کی یہ تڑپ ایرانی سماج کے مختلف طبقوں اور پرتوں کو اپنے حصار میں لئے ہوئے ہے۔ لیکن جوں جوں تحریک کی شدت اور حدت میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا توں توں تحریک میں طبقاتی کشمکش واضح ہوتی چلی جائے گا اور زیادہ مضطرب پرتیں اس لڑائی کو مزید متحرک کر نے کےلئے موجود رہیں گی۔ اور کمزور پرتیں ایک طرف ہوجائیں گی۔ ایران کی اصلاح پسند قیادت اپنی تمام تر دلیرانہ تقریروں کے باوجود بھرپور کوشش کر رہی ہے کہ کسی طرح پسپائی اختیار کی جائے۔ انہوں نے آج سوگ کےلئے نکالی جانی والی ریلیاں بھی منسوخ کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ موسوی رفسنجانی اور رضائی نے ایران کی نیشنل سیکو رٹی کمیٹی سے ملاقاتیں کی ہیں ۔ لیکن ہنوز اس بات کا کوئی اتا پتا نہیں ہے کہ ان ملاقاتوں میں کیا کہا سناگیا اور کیا کچھ طے پایاگیا؟ان رپورٹوں سے کیا بات سامنے آتی ہے صرف یہی کہ ایرانی حکمران اصلاح پسندوں کے ساتھ بات چیت کرکے معاملات کو سلجھانا چاہتے ہیں اور اس کوشش میں ہیں کہ ایک باہمی مگر مکروہ معاہدہ کرکے تحریک کو ختم کردیاجائے۔ جبکہ اس دوران ایران کے حکمران اپنے جبروتشدد کو بھی بڑھاتے چلے جارہے ہیں ۔ جبروتشدد احتجاج کے ابھار کی حدت نے بہت ہی اثرات مرتب کرنے شروع کر دئے ہیں ۔لاکھوں انسان اپنے پاﺅں پر کھڑے ہو چکے ہیں اور اس کیفیت نے حکمرانوں کے پاﺅں اکھاڑنے شروع کر دیے ہیں ۔ مگر اس تحریک سے ابھی تک ہروہ ایک مسئلہ بھی حل نہیں ہوسکا ہے جس کےلئے یہ چل رہی ہے۔ اور یوں یہ اپنی حدود کو پہنچنے والی ہے۔ ایک ملک گیر عام ہڑتال اور انیس سو اناسی کی طرح کی بھر پورسرکشی کی غیرموجودگی میں تحریک اپنے مرکزی ہدف کے ادراک اوراس کے حصول سے تاحال محروم ہے ۔ ریاست کی وحشیانہ طاقت سے برسرپیکا ر تحریک کے پاس نہ تو کوئی واضح منصوبہ بندی ہے نہ ہی کوئی حکمت عملی۔ اپوزیشن کے تازہ ترین طور طریقے انتہائی مایوس کن ہیں ۔ محض راتوں کو اللہ اکبر کے فلک شگاف نعرے لگانے اور سبز رنگ کے غبارے ہواﺅں میں چھوڑنے سے ملاﺅں اور حکمرانوں کو اتنا زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ ہاں البتہ حکمران زیادہ سے زیادہ وحشت و بربریت پر اتر آئے ہیں ۔ ہمیں ایران میں سے یہ تازہ ترین رپورٹ موصول ہوئی ہے۔ ©©”اس وقت یہاں گلیاں اور سڑکیں سنسان پڑی ہیں ہاں البتہ کچھ نوجوان باہر نکل آتے ہیں لیکن وہ بھی ایک غیر منظم انداز میں ۔ وہ انٹرنیٹ پر سے ”فیس بک،، یا اور ذرائع سے اطلاعات حاصل کر تے ہیں ۔ اور پھر سڑکوں پر آنکلتے ہیں ۔ پولیس انہیں دیکھتے ہی ان پر ٹوٹ پڑتی ہے ۔ پولیس بڑے اجتماعات کی نہ اجازت دے رہی ہے نہ ہی ہونے دے رہی ہے۔ کئی اصلاح پسند صحافیوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ یہ بتایا جارہاہے کہ دفاتر میں ان لوگوں کو بیدردی سے پکڑا جارہاہے جنہوں نے موسوی کو ووٹ دئے تھے ۔ موسوی کے کئی حامیوں کو تشدد اور گولیوں کا نشانہ بنایا گیا ہے،،۔ اسی طرح دیگر ذرائع سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق بھی اس کی تصدیق ہوئی ہے کہ ایرانی حکمران سخت جبروتشدد پر اترے ہوئے ہیں اور ان سے جو بن پڑرہاہے کر رہے ہیں ۔The Green Brief نے آج ہی رپورٹ جاری کی ہے ،۔ ”تہران کی سڑکوں پر آج بھی احتجاج کرنے والوںنے اپنا سلسلہ جاری رکھا۔ سیکورٹی فورسز کی جانب سے بڑے اجتماعات کو ممکن نہ ہونے دینے کی سخت گیر حکمت عملی آج بھی موثر اورکامیاب رہی ۔ ہم پہلے ہی یہ اطلاعات دے چکے ہیں کہ موٹر سائیکلوں کی ایک بہت بڑی تعداد تہران میں لائی گئی ہے جو کہ باسےج اور دیگر سیکورٹی اداروں کو فراہم کی گئی ہیں اور انہیں انتہائی مہارت اور چستی کے ساتھ برﺅے کار لایا جارہاہے ۔ موٹرسائیکل سوار ہر طرف گشت پر ہیں اور انہیں جو بھی ملتا ہے یا احتجاج کرتا نظر آتاہے اس کے ساتھ نپٹاجارہاہے۔ انہیں جس کسی پر بھی شک گزرتا ہے اسے دھر لیا جاتا ہے۔ اس ریاستی بدحواسی اور افراتفری میں وہ لوگ بھی تشدد کی زد میں آرہے ہیں جو کہ کسی طور احتجاج کا حصہ نہیں ہوتے ۔ اور اس قسم کا کھلے عام جبروتشدد ایران کی عوام کا روزمرہ زندگی کامقدر بن چکاہے،،۔ اس سے پہلے اسی ذریعے نے حسب ذیل رپورٹ دی ہے، ”تہران کا شہر عملی طورپر باسےج کے اہلکاروں اور پولیس کی مکمل گرفت میں دے دیا گیا ہے۔ ہر جگہ ہر طرف سڑکیں بند کر دی گئی ہیں جبکہ گلیوں میں سیکورٹی والے دندناتے پھر رہے ہیں ۔ کئی لوگوں نے بتایا ہے کہ گھروں سے نکلنا انتہائی خطرناک ہو چکاہے۔ کوئی بھی اگر ان سیکورٹی والوں کو نظر آجائے تو وہ بغیر کسی لگی لپٹی کے اس کی دھنائی شروع کردیتے ہیں ۔ اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس دوران جتنے بھی ہلاک ہوئے ہیں اور کئے گئے ہیں ، سیکورٹی والے ان سے ان کی لاشوں کی واپسی کےلئے تاوان طلب کر رہے ہیں اور وہ بھی ان لاشوں پر موجودگولیوں کے حساب سے فی گولی تین سے پانچ ہزار ڈالر طلب کئے جارہے ہیں ۔ اس ہدیے کے بغیر لاش کی واپسی ممکن بنا دی گئی ہے،،۔ پچھلے منگل ہمیں مندرجہ ذیل رپورٹیں موصول ہوئی تھیں۔ ”آج کا جو مظاہرہ ترتیت دیاگیا تھا ، وہ بہارستان سکوائر پر سہ پہر کو احتجاج کرنے کا تھا ۔ اگرچہ اس میں شریک ہونے والوں کی حقیقی تعداد کا اندازہ مشکل ہے مگر بتایا گیا ہے کہ لگ بھگ پانچ سے دس ہزارافراد اس مظاہرے میں شامل ہوئے ۔ سیکورٹی والے صبح سے ہی ان کے منتظر تھے اور جونہی یہ مظاہرین جمع ہوئے تو پولیس والے ان پر ٹوٹ پڑے اور انہیں سخت تشدد کا نشانہ بنایا۔ جس پر مظاہرین مکمل طورپر مجتمع ہونے سے پہلے ہی منتشرہونے پر مجبورکردیے گئے ۔ پولیس نے ہر طرف سے بہارستان چوک کو گھےرا ہواتھا اور جو بھی وہاں گزرتا پایاگیا اس پر حملہ کردیاگیا۔ یہ سلسلہ کم وبیش دوگھنٹے جاری رہا،،۔ ” طاقت کو بے دریغ استعمال کیا گیا اور اس دوران کتنی ہلاکتیں ہوئیں مجھے اس کے حوالے سے میڈیاسے مکمل معلومات فراہم نہیں ہو سکی ہیں۔ ہاں البتہ میں ذاتی طورپر تصدیق کرسکتاہوں کہ کم از کم تین افراد ہلاک ہوئے ہیں ۔ پولیس نے مظاہرین پر اندھادھند وحشیانہ لاٹھیاں برسائیں ۔ جس سے درجنوں افراد شدید زخمی ہوئے ۔ ایسا نہ صرف بہارستان میں ہوا بلکہ اس کے آس پاس کے علاقے کوبھی لوگوں کے خون سے تر کردیاگیا۔ گولیوں کی برسات کی گئی اور کم سے کم دو ہلاکتیں اس فائرنگ کے نتیجے میں ہوئیں ۔ علاوہ ازیں مظاہرین کو منتشر کرنے کےلئے آنسو گیس کا بھی بلادھڑک استعمال کیاگیا۔ ہمیں مظاہرین پر کلہاڑوں سے حملوں کی بھی اطلاعات ملی ہیں تاہم سردست ہم اس کی تصدیق نہیں کر سکتے۔ یہ انفرادی واقعات بھی ہو سکتے ہیں لیکن ان کے عام ہونے کی شہادت نہیں ملی ہے ۔ بہارستان کے علاوہ لالہ زار کے علاقے مےں بھی ہلاکتوں کی خبریں ملی ہیں ۔ لالہ زار تہران کا ایک معروف پارک ہے جسے پولیس نے ہرطرف سے گھیرا ہواہے۔ بلکہ اس پر قبضہ کیاہواہے اور اسے اپنے کیمپ میں تبدیل کیاہواہے۔ ان واقعات کی نہ تو تصاویر مل پارہی ہیں اور نہ ہی ان کی کوئی مصدقہ ویڈیو میسر آرہی ہے۔ پولیس اس علاقے سمیت سارے شہر میں لوگوں کے موبائل فون بھی چیک کرتی پھر رہی ہے۔ وہ لوگوں کے پیغا مات، تصاویر اور ویڈیوزتک کو مٹارہے ہیں اور دل چاہے تو موبائل فون ہی اپنے قبضے میں لے رہے ہیں ،،۔ ”علاقے کو پولیس اور سیکورٹی کی گاڑیوں کے ذریعے بھی سیل کردیاگیا ہے۔ زخمی ہوجانے والوں اور پکڑے جانے والے مظاہرین کو پولیس ان گاڑیوں میں ڈالتی جارہی ہے۔ اور پھر ان کو نامعلوم مقامات پر منتقل کیا جارہاہے۔ کہا جارہاہے کہ ایون کی جیل کو ان گرفتار شدگان کو محصور کرنے کےلئے استعمال کیا جارہاہے۔ مگر بہت سے گرفتار شدگان نے اطلاعات دی ہیں کہ انہیں تہران کے ارد گرد کہیں مقید رکھا گیا ہے اور یہی نہیں بلکہ ان کی قید کی جگہیں بھی تبدیل کی جارہی ہیں ۔ کچھ اور ذرائع نے بھی ایسی ہی خبریں فراہم کی ہیں مگران کی تصدیق نہیں کی جاسکی ہے۔ بہارستان کے علاقے میں واقع سبھی دکانیں بند کرادی گئی تھیں اور اس طرح مظاہرین کے پاس چھپنے کی بھی کوئی جگہ نہیں رہی۔ موبائل فون سروس بھی جام کر دی گئی چنانچہ کسی کوکسی کی خبر سدھ نہیں ہوسکی کہ کس پہ کیا گزری۔ یہی نہیں بلکہ کوئی کسی کی مدد کے بھی قابل نہیں رہا۔ یوں ان اقدامات سے سیکورٹی والوں کو مظاہرین پر کھلے جبروتشدد کا موقع مل گیا اور انہوں نے تشدداور گرفتاریوں کا اپنا فریضہ بخوبی سرانجام دیا،،۔ ”سیکورٹی فورسز کو ہیلی کاپٹروں کی بھی مکمل معاونت فراہم کی گئی ۔ جو سارے شہر پر فضائی گشت کرتے رہے ۔ اور جہاں کہیں بھی انہیں لوگ جمع نظر آئے اس کی فوری اطلاع نیچے پہنچائی گئی۔ پولیس والے پلک جھپکتے ہی وہاں پہنچتے اور جمع ہونے والوں کو منتشر کرتے رہے۔ تاہم لوگوں نے بھی صبر وتحمل کا مظاہرہ کیا اور وہ شہر بھر میں چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں جمع ہوتے رہے ۔ وہ منتشر ہوجاتے اور پھر اچانک کہیں اور جمع ہوجاتے رہے۔ یہ سلسلہ رات دیر گئے تک جاری رہا جب لوگ خود ہی گھروں کو چلے گئے۔ جو کچھ ہورہاہے اس سے لوگوں کے حوصلے پست نہیں بلکہ مزید تقویت پکڑرہے ہیں ۔ اور وہ اس موڈ میں ہیں کہ جو کچھ بھی ہوتا ہے اور ہونا ہے ، ہوتا رہے مگر وہ اس کی پرواہ کئے بغیر سڑکوں پر آتے رہیں گے اور احتجاج جاری رکھیں گے۔ سادہ لباس میں بھی سیکورٹی والوں نے اس عمل میں بھرپور حصہ لیا اور انہوں نے بھی موٹر سائیکلوں پرسوارہوکروردی والوں کے ساتھ لوگوں پر خوب ہاتھ گرم کئے ،،۔ ”ان واقعات کے علاوہ بھی ایران میں کچھ اور گرفتاریاں بھی عمل میں لائی گئی ہیں۔ کم از کم ستر پروفیسر وں اور دیگر ماہرین کو اس وقت گرفتار کرلیا گیا جب وہ موسوی سے ملاقات کرنے کے بعد باہر آرہے تھے ۔ ان رپورٹوں کی بھی تصدیق ہوئی ہے کہ موسوی کے چیف لیگل ایڈوائزر اردشیر امیر ارجمان کو بھی گرفتار کرلیا گیا ہے۔ اس بات کا کوئی پتہ نہیں چل رہاہے کہ موسوی کوبھی گرفتار کرلیاگیاہے یا وہ ابھی آزاد ہے۔ تاہم اس بات کے مضبوط اشارے مل رہے ہیں اور کچھ مصدقہ ذرائع یہ بتا رہے ہیں کہ موسوی کو گھر میں پابند کردیاگیا ہے،،۔ تہران سے یہ اطلاعات آئی ہیں کہ وہاں حکام نے یونیورسٹی پروفیسروں کی اسلامی سوسائٹی کے ستر ارکان کو گرفتار کرلیا ہے ۔ وہ بدھ کے روز اپوزیشن کے لیڈر سے ملاقات کر کے آئے تھے۔ تاہم بعد میں خبر آئی کہ انہیں رہاکردیاگیا۔ کئی عین شاہدین نے یہ خبر دی ہے کہ اسی دن ہی پولیس نے بہارستان چوک پراےرانی پارلیمنٹ کے نزدیک ایک ہزار کے قریب مظاہرین پر لاٹھیوں اور آنسو گیس کی بارش کر دی ۔ جبکہ پچھلے ہفتے جورپورٹیں آئی ہیں ان کے مطابق لوگوںکی جبروبربریت کی قوتوں کے ساتھ متشدد جھڑپیں ہوئی ہیں ۔ ان جھڑپوں میں کئی بار پولیس کو بھاگنا بھی پڑگیا ۔ حکومت نے اعتراف کیا ہے کہ ان جھڑپوں میں باسےج کے آٹھ اہلکاربھی عوام کے ساتھ تصادم کے دوران مارے گئے ہیں ۔ اگرچہ اس دعوے کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہوسکی۔ کئی اندرونی معتبر غیرجانبدار ذرائع نے بھی اس بات کی تصدیق کرنے سے انکار کردیا کہ مظاہرین میں سے کسی کے ہاتھوں باسےج کا کوئی اہلکار ہلاک ہواہو۔ تاہم ان کے بقول اگر ایسا ہواہے تو خوب ہواہے۔ ایران کے متحرک عوام اپنی فوج اور پولیس کے عام سپاہیوں کے ساتھ ہمدردانہ رویہ رکھتے ہیں اور رکھے ہوئے ہیں ۔ اس تحریک کے دوران جتنا بھی وحشی جبروتشدد ہواہے وہ زیادہ تر باسےج کے بدمعاشوں کی ہی کاروائی اور کارستانی لگتی ہے۔ یہ بھی اطلاعات مل رہی ہیں کہ باسےج کے اہلکار وں کو زیادہ کارکردگی اور وفاداری دکھانے کے عوض پر کشش اجرتیں دی جارہی ہیں ۔ ہمیں کوئی شبہ نہیں ہے کہ یہ رپورٹیں درست ہیں ۔ لیکن احتجاج کرنے والوں کی جرات اور ان کے حوصلوں کے سامنے نہ تو کوئی گولی نہ کوئی لاٹھی نہ کوئی آنسوگیس اور نہ ہی کوئی دوسرا ریاستی ہتھکنڈا ٹھہر سکا ہے نہ ٹھہرے گا۔ فوج اور پولیس کو اپنے حکمرانوں کے جبروتشدد سے انکار کرنے کےلئے ضروری ہے کہ ان کا مقابلہ نہ صرف احتجاج سے کیا جائے بلکہ ایک قومی سرکشی کی کال دی جائے۔ لیکن یہ کام محنت کش طبقے کی شعوری مداخلت اور معاونت کے بغیر ناممکن ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سے آگے اور کےا؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایرانی حکمران بظاہر سکون کا سانس لے رہے ہیں مگر سچ یہ ہے کہ وہ اندر سے کھوکھلے ہو رہے ہیں اور تڑخ رہے ہیں۔ ریاست کی طرف سے بدترین وحشت کا مطلب یہ ہے کہ کم لوگ باہر نکل پا رہے ہیں ۔ یہ ایک فطری امر ہے۔ عوام محض اپنے سر پھڑوانے کےلئے گلیوں سڑکوں پر نہیں نکلتے وہ بھی جب انہیں یہ احساس ہورہاہو کہ اس کا کوئی ٹھوس نتیجہ سامنے نہیں آپارہا۔ اگر تحریک زیادہ شدت نہیں بھی پکڑتی تو بھی غم وغصے اور احتجاج کے اظہار کے دےگر طورطریقے سامنے آسکتے ہیں ۔ اور اس بات کے بھی امکانات ہیں کہ تحریک پسپا ہوجائے مگر ایسا کچھ دیر کےلئے ہی ہوگا۔ ایران کے” اصلاح پسند،، محض ایک جعلی مصنوعی اور جزوقتی تبدیلی کےلئے کوشاں ہیں جس سے کچھ بھی تبدیل نہیں ہوگا۔ بورژوا لبرل ایک ایسی تبدیلی چاہتے ہیںکہ جس کی برکت سے وہ اقتدار کے سنگھاسن پر بہ نفس نفیس براجمان ہو جائیں اور پھر وہ بورژواجمہوریت کے بل بوتے پر اپنی مراعات یافتگی کا ہر ممکن تحفظ یقینی کر سکیں ۔ مگر اس تحریک میں شریک غریبوں، مزدوروں ، کسانوں اور روزگار کے متلاشی نوجوانوں کےلئے جمہوری حقوق کے نام پر لڑی جانے والی اس لڑائی کو بہرصورت روٹی روزگار اور رہائش کےلئے جدوجہدمیں بدلناہوگا۔ ایسا اکثر ہوتا چلا آرہاہے کہ بعض اوقات بورژوازی بھی وہی نتائج اخذکرتی ہے جو ہم مارکس وادی اپنے تناظر میں ترتیت دیاکرتے ہیں ۔ کچھ دن پہلے فنانشل ٹائمز نے ایران کی صورتحال پر مندرجہ ذیل لکھا ہے، ”ایران کے غریب کےلئے تبدیلی کا مقصد اور مفہوم خوراک اور روزگار کی ضمانت کا حصول ہے نہ کہ سہل پسندی اور تفرےح طبع کے مواقع۔ ایران کی سیارت اپنی نوعیت میں مذہبی سے کہیں زیادہ طبقاتی ہے،،۔(Financial Times Editorial, June 15 2009)جریدے کی یہ بات سوفیصد درست ہے۔ ہربات سے قطع نظر تحریک اپنی ہیت اور کیفیت میں انتہائی شاندار اور جاندار حیثیت کی حامل ہے اور تہران میں جاری وساری احتجاج کے ساتھ شیرازمیں یونیورسٹی کے طلباءکے احتجاج اورتبریز میں ہڑتالوں کی بھی خبریں آرہی ہیں ۔ تحریک کو آگے لے جانے اور تقویت فراہم کرنے کا واحد ذریعہ ایک عام ہڑتال ہے۔ یہ عام ہڑتال موجودہ واقعاتی کیفیت میں ملک بھر میں عمومی سرکشی کی کیفیت پیداکردے گی۔ موسوی عام ہڑتال کے حوالے سے کمزور اور متذبذب پوزیشنیں لے رہاہے۔ اس بارے نہ تو کچھ طے کیاگیا ہے نہ کیا جارہاہے کہ یہ کب ہوگا؟نہ ہی اس کےلئے تیاریاں نظر آرہی ہیں ۔ لوگ اس وقت صرف اس لئے اپنے اپنے کام کی جگہوں کو جارہے ہیں کیونکہ انہیں کسی نے بھی نہیں کہا کہ وہ اپنے اپنے گھروں میں ہی رہیں اور کام پر نہ جائیں ۔ کسی ایک نے بھی ہڑتال کی کال نہیں دی ہے۔ مگر کال نہ ہونے کے باوجود بھی ہڑتالوں کا سلسلہ پھوٹ سکتا ہے۔ ایک رپورٹ میں بتایاگیا ہے کہ ”موڈ انتہائی کشیدہ ہوچکاہے۔ اورہڑتالوں کےلئے لوگ اپناذہن تیار کئے ہوئے ہیں ۔ ہرطرف اس پر بحث مباحثے ہورہے ہیں ۔ ہر کوئی ہڑتالوں کے امکانات پر بات کررہاہے۔ لیکن تاحال کوئی بھی ہڑتال پر نہیں گیا ہے۔ بینک اپنا کاروبار جاری رکھے ہوئے اور بازاروں میں سبھی سٹور کھلے ہوئے تھے “۔یہاںہمیں قیادت کا کردار عیاںاور عریاں نظر آتاہے۔ گرین بریف کے الفاظ میں ”ایران کے شمال مغربی کرد حصے میں لاتعداد ہڑتالوں کی رپورٹیں موصول ہوئی ہیں ۔ کردستان صوبے میں سنادنج اور سیقیز نامی شہروں میں آدھی سے زیادہ دکانیں بند ہیں ،، ۔ ایرانی محنت کشوں کی ےکجہتی کےلئے قائم نیٹ ورک نے رپورٹ کی ہے کہ سنادنج کمیو نیکشن آفس کی فردوسی برانچ کے سروس لائن یونٹ کے ورکروں نے بائیس جون کوہڑتال کی ۔ اس دوران ورکر یہ سن کر حیران رہ گئے کہ اس جرم کی پاداش میں ان کو ملازمتوں سے برطرف کیا جارہا ہے۔ اور ان کی جگہ ان سے کم اجرت کے حامل نئے لوگ بھرتی کئے جارہے ہیں ۔ اس قسم کی رپورٹوں سے معلوم ہوتاہے کہ ایران کا محنت کش طبقہ جدوجہدکے میدان میں اترنے والا ہے۔ جس میں وہ اپنے طبقاتی مطالبات کو سامنے لائے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہڑتالوں کو منظم اور عام کیا جائے ۔ اور انہیں ایک عام ملک گیر ہڑتال سے منسلک کردیاجائے ۔ جسے عوام الناس کی تحریک کی مکمل تائیدوتعاون حاصل ہو۔ ایران میں ساتھیوں نے کامریڈ مزائر رازی کے دستخطوں سے ایک انتہائی جاندار اور برمحل لیفلیٹ نکالا ہے۔ جس میں حالات کی مناسبت سے کئی ایک اہم مطالبات سامنے لائے گئے ہیں ۔ ”یہ ضروری ہوچکاہے کہ لوگوں کو باہم جوڑنے اور متحرک کرنے کےلئے ہڑتالی کمیٹیاں قائم کی جائیں ۔ ایک دوسرے سے ربط استوار کرتے ہوئے یہ کمیٹیاں فیکٹر یوں کے اندر ہڑتالوں کے دن اور اوقات طے کرسکتی ہیں ۔ اس طرح بیک وقت سارے ایران کے اندر سبھی کام کی جگہوںپر ہڑتال ممکن ہو جائے گی۔ مزدور ساتھیو۔ آپ کے پاس بہت ہی وسیع تجربات ہیں اور آپ کو ان تجربات سے لازماًاستفادہ کرنا چاہئے ۔ کچھ سال پہلے اصفہان میں باریش فیکٹری اور کشمیر فیکٹر ی کے تجربات آ پ کے سامنے ہیں ۔ اور پھر پچھلے سال ہی ہفت تاپہ فیکٹری ، کردستان ٹیکسٹائل اور خودرو فیکٹری کا تجربہ بھی موجود ہے۔ اور ایسی ہی بے شمار مثالیں اور تجربات آپ کے سامنے موجود ہیں جن سے ہم بھرپور فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ مزدور ساتھیو۔ ہڑتال کا حق آپ کا بنیادی حق ہے جسے کوئی بھی آپ سے نہیں چھین سکتا۔ اس حق کو آپ اس وقت تک برﺅے کار لاسکتے ہیں جب تک کہ آپ کے سبھی جائزمطالبات تسلیم نہیں کر لئے جاتے ہیں۔ ان میں ٹریڈ یونینز مطالبات بھی شامل ہیں جیسا کہ پچھلی اجرتوں کی ادائیگی اور پنشن وغیرہ۔ اسی طرح سے جمہوری مطالبات بھی جیسا کہ سبھی سیاسی قیویوں کی فی الفور رہائی۔ اظہار ، اجتماع،خبراور ہڑتال کی آزادی سمیت اپنی آزادانہ ٹریڈ یونین کے قیام کا حق وغیرہ۔ پھر ان مطالبات کو عبوری مطالبات کے ساتھ جوڑا اور منسلک کیاجاسکتاہے۔ جیسا کہ ورکرزکنٹرول اور افراط زر کے ساتھ اجرتوں کا تعین وغیرہ۔ افر حکوم ان مطالبات کو خاطر میں نہیں لاتی تو آپ فیکٹریوں پر قبضے کرکے انہیں براہ راست مزدوروں کے کنٹرول میں لاسکتے ہیں اور مفت خورے منیجر وں کو نکال باہر کر سکتے ہیں ۔ پیداوار پر کنٹرول اور اس کی تقسیم کو خود مزدوروں کی باہمی و اجتماعی منشاو منصوبے سے ممکن بنایاجاسکتا ہے۔ ایران کے سابق بادشاہ کی مطلق العنایت کے خلاف مزدوروں کا پچھلا شاندار تاریخی تجربہ یہ ثابت کرتا ہے کہ صرف چندہفتوں کے اندر اندر ہی ورکرز کونسلیں قائم کی جاسکتی ہیں جو کہ ورکرز کنٹرول کو ممکن بنائیں گی۔ موجودہ حالات میں جبکہ سرمایہ داروں کی حکومت انتشار اور عدم استحکام کی زد میں آئی ہوئی ہے۔ اور جبکہ عوام کا جم غفیر احتجاج کےلئے سڑکوں پر آیاہواہے، ایسے میں ایران کے محترم محنت کش اپنے مطالبات کے ہمراہ میدان میں اتر سکتے ہیں اور ان کو حاصل کر سکتے ہیں ۔ مزدور ساتھیو۔ آپ کا یہ قدم حکمرانوں کے خلاف سرگرم اور برسرپیکا ر پر جوش نوجوانوں کےلئے کئی نئے رستے اور حوصلے فراہم کر دے گا۔ ایک مزدور قیادت کی موجودگی میں ایران کی نوجوان نسل فوری طورپر اصلاح پسند قیادت سے اپنی جان چھڑالے گی اور تیز ی سے زیادہ ریڈیکل مطالبات کی طرف راغب ہوتی چلی جائے گی ۔ محترم مزدور ساتھیو۔ صرف آپ کا اور صرف آپ کا عمل ہی ا س تحریک کو ایک نئے اور حقیقی مستقبل سے روشناس کراسکتاہے۔ ایک عام ہڑتال کو منظم کرنے کےلئے آپ کی سرگرم شمولیت ومداخلت ، جس میں آپ اپنے سبھی مطالبات اور حقوق کو سامنے رکھتے اور لاتے ہوئے کروڑوں دوسرے ایرانیوں کے جمہوری حقوق کی جدوجہد کو سامنے لے آسکیں گے اور آج کی ایران کی کیفیت آپ سے اس عمل کا مطالبہ کررہی ہے،،۔ یہاں ہم پروگرام کےلئے درکار بنیادی عناصرکو دیکھ سکتے ہیں کہ اگر ایران کے محنت کش اس کو اپناتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں تو یہ کامیابی کےلئے درکار حتمی فارمولامرتب کردے گا۔ حرف آخر یہ کہ یا توایران کا انقلاب مزدوروں کسانوں کے انقلاب کے طورپر ابھر کر سامنے آئے گا ورنہ یہ اور کسی بھی شکل میں کامیاب نہیں ہوسکے گا۔