ایران: انقلاب رکا ہے - مرا نہیں

Urdu translation of Iran: Lull in the Green Movement - strike action is required! (September 24, 2010)

تحریر: رضا زادے

چنگاری ڈاٹ کام،29.09.2010

دوہزار نو سے اب تک بے شمار مواقعوں پر تہران اور ملک کے دیگر شہروں کی سڑکوں پر ہزاروں افراد پر مشتمل کئی مظاہروں میں ایرانی عوام نے اپنی طاقت کا اظہار کیا ہے۔ابھی تک تحریک کا مقام عروج دسمبر 2009 ء میںیومِ آشورہ تھا جب دو روزہ احتجاج میں لاکھوں افراد نے پولیس سٹیشنوں اور دارالحکومت کے مرکزی علاقوں پر قبضہ کر کے ریاستی طاقت کو کھلے عام چیلنج کیا تھا۔تب ایسا لگ رہا تھا کہ ایرانی حکومت کا خاتمہ ہونے والا ہے۔

لیکن انقلابی حکمت عملی سے لیس قیادت کی عدم موجودگی کی وجہ سے تحریک دب گئی ہے۔کئی ماہ تک ہزاروں افراد جان پہ کھیل کر سڑکوں پر متحرک رہے۔لیکن جب انہیں احساس ہوا کہ ان کی کاروائیاں جن کی قیمت خون سے چکانی پڑتی ہے بے سود ہیں تو انہوں نے ان کاروائیوں کو جاری رکھنا بے سود سمجھا۔ نتیجتاً ایران کے انقلاب میں ابھی ایک ظاہری اور عارضی ٹھہر اؤ ہے۔ تاہم یہ ظاہری اور عارضی ٹھہر اؤ مزدوروں اور نوجوانوں کو موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ ایسی راہیں تلاش کریں جس سے مزدور تحریک کو سبز تحریک سے جوڑا جا سکے۔ ہمیں ایسے سٹڈی گروپ بنانے چاہیءں جن میں مزدور اور نوجوان مارکسزم کے نظریات سیکھ سکیں۔ اس کے ساتھ ہمیں اس وقت محنت کشوں کی کمیٹیوں کا ایک نیٹ ورک بنانا چاہیے جو ایک عام ہڑتال کو منظم کر سکے۔ تہران میں بازاریوں کی ہڑتال ایسی کاروائیوں سے ریاست منہدم ہو سکتی ہے،اس بات کا اظہار جولائی میں ہونے والی تہران کے بازار کی ہڑتال سے ہوتا ہے۔ سیلز ٹیکس میں 70 فیصد اضافے کے حکومتی ا علان کے خلاف بازاریوں نے دو ہفتے کے لیے اپنی دکانیں بند کر دیں۔جلد ہی یہ ہڑتال ہمدان، تبریز اور اصفہان کے بازاروں تک پھیل گئی۔ تہران کے بازارایران کی پرچون منڈی کا ایک تہائی ہیں اور اس لیے ریاست کے پاس بازاریوں کے مطالبات مانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ اہم بات یہ ہے کہ جب ریاست نے ٹیکس میں اضافہ 15 فیصدکرنے کا اعلان کیا تو ہڑتال تب بھی جاری رہی۔ یہ حقیقت کہ یہ 1979ء کے انقلاب کے بعد بازاریوں کی پہلی ہڑتال کے صرف دو سال بعد ہوا اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ حکومت کی کمزوری کا ادراک تیزی سے پھیل رہا ہے اور حکومت میں مزید معاشی انتشار برداشت کرنے کی سکت نہیں ہے۔ تہران کا بازار ہمیشہ سے سیاسی اور سماجی قدامت پسندی کا گڑھ رہا ہے اور 1979ء کے انقلاب میں اس کا اہم کردار تھا، اس لیے حالیہ واقعات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ہم بازاریوں سے انقلاب کی قیادت کرنے کی امید نہیں کر سکتے۔ حکومت اب بھی سینئر بازاریوں کی حمایت حاصل کر سکتی ہے۔جو بھی ہو بازاری چھوٹے دکان دار ہیں اور ایرانی پیٹی بورژوازی کے ایک حصے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ایران کے انقلاب کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ اس کی بنیاد محنت کشوں اور نوجوانوں کی تحریک پرہو۔ لیکن انقلاب کے لیے درمیانے طبقے کی فیصلہ کن پرت کی حمایت حاصل کرنا بھی لازمی ہے اور بازاری ایک بڑی تحریک میں عمل انگیز کی حیثیت سے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اس سب کے باوجود حالیہ ہڑتال کی اہمیت بازاریوں کی صلاحیتوں کے اظہار سے زیادہ حکومت کی کمزوری کو بے نقاب کرنے کے حوالے سے ہے۔ اقتدار کی کشمکش گزشتہ برس کے انتخابی فراڈ کے بعد سے ’رہبرمعظم‘ خامنہ آئی اورصدر احمدی نژاد کے درمیان ایک واضح کشیدگی سامنے آئی ہے۔ اس کا اظہار متعدد مواقع پرہوا ہے جب ایک نے دوسرے کی مرضی کے برخلاف فیصلے کیے۔ مثلاً پچھلے سال خامنہ آئی نے صدر کی جانب سے اسفند یار مشائی کی بطور نائب صدر تقرری کو ویٹو کر دیا جس کا جواب احمدی نژاد نے سرکشی سے بھرپور ایک خط کی صورت میں دیا۔اسی طرح احمدی نژاد نے انٹیلی جنس کے سخت گیر وزیر اجائی کو برطرف کر دیا جو صدر کی اجازت کے بغیر خامنہ آئی کو خبریں دے رہا تھا۔ ایسے بے شمار دوسرے واقعات میں حکومت میں شامل سخت گیر ملاؤں ، صدر اور پاسداران انقلاب کے درمیا ن اختلافات سامنے آئے ہیں۔ لیکن شاید ان اختلافات کا سب سے واضح اظہار گزشتہ ہفتے کے واقعات میں سامنے آیا ہے۔

جیسے جب احمدی نژاد اور اسکی کابینہ نے خامنہ آئی کے ساتھ ملاقات میں حکومتی ’کارناموں‘ کی فہرست پیش کی جس پر خامنہ آئی نے سختی سے سرزنش کی، اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ گزشتہ ہفتے ہی احمدی نژاد نے سفارتکاری پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے خامنہ آئی اور وزارت خارجہ کو اعتماد میں لیے بغیر دنیا کے چار مختلف خطوں کے لیے اپنی کابینہ میں سے چار ’’خصوصی نمائندے‘‘مقرر کیے ۔ جس کے جواب میں 120 سخت گیر حکومتی ارکان نے صدر کو مذمتی خط لکھاجس میں اس اقدام کو غیر آئینی اور صدر کو اسلامی حکومت کے خلاف قرار دیا گیا اور اس فیصلے کی واپسی کا مطالبہ کیا گیا۔ اور یہ کہ فلسطینیوں سے یکجہتی کے لیے یوم قدس پر احمدی نژاد اپنی تقریر کے بعد فوراً ہی تہران یونیورسٹی سے چلا گیا اور سخت گیر ملا احمد خاتمی کی امامت میں نماز جمعہ کے لیے نہیں رکا اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ ملا اشرافیہ کے خلاف ہے۔ اقتدار کی یہ کشمکش سبز تحریک کے لیے فائدہ مند ہے کیونکہ حکمرانوں میں اتحاد کا فقدان اور دونوں دھڑوں کی عوامی حمایت حاصل کرنے کی جستجو سے رد انقلابی جبر کم ہو گا۔ یہ صورتحال انقلاب کی بڑھوتری کے لیے درکار ڈھانچوں کی تعمیر کے لیے انتہائی سازگار ہے۔ معیشت اس کے علاوہ ملک کی موجودہ معاشی کیفیت ہڑتالی کاروائیوں کے لیے بہت موافق ہے۔ ایرانی معیشت عالمی معاشی زوال سے قبل ہی بحران زدہ کیفیت میں تھی۔GDP کی سالانہ شرح نمو اتنی کم ہے کہ افرادی قوت میں ہر سال ہونے والے اضافے کو کھپایا نہیں جا سکتا۔ افراط زر کی شرح 30% ہے۔گزشتہ پانچ برس میں درآمدات میں اضافے کی وجہ سے پورے ملک میں کارخانے بند اور دیوالیہ ہو رہے ہیں جس سے حکومتی اعداد و شمار کے مطابق بیروزگاری کی شرح 15% تک پہنچ گئی ہے۔ حکومتی سبسڈی کے خاتمے کا فیصلہ جلتی پر تیل کی مانند ہے۔ ان سب عوامل کی وجہ سے صنعتی اداروں میں تحریک کے لیے حالات تیار ہیں۔ اس وقت بڑے پیمانے کی ہڑتال حکومت کو تباہ کر سکتی ہے۔ خاص طور پر اس لیے کہ معیشت کا 50فیصدسے80 فیصد تک ریاستی ملکیت میں ہے اور کوئی بھی کاروائی انفرادی مالکان کی بجائے ریاست کے خلاف ہو گی۔ 1978ء کے آخر میں ہونے والی عام ہڑتال نے شاہ کی حکومت کے خاتمے میں فیصلہ کن کردارادا کیا تھا، اوراب بھی ایسا ہی ہو گا ۔ تیل کی صنعت

حکومت کوتہران کے بازاریوں کے مطالبات کے آگے جھکنا پڑا لیکن معیشت میں بازاروں کا حصہ تیل کی صنعت کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔ تیل اور گیس کی صنعت ایرانی معیشت کا 60 فیصد ہے۔ 1978ء میں تیل کی صنعت کی ہڑتال شاہ کی حکومت پر سب سے بڑا وار تھی جس سے یومیہ 5 کروڑ ڈالر کا نقصان ہوا تھا۔ اگرچہ ہمیں ایک عام ہڑتال کے لیے کام کرنا چاہیے، نیشنل ایرانی آئل کمپنی(NIOC) کے اندر قوتوں کی تعمیر ہماری پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔ حکومت کو NIOC کی اہمیت کا اندازہ ہے اور اس لیے تیل کی تمام تنصیبات پر سخت سکیورٹی ہے۔لیکن تیل کی صنعت میں ہڑتال نا ممکن نہیں ‘جیسا کہ اکتوبر2000ء کے واقعات نے ثابت کیاتھا۔جب NIOC کی ماتحت کمپنی نیشنل ایرانی ڈرلنگ کمپنی(NIDC)کی نجکاری کے خلاف مزدوروں نے ہڑتال کی تھی۔ تیل کی صنعت پر حکومتی انحصار کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کچھ ہی ماہ بعد ریاست نے نجکاری کے منصوبے کو روک دیا اور NIOC کے ماتحت بیس دیگر کمپنیوں کی نجکاری کے منصوبوں کے متعلق انکوائری شروع کر دی گئی۔تیل کی صنعت میں ماضی میں تحریکیں رہی ہیں اور آنے والے دنوں میں یہ ایک بار پھر ضرور ہو گا۔ نتیجہ

ابھی وقت آ چکا ہے کہ کام کی جگہوں پر انقلابی شعور کی تعمیر کی جائے جو کہ اب تک سبز تحریک نہیں کر سکی۔ہمیں لازمی طور پر پورے ملک میں ہڑتالی کمیٹیوں کے قیام کے لیے کام کرنا ہو گا، تا کہ ایک عام ہڑتال کو منظم کیا جا سکے۔ واحد بس ڈرائیوروں اور ، ہفت تاپہ گنے کے مزدوروں جیسی ٹریڈ یونینیں اور (Cooperation Council of Labour Organisations and Activists) میں لیبر کمیٹیاں پہلے سے موجود ہیں۔ لیکن ہمیں 1979ء کی غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہیے جب شوریٰ کسی بڑے نیٹ ورک میں جڑی ہوئی نہیں تھیں اور صرف اپنے اداروں تک ہی محدود رہیں۔جس کے نتیجے میں مزدور صرف عارضی طور پر اپنے کارخانوں پر قبضہ رکھ سکے اور ریاست پر کنٹرول نہ کر سکے۔ مزدور کمیٹیوں کے نیٹ ورک کی اشد ضرورت ہے تا کہ ایرانی انقلاب ایک صحت مند مزدور ریاست کو جنم دے سکے اور 1979ء کی طرح رد انقلابی قیادت اس پر قبضہ نہ کر سکے جب محنت کش طبقے کی ایک عوامی تحریک کے نتیجے میں شاہ کی حکومت کے گر نے کے بعد ملاؤں نے طاقت پرقبضہ کر لیا۔ ایسا تب ہی ممکن ہوا جب تودہ (کمیونسٹ) پارٹی نے جان بوجھ کر قیادت فراہم نہ کی اور طاقت کا ایک خلا پیدا ہو گیا۔ اس سے موجودہ تحریک میں ایک انقلابی قیادت کی ضرورت اور بھی واضح ہو جاتی ہے۔ ایران کے انقلاب میں ایک عارضی ٹھہراؤ نظرآ رہا ہے۔ لیکن یہ سب انقلاب کا حصہ ہے۔ انقلابات ایک سین کا ڈرامہ نہیں ہوتے۔ ہر انقلابی تحریک میں عروج و زوال کے ادوار آتے ہیں۔ اور اس وقت جب عوام سڑکوں پر نہیں اور ظاہری طور پر سکون ہیں، سبز تحریک اور مزدور تحریک کو باہم ملانے کے راستے تراشنا زیادہ آسان ہے۔ ایسا ہو جانا حکومت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو گا۔

Source: Chingaree