ایران ریاست کا بحران ۔ حکمرانوں کے بڑھتے تضادات

Urdu translation of Iran: crisis at the top of the regime – workers start to move (May 24, 2011).

حمید علی زادے ۔ ترجمہ:اسدپتافی

چنگاری ڈاٹ کام،03.2011

گزشتہ کچھ ہفتوں کے دوران ایران کے صدراحمدی نژاد اور سپریم لیڈر خامنائی کے مابین اختلافات اتنے شدید ہو گئے ہیں کہ اب یہ کھلے عام ہو چکے ہیں ۔ان دونوں کے مابین جھگڑے کی ابتدا 17اپریل کو تب ہوئی کہ جب احمدی نژاد نے انٹیلی جنس کے وزیر حیدر مصلحی کو فارغ کردیا(سرکاری طور پر مصلحی نے استعفی دیا تھا)لیکن پھر اسی دن ہی اسے خامنائی کے براہ راست جاری کئے گئے حکم پر بحال کر دیا گیا ۔اس بحالی نے تنازعے کو بھڑکا دیا اور پہلے تو احمدی نژاد نے ایک خط کے ذریعے اپنا غصہ نکالا اور پھر اسے سرعام بھی خوب لتاڑا۔اس کے بعد احمدی نژادنے مسلسل گیارہ دنوں تک کابینہ کی میٹنگوں کا بائیکاٹ کئے رکھا ،یہی نہیں بلکہ کئی دیگر سرکاری مصروفیات سے بھی الگ تھلگ رہا۔اس کے بعد تو یہ لڑائی ذرائع ابلاغ میں کھلتی چلی گئی اور ہر دوفریقین کے حامی ایک دوسرے کے خلاف شروع ہوگئے ۔ان میں سے ایک دھڑا صدر کا حامی بنا رہا۔ان میں سب سے نمایاں ایران کی سرکاری خبررساں ایجنسی IRNAتھی ۔اس نے کوشش کی کہ اس بات کو ہی سرے سے ہی مستردکردیاجائے کہ ایران کے ان لیڈروں کے مابین کوئی کشمکش یا تنازعہ ہے ۔جبکہ دوسری طرف خامنائی کے حامی جرائد جن میں ’’کیہان‘‘نمایاں ہے ،جو کہ قدامت پرستوں کا سب سے موثر جریدہ ہے اور جو کہ روحانی لیڈر کے دفتر کی براہ راست نگرانی میں شائع ہوتاہے ۔اس نے تو صدر احمدی کے خلاف الزامات کی بوچھاڑ ہی شرو ع کر دی ۔سبھی اخبارات ایک دوسرے کے خلاف بدعنوانی ،فراڈ اورجھوٹے معاہدوں کے الزامات لگاتے رہے ۔اسی دوران کئی ویب سائٹیں بھی بلاک کردیں گئی ان میں احمدی نژاد کی حمایت کرنے و الی بھی شامل تھیں ۔

لیکن یہ سارا جھگڑا صرف اخبارات کی حد تک ہی محدود نہیں تھا ۔احمدی کے قریبی ساتھیوں کو جن میں اسفندیار مشائر بھی شامل ہے ،کو گرفتار کرلیاگیا۔اسی دوران ہی 290ارکان کی پارلیمنٹ میں سے 216ارکان نے ایک قرارداد بھی منظور کی جس میں صدر کے محاسبے اور مواخذے کا مطالبہ کیاگیا۔

اگرچہ اس قسم کی قراردادوں کا یہ مطلب بھی نہیں ہواکرتا کہ واقعی محاسبہ بھی کیا جائے گا لیکن ان سے یہ ضرور سامنے آتاہے کہ معاملات اور تنازعات کس حد کو پہنچ چکے ہوئے ہیں ۔

ان سے الگ اور علاوہ بھی حقیقی خطرات سامنے آئے ہیں ۔انقلابی گارڈز کے کمانڈر میجر جنرل محمد علی جعفری نے کہا ہے کہ’’بوکھلائی ہوئی ٹیم انقلاب کے خلاف اٹھ کھڑی ہوگی‘‘بوکھلائی ہوئی ٹیم کے الفاظ صدر کے حامیوں کی طرف سے اسفندیار جیسے لوگوں بارے استعمال کئے جارہے ہیں ۔جنرل جعفری نے کہا کہ’’ اس قسم کے لوگوں کو ہر حال میں شکست ہوگی۔البتہ یہ ابھی واضح نہیں ہورہاہے کہ یہ سب کیسے ہوگا ‘‘؟

دوسری طرف احمدی نژاد کے حامی بھی چپ نہیں بیٹھے اور ’’دولت یار‘‘نامی جریدے میں ایک نامعلوم مصنف کی جانب سے صدر کے مخالفین پر سخت لعنت ملامت اور تنبیہ کی گئی ۔مضمون کا ایک حصہ صدر کے مخالفوں کو تین دھڑوں میں تقسیم کرتاہے۔ پہلے نمبر پر صدر کے وہ مخالفین کہ جو صدر سے مراعات ومفادات مانگتے چلے آرہے تھے لیکن صدر نے انکار کردیا اور وہ صدر کے خلاف ہو گئے ۔دوسرے نمبرپر وہ مخالفین ہیں جو یہ سمجھ رہے ہیں کہ ایران ایک مشکل معاشی کیفیت میں داخل ہونے والا ہے چنانچہ بہتر ہے کہ صدر سے کنارہ کشی کر لی جائے اور تیسرے نمبر پر ایسے لوگ ہیں کہ جو صدر کی حکومت کو مفلوج کر دینے پر تلے ہوئے ہیں ۔

مضمون میں انتباہ کیا گیا ہے کہ صدر کسی کے ساتھ کوئی بھی رعایت برتنے کیلئے تیار نہیں اور قوم کو بہت جلد ہی کچھ سخت گیر حالات کا سامنا کرنا پڑ ے گا ، جس کے بعد گرین موومنٹ کے ساتھ جو کچھ ہوا ،وہ بچوں کا کھیل نظر آئے گا۔اس مضمون کے تین حصے تھے جس کے دوسرے حصے میں صدر کے مخالفین کو نیست ونابودکر دینے کا کہا گیا جبکہ تیسرے حصے میں یہ سوال اٹھایا گیا کہ کیا احمدی نژاد اپنے مخالفین کو نیست و نابود کر سکے گا ؟اس سوال کا جواب آنے والا وقت ہی دے گا اور ایران کے لوگ اس سوال کے جواب کے منتظر ہیں ۔

اگرچہ اس وقت ایران کے اندر ان سبھی میڈیا رپورٹوں کی سچائی بارے چہ میگوئیاں بھی جاری ہیں۔سہام نیوز نامی ایک ویب سائٹ جو مہدی کروبی اور اس کی نیشنل ٹرسٹ پارٹی کی نمائندگی کرتی ہے ، ایرانی ریاست کے اندرونی معاملات کی ایک دلچسپ کیفیت سامنے لائی ہے۔ویب سائٹ نے سالانہ کتاب میلہ ہال میں احمدی نژاد اور خامنائی کے حامیوں کے مابین جھگڑے کا واقعہ بیان کیا ہے ۔اس جھگڑے کے دوران بیلٹوں سمیت کئی اشیا کا آزادانہ استعمال کیا گیا ۔کئی افراد اس میں زخمی ہوئے ۔رپورٹ کے مطابق اس جھگڑے کے دوران ایک دوسرے کے خلاف بدترین گالیاں ایک دوسرے کو سنوائی گئیں۔اس دوران جب ایک رپورٹر نے موقع پر موجود پولیس افسر کو کہا کہ تم نے دونوں کو ایک دوسرے سے لڑوا دیاہے تو اس نے جواب دیاکہ ہمارااور کام ہی کیا ہے !

تضاد سے تنازعے تک

یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ معاملہ صرف وزیر کی برطرفی و بحالی تک محدود نہیں رہا ۔تضادات کی ابتداء2009ء کے الیکشن سے ہی ہو چکی تھی لیکن یہ نیچے دبے چلے آرہے تھے ۔جونہی یہ تضادات پختہ ہوئے یہ کھل کر سامنے آگئے ۔الیکشن ہونے کے چندہی مہینوں بعد کہ جب حکومت سڑکوں پر احتجاج کرنے والے لوگوں سے نمٹنے میں مصروف تھی ،تبھی ان دونوں حکمرانوں کے درمیان اختلافات سامنے آگئے تھے کہ جب خامنائی نے احمدی کی طرف سے اسفند یارکو نائب صدر مقررکئے جانے کو مسترد کر دیاتھا ۔ایران میں آٹھ نائب صدور ہواکرتے ہیں۔اسفندیار مشائی جس کی بیٹی احمدی نژاد کے بیٹے سے بیاہی ہوئی ہے ، شروع دن سے ہی تضادات و تنازعات کا مرکز ومحور بنا آرہاہے ۔

جنرل جعفری نے کچھ ہفتے پہلے یہ بیان دیاہے کہ ایک مقبول ،قبول اور محبوب لیڈر کے پیچھے ساری حرکات وسکنات کے پیچھے ایک ہی شخص (مشائی)ہے اور ان لوگوں کی ساری حرکتیںآگے چل کر (اسلامی )انقلاب کے خلاف ہی منتج ہوں گی ۔مشائی کے خلاف احمدی نژاد کے مخالفین کی جانب سے مسلسل حملوں کی وجہ یہ نہیں کہ وہ اس کا قریبی عزیز یا اتحادی ہے۔ ایسا اس لئے ہے کہ وہ اپنے مخالفین کیلئے بہت ہی مشکل ٹارگٹ ہے ۔پہلے تو سبھی قدامت پرستوں نے الیکشن میں اپنا سارا زور ہی احمدی نژاد کے پلڑے میں ڈال دیا ،جس کی وجہ سے اب انہیں اس کے خلاف کچھ کرتے ہوئے دقت پیش آرہی ہے۔احمدی کو آبادی کے حصے کی تائید وحمایت بھی حاصل ہے اگرچہ یہ کمزور بھی ہے اورکم بھی۔

احمدی نژاد 2005ء میں اس وقت ایرانی قدامت پسندوں کی مجبوری اور ضرورت بن گیا کہ جب مختلف قدامت پرست حکمران دھڑوں نے آپس میں سمجھوتہ کرلیا اور اسے اپنا صدارتی امیدوار نامزدکیا۔لیکن اس کے بعد اس نے کچھ پاپولسٹ اقدامات کنے شروع کردیے اور اپنی جگہ بنانے میں لگ گیا۔اس کے بعد اس کی طرف سے ریاست اور بجٹ کے معاملات میں زیادہ سے زیادہ اتھارٹی کا مطالبہ زور پکڑتا گیا۔ 2009ء کے موسم گرما میں خامنائی نے احمدی کی کوششوں میں روڑے اٹکانے شروع کردیے ۔

کیونکہ یہ بات عیاں ہو چکی تھی کہ احمدی ،خامنائی سمیت ہر ایک سے زیادہ طاقت و اختیار حاصل کرنا چاہ رہاتھا۔ سپیکر پارلیمنٹ اور انقلابی گارڈزکے کمانڈر سے بھی زیادہ اختیارات۔خامنائی کی رکاوٹوں کے باوجود احمدی اور مشائی نے اپنی طاقت و اختیارات کے حصول کی کوششیں ترک نہیں کیں۔پچھلے دو سالوں کے دوران بھرپور کوشش کی گئی کہ اختیارات کا محور ومرکز صدر بن جائے ۔جب صدر کو یہ احساس ہوا کہ وہ اپنی مرضی کا ایک وزیر بھی نہیں نامزد کرسکتا۔یہاں تک کہ مختلف وزارتوں کیلئے صدارتی مشیران بھی۔اس نے دنیا بھر میں ایرانی سفارت خانوں میں بھی ایسا ہی کرنے کی کوشش کی ،یہاں بھی خامنائی نے اسے ’’بلاک‘‘ کئے رکھا۔عملی طور پر احمدی نژاد نے اپنا ہی الگ متبادل ریاستی ڈھانچہ استوار کرنے کی کوشش کی ۔صدر نے کابینہ کے اندر بھی اپنے وفادار اور حامی افراد رکھنے کی کوشش کی۔یہاں تک کہ اس کا وزیر خارجہ منوچہر متقی جو کہ خامنائی کا وفادار سمجھا جاتاہے ،کو اس وقت ہزیمت آمیز انداز میں برطرف کردیاگیا جب وہ سینیگال کے دورے پر گیاہواتھا۔یہ بات بھی سامنے آچکی ہے کہ مشائی کو2013ء کے صدارتی الیکشن کیلئے تیار کیا جارہاتھا ۔جب اس سے اس بارے پوچھا گیا تو اس نے جواب دیا کہ اس بارے مجھ سے الیکشن سے چھ مہینے پہلے پوچھاجائے۔

مذہبی پیشوائیت کو درپیش چیلنج ریاستی طاقت کے حصول کیلئے ،احمدی نژاد یہ جان چکاہے کہ اسے اپنی ہی سماجی بنیادیں قائم اور مستحکم کرنی ہوں گی۔ الیکشن کے بعد ہونے والے احتجاج نے اس پر یہ بات واضح کر دی کہ اسے حکمرانوں کے دوسرے دھڑوں،خاص طورپر ملاؤں سے الگ تھلگ اور مختلف کرنا اور رکھنا ہو گا۔پچھلے کئی سالوں کے دوران احمدی نے اپنا تشخص ایک اسلامی لیڈر کی بجائے ایک قومی لیڈر کے طور پر ابھارنا شروع کیاہواہے لیکن روحانی پیشواکی حیثیت و طاقت کو کم کرنے کی اپنی اس تگ ودو میں احمدی اپنی ہی حیثیت و طاقت کوکمزورکرچکاہے ۔اس ساری تگ ودو کے دوران ایک اہم اور نمایاں کوشش ایک ڈی وی ڈی کا اجرا تھا جس کا نام ’’امام مہدی کا ظہور ہونے والاہے ‘‘ تھا۔ امام مہدی کے بارے تصور ہے کہ وہ قیامت سے کچھ وقت پہلے ظاہر ہوکر ساری دنیا کو ظلم ناانصافی اور گناہوں سے پاک صاف کر دے گا۔تب تک کیلئے امام کی نمائندگی ولی الفقیہہ یعنی کہ روحانی پیشواکے پاس ہے ۔ڈی وی ڈی میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ جب امام کا ظہور ہوگا تو اس کے نائبین خامنائی ،احمدی نژاد اور لبنانی حزب اللہ کا لیڈر نصراللہ ہوں گے۔اس ڈی وی ڈی کے ذریعے احمدی نے اپنا روحانی مرتبہ ومقام ،خامنائی کے برابر ثابت کرنے کی کوشش کی ہے ۔یہ نہ صرف خامنائی کی پیشوائیت بلکہ ساری مذہبی پیشوائیت کو کھلا چیلنج کرنے کے مترادف ہے ۔ اس قسم کی حرکات اور کوششوں کی وجہ سے احمدی خو د کو ایرانی پیشوائیت کے بڑے حصے کو اپنے خلاف کر چکاہے اور الگ تھلگ ہوکے رہ گیا ہے اورپچھلے کئی جمعوں سے تو خطبات کا سارا موضوع احمدی نژاد اور مشائی ہی چلے آرہے ہیں اور ان کی خوب گت بنائی جارہی ہے ۔ان کی سب سے زیادہ درگت روحانی پیشوا محمد تقی مصباح یزدی نے بنائی ہے جس نے ان کے نام لئے بغیر کہا ہے کہ ’’ہم نے سستی کا مظاہرہ کیا ہے ۔

ہم جب بھی سو کر اٹھتے ہیں تو ہر طرف اندھیرا چھایاہوتا ہے ۔ہمیں یہ جانکاری ہے کہ ہم نے اپنے گلے پڑنے والی بلا (گرین موومنٹ)کو خود ہی پالا پوسا ہے ۔یہ جو ایرانی قوم پرستی کا مکتبہ فکر پھیلایا جارہاہے ،سوال یہ ہے کہ اسلامی ملکوں کے اندر ایک اسلامی تحریک کی موجودگی میں ایسا کیونکرکیا جارہاہے اور اس کے پیچھے کیا کیا محرکات ہیں ؟‘‘

وقتی کامیابی

اس توتکرار کی کیفیت میں احمدی نے تین وزراء کو فارغ کر کے ان کی جگہ اپنے تین حامیوں کو نامزد کردیاہے ۔لیکن یہ بھی واضح ہے کہ اس باہمی جنگ وجدل کا پہلا مرحلہ خامنائی نے جیت لیا ہے ۔ہم اس وقت یہ تعین نہیں کر سکتے کہ کیا اب احمدی کے محاسبے کی شکل میں ایک تبدیلی سامنے لائی جائے گی یا کوئی اور صورت سامنے آتی ہے تاہم یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ اب خامنائی ریاستی طاقت کے مراکزکو اپنے ہی کنٹرول میں رکھنے کیلئے زیادہ بہتر اور موثر پوزیشن میں آچکا ہے ۔

لیکن پھر سوال یہ ہے کہ یہ جو کچھ بھی ہورہاہے ،کیا جارہاہے ،وہ کس قیمت پر ؟اسلامی ریاست بدترین بحران میں گھر چکی ہے اور روحانی پیشوا خامنائی کی قدرومنزلت کم ترین پوزیشن کو پہنچ چکی ہے ۔

خودساختہ اسلامی حکومت کی خونریزابتدا سے ہی حکمرانی کے تنازعے اور مسائل سامنے آنے شروع ہو چکے تھے ۔فرق یہ پڑا ہے کہ انقلابی تحریک نے ان تضادات وتنازعات کو بالکل ننگاکر کے رکھ دیاہے ۔ہم نے پچھلے سال اپنے مضمون ’’موجودہ تعطل اور مارکسیوں کے فرائض ‘‘ میں لکھا تھا کہ ’’اس سے بالکل برعکس کہ آپس میں باہم شیروشکرہوکے رہا جائے ،ایرانی حکومت خود کو متحد ومستحکم کرنے اور رکھنے میں یکسر ناکام ہو چکی ہے ۔جون سے دسمبر تک کے دوران تو یہ اندر سے بری طرح دہل چکی ہے ۔ اندر کی ٹوٹ پھوٹ اور انتشار بڑھتاہی چلا جارہاہے‘‘۔’’اگر حالات معمول کے مطابق جارہے ہوں تو اس قسم کے تضادات اور اختلافات معمولی سمجھے جاتے ہیں اور ان کی پرواہ نہیں کی جاتی۔لیکن ایک ایسی کیفیت میں کہ جب حکومت کو اپنی بنیادیں سنبھالنے کی پڑچکی ہو،ایسے میں باہمی خلفشار حکومت میں شریک دھڑوں کے اعصاب پر سخت برے اثرات مرتب کرتا ہے ۔سبھی دھڑے اپنے کو بچانے اپنے کو جائز قراراور دوسرے کو غلط قراردینے میں مصروف ہوجاتے ہیں ‘‘۔

پچھلے عرصے میں احمدی خود کو خامنائی سے بہت دور کرنے اور رکھنے کی کوشش کرتا آرہاہے ۔یہاں تک کہ انقلابی گارڈز سے بھی کہ جنہیں وہ انقلابی تحریک کو کچلنے پر مبارکباداور شاباش بھی دے چکا ہے ۔یہ عمل بہت دور تک اور بہت گہرائی تک پھیل چکاہے ۔اور موجودہ بحران اسی کا ہی شاخسانہ ہے ۔

معیشت میں بحران

ایک اوربڑا عنصر جو کہ ان حکمران دھڑوں کو باہم سر پھٹول پر مجبور کررہاہے ،وہ معیشت ہے جو کہ اب عروج سے محروم ہو چکی ہے ۔ایرانی معیشت کافی نحیف ہو چکی ہے۔ اندرونی سیاسی عدم استحکام ،عالمی پابندیوں ،عالمی سطح پر طلب اور سرمایہ کاری کی گراوٹ، ان سبھی عوامل نے معیشت کی کمزوری کو اور بھی لاغر کردیاہے ۔آئی ایم ایف نے پچھلے دوسالوں کی ترقی کی شرح زیرو سے ایک فیصد کے درمیان بتائی ہے ۔اگلے سال بھی ترقی کی شرح زیرو رہنے کا امکان ہے ۔HSBCکے تہران بیورو کے مطابق،مالیات کے ایک بہت بڑے ماہر نے جو کہ پہلے غیرملکی سرمایہ داروں کو ایران میں سرمایہ لگانے کی ترغیب دیاکرتا آرہاتھا،نے ایرانی معیشت پر سخت نکتہ چینی کی ہے ۔تہران بیورو لکھتا ہے کہ ’’اس کے باوجود کہ افراط زر کی شرح ہر سال دوہندسی چلی آرہی ہے ،ریال کو مضبوط رکھا چلا آرہاہے ۔حد سے زیادہ قدر کی حامل کرنسی نے درآمدات کو انتہائی تشویشناک حدوں تک پہنچا دیاہے ۔جس کا براہ راست نتیجہ مقامی پیداوار کے دیوالیہ پن کی صورت میں سامنے آرہاہے ۔مجموعی پیداوار میں شدید کمی جبکہ بے روزگاری میں شدید اضافہ ہو چکا ہے ۔رپورٹ کے مطابق احمدی نژاد کے صدارت سنبھالنے سے ہی جی ڈی پی حقیقی طورپر کم ہونا شرو ع ہوگئی تھی اور یہ2009/10ء تک ڈیڑھ فیصد سے بھی کم تھی ۔کم شرح ترقی اور بڑھتے ہوئے افراط زر کا ملاپ ایرانی معیشت کو جمود میں مبتلا کر چکاہے ۔معیشت شدید بحران کی طرف لڑھکتی جارہی ہے ۔ خود ساختہ انقلاب کے بعد سے تو افراط زر ایک وبا کی طرح ایران کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے ۔اس وقت یہ سرکاری سطح پر13.50کو پہنچی ہوئی ہے جو کہ سارے خطے میں سب سے زیادہ ہے ۔اس کی بہت ساری وجوہات ہیں ۔ان میں ایک پاپولسٹ معاشی پالیسی بھی ہے ۔رپورٹ نے حکومت کی طرف سے بے مہار خرچ کرنے کو سب سے بڑی بیہودگی قرار دیاہے ۔

دوسری جانب حکومت کا بینکوں کی جانب قرضہ بھی بہت بڑھ چکاہے اور دوسری طرف بینکوں کے نان پرفارمنگ اثاثے بھی بہت زیادہ ہو چکے ہیں ۔سات ہزار کے لگ بھگ بڑے کاروبار اب تک ناکام و دھڑام ہو چکے اور وہ اپنے قرضے اداکرنے کے قابل نہیں رہے‘‘۔ اگرچہ تیل کی قیمتوں میں موجود ہ اضافے نے ایرانی معیشت کو جزوی آسرا دیاہے لیکن یہ بکھرتی ہوئی معیشت کو سنبھالنے میں کامیاب نہیں ہوسکے گا۔

فارس نیوز ایجنسی کے مطابق پچھلے ایرانی سالانہ بجٹ میں 15بلین ڈالرزکی گراوٹ واقع ہوئی ۔ایک ایسی کیفیت میں کہ جب مختلف حکمران دھڑے زیادہ سے زیادہ مال بٹورنے میں مگن ہوں ایسے میں عوام کیلئے کیا بچتا ہوگااور کتنا !پچھلے ہی مہینے روٹی کی قیمت میں مزید پچیس فیصد کا اضافہ کردیاگیا ۔جبکہ سبسڈیز میں بھی مزید کٹوتیاں کردی گئیں۔انڈوں کی قیمت میں 97.6 فیصد، پھل 43.5فیصدجن میں سیب کی قیمت میں 111فیصد اضافہ ہواہے ۔ڈایری پروڈکٹس 5فیصد،ککنگ آئل 20 فیصد، چاول 13.4فیصد،چکن12.6،چینی 9.6فیصد اضافہ ہوا۔صرف پیاز کی قیمتیں تھیں جو کم ہوئیں ۔اصلاح پسندڈپٹی رضا خبازکے مطابق آنے والے دنوں میں افراط زر کی شرح 40 سے50تک بھی ہو سکتی ہے ۔اسی سال کم از کم اجرت میں صرف9فیصد کا معمولی اضافہ کیا گیا ۔ایران کی اکلوتی اور واحدسرکاری وریاستی ٹریڈ یونین فیڈریشن ورکرز ہاؤس کے سیکرٹری جنرل علی رضا محجوب کے مطابق ہر سال ایران میں بارہ لاکھ افرادبے روزگار ہوتے جارہے ہیں ۔جبکہ مجلس کے ایک اور ڈپٹی نے قرار دیاہے کہ ایران میں بے روزگاری کی شرح 24فیصد کو پہنچ چکی ہے ۔یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ معیشت کی جاری کیفیت کی موجودگی میں حکمران دھڑے کسی قسم کے چونچلے نہیں کر سکیں گے بلکہ اس معاشی بدحالی کی وجہ سے ان حکمرانوں کے خلاف مخالفت و مزاحمت میں بھی اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔

تحریک کی کیفیت

الیکشن کے فوری بعد بھڑک اٹھنے والی تحریک اگرچہ بہت موثر تھی لیکن یہ اپنی قیادت میر حسین موسوی اور مہدی کروبی کی غداری کی بھینٹ چڑھ گئی ۔ان دونوں نے ہر حوالے سے اور ہر سطح پر تحریک کو گمراہ اورسبوتاژکرنے کی کوشش کی ۔تحریک اس کیفیت میں تھی کہ یہ آمریت کا تخت اکھاڑ دیتی مگر ۔۔

مصر میں حسنی مبارک کے خاتمے کے بعد سے ایرانی نوجوانوں نے دونوں کو کھڈے لائن لگا دیاہے ۔اس کے بعد14اور21فروری ،یکم،آٹھ اور پندرہ مارچ کو لاکھوں نوجوانوں نے سڑکوں پر نکل کر مظاہرے کئے ۔ان دنوں تحریک نے اپنی بھرپور توانائی اور جذبے کا اظہار کیا اور اسے عوام کی بھرپور پذیرائی بھی میسر رہی ۔لیکن اصلاح پسند قیادت نے اپنا مکارانہ اور گھٹیاکردار اداکرنے میں کوئی کمی نہیں کی اور انہوں نے سماجی مطالبات کا حامل کوئی بھی واضح پروگرام جاری نہیں کیا۔اس کے برعکس وہ کوشش کرتے رہے کہ تحریک کو بوکھلاہٹ کا شکار رکھا جائے اور اس حد تک نہ جانے دیاجائے کہ یہ مبارک اور بن علی کی طرزپر تخت ہی اکھاڑ پھینکے ۔تحریک میں تھکاوٹ اور اکتاہٹ کی کیفیت کے باوجودحکمران دھڑے آپس میں ہی ایک دوسرے کی خبرگیری میں لگے ہوئے ہیں ۔

اور وہ اس قابل نہیں ہو سکے کہ اس بار تحریک کا مقابلہ کرسکتے اور اسے پہلے کی طرح کچل سکتے۔چنانچہ عوام کیلئے ابھی دربندنہیں ہوا اور وہ پیش قدمی کر سکتے ہیں۔اور ہم مختلف علاقوں میں مختلف ابھار ابھرتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں ۔

محنت کش طبقے کی میدان میں آمد

جیساکہ ہم بتا چکے ہیں کہ فروری اور مارچ کے دوران مظاہرے ہوئے ،جس کے بعد نئی پرتیں اپنے مطالبات کے ساتھ تحریک میں شریک ہونے لگی ہیں ۔ایک اہم ترین عنصر آذربائیجان اور کردقومی تحریک کی جانب سے فروری مارچ کے مظاہروں میں بہت بڑی شرکت تھی ۔لیکن پھر سب سے اہم ترین عنصر ایرانی محنت کش طبقے کی جانب سے اپنی آزاد شناخت کے ساتھ ان واقعات میں شمولیت اور مداخلت تھی ۔پہلے پہل تو آبادان ریفائنری کے فیز تھری کے ورکروں نے 14فروری کو ایکشن ڈے کے طورپر مناتے ہوئے ہڑتال کر دی۔یہ ایک انتہائی حساس نوعیت کاادارہ ہے ۔اسی پہلی ہڑتال نے ہی ان کو کامیابی دلادی اور ان کے سبھی مطالبات تسلیم کر لئے گئے ۔اس کے بعد البورز ٹائرز کے مزدوروں نے تہران کیراج شاہراہ پر دھرنا دیا ۔ان کا یہ احتجاج بہت دیر تک جاری رہا۔ان مزدورں نے فروری کے مظا ہروں کے دوران بھی بھرپور شرکت کی تھی ۔

اس حوالے سے ایک بہت ہی اہم کامیابی تبریزپیٹرو کیمیکل کے 1800عارضی مزدورں کی تین مارچ تک 13دن جاری رہنے والی ہڑتال تھی جس کے نتیجے میں انہیں مکمل کامیابی حاصل ہوئی۔سب کوہی مستقل ملازمت دے دی گئی ۔اس کامیابی نے تو سارے ایران میں محنت کش طبقے میں ایک نئی روح پھونک دی۔ ایران کی پیٹرو کیمیکل کی صنعت ایران کے خلاف امریکہ کی جانب سے لگائی جانے والی پابندیوں کی کیفیت میں انتہائی حساس اہمیت کی حامل ہے ۔

چنانچہ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اس شعبے کے محنت کشوں کو بہت سی سہولتیں اور مراعات ملنے کی وجہ سے انہیں اپنی طاقت کا بخوبی ادراک ہے اور وہ ایک طویل اور موثر جدوجہد میں موثر کردار اداکرنے کی پوزیشن میں ہیں۔

تبریز اگرچہ نکتہ آغاز ہے لیکن اس کے بعد کئی اداروں کے محنت کش بھی حرکت میں آتے چلے گئے ۔جن میں البورز ٹائر،اصفہان سٹیل کمپلیکس شامل ہیں کہ جنہوں نے ایرانی پارلیمنٹ کے سامنے 800مظاہرے کئے اور یوں اپنے مطالبات جیتے ۔اسی طرح ایران کے جنوب مغرب میں واقع پارس پیپر ملزکے محنت کشوں نے بھی9 اپریل کو ایک ہڑتال منظم کی ۔لیکن ان سب ہڑتالوں اور مظاہروں پر حاوی ،ماہ شہرپیٹروکیمیکل کمپلیکس کی ہڑتال تھی ۔دس اپریل کو بندر امام کے ایک یونٹ سے شروع کی جانے والی یہ ہڑتال سارے ادارے میں پھیل گئی جس میں دس ہزار مزدور شریک ہوئے ۔فری ٹریڈیونین آف ایران کی رپورٹ کے مطابق’’ماہ شہر میں پیٹروکیمیکل کے محنت کشوں کی ہڑتال کل بھی جاری رہی ہے تاہم ایک نیا اور دلچسپ عنصر سامنے آچکاہے وہ یہ کہ دوسرے حصوں کے مزدور بھی اپنے اپنے سبھی کام چھوڑ کربندرامام پیٹروکیمیکل کمپلیکس کے سامنے اکٹھے ہوتے چلے گئے ۔جہاں پہلے ہی دوہزار سے زائد مزدور جمع تھے ۔فری یونین آف ایرانی ورکرزنے بتایاہے کہ یہ واقعہ کل صبح پیش آیا۔سیکورٹی فورسزنے دوسرے حصوں سے آنے والے مزدوروں کو روکنے کی کوشش کی کہ وہ اندرموجودہڑتالیوں سے نہ مل پائیں لیکن محنت کش اپنے مطالبات اور یکجہتی کے بینروں اور پلے کارڈزکے ساتھ بندر امام کمپلیکس کے باہر اکٹھے ہوتے چلے گئے ۔وہ مزدوروں کے مطالبات ،حقوق اور اجرتوں میں اضافے کیلئے نعرے بلند کرتے چلے گئے ۔اندر موجود محنت کش باہر جمع ہونے والے اپنے بھائیوں کے نعروں کا جواب بھی دیتے رہے اور ان کا شکریہ بھی اداکرتے رہے ۔

فری یونین آف ایرانی ورکرزکی طرف سے ملنے والی تازہ ترین خبر میں بتایاگیا ہے کہ بندر امام پیٹروکیمیکل کمپلیکس کے سیکورٹی گارڈز کو اسلحہ بھیج دیاگیاہے جبکہ اس دوران اس حکومتی کمپلیکس کا سربراہ جو کہ صنعتوں کا ڈپٹی وزیر بھی ہے،اپنی ساری مصروفیات چھوڑ کر ماہ شہر کو روانہ ہوچکاہے ۔تاکہ صورتحال کو سنبھال سکے۔ادارے کے سربراہ اور حکومت کی جانب سے ہر ممکن کوشش کے باوجودیہ ہڑتال زور پکڑتی جارہی ہے اور اس کی شدت و حدت میں اضافہ ہوتا جارہاہے ۔اور یہ رکنے کی بجائے جاری و ساری ہے۔

یہ تحریک کنٹریکٹ لیبر کے خاتمے پر شروع ہوئی ہے اور اس نے سارے ایران کو جھنجھوڑ کر رکھ دیاہے ۔گیارہویں دن ہی اس کے سبھی مطالبات مان لئے گئے ۔ماہ شہر کی اس تحریک کے بعد کئی دیگر اداروں میں بھی تحریکیں شروع ہو چکی ہیں لیکن ابھی تک ان میں سے کوئی کامیابی حاصل نہیں کر سکی ۔

ان میں سے بافغ شہر کے پاس واقع لوہے کی ایک کان کے چار ہزارمحنت کشوں کی ہڑتال ہے جس کی حمایت کیلئے شہر کے چالیس ہزار باشندے بھی ان کے ساتھ شریک ہو چکے ہیں۔یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ محنت کش طبقہ میدان عمل میں قدم دھر چکاہے ۔لیکن تاحال یہ کسی مرکزی دھارے سے محروم ہے ۔اگر محنت کشوں کی یہ پیش قدمی شہروں میں ہونے والی تحریک کے ساتھ جڑنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو اس ملائیت کے دن ختم ہونے میں دیر نہیں لگے گی ۔اس یوم مئی کے موقع پر اصلاح پسند قیادت نے پھر بھرپور کوشش کی کہ کوئی ایسی ویسی بات نہ ہوجائے ۔انہوں نے مظاہروں کی کال دینے کی بجائے محنت کشوں کی حالت زار پر بحث مباحثے کرنے پر ہی زور صرف کردیا۔

المیے سے عبرت تک

اصلاح پسند قیادت کی مکاریوں کے باوجود،کہ جن کے بارے ہمیں کبھی کوئی خوش فہمی نہیں رہی ،تحریک کا انقلابی جوش وجذبہ ابھی تک ماند نہیں پڑا ۔نئی سے نئی پرتیں تحریک کی طرف متوجہ اور مائل ہورہی ہیں ،اس لئے نہیں کہ انہیں اصلاح پسندوں کا لبرل پروگرام اچھا لگتاہے بلکہ اس لئے کہ خود ان کی اپنی زندگی کے مسائل و مصائب ان کیلئے کوئی اور رستہ نہیں چھوڑ رہے ۔

فریڈرک اینگلز نے لکھا تھا کہ تاریخ اپنے کو دہرایا کرتی ہے ،پہلے ایک المیے کے طورپر اور پھر ایک عبرت کے طورپر ۔ خمینی نے مختلف دھڑوں اور پرتوں کے سرپر سوار ہوکر پچھلی صدی کے ایک بہت بڑے انقلاب کو کچل دیاتھا ۔جبکہ آج اس کا جانشین خامنائی کسی کانچ کی دکان میں گھسے ہوئے پاگل ہاتھی کی طرح اپنے عوام کی انقلابی تحریک کو کچلنے پر تلا ہواہے جبکہ اس کی اپنی کوئی سماجی بنیاد نہیں ہے ۔

نہ ہی اس کے اتحادیوں کی ہے اور نہ ہی اس کے ریاستی ڈھانچے کی لیکن اس کے باوجود بھی تحریک موجودہے جسے وہ کچلنے کے درپے ہے ۔سوال اس خامنائی یا اُس خمینی کی ذاتی خصوصیات کا نہیں ہے ۔خمینی نے ایک ایسے رد انقلاب کی نمائندگی کی کہ جسے نہ صرف عالمی سامراج کی پشت پناہی حاصل تھی بلکہ اس کی کچھ سماجی بنیادیں بھی تھیں۔جن میں مڈل کلاس ،لمپن زرعی پرتیں اور سب سے بڑھ کر سٹالنسٹ پارٹی کی قیادت ،یہاں تک کہ مزدور طبقے کے کچھ حصے بھی۔انقلاب کو خون میں ڈبونے والے خمینی کے پاس ایسا کچھ تھا کہ جس پر وہ اپنے اعتماد کی بنیاد رکھے ہوئے تھا۔

اس کے برعکس خامنائی ننگی اور وحشی ردانقلابیت کا ایسانمائندہ ہے کہ جو اپنے حمایتیوں کو بھی کچھ دینے سے قاصر ہے ۔کسی لاغر شکاری جانور کی مانندوہ اپنی چندھیا چکی آنکھوں پر لگی عینک سے ادھر اُدھر دیکھتارہتاہے لیکن اعتماد کہیں سے بھی نظرآتااورنہ محسوس ہوتاہے ۔ایک جعلی پن کے سوا وہ اس قابل نہیں ہے کہ تحریک کو کچل سکے ۔وہ اقتدار کے ایوانوں کے اندر خود کو حاصل ہونے والی کامیابی پر تو سکون کا سانس لے سکتاہے لیکن یہ سکون اور خوشی محض جلدبازی ہے ۔اس وقت ایران میں بظاہر قانون کی عملداری ہے لیکن ایرانی سماج کی تہہ کے نیچے انقلاب سرکشی کیلئے رستہ تلاش کررہاہے ۔ایران کو سرکاری سطح پر چلانے کی کوشش یا خواہش کا مطلب یہ ہے کہ ایران کو درپیش بحران کی ذمہ داری بھی اپنے سر لی جائے ۔یہی اس وقت ایران کے عوام کا بنیادی ہدف اور ضرورت ہے جنہیں نہ صرف روٹی کی بھوک ستارہی ہے بلکہ ایک نئے سماج کی بھوک نے بھی انہیں اپنی گرفت میں لیاہواہے ۔