تیونس ۔ عرب انقلاب کا آغاز ۔ ۔ ایلن وڈز

Urdu translation of The insurrection in Tunisia and the future of the Arab Revolution (January 15, 2011)

تحریر: ایلن وڈز ۔ ترجمہ، اسدپتافی

چنگاری ڈاٹ کام، 22.01.2011

تیونس کے مزدوروں اور نوجوانوں نے ان دنوں جو کچھ کر دکھایاہے ،وہ ساری دنیا کیلئے حوصلہ افزااورمشعل راہ ہے ۔ایک ہفتے تک تیونس ایک ایسے انقلاب کا مرکز ومحوربنارہاہے جس کے اندر کئی تاریخی جہتیں اور کیفیتیں شامل رہیں۔تیونس کے بپھرے ہوئے عوام نے 23سالوں سے براجمان ،زین العابدین کی آمریت کو اکھاڑکر پھینک دیاہے۔تیونس میں جو کچھ ہوا ،اس نے ہر انسان کو تحیر میں ڈال دیا۔یہاں تک کہ خود حکومت کو بھی حیران کر کے رکھ دیا۔

چھ جنوری کو اکانومسٹ نے بہت اعتماد سے لکھاتھاکہ’’ تیونس کا مسئلہ سوائے اس کے کچھ اور نہیں ہے کہ 74سالہ صدر سے جان چھڑالے یا پھر اس کی مطلق العنانیت کا کوئی توڑ نکالاجائے ‘‘ ۔شمالی افریقہ کایہ ملک عرصہ درازسے استحکام اور خوشحالی کا مرکز چلا آرہاتھا۔اس کے باوجود کہ اس پر ایک شخصی حکمرانی قائم چلی آرہی تھی۔غیر ملکی سرمایہ کاروں کیلئے تیونس ایک انتہائی محفوظ اور قابل اعتماد ملک بناہواتھا۔یہاں سستی مزدوری بہت وافر تھی۔سیاحوں کیلئے یہ ایک پر کشش مقام تھا جہاں سورج کی دھوپ سینکنے اور زندگی کے مزے لینے کیلئے ایک خوشنما ماحول موجود تھا۔

لیکن پھر اچانک ہی ایسا ہوتا ہے کہ صاف شفاف آسمان سے جیسے بجلی گرتی ہے ۔اور سب کچھ جلا کے راکھ کر دیتی ہے ۔دہائیاں اچانک اپنا اظہار لمحوں میں کر دیتی ہیں۔اچانک کبھی اچانک نہیں ہواکرتا۔وقت ،ہر اچانک حادثے کی برسوں پرورش کیا کرتاہے۔معاشی بدحالی کا دن بدن بدترو ابتر ہونا اچانک سامنے آگیا۔جس نے نیچے تک سماج کو اپنی گرفت میں لے لیاہواتھا۔لیکن اس سب سے کچھ اور بھی سامنے آیاہے ؛جو اگرچہ بہت کم نظرآتاہے لیکن جو بہت ہی اہم ہے ۔ صرف غربت ہی سے انقلاب کی وضاحت نہیں کی جاسکتی۔کیونکہ عوام تو ہمیشہ سے ہی غربت کاشکار چلے آتے ہوتے ہیں۔انقلاب ایک جدلیاتی عمل ہوتا ہے کہ جس کے دوران ہزاروں قسم کی ناانصافیاں بالآخر ایک ایسے انتہائی نکتے تک پہنچ جایاکرتی ہیں کہ جس کے بعد سماجی دھماکہ ناگزیر ہوجایاکرتاہے ۔جب بھی کوئی سماج اس نکتے یامرحلے تک پہنچ جاتا ہے تو کوئی بھی ایک حادثہ اس دھماکے کو پھاڑکے رکھ دیاکرتاہے ۔

بظاہر یہ ایک روزمرہ کا ہی ایک واقعہ تھا اور ہے کہ سدی باؤزید نامی شہرمیں ایک پھل اورسبزی کا ٹھیلہ لگانے والا نوجوان اپنی زندگی سے کھیلنے کی کوشش کرتاہے ۔اور زندگی موت کا یہ انفرادی کھیل ،سیاست کے کھیل کو ہی اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔محمد بوعزیزی،وہ نوجوان جس نے خو دکو آگ لگالی تھی ،یونیورسٹی کا ایک گریجوایٹ تھا ،اور جو اپنے جیسے کئی دوسرے نوجوانوں کی طرح اپنی قابلیت کے اہل کوئی ملازمت حاصل کرنے میں ناکام چلا آرہاتھا۔اس نے کوشش کی کہ پھل سبزی بیچ کر زندہ رہ لیا جائے لیکن پھر یہ ایک کوشش بھی اس وقت عذاب بن گئی جب پولیس نے اسے بلا اجازت ٹھیلہ لگانے سے منع کردیا۔اس کے بعد بوعزیزی نے فیصلہ کرلیا کہ وہ اپنی زندگی کو ختم کرلے گا لیکن ایک عجیب انداز میں ۔اس نے خود کو آگ تو لگا لی لیکن وہ کچھ دن بعد ہی موت کے منہ میں جاسکا۔اور اس کے بعد تو جیسے یہ آگ سارے تیونس کو ہی لگ گئی۔ خوراک اور زندگی کی دوسری بنیادی اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں ہوتے اضافے ،بیروزگاری میں مسلسل بڑھوتری اور آزادی کے احساس میں کمی؛یہ سب اچانک ایک سرکشی کی شکل میں سامنے آگئے اور ملک کے کونے کونے میں یہ سرکشی سرگرم ہوتی چلی گئی ۔عام غریب لوگوں کے بعد ملک بھر سے طالب علم اور محنت کش بھی اس میں شریک ہوتے چلے گئے۔اورسینوں میں دبی ،حکمرانوں سے نفرت سامنے لے آئے۔اس سارے عمل میں ایک نیاعنصراعلیٰ تعلیمیافتہ نوجوانوں کی وہ پرت تھی کہ جو روزگاراورملازمتوں سے محروم چلی آرہی تھی ۔ایک اس دور میں کہ جب لاکھوں کروڑوں انسان روزانہ ٹیلیویژن اورانٹر نیٹ پرحکمرانوں کی عیاشیوں سے بھری زندگیوں کو دیکھتے ہیں تو ان کیلئے اپنی روزگار سے محروم اور اذیتوں ذلتوں سے بھری زندگیاں ناقابل برداشت ہوتی چلی جاتی ہیں۔تیونس کے حکمران بن علی اور طربلیسی بھی بدعنوانی،نابرابری اور سیاسی عدم برداشت و استحصال پر ہی اپنی حکمرانی قائم رکھے چلے آرہے تھے ۔ان کی بدعنوانیاں اتنی گھناؤنی تھیں کہ امریکی سفیر کی بھی چیخیں نکل گئیں ،جیسا کہ وکی لیکس کی دستاویزات میں انکشافات کئے گئے ہیں۔ناقابل فرار غربت اور ناقابل برداشت بیروزگاری سے تنگی سے شروع ہونے والی تحریک بہت ہی جلد ایک سیاسی رنگ روپ میں ڈھل گئی ۔اور ہر طرف ایک ہی نعرہ گونج اٹھا۔بن علی جاوے ہی جاوے۔آگ جب ایک بار بھڑک گئی تو اسے بجھانا مشکل سے مشکل تر ہوتا چلاگیا۔ملک پہلے ہی بے چینی اور اضطراب کی زد میں تھا اوربیروزگاری مہنگائی بدعنوانی کے خلاف لوگ احتجاج کرتے چلے آرہے تھے ۔بیروزگارگریجوایٹس کی بہت بڑی تعداد جو آزادی کے احساس و اظہارپر پابندیوں سے گھٹن کا شکار تھی،حکمرانوں کی عیاشیاں عام لوگوں کی زندگیوں پر دہراعذاب بن چکی تھیں اور ریاستی اداروں کا جبر سماج میں حبس پیداکئے ہوئے تھا ؛یہ سب عوامل نے مل کر اس سرکشی کو ابھار دیا کہ جو کسی کے روکے نہیں رک سکی۔ استحصال سے مراعات تک

آٹھ سے نو جنوری کے ویک اینڈ پر تصادم کی شدت انتہا کو پہنچ گئی۔اور پھر تو جھگڑے نے دارالحکومت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔عوام کے غیض وغضب سے سہمی ہوئی حکومت نے ،اپنے بچاؤ کی تدابیرکے طورپر، بیک وقت جبر وتشدداور مراعات کا سلسلہ شروع کردیا۔بلاشبہ اس سلسلے میں ہر حاکم کی طرح سے پہلی کاوش بندوقوں کی گولیوں اور آنسوگیس کے گولوں کی شکل میں کی گئی ۔یہ ریاستی جبر اس قدر شدید تھا کہ مغربی صحافیوں کی بھی چیخیں نکل گئیں۔نہیں بتایا جاسکتا کہ کتنے لوگوں کو اس ریاستی دہشت گردی کے دوران موت کے گھاٹ اتار دیاگیا۔انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق کم از کم60افراد ہلاک ہوئے ۔لیکن پھر کوئی ایک ہفتے تک کے ریاستی جبروتشدد کے باجود یہ بات سامنے آگئی کہ یہ مطلوبہ نتائج پیدانہیں کر سکا۔ہاں مگر اس جبروتشدد نے لوگوں کی نفرت اور غیض وغضب کو ضرور بھڑکادیااور یوں ایک بارپھر یہ ثابت ہوگیاکہ جب بھی جہاں بھی لوگ ایک بار ’’نہ ‘‘کر دیں تو پھر دنیا کی کوئی طاقت کوئی فوج کوئی جبر ان کے رستے میں ،ان کے سامنے اور ان کے خلاف نہیں ٹھہر سکتی ہے ۔خوف جب عوام کے ذہنوں اور دلوں سے نکل جاتاہے توپھر یہ حکمرانوں کو گھیرناشروع کردیتاہے اور کوئی بھی حکمران خواہ کتناہی مطلق العنان کیوں نہ ہو،لوگوں کے سامنے نہیں ٹھہر سکتا۔

سب سے پہلے تو جناب صدر نے انکار کیاکہ ریاستی اداروں نے کسی طور نارواجبر وتشددنہیں کیا ۔اس کا کہناتھا کہ یہ تو ہماری پولیس چند دہشت گرد عناصرکے خلاف کاروائی کررہی تھی کہ جو املاک کو نقصان پہنچانے پر تلے ہوئے تھے۔لیکن یہ بیان بازی لوگوں کو متاثر نہیں کر سکی ۔سبھی یونیورسٹیاں کالج اور سکول بند کردئے گئے تاکہ طلباء کو اداروں میں اورپھر سڑکوں پرنہ آنے سے روک دیاجائے ۔لیکن یہ حربہ بھی ناکام ثابت ہوا۔یوں دن بدن حکومت کویہ ادراک ہوتاگیا کہ دن پورے ہوچکے ہیں اور یہ بات موٹی گردن والے صدر کی بھی سمجھ آگئی کہ اب بس۔ 12جنوری کو صدر نے اپنے وزیرداخلہ کو برطرف کردیااور سبھی گرفتارشدگان کی رہائی کا اعلان کردیا۔اس کے ساتھ ہی صدر نے بدعنوانی کے الزامات کی تفتیش وتحقیق کیلئے ایک کمیٹی کے قیام کا بھی اعلان کیا۔یہ ایسے ہی تھا جیسے ایک ڈاکو ایک قزاق کی تفتیش شروع کردے۔اس کے ساتھ ساتھ اس نے سرکشی کی اصل جڑ یعنی بیروزگاری سے نمٹنے کیلئے نئی تین لاکھ ملازمتیں پیداکرنے کا بھی وعدہ کرلیا۔لیکن اس پر کسی نے اعتبار نہیں کیااور کان نہیں دھرے چنانچہ سرکشی جاری وساری رہی ۔اور یہ 13جنوری کودارالحکومت تک پہنچ گئی جہاں رات کاکرفیو بھی نافذ کردیاگیاتھا۔ بعدازں بن علی نے خوراک کی بڑھی ہوئی قیمتوں کو فوری کم کرنے کا بھی وعدہ و اعلان کیا۔یہ بھی کہ پریس اور انٹرنیٹ کے حوالے سے اظہار کی آزادی بھی یقینی کی جائے گی۔اور یہ بھی کہ جمہوریت کو نیچے تک منظم کیاجائے گا اور اقتدار میں دوسروں کو بھی شامل ہونے دیاجائے گا۔اس نے یہ بھی فرمایا کہ وہ2014ء کے بعد خود کو اقتدار میں براجمان رکھنے کیلئے آئین میں ترمیم بھی نہیں کرے گا۔لیکن لوگ لگے رہے اور بن علی کو آخرکار یہ اعلان کرناپڑا کہ پولیس کو آئندہ کسی پر گولی چلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور وہ سبھی عوامی مسائل ومطالبات پر توجہ دے گا۔سب کو یہ پتہ چل گیا کہ صدر صاحب ہوش اور جوش سے عاری ہوکراللے تللے کر رہے ہیں۔صدر نے اس وقت پولیس فائرنگ کو روکنے کا حکم دیاجب یہ واضح ہوچکاتھا کہ فوج کے اندر ایک بغاوت پنپ چکی ہے اور کسی بھی وقت سپاہی افسران کے خلاف سرکشی پر اتر سکتے ہیں ۔فرانس کی ایک ویب سائیٹ میں ایسی تفصیلات سامنے آئیں کہ جن کے مطابق فوج اور پولیس کی نچلی پرتوں میں تقسیم اور بغاوت کھل کر سامنے آچکی تھی ۔فوج کا بڑا حصہ حکمرانوں کے احکامات سے خودکو الگ تھلگ کر چکاتھا۔ایسے بھی کئی واقعات سامنے آئے کہ جب مظاہرین کو پولیس کے جبروتشدد سے بچانے کیلئے ،فوجی احتجاج کرنے والوں کے گارڈ بن گئے ۔یہی وہ وجہ تھی کہ جس کی بدولت دارالحکومت سے فوج کو بلالیا گیااور اسے پولیس کی تحویل میں دے دیاگیا۔جب مظاہرین صدارتی محل کا گھیراؤ کرنے پہنچے تو عام لوگ اور عام فوجی ایک دوسرے سے گلے ملنے لگے۔احتجاج اس وقت اپنی انتہاکو پہنچ گیا کہ جب مظاہرین جمعے کے دن وزارت داخلہ کے باہر جمع ہوئے جوکہ حکومت کا اہم ستون اور اس کی سطوت ونخوت کی علامت گردانی جاتی تھی۔ کئی مظاہرین عمارت کی چھت پر چڑھ گئے ۔پولیس نے آنسوگیس کی برسات کر دی۔لیکن لوگ تو جیسے کسی شے کی پرواہ سے ہی بے پرواہ ہو چلے تھے ۔اتنے دنوں میں انہیں اپنی طاقت کا بخوبی ادراک ہو چکاتھا۔وہ یہ بھی پتہ پا چکے تھے کہ ان کی طاقت حکمرانوں کی کمزوری کو عیاں کر چکی ہے ۔ہرکوئی ہر طرف ہر کہیں ایک ہی نعرہ ایک ہی آواز گونج رہی تھی ۔بن علی جاوے ای جاوے۔بن علی نے 2014ء میں جانے کا اعلان بھی کر دیا مگر اس کا یہ اعلان شاید جلدی میں کیاگیا ۔لوگ اسے جلدی نہیں فوری اورابھی بھیجناچاہ رہے تھے اور لوگ جب کرنی پر اترتے ہیں تو کر بھی جاتے ہیں۔ بادل نخواستہ صدرنے اپنی حکومت اور اسمبلی کو برخاست کرنے کا اعلان کردیا۔اس کے ساتھ ہی صدر نے اہل خانہ سمیت اپنا سامان باندھا اور ہوائی اڈے کی راہ لی۔اور تب سے وہ جائے پناہ کیلئے یہاں وہاں کوشش کررہاہے۔لیکن پھر پناہ اتنی آسان نہیں ہواکرتی ہے۔جب آپ کے پاس دولت و اقتدار ہوتوآپ کے سینکڑوں ہزاروں دوست احباب ہواکرتے ہیں لیکن اس دولت واقتدار کے جاتے ہی آپ کو معلوم ہوتاہے کہ سبھی دروازے بندہوناشروع ہوجاتے ہیں۔

فرانس کے صدر سارکوزی نے انتہائی متانت لیکن سختی سے اپنے پرانے دوست کی فرانس پدھارنے کی درخواست کو مستردکردیا۔ادھر ادھر سے مایوس ہونے کے بعد پتہ چلا کہ موصوف سعودی عرب میں قدم رنجہ فرما چکے ہیں۔جہاں امیدہے کہ آل سعود اسے تمام تر خدمات فراہم کرے گی۔سعودی حکمرانوں کے کان بھی کھڑے ہوچکے ہیں کہ کسی وقت ان کے ملک کے اندر بھی یہی کچھ نہ ہوجائے ۔اور شاید ایساہونے میں اتنی دیر بھی نہیں لگے گی۔ تیونس کے صدر کی رخصتی نے وہاں کی اشرافیہ کی بالائی پرت کومتحرک کردیاہے ۔واشنگٹن بھی پیچ وتاب میں ہے اور وہ پیچھے بیٹھ کر اپنی ڈوریاں ہلا رہاہے۔ ابتدائی طورپر وزیراعظم محمد غناؤچی نے خود اقتدار سنبھال لینے اور ملک میں ایمرجنسی لگانے کا اعلان کیاہے ۔سابق صدرکی جگہ جگہ لگی ہوئی قدآدم تصاویرکو ہٹادیاگیاہے۔حکام کا خیال ہے کہ سابق حکمران کی تصاویر ہٹالئے جانے کے بعد عوام مطمئن ہوجائیں گے اور واپس گھروں کولوٹ جائیں گے ۔اور اس کے بعد وہی پرانے اقتدارزدہ لوگ دوبارہ سے مسندوں پر آکر اپنے اپنے فرائض منصبی سرانجام دینا شروع کردیں گے۔جبکہ اس دوران وہ لوگوں کو اس بات پر مائل اور قائل کرنے کی کوشش کریں گے کہ تبدیلی وقوع پذیرہوچکی ہے چنانچہ وہ اب اور آئندہ کچھ بھی نہ کریں۔اس قسم کے لوگوں سے کسی بھی قسم کی اصلاحات یا پھر فری الیکشن کرانے کی توقع رکھنا بدترین بیوقوفی ہی ہوگی۔وزیراعظم سابق حکومت کاہی کارندہ ونمائندہ ہے۔وہ سابق صدر کا آدمی ہے ۔وہ ہی مرکزی معمار تھا کہ جس نے وہ معاشی پالیسیاں تعمیر کیں کہ جو سابق صدر کی رخصتی کا باعث بنیں۔وہ شروع دن سے ہی سابق حکمران کا منظورنظر آرہاہے۔وہ عوام کی فلاح وبہبودکیلئے کچھ کرے گا،یہ غلط فہمی ہوگی۔جمہوریت اور آئین بازی کے نام پر خوشنما تقریریں کرتے ہوئے وہ یہ بات بھول رہاتھا کہ وہ یہ ساری لفاظی ایمرجنسی کی حالت میں کر رہاہے ۔جو کہ آرمی اور دیگرریاستی فورسزکی جانب سے نافذکی گئی ہے۔یہ ریاستی فورسزاور حکمران طبقے کا پرانا آزمودہ طریقہ ہے کہ عوام کے احتجاج کو دبا دیاجائے اور پھر وہی کچھ کیا جائے جو کیا جاتارہاہے۔جمہوریت کو درحقیقت ریاست کو درپیش ایمرجنسی کی کیفیت سے نکالنے کیلئے کام میں لایا جارہاہے ۔ایمرجنسی کے تحت تین سے زائد افرادکے جمع ہونے پر پابندی اور رات کے وقت کرفیوکی صورت میں نافذ کی جاچکی ہے۔سیکورٹی فورسز کو حکم جاری کیا گیا ہے کہ جوبھی حکم عدولی کرتا ملے اسے گولی مار دی جائے ۔ سامراجیوں کی منافقت

تیونس میں ہونے والے سلسلہ ء واقعات نے واشنگٹن پیرس اور لندن میں بیٹھے حکمرانوں کے کانوں میں گھنٹیاں بجا دیں۔ان کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ کچھ ہوگا اور اتنا کچھ ہوجائے گا۔کچھ بھی ان کے قابو میں نہیں رہاتھا۔انقلابات کبھی بھی سرحدوں کا احترام نہیں کیا کرتے ۔اب بھی یہی ہوا،سامراجیوں نے اس خطے کو جس طرح اپنے مذموم مقاصد کیلئے تقسیم کیاتھا اور سرحدوں کی لکیریں کھینچی تھیں ،تیونس کے انقلابی واقعات نے ان لکیروں اور سرحدوں کو تہس نہس کردیا۔ شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ امریکہ ،اور خاص طورپر فرانسیسی سامراج کے معاشی اور سٹریٹجک مفادات میں انتہائی اہمیت کے حامل چلے آرہے ہیں۔بی بی سی کے ایک تجزیہ نگار مغادی عبدالہادی نے کہا ہے کہ ’’بن علی کی رخصتی ،عرصے سے شمالی افریقہ اور عرب خطے میں قائم ودائم بعد ازنوآبادیاتی سامراجی ڈھانچے اور انتظام وانصرام کو اکھاڑنے کا موجب بن سکتی ہے ‘‘۔یہ تجزیہ بالکل درست ہے اوریہی اس وقت سب کی توجہ اور دلچسپی کا مرکز ومحورہے۔

اب جبکہ تیونس کے عوام نے اپنی شاندار جراتمندانہ تاریخی جدوجہدسے ایک مطلق العنان حکومت کا تخت اکھاڑ پھینکاہے ۔سبھی مغربی حکمران ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر جمہوریت جمہوریت کا ڈھول بجانا شروع کر چکے ہیں۔فرانس کے صدر سارکوزی نے کہاہے کہ وہ اپنے تیونس کے بھائیوں کے ساتھ ہے اور پہلے کی طرح ان کے شانہ بشانہ اپنی خدمات جاری رکھے گا۔جس کمال مکاری کا مظاہرہ سارکوزی کررہاہے ،اس کے اعتراف کیلئے ناگزیرہوچکاہے کہ منافقت کا بھی نوبل پرائز ہوناچاہئے اور وہ سب سے پہلے سارکوزی کو ہی ملنا چاہئے ۔کیونکہ چہار دانگ عالم میں اس وقت اس کاکوئی ثانی ہے نہ مدمقابل۔ اپریل2008ء میں اپنے تیونس کے دورے کے دوران،سارکوزی نے قراردیاتھا کہ ’’آپ کا ملک عالمگیرانسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کی ترویج وترقی کیلئے کوشاں ہے ‘‘ جبکہ اس کے کچھ ہی دنوں بعد آئی ایم ایف کے مینیجنگ ڈائریکٹرسٹراس کاہن نے قراردیاتھا کہ’’بن علی کی حکومت بیشتر ابھرتی معیشتوں کیلئے ماڈل کا درجہ اختیارکرچکی ہے ‘‘۔اسے ان صاحبان کی لاپرواہی اور احمق پن نہیں قراردیاجاسکتا۔کئی دہائیوں سے تیونس میں انسانی حقوق کی کھلے عام دھجیاں اڑائی جارہی تھیں لیکن یہ سب کچھ کے باوجود بھی فرانس کا صدر اور کئی دوسرے حکمران 2009ء کے الیکشن میں ہونے والی دھاندلی کے باوجود بن علی کو کامیابی پر مبارکبادیں پیش کرتے رہے ۔اب یہی صاحبان اقتدار بیان پر بیان داغتے جا رہے ہیں کہ’’مذاکرات؛صرف مذاکرات ہی واحد راستہ ہیں جن کی مددسے موجود بحران پر قابو پایاجاسکتاہے اور ایک جمہوری و دیرپاحل نکالاجاسکتاہے‘‘۔

بھیڑیے اپنا اسلوب بدل رہے ہیں تاکہ عوام کو پھر سے شکارکرنے کی راہیں ہموارکی جاسکیں۔انقلاب میں مصروف عمل عوام کو روکنے کیلئے کہا جارہاہے کہ وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑکر دوستانہ مذاکرات کا راستہ اپنائیں۔لیکن کس کے ساتھ؟ان کے ساتھ جو نسلوں اور دہائیوں سے ان کے ساتھ ناانصافیاں کرتے آرہے ہیں ؟ان کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھایاجائیکہ جن کے ہاتھ انسانوں کے اور ان کی امنگوں ان کی ضرورتوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں؟آخروہ کون ہمدردہے جو اس قسم کی نصیحتیں کررہاہے !یہ وہی ہمدرد تو ہے کہ جو اکھاڑ پھینکے جانے والے صدرکے ساتھ آخری دم تک اس کا حمایتی وسرپرست بنارہا۔۔عوام کی سرکشی کے دوران سارکوزی چپ تھا اور اس کی حکومت سرتوڑ کوشش کرتی رہی کہ وہ اپنے گماشتے آمربن علی کی حکومت کو کسی نہ کسی طرح بچالے۔

اس وقت جب تیونس کے نہتے لوگوں پر گولیاں چلائی جارہی تھیں تب فرانسیسی حکومت کے ترجمان نے اس کی مذمت کرنے سے یہ کہہ کر انکارکردیاکہ یہ ’’ان کے اندرونی معاملے میں مداخلت ہوگی‘‘۔کئی عرب افریقی ملکوں میں موجود فرانسیسی فوج کی مستقل موجودگی بھی اسی قسم کی عدم مداخلت کے اصول پر ہی مبنی ہے۔اور یہ فوج اپنے زیر نگیں ان ملکوں کے معاملات میں ہرگزکوئی مداخلت نہیں کرتی۔آخر تہذیب بھی کوئی معنی رکھتی ہے ۔ فرانس کے وزیر زراعت برونو لیمائر نے البتہ کھلے عام اپنے گماشتہ آمرکی حمایت میں بیان دیاہے اور کہاہے کہ ’’لوگ بن علی کو درست طور سمجھ ہی نہیں سکے ،حالانکہ اس نے بہت بڑی عوامی خدمات بھی سرانجام دی ہیں‘‘۔اب یہ خدمات کون کون سی ہیں اور کب کی ہیں،اس کی نشاندہی وزیرموصوف نے بھی نہیں کی ۔اس کی نشاندہی البتہ فرانس کے وزیر خارجہ الائٹ میری نے یہ کہہ کے کردی کہ’’ بن علی کی ہماری سیکورٹی فورسزکے ساتھ مثالی ہم آہنگی تھی‘‘۔شاید اسی ہم آہنگی کے پیش نظر ہی فرانس 73سالوں سے چلی آنے والی اپنی اس نوآبادی میں موجودومسلط آمریت کو مسلسل سپورٹ کرتاچلا آرہاتھا۔ایک پرانی کہاوت میں درست ہی کہاگیاہے کہ پرانی صحبتیں مشکل سے ہی چھوٹتی ہیں۔

تیونس میں نہتے لوگوں پر ریاستی جبروتشددکے بہیمانہ خونریزواقعات کے بعد فرینکوئس فیلون نے کہا کہ اسے تیونس میں پرتشددواقعات کے ہونے پر سخت تشویش ہے ۔گویا اس نے مرنے اور مارنے والوں کو ایک ہی صف میں کھڑاکردیا۔ہمیشہ کی سی چال بازی سے کام لیتے ہوئے اس نے ہر دوفریقین سے مطالبہ کیا کہ وہ صبروبرداشت کا مظاہرہ کریں اور مذاکرات کا راستہ اپنائیں۔لیکن شومئی قسمت مذاکرات کا مشورہ دینے والے کسی ایک نے بھی یہ وضاحت نہیں کی کہ مذاکرات کب کیسے اور کس کے ساتھ کیے جائیں؟کیاپولیس کے ساتھ کہ جو نہتے لوگوں کو مارتی چلی آرہی ہے !

اب جبکہ کھیل کا پانسہ پلٹ چکاہے ،سبھی اہلیان مغرب اورگماشتگان جمہوریت،تیونس کے عوام کو مشوروں پر مشورے دینے میں مصروف ہوچکے ہیں۔اور تو اور پیرس کے بعد جناب اوبامہ کو بھی پتہ چل چکاہے کہ تیونس میں تو عوام کے ساتھ سرکار نے بہت انیائے کرڈالاہے۔چنانچہ اوبامہ نے اس کا سخت نوٹس لیتے ہوئے عوام پر ریاستی جبروتشددکی شدیدمذمت کی ہے جو کہ پر امن طریقے سے اپنے مطالبات کیلئے آواز بلندکر رہے تھے۔لیکن ہم وکی لیکس کی وساطت سے یہ بھی جان چکے ہیں کہ اسی اوبامہ کو تیونس میں ہونے والی ہر بدعنوانی وبدمعاشی کا بخوبی علم تھا لیکن تب اس نے اس بارے ایک لفظ بھی منہ سے نکالناگوارانہیں کیا۔اب یہی اوبامہ کہہ رہاہے کہ’’ میں تیونس کے بہادرعوام کی جرات اور عظمت کو سلام پیش کرتاہوں‘‘۔مگر پھر اس کے ساتھ ساتھ اس نے یہ بھی کہا کہ’’ میں سبھی فریقین سے اپیل کرتاہوں کہ وہ مزیدکچھ نہ کریں،لڑائی جھگڑے سے گریزکریں۔تیونس کی حکومت کو اوبامہ نے نصیحت کی ہے کہ وہ انسانی حقوق کا احترام کرے۔اور فری اینڈ فیر الیکشن کا انعقادیقینی بنائے ۔جو آگے چل کر تیونس کے عوام کی امنگوں کا حقیقی آئینہ دار ثابت ہوگا‘‘۔ اوبامہ سمیت ہر ایک ،یہی جمہوری پندونصائح بیان کرنے میں لگ گیاہے ۔یہ لوریاں ہیں اورلوریوں کا ایک ہی مقصد ہواکرتاہے کہ لوگوں کو سلا دیاجائے ۔لوگوں سے کہا جارہاہے کہ وہ شانت ہوجائیں،کوئی گڑبڑ نہ کریں ،قانون کا احترام کریں وغیرہ وغیرہ۔یہ بات کسی طور عجیب وغریب نہیں ہے کہ ایسا صرف عوام کو ہی کہاجاتاہے کہ وہ شانت رہیں،کچھ نہ کریں اور گڑبڑنہ کریں۔لیکن مٹھی بھر حکمران اشرافیہ جو بھی جیسابھی کرتی رہے تب اس قسم کی آوازیں اور نصیحتیں کہیں سے بھی سامنے نہیں آتیں۔ لوگ،عام لوگ جو کہ انتہائی بہادری اور برداشت کے ساتھ پولیس کی گولیاں کھاتے اور ان کامقابلہ کرتے آرہے ہوتے ہیں ،اور اس دوران اپنے ساتھیوں اپنے بہن بھائیوں کو ان گولیوں کا شکارہوتے ،بوٹوں کی ٹھوکروں کھاتے،آنسوگیس سے لڑتے،گرفتارہوتے،حتیٰ کہ جان دیتے ہوئے دیکھتے ہیں۔یہاں تک کہ ان کے گرفتارشدہ پیاروں تک رسائی بھی ناممکن کر دی جاتی ہے ۔اب انہی لوگوں سے یہ کہا جاتاہے کہ مہربانی کریں،چپ ہوجائیں،صبروتحمل کا مظاہرہ کریں،گلیوں اور سڑکوں پر سے گھروں کو واپس لوٹ جائیں،تاکہ بدمعاشوں کا حکمران ٹولہ دوبارہ سے اپنے کام پر جت جائے۔یہ سب پندونصائح عام انسان کی ذلت میں اضافے کے سواکوئی معنی نہیں رکھتے۔یہ محض ایک بیہودہ مذاق ہے۔

جب بغاوت کے شعلے پھیلتے ہیں تیونس اور پڑوسی ملک الجیریامیں لوگوں کی سرکش بغاوت کا پھیلاؤ،سارے شمالی افریقہ سمیت پوری عرب دنیا کیلئے خطرے کی گھنٹی بجا چکاہے جس کی وجہ سے شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ کی سبھی بدمعاش وبدعنوان حکومتیں لرزنا شروع ہوگئی ہیں۔ہر ایک ملک میں جہاں تیونس جیسے مسائل نے عوام کو اپنے جبڑوں میں لیاہواہے ،وہاں بھی مزدوروں کسانوں اور نوجوانوں کی ایسی ہی سرکشیاں آنے والے دنوں کا منظرومقدر بن سکتی ہیں۔ پڑوسی ملک الجیریا میں سرکشی کا رونماہونااسی امکان کے ممکن ہونے کی غمازی کرتاہے۔جہاں حالیہ دنوں میں ہی چینی ،دودھ،اورآٹے کی قیمتوں میں اضافہ کردیاگیاتھا۔جس پر احتجاج پھوٹ پڑا اور کم از کم بیس افراد ہلاک ہوگئے ۔الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق وہاں نوجوان سڑکوں پر نکل کر ہمیں چینی چاہئے ؛آٹا چاہئے،کے نعرے لگاتے سڑکوں پر نکل آئے ۔مظاہرین نے گوداموں کو لوٹنا شروع کردیااور ان میں ذخیرہ کی گئی خوراک کے تھیلے اٹھا لئے گئے ۔کیونکہ حکومت نے ان کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کر دیاتھا۔جنوری کے مہینے کے پہلے ہفتے میں ہی 20سے30فیصد اضافہ کردیاگیا۔الجیریا کی حکومت نے بھی عوام کے غصے کو ختم کرنے کیلئے امپورٹ ڈیوٹی اورٹیکسوں میں فوری کٹوتی کا اعلان بھی کیا تاکہ قیمتوں میں کمی کی جاسکے ۔لیکن کچھ بھی نہیں ہوسکاہے اور صرف یہ ہواہے کہ سارے ملک میں خوراک پر’’ فسادات‘‘پھوٹ پڑے ہیں۔الجیریا کے کئی شہروں کے اندر تصادم تب شروع ہوئے جب حکومت کی طرف سے یہ اعلان کیاگیا کہ وہ اشیائے ضرورت کی قیمتوں کو سنبھالنے کیلئے اقدامات کرے گی۔لیبیا،اردن اور مراکش کی حکومتوں نے بھی غذائی اشیاء کی قیمتوں پر قابو پانے کیلئے فوری اقدامات کر رہی ہیں ۔لیکن الجیریا میں صورتحال ابھی تک پریشان کن ہے۔ہمیں یادرکھنا چاہے کہ الجیریا کے جنوبی بربرریجن کے علاقے کبیلیا میں 2001ء کا سارا سال ایک سرکشی چلتی رہی تھی۔مراکش کے اندر بھی شاہ محمدششم کی سلطنت انتہائی غیر مستحکم چلی آرہی ہے ۔ اور وہاں ویسی ہی کیفیت موجود ہے جیسی تیونس میں تھی اور ہے ۔ بن علی کے خاتمے سے پہلے، الشرق الوسط نامی اخبار کے کالم نگار عبدالرحمان الرشید نے لکھا کہ ’’ایک سول نافرمانی اور سرکشی کے راستے میں جو ایک چیز رکاوٹ بنی ہوئی ہے،وہ محض ایک نفسیاتی اجتناب ہے ‘‘۔اب بن علی کی آمریت کے خاتمے اور اس کے بعد الجیریا میں غذائی بحران بارے ہونے والی سرکشی نے خوف کے اس غبارے سے ہوانکال دی ہے جو لوگوں کے دماغوں یا مزاجوں میں موجودتھا اور جو انہیں اپنی نفرت اپنے غم وغصے کے اظہار سے مسلسل اور اب تک روکے چلا آرہاتھا۔سیٹلائٹ نیوز اورسوشل میڈیااس قسم کے سبھی مطلق العنانہ حاکمیتوں کے طور طریقوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے اور دوردرازکے تنہا خطوں میں موجود مضطرب و بیتاب نوجوان نسل کے غم وغصے کو بھڑکانے کا موجب بن سکتاہے۔ اور انہیں ایک بڑی وسیع تحریک میں تبدیل کرسکتاہے۔

بغاوتوں کے شعلے اب دوسری عرب ریاستوں کے اندر بھی بھڑکنے شروع ہو گئے ہیں۔تیونس میں ہونے والی انقلابی تحریک کو آس پاس کے ٹیلیویژن چینلوں اور انٹرنیٹ پر دیکھاسنا اور پڑھا جارہاہے ۔جہاں کی نوجوان نسل کو بیروزگاری کے عفریت نے اپنے خونی جبڑوں میں جکڑاہواہے ۔اور جہاں افراط زرمیں مسلسل اضافہ ، زندگی کی اذیتوں میں اضافہ کرتی آرہی ہے اور جہاں امیراور غریب کے درمیان خلیج اتنی وسیع ہوچکی ہے کہ جو اس غم وغصے اور غیض وغضب کو مزید آتش بجاں کرتی جارہی ہے ۔ الجیریا،تیونس کا ہمسایہ ملک ہے لیکن عمان تو یہاں سے پندرہ سو میل دور واقع ہے ۔لیکن وہاں جو احتجاج ہورہاہے اس کی وجوہات وہی ہیں جو تیونس میں احتجاج کی تھیں۔وہاں بھی احتجاج کرنے والوں نے اپنے حکمرانوں کی رخصتی کا مطالبہ اور نعرہ لگایا۔اپنے پاؤں تلے سے زمین کھسکتی دیکھ کر شاہ عبداللہ ثانی نے فی الفور ہی ایندھن اور کچھ غذائی اشیاء کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کردیا۔حکومت نے یہ بھی اعلان کر دیاہے کہ وہ ا س سال کے بجٹ میں روٹی پر141ملین پونڈزکی سب سڈی فراہم کرے گی ،جس پر ملک کے ستر لاکھ غریب انسان گزاراکرتے ہیں۔ایندھن کی قیمت کو قابو میں رکھنے کیلئے رقم صرف کرنے کا اعلان کیا گیاہے ۔اسی طرح روزگار پیدا اور فراہم کرنے کا بھی اعلان کیاگیاہے ۔لیکن یہ سبھی مراعات بہت دیر بلکہ بہت ہی دیر بعد سوچی اور اعلان کی گئی ہیں۔

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق اردن مین لوگ یہ نعرے لگا رہے ہیں ؛اردن محض امیروں کاملک نہیں؛روٹی سب کیلئے سرخ نشان بن گئی ہے؛ہماری بھوک اور ہمارے غضب سے پناہ مانگو؛۔۔۔یہاں اردن میں ’’یوم بھوک ‘‘منایا گیا جس میں ہزاروں نوجوانوں نے شرکت کی اور جنہوں نے غذائی اشیاء کی قیمتوں میں شدیداضافے پر احتجاج کیا ۔یہ عین اسی دن اسی وقت ہورہاتھا کہ جب تیونس کا آمرعوامی غم وغصے سے ڈر کر ملک سے بھاگ رہاتھا۔اردن یونیورسٹی کے طلبہ اور بعث پارٹی کے سپورٹروں نے اربد ،کرک،سلت اور مان کے علاقوں میں مظاہرے کئے ۔اور جن میں وزیراعظم سمیر رفاعی کے استعفیٰ ؒ کا مطالبہ کیاگیا۔رپورٹوں میں بتایاگیاکہ پولیس نے مظاہروں کو اپنے گھیروں میں لئے رکھا لیکن کسی کو گرفتار نہیں کیاگیا۔بعد ازاں تیونس کے واقعات اور اس کے نتیجے سے ڈر کر اردن انتظامیہ نے طے کیا کہ لوگوں کو جبروتشددکے ذریعے دبانے سے معاملات بگڑ بھی سکتے اور گلے بھی پڑ سکتے ہیں۔اردن سے وابستہ بلاگ عمان نیوزکے مطابق ،جس دن یوم منایا جارہاتھا ،اس دن جو نعرے لگائے گئے؛ہمارے طبقے کو اکٹھا ہونا ہوگا کیونکہ حکمران اکٹھے ہوکر ہمارا خون پیتے جارہے ہیں:اس دن جو پوسٹر اور بینرآویزاں کئے گئے ان کے ساتھ روٹیاں چپکائی گئی تھیں۔جن پر درج تھا کہ ’’ہم حکومت کی پالیسیوں پر احتجاج کررہے ہیں جن کی وجہ سے قیمتیں برداشت سے باہر ہو چکی ہیں جبکہ اردنی عوام پر ٹیکسوں پر ٹیکس لگا کرانہیں بغاوت وسرکشی کی طرف دھکیلتی جا رہی ہے ۔

خبر رساں ادارے رپورٹرز کے نمائندے ٹام پفائفر کی ہفتہ پندرہ جنوری کی ایک رپورٹ میں ایک انتہائی دلچسپ بات لکھی گئی ہے ۔مصر کے ایک کیفے کے مالک ایمانے، نے کہا ہے کہ ’’ایسا ہر جگہ ہوسکتاہے ؛ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ پر ہم دیکھ رہے ہیں کہ کل تک سرجھکائے لوگ ،اب اپنے سراٹھاکر چلنے لگے ہیں ،ان کی گنگ زبانیں اب بولنا شروع ہو چکی ہیں اور ان کے مانگتے ہاتھ اب چھیننے کیلئے اٹھنے لگے ہیں‘‘۔ایک اورتئیس سالہ لبنانی نوجوان کمال محسن نے کہا ’’دنیا کے اس خطے میں اب جو ہورہاہے ،یہاں ایسا کبھی نہ سوچا نہ ہی دیکھا گیا؛یہ تو سب ایک خواب سا لگتا ہے ؛پہلے یہی لوگ کہتے ہوتے تھے ہم بھلا کیا کرسکتے ہیں؟ہمارے بس میں ہے ہی کیا؟میں سمجھ چکا ہوں اور یہ چاہوں گا کہ عرب خطے کے سبھی نوجوان سڑکوں پر نکل آئیں ۔اور وہی کریں جو تیونس میں ہواہے ۔وقت آگیاہے کہ ہم اپنے حق طلب کریں۔عرب حکمرانوں کو خوفزد ہ ہونابھی چاہئے کیونکہ ابھی تک انہوں نے بھی اپنے لوگوں کو سوائے خوف کے کچھ نہیں دیا ۔اور جب تیونس کے لوگ جیتتے ہیں تو یہاں وہاں بھی خوف ٹوٹ جائے گا۔اور پھر جو ہوگا وہ دنیا دیکھے گی۔یہ اب کچھ ہی دنوں کی بات رہ گئی ہے ‘‘۔

سبھی عرب ملکوں میں سب سے اہم مصر ہے ۔جہاں ایک انتہائی طاقتورمحنت کش طبقہ موجودہے۔یہاں کی کیفیت بارے لبنان کے ایک جریدے ڈیلی سٹار نے ابھی ایک مضمون شائع کیاہے ۔جس میں لکھا گیاہے کہ ؛ ’’عرب خطے میں انقلاب کیلئے جو بھی سوچ رہاہے ،اس کی نظریں سب سے زیادہ مصر کی طرف اٹھتی ہیں۔جو کہ اپنے79لاکھ لوگوں کی آبادی کے نصف سے زیادہ لوگوں کی غذائی ضروریات کو درآمد کرتا آرہاہے ،اور جو اب افراط زر کی زدمیں آچکاہے جو کہ دس فیصد سے بڑھ چکی ہے‘‘۔ مصر کے پاس ایک بھاری عسکری قوت ہے جو کسی بھی بڑی عوامی سرکشی کو کچلنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔وہاں اخوان المسلمون پر پابندی عائد ہے ۔ریاست کو اس وقت سب سے شدید خطرات دریائے نیل کی بیلٹ میں واقع انڈسٹریل ایریا کے مزدوروں سے ہیں اور جو ہڑتالیں کرتے چلے آرہے ہیں۔ مصر کی انٹرنیٹ پر چلائی جانے والی کمپین برائے سیاسی تبدیلی،کو ملک کی سب سے موثر سیاسی آواز کا مرتبہ حاصل ہوچکاتھا، کمزورہوچکی مڈل کلاس، غریب طبقے کو سڑکوں پر آنے سے نہیں روک سکی ۔لندن یونیورسٹی میں مشرق وسطیٰ کے ماہرلالے خلیلی کا کہنا ہے کہ مصرمیں سیاسی اور معاشی جدوجہدوں میں ایک بڑافاصلہ چلا آرہاہے ۔وہاں ہڑتالیں ہوتی ہیں بڑی ہڑتالیں مگر جو عام لوگوں میں اپنی آواز نہیں لے جا سکتی ہیں۔لیکن اب غذائی اشیاء کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر اٹھنے والے شور محشر کی بدولت ممکن ہوسکتاہے کہ سیاست اور معیشت کے مابین فاصلہ اور تعطل ختم ہوجائے ۔مواقع اور آزادی اب اپنا راستہ بنائیں گے اور اظہار کریں گے‘‘۔ آئی ایم ایف نے انتباہ کیا ہے کہ خطے میں بیروزگاری کا مسئلہ انتہاؤں کو چھورہاہے اور اس سے نمٹنے کیلئے خطے میں 2020ء تک 100ملین روزگار کو پیدااور فراہم کرنا ہوگا۔لیکن ایک ایسی کیفیت میں کہ جب سبھی ملکوں کے بجٹ کا بڑا حصہ ہی ایندھن اوردوسری بنیادی اشیاء کی درآمدات پر خرچ کیا جارہاہو ،ایسا کرنا محال ہی نہیں ناممکن ہوگا خصوصاًان ملکوں میں جہاں توانائی کے ذرائع کم یا ناپید ہیں۔خارجہ تعلقات کی امریکی کونسل کے سٹیفن کک نے کہا ہے کہ ’’کہیں کوئی خطرہ محسوس ہورہاہے ۔پہلے عرب ریاست اس دلیل سے نمٹ لیا کرتی تھی ۔ میں یہ نہیں کہہ رہاکہ حسنی مبارک یا پھر عرب کے کسی اور مرد آہن کے آخری دن آچکے ہیں۔ہاں مگر خطے میں کچھ نہ کچھ ہونے جارہاہے‘‘۔

ایک انقلابی تناظر کی ضرورت بورژوازی کے ماہرین ومفکرین قرار دیتے ہیں کہ تیونس کی مثال ،تیونس تک ہی رہے گی اور یہ کہیں اور نہیں پھیلے گی۔اور نہ ہی یہ رباط سے ریاض تک قائم مطلق العنان حکمرانیت کیلئے خطرہ بنے گی۔کیونکہ ،ان کے بقول یہاں اپوزیشن اتنی کمزور اور نحیف ہے کہ وہ کچھ کرنے جوگی ہی نہیں۔اور یہی وہ حقیقت ہے جسے وہ بھول رہے ہیں۔تیونس میں جو ہوا ،اسے کسی طور کسی اپوزیشن نے منظم ومتحرک نہیں کیاتھا ۔اور اپوزیشن واقعی وہاں کمزور اور دیوالیہ ہے ۔تیونس میں جو ہوا وہ عوام کی خودروتحریک تھی ۔اور اسے روکنا بھی اس لئے محال اور ناممکن ہوسکا کہ اسے کنٹرول کرنے والی کوئی ’’باقاعدہ پارٹی یا اپوزیشن‘‘موجود نہیں تھی۔جو کہ تحریک کو اپنی مرضی سے چلاتی بھی روکتی بھی۔کسی اصلاح پسند پارٹی کی کمزوری یا غیرموجودگی کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ مطلق العنان شخصی حکومتیں، ہر قسم کے خطرے اور مزاحمت سے آزاد ہو چکی ہیں۔یہ کمزوری در اصل ان حکومتوں کی کمزوری ہی کا دوسرا نام ہے ۔ایسے ملکوں میں عوام جب حرکت میں آتے ہیں تو ان کی حالت اس کار کی جیسی ہوتی ہے جس کی بریکیں کام نہیں کررہی ہوتیں۔ جیساکہ ہم ایران کے تعلقات کے حوالے سے پہلے کہہ چکے ہیں کہ کسی بھی تحریک کاخودرو ہونا اس کی بیک وقت طاقت بھی ہوتی ہے اور اس کی کمزوری بھی۔تیونس میں عوام کی یہ طاقت ایک بدعنوان آمر کو اکھاڑ کر پھینک سکی۔لیکن سوال یہ ہے کہ اب کیا ہوگا آگے!؟!؟ نزار امامی جو کہ PTT UGTT(ٹریڈیونین)کا رہنما ہے، نے سوموار کے دن تیونس میں اخبارنویسوں سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ہمارا سب سے بڑامسئلہ ایک سیاسی تناظرکی کمی کا ہے ‘‘۔کوئی سیاسی پارٹی نہیں ابھر رہی ہے ۔یہاں جوروایتی اپوزیشن سیاسی پارٹی ،ڈیموکریٹک پروگریسوپارٹی ہے بھی ،وہ سخت کمزور پوزیشن میں ہے۔ UGTTنے اپوزیشن کا کردارسنبھال لیاہے تاکہ تحریک کو نعروں اور مطالبات سے جوڑا،یکجہتی کمیٹیوں کو قائم اور فعال کیا جاسکے ۔لیکن جہاں تک سیاسی مقاصدکامعاملہ ہے ،حکومت انتہائی غیر مستحکم ہو چکی ہے اور یہ ایک انتہائی خوشگوارکن کیفیت ہے‘‘۔

ڈرہام یونیورسٹی میں سکول آف گورنمنٹ اینڈانٹرنیشنل افیرز میں تیونس کے امور کی ماہر پروفیسرایمامرفی سے بی بی سی نے ایک سوال پوچھا کہ کیا تیونس کی اپوزیشن عوام کی ضروریات کو پورا کرسکنے کی اہل ہے ؟تو اس نے یہ جواب دیا؛

’’میرے خیال میں شاید نہیں۔لیکن اگر جمہوریت آتی ہے تو لیڈرشپ کونسل کو پہلے ہی سے یہ یقین دہانی کرانی ہوگی کہ سیاسی پارٹیوں کے نظام ،الیکشن کے عمل،تنظیم سازی کی آزادی،شہری حقوق،میڈیا کی آزادی،بارے معاملات کو الیکشن سے پہلے طے اور نافذکرناہوگا۔لگائی گئی ایمرجنسی کو فوری طورپر ختم کرناہوگااورانسداد بدعنوانی کیلئے قائم کی گئی کمیٹی کوایسے فوری اقدامات کرنے ہوں گے کہ جن سے پتہ چلے کہ بن علی اور طرابلیسی حکومتوں کے دوران جو کچھ ہوا ،اس کی چھان بین کی جائے گی تاکہ تیونس کے عوام کو مطمئن کیاجاسکے کہ �آئینی اقدامات واقعی نتیجہ خیز بھی ہواکرتے ہیں۔اگر قومی مصالحت کوئی معنی یا وجودرکھتی ہے تو اسے لوگوں پر واضح کرناہوگا۔اور یہ بھی کہ فوج کا کام ملک و قوم کی حفاظت کرناہوتا ہے نہ کہ مٹھی بھر مطلق العنان حکمرانوں کی ‘‘۔

ہم انتہائی اعتماد کے ساتھ یہ پیشین گوئی کر سکتے ہیں کہ جمہوریت کے عظیم دوستوں کی فوج ظفر موج آنے والے دنوں اور ہفتوں کے اندرتیونس پر چڑھ دوڑے گی ۔اسی طرح آزاد ٹریڈ یونینوں کے نمائندے بھی ڈالروں سے بھرے ہوئے بریف کیسوں کے ساتھ ،یورپی یونین اور امریکہ سے سوٹ بوٹ میں ملبوس حضرات ،درجنوں این جی اوز کے کارندے ،’’دی سوشلسٹ انٹرنیشنل‘‘کے ڈیلیگیٹ،فریڈرک ایبرٹ فاؤنڈیشن اور سی آئی کے دوسرے معزز اداروں کے اصحاب گرامی،اپنی اپنی نصیحتوں اور مشوروں سے تیونس کو نوازنے آئیں گے اوراس کارخیر کیلئے قابل ذکر مادی وسائل بھی ساتھ لائیں گے۔اور ان سبھی خیرخواہوں کا صرف اور صرف ایک ہی مقصدہوگا؛نظم و نسق کی بحالی۔ نظم ونسق کی بحالی کیلئے کئی راستے اور ذریعے ہو سکتے ہیں ۔ایک ردانقلابی رجعتی حکومت بھی مسلط کی جاسکتی ہے اور جو بدترین آمریت کی شکل بھی دھار سکتی ہے۔بن علی گولیوں اور دھونس دھاندلی سے جوکچھ حاصل نہیں کر سکا،اس کے بعد آنے والے حکمران وہ سب کچھ اپنی خوش مزاجی اور خوش کلامی کی بدولت حاصل کر لیں گے ۔اس خوش کلامی و خوش مزاجی کو ڈالراور یوروکی معاونت بھی یقینی طورپر حاصل ہو گی۔تاہم مقصد ایک ہی اور وہی ہوگا کہ کسی طرح لوگوں کو سڑکوں پر سے ہٹایاجائے اور انہیں واپس گھروں کو بھیجا جائے ۔مزدوروں کوبھی کام کی جگہوں پر واپس بھیجا جائے اور طالبعلموں کو بھی کہا جائے کہ وہ جاکر اپنی تعلیم پوری کریں اور احتجاجوں میں اپنا وقت اورتوانائی ضائع نہ کریں ۔ان کا سب سے زیادہ زور ان کی سب سے بڑی تمنائے حیات اس وقت یہی ہے کہ کسی طور معمول کو واپس معمول پر لایاجائے ۔لوگوں کو ایک بارپھر خوئے غلامی کی طرف مائل کیا جائے لیکن ایک نئی شکل اور طرز میں ۔

ان جمہوریت فروش منافقوں پر کسی طور کسی بھی طرح اور سطح کا اعتماد نہیں کیا جاسکتا ۔یہ خود نمائشی وخودستائشی قسم کی حکومتیں ہی تھیں جو اب تک بدعنوان آمر بن علی کی مکمل تائیدوحمایت کرتی آرہی تھیں۔مغرب کے بڑے کاروباروں نے تیونس میں سے بھاری بھرکم منافع کمایاہے ۔انہیں کیا شکایت اور کیسی تکلیف کہ وہاں مزدوروں کی اجرتیں کم ہیں!یہی کم اجرتیں ہی تو ان کیلئے بھاری منافعوں کا بنیادی ذریعہ بنی آرہی ہیں۔دہائیوں تک مغرب کے یہ معزز جمہوریت پسند خواتین وحضرات تیونس کی یک شخصی آمریت کی پشت پناہی کرتے رہے اور وہاں ہونے والی زیادتیوں پر چپ سادھے رکھی۔کیونکہ یہ وحشی اور بدعنوان حکومت ان کے منافعوں کیلئے دیدہ و دل فرش راہ کئے آرہی تھی ۔ا ب جبکہ عوام نے اس حکومت کو اچانک اور یکسر اکھاڑ کر پھینک دیاہے اس لئے یہ جمہوریت باز حضرات عوام کو بھی چپ سادھ لینے کا واویلا مچانا شروع کرچکے ہیں۔

چیزیں انتہائی تیزی سے بدل رہی ہیں ۔اس وقت جبکہ میں یہ سطریں لکھ رہاہوں ،خبر آگئی ہے کہ وزیراعظم کوبھی ہٹادیاگیا ہے اور اس کی جگہ سپیکر پارلیمنٹ فوادمبازہ نے عنان اقتدار اپنے ہاتھوں میں سنبھال لیاہے ۔جو کہ ایک نئی قومی حکومت تشکیل دینے کے ساتھ ساتھ ،دوماہ کے اندر نئے الیکشن کرانے کا پروگرام سامنے لایاہے ۔اس سے اندازہ ہوتاہے کہ حکومت کس قدر نحیف اور شکستہ ہوچکی ہے ۔

تیونس کے مزدورواور نوجوانو!آپ کو اپنا دفاع خود ہی کرنا ہوگا ۔اپنی جنگ خودہی لڑنی ہوگی۔جو کچھ آپ کو حاصل ہواہے وہ خود آپ ہی کی اپنی جراتمندانہ طاقت اور قربانیوں کی بدولت ہی ممکن ہواہے ۔کسی کو بھی اجازت نہ دی جائے کہ جو کچھ خون کی بازی لگا کر جیتا گیاہے، اسے دھوکے بازی سے واپس ہتھیا لیاجائے ۔شعلہ بیان تقریروں اور خوش گمان وعدوں پر قطعی کوئی بھروسہ نہ کیاجائے ۔صرف خود کی اپنی طاقت پر ہی اعتماد اور بھروسہ کیاجائے ۔خود کو خود ہی منظم اور متحرک کرنا شروع کردیں۔خود اپنی ہی استقامت کو اپنا رہنما بنایاجائے۔ ایک قومی مفاہمتی حکومت کے قیام کا آئیڈیا کہ جس میں سبھی جائز قانونی سیاسی پارٹیاں شریک ہوں گی ،یا وہ چند ایک عناصر کہ جنہیں وہاں کی فورسز ملک کے استحکام سمیت، امریکہ اور یورپی یونین جیسے اتحادیوں کے تعلقات کیلئے خطرہ نہ سمجھتی ہوں۔یہ ایک نیا جال نیا دھوکہ نیا کھلواڑہے ۔قانونی اور جائز اپوزیشن، اصل میں ایسے بزدل ،کم نظر،موقع پرست عناصر کا وہ ملغوبہ ہے جو کہ اب تک بن علی کی بدعنوانی اور آمریت دونوں کا براہ راست یا بالواسطہ حصہ رہی ہیں ۔تیونس کے عوام کسی طور بیوقوف نہیں ہیں کہ انہیں میٹھے میٹھے الفاظ کی چکنائی سے بہلا پھسلا کر دوبارہ آسانی سے استحصال کی بھٹی میں جھونک دیاجائے گا۔کسی طور بھی لوگوں کو حرکت سے نہ روکا جائے ہاں البتہ ان کی حوصلہ افزائی کی جائے اور ان کی رہنمائی کی جائے کہ کیسے مزید متحرک و منظم ہوناہے ۔جو جو ضرورت ہے اس کا اظہار کیا جائے ۔پرانی حکمرانی اور آمریت کی ذراسی باقیات کو دوبارہ نہ آنے دیاجائے۔ان جابروں ظالموں کو کسی طور بھی جمہوریت کے نئے نقاب کے ساتھ قبول نہ کیا جائے ۔گفت وشنید کرنے کا وقت بہت پہلے گزر چکاہے ۔اب آگے کوئی مزید سازش نہیں ۔حکومت مردہ باد!ایمرجنسی کو فوری طورپر ختم کیا جائے ۔لوگوں کو کہیں بھی کبھی پوری طرح اکٹھا ہونے اپنی تنظیم کرنے اپنا اظہارکرنے کا حق استعمال میں لایا جائے۔ایک انقلابی آئین ساز اسمبلی قائم کی جائے ۔سبھی استحصالی ادارے فوری طورپر توڑدیے جائیں اور ان کی جگہ عوامی ٹریبونل تشکیل دیے جائیں جو قاتلوں اور غاصبوں کو انجام تک پہنچائیں۔

ان سبھی تقاضوں اور مطالبات کے حصول کیلئے ایک عام ہڑتال منظم کی جائے ۔صرف محنت کش طبقہ ہی وہ واحد قوت ہے کہ جو پرانے طرزحکمرانی کو اکھاڑکر اس کی جگہ نئی طرز حکمرانی قائم کر اور رکھ سکتاہے اورجو سماج کو اوپر سے نیچے تک ازسرنوتعمیر بھی کرسکتاہے۔پرولتاریہ کو خود کو قیادت کیلے آگے لانا ہوگا۔یہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ اور طریقہ ہے ۔ایک ملک گیر عام ہڑتال کی کال کوUGTTکے اندرنیچے تک پذیرائی مل چکی ہے ۔ایسی رپورٹیں آئی ہیں کہ جن میں مختلف علاقوں میں علاقائی ہڑتالیں منظم کی گئی ہیں ۔ان میں قیصرین،سفاکس،گابس،کیروآن اورجندوبہ کے علاقے شامل ہیں ۔ایک عام ہڑتا ل کو منظم کرنے کیلئے مقامی ،علاقائی اور ملک گیر سطح پر ایکشن کمیٹیاں قائم کی جائیں ۔زندگی ہمیں خود یہ سبق سکھاتی چلی آرہی ہے کہ اپنے لیے آزادی اور انصاف حاصل کرنے کیلئے لوگوں کوخودوہی براہ راست میدان عمل میں اترنا پڑتاہے ۔اس وقت تیونس میں اقتدار کا سوال خالی نکتے پر مرتکز ہوچکاہے ۔یہ لازم ہوچکاہے کہ وہاں لوگوں کو منظم متحرک کیاجائے ۔سبھی لوگوں کو منظم ومتحرک کیا جائے ۔تاکہ پرانی طرز حکمرانی کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اکھاڑ پھینکا جاسکے ۔ ایسی رپورٹیں مل رہی ہیں کہ پچھلی شب بڑے پیمانے پر لوٹ مار کی گئی ہے ۔یہ سار اکچھ پولیس اور بن علی کے ایجنٹوں کا کیا دھراہے ۔ان کا ہدف یہی ہے کہ ایک انتشار پھیلا دیاجائے اور ایسے حالات پیداکردیے جائیں کہ جن کی مددسے انقلاب کوبدنام کرکے دوبارہ اقتدارکا راستہ ہموارکیاجاسکے ۔تاہم اس کے ساتھ ہی ایسی رپورٹیں بھی مل رہی ہیں کہ ایسے علاقوں میں خود حفاظتی کمیٹیاں بھی تشکیل دی جارہی ہیں ۔تیونس کے مزدوروں کو ہرصورت میں اپنے ان سب فوجی بھائیوں کے ساتھ رابطہ استوار اور مستحکم کرنا چاہئے کہ جنہوں نے اس تحریک میں ان کا ساتھ دیا۔ایسی اپیل کی جائے کہ جس میں فوجی کمیٹیوں کے قیام کاکہا جائے اور پھر جنہیں عوام کی کمیٹیوں کے ساتھ منسلک کردیاجائے ۔مزدوروں اور کسانوں کو اپنے تحفظ کیلئے اسلحے کا حصول یقینی بناناچاہئے اور اس کے ساتھ ہی ہر کارخانے ہر کھلیان اور ہر میدان میں عوامی ملیشیا قائم کرنی چاہئے ۔تاکہ انقلابی تحریک کا تحفظ یقینی بنایا جاسکے اور ردانقلاب کے حملے کا دفاع کیا جاسکے۔ انقلاب کی کامیابی کیلئے یہ لازمی عمل ہے۔ عرب مارکسزم کی بحالی

مجھے یقین کامل ہے کہ کئی ایسے احباب سامنے آئیں گے کہ جو مارکسزم کے اساطیر میں خودکو شمارکرتے ہوئے یہ قراردیں گے کہ جو کچھ تیونس میں ہورہاہے ،وہ کسی طور انقلاب ہی نہیں ہے۔ اگر ان سے پوچھاجائے کہ یہ سب کیاہورہاہے تو اس کا بھی کوئی جواب وہ نہیں دے سکیں گے؟؟ اپنی کتاب ’’مسلسل انقلاب‘‘میں ٹراٹسکی نے مینشویکوں کو ایک ایسے پرانے سکول ٹیچر سے تشبیہ دی ہے جوکہ کئی سالوں سے موسم بہار پر بچوں کو سبق پڑھاتاآرہاہوتاہے ۔ایک د ن ایساہوتاہے کہ وہ اپنی کھڑکی کھولتاہے تو سورج کی کرنیں اسے چھولیتی ہیں ،ساتھ ہی اس کے کانوں میں پرندوں کی چہچہاہٹ سنائی دیتی ہے،وہ تیزی اورغصے سے کھڑکی کو بندکرتاہے اور کہتاہے کہ یہ سب مل کر فطرت کی بھونڈی نقالی کررہے ہیں۔

سچے مارکس وادی زندہ حقیقتوں سے اپنے فکروعمل ترتیب دیتے ہوتے ہیں نہ کہ بے لطف وبے کیف تصورات سے۔کئی اعتبار اور کئی حوالوں سے تیونس کے انقلاب کوفروری 1917ء کے انقلاب سے مماثل سمجھا جاسکتاہے۔انقلاب بلاشبہ اپنا آغاز کرچکاہے ۔لیکن انجام ابھی تک نہیں پاسکا۔یہ اس حدتک تو کامیاب ہواکہ پرانی حکومت کو اس نے اکھاڑ پھینکا لیکن اس کی جگہ کوئی متبادل قائم نہیں کرسکا۔چنانچہ یہ عین ممکن ہے کہ انقلاب کو شکست سے دوچارہوناپڑ جائے ۔خاص طورپر اس لئے بھی کہ وہاں کوئی حقیقی انقلابی قیادت موجود نہیں ہے ۔

اگرفروری انقلاب کے دوران بالشویک پارٹی کی موجودگی نہ ہوتی تو یہ انقلاب شکست کھاسکتاتھا۔اس سے بھی بڑھ کر کہ اگر لینن اورٹراٹسکی نہ ہوتے تو اکیلے بالشویک پارٹی بھی وہ کردار اداکرنے کے قابل نہ ہوسکتی جو وہ کرگئی ۔اگر قیادت سوویتوں کی اصلاح پسند قیادتوں کے ساتھ ہی ہم رکاب رہتی تو یقینی طورپر انقلاب کا جہاز کریش ہوجاتا۔اگر ایسا ہواہوتا تو تب بلاشبہ ان اساطیری قسم کے ذہین وفطین مارکسیوں کوایک پر ایک اعلیٰ پائے کی کتابیں لکھنے کا موقع میسر آجاتا کہ زید بکر خالد کی وجہ سے ہی سب کچھ ہوا ،ورنہ انقلاب کہاں ممکن ہوسکتا؟ اس وقت میں جب یہ کچھ لکھ رہاہوں اور انٹرنیٹ پر مختلف رپورٹیں دیکھ اور پڑھ رہاہوں، میری نظر کچھ انارکسسٹوں کے بلاگز پر پڑی ہے تو مجھے یہ جان کر مسرت ہوئی کہ ذہین و فطین لوگ محض مارکس وادیوں میں نہیں ہوتے بلکہ انارکسٹوں میں بھی بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں ۔ایسے ہی ایک بلاگ کے مصنف کو یہ شکوہ تھا کہ تیونس میں انقلاب کو کسی قسم کی بھی تائید وحمایت میسر نہیں ہے ۔ایسا اس کے نزدیک اس لئے ہے کہ یہ انقلاب انارکسٹوں کے مرتب کردہ اصول وضوابط پر پورا نہیں اترتا۔کم از کم اس مصنف کی انقلابی جبلت صحتمندانہ ہے ،ان کم نظر خردمندوں سے کہ جو تیونس انقلاب کو پیداہونے کا سرٹیفیکیٹ دینے کوبھی تیار نہیں ہیں۔کیونکہ یہ نومولود، ان کے راسخ تصورات کے تقاضوں پر پورا نہیں اترتا۔

بہت ہی طویل عرصے سے یہ مفروضہ مسلط اور مقبول کیاگیاہے کہ شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے عام لوگوں میں اب سوشلزم اور مارکسزم کی نہ ضرورت باقی رہی ہے نہ گنجائش۔ یہ دلیل یہیں ختم نہیں ہوتی ہے بلکہ آگے بڑھتی ہے کہ وہاں اگر کوئی مدمقابل ہے بھی یا اس کی گنجائش بھی ہے تو صرف اسلامی بنیادپرستی کی ہی ہے ۔لیکن یہ دلیل اور اسلوب اپنی انتہاتک غلط ہے اور تیونس کے واقعات اس کی واضح مثال ہیں ۔وہ خواتین جو جابرواستحصالی فورسز کے مقابلے کیلئے جدوجہد کے میدان میں اتریں اوربہادری سے لڑیں ،ان میں سے کسی ایک نے بھی برقع نہیں پہناہواتھا ۔یہ سب تعلیمیافتہ تھیں جو روانی سے عربی انگریزی اور فرانسیسی زبان بول رہی تھیں ۔اور وہ کسی شریعت کے قانون کے نفاذ کا نہیں بلکہ بنیادی انسانی حقوق اور ضرورتوں کیلئے میدان عمل میں آئی تھیں ۔انہیں روزگار اور بہتر زندگی کی جستجو کھینچ لائی ہوئی تھی۔

وہ سبھی نام نہاد لیفٹسٹ جو کہ اسلامی بنیادپرستوں کے ساتھ فلرٹ کرتے چلے آرہے تھے اور چلے آرہے ہیں ،وہ عرب مزدوروں اورنوجوانوں کے شعور کے ساتھ کھلواڑ کے علاوہ کچھ بھی نہیں کر رہے ۔بنیادپرستوں کو ایک انقلابی رحجان کے طورپر پینٹ اور پیش کرناسوشلزم کے نظریے اور جدوجہد سے غداری ہے ۔مستقبل کا عرب انقلاب بنیادپرستوں کے سیاہ پرچم نہیں بلکہ سوشلزم کے سرخ پرچم تلے ہی ممکن العمل ہوگا۔

ماضی میں عرب دنیا میں بہت ہی مضبوط سوشلسٹ اور کمیونسٹ روایات رہی ہیں۔لیکن پھر سٹالنزم کے جرائم نے دنیا کے اس خطے کو بھی اپنی لپیٹ میں لیاتھا۔عراق اور سوڈان میں بڑی کمیونسٹ پارٹیاں سرگرم عمل تھیں جنہیں دومرحلوں کے بیہودہ طریقے کی بھینٹ چڑھادیاگیا۔کہ جنہوں نے اپنی شاندار جدوجہد کے ثمرات ترقی پسند بورژوازی کے گمراہ کن تصو رکی وجہ سے قاسم اور نمیری جیسے لوگوں کے ہاتھوں میں دے دیے گئے تھے ۔اس کے نتیجے میں کمیونسٹ بطور ہراول دستے کے نیست ونابودہوتے گئے اورجس کا نتیجہ صدام حسین جیسی آمریت کی شکل میں سامنے آیا۔اور یہی کتھا سارے مشرق وسطیٰ کی ہے ۔ فطرت کبھی خلاء کو پسند نہیں کرتی ہوتی ۔یہی اصول سیاست میں بھی بجا اور کارفرماہوتاہے ۔سٹالنزم کے انہدام کے بعدپیداہونے والا خلا اسلامی بنیادپرستی کے کام آیا۔جو کہ خودکو سامراج مخالف کے طور پر پیش کرتی ہے حالانکہ اس کا بانی مبانی کوئی اور نہیں یہی امریکی سامراج ہی ہے کہ جس نے انہیں افغانستان کے اندر سوویت فوجوں کے خلاف جنگ اور سوشلزم کے خلاف جہاد کے نام پر منظم بھی کیا اور ہر ممکن مالی ومادی سرپرستی بھی کی۔یہ بات کسی کو یادکرانے کی ضرورت نہیں ہے کہ اسامہ بن لادن امریکہ کے اپنے پرانے دوستوں کے ساتھ اپنے جھگڑے سے پہلے امریکی سی آئی اے کا ایجنٹ چلا آرہاتھا۔

اس پندرہ جنوری کی شام کو برسلز میں ایک مظاہرے کے دوران،ایک کامریڈ نے مجھے اپنی ایک تیونس کی خاتون کے ساتھ ہونے والی گفتگو سنوائی۔جو کامریڈ سے پوچھ رہی تھی کہ کیا اس نے تیونس کے مظاہروں میں کسی مولوی کو بھی شرکت کرتے دیکھا ؟نہیں !کیونکہ ہم کسی طور یہ نہیں چاہتے کہ انہیں اپنی آزادی کی جدوجہد میں شریک کریں ‘‘۔یہ حقیقت ہے کہ بنیادپرستو ں کو ہمیشہ استعمال کیا جاتا رہاہے تاکہ لوگوں کی توجہ سوشلسٹ انقلاب سے ہٹائی جاسکے ۔یہ کوئی حادثہ یا اتفاق نہیں کہ راشدگھنوشی جو کہ ایک بنیاد پرست لیڈر ہے ،کوتیونس واپس آنے کی اجازت دے گئی ہے ۔اور اب تیونس کے میڈیا کے ذریعے اس سے کام لیا جاناشروع کردیاگیاہے ۔تیونس میں بیشتر لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہم نے بن علی سے نجات اس لئے نہیں پائی کہ ان ملاؤں کوخودپر براجمان کرلیں۔یہ بات انتہائی قابل ذکراور انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ پہلی بار ایسا ہواہے کہ کوئی عربی آمر اپنے ہی لوگوں کی سرکشی کے نتیجے میں کسی بھی بیرونی مداخلت کے بغیر اقتدار سے باہر نکالا گیاہے ۔اس واقعے نے اس پختہ تر ہوگئے مزاج کو توڑپھوڑ کر رکھ دیاہے جو دہائیوں سے عرب سیاست کے بارے راسخ ہوچکاتھا کہ ہم نے تو کئی بار جدوجہد کی لیکن ہمیشہ ہی ہمیں شکست سے دوچارہوناپڑا۔ آج برسلز کے مظاہرے میں جو بات دیدنی اور شنیدنی تھی وہ ایک نعرہ تھا؛ہاں ہم کر سکتے ہیں ؛ہاں ہم نے کردکھایاہے ۔ اس تحریک میں شریک ایک صاحب نے ،اس تحریک کے دوسرے ملکوں پر پڑنے والے اثرات کے حوالے سےnawaat.orgپر لکھا ہے کہ ’’ہم تیونس والوں نے ساری دنیا کو ایک سبق تو سکھا دیاہے ؛اور خاص طورپر انہیں کہ جو عرب ممالک میں پستے چلے آرہے ہیں کہ کسی سے کوئی توقع نہ رکھو!سب خود سے پوچھو مانگو اور کرو!اور ہر اس خوف کو خود میں سے نکال اور اکھاڑ پھینکو کہ جو تمہاری توانائی اور شکتی کو مفلوج بنائے چلے آرہاہے ‘‘۔ سوشلسٹ روایتیں زندہ تھیں اور ہیں اور وہ خودکو از سرنو منظم و متشکل کر رہی ہیں ۔سرمایہ داری کے حالیہ شدیدترین بحران کی موجودگی میں عرب نوجوانوں کی نئی پیڑھی سوچنے سمجھنے کے عمل سے گزر رہی ہے ۔جدوجہد کا موقع ملتے ہی سیکھنے کا یہ عمل اور بھی تیز ہوجاتاہے ۔وہ مارکسی نظریات کیلئے پیاسے ہیں اور ترس رہے ہیں۔مارکسی ڈاٹ کام (marxy.com)کا شاندار کام اور کرداراہم نتائج مرتب کر رہاہے ۔نہ صرف مارکسزم کے نظریات وتصورات کے دفاع کے ضمن میں بلکہ عملی انقلابی کام کو ممکن اور یکجہتی کے حصول کے حوالے سے بھی،جو کہ تیونس کے انقلاب کیلئے منظم و متعارف کرائی گئی ہے ۔اور جسے برابر اور بھرپور پذیرائی بھی مل رہی ہے ۔تیونس میں چل رہے ایک بڑے ٹی وی چینل ’’نسیما‘‘ پر جب دانشوروں اور مہان صحافیوں سے سوال کیاگیا کہ بن علی اور اس کے اہل خانہ نے جتنا کچھ اہل تیونس سے لوٹا ہے ،اسے کیسے واپس لیا اور لایا جاسکتاہے؟تو ایک صحافی نے جواب میں کہا کہ اس کیلئے ہمیں سبھی بینکوں کو نیشنلائز کرناہوگا اور سب دولت عوامی فلاح کیلئے بروئے کار لانی ہوگی۔اسی دوران ہی ایک نے ہماری ویب سائیٹ پر چھپنے والے مضمون Tunis Springکا حوالہ دیاکہ ہم ابھی تک اس بہار تک نہیں پہنچ سکے ہیں ۔

یہ ایک بہت چھوٹی مثال ہے ۔لیکن یہ اس بازگشت کی نشاندہی ضرورکرتی ہے جو کہ تیونس میں لیفٹسٹوں میں گونج رہی ہے ۔ ہم نے جو کچھ بھی ان دنوں تیونس میں دیکھا ہے وہ عرب انقلاب کے آغازسے کم کچھ بھی نہیں ہے ۔یہ اتنابڑا واقعہ ہواہے کہ جوتاریخ کا دھارا موڑنے میں اہم کردار اداکرے گا۔انقلاب کے بھڑک اٹھنے والے شعلے اب یہاں سے وہاں اور ادھر سے اُدھر پھیلتے نظرآئیں گے ۔انقلابی تحریک خود اپنے تجربے اپنے تقاضے اور اپنی تمازت سے ہی وہ درکار شعور اورپختگی حاصل کر کے رہے گی جو تاریخ اس سے طلب کرے گی ۔عوام کے ساتھ کاندھے سے کاندھا جوڑتے ہوئے ،مارکسزم کی قوتیں ان میں خود کو ڈھالتی اور خود سے ان کو مستفیدومضبوط و مستحکم کرتی جائیں گی ۔عرب انقلاب صرف اورصرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے طورپر ہی ممکن ہوسکے گا ورنہ بالکل نہیں۔

فواد مبازی حکومت نامنظور۔

مکمل اورفوری جمہوری حقوق زندہ باد۔

ایک انقلابی آئین ساز اسمبلی کا قیام عمل میں لایاجائے ۔

ہم پرانی حکومت کے ہر فردکو مستردکرتے ہیں۔ تیونس کے مزوروں اور نوجوانوں کی حتمی کامیابی تک

جدوجہد جاری رہے گی۔

عرب سوشلسٹ انقلاب زندہ باد۔

Translation: Chingaree.com