عرب انقلاب پر آئی ایم ٹی کا منشور

Urdu translation of The Arab Revolution - Manifesto of the International Marxist Tendency parts 1, 2 and 3.

چنگاری ڈات کام،09.04.2011

حصہ اوّل

فتح تک انقلاب ۔ ثور ۃ حتی النصر

عرب انقلاب دنیا بھر کے محنت کشوں اور نوجوانوں کے لیے شکتی اور تقویت کا باعث ہے۔ اس نے مشرق وسطیٰ کے تمام ممالک کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے اور اس کی گونج ساری دنیا میں سنائی دے رہی ہے۔ شمالی افریقہ اور مصر میں ہونے والے ڈرامائی واقعات انسانی تاریخ کا ایک فیصلہ کن موڑ ہیں۔یہ واقعات عالمی انقلاب کے عمل سے کٹے ہوئے کوئی علیحدہ حادثات نہیں ہیں۔ عالمی سوشلسٹ انقلاب کے ابتدائی مراحل ہماری نظروں کے سامنے وقوع پذیر ہیں ۔ مختلف رفتاروں کے ساتھ یہی عمل ساری دنیا میں رونما ہو گا۔ ناگزیر طور پر اس میں اتار چڑھاؤ ، کامیابیاں اور ناکامیاں مایوسیاں اور فتوحات ہوں گی۔ ہمیں اس کے لیے تیار رہنا ہو گا۔ لیکن عمومی رجحان عالمی سطح پر طبقاتی جدوجہد کی شدت میں تیزتر اضافے کا ہو گا۔

مصر اور تیونس کے عوام کی شاندار تحریک تو صرف آغاز ہے۔ انقلابی تبدیلیوں کا دور آن پہنچا ہے اور کوئی بھی ملک اس عمومی عمل سے محفوظ نہیں ۔ عرب میں رونما ہونے والے انقلابات سرمایہ داری کے عالمی بحران کا اظہار ہیں۔ مصر اور تیونس کے واقعات ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک کے مستقبل کی جھلک ہیں۔

تیونس

تیونس ظاہری طور پر عرب ممالک میں سب سے زیادہ مستحکم ملک تھا۔ اس کی معیشت ترقی کر رہی تھی اور بیرونی سرمایہ کار بڑے بڑے منافع کما رہے تھے ۔صدر زین العابدین بن علی آ ہنی ہاتھوں کے ساتھ حکمرانی کر رہا تھا۔سرمایہ داری کے لیے ایک بہترین ماحول موجود تھا۔

بورژوا تجزیہ کار صرف سطح پر موجود چیزوں کو دیکھتے ہیں اورسماج کی گہرائی میں پنپنے والے عوامل ان کو نظر نہیں آتے۔ وہ شمالی افریقہ کے اندر جاری عوامل کے متعلق بالکل اندھے تھے۔ ان کے نزدیک تیونس میں انقلاب ممکن ہی نہیں تھا۔ اور اب بورژوازی کے تمام پالیسی ساز، معیشت دان، دانشور اور ’’ ماہرین‘‘ اپنی حیرانی کا سر عام اظہار کر رہے ہیں۔ محمدبو عزیزی نامی ایک بے روزگار نوجوان کی خودسوزی نے سارے ملک میں آگ لگا دی۔ ہیگل نے کہا تھا کہ ضرورت اپنا اظہارحادثات کی شکل میں کرتی ہے۔ کسی مایوس بے روزگار نوجوان کی خودکشی کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا۔ لیکن اس دفعہ اس کے غیر متوقع اثرات مرتب ہوئے۔ عوام نے سڑکوں پر آکر انقلاب کا آغاز کر دیا۔

حکومت کا پہلا رد عمل اس بغاوت کو طاقت کے ذریعے کچلنے کا تھا۔ جب اس میں کامیابی نہ ہوئی تو انہوں نے اصلاحات کا سہارا لینے کی کوشش کی لیکن اس نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ پولیس کے سخت جبر سے بھی عوام کو نہ روکا جا سکا۔حکومت نے فوج کو استعمال نہیں کیا کیونکہ وہ ایسا کر ہی نہیں سکتے تھے۔ صرف ایک خونی تصادم سے فوج ٹوٹ کر بکھر جاتی۔

تیونس کے محنت کش طبقے نے علاقائی پیمانے پر ہڑتالوں کا ایک سلسلہ شروع کر دیا جو ایک ملک گیر ہڑتال پر منتج ہوا۔ اس کے نتیجے میں بن علی کو سعودی عرب فرار ہونا پڑا۔ یہ عرب انقلاب کی پہلی فتح تھی۔اس نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔

بن علی کے فرار نے اقتدار کے خلا کو جنم دیا جسے انقلابی کمیٹیوں نے پر کیا۔ ان کمیٹیوں نے مقامی اور بعض جگہوں پر علاقائی سطح پر اقتدار سنبھال لیا۔ قصفہ صوبے میں فاسفیٹ کی کانوں کے علاقے میں واقع شہر ردیف میں ٹریڈ یونینوں کے علاوہ کوئی اور اتھارٹی نہیں تھی۔ پولیس سٹیشن کو نذر آتش کر دیا گیا، جج فرار ہو گیا اور ٹاؤن ہال پر مقامی یونین نے قبضہ کر کے اسے اپنا ہیڈ کواٹر بنا لیا۔ مرکزی چوک پر تواتر کے ساتھ جلسے منعقد ہو رہے تھے جن سے ٹریڈ یونین کے لیڈر خطاب کررہے تھے۔ ٹرانسپورٹ، نظم و نسق اور مقامی خدمات وغیرہ کو چلانے کے لیے کمیٹیاں تشکیل دے دی گئیں۔

عوام نے اپنی ابتدائی کامیابیوں پراکتفا نہیں کیا ۔ وہ پرانے نظام کی نئے نام کے تحت بحالی کی کسی بھی کوشش کے خلاف بڑی تعداد میں سڑکوں پر آتے رہے۔ماضی کی تمام پارٹیاں مکمل طور پر بے نقاب ہو گئیں اور ان کے لیے کوئی حمایت نہیں تھی۔ غنوشی کی جانب سے مختلف علاقوں میں نئے گورنر وں کی تعیناتی کی کوشش کو عوام نے مسترد کر دیا۔ لاکھوں لوگ سڑکوں پر آگئے اور ان گورنروں کو ہٹانا پڑا۔ تیونس میں انقلاب کا لاوا ابھی ٹھنڈا نہیں ہوا ۔ محنت کش بن علی اور اس کے خاندان کی جائداد کی ضبطگی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ معیشت کے بڑے حصوں پر ان کا کنٹرول ہے اس لیے یہ تیونس میں سرمایہ دار طبقے کی حاکمیت کے خلاف کھلا چیلنج ہے۔ بن علی کے ٹولے کی جائیدادکی ضبطگی ایک سوشلسٹ مطالبہ ہے۔

تیونس کے محنت کشوں نے غیر مقبول مالکان کو فارغ کر دیا ہے۔ بائیں بازو کی 14جنوری کی تحریک نے انقلابی کمیٹیوں کی قومی اسمبلی کے قیام کی کال دی ہے۔ یہ ایک درست مطالبہ ہے لیکن ابھی تک اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے۔ قیادت کے فقدان کے باوجود انقلاب بڑی بڑی جستیں لگاتا مسلسل آگے بڑھ رہا ہے اور اس عمل میں اس نے غنوشی کا تختہ الٹا دیا ہے اور تحریک نئی بلندیوں پر جا پہنچی ہے۔ ثور ۃ حتی النصر!۔ فتح تک انقلاب! ہمارا نعرہ ہونا چاہیے۔

انقلابِ مصر

عرب انقلاب کا آغاز تیونس سے ہوا ہے لیکن یہ مغرب کی سرحد پر ایک چھوٹا سا ملک ہے۔ لیکن دوسری جانب مصر، 8کروڑ 20لاکھ آبادی کے ساتھ ایک بہت بڑا ملک ہے جو عرب کے دل میں واقع ہے۔یہاں کے کثیر التعداد اور انتہائی لڑاکا پرولتاریہ نے کئی دفعہ اپنے انقلابی ولولے کا مظاہرہ کیا ہے۔ بلا شبہ مصر کا انقلاب تیونس سے متاثرہوا ہے لیکن اس کی بنیاد میں دیگر عوامل بھی کار فرما ہیں ، جن میں بڑے پیمانے کی بے روزگاری، گرتا ہوا معیارِ زندگی اور کرپٹ اور جابر حکومت کے خلاف نفرت شامل ہیں۔ تیونس نے عمل انگیز کا کام کیا ہے۔ لیکن عمل انگیزتب ہی کام کر سکتا ہے جب تمام لازمی اجزا اور حالات پہلے سے موجود ہوں۔ تیونس کے انقلاب نے ثابت کردکھایا کہ یہ سب ممکن ہے۔ لیکن اس کو واحد یا پھر بنیادی وجہ سمجھ لینا صریحاً غلط ہو گا۔ ان تمام ممالک میں انقلابی دھماکوں کے لیے حالات پہلے سے ہی پک کر تیار ہو چکے تھے۔ بارود کے اس ڈھیر کو بھڑکانے کے لیے صرف ایک چنگاری درکار تھی۔ تیونس نے اس چنگاری کا کام کیا۔

مصر کی تحریک نے عوام کی حیران کن جرات مندی کو ظاہر کیا ہے۔ سکیورٹی فورسز تحریر چوک میں بڑے مظاہروں پر گولی نہ چلا سکیں کیونکہ انہیں خدشہ تھا کہ کہیں تیونس جیسی صورتحال نہ پیدا ہو جائے۔حکومت سمجھ رہی تھی کہ ماضی کی طرح کچھ لوگوں کے سر پھوڑ کرکام چل جائے گا۔ لیکن اس سے کام نہیں چلا۔ موڈ تبدیل ہو چکا تھا۔ مقدار معیار میں بدل گئی تھی۔ خوف ماضی کا قصہ بن چکا تھا۔ اس مرتبہ بھاگنے کی باری عوام کی بجائے پولیس کی تھی۔

اس کے نتیجے میں تحریر چوک پر عوام کا قبضہ ہو گیا۔ حکومت نے فوج بھیجی لیکن فوج کے سپاہی لوگوں سے گھل مل گئے۔ مصر کی فوج جبری طور پر بھرتی کیے گئے سپاہیوں پر مشتمل ہے۔ فوج کے بالائی افسران اور جرنیل کرپٹ ہیں۔ وہ حکومت کا حصہ ہیں لیکن عام سپاہی محنت کشوں اور کسانوں میں سے بھرتی کیے جاتے ہیں۔ افسران کی نچلی اور درمیانی پرت درمیانے طبقے سے تعلق رکھتی ہے اور عوام کا دباؤ ان پر اثر انداز ہوتا ہے۔

حزب اختلاف کی پارٹیوں کے مطالبات اصلاحات پر مبنی تھے، جن میں دسمبر میں ہونے والے دھاندلی سے بھرپور انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی پارلیمینٹ کی تحلیل، نئے انتخابات کا انعقاد اور ستمبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں مبارک یااس کے بیٹے کے امیدوارآنے کا اعلان بھی شامل تھے۔لیکن در حقیقت قیادت عوام سے بہت پیچھے کھڑی تھی۔تحریک ان مطالبات سے کہیں آگے جا چکی تھی۔ انقلابی عوام مبارک کے فوری استعفے اور حکومت کو مکمل تحلیل کیے جاناسے کم کسی بات کو قبول کرنے پر تیار نہ تھے۔

شروعات میں ایمرجنسی قوانین کے خاتمے،وزیر داخلہ کی برطرفی، اور کم از کم اجرت میں اضافے جیسے ابتدائی مطالبات کے بعد مظاہرین کے حوصلے ان کی بڑھتی ہوئی تعداد کے ساتھ بڑھتے گئے اور ان کے نعرے ایک بلند تر انقلابی سطح پر جا پہنچے جیسے: ’’مبارک مردہ باد‘‘ ، ’’عوام حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیں‘‘ یا پھر صرف’’جاؤ‘‘۔ اس طرح عوام کا انقلابی شعور جستیں لیتا ہوا آگے بڑھتا گیا۔

ریاست اور انقلاب

عوام کے مرکزی کردار کے بغیر مصر اور تیونس کے واقعات کی وضاحت کرنا بے سود ہو گا جو شروع سے آخر تک ان واقعات کے پیچھے قوت محرکہ تھے۔بورژوا اور پیٹی بورژوا ’’ماہرین‘‘ اب عوام کے کردار کی اہمیت کو کم تر بنا کر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہیں صرف بالائی سطح پر ہونے والی تبدیلیاں نظر آتی ہیں۔ان کے نزدیک معاملہ صرف ’’فوج کے اقتدار پر قبضے‘‘ اور’’ فوج کا خود کو ہی اقتدار دینے‘‘ کا ہے۔یہی بورژوا تاریخ دان ہمیں یقین دلاتے ہیں کہ 1917ء کا بالشویک انقلاب’’محض اقتدار پر شب خون( coup)‘‘ تھا۔ وہ تاریخ کا سامنا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہیں اور صرف اس کا پچھواڑہ دیکھ سکتے ہیں۔

ان کا ’’گہرا‘‘ تجزیہ انتہا درجے کا سطحی ہے۔ بورژوا فلسفیوں کے نزدیک عمومی طور پر ہر چیز کا وجود اسکی ظاہری شکل تک محدود ہوتا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے سمندر کی موجوں کو سطح آب کے نیچے موجود لہروں کا تجزیہ کیے بغیر سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ عوام کے قاہرہ کی سڑکوں پر آجانے کے بعد بھی ہیلری کلنٹن بضد تھی کہ مصر میں استحکام ہے۔ اس کے اس دعوے کے پیچھے یہ حقیقت تھی کہ ریاست اور اس کا جبر کا نظام سلامت تھا۔ لیکن صرف دو ہفتوں میں وہ تباہ و برباد ہو گیا۔ ایک مضبوط ریاستی جبر کے نظام کا وجود انقلاب کا راستہ روکنے کی ضمانت نہیں ہوتا، بلکہ حقیقت شائد اس کے بر عکس ہے۔ بورژوا جمہوریت میں حکمران طبقے کے پاس کچھ سیفٹی والو ہوتے ہیں جو اسے حالات کے قابو سے باہر جانے کا عندیہ دیتے ہیں۔ لیکن آمریت اور جابرانہ حکومت میں عوام کو نظام کے اندر رہتے ہوئے اپنے جذبات کے اظہار کا کوئی موقع نہیں ملتا ۔ چناچہ عوامی ابھار اچانک سامنے آتے ہیں اور کسی انتباہ کے بغیر فوری طور پر انتہائی شدید شکل اختیار کر لیتے ہیں۔

پرانی حکومت بڑی حد تک مسلح افواج کی حمایت پر کھڑی تھی۔ لیکن کسی بھی فوج کی طرح یہ فوج بھی سماج کا ایک عکس تھی اور عوام کا دباؤ اس پر اثر انداز ہوا۔ کاغذوں میں یہ ایک بہت خوفناک قوت تھی۔ لیکن فوج انسانوں پر مشتمل ہوتی ہے جو دیگر سماجی پرتوں اور اداروں پر پڑنے والے دباؤ سے اثر انداز ہوتے ہیں۔ فیصلہ کن گھڑی پر مبارک اور بن علی فوج کو عوام کے خلاف استعمال نہیں کر سکے۔

بیشتر عرب ممالک کی فوجیں ترقی یافتہ سرمایہ دار ممالک کی افواج جیسی نہیں ہیں۔ آخری تجزیے میں وہ سرمایہ دارانہ فوجیں ہی ہیں، یعنی ذاتی ملکیت میں کے دفاع میں مسلح افراد کے جتھے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ نو آبادیاتی انقلاب کی پیداوار بھی ہیں۔بلا شبہ جرنیل کرپٹ اور رجعتی ہیں، لیکن عام سپاہی مزدوروں اور کسانوں میں سے جبری طور پر بھرتی کیے جاتے ہیں۔افسران کی نچلی اور درمیانی پرت میں عوام کے دباؤ کا اظہار ہوتا ہے، جیسا 1952ء میں ناصر کی بغاوت میں ہوا۔

انقلاب نے ریاست کے اندر بحران کو جنم دیا۔فوج اور پولیس کے درمیان اور پولیس اور مظاہرین کے درمیان تناؤ میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بالآخر فوجی کونسل نے مبارک کو فارغ کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان واقعات نے فوج کو بڑے پیمانے پر ہلا کر رکھ دیا اور عوامی دباؤ کے تحت اس میں دراڑیں پڑنا شروع ہو گئیں۔تحریر چوک میں افسران کے ہتھیار پھینک کر مظاہرین کے ساتھ شامل ہونے کے واقعات دیکھنے میں آئے۔ ایسے حالات میں انقلابی عوام کے خلاف فوج کے استعمال کا سوال بھی پیدا نہیں ہوتا۔

پرولتاریہ کا کردار

پہلے دو ہفتوں میں اقتدار سڑکوں پر تھا۔لیکن تحریک کی قیادت کومعلوم نہیں تھا کہ سڑکوں پرطاقت حاصل کر لینے کے بعد کیا کرنا ہے۔ یہ سوچ کہ صرف تحریر چوک میں عوام کی بہت بڑی تعداد کو اکٹھاکر لینا کافی ہے خطرناک حد تک غلط تھی۔اول یہ کہ اس سے ریاستی اقتدار کا سوال حل نہیں ہوتا، کیونکہ یہی سوال مرکزی نوعیت کا حامل ہے اور باقی تمام سوالوں کا فیصلہ کرتا ہے۔ دوم یہ ایک دفاعی لائحہ عمل تھا جبکہ ایک جارحانہ لائحہ عمل کی ضرورت تھی۔

تیونس میں بڑے مظاہروں نے بن علی کو بیرون ملک فرار ہونے پر مجبور کیا اورحکومتی پارٹی کا تختہ الٹ دیا۔اس سے بہت سے مصری یہ سمجھنے لگے کہ ان کی حکومت بھی اتنی ہی کمزور ثابت ہو گی۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ مبارک نے جانے سے انکار کر دیا۔مظاہرین کی بے پناہ جرات اور کوششیں مبارک کا تختہ الٹنے میں ناکام رہیں۔مظاہرے بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں کیونکہ ان سے غیرسرگرم لوگ میدان میں آجاتے ہیں اور انہیں اپنی طاقت کا احساس ہوتا ہے۔ لیکن ایک نئے اور بلند مقام پر جائے بغیر تحریک کامیاب نہیں ہو سکتی۔ یہ کام صرف محنت کش طبقہ کر سکتا ہے۔

پرولتاریہ کی اس نئی بیداری کا اظہار حالیہ برسوں میں ہونے والی ہڑتالوں اور احتجاج کے سلسلے میں نظر آیا۔یہ انقلاب کو تیار کرنے والے اہم عناصر میں سے ایک تھا۔اور اسکی مستقبل میں کامیابی کا دارومدار بھی اسی پر ہے۔مصری پرولتاریہ کی تاریخ کے میدان میں ڈرامائی آمد انقلاب کی تقدیر میں ایک فیصلہ کن موڑ تھا۔اسی نے انقلاب کو بچایا اور حسنی مبارک کا تختہ الٹانے کا باعث بنا۔ایک کے بعد دوسرے شہر میں مصری محنت کش ہڑتالیں اور کارخانوں پر قبضے کرتے چلے گئے۔انہوں نے قابل نفرت منیجروں اور کرپٹ ٹریڈ یونین لیڈروں کو باہر نکال پھینکا۔

انقلاب ایک بلند تر معیار پر جا پہنچا۔ یہ مظاہروں سے ملک گیر سرکشی میں تبدیل ہو گیا۔ اس سے کیا سبق ملتا ہے؟ صرف یہ کہ: جمہوریت کے لیے جدوجہد صرف اس حد تک کامیاب ہو سکتی ہے جب تک اس کی قیادت پرولتاریہ کرے: وہ لاکھوں محنت کش جن کی محنت سے سماج کی دولت پیدا ہوتی ہے اور جن کی اجازت کے بغیر کوئی بلب نہیں جل سکتا، کوئی ٹیلی فون نہیں بج سکتا اور نہ کوئی پہیہ گھوم سکتا ہے۔

مصری قوم کی بیداری

مارکس ازم اور معاشی جبریت(Economic Determinism) میں کوئی قدر مشترک نہیں ہے۔ بڑے پیمانے کی بے روزگاری اور غربت دھماکہ خیز مسائل ہیں۔ لیکن انقلاب کی مساوات میں اس کے علاوہ کچھ اور بھی موجود تھا۔ ان سے زیادہ مجرد(elusive) ، جسے ناپا تو نہیں جا سکتا لیکن یہ عدم اطمینان کے کارن کے طور پر مادی محرومی سے کسی طرح کم نہیں ہے۔یہ ایک قدیم اور عظیم قوم پر نسل در نسل سامراجی غلبے کے نتیجے میں ذہنوں اور دلوں میں سلگنے والا ذلت کااحساس ہے۔

ذلت کا یہی عمومی احساس سارے عرب کے لوگوں میں پایا جاتا ہے جو100سال سے زائد عرصے سے سامراج کی غلامی اور جبر کا شکار ہیں، پہلے یورپی آقاؤں کے احکامات کی بجا آوری اور پھر بحرِ اوقیانوس کے پار کی دیو ہیکل طاقت (امریکہ)کی۔اس احساس کا مسخ شدہ اظہار اسلامی بنیاد پرستی کی شکل میں ہوتا ہے جو ہر مغربی چیز کو شیطانی کہہ کر مسترد کردیتی ہے۔لیکن حالیہ برسوں میں اسلامی بنیاد پرستی کا ابھار در حقیقت عرب عوام کے سلگتے ہوئے مسائل کے حل کے لیے بائیں بازو کی جانب سے ایک حقیقی سوشلسٹ متبادل دینے میں ناکامی کا اظہار ہے۔ انیس سو پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں جمال عبدالناصر کے عرب سوشلزم اور عرب اتحاد کے خواب نے سارے عرب عوام کی امیدوں کو بھڑکا دیا۔مصر عرب کے محکوم اور بدحال عوام کے لیے امید کا ایک مرکز بن گیا۔لیکن ناصر نے اس پروگرام کو اس کے منطقی انجام تک نہیں پہنچایا اور انور سادات کی حکومت میں یہ اقدامات واپس لے لیے گئے۔مصر امریکی طاقت کی سیاست میں ایک مہرہ بن گیا۔ حسنی مبارک کے اقتدار کی تین دہائیوں میں اس میں ہزاروں گنا اضافہ ہوا ہے۔ مبارک امریکہ اور اسرائیل کا پٹھو تھا جس نے شرمناک طریقے سے فلسطینی کاز سے غداری کی۔

گزشتہ تین یا چار دہائیوں سے عرب نفسیات مایوسی، شکست اورتذلیل سے عبارت رہی۔ لیکن اب تاریخ کا دھارا پلٹ چکا ہے اور ہر چیز بدل رہی ہے۔ آج عرب میں انقلاب کا تصور ٹھوس شکل میں سامنے آگیا ہے۔ یہ کروڑوں لوگوں کے ذہن میں سرائیت کر رہا ہے اور ایک مادی قوت کی صورت میں ابھر رہا ہے۔ وہ نظریات جو ماضی میں چند افراد تک محدود تھے اب کروڑوں افراد کو قائل اور متحرک کر رہے ہیں۔

انقلابات ہر چیز کو واضح کر دیتے ہیں۔ تمام رجحانات آزمائے جاتے ہیں۔ انفرادی دہشت گردی اور اسلامی بنیاد پرستی کے نظریات راتوں رات انقلابی ریلے میں بہہ گئے ہیں۔ انقلاب نے کسی حد تک فراموش شدہ نظریات کوپھر سے زندہ کر دیا ہے۔اس سے سوشلزم اور بین الاقوامی عرب قوم پرستی کی ماضی کی روایات لوٹ کر آئیں گی، جو عوامی شعور سے مکمل طور پرکبھی بھی ختم نہیں ہوئی تھیں۔یہ حادثہ نہیں ہے کہ ماضی کے مزاحمت کے گیت ایک بارپھر سے گائے جا رہے ہیں۔ مظاہروں میں ناصر کی تصاویر نظر آرہی ہیں۔ ایک عرب نشاۃثانیہ ہمارے سامنے ہے۔جدوجہد کی بھٹی میں ایک نیا شعور تخلیق پا رہا ہے۔ ایسے حالات میں لوگوں کے لیے جمہوری مطالبات بنیادی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ ایک لمبے عرصے سے غلامی میں رہنے والے لوگ بالآخرماضی کی محکومانہ اور مایوسی کی ذہنیت کو ترک کر کے اپنے پورے قد کے ساتھ کھڑے ہو گئے ہیں۔

ہر ہڑتال میں ایسا ہی عمل دیکھنے میں آتا ہے، کیونکہ ہڑتال ایک چھوٹے پیمانے پر انقلاب کی سی کیفیت ہوتی ہے اور انقلاب ایسی ہڑتال کی طرح ہوتا ہے جس میں سارا سماج ظالموں کے خلاف اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ایک دفعہ متحرک ہوجانے پر مرد اور عورتوں کو اپنے انسانی وقار کا ادارک ہو جاتا ہے۔ وہ اپنی قسمت اپنے ہاتھو ں میں لینا شروع کر دیتے ہیں اور اپنے حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں کہ ’ہمیں با عزت برتاؤ چاہیے‘ ۔یہی ہر حقیقی انقلاب کی روح ہوتی ہے۔

انقلاب شعور کے ایک بلندتر سطح پر آنے کا نام ہے۔ یہ ان رد انقلابیوں کے پیروں تلے سے زمین کھینچ رہا ہے جو عوام کو الجھانے اور کنفیوز کرنے کے لیے مذہبی انتہا پسندی کا زہر اگلتے ہیں۔ سامراجیوں کے جھوٹے پراپیگنڈے کے بر عکس تیونس اور مصر کے انقلاب میں اسلامی بنیاد پرستوں نے بہت ہی کم یا پھر کوئی بھی کردار ادا نہیں کیا۔انقلاب فرقہ واریت کو حقارت اور نفرت کی نظر سے دیکھتا ہے۔ اس نے ساری تقسیموں کو چیرتے ہوئے مردوں اور عورتوں کو، بوڑھے اور جوانوں کو ، عیسائیوں اور مسلمانوں کو متحد کردیا ہے۔

انقلابی تحریک مذہبی تفریق کو چیر ڈالتی ہے۔وہ جنسی تفریق کو بھی ختم کر دیتی ہے۔وہ عرب عورتوں کو ان کے مردوں کے شانہ بشانہ سڑکوں پر لا کھڑا کرتی ہے۔ وہ تمام قومی، نسلی اور لسانی تقسیموں کو چیر ڈالتی ہے۔وہ محکوم قومیتوں کا دفاع کرتی ہے۔ وہ عرب قوم کی تمام تر زندہ قوتوں کو ایک مشترکہ جدوجہد میں یکجا کرتی ہے۔ وہ انقلابی عوام کو ان کے پورے قدپر کھڑا ہونے ، ان کی عزت نفس کو بحال اور انہیں آزادی کا جشن منانے کے قابل بنادیتی ہے۔ مرد اور عورتیں سر اٹھا کر فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ’’ہم اب مزید غلام نہیں رہیں گے‘‘۔

خود رو تحریک کی حدود تیونس اور مصر میں آنے والے انقلابات کا آغاز نیچے سے ہوا۔ انہیں کسی پہلے سے موجود سیاسی پارٹی یا لیڈر نے منظم نہیں کیا۔ تحریک نے ان سب کو بہت پیچھے چھوڑ دیا کیونکہ ان کے پاس اس تحریک کا نہ تو تناظر تھا اور نہ ہی تیاری۔ انقلاب مصر سے اگر کوئی سبق حاصل کیا جا سکتا ہے تو ہو یہ ہے کہ: انقلابی عوام اپنے سوا کسی پر بھروسہ نہیں کر سکتے۔۔۔صرف اپنی قوت، اپنی یکجہتی، اپنی جرات اور اپنے نظم پر یقین رکھو۔

مصر کا1936ء کے بارسلونا سے تاریخی موازنہ کیا جا سکتا ہے۔ جہاں بغیر کسی پارٹی‘ قیادت، پروگرام، اور منصوبے کے محنت کشوں نے غیر معمولی جرات کے ساتھ بیرکوں پر ہلہ بول دیا اور فاشسٹوں کو شکست دے دی۔ انہوں نے صورتحال کو رد انقلابیوں کے ہاتھوں میں جانے سے بچا لیا اور اس وقت وہ اقتدار پر قبضہ کر سکتے تھے۔لیکن سوال یہ ہے کہ انہوں نے اقتدار پرقبضہ کیوں نہیں کیا؟۔ اس کی وجہ قیادت کا فقدان تھا۔ یہ کہنا زیادہ درست ہو گا کہ ان کے ساتھCNTکے انارکسٹ لیڈروں نے غداری کی جن پر وہ اعتماد کر رہے تھے۔ جسے انارکزم کے بارے میں کوئی خوش فہمی ہو وہ انقلابِ سپین کی تاریخ پڑھ لے۔

پہلی نظر میں تیونس اور مصر کا انقلاب خود رو دکھائی دیتے ہیں جن کی کوئی قیادت یا تنظیم نہیں ہے۔ لیکن یہ تعریف بالکل درست بھی نہیں ہے۔ ان کی کال کچھ افراد اور گروپوں نے دی تھی۔ ان کے لیڈر بھی ہیں جو پہلا قدم اٹھاتے ہیں، نعرے دیتے ہیں اور مظاہروں اور ہڑتالوں کی کال دیتے ہیں۔

تیونس، مصر (اور اس سے قبل ایران ) میں فیس بک اور ٹوےِٹر جیسے سماجی نیٹ ورکوں کے کردار پر بہت زور دیا جا رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کی اس نئی ٹیکنالوجی نے ایک کردار ادا کیا ہے اور یہ انقلابیوں کے لیے بہت کارآمد ثابت ہوئی ہے اور اس نے مصر جیسی ریاست کے لیے ماضی کے بر عکس معلومات پر اجارہ داری کو قائم رکھنا نا ممکن بنا دیا ۔لیکن ان واقعات میں صرف ٹیکنالوجی کے استعمال کو بہت بڑھا چڑھا کر بیان کرنے والے در حقیقت انقلاب کے بنیادی عنصرکو مسخ کر کے پیش کر رہے ہیں، وہ عنصر عوام اور بالخصوص محنت کش طبقے کا کردار ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ انقلاب کو دانشور وں اور انٹر نیٹ کے شوقینوں کی قیادت میں محض درمیانے طبقے کی کاروائی کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں۔یہ بالکل جھوٹ ہے۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ آبادی کی بہت قلیل تعداد کو انٹر نیٹ تک رسائی حاصل ہے۔ دوم یہ کہ حکومت نے انٹر نیٹ اور موبائل ٹیلی فون کی سروس بند کر دی تھی۔ لیکن اس سے تحریک ایک منٹ کے لیے بھی نہیں رکی۔انٹر نیٹ اور موبائل فون کی بندش کے بعد مظاہروں کو منظم کرنے ے لیے لوگوں نے ایک بہت پرانی ٹیکنالو جی کا استعمال کیا،جسے انسانی گفتگو کہا جاتا ہے۔ فرانس اور روس کے انقلابات اسی ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے لائے گئے تھے ‘افسوس کی بات ہے کہ ان دنوں فیس بک اور ٹویٹر نہیں ہوا کرتے تھے لیکن پھر بھی بہت بہتر طریقے سے کام چل گیا۔فیس بک سے کہیں بڑا کردارالجزیرہ (ٹی وی چینل) نے ادا کیا جس کی بدولت کروڑوں لوگ لمحہ بہ لمحہ ہونے والے واقعات کو دیکھ پائے۔

جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ، یہ کہنا درست نہ ہو گا گہ انقلاب مصر کی کوئی قیادت نہیں۔ بالکل آغاز سے ہی کسی نہ کسی طرح کی قیادت ضرور رموجود ہے۔ جس میں ایک درجن سے زائد چھوٹی پارٹیوں اور متحرک گروپوں کا ایک ڈھیلا ڈھالا اتحاد شامل ہے۔ انہوں نے ہی25جنوری کو جو کہ پولیس کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے، فیس بک پر ’’ یومِ غضب‘‘(day of rage) کی کال دی۔ 80,000مصری انٹر نیٹ صارفین نے اس میں حصہ لیتے ہوئے اپنے مطالبات کے حصول کی خاطر سڑکوں پر آنے کا عہد کیا۔

تیونس اور مصر دونو ں میں شروعات میں نوجوانوں کے گروپوں نے مظاہروں کا انعقاد کیا، یہ وہ قیادت تھی جو ’’سرکاری‘‘ اپوزیشن پارٹیاں فراہم کرنے میں ناکام رہیں۔ اکانومسٹ ان کے بارے میں لکھتا ہے کہ ’’اصلاحات کے مطالبات لیے آپس میں ڈھیلے ڈھالے انداز میں منسلک گروپ سامنے آئے ہیں، جنہیں انٹر نیٹ پر نوجوان چلا رہے ہیں جو عمومی طور سیکولر خیالات کے مالک ہیں لیکن کسی مخصوص نظریے سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ ان میں سے کچھ محنت کشوں کے حقوق کے گرد اکھٹے ہیں، کچھ انسانی حقوق اور فکری آزادی کے لیے۔ ‘‘

اس کا مطلب ہے کہ یہ کام ایک فیصلہ کن اقلیت نے سر انجام دیا اور اس لیے یہ بالکل خود رو نہیں تھے۔ لیکن یہ تو صرف شروعات تھیں۔عوام کی ہمدردی مظاہرین کے ساتھ تھی۔ ملک گیر احتجاج مبارک حکومت کے خلاف ایک عوامی سرکشی میں بدل گئے اور پورے مصر میں ایک ساتھ مظاہرے ہونے لگے۔ چناچہ کسی طرح کی قیادت ضرور موجود تھی اگرچہ ان کے خیالات اتنے واضح نہیں تھے۔ لیکن مصر اور تیونس دونوں میں عوام کے ردعمل نے ان کو حیران کر دیا کیونکہ یہ تو ان کے خواب وخیال میں بھی نہیں تھا ۔ مظاہروں کی کال دینے والوں میں سے کسی کو بھی عوام کی اتنی بڑی شرکت کی توقع نہیں تھی اور اس سے بڑھ کر اس بات کی کہ پولیس انہیں اتنا آگے بڑھنے دے گی۔ یہ درست ہے کہ انقلاب کے ’’خود رو‘‘ کردار نے کسی حد تک ریاستی جبر سے تحفظ فراہم کیا اور اس حوالے سے یہ مثبت چیز تھی۔ لیکن ایک مناسب قیادت کا فقدان ایک سنجیدہ کمزوری ہے جس کے آگے چل کر بہت منفی اثرات ہوئے۔ یہ حقیقت کہ دونوں ممالک میں عوام کسی شعوری قیادت کے بغیر بن علی اور مبارک کا تختہ الٹنے میں کامیاب ہوئے، تمام ممالک میں محنت کش طبقے کی عظیم انقلابی صلاحیتوں کی بھر پور گواہی ہے۔ لیکن اس سے قیادت کے فقدان کا مسئلہ کسی طور پر حل نہیں ہوتا۔ کسی بالکل خود رو تحریک کی کمزوری کا اندازہ ایران میں نظر آتا ہے جہاں عوام کی بے پناہ جرات کے باوجودانقلاب شکست سے دوچار ہو گیا۔۔اگرچہ وقتی طور پر۔

یہ دلیل کہ ’’ہمیں لیڈروں کی ضرورت نہیں‘‘ بہت بے وزن ہے ۔کسی کارخانے میں آدھے گھنٹے کی ہڑتال میں بھی قیادت ہمیشہ موجود ہوتی ہے۔ مزدور اپنے میں سے ہی کچھ لوگوں کو اپنی نمائندگی اور ہڑتال کو منظم کرنے کے لیے منتخب کر تے ہیں۔ منتخب ہونے والے لوگ حادثاتی طور پر یا بغیر کسی وجہ کے سامنے نہیں آتے بلکہ عام طور پر وہ سب سے زیادہ جرات مند، تجربہ کار اور ذہین محنت کش ہوتے ہیں۔ ان کا چناؤ انہی بنیادوں پر ہوتا ہے۔

قیادت اہم ہوتی ہے، پارٹی اہم ہوتی ہے۔ چھ سال کا بچہ بھی اس بات کو سمجھ سکتا ہے جو کہ مارکسزم کی الف بے ہے۔ لیکن الف بے ک سے آگے بھی حروف تہجی ہوتے ہیں۔خود کو مارکسسٹ کہنے والے کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ جب تک ایک مارکسی پارٹی پرولتاریہ کی قیادت نہ کر رہی ہو انقلاب کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ انقلاب کسی طے شدہ ترتیب میں وقوع پذیر نہیں ہوتا کہ جس میں انقلابی تنظیم عوام کو ڈنڈے سے ہانک کر چلائے۔ لینن نے 1917 ء میں کہا تھا کہ محنت کش طبقہ کسی بھی انقلابی تنظیم سے کہیں زیادہ انقلابی ہوتا ہے۔ انقلاب روس کے تجربات نے اس بات کودرست ثابت کر دیا۔ یاد رہے کہ لینن نے اپریل 1917ء میں بالشویک پارٹی کی مرکزی کمیٹی کی رائے کے برخلاف مزدوروں سے براہ راست اپیل کی ، کیونکہ کر مرکزی کمیٹی کی روس میں پرولتاری انقلاب کے متعلق رائے قدامت پسندانہ تھی۔ یہی قدامت سے پر ذہنیت اور عوام پر حقارت آمیز عدم اعتماد ان لوگوں میں سے بہت سوں کے اندر نظر آتا ہے جو خود کو طبقے کا ’’ہراول دستہ‘‘ سمجھتے ہیں لیکن اپنے عمل سے وہ فیصلہ کن مراحل میں تحریک کی راہ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ ایران میں پرانے نام نہاد ’’ہراول دستے‘‘ کا افسوس ناک کردار اس بات کو سمجھنے کے لیے کافی ہے۔اس ہراول دستے کے وہ لوگ جو 1979ء کے انقلاب میں بچ گئے تھے‘ 2009ء کے لاکھوں کے مظاہروں میں عوام سے بہت دور کھڑے تھے۔کیا مارکسسٹ یہ کہتے ہیں کہ جب تک انقلابی تنظیم تعمیر نہ ہو اور محنت کش طبقے کی قیادت اس کے پاس نہ ہو، اس وقت تک انقلاب نا ممکن ہے؟ نہیں، ہم نے کبھی ایسی کوئی بات نہیں کی۔انقلاب اپنے قوانین کے تحت آگے بڑھتا ہے جو انقلابیوں کی خواہشات سے آزاد ہوتے ہیں۔ جب تمام معروضی حالات تیار ہو جائیں تو انقلاب برپا ہو جاتا ہے۔ عوام انقلابی پارٹی کی تعمیر کا انتظار نہیں کر سکتے۔لیکن جب تمام معروضی حالات موجود ہوں تب بلا شبہ قیادت فیصلہ کن عنصر بن جاتی ہے۔ اکثر اوقات فتح اور شکست کا فیصلہ

اسی بات پر ہوتا ہے۔ انقلاب زندہ قوتوں کے درمیان ایک جنگ ہوتی ہے۔ فتح پہلے سے طے شدہ نہیں ہوتی۔ در حقیقت ایک وقت پر مصر کا انقلاب شکست کے بہت نزدیک پہنچ چکا تھا۔ اگرحکمت عملی کے متعلق بات کریں تو تحریر چوک میں رہنا کوئی بہتر طریقہ کار نہیں تھا۔ اس سے ہمیں منتظمین کی محدود سوچ کا اندازہ ہوتا ہے۔ مبارک کچھ پرتوں کو خرید کر اور لمپن غنڈوں سے حملہ کروا کر تحریک کو مات دینے میں تقریباً کامیاب ہو گیا تھا۔ لیکن عوام کی فیصلہ کن مداخلت نے اور بالخصوص محنت کش طبقے کی مداخلت نے تحریک کو شکست سے بچا لیا۔

قیادت کا مسئلہ

انقلاب کے آغاز میں عوام کے پاس کوئی مکمل منصوبہ نہیں ہوتا۔وہ جدوجہد کے ذریعے سیکھتے ہیں۔انہیں شائد یہ تو معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کیا چاہتے ہیں، لیکن وہ یہ بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ انہیں کیا نہیں چاہیے۔ اور یہ تحریک کو آگے دھکیلنے کی لیے کافی ہوتا ہے۔

جنگ میں قیادت ایک بہت اہم عنصر ہوتاہے۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ واحد عنصر ہوتا ہے۔ اگر معروضی حالات غیر موافق ہوں تو قابل ترین قائد بھی فتح کی ضمانت نہیں دے سکتا۔ اور بعض اوقات برے جرنیلوں کے ساتھ بھی جنگ جیتی جا سکتی ہے۔انقلاب میں، جو کہ طبقات کے مابین جنگ کا بلند ترین اظہار ہے، محنت کش طبقے کو عددی اورسماج کے پیداواری ڈھانچے کے اہم حصوں پر کنٹرول کی برتری حاصل ہوتی ہے۔ لیکن حکمران طبقے کو بھی کئی اور حوالوں سے برتری حاصل ہوتی ہے۔ ریاست استحصال کرنے والی اقلیت کی استحصال کا شکار اکثریت پر آمریت قائم رکھنے کا ایک آلہ ہوتا ہے۔ حکمران طبقے کے پاس اور بھی بہت سے طاقتور ہتھیار ہوتے ہیں جن میں پریس، ریڈیو، ٹیلی وژن، سکول، یونیورسٹیاں، ریاستی بیوروکریسی اور اس کے ساتھ ساتھ روحانی بیوروکریٹ اور مساجد اور گرجوں میں موجود خیالات پر کنٹرول رکھنے والی پولیس بھی۔ علاوہ ازیں اس کے پاس پیشہ ورانہ مشیروں کی ایک فوج ، سیاست دان، معیشت دان اور دھوکہ دہی اور سازشوں کے فن کے ماہرین بھی ہوتے ہیں۔

جبر کا یہ نظام کئی دہائیوں میں تعمیر اور ترتیب دیا گیا ہے اور اس کے خلاف لڑنے کے لیے محنت کش طبقے پر لازم ہے کہ وہ اپنی تنظیمیں تعمیر کرے ،جن کی قیادت تجربہ کار اور پر عزم لوگوں کے پاس ہو جو تاریخ کے اسباق سے آگاہ اورہر طرح کے حالات کا سا منا کرنے کے لیے تیار ہوں۔یہ کہنا کہ حکمران طبقے کو تنظیم اور قیادت کے بغیر شکست دینا ممکن ہے ، ایسا ہی ہو گا جیسے ایک غیر تربیت یافتہ اور تیاری کے بغیر فوج کو میدان جنگ میں کسی پیشہ ور فوج کے مد مقابل بھیج دیا جائے جس کی قیادت تجربہ کار افسران کے پاس ہو۔

زیادہ تر واقعات میں اس کا نتیجہ شکست کی صورت میں نکلے گا۔ لیکن اگر انقلاب پہلے حملے میں دشمن کو زیر کرنے میں کامیاب ہو بھی جائے، تو یہ حتمی فتح کی ضمانت نہیں ہے۔ دشمن پھر سے اپنی صفیں درست کرے گا، دوبارہ منظم ہو گا، اپنی حکمت عملی تبدیل کرے گا اور جوابی حملے کی تیاری کرے گا ، جو کہ زیادہ خطر ناک ہو گا کیونکہ عوام اس خوش فہمی میں ہوں گے کہ جنگ جیتی جا چکی ہے۔ جو پہلے فتح اور مسرت کا لمحہ محسوس ہو رہا تھا اب انقلاب کی قسمت کے لیے شدید خطرے کی گھڑی بن جائے گا، اور ایسے حالات میں مناسب قیادت کا نہ ہونا انقلاب کے لیے جان لیوا کمزوری بن جاتا ہے۔ مظاہروں کی تحریک کی قیادت میں متنوع عناصر اور مختلف نظریاتی رجحانات پائے جاتے ہیں۔آخری تجزیے میں یہ مختلف طبقاتی مفادات کی نمائندگی کرتے ہیں۔ابتدا میں’’اتحاد‘‘ کی عمومی اپیل اس حقیقت پر پردہ ڈال دیتی ہے۔انقلاب کے آگے بڑھنے کے ساتھ اندرونی طور پر فرق واضح ہوتا چلا جائے گا۔بورژوا عناصراور درمیانے طبقے کے ’’جمہوریت پسند‘‘ حکومت کی جانب سے پھینکے گئے ٹکڑوں کو قبول کر لیں گے۔وہ مصالحت کریں گے اور عوام کی پیٹھ پیچھے سودے بازی کریں گے۔ ایک وقت پر جا کر وہ انقلاب سے بھگوڑے ہو کر رد انقلاب کے کیمپ میں شامل ہو جائیں گے۔ یہ اس وقت بھی ہو رہا ہے۔

آخر میں انقلاب کی حتمی فتح کو صرف انتہائی پر عزم انقلابی عناصر ہی یقینی بنا سکتے ہیں: وہ جو کہ مصالحت کرنے کو تیار نہیں ہیں اور آخر تک جانے کے لیے کمر بستہ ہیں۔ اس صورتحال میں نئے دھماکے پوشیدہ ہیں۔بالآخر ایک قوت کو دوسری پر فتح پانی ہے۔محنت کش طبقے کے اقتدار پر قبضے کے لیے معروضی حالات تیار ہیں۔صرف موضوعی عنصر یعنی انقلابی پارٹی اور اور قیادت کے فقدان کی وجہ سے ایسا نہیں ہو پا رہا۔ چناچہ انقلابی قیادت کے مسلے کو حل کرنا انقلاب کا بنیادی مسلہ ہے۔

اوپر کی سازشیں

ملک گیر سرکشی نے ہی جرنیلوں کو اس بات پر قائل کیا کہ مبارک کے جانے سے ہی مصر کی سڑکوں پر آگ کو ٹھنڈاا ور ’’نظم و ضبط‘‘ بحال کیا جا سکتا ہے۔ یہی ان کی سب سے بڑی خواہش تھی، اور اب بھی ہے۔ ان کی جمہوریت کے متعلق تمام باتیں صرف اس حقیقت پر پردہ ڈالنے کے لیے ہیں۔ جرنیل پرانی حکومت کا حصہ تھے کرپشن اور جبر کے غلیظ کھیل میں شریک تھے۔ وہ انقلاب سے طاعون کی طرح خوفزدہ ہیں اور صورتحال کو ’معمول‘‘ پر واپس لانا چاہتے ہیں۔یعنی پرانی حکومت کی نئے نام کے ساتھ واپسی۔

حکمران طبقے کے پاس انقلاب کو شکست دینے کے لیے بہت سی حکمت عملیاں ہوتی ہیں۔ اگر وہ طاقت کے ذریعے ایسا نہ کر پائیں تو وہ مکاری کا سہارا لیتے ہیں۔ جب حکمران طبقے کو سب کچھ چھن جانے کا خطرہ ہو تو وہ رعایتیں دینے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ بن علی اور مبارک کا تختہ الٹنا بڑی کامیابیاں تھیں، لیکن یہ انقلاب کے ڈرامے کا پہلا ایکٹ تھا۔

پرانی حکومت کے نمائندے اب بھی اقتدار میں ہیں، پرانا ریاستی ڈھانچہ، فوج، پولیس اور بیورو کریسی ابھی تک موجود ہیں۔ سامراج فوج کی قیادت اور پرانے لیڈروں کے ساتھ مل کرساز باز کر رہا ہے تا کہ عوام کو دھوکہ دے کر ان سے وہ سب واپس لے لیا جائے جو انہوں نے جیتا ہے۔ وہ سمجھوتے کی پیشکش کر رہے ہیں ، لیکن یہ ایسا سمجھوتہ ہے جس سے ان کا اقتدار اور مراعات قائم رہیں گے۔ سڑکوں پر شکست کھانے کے بعد اب پرانی حکومت سودے بازی کرنا چاہ رہی ہے، یعنی وہ اپوزیشن کے لیڈروں کو بیوقوف بنانے کی کوشش میں ہے تا کہ وہ لیڈر عوام کو بیوقوف بنا سکیں۔اس کے پیچھے سوچ یہ تھی کہ ایک دفعہ معاملات ’’مذاکراتیوں‘‘ کے ہاتھ میںآ جائیں تو عوام خاموش تماشائی بن جائیں گے۔

اوراصل فیصلے کہیں اور، بند دروازوں اور عوام کی پیٹھ پیچھے کیے جائیں گے۔

پرانی حکومت کے اہل کاروں کے اعصاب بحال ہو رہے ہیں۔ ان کا اعتماد بڑھ رہا ہے اور اپوزیشن کے اعتدال پسند حصوں کو استعمال کر تے ہوئے انہوں نے اپنی سازشوں اور جوڑ توڑ کو تیز تر کر دیا ہے۔عوام اس سے ناخوش ہیں۔ وہ ان پیشہ ور سیاست دانوں اور کیریئراسٹوں کے ہاتھوں تحریک کو ہائی جیک نہیں ہونے دینا چاہتے جو جرنیلوں کے ساتھ ایسے سودے بازی کر رہے ہیں جیسے بازار میں تاجر بھاؤ تاؤ کرتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ انقلاب کو آگے کیسے بڑھایا جائے؟ سوال یہ ہے کہ کیا کیا جائے؟

تحریک کے مزید ریڈیکل ہونے کے ساتھ بہت سے ایسے عناصر جو ابتدا میں مرکزی کردار ادا کر رہے تھے، پیچھے رہتے جائیں گے۔کچھ تحریک کو چھوڑ جائیں گے، اور کچھ دشمن سے جا ملیں گے۔اس کا تعلق مختلف طبقاتی مفادات سے ہے۔غریب عوام، بیروزگاروں، محنت کشوں اور ’’ملکیت نہ رکھنے والوں‘‘ کو پرانے نظام کو برقرار رکھنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ وہ نہ صرف مبارک بلکہ جبر، استحصال، اور عدم مساوات پر مبنی پرانے سارے نظام کا خاتمہ چاہتے ہیں۔جبکہ بورژوا لبرل جمہوریت کی جدو جہد کو پارلیمنٹ میں آرام دہ کیرئیر تک ایک راستے کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ انہیں انقلاب کو مکمل کرنے اور موجودہ ملکیتی رشتوں کو چھیڑنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ بورژوا لبرلوں کے نزدیک عوامی تحریک کی اہمیت صرف سودے بازی میں استعمال کی حد تک ہے، جس سے وہ حکومت کو ڈرا کر اپنے لیے روٹی کے چند مزید ٹکڑے حاصل کر سکیں۔ وہ ہمیشہ انقلاب سے غداری کریں گے۔ ان لوگوں پر قطعاً بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ البرادی اب یہ کہتا پھر رہا ہے کہ وہ آئینی ترامیم کا مخالف ہے، لیکن آئین ساز اسمبلی کے فوری مطالبے کی بجائے، وہ یہ کہہ رہا ہے کہ انتخابات کو ملتوی کر دینا چاہیے کیونکہ ابھی حالات ٹھیک نہیں ہیں، کیونکہ ابھی مناسب وقت نہیں ہے ، وغیرہ وغیرہ۔ ان معززین کے نزدیک جمہوریت کے لیے کبھی بھی مناسب وقت نہیں ہوتا۔جس عوام نے انقلاب کے لیے اپنا خون دیا ہے ان کے لیے جمہوریت کے لیے وقت ابھی ہے

عالمی مارکسی رجحان کا موقف

جرنیلوں پر اعتبار نہ کرو

خود ساختہ’ لیڈروں ‘پر اعتبار نہ کرو جو حالات کو ’معمول‘ پر لانا چاہتے

ہیں

عوامی تحریک کو جاری رکھو

انقلابی کمیٹیوں کی تشکیل کرو اور انہیں مضبوط کرو پرانی حکومت کے تمام حمایتیوں کا

صفایا پرانی حکومت کے ساتھ کوئی ڈیل نہیں موجودہ ’عبوری حکومت‘ کا کوئی جواز نہیں اور اس کی فوری برطرفی۔ آئین ساز اسمبلی کے کے فوری قیام کا

مطالبہ

اخوان المسلمون

کچھ لوگ‘ جن میں ایران کا خامنہ ای بھی شامل ہے کہہ رہے ہیں کہ موجودہ انقلابی تحریک کا تعلق مذہب سے ہے اور یہ ایک ’’اسلامی بیداری‘‘ ہے۔ لیکن صاف نظر آ رہا ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ مصر کے بڑے ملاں بھی اس کا اعتراف کر رہے ہیں۔ انہیں خدشہ ہے کہ اگر انہوں نے اسے مذہبی تحریک بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی تو وہ کہیں کے نہیں رہیں گے۔ یہ تمام مذاہب کی تحریک ہے اور اس لیے یہ کسی بھی مذہب کی تحریک نہیں ۔ مظاہروں میں عیسائیوں کے خلاف کوئی نفرت نظر نہیں آئی۔ یہودیوں سے نفرت کا شائبہ تک نہیں تھا۔

مذہبی فرقہ واریت وہ ہتھیار ہے جسے درِ انقلابی عوام کو گمراہ کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ دسمبر میں قبطی عیسائیوں پر ہونے والے حملوں کے پیچھے خفیہ پولیس کا ہاتھ تھا تا کہ مذہبی تقسیم پیدا کی جائے اور عوام کے حقیقی مسائل کی جانب سے توجہ ہٹائی جائے۔وہ پھر سے انہی غلیظ ہتھکنڈوں کو استعمال کر رہے ہیں جس کا مقصد عوام کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کرنا ہے۔ وہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان تصادم کا بیج بو کر عوام کو تقسیم اور گمراہ کرناچاہتے ہیں اور انقلاب کو روکنا چاہتے ہیں۔

تیونس اور مصر میں ہونے والی بغاوتیں عمومی طور پر سیکولر اور جمہوری ہیں ، اور اکثر اوقات اسلامی بنیاد پرستوں کو شعوری طور پر ان سے باہر رکھا گیا ۔ یہ بات کہ اخوان المسلمون ’’واحد حقیقی اپوزیشن‘‘ ہے صریحاً غلط ہے۔ مصری مظا ہرین کے بنیادی مطالبات نوکریوں، خوراک اور جمہوری حقوق کے تھے۔ اس کا اسلامی بنیاد پرستوں سے کوئی تعلق نہیں اور یہ سوشلزم کی جانب ایک پل ہے اور مصر اور دیگر عرب ممالک میں سوشلزم کی گہری روایات موجود ہیں۔

بائیں بازو کے چند گمراہ افراد تیونس اور مصر کی تحریکوں کو ’’درمیانے طبقے ‘‘ کے انقلابات کا نام دے رہے ہیں۔ یہی نام نہاد بائیں بازو کے لوگ حزب اللہ، حماس اور اخوان المسلمون جیسے رجعتی گروپوں کے ساتھ بہت لمبے عرصے سے ساز باز کر رہے ہیں۔ وہ مارکسزم سے اس غداری کا جواز ان گروپوں کے لیڈروں کی برائے نام سامراج مخالفت سے پیش کرتے ہیں۔یہ شروع سے آخر تک جھوٹ ہے۔ یہ نام نہاد اسلامی بنیاد پرستوں کی سامراج مخالفت صرف باتوں کی حد تک ہے، لیکن عمل میں یہ رد انقلابی ہیں۔ در حقیقت یہ پرانی حکومت کی گاڑی کا پانچواں پہیہ ہیں۔ سامراجی عوام کو گمراہ کرنے اور عرب انقلاب کے حقیقی کردار کو چھپانے کے لیے لوگوں کو اسلامی بنیاد پرستی کے بھوت سے ڈرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ کہتے تھے کہ ’’دیکھو! اگر مبارک چلا گیا تو القاعدہ اس کی جگہ لے لے گی‘‘۔ مبارک خود بھی مصری عوام سے کہہ رہا تھا کہ اگر وہ چلا گیا تو ’’عراق جیسی‘‘ صورتحال پیدا ہو جائے گی۔ یہ سب جھوٹ تھا۔بنیاد پرستوں اور اخوان المسلمون جیسی تنظیموں کے کردار کو انتہائی بے ہودہ مبالغہ آرائی کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ ایسی تنظیمیں ترقی پسند سوچ کی نمائندگی نہیں کرتیں۔ وہ خود کو سامراج مخالف بنا کر پیش تو کرتے ہیں لیکن وہ جاگیر داروں اور سرمایہ داروں کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ آخری تجزیے میں وہ ہمیشہ محنت کشوں اور کسانوں کے مقصد سے غداری کریں گے۔

بہت شرم ناک بات ہے کہ یورپ میں بائیں بازو کے کچھ گروپ اور خود کو مارکسسٹ کہلانے والوں میں سے کچھ اسلامی بنیاد پرستوں کی حمایت کر رہے تھے۔ یہ پرولتاریہ کے انقلاب سے غداری ہے۔یہ درست ہے کہ اخوان المسلمون طبقاتی بنیادوں پر منقسم ہے۔قیادت قدامت پسند وں، سرمایہ داروں اور امیر تاجروں کے پاس ہے جبکہ عام ممبران میں نوجوانوں کے زیادہ لڑاکا حصے شامل ہیں جن کا تعلق غریب اور محنت کش گھرانوں سے ہے۔ لیکن ان کو انقلاب کی طرف جیتنے کا طریقہ یہ نہیں کہ ان کے سرمایہ دار لیڈروں کے ساتھ اتحاد بنائے جائیں بلکہ ان لیڈروں پر بے رحمانہ تنقید کرنی چاہیے، تا کہ ان کے سامراج کی مخالفت اور غریبوں کی حمایت کے کھوکھلے دعوے بے نقاب ہو جائیں۔

لیکن ان گروپوں نے اس کے بالکل بر عکس یہ کیا اخوان کے لیڈروں سے قاہرہ میں جنگ مخالف کانفرنس کے انعقاد کے لیے اتحاد بنایا۔ در اصل، بائیں بازو کے یہ گروپ اخوان المسلمون کے لیڈروں کو بائیں بازو کی آڑ(Left Cover)فراہم کررہے ہیں اور ان کی جھوٹی سامراج مخالفت کی توثیق کر کے ان کی اپنے ممبران پر گرفت کو مضبوط کر رہے ہیں۔

ماضی میں سی آئی اے بائیں بازو کی جانب مائل جمال عبدالناصر کی نیشنلائیزیشن کے خلاف اخوان کی پشت پناہی کر رہی تھی ۔اسلامی بنیاد پرستی جان فوسٹرڈلس اور امریکی وزارت خارجہ کی تخلیق تھی، جس کا مقصد1956ء میں سویز کی جنگ کے بعد بائیں بازو کوتوڑنا تھا۔لیکن جب سادات اور مبارک امریکہ کے پٹھو بن گئے تو ان کی خدمات کی ضرورت نہ رہی۔ ہیلری کلنٹن اور دوسروں نے یہ کہا ہے کہ اخوان المسلمون کوئی خطرہ نہیں ہیں، اور ان کے ساتھ کام کیا جا سکتا ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ سامراجی ایک مرتبہ پھر انقلاب کو روکنے کے لیے اسلامی بنیاد پرستوں کو استعمال کرنے کی کوشش کریں گے۔

اسی طرح حماس اور حزب اللہ کو PLFPاور دوسرے بائیں بازو کے رجحانات کو توڑنے کی خاطرکھڑا کیا گیا تھا۔ بعد میں سی آئی اے نے افغانستان میں سوویت فوج کے مخالف اسامہ بن لادن کو پیدا کیا۔اور اب وہ ایک دفعہ پھر مصر میں انقلاب کو روکنے کے لیے اخوان المسلمون کی قیادت سے ساز باز کر رہے ہیں۔ لیکن اخوان المسلمون تفریق سے پاک نہیں ہے اور اب یہ طبقاتی بنیادوں پرمختلف دھڑوں میں تقسیم ہو رہی ہے۔

اخوان کے حامی غریب لوگوں اور اس کی قیادت دو مختلف چیزیں ہیں۔1980ء کی دہائی میں اخوان کے لیڈرمعاشی لبرلائی زیشن( Economic Liberalization) کے پروگرام سے فائدے حاصل کرنے والوں میں پیش پیش تھے۔ انفتاح یعنی ’’کھولنے‘‘ کا پروگرام کے تحت سادات اور پھر مبارک نے سرکاری شعبے کا خا تمہ کر کے نجی سرمائے کو آگے بڑھایا۔ اخوان سے تعلق رکھنے والے کاروباریوں کے متعلق ایک تجزیے میں سامنے آیا ہے کہ اس وقت وہ نجی شعبے میں موجود معیشت کے 40فیصد کے مالک ہیں۔ وہ سرمایہ دارانہ نظام کا حصہ ہیں اور اس کا ہر ممکن دفاع کریں گے۔ ان کے کردار کا تعین مقدس قرآن نہیں بلکہ طبقاتی مفادات کرتے ہیں۔

’’سخت گیر‘‘ اسلامی بنیاد پرست بھی انقلابی عوام سے اتنے ہی خوفزدہ ہیں جتنا حکومت خوف زدہ ہے۔ اخوان المسلمون نے اعلان کیا تھا کہ وہ مبارک کے استعفے سے پہلے حکومت سے مذاکرات نہیں کریں گے۔ لیکن جوں ہی حکومت نے اشارہ کیا وہ اسی وقت بدل گئے۔ ان کا ایک لیڈر تحریر چوک بھی گیا جہاں مظاہرین ٹینکوں کے داخلے کو روکنے کے لیے ان کے سامنے مضبوطی سے کھڑے تھے۔ اس لیڈر نے مظاہرین سے اپیل کی کہ وہ فوج سے تصادم نہ کریں۔ لینن نے بہت عرصہ قبل ہی ایسے لوگوں کے متعلق ہمارے رویے کو واضح کر دیا تھا۔ کمیونسٹ انٹر نیشنل کی دوسری کانگریس پر اس نے خبردار کیا تھا کہ ’’(11پسماندہ ریاستوں اور قوموں میں جہاں جاگیر دارانہ، پدری اور پدری مزارعاتی Patriarchal-Peasant) رشتے حاوی ہوتے ہیں، ان کے متعلق ہمیں ذہن میں رکھنا چاہیے کہ:

اول ، تمام کمیونسٹ پارٹیوں کو ان ممالک میں بورژوا جمہوری آزادی کی تحریکوں کی حمایت کرنی چاہیے، اور ان کی متحرک ترین حمایت کی بنیادی ذمہ داری اس ملک کے ایسے محنت کش طبقے پر ہے جس پر وہ پسماندہ ملک نو آبادیاتی یا معاشی طور پر منحصرہے۔

دوم، پسماندہ ممالک میں مذہبی اشرافیہ اور دیگر بااثر رجعتی اور زمانہ قدیم کے عناصر کے خلاف جدوجہد کی ضرورت ہے۔

سوئم‘ بین الاقوامی اسلامی رجحانات (Pan-Islamism )اور اس جیسے دیگر کے خلاف لڑنے کی ضرورت ہے، جو اس چیز کے لیے سرگرم ہیں کہ یورپی اور امریکی سامراج کے خلاف آزادی کی تحریک کو خوانین، جاگیر داروں اور ملاؤں وغیرہ کی پوزیشن کو مستحکم کرنے کی کوششوں کے ساتھ جوڑ سکیں۔(لینن، قومی اور نو آبادیاتی سوال پر ڈرافٹ تھیسس، 5جون،1920ء)

یہ مارکسزم کا رجعتی مذہبی رجحانات کے متعلق اصل موقف ہے۔ عالمی مارکسی رجحان اس موقف کا بھر پور دفاع کرتا ہے۔

عالمی مارکسی رجحان کا موقف

انقلابی عوام کے اتحاد کا دفاع کیا جائے

اقلیتوں پر حملہ کرنے والے اور

نفرت کے سوداگر مردہ باد ہر طرح کا مذہبی امتیاز نا منظور رجعتی اور قدامت پرست (Obscurantist)

رجحانات سے کوئی سمجھوتہ نہیں! ہر مرد اور عورت کو کوئی بھی مذہبی عقیدہ رکھنے اور کوئی بھی عقیدہ نہ

رکھنے کی مکمل آزادی!

مذہب کی ریاست سے مکمل علیحدگی!

حصہ دوم

جمہوری مطالبات

پہلے اظہار میں انقلاب کے مطالبات جمہوری نوعیت کے ہیں۔ ایسا کیوں نہ ہو! 30سال کی جابرانہ آمریت کے بعد نوجوانوں میں آزادی کی سلگتی ہوئی خواہش موجود ہے۔صاف ظاہر ہے کہ بورژوا سیاست دان جمہوریت کی اس خواہش کا غلط استعمال کر سکتے ہیں جن کی دلچسپی ایک جمہوری ’’پارلیمنٹ‘‘ کے اندر ان کے کیریر تک محدود ہے۔ لیکن یہ ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ جمہوری مطالبات کو لے کر ان کو انقلابی رنگ دیں۔ایسا ناگزیر طور پر سماج میں کہیں بڑی بنیادی تبدیلی کے مطالبے کو جنم دے گا۔

کسی ہڑتال یا انقلاب کے دوران لوگ خود کو انسان سمجھنا شروع کر دیتے ہیں،با وقار اور حقوق یافتہ انسان۔ساری عمر کی جبری خاموشی کے بعد،ان پر اپنی آواز کی موجودگی کا انکشاف ہوتا ہے۔ سڑکوں پر لوگوں سے لیے گئے انٹر ویو اس بات کا عمدہ اظہار ہیں۔ غریب اور ان پڑھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ : ہم لڑیں گے، ہم سڑکوں سے واپس نہیں جائیں گے؛ ہم اپنے حقوق اور باعزت سلوک کا مطالبہ کرتے ہیں۔یہ انتہائی ترقی پسندانہ عمل ہے۔یہی ایک حقیقی انقلاب کی روح ہوتی ہے۔

یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ مارکسسٹوں کے نزدیک سوشلسٹ انقلاب کو جمہوری مطالبات پر فوقیت حاصل ہے۔ لیکن عملی طور پر بہت ثابت قدم اور آگے بڑھے ہوئے انقلابی مطالبات لازمی طور پر مزدور اقتدار اور سوشلسٹ انقلاب کے سوال کو جنم دیں گے۔ انقلاب روس اس کی بہترین مثال ہے۔1917ء میں بالشویکوں نے ’’امن، روٹی اور زمین‘‘ کے نعرے کے تحت اقتدار حاصل کیا، ان میں سے ایک بھی نعرہ سوشلسٹ نہیں ہے۔صرف نظریاتی اصولوں کے مطابق دیکھا جائے تو سرمایہ دارانہ نظام کے اندر رہتے ہوئے یہ تینوں مطالبات حاصل کیے جا سکتے تھے۔ لیکن ، عملی طور پر، ان کا حصول صرف بورژوازی کا تختہ الٹ کر اور اقتدار کی محنت کش طبقے کو منتقلی سے ممکن تھا۔

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ محض ایک بورژوا قومی تحریک ہے، کوئی حقیقی انقلا ب نہیں۔ یہ لوگ اس طرح کی کیفیت کے اندر انقلاب میں جمہوری مطالبات کی اہمیت کو نہیں سمجھتے اور اپنی جہالت کا اظہار کر رہے ہیں۔ انقلاب روس کے تجربات خود ثابت کرتے ہیں کہ جمہوری مطالبات کا درست (انقلابی) استعمال کتنا ضروری ہے۔ آئین ساز اسمبلی کے قیام کے مطالبے نے عوام کی وسیع تر پرتوں کو انقلابی مقصد کے لیے متحرک کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ بلند ترین جمہوری مطالبات کے لیے لڑتے ہوئے، مارکسسٹ ان مطالبات کو حتمی مقصد نہیں سمجھتے، بلکہ اسے سماج میں ایک بنیادی تبدیلی کے لیے لڑی جانے والی لڑائی کا حصہ مانتے ہیں۔ مارکسسٹوں اور بیہودہ پیٹی بورژوا جمہوریت پسندوں کے نکتہ نظر میں یہی فرق ہے۔

مصر میں پہلا فریضہ مبارک اور اس کی گلی سڑی آمریت کا تختہ الٹنا تھا۔لیکن یہ صرف پہلا قدم تھا جس نے انقلابی عوام کے سیلابی ریلے کے لیے سب راستے کھول دیئے ہیں۔انہیں روز بروز سڑکوں پر اپنی قوت کا، منظم ہونے اور بڑے پیمانے پر متحرک ہونے کی اہمیت کا احساس ہو رہا ہے۔ یہ واقعی بہت بڑی فتح ہے۔ تیس سال تک آمریت میں رہنے کے بعد اب وہ کوئی نئی آمریت، یا پھر پرانی حکومت کی نئے نام کے ساتھ بحالی کی کوئی سازش کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ تیونس کے واقعات اس بات کا ثبوت ہیں۔

اپنی طاقت کو محسوس کر لینے کے بعد، عوام اب ادھورے اقدامات سے مطمئن نہیں ہوں گے۔ انہیں معلوم ہے کہ ابھی تک کی تمام حاصلات ان کے زور بازو کے بل بوتے پر جیتی گئیں۔ مکمل جمہوریت کے لیے جدوجہد سے حقیقی ٹریڈ یونینوں اور محنت کشوں کی پارٹیوں کا قیام ممکن ہو سکے گا۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ معاشی جمہوریت اور نا برابری کے خلاف لڑائی کا سوال بھی اٹھے گا۔ نعرے اور طریقہ کار ٹھوس ہونے چاہئیں۔ ان سے حقیقی صورتحال اور عوام کے حقیقی مسائل اور خواہشات کا اظہار ہونا چاہیے۔ انقلاب روس کے معروضی فریضے جمہوری اور قومی تھے جن میں زار شاہی کا خاتمہ، دستوری جمہوریت، سامراج سے آزادی، پریس کی آزادی وغیرہ شامل تھے۔ ہم مکمل جمہوریت، تمام رجعتی قوانین کے فوری خاتمے اور آئین ساز اسمبلی کا مطالبہ کرتے ہیں۔

بلا شبہ ہمیں پرانی حکومت کا تختہ الٹنا ہے، جو صرف بن علی اور مبارک تک محدود نہیں بلکہ تمام ’’چھوٹے مبارک‘‘ اور ’’چھوٹے بن علی‘‘ بھی اس کا حصہ ہیں۔ریاست کی مکمل تطہیر ہونی چاہیے، اور حکومت میں کوئی ایک بھی ایسا فرد نہیں ہونا چاہیے جس کا پرانی حکومت میں کوئی کردار رہا ہو۔ انقلابی عوام جنہوں نے جدوجہد میں سب کچھ قربان کر دیا ہے، ان لوگوں کو اقتدار میں کیوں آنے دیں جنہوں نے انقلاب کے لیے کچھ بھی نہیں کیا، خواہ ایسا عبوری حکومت کے نام پر ہی کیوں نہ ہو۔ایک بڑے سے جھاڑو سے ان سب کا صفایا کر دو۔یہ ہمارا پہلا مطالبہ ہے۔ ہم اس سے کم کسی چیز کو قبول نہیں کریں گے۔

لیکن صرف یہی کرنا کافی نہیں۔ کئی دہایؤں تک ان اصحاب نے سماج کی دولت کو لوٹا ہے۔ یہ عیاشی کی زندگی گزار رہے تھے جبکہ عوام غربت میں رہنے پر مجبور تھے۔ اب ہمیں ان افراد سے عوام کی لوٹی گئی پائی پائی واپس وصول کرنا ہو گی۔ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ان طفیلیوں کی دولت اور جائیدادضبط کر لی جائے اور اس کے ساتھ ہی ان سامراجیوں کے اثاثے بھی جو ان کی پشت پناہی کرتے تھے۔

ہم دیکھ سکتے ہیں کہ کیسے انقلابی جمہوری مطالبات سے سوشلسٹ مطالبات کی جانب بڑھا جا سکتا ہے۔ جو کوئی جمہوری مطالبات کو درست انقلابی طریقے سے استعمال کرنا نہیں جانتا، اس کا مقدر ہمیشہ ایک خصی فرقہ پرور ہی رہنا ہے۔ ایسا شخص کبھی بھی عوام کی حقیقی تحریک سے جڑنے کے قابل نہیں ہو گا۔

تاہم جمہوریت کے مختلف لوگوں کے لیے مختلف معنی ہیں۔ مصر کے غریب عوام جمہوریت کی لڑائی کیرئیر اسٹوں کو وزارتیں دینے کے لیے نہیں بلکہ اپنے سلگتے ہوئے مسائل کے حل کے لیے لڑ رہے ہیں جو بے روزگاری، رہائش اور مہنگائی ہیں۔ معاشی اور سماجی مسائل اتنے گہرے ہیں کہ کوئی بورژور حکومت انہیں حل نہیں کر سکتی۔ اگرجمہوریت حکمران اشرافیہ کی بے ہودہ حد تک بے پناہ دولت پر ہاتھ نہیں ڈالتی تو یہ محض ایک کھوکھلا نعرہ بن جائے گی۔ حکمرا ن ٹو لے کی دولت کو ضبط کر لو! پرانی حکومت کی پشت پناہی اور مصری عوام کا استحصال کرنے والے سامراجیوں کے اثاثے ضبط کر لو! اگر جمہوریت کے لیے لڑائی کو آخر تک لڑا گیا تو ناگزیر طور پر بینکاروں اور سرمایہ داروں کی دولت کو ضبط کرنا پڑے گا اور محنت کشوں اور کسانوں کی حکومت تشکیل دینا پڑے گی۔ مبارک کے دور حکومت میں مصری سرمایہ دار غیر ملکی کاروباریوں پر بہت مہربان تھے اور ان کی جانب سے ملکی دولت کی سامراجی لوٹ کھسوٹ اور مصری عوام کے استحصال میں معاون تھے۔ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ سامراجیوں کی دولت کو عوامی فلاح میں استعمال کے لیے ضبط کیا جائے۔

عالمی مارکسی رجحان کا موقف

تمام رجعتی قوانین کا فوری خاتمہ

اجتماع کی مکمل آزادی اور ہڑتال کا حق

انقلابی آئین ساز اسمبلی کا قیام

گزشتہ حکومت کی لوٹی ہوئی تمام

دولت کی ضبطگی

سامراجیوں کی دولت کی ضبطگی

آئین ساز اسمبلی کا نعرہ

اگر مصر میں بالشویک پارٹی جیسی کوئی پارٹی ہوتی تو اقتدار پر قبضے کا سوال اٹھتا۔ لیکن واضح پروگرام سے لیس قیادت کے فقدان کی وجہ سے، انقلاب ہر طرح کے نشیب و فراز سے گزرے گا۔ ابھی تک انقلابی طوفان تھما نہیں ہے۔

لیکن عوام مستقل طور پر تحریک کی کیفیت میں نہیں رہ سکتے۔ زندہ رہنے کی خاطر انہیں روزگار کمانا ہوتا ہے۔ انقلابی لاوا وقتی طور پر ٹھنڈا ہو گا۔بالآخر انقلاب کوکسی طرح کی بورژوا جمہوریت کے راستے پر ڈال دیا جائے گا۔

ایسی صورتحال میں جمہوری مطالبات کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے۔ مبارک کے زیر اقتدارمصر جیسی صورتحال میں جمہوری مطالبات عوام کی وسیع تر ین پرتوں کو انقلاب کے لیے متحرک کرنے کازور دار ہتھیار بن جاتے ہیں۔ہمیں زیادہ سے زیادہ جمہوری حقوق کے لیے لڑنا ہو گا، جیسے ووٹ اور ہڑتال کا حق وغیرہ۔ کیونکہ یہ محنت کشوں کے مفاد میں ہے کہ طبقاتی جدوجہدکو آگے بڑھانے کے لیے ہر ممکنہ حد تک آزاد میدان میسر آئے۔ایسا نہیں کہ کسی محنت کش کو اپنے بنیادی حقوق کے حصول کے علاوہ ایک جابر حکومت کے تحت زندگی گزارنے کی کوئی پرواہ نہ ہو۔چنانچہ ہمارے پروگرام میں جمہوری مطالبات کی مرکزی اہمیت ہونی چاہیے۔

کچھ لوگ اس بات کو سمجھ نہیں پا رہے کہ ہم ان ممالک میں آئین ساز اسمبلی کی حمایت کر رہے ہیں جبکہ ارجنٹائن اور بولیویا میں ہم نے اس کی مخالفت کی تھی۔اسے سمجھنا بہت ہی آسان ہے۔ نعرے زمان و مکان سے باہر اپنا کوئی وجود نہیں رکھتے۔ان کو اس متعلقہ ملک میں جاری طبقاتی جدوجہد کے موجودہ مرحلے کی ٹھوس حقیقت کے مطابق ہونا چاہیے۔

بولیویا میں اکتوبر 2003 ء اور مئی ۔جون 2005ء کے انقلابی ابھار کے دوران آئین ساز اسمبلی کا نعرہ رد انقلابی ہوتا۔ لیکن کیوں؟ کیونکہ اس وقت تک بولیویا کے محنت کش دو عام ہڑتالیں اور سرکشیاں کر چکے تھے۔ وہاں سوویتوں کے طرز پر ادارے بن گئے تھے جن میں محلوں کی کمیٹیاں، عوامی اسمبلیاں اور ’’شہر کی مجلس‘‘ وغیرہ شامل تھیں۔

بولیویا کے محنت کش باآسانی اقتدار پر قبضہ کر سکتے تھے۔COB(ٹریڈ یونین فیڈریشن) کے لیڈروں کا اپنی حکومت کا اعلان کر دینا ہی کافی ہوتا۔ ان حالات میںآئین ساز اسمبلی کا مطالبہ انقلاب سے غداری تھا۔ اس سے محنت کشوں کی توجہ اصل کام سے ہٹ کر، جو کہ اقتدار پر قبضہ کرنا تھا، پارلیمانی راستوں کی جانب موڑ دی گئی۔

اس نعرے کی رد انقلابی نوعیت کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ عالمی بینک اور امریکہ کے فنڈ پر چلنے والے دفتر برائے اقداماتِ تبدیلی(Office for Transition Initiatives)آئین ساز اسمبلی کی حمایت کر رہا تھا۔ ایک اور چھوٹی سی حقیقت یاد ررہے کہ اس وقت پر بولیویا میں پہلے ہی سے ایک بورژوا جمہوریت موجود تھی۔ارجنٹائن میں آئین ساز اسمبلی کا نعرہ دسمبر2001ء میں ارجنٹینازو(Argentinazo )کی سرکشی کے بعد بائیں بازو کے کچھ گروپوں نے دیا تھا۔پہلے سے ہی بورژوا جمہوریت کے ہوتے ہوئے آئین ساز اسمبلی کا نعرہ صریحاً غلط تھا اور اس کا مطلب تھا کہ ’’ہمیں موجودہ بورژوا پارلیمنٹ پسند نہیں۔ ہمیں ایک نئی بورژوا پارلیمنٹ چاہیے‘‘۔

اندھے بھی دیکھ سکتے ہیں کہ ان کیفیات کی تیونس اور مصر کی صورتحال سے کوئی مماثلت نہیں ہے۔ کئی دہائیوں کی آمریت کے بعد جمہوریت کے متعلق بہت بڑی خوش فہمیاں ہونا ناگزیر ہے، نہ صرف پیٹی بورژوازی بلکہ عوام میں بھی۔اور ہمارا رویہ اسی کے مطابق ہے۔ ہم جمہوریت کے حامی ہیں لیکن ایک مکمل جمہوریت کے۔ایک جمہوری مطالبہ یہ ہے کہ ’ہمیں ایک نیا آئین چاہیے اور اس کو بنانے کے لیے ایک آئین ساز اسمبلی، لیکن ہم اسکے قیام کے لیے فوج پر بھروسہ نہیں کر سکتے ، اس لیے جدوجہد سڑکوں پر جاری رہنی چاہیے‘۔ بلا شبہ مارکسسٹ جمہوری نعروں کو ریاضی کے اصولوں کی طرح نہیں لیتے‘ اور جمہوری مطالبات ہمیشہ سوشلسٹ انقلاب کے عمومی مفاد کے تابع ہوتے ہیں۔ہمارا دستوری جمہوریت کے متعلق پیٹی بورژوازی جیسا تخیلاتی رویہ نہیں ہے۔ انقلاب جیسے جیسے آگے بڑھے گا تو بورژوا جمہوریت کی حدود واضح ہوتی جائیں گی۔تجربات سے گزر کر محنت کش اقتدار پر اپنے قبضے کی ضرورت کو سمجھیں گے۔ لیکن بورژوا جمہوریت کی حدود کو سمجھنے کے لیے ، محنت کشوں کو جمہوریت کے سکول میں جانا ہو گا۔ لیکن یہ سب کچھ ہونے کے لیے بھی ایڈوانس جمہوری نعروں کی خاطر ایک سنجیدہ لڑائی لڑنا ہو گی۔ مصر میں کئی دہائیوں کی مطلق العنان آمریت کے بعد ہم آئین کے سوال کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ فوجی کونسل کی جانب سے مجوزہ اقدام یہ ہے کہ فوج کی جانب سے مقرر کیے گئے ماہرین کی طرف سے دی گئی چند آئینی ترامیم کے متعلق ریفرنڈم کروایا جائے گا۔ یہ بالکل غیر جمہوری ہے۔ مبارک کے قانون میں ترامیم نہیں کی جا سکتیں، اسے ردی کی ٹوکری میں پھینک دینا چاہیے، اور ایک انقلابی جمہوری آئین ساز اسمبلی کا انعقاد ہونا چاہیے جو مکمل طور ہرایک نئے آئین پر بحث کرے۔جرنیلوں کا رد انقلابی کردار فوج کی جانب سے تحریر چوک کو جبراً خالی کرانے سے واضح ہوجاتاہے۔

جدوجہد کے ذریعے آمریت کا خاتمہ کرنے کے بعد ، انقلابی عوام ان جرنیلوں کی جھولی اقتدار میں نہیں ڈال سکتے جو آخری لمحے تک مبارک کی حمایت کر تے رہے۔ محنت کش مسلح افواج کے سربراہان یا ان کے مقرر کیے گئے ’’ماہرین‘‘ پر بھروسہ نہیں کر سکتے کہ وہ حقیقی جمہوری آئین مرتب کریں۔ ہم آئین ساز اسمبلی کے حق میں ہیں، یعنی ایک جمہوری طور پر منتخب شدہ ادارے کے جو آئین ترتیب دے۔ یہ ایک بنیادی جمہوری مطالبہ ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آئین ساز اسمبلی کا انعقاد کون کرے گا؟ اس کام کے لیے مصری فوج پر بھی بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے جدوجہد سڑکوں پر، فیکٹریوں میں ، نوجوانوں اور بیروزگاروں میں جاری رہنی چاہیے، جب تک کہ جمہوریت کی خاطر لڑائی مکمل نہ ہو جائے۔

مصر کی صورتحال2003ء اور2006ء کے بولیویا یا 2001ء کے ارجنٹائن کی بجائے 1905ء اور 1917ء کے روس سے مماثلت رکھتی ہے۔ہمیں ایڈوانس جمہوری نعروں کو استعمال کرتے ہوئے مزدور اتحاد کا بنیادی سوال اٹھانا ہو گا۔ہم نوجوانوں اور محنت کشوں سے کہتے ہیں کہ’’آپ جمہوریت چاہتے ہیں؟ ہم بھی چاہتے ہیں! لیکن فوج یا البرادی پر بھروسہ مت کرو-آؤ حقیقی جمہوریت کی خاطر لڑیں‘‘۔ بلا شبہ آج تیونس، مصر اور ایرا ن میں آئین ساز اسمبلی کا نعرہ انتہائی درست ہے۔ مصر کے محنت کش پہلے سے ہی درست نتائج اخذ کرچکے ہیں۔ اس کا واضح اظہار حلوان میں فولاد کی صنعت کے محنت کشوں کی جدوجہد کے دوران پیش کیے گئے مطالبات سے ہوتا ہے جو یہ تھے کہ:

۔ ’’مبارک کا فوری استعفیٰ اور اس کی حکومت میں شامل تمام افراد کی برطرفی

۔ مفادِ عامہ کے لیے حکومت میں شامل تمام افراد کی دولت اور جائیداد کی ضبطگی، اور ان تمام افراد کی بھی

جو کرپشن میں ملوث پائے جائیں ۔حکومت کے کنٹرول میں یا اس سے منسلک ٹریڈ یونینوں سے تمام مزدوروں کا فوری استعفیٰ اور ان کی آزاد یونینوں کے قیام کا اعلان اور انکی کانفرنس کا انعقاد جو ان کا سینڈیکیٹ(syndicate) منتخب کرے۔

4۔ فروخت اور بند شدہ سرکاری کمپنیوں پر قبضہ اور عوام کے لیے ان کی نیشلائیزیشن کا اعلان اور ان کو چلانے کے لیے مزدوروں اور ٹیکنیشنوں پر مبنی نئی انتظامیہ کا قیام۔

5۔کام کرنے کی تمام جگہوں پر کمیٹیوں کا قیام جو مزدوروں کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ پیداوار ‘ قیمتوں اور اجرتوں کی تقسیم کریں۔

6۔عوام کے تمام طبقات اور رجحانات پر مشتمل آئین ساز اسمبلی کے لیے کال جو کہ نیا آئین ترتیب دے اورگزشتہ حکومت سے مذاکرات کا انتظار کیے بغیر عوامی کونسل کا انتخاب‘‘ یہ مطالبات بالکل درست ہیں۔ان سے بہت بلند سطح کے انقلابی شعور کا اظہار ہوتا ہے اور یہ مارکسسٹوں کی جانب سے دیے گئے پروگرام سے مطابقت رکھتے ہیں۔اس پروگرام میں وہ سب کچھ موجود ہے جو مصر کے انقلاب کی فتح یابی کے لیے درکار ہے۔

ٹریڈ یونین

انقلاب تنظیم کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔ ٹرید یونینیں ہمیشہ تمام ممالک کے محنت کشوں کی سب سے بنیادی تنظیمیں ہوتی ہیں۔تنظیم کے بغیر محنت کش طبقہ ہمیشہ استحصال کے لیے خام مال ہوتاہے۔ اس لیے یونینوں کی تشکیل اور مضبوطی کا کام فوری ترجیح ہے۔ مصر اور تیونس میں یونینوں کا پرانی حکومتوں کے ساتھ گہرا تعلق تھا۔ ہر طرح سے وہ ریاست کا حصہ تھیں۔ان کی بالائی پرتیں کرپٹ اور ان میں سے بہت سے حکمران جماعت کاحصہ تھے۔ ان کا بنیادی کردار مزدوروں کی پولیس کا تھا۔لیکن عام ممبران کی سطح پر ان میں مزدور اور مخلص کارکنان تھے۔ بورژوا جمہوریت میں بھی یونین کی قیادت کی فطرت میں ریاست میں شامل ہونے کے رجحانات پائے جاتے ہیں۔لیکن تاریخ گواہ ہے کہ جب محنت کش طبقہ حرکت میں آتا ہے تو انتہائی کرپٹ اور بیو رو کریٹک ٹریڈ یونینیں بھی محنت کش طبقے کے دباؤ میں آتی ہیں اور جدوجہد کے دوران ان میں تبدیلیاں آتی ہیں۔ یا تو پرانے لیڈر خود کو بدل کر محنت کشوں کی جانب سے دباؤ کا اظہار کرنا شروع کر دیں گے یا پھران کی چھٹی کرا دی جائے گی اور ان کی جگہ ایسے لوگ لیں گے جو تحریک کی قیادت کرنے کے لیے تیار ہوں گے۔

تیونس میں UGTT کے لیڈر بن علی حکومت کا حصہ تھے۔یہ پرانے لیڈر غنوشی کی قائم کردہ عبوری حکومت میں شامل ہونے پر آمادہ تھے لیکن محنت کشوں کے دباؤ کے تحت ان کو مستعفی ہونا پڑا۔ لیکن مقامی اور علاقائی سطحوں پر UGTTنے انقلاب میں مرکزی کردار ادا کیا۔ بعض جگہوں پر، جیسے ردیف میں، UGTTنے سماج کو چلانے کا کام عملی طور پر اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ دیگر علاقوں میں مقامی یونینوں نے انقلابی کمیٹیوں کے ذریعے تحریک کو منظم کرنے میں اہم کردارا دا کیا۔ اس سے ہمیں انقلاب کو آگے بڑھانے میں یونینوں کا اہم کردار نظر آتا ہے۔ UGTTکی ہر سطح پر مکمل صفائی کی ضرورت ہے تاکہ گزشتہ حکومت سے منسلک تمام بیوروکریٹوں کو باہر نکالا جا سکے اور اس کا آغاز جنرل سیکرٹری عبدالسالم جارد سے ہونا چاہیے جو کھلے عام ہڑتالوں کو ختم کروانے کا کردار ادا کر رہا ہے۔ بائیں بازو اور جمہوریت پسندوں کے زیر قیادت علاقائی ڈھانچوں اور ملک گیر فیڈریشنوں کو‘جو کہ UGTTکے ممبران کی اکثریت کی نمائندگی کرتی ہیں، فوری طور پر ایک ہنگامی ملک گیر کانگریس کا انعقاد کرنا چاہیے۔یونین کو جمہوری بنانے اوراسے انقلابی تحریک کے ساتھ منسلک کرنے کے عمل کو عام محنت کشوں کی بڑے پیمانے پرحمایت حاصل ہو گی۔اگر محنت کش اور نوجوان بن علی اور غنوشی کو ہٹانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں تو پھر ان کرپٹ ٹریڈ یونین لیڈروں کو ہٹا نا تو اس سے کہیں زیادہ آسان ہو گا جو ان کی حمایت کیا کرتے تھے۔

مصر میں کرپٹ ٹریڈ یو نین لیڈر ہڑتالوں کی اس لہر کو روکنے میں ناکام رہے جو انقلاب کی تیاری کی درسگاہ بنی۔ مصر کے محنت کش پرانے کرپٹ لیڈروں کے خلاف کھڑے ہو چکے ہیں اور ایسی یونینیں بنانے کی جدوجہد کر رہے ہیں جو حقیقی معنوں میں طبقے کی جمہوری اور لڑاکا تنظیمیں ہوں۔ایسا کرکے انہوں نے غیر متزلزل طبقاتی جبلت کا اظہار کیا ہے ۔جمہوریت کی خاطر لڑائی محض سیاسی میدان تک محدود نہیں ہے۔ اسے لازمی طور پر ٹریڈ یونین اور کام کی جگہ پر بھی لڑنا ہو گا۔ مصر میں آزاد ٹریڈ یونینوں کی ایک نئی فیڈریشن کے قیام کے لیے جدوجہد جاری ہے۔ موجودہ انقلابی حالات میں یہ مصری محنت کشوں کی نمائندہ تنظیم بن سکتی ہے۔لیکن پرانی سرکاری یونینوں کے اندر ہونے والی لڑائی کو یکسر ترک کر دینا بھی غلط ہو گا، جو اب بھی کروڑوں محنت کشوں کی نمائندگی کی دعویدار ہیں۔ بعض مقامات پر کام کرنے کی ساری جگہوں اور پورے شعبوں میں نئے سرے سے یونین ساز ی ہو گی۔اوربعض مقامات پر پہلے سے موجود سرکاری یونینوں پر محنت کشوں کے کنٹرول حاصل کرنے سے جمہوری اور لڑاکا یونینیں سامنے آئیں گی۔

بورژوازی اور سامراج یونینوں کی مرکزی اہمیت سے بخوبی آگاہ ہیں۔ وہ محنت کشوں کو کرپٹ کرنے اور دھوکہ دینے کے لیے کرائے کے ایجنٹوں کو بھیجیں گے تاکہ محنت کشوں کو انقلابی اور سوشلسٹ نظریات سے دور رکھ سکیں۔ سی آئی اے کے AFL-CIO(امریکن فیڈریشن آف لیبر۔کانگریس آف انڈسٹریل اورآرگنائزیشنز)، یورپی سوشل ڈیمو کریسی اور نام نہاد عالمی ٹریڈ یونین اداروں کے ساتھ گہرے مراسم ہیں۔ وہ لڑاکا ٹریڈ یونین تحریک کوان کے کنٹرول میں لانے کی کوشش کریں گے۔ محنت کشوں کو ان ’’دوستوں‘‘ سے ہوشیار رہنا ہو گا جو انہیں کرپٹ کرنے اور انقلاب کو اندر سے ضرب لگانے کی کوشش کریں گے۔ انہیں نام نہاد این جی اوز سے بھی ہوشیار رہنا ہو گا جوسامراج کے درپردہ ایجنٹ ہیں۔ این جی اوز کا کرداریہ ہے کہ محنت کشوں کو انقلابی راستے سے ہٹا کر خیرات جیسے ہزاروں قسم کے فضول کاموں میں الجھا دیا جائے اور سابقہ انقلابی اور لڑاکا محنت کشوں کو تنخواہ دار ملازم ، دفتر کے چپڑاسی اور بیوروکریٹ بنا دیا جائے۔ اس طرح کے ہتھکنڈے محنت کشوں کی تحریک کو کھوکھلا کر سکتے ہیں۔

یونینوں کا کام سرمایہ داری کو تحفظ دینا نہیں بلکہ اسے اکھاڑ پھینکنا ہے۔ہمارا پہلا کام بہتر معیار زندگی ، بہتر اجرتوں اور حالات کار کے لیے لڑائی لڑنا ہے۔ ہمیں ہر طرح کی بہتری کے لیے لڑنا ہے خواہ وہ کتنی ہی چھوٹی کیو ں نہ ہو۔ لیکن ہمیں یہ بھی ذہن نشین کرنا چاہیے کہ ہمارے بنیادی مطالبات کا حصول اس وقت تک نا ممکن ہے جب تک زمین، بینک اور بڑی صنعتیں ایک طفیلی اشرافیہ کی ملکیت میں ہیں۔

پرانی حکومت کے خلاف جدو جہد میں یونینیں سماج کی دوسری پرتوں سے جڑت بنا رہی ہیں جن میں بے روزگار، خواتین، نوجوان، کسان، اور دانشور شامل ہیں۔یہ انتہائی ضروری ہے۔ محنت کش طبقے کو خود آگے بڑھ کر قوم کی قیادت کرتے ہوئے ہر طرح کی نا انصافی اور جبر کے خلاف لڑنا ہو گا۔ انقلابی لوگ ہر طرح کی عوامی کمیٹیاں بنا رہے ہیں۔ یہ انقلابی تحریک کو منظم اور واضح شکل دینے کے لیے ضروری اقدام ہیں۔ لیکن یہ وسیع کمیٹیاں ٹریڈ یونینوں کا متبادل نہیں ہیں جو محنت کشوں کی تحریک کے بنیادی تنظیمی ڈھانچے ہیں۔

ٹریڈ یونینیں انقلاب کے سکول ہیں جو پرانی حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ کا تختہ الٹنے میں اہم کردار ادا کریں گی اور نئے سوشلسٹ سماج کی بنیاد رکھیں گی جہاں یونینوں کا کردار ہزاروں گنا بڑھ جائے گا اور وہ قومی تحویل میں لی گئی صنعت کو چلانے، پیداوار کی منصوبہ بندی اور سماج کو چلانے میں اہم کردار ادا کریں گی۔

عالمی مارکسی رجحان کا موقف

ٹریڈ یونینوں کی تعمیر کرو اور انہیں حقیقی لڑاکا تنظیموں میں بدل دو

تمام کرپٹ عناصر اور بیورو کریٹوں کو یونینوں سے نکال پھینکو

جمہوری یونینوں کے لیے جدوجہد: ہر سطح پر انتخابات اور تمام عہدیداروں کو واپس بلانے کا حق!کرپشن کے خلاف جدوجہد! کسی بھی یونین عہدیدار کی تنخواہ ایک ہنر مند مزدور سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے!

یونینوں پر ریاستی کنٹرول نامنظور! یونینیں محنت کشوں کے کنٹرول میں ہونی چاہیں

صنعتوں پر محنت کشوں کا کنٹرول!

بینکاروں، جاگیرداروں، اور سرمایہ داروں کی دولت کی ضبطگی! پیداوار کی جمہوری سوشلسٹ منصوبہ بندی

نوجوانوں کا کردار

عظیم جرمن انقلابی اور شہید کارل لائبنخت نے کہا تھا: ’’نوجوان سوشلسٹ انقلاب کے شعلے ہیں‘‘۔ عرب انقلاب کے دوران اس حقیقت کا بڑھ چڑھ کر اظہار ہو ا ہے۔ ہر مرحلے پر نوجوانوں نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ تیونس اور مصر کی سڑکوں پر آنے والے مظاہرین کی اکثریت نوجوانوں اور بیروزگاروں پر مشتمل تھی جن کا مستقبل تاریک تھا۔ کچھ یونیورسٹیوں کے گریجوایٹ تھے اور باقی کچی آبادیوں سے آئے ہوئے تھے۔ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں تمام مما لک میں آبادی کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ ان کو سرمایہ داری کے بحران کے بد ترین اثرات بھگتنے پڑرہے ہیں۔تیونس میں 25سال سے کم عمر افراد میں سے 70فیصد بیروز گار ہیں۔ یہی الجزائر میں 75فیصد اور مصر میں 76فیصد ہے۔ دیگر تمام ممالک میں بھی ایسی ہی صورتحال ہے۔

یونیورسٹیوں کے گریجوایٹوں کے لیے روزگار نہیں ہے جس کی وجہ سے ان کے لیے شادی کرنے کی، گھر بنانے اور مستقبل کی کوئی امید نہیں ہے۔ ان حقائق سے اندازہ ہوتا ہے کہ سرمایہ داری بند گلی میں پہنچ گئی ہے۔ ان ممالک میں ڈاکٹروں، استادوں اور انجینئروں کی ضرورت ہے ،لیکن نوکریاں نہیں ہیں۔ کروڑوں نوجوان نوکری حاصل نہیں کر پاتے اور اس کے نتیجے میں شادی اور گھر نہیں بسا سکتے۔ ان کی قوت محرکہ وہ غصہ ہے جو ان کے دلوں میں اس نظام کے خلاف سلگ رہا ہے جو انہیں مستقبل دینے سے قاصر ہے اور اس کرپٹ حکومت کے خلاف بھی جو عوام کا خون چوس کر اپنی تجوریاں بھر ے جا رہی ہے۔

ان نوجوانوں کے پاس امید کا واحد راستہ سماج میں ایک بنیادی تبدیلی کے لیے لڑائی لڑنے کا ہے۔ ہر طرح کے خوف سے آزاد ہو کروہ آزادی اور انصاف کے لیے اپنی جانوں پر کھیل جانے کو تیار ہیں۔تیونس میں انقلابی نوجوانوں نے ایک بہت بڑی ریلی کا انعقاد کیا جس نے وزیر اعظم کے دفتر تک مارچ کیا اور نوجوان اس کے باہر قصبہ اسپلانادے میں خیمہ زن ہو گئے۔ سکول کے طلبا کی تحریکوں نے آئین ساز اسمبلی کا مطالبہ پیش کیا اور مظاہروں میں ’’حکومت مردہ باد‘‘ کے نعرے لگائے۔ انہوں نے اس تحریک میں عمل انگیز کا کام سر انجام دیا جس نے فروری کے آخر میں غنوشی کو جانے پر مجبور کر دیا۔ مصر میں بھی یہی دیکھنے میں آیا۔ بے روزگار اور مستقبل سے مایوس نوجوان مظاہروں میں پیش پیش تھے۔

تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔ 1917ء میں منشویک بالشویکوں کو ’’بچوں کا گروہ‘‘ کہتے تھے، اور یہ بات بالکل غلط بھی نہیں تھی۔ بالشویکوں کی اوسط عمر بہت کم تھی۔ ہمیشہ نوجوان ہی سب سے پہلے تحریک میں آتے ہیں کیونکہ وہ پرانی نسل کے تعصبات، خوف اور تشکیک سے پاک ہوتے ہیں۔

ہر ملک کے نوجوان انقلابی نظریات کے لیے تیار ہیں۔ ہمیں لازمی طور پر نوجوانوں میں جانا ہو گا! ۔ اگر ہم نوجوانوں کے پاس انقلابی مارکسزم اور پرولتاری بین الاقوامیت کے نظریات لے کر جاتے ہیں تو پر جوش رسپانس ملے گا۔

عالمی مارکسی رجحان کا موقف

روزگار سب کے لیے

ہر نوجوان کے لیے کل وقتی روزگار یا مفت کل وقتی تعلیم کی ضمانت

یکساں مقدار کے کام کے عوض یکساں اجرت

پولیس کی جانب سے ہراساں کرنے کا خاتمہ

16سال کی عمر سے ووٹ اور مکمل جمہوری حقوق

خواتین کا کردار

فیصلہ کن عنصر یہ ہے کہ عوام کو اپنی اجتماعی طاقت کا احساس ہو چکا ہے اوران کا خوف ختم ہو رہاہے۔سب سے کم عمر اور توانائی سے بھرپور اور پرعزم حصوں سے آغاز کے بعد سرکشی کے موڈ نے آبادی کی زیادہ عمروالی‘زیادہ پر احتیاط اور کم حساس پرتوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔

لیکن تیونس اور مصر کے انقلاب کا انتہائی متاثر کن پہلو خواتین کی سرگرم شمولیت ہے۔ ماضی کی اطاعت شعاری ختم ہوتی جا رہی ہے۔اسکندریہ میں بوڑھی گھریلو خواتین نے فلیٹوں کی بالکونیوں سے پولیس پر گملوں اور برتنوں کی بارش کر دی۔ مظاہروں کے دوران جینز میں ملبوس نوجوان طالبات حجاب والی خواتین کے شانہ بشانہ لڑتی رہیں۔ حالیہ برسوں میں محلۃالکبریٰ میں ٹیکسٹائل کے شعبے میں ہونے والی ہڑتالوں میں محنت کش خواتین کا کلیدی کردار تھا۔ انہی ہڑتالوں نے موجودہ انقلابی ابھار کو تیار کیا ہے۔ تاریخ میں ہر انقلاب میں خواتین پیش پیش رہی ہیں۔ بحرین میں بے خوف ہو کر مظاہرہ کرنے والی خواتین کی تصاویر، جن میں کچھ با نقاب اور کچھ نقاب کے بغیر تھیں، انقلاب کا متاثر کن نظارہ ہے۔ وہ 1789ء میں پیرس اور1917ء میں پیٹروگراڈ کی عظیم سورما خواتین کی تاریخ کو دہرا رہی ہیں۔ خواتین کی بیداری انقلاب کی مصدقہ نشانی ہے۔ جب تک خواتین غلام رہیں سماج میں ترقی اور خوشحالی نہیں آ سکتی۔ یہ کوئی اتفاق نہیں کہ مصر میں رد انقلابی مذہبی منافرت پھیلانے کے ساتھ ساتھ8مارچ کے مظاہرے پر بھی حملہ آور ہوئے۔ عرب انقلاب کی فوج کے سب سے زیادہ جرات مند اور ثابت قدم سپاہی خواتین میں سے ہی ہوں گے، اور عورتوں کی مکمل آزادی انقلاب کا اولین فریضہ ہے۔خواتین کا مقام باورچی خانہ نہیں بلکہ سڑکوں پر مردوں کے شانہ بشانہ لڑائی میں ہے۔ وہ آبادی کا سب سے زیادہ بے خوف حصہ ہیں۔ اوراس لڑائی میں جیتنے کے لیے ان کے پاس بہت کچھ ہے۔

عالمی مارکسی رجحان کا موقف

جنسی امتیاز اور نا برابری کا خاتمہ

خواتین کے مساوی شہری اور انسان ہونے کو مکمل تسلیم کرنا

خواتین کے لیے مکمل سماجی، سیاسی اور معاشی برابری

تمام امتیازی قوانین کا خاتمہ

ریاست سے آزاد اور جمہوری ٹریڈ

یونینوں میں خواتین کی تنظیم

یکساں مقدار کے کام کے عوض یکساں اجرت

حصہ سوم

انقلاب ابھی مکمل نہیں ہوا

یہ کہنا کہ انقلاب شروع ہوچکا ہے ،کا یہ مطلب نہیں ہوا کرتا کہ انقلاب مکمل بھی ہو چکا ہے ،کجا کہ فتح حتمی ہو چکی ہے۔انقلاب زندہ سماجی قوتوں کے مابین باہمی پیکارہواکرتی ہے۔یہ کوئی ایک ایکٹ کا کھیل نہیں ہواکرتا۔یہ ایک انتہائی پیچیدہ عمل ہوتاہے جس میں کئی اتارچڑھاؤ ‘کئی مراحل و عوامل ملوث و متحرک ہواکرتے ہیں۔حسنی مبارک، بن علی ،غنوشی کی رخصتی پہلے مرحلے کا انجام تھالیکن ابھی انقلاب مکمل نہیں ہواہے اور پرانا ریاستی ڈھانچہ قائم و دائم ہے ۔لیکن یہ ڈھانچہ بھی ابھی تک اپنا سابقہ انتظام و انصرام دوبارہ سے قائم نہیں کرپارہاہے ۔

1917ء میں روس میں انقلاب نو مہینے تک جاری رہا۔فروری سے اکتوبر تک ،جب تک کہ محنت کشوں نے اقتدارپر قبضہ نہیں کر لیاتھا۔لیکن روسی انقلاب اپنے مکمل ہونے تک کسی طورایک سیدھی لائن پر نہیں چلاتھا۔ا س دوران کئی تضادات اور تنازعات اس کے ساتھ اپنا کھیل کھیلتے رہے تھے۔جولائی اور اگست کے دوران تو انتہائی رجعتی صورتحال حاوی ہو چکی تھی۔لینن کو فن لینڈ جاناپڑگیاتھا اور بالشویک پارٹی غیر قانونی قرار دے دی گئی تھی۔لیکن پھر یہ کیفیت انقلاب کو مزید تیز اور مہمیز کرنے کا باعث بنتی چلی گئی۔ اس کے بعدہی اکتوبر انقلاب تاریخ کے افق پر ابھراتھا۔

1931ء میں سپین میں بھی ہم کچھ ایسا ہی ہوتے دیکھتے ہیں کہ جب بادشاہ کا تخت اکھاڑ پھینکاگیاتھا۔اور ا س کے پیچھے ایک بڑی طبقاتی لڑائی تھی جو اس تبدیلی کا باعث بنی۔1934ء میں استوریا کمیون کی شکست نے ایک بھیانک ردانقلاب کو جنم دیا۔1935/36ء کے دوسال ‘ بینیو نیگرو‘ جنہیں دو سیاہ ترین سال بھی کہا جاتاہے ۔لیکن ایک بار پھر یہی عرصہ انقلاب کو تقویت اور شہہ دینے کا بھی باعث بنا۔جس کے نتیجے میں1936ء کے الیکشن میں پاپولرفرنٹ کو کامیابی بھی حاصل ہوئی تھی۔لیکن پھر خانہ جنگی شروع ہو گئی اور ایک شدید ردانقلاب پھٹ کر سامنے آگیاتھا۔ مصر میں مبارک کی رخصتی کے بعد انقلاب کی سرخوشی سماج میں موجزن ہے ۔لیکن عوام جن مسائل کیلئے جدوجہد پر اترے تھے ،ان کا بورژوازی کے پاس کوئی حل نہیں۔ روس میں بھی ،فروری میں محنت کشوں نے ایک مطلق العنان بادشاہ کو اکھاڑ پھینکا تھا،ایسے ہی مصر میں عوام نے کر دکھایاہے۔لیکن ابھی وہ اپنے مطلوبہ اہداف حاصل نہیں کر پائے ۔بن علی کے سعودی عرب جانے سے کیا ہوگیا؟ کچھ بھی تو نہیں ،کوئی ایک مطالبہ اور مسئلہ بھی حل نہیں ہوسکاہے۔ محنت کش روٹی ‘ روزگار اور گھروں کیلئے جدوجہد میں اترے ہوئے ہیں نہ کہ سرمایہ دارانہ جمہوریت کے پرفریب دھوکے کیلئے کہ جس کے بعد بہت کچھ تبدیل ہوجاتاہے لیکن کوئی ایک بنیادی تبدیلی بھی واقع نہیں ہوتی۔بہت ہی تکلیف دہ ،جگر سوزاورجاں گدازواقعات میں سے گزرتے ہوئے عام انسان بہت ہی سنجیدہ اور لازمی اسباق سیکھ رہے ہیں اوراسباق سیکھنے کے یہ مراحل بہت کٹھن بھی ہوں گے اور طویل بھی۔یہ ایک ایسا عمل ہوگا جس میں طبقہ اپنے اندر بہت کچھ دیکھے گا سنے گاسوچے گا برتے گا پرکھے گااور نتائج اخذ کرے گا۔یہ عمل شروع ہوچکاہے ۔ وہ مصلحت پسند جو کہ تحریک کی ابتدائی حالت میں انقلابی کمیٹیوں میں شریک تھے اور جنہیں فوج کے بارے تحفظات اور تشویش بھی تھی۔اب ان کو محنت کشوں ا ور نوجوانوں کی طرف سے شدید مزاحمت اور ناپسندیدگی کا سامناہے ۔ اور جو اب کسی بھی قسم کی مصالحت کی شدید مخالفت کر رہے ہیں ۔انہیں یہ اندیشہ ہے اور درست اندیشہ ہے کہ انہوں نے خون کی بازی لگا کر جو کچھ جیتا،اسے اب داؤ پر لگایا جا رہاہے ۔مبارک کی رخصتگی کی صورت میں مصر کے انقلاب نے اپنی پہلی بڑی کامیابی حاصل کی ہے ۔لیکن تاحال مصری سماج کو درپیش کوئی ایک مسئلہ بھی حل نہیں ہوسکا۔قیمتیں پہلے کی طرح سے بڑھ رہی ہیں ۔ بے گھر لوگ اب بھی پارکوں ،فٹ پاتھوں پر سوتے ہیں ۔جبکہ افرادی قوت کادس فیصد ابھی تک بے روزگاری کی زد میں ہے ،یہ سرکاری اعداد وشمار ہیں جبکہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے ۔ نیچے سماج میں ناانصافی و نابرابری کے خلاف شدید غم وغصہ موجودہے جبکہ اوپر کی سطح پر انتہاؤ ں کو پہنچی بدعنوانی نے لوگوں کے درد کو اور بھی شدید کیاہواہے ۔حسنی مبارک او ر اس کے خاندان نے جو دولت لوٹی اور سمیٹی ہے ،اس کا اندازہ 40سے80ارب ڈالرزتک لگایا جارہاہے ۔اس خبر نے تو لوگوں کی حقارت کو اور بھی بھڑکا دیاہے ۔

مصر ایک ایسا ملک ہے جہاں غربت کی سطح سے نیچے جینے والو ں کی شرح 40فیصد کو پہنچی ہوئی ہے ۔ یہ کہنا ناممکن ہوگا کہ یہ سب کچھ کس طرح چلے گا ۔ لیکن ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ انقلاب اپنی گردش اور محرکات سے نمٹے گا اور اس دوران یہ کئی قسم کے اتار چڑھاؤ سے گزرے گا۔موجودہ ماحول اور کیفیت میں عوام کو جمہوریت کا راگ سنایا اور انسانی حقوق کا خواب دکھایاجارہاہے ۔ اور یہ وہ احساسِ زندگی ہے جس نے تحریک کے متحرک وہراول دستوں تک کو بھی اپنے سحر میں لیا ہواہے۔ جمہوریت اور آئین کا یہ سراب ،موجودہ کیفیت کا ناگزیر حصہ ہے لیکن یہ زیادہ دیر نہیں چلے گا ۔

انقلاب سارے سماج کو نیچے سے پوری طرح گھمااور ہلا دیاکرتا ہے۔یہ کئی قسم کے پرانے پسماندہ تصورات اور عوامل کو ابھار کر سامنے لے آتا ہے کہ جو سیاسی عمل میں

نووارد،نوخیزہواکرتے ہیں۔وہ لوگ اپنے حقوق کیلئے آواز بلند کر رہے ہوتے ہیں۔اور جب یہ لوگ نعرے لگاتے ہیں ’’ثور ۃ حتی النصر‘‘یعنی حتمی فتح تک انقلاب ‘تو اس نعرے کووہ محسوس بھی کر رہے ہوتے ہیں۔

سیاسی توازن کو بحال و برقرارکرنے اور رکھنے کی سبھی کوششیں رائیگاں جائیں گی کیونکہ سرمایہ داری کا بحران کسی بھی قسم کی اور کسی بھی سطح پریہ اجازت نہیں دیتا کہ عام انسانوں کی انتہائی اہم ضروریات کو ملحوظ خاطر رکھاجائے ۔ایک کے بعد دوسری جو بھی بورژوا حکومت آئے گی وہ غیر مستحکم ہو گی۔ایک کمزور حکومت قائم ہو گی جو گر جائے گی۔اور یہ خطرے کی صورتحال ہے۔جب بھی کوئی طبقاتی جدوجہد ایک ڈیڈلاک کی زدمیں آتی ہے توریاست ایک بارپھر سے سماج سے بلند اور اس پر حاوی ہونا اور بڑی حدتک ہر اصول ضابطے سے آزاد ہوناشروع ہوجاتی ہے۔اس کا نتیجہ ایک غیر مستحکم فوجی حکومت کی صورت میں سامنے آئے گا ،جسے درست الفاظ میں بوناپارٹسٹ حکومت کہا جاسکتا ہے۔25جنوری کو شرو ع ہونے والے انقلاب کے بعد قائم ہونے والی حکومت اس حقیقت کا اظہار ہے کہ انقلاب ابھی ختم نہیں ہوا۔آخری لفظ لکھے جانے تک یہ انقلاب کئی مرحلوں کئی تجربوں سے گزرے گا۔

معقولیت اور معمول کی طرف آنے کے سبھی مطالبات کے باوجود مصری سماج میں پولرائزیشن بڑھتی چلی جارہی ہے ۔سماج کی اکثریت اب بھی انقلاب کی طرف بھاری اور واضح رغبت سے لیس ہے ۔طالب علم ،تعلیمی اداروں میں ابھی بھی احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں۔مزدور ہڑتالیں کر رہے ہیں اور فیکٹریوں پر قبضے کر رہے ہیں، مکروہ و متکبر مینیجروں کو نکال باہر کر رہے ہیں۔مصر کے آئل ورکروں کی ہڑتال ہوئی جس کے بعد ان کے سبھی مطالبات تسلیم کرلئے گئے ہیں۔ان مطالبات میں وزیر برائے تیل کا استعفیٰ بھی شامل تھا۔اور یہ سب صرف تین دنوں کی ہڑتال کے نتیجے میں حاصل ہوا۔اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ طاقت درحقیقت کس جگہ موجود ہے ۔

مصر میں قائم فوجی حکومت زیادہ عرصے تک خود کو قائم نہیں رکھ سکتی ۔’’نظم و نسق‘‘’’امن وامان‘‘ قائم کرنے کی ہر ایک کوشش ،جو دراصل امیروں کی طاقت و حکمرانی قائم رکھنے کے سوا کچھ نہیں ہواکرتی‘ناکام ہو چکی ہے ۔فوج ہڑتالوں کو روکنے کی بھرپور کوشش کر چکی ہے لیکن ہڑتالیں ہیں کہ جاری وساری ہیں۔تمام تر مراعات کے باوجود محنت کشوں کی تحریک ابھرتی اوربڑھتی جارہی ہے۔فوجی جرنیل کر بھی کیا سکتے ہیں ؟ان کے ٹینک جب انقلابی تحریک کا کچھ نہیں بگاڑ سکے تو ایک جمہوری ڈھانچے کی موجودگی میں وہ ایسا کیسے کر سکیں گے ؟جرنیل بالآخر سویلین حکومت کو اقتدار سونپ دیں گے یعنی سرمایہ داروں کو۔یہ جمہوریت کے نام پر درحقیقت ایک رد انقلاب ہوگا۔لیکن پھر اس رد انقلاب کیلئے نظم و نسق بحال کرنا اوراستحکام قائم کرناکسی طور آسان نہیں ہوگا۔محنت کشوں کیلئے جمہوریت کسی طور ایک کھوکھلا لفظ نہیں ہواکرتا۔اگرا س جمہوریت سے بھی ان کا معیار زندگی بہتر نہیں ہوتا،اگر ان کے روزگار اور گھریقینی نہیں ہوتے توانہیں اتنی لڑائی سے کیا حاصل؟اگر یہ سب کچھ دس سال پہلے ہواہوتاتوحکمران بورژوا جمہوریت کو بڑی حد تک مستحکم ومضبوط کرچکے ہوتے۔سرمایہ داری کا تب کا عروج کافی حد تک انہیں مددفراہم کرتا اور وہ بہت کچھ ترتیب دے لیتے۔لیکن ان کی بدقسمتی کہ اس وقت ساری دنیا ایک شدید بحران کی زد میں آئی ہوئی ہے ۔اسی ایک وجہ سے انقلابی شعلہ ابھی تک بھڑکا ہوا ہے اور یہ اتنی جلدی اور آسانی سے رکنے والا بھی نہیں ہے ۔سرمایہ دارانہ نظام عوام کو کچھ بھی دینے سے قاصراور لاچارہوچکاہے ۔یہ امریکہ اور یورپ میں بھی مناسب روزگار اور عمدہ زندگی کو برقرار رکھنے میں جب ناکام ہوتاجارہاہے تو یہ نظام مصر میں کیسے کچھ دے سکتاہے !

محنت کشوں کی ہڑتالیں،فیکٹریوں پر قبضے اور مینیجروں سے گلوخلاصی انتہائی شاندار اقدامات ہیں ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ انقلاب فیکٹریوں اور کام کی جگہوں میں پھیل چکاہے ۔ان واقعات سے یہ ظاہر وثابت ہوتاہے کہ سماج میں جمہوریت کیلئے جدوجہد سے اب محنت کش طبقہ ،کام کی جگہوں پر معاشی جمہوریت کیلئے جدوجہد کرنے کی طرف پیش قدمی کر رہاہے ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ مصر کا محنت کش طبقہ اب اپنے ہی پرچم تلے منظم و متحد ہوکر انقلاب میں شرکت کر رہاہے ۔ انقلاب کے مستقبل کیلئے یہ ایک انتہائی فیصلہ کن عمل ثابت ہوگا۔محنت کش طبقہ بدعنوانی اورکم اجرتوں کے خلاف اپنی جدوجہد پر اتراہواہے ۔طبقہ ریاست کی طرف سے مسلط کردہ انتظامیہ کے خلاف بغاوت پر اترا ہواہے اور اپنی ہی انقلابی کمیٹیاں قائم کرتا جا رہاہے جن کی مددسے وہ فیکٹریاں اور دوسرے معاملات چلا رہاہے ۔یہ ایک انتہائی مناسب اقدام ہے ۔کئی ایک بورژوا دانشور کہہ رہے ہیں کہ یہ سبھی ہڑتالیں معاشی نوعیت کی ہیں ۔صحیح کہتے ہیں وہ کیونکہ محنت کش طبقہ اپنے ابتدائی مطالبات کیلئے دباؤڈال رہاہے ۔اس سے مراد یہ ہے کہ بورژوا جمہوریت ان کا مطمع نظر نہیں بلکہ وہ بہتر اجرتوں‘بہتر اوقات کار اور حالات کاراور معیار زندگی کیلئے جدوجہد کررہے ہیں۔ وہ اپنے طبقاتی مفادات کیلئے لڑائی لڑ رہے ہیں ۔ اور یہ لڑائی محض اس لئے بند نہیں کی جاسکتی کہ حسنی مبارک تو چلا گیا اب کیا ضرورت

مزدورجمہوریت کیلئے جدوجہد

سویز کے علاقے میں چار سے پانچ دن تک تو ریاست کا جیسے وجودہی ختم ہو کے رہ گیاتھا۔اس سے پہلے تیونس میں بھی ایسا کچھ ہواتھا ۔انقلابی کمیٹیاں قائم کی گئی تھیں اور مسلح چیک پوائنٹ بنائے گئے تاکہ لوگوں کی جان ومال کا تحفظ کیا جاسکے ۔یہ حقائق ثابت وعیاں کرتے ہیں کہ سوویتیں (ورکرزکونسلیں وغیرہ)کسی طور بھی مارکس وادیوں کی مخصوص پیداوار نہیں ہواکرتیں بلکہ یہ کسی بھی حقیقی انقلاب کی اپنی پیداکردہ ہوتی ہیں۔اسی سے ہی وہ حقیقی سوال ابھرتاہے کہ ریاست کیاہواکرتی ہے ؟انقلاب ،اپنے سے پہلے موجود ریاست کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبورکردیتا ہے ۔ اسے اپنے لیے خود میں سے ایک نئی طاقت درکارہواکرتی ہے ۔تیونس اور مصر دونوں ملکوں میں دوہری ریاست کے عناصر دیکھے جا سکتے ہیں۔ انقلابی کمیٹیوں نے کئی شہروں اور علاقوں کا انتظام وانصرام اپنے کنٹرول میں لے لیاتھا۔

تیونس کے اندر تو لوگوں کی انقلابی تنظیم گری کایہ عمل مصر سے بھی کہیں بلند پیمانے پر ہوا۔ان کمیٹیوں نے کئی معاملات میں تو UGTT(تیونس کی ٹریڈ یونینوں کی مرکزی تنظیم)کے تحت ،کئی شہروں اور علاقوں میں ،یہاں تک کہ بعض خطوں میں مکمل طور پر سماج کے کئی حصوں اور شعبوں کا سارا انتظام وانصرام اپنے ہاتھوں میں لے لیاتھا ۔اس دوران لوگوں نے سابقہ آر سی ڈی کی انتظامیہ کی عملداری کو یکسر اکھاڑ دیاتھا۔ ملک میں ’’انتشار ‘‘اور ’’عدم تحفظ‘‘ پھیل جانے کے خدشے کی ‘سرمایہ دارانہ واویلے کے باوجود،حقیقت یہ ہے کہ محنت کش طبقے نے خود کو منظم کیا اور رکھا تاکہ سماجی نظم و نسق کو قائم رکھا جاسکے لیکن یہ نظم و نسق مختلف انداز کاتھا ،یہ انقلابی بنیادوں پر تھا۔ مصر میں 28 جنوری کے بعد سے پولیس فورس کے انہدام کے بعد سے لوگوں نے اپنی اور اپنے آس پاس کی نگرانی و نگہبانی کا فریضہ اپنے ہاتھوں میں لے لیا ۔انہوں نے اپنے ہی چیک پوائنٹس قائم کر لئے جہاں چاک وچوبند لوگ تلواروں ،خنجروں ،لاٹھیوں سمیت ہر دستیاب ہتھیار لے کر علاقوں کو سنبھالتے رہے ۔کئی ایک جگہوں پر تو عوام کی منظم کمیٹیوں نے ٹریفک تک کا کنٹرول بھی اپنے ہاتھوں میں لے لیا تھا۔یہاں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ کیسے عوامی ملیشیا کا یہ ابتدائی اظہار ایک متبادل ریاست کا امکان لئے ہوئے سامنے آجایاکرتاہے ۔پہلے پہل تو یہ سبھی کمیٹیاں جرائم پیشہ افراد سے نمٹنے کیلئے بنائی گئیں کیونکہ پولیس امن وامان کے مسئلے سے نمٹنے کیلئے مظاہرین پرمہربان ہو چکی تھی ۔اب یہ کمیٹیاں انتہائی موثر انداز میں انقلاب کے دفاع کیلئے کام کررہی ہیں۔اسی طریقے کواب زیادہ سے زیادہ عام کرنے کی ضرورت ہے ۔ انقلاب کے دفاع اور اسے آگے لے جانے کیلئے ہمیں لازمی ہر جگہ انقلابی دفاعی کمیٹیاں قائم کرنی ہوں گی۔انقلاب کے دفاع کیلئے منتخب کردہ یہ کمیٹیاں ،جوکچھ علاقوں میں اب بھی موجودو متحرک ہیں ،ہر ایک کارخانے ،محلے اورگاؤں میں قائم کی جانی ضروری ہیں ۔ان کمیٹیوں کو مقامی ،علاقائی اور قومی سطح پر باہم مربوط کیا اور رکھا جائے ۔یہ مستقبل کی مزدور وں اور کسانوں کی جمہوری حکومت کی جانب ابتدائی قدم ہوگا۔اور ایسی حکومت ہی حالیہ و سابقہ آمرانہ حکومتوں کا حقیقی متبادل ہوسکے گی۔

عالمی مارکسی رجحان کا موقف

ایک حتمی قدم اٹھاتے ہوئے فوج کو جمہوری انداز میں ازسرنو منتخب اور منظم کیا جائے!

فوجی کمیٹیاں بنائی جائیں اس کے ساتھ ہی نچلے رینک کے افسروں کی انقلاب دوست کمیٹیاں تشکیل دی جائیں

بدعنوان اور انقلاب دشمنوں کو فوری طور پر نکال باہر کیا جائے

فوری طور پر سبھی ایسے ادارے توڑ دیئے جائیں کہ جوجبرواستحصال کے آلے کے طورپر کام میں لائے جاتے ہیں لوگوں پر جبر وتشدداور زیادتیاں کرنے والے ہر مجرم کو کٹہرے میں لایا جائے اور اس کے کیے کی سزا دی جائے !

عام لوگوں کو مسلح کیا جائے

‘عوامی ملیشیا تشکیل دی جائے

کسانوں ا ور مزدوروں کی حکومت قائم کی جائے

انقلابوں کی سرحدیں نہیں ہواکرتیں اپنی ابتدا سے ہی انقلاب نے اپنی عالمگیریت کا اظہارو اعلان کرنا شروع کر دیاہے ۔تیونس و مصر کے بعددوسرے عرب ممالک میں بھی ایسی ہی انقلابی کیفیت ابھرچکی ہے ۔غذائی اجناس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں ،تیزی سے گرتی ہوئی معاشی صورتحال ،بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور انتہاؤں کو پہنچ چکی بدعنوانی و لوٹ مار ‘یہ عوامل ہر جگہ اپنے نتائج اپنے اثرات مرتب کر رہے ہیں ۔کروڑوں انسان زندہ رہنے کی تگ ودو تک زندہ رہنے پر مجبور کر دیے گئے ہیں۔فطرت کی طرح سماج میں بھی قوانین ایک جیسے اثرات مرتب کیا کرتے ہیں ۔جو کچھ ،جس طرح سے تیونس اور مصر میں ہواہے وہ دوسرے ملکوں میں بھی ہونے جارہاہے اور ہو رہاہے ۔اور یہ صرف عرب ملکوں کا قصہ اور قضیہ ہی نہیں ہے ۔

سامراجی اپنے آپ کو اب تک یہ طفل تسلی دیتے آرہے ہیں کہ اس سب کا کسی پر کہیں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔اس کا کسی مملکت کسی حکومت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ۔لیکن حکومتیں لڑھکنا اور گرنا شروع ہو چکی ہیں ۔لیبیا ،مراکش ،سوڈان، عراق، جبوتی،یمن ،بحرین اور عمان ؛یہ ممالک انقلاب کے سرکش دھارے کی زد میں آچکے یا آنے والے ہیں۔تیونس اور مصر کی طرح سے الجزائر،اردن اور یمن کے عوام بھی اپنی اپنی آمریتوں کے زیر اثر غربت و کسمپرسی کی زندگیاں جیتے آرہے تھے ،جبکہ ان کے حکمران انتہائی عیش وعشرت سے بھری زندگیاں جیتے آرہے ہیں۔

عراق کا جہاں تک سوال ہے تو یہاں انقلاب کیلئے جدوجہد کا تعلق سامراجیت اور غیر ملکی جارحیت اور کردستان کے لوگوں کے حق خودارادیت کی جدوجہد سے جڑا ہواہے ۔ اسی دوران ہی ،عراق میں جاری تحریک کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس نے شیعہ اور سنی تفریق کو یکسر کاٹ کے رکھ دیاہے ،یہی نہیں بلکہ اس نے عربوں ،کردوں اور ترکمانوں کی تفریق کو بھی مٹا دیاہے ۔اس تفریق اوران تعصبات کو بنیادبناکر ہی رجعتی سیاستدان اپنی دوکان چمکا رہے تھے۔عرب ممالک میں احتجاجی تحریک کے بنیادی مطالبات میں زندہ رہنے کے لوازمات کی قیمتوں میں روزبروز اضافہ ہے۔جس کی بنیادی وجہ حکومتوں کی جانب سے تیل اور چینی میں دی جانے والی سبسڈی کا خاتمہ ہے ۔اس ایشو نے سارے عرب میں دھماکہ خیز فضا قائم کر دی ہے ۔اردن ،الجزائر اور لیبیا کے حکمرانوں نے درآمد شدہ غذائی اشیاء پر ٹیکس کم کردیئے ہیں یا پھر ان اشیاکی قیمتوں میں کمی کا اعلان کردیا تاکہ کسی بھی عوامی سرکشی سے بچ سکیں ۔الجزائر کی حکومت نے تو کسی بھی دھماکہ خیز صورتحال سے بچنے کیلئے کئی رعایتیں دینے کا اعلان کردیاتھا ۔یہاں تک کہ تیل کی آمدنی سے مالا مال حکومتیں بھی تشویش میں مبتلا ہو چکی ہیں ۔کویت نے اپنے ہر ایک شہری کو 4600ڈالرز دیئے ہیں تاکہ ان کو خاموش رکھا جاسکے۔لیکن اس قسم کے رعایتی اقدام سے آپ صرف ممکنہ ابھار کو کچھ وقت کیلئے موخر تو کر سکتے ہیں لیکن اسے ختم نہیں کر سکتے ۔

مغربی میڈیا انتہائی بے شرمی اور ڈھٹائی کے ساتھ بحرین کی احتجاجی تحریک کو ایک مذہبی فرقہ وارانہ متعصبانہ جدوجہد قرار دینے کی مذموم کوشش کرتا چلا آرہاہے کہ یہاں شیعہ سنیوں کے خلاف نبردآزماہیں ۔یہ صریحاً جھوٹ ہے ۔بحرین کے لوگ بدعنوانی کے خلاف ،آزادانہ الیکشن کے حق میں ،تارکین وطن اور خواتین کے ساتھ ا متیازی سلوک کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں۔ یہاں کے لوگ دولت کی منصفانہ تقسیم کرنے اور بے روزگاری کے خاتمے کیلئے احتجاج کر رہے ہیں ۔ہر ایک ملک ہر ایک جگہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ عوام جلتی ہوئی آگ کے شعلوں کے درمیان ،سینہ تانے ہوئے جرات کے ساتھ میدان عمل میں اترے ہوئے ہیں۔بحرین میں فوج ،پرل سکوائر میں عوام کے جم غفیر کے مقابلے میں پسپاہونے پر مجبورہوگئی۔اس جرات میں پھر سب سے نمایاں کردار محنت کش طبقے کا تھا۔بحرین کی ٹریڈ یونینوں کی جانب سے عوام کے حقوق کیلئے ایک عام ہڑتال کی کال دی گئی تھی جس کے باعث سے حکمران کچھ رعایتیں دینے پر مجبور ہوئے ۔خلیج کی ریاستوں میں کام کرنے والے محنت کشوں کے ساتھ بدترین سلوک روا رکھا جاتاہے ۔اور ان میں بہت بھاری تعداد غیر ملکی محنت کشوں کی ہے ۔صرف اکیلے سعودی عرب میں گیارہ لاکھ پاکستانی کام کرتے آرہے ہیں۔ اور اسی قسم کی کیفیت سبھی خلیج ممالک کی ہے ۔ماضی میں ان ممالک میں ہڑتالیں ہوئی ہیں جنہیں میڈیا میں رپورٹ نہیں کیا گیا ۔ان میں دوبئی میں تعمیرات کے شعبے سے منسلک آٹھ ہزار محنت کشوں کا احتجاج بھی شامل ہے ۔ عرب خطے میں استحصال کی سب سے نمائندہ حکومت سعودی عرب جوکہ یہاں رجعتیت کاقلعہ ہے اس کی حالت بھی اب ایسے ہے کہ جیسے کسی پریشر ککر کی جس کا سیفٹی والو گم ہو چکاہے ۔اس قسم اورنوعیت کی حکومتوں کے اندر جب بھی دھماکا ہوتا ہے تو یہ کسی قبل از وقت انتباہ کے بغیر اور انتہائی تشدد انگیز ہواکرتا ہے ۔سعودی شاہی خاندان انتہا کا بدعنوان ،کھوکھلا اورگل سڑ چکا ہے ۔اس میں جانشینی کے معاملے میں خاصے شدید تنازعات موجود ہیں ۔جبکہ نیچے سماج میں بے چینی اور بے قراری مسلسل بڑھتی جا رہی ہے ۔یہاں جب بھی کوئی عوامی شعلہ بھڑکا تو شاہی خاندان کو ان کی تیل کی دولت نہیں بچاپائے گی۔ انتہائی اہم پیشرفت یہ ہے کہ سعودی عرب کی وہابی ملائیت بھی ان کے خلاف ہو چکی ہے ۔عرب انقلابی تحریک نے ایران کے اندر بھی تحریک کو ایک نئی راہ دکھائی ہے ۔یہاں انقلابی گارڈز کی قیادت یہ کہہ چکی ہے کہ اب وہ اپنے ہی عوام کے خلاف گولی نہیں چلائے گی ۔اس نے بسیج کو متنبہ کیا ہے کہ وہ بھی اپنے ہتھیار اپنے گھروں میں رکھ کر باہر آئے ۔حکومتی حلقوں کے مابین دراڑاور اختلافات حکمران طبقات میں نیچے تک شدیداور گہرے بحران کی غمازی کررہے ہیں۔اوپر سے نیچے تک حکمران اور حکام تقسیم ہو چکے ہیں۔ چونکہ ہر ملک کا معاملہ ایک دوسرے سے قدرے مختلف ہے ،اس لئے سردست یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ کس ملک میں کس قسم کی متبادل حکومتیں سامنے آئیں گی۔سیاسی رحجانات کیسے ہوں گے ،حکمرانی کس طرز کی ہوگی،اس سب کا دارومدار مختلف عوامل کے تال میل اور تصادم پر ہے اور جن کی نوعیت اپنے اپنے ملک میں مختلف ہوسکتی ہے اور ہوگی۔تیونس اور مصر میں بہت کچھ مماثل تھا۔لیکن لیبیا میں کیفیت اور نوعیت مختلف ہے ۔حکومت کی بنیادیں موجود ہیں ،خاص طورپر طرابلس اور اس کے ارد گرد۔جبکہ وہاں ابھرنے والی سرکشی کا زیادہ تر تعلق مشرقی علاقوں سے تھا اور ہے ۔

یہاں انقلاب ایک خانہ جنگی میں بدل چکاہے ۔جو آگے کیا رنگ روپ اختیار کرتی ہے ،اس پر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔قذافی کو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہے کہ ا س کے ساتھ اگر سارا ملک جل کر راکھ کا ڈھیر بنتاہے تو بن جائے۔مشرقی علاقے اوردوسرے بڑے شہر بن غازی پر سے کنٹرول ختم ہونے کے بعد سے اس نے آخر تک لڑنے کی ٹھان لی ہوئی ہے ۔جس کے بعد سے لیبیاخون کے سمندر میں ڈوبتا اور ڈبویا جارہاہے ۔لیبیا کی فوج کے اندر سے بڑی تعداد میں حکومت وریاست سے علیحدگی کا سلسلہ بھی شروع ہوچکاہے ۔لیکن اس کے اس طرح سے اثرات مرتب نہیں ہوسکے جیساکہ مصر میں ہم نے دیکھا ۔کیونکہ دونوں کی فوج اور حکومت کے کردار اور نوعیت میں بہت فرق چلا آرہاہے ۔

ایک چیز واضح ہے اور وہ یہ کہ اب ہر معاملہ ایک ایسے تپتے ہوئے برتن میں ڈالاجاچکاہے کہ جو خود ہی پگھلنے کی حالت میں پہنچ چکاہے ۔ان میں سے کوئی ایک حکومت بھی باقی نہیں بچے گی۔ہمارے سامنے مختلف امکانات موجود ہیں جن کا دارومدار سماج میں موجود طبقات کے توازن پر ہوگا۔اس کے ساتھ ساتھ مختلف خارجی وداخلی عوامل وعناصر بھی صورتحال کو متعین کرنے میں اہم کردار اداکریں گے ۔جنہیں پہلے سے بیان کرنا ناممکن ہے ۔لیکن ایک بات صاف ہے کہ کچھ بھی ہوجائے ‘جس قسم کی بھی حکومت قائم یا مسلط کی جائے؛یہ کسی طور اور کہیں بھی عوام کی کم از کم خواہشوں کو بھی پورا کرنے سے قاصر ہو گی۔

سامراج کا بانجھ پن

سامراجی حواس باختہ ہو چکے ہیں اور کچھ سمجھ نہیں پارہے کہ یہ سب کہاں جاکر اور کس حالت میں اپنا انجام کرے گا۔ان کے خواب وخیال میں بھی نہ تھا کہ اس قسم کے واقعات بھی ہوں گے ۔چنانچہ وہ یہ بات بھی نہیں سوچ سکتے تھے کہ اگر ایسا ہواتو کیا کریں گے اور ویساہواتو کیا! اوبامہ کو کسی طور کھلے عام یہ جرات نہیں ہو سکی کہ وہ حسنی مبارک سے یہ کہہ دیتا کہ تم اقتدار چھوڑ ہی دو۔ایسا کہتا تو اس کے بھیانک اثرات دوسری ریاستوں پر مرتب ہونے تھے ۔اس نے جو بات کی اس کیلئے انتہائی گنے چنے الفاظ استعمال کئے اور وہ بھی خوب احتیاط کے ساتھ۔’’ جمہوریت ‘‘اور ’’انسانی حقوق‘‘دو ایسے الفاظ ہیں کہ جو امریکی و یورپی حکمران ،اپنی منافقت کو بیاں کرنے کیلئے کام میں لاتے آرہے ہیں ۔مغربی حکمرانوں کی بدحواسی او ران کی رعونت ان واقعات کے بعد اپنی کمال حالت میں سامنے آئی ہے ۔تیونس میں کئی دہائیوں تک آمریت کا مسلسل ساتھ دینے اور اس کی پیہم سرپرستی کرنے والے یہ حکمران اچانک ہی یہاں ’’جمہوریت ‘‘اور ’’انسانی حقوق‘‘ کے نہ ہونے پر تلملا اٹھے ہیں۔فرانس کا صدر سارکوزی ، تیونس کے آمر کی جمہوریت بازی اور انسانیت کے اس وقت بھی گن گارہاتھا کہ جب اس نے اپنے سینکڑوں مخالفین کو عقوبت خانوں میں ڈال رکھاتھا۔جبکہ واشنگٹن بھی اپنے گماشتہ آمروں کی آمریت پر اب تک چپ سادھے اور ان کو اپنے مقاصدکیلئے استعمال کرتا آرہاتھا۔اب یہ سب حکمران اپنی منافقت اور مکروفریب کا کیا بھگت رہے ہیں۔

سیاست ،معیشت ہی کی عکاس اور نمائندہ ہواکرتی ہے۔سعودی عرب جیسے تیل کے بادشاہ سمیت عرب ملکوں میں سرکشی کے ابھرنے اور بحیرہ احمر سے بحرا لکاہل تک نہر سویز کے راستے میں ممکنہ مداخلت کے خوف سے تیل کی قیمتیں بڑھنا شروع ہو چکی ہیں۔خام تیل کی قیمت 120 امریکی ڈالر تک پہنچا دی گئی ہے ۔اس اضافے کے نتیجے میں پہلے سے نحیف عالمی معیشت پر مزید برے اثرات مرتب ہوں گے ۔معاشی ،سیاسی اور عسکری نکتہ نظر سے سامراجیوں کو سخت ضرورت ہے کہ مشرق وسطیٰ میں استحکام موجود ہو۔لیکن وہ اسے کس طرح ممکن کر سکیں گے !یہی وہ سوال ہے جس نے ان کے سر میں دردکا بھونچال اٹھایاہواہے ۔واقعات کی ابتدا سے ہی امریکہ کوشش کررہاہے کہ ہر واقعے کی مناسبت سے اس کے ساتھ نمٹا جائے ۔دن بدن یہاں تک کہ گھنٹے گھنٹے کی مناسبت سے بھی رد عمل کیا جارہاہے ۔واقعہ یہ ہے کہ آج دنیا کی سب سے طاقتور ترین حکومت ، بے بس ولاچار تماشائی کی طرح محض اپنے ہاتھ مسل رہی ہے ۔عالمی جریدے ’’انڈیپنڈنٹ ‘‘نے واشنگٹن کے اپنے نمائندے رپرٹ کانویل کا ایک مضمون شائع کیا ہے جس کا عنوان انتہائی دلچسپ ہے ’’واشنگٹن کے سخت الفاظ ،واشنگٹن کے انتہائی خصی پن کااظہارہیں‘‘۔

لیکن اس ساری کیفیت میں دنیا میں ایسے معقول اور دانشمند موجود ہیں کہ جو یہ سوچ،کہہ اور لکھ رہے ہیں کہ عرب ملکوں میں جو کچھ بھی ہو رہاہے ،یہ سب صرف اور صرف ’’سامراج ‘‘کی سازشوں کا ہی ایک سلسلہ ہے اور بس!لیکن پھر سچائی سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں ہواکرتا۔بورژوازی کیلئے یہ سب ایک صدمے ایک حیرانی کے طورپر سامنے آیا ہے۔اچانک وہ ہوا کہ جس کا نہ خیال تھا نہ خواب۔انقلابات کی طوفانی لہروں نے سامراج کے مضبوط ترین مرکزوں کو بنیادوں تک ہلا کے رکھ دیا ۔جو بھی ہوا اور ہورہاہے یہ کسی طور ان کی رضا سے نہ ہوا،نہ ان کی رضا کیلئے ہوا۔اور اس کے اثرات عرب ملکوں سے بھی باہر تک پہنچنا شروع ہو چکے ہیں ۔

سامراجیوں کیلئے مشرق وسطیٰ ایک انتہائی اہمیت کا حامل مرکزہے ۔چالیس سالوں سے امریکی حکمران اس خطے کو اپنے مقاصد کیلئے اپنی مرضی سے بناتے چلاتے آرہے ہیں۔مصر تو ان کی ضرب تقسیم اورجمع تفریق میں انتہائی اہمیت رکھتا تھا۔اب ان کا یہ مرکز اچانک چند ہفتوں کے اندر خس وخاشاک کی طرح بہہ گیا اور دنیا کی سب سے بڑی طاقت ان واقعات کے سامنے انتہائی بے بس ہو کے رہ گئی۔وہ بھی کچھ ایسے کہ اوبامہ حکومت کسی قسم کی مداخلت کا بھی اہتمام نہیں کر سکی ۔اس کی تو زبان بھی گنگ ہو گئی کہ کہیں اس کے لفظوں سے اس کا دوسرا مرکز سعودی عرب بھی کہیں آگ کی زد میں نہ آجائے ۔ عالمی تجارت کاآٹھ فیصد مصر کی نہر سویز کے ذریعے ہوتا ہے ۔اور امریکی حکمران سہم گئے تھے کہ کہیں یہ بند ہوگئی تو بہت کچھ بند ہوجائے گا۔اگر ایسا ہوبھی جاتا تو امریکہ کچھ بھی نہیں کرسکتا تھا۔اوبامہ جو کہہ سکتا تھا اس نے وہی کہا کہ ہوگاتو وہی جو کہ مصر کے عوام چاہیں گے۔امریکی حکمرانوں کو افغانستان اور عراق کے معاملے میں ایسا کہنے کی کبھی بھی توفیق نہیں ہوئی تھی ۔ان ملکوں میں تو امریکی حکمرانوں نے جارحیت کیلئے ایک پل کو سوچنے کا بھی تکلف نہیں کیاتھا ۔

امریکی بحری بیڑے سویز کی جانب رواں دواں بھی ہوئے لیکن یہ سب محض آؤنیاں جاؤنیاں ہی تھیں ۔اور یہ سب وہ اوبامہ کر رہاتھا کہ جس نے اپنے ہاتھوں پر ہمہ وقت جمہوریت کے دستانے چڑھائے ہوئے ہوتے ہیں ۔یوں یہ سب بڑھکیں ہی تھیں ۔امریکہ عراق میں اپنی انگلیاں جلا چکاہے ۔مصر میں ایک نئی فوجی جارحیت ،امریکہ سمیت دنیا بھرمیں ایک طوفان کو بھڑکا سکتی تھی۔مشرقِ وسطیٰ میں کوئی ایک امریکی سفارت خانہ بھی صحیح سلامت نہیں رہناتھا ۔اور خطے میں سبھی سامراجی گماشتہ حکومتیں بھک کی طرح اڑ جاتیں۔

امریکہ کی بحرین کے ساتھ انتہائی سٹریٹجک جڑت ہے کیونکہ یہ ایرا ن و سعودی عرب کے درمیان واقع ہے ۔یہی ملک اس کے پانچویں بحری بیڑے کی قیام گاہ بھی ہے جو کہ سارے خطے میں سب سے بڑی امریکی قوت ہے ۔لیکن اس قوت کی موجودگی کے باوجود امریکی حکمران یہاں اٹھنے والی سرکشی میں مداخلت کرنے کی جرات نہیں کر سکے ۔ اگر یہ سارا کچھ سامراج ہی کی کرنی اور اسی کی ہی سازش و کاوش ہے تو پھر یقینی طورپر صدر اوبامہ کو اس بارے بے خبر رکھا گیا ہے ۔

لیبیا کا جب مسئلہ سامنے آیا تو ان سامراجیوں نے قذافی کے لتے لینے میں ایک پل کی تاخیر بھی نہیں کی اور اس کو فوری اکھاڑ پھینکنے کا کہہ دیاگیا۔ حسنی مبارک کے وقت تو ایسانہیں کہا گیا۔یہاں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ان سامراجیوں کے کردارکتنے گھناؤنے اور معیارکتنے دوہرے ہیں ۔اگرچہ پہلے پہل کہا گیا کہ فوجی ایکشن کوخارج از امکان نہیں قرار دیا جاسکتا،تاہم ایسا کرتے ہوئے وہ جھجھک بھی رہے تھے ۔ہیلری کلنٹن نے کہا کہ نو فلائی زون کیلئے اقوام متحدہ کے پاس جایاجائے ۔یہ بات عراق کے بارے نہ سوچی نہ کہی گئی تھی ۔وہاں جارحیت کرتے وقت اقوام متحدہ کی منظوری کا تکلف بھی نہ گوارا کیاگیا۔آخر کار فرانس اور برطانیہ کے دباؤ پر امریکہ نوفلائی زون پر بھی متفق ہوگیا ۔چنانچہ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ لیبیا پر سامراج مکمل جارحیت کر چکاہے ۔اس جارحیت کا قطعی طورپر لیبیا کے لوگوں کے تحفظ سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے اور نہ ہی یہ سب وہاں کے انقلاب کے تحفظ کیلئے ہورہاہے ۔بلکہ صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے ۔اس دھونس دھاندلی کا ایک ہی مقصد اور ہدف ہے کہ خطے پر اپنی برتری قائم کرکے خطے میں ہونے والے انقلابات کا تدارک اور سدباب کیا جا سکے ۔ہم اس سامراجی وحشت وبربریت کی مکمل مذمت کرتے ہیں ۔قذافی کو ہٹانے کا فریضہ یا حق،صرف اور صرف لیبیا کے عوام کاہی ہے۔سچائی تو یہ ہے کہ لیبیا کے مشرق سے اٹھنے والا انقلابی ابھار گمراہ ہوچکاہے اور ردانقلابی عناصرکے ہاتھوں میں جاچکاہے جو عبوری کونسل کے نام سے اپنا دھندہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔اور جس نے لیبیا کے عوام کی قسمتوں کو اب سامراج کے رحم وکرم پر چھوڑدیاہے ۔

عالمی مارکسی رحجان کا موقف!

سامراجی غیرملکی مداخلت نامنظور

افغانستا ن اور عراق سے غیر ملکی جارح فوجوں کا فوری انخلاء

لیبیا پر بمباری فی الفور بند کی جائے

سامراج مردہ باد

عرب انقلاب کے ساتھ مکمل یکجہتی

اسرائیل اور فلسطین

عرب انقلاب کی وجہ سے اسرائیل کو بے حد پریشانی کا سامنا ہے۔پورے خطے کی سب سے مضبوط فوج ان واقعات کی وجہ سے مفلوج ہوکے رہ گئی تھی۔اسرائیل کے حکمران طبقے کو مصر میں ہونے والے واقعات کے بارے میں کچھ بھی کہنے سے احتیاط کرنا پڑی۔اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے اس بارے میں کچھ بھی کہنے سے سب وزیروں کو منع کر دیا۔ اسرائیل نے امریکہ اور یورپ کو حسنی مبارک کے خلاف بیانات دینے سے بھی منع کیا۔اسرائیل کی حکومت کی یہی کوشش تھی کہ وہ یہ ثابت کرے کہ دراصل مصر کی حکومت مغرب ہی کیلئے سود مند ہے۔ امریکہ اور یورپی یونین نے بھرپور کوشش کی کہ بجائے اس کے کہ انقلابی تحریک مصر کی حکومت کا تختہ پلٹ ڈالے، وہ خود ہی محفوظ طریقے سے اس میں اپنی پسند کی تبدیلیاں کر لیں۔ مارکس نے ایک بار کہا تھاکہ وہ لوگ کبھی آزادنہیں ہو سکتے اور نہ رہ سکتے ہیں کہ جو دوسروں کو اپناغلام بناتے ہیں۔ اسرائیل جو فلسطین کے بکھرے اور اجڑے ہوئے لوگوں کی بھاری تعداد پر حکمرانی کرتاچلا آرہا ہے اب وہاں کے لوگ اپنے اپنے ٹیلی ویژنوں پر یہ دیکھ رہے اور سمجھ رہے ہیں کہ ظلم سے کس طرح نجات پائی جاسکتی ہے۔ مغربی کنارے میں لوگوں پر قابو رکھنے کیلئے فلسطینی پولیس کا استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ مگر ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ مصر کی فوج کے لوگوں پر تشدد کردینے سے انکار کے بعد‘ کیا اسرائیل کی فوج یا فلسطین کی پولیس کسی جمہوری تحریک کو توڑنے میں کامیاب ہوسکیں گی؟

اسرائیل اور مصر کا 1979ء کا امن معاہدہ دراصل فلسطین کی عوام کے ساتھ دھوکہ تھا اور اس معاہدے کے خلاف پورے عرب میں شدید نفرت پائی جاتی ہے۔ اسرائیل کا مصر کی حمایت کرنا ایک اہم نقطہ ہے جس کی وجہ سے اسرائیل کو فلسطین کے علاقوں پر قبضہ کئے رکھنے میں آسانی ہوتی آرہی ہے۔

1993 ء میں اسرائیل اور فلسطین کے درمیان ہونے والا اوسلومعاہدہ ایک اور نیا دھوکہ تھا۔ یہ سوائے آزادملک کے نام پر دھوکہ دینے کے اور کچھ بھی نہیں تھا۔ جس میں فلسطینیوں کو بنیادی حقوق تک نہیں دیے گئے۔ اور یوں اسرائیل نے اپنی جبر کی حکمرانی رکھی ہوئی ہے اور تب سے اب تک حالات بد سے بد تر ہوتے جارہے ہیں۔ اب اسرائیل کے خطے میں سب سے اہم اتحادی کا تختہ الٹ جانے کے بعد حالات بہت بدل گئے ہیں۔ اس کی وجہ سے اسرائیل کے اس خیال کو شدید جھٹکا لگا ہے کہ فلسطین پر ہمیشہ کیلئے قبضہ رکھا جا سکتا ہے۔ چند ہی دنوں میں سامراج کے سارے ’’ٹھوس‘‘اور ’’پائدار‘‘ منصوبے غرق ہو کر رہ گئے ہیں۔

دہائیوں کی مسلح جدوجہد اور نام نہاد مذاکرات سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوا ۔اب خطے کی انقلابی تحریکوں نے فلسطینیوں کو ایک بالکل نئی راہ دکھائی ہے۔ اسرائیل کے حکمران حماس کے خودکش حملہ آوروں اورراکٹوں سے بالکل نہیں گھبراتے۔ بلکہ اس کے برعکس اسرائیل کے کسی گاؤں پر گرنے والا ایک راکٹ اسرائیلی عوام کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنی حکومت کا ساتھ دیں۔ مگر فلسطینی انتفادہ ،مصر اور اردن کے عرب انقلاب کے ساتھ مل کر ایک بالکل مختلف صورت میں سامنے آسکتی ہے ۔ایک فوجی قوت کے طور پر اسرائیل ناقابل شکست ہو سکتا ہے ، مصر کے ساتھ جنگ ہو جائے تو اسے اسرائیل جیت سکتا ہے۔مگر کیا یہ غزہ، مغربی کنارے یہاں تک کہ خود اسرائیل میں حقوق کیلئے اٹھنے والی تحریکوں کے خلاف جیت سکتا ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو اسرائیل کے جرنیلوں اور سیاستدانوں کو سونے نہیں دے گا۔ مبارک کا تختہ الٹ جانے سے اسرائیل کو بہت سنجیدہ حالات کا سامنا ہے۔ اس دوران اسرائیل اپنے دفاعی بجٹ کو بڑھائے گا کہ اس کے حکمران جنوب میں کسی بھی وقت ہوسکنے والی جنگ کیلئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔اس سے معیشت پر مزید دباؤ پڑے گا جو پہلے ہی بری حالت میں ہے۔ جس کی وجہ سے مزید کٹوتیاں ہونگی اورمعیار زندگی پر برا اثر ہوگا۔ جس کے نتیجے میں اسرائیل میں طبقاتی لڑائی مزید تیز ہوگی۔

نیتن یاہوکا خیال تھا کہ اس کا ملک مستحکم اور جمہوریت کاخوشنماوپرامن جزیرہ ہے جس پر انقلابات کبھی کوئی اثر نہیں کریں گے۔ مگر اسرائیل بھی مشرق وسطیٰ کا ہی ملک ہے۔ تیونس اور مصر سے شروع ہونے والی انقلاب کی لہریں اسرائیل تک بھی پہنچ سکتی ہیں۔ اسرائیل کے اندر نئے تضادات سامنے آ رہے ہیں۔ تیل اور پانی کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے اسرائیل دنیا کے مہنگے ترین ملکوں کی فہرست میں آگیا ہے۔Histadrut (اسرائیل کی ٹریڈ یونین) کی لیڈر شپ قومی سطح کی ہڑتال کے خیال پر بحث کررہی ہے۔ تیونس اور مصر میں ہونے والے واقعات فلسطین کیلئے بہت اہم ہیں۔ فلسطینیوں کو بارہا دھوکہ دیا گیا۔ چاہے وہ فلسطینیو ں کی دوست عرب ریاستیں ہوں یا ان کی اپنی قیادتیں۔ وکی لیکس نے حال ہی میں جو خفیہ دستاویزات شائع کی ہیں ان میں حماس اسرائیل اور امریکہ کے تعلقات کوبھی ننگا کیا گیاہے۔اس کی وجہ سے فلسطینی عوام کے شعور پر بہت اثر ات مرتب ہورہے ہیں۔

چالیس سال تک PLO نے فلسطین کے مسئلے کو دھوکہ دیا۔یہ 1970 ء میں اردن میں حکومت میں آسکتی تھی۔اگر ایسا ہوا ہوتا تو اس خطے کی تاریخ بالکل مختلف ہوجاتی۔مگر پیٹی بورژوا قومی قیادتوں نے یہ کہہ کردھوکہ دیا کہ ہمیں اپنے عرب بھائیوں کے خلاف حملہ نہیں کرنا چاہئے۔ اس کے نتیجے میں اردن کے بادشاہ نے بدؤوں کو تیار کرتے ہوئے‘ پاکستانی فوج کی مدد سے ہزاروں فلسطینیوں کا قتل کیا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عرب بھائیوں نے اسرائیل کی نسبت زیادہ فلسطینیوں کا خون بہایا۔

وہی بدوجنہوں نے 1970ء میں فلسطینیوں پر حملہ کیا تھا آج اپنے ہی بادشاہ کے خلاف بغاوت کررہے ہیں۔ ریٹائرڈ فوجی افسران اپنے حکمرانوں کو خبردار کررہے ہیں کہ اگر لوگوں کو مراعات نہ دی گئیں تو ان کے ساتھ بھی وہی ہوگا جو بن علی اور مبارک کے ساتھ ہوا ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہاشمی بادشاہت اپنا اثرو رسوخ تیزی سے کھو رہی ہے۔ تحریک بدو علاقوں سے لے کر عمان اور فلسطینیوں تک پھیل چکی ہے جو کہ اردن کی اکثریت ہیں۔ وقت آگیاہے کہ فلسطین کی جدوجہد کی حکمت عملی اور طریق کار پر دوبارہ غور کیا جائے۔وکی لیکس نے فلسطینی قیادتوں کے کردار کو پوری طرح سے بے نقاب کردیا ہے کہ وہ فلسطین کی نمائندگی سے زیادہ اسرائیل کی گماشتگی کرتی ہیں۔فلسطینیوں میں پہلے سے زیادہ غم وغصہ اور اضطراب موجود ہے ۔فلسطین میں عباس اور غزہ میں حماس کے خلاف تحریکیں اٹھیں جنہیں بہت سخت جبر کا سامنا کرنا پڑا۔یہی نہیں بلکہ مصر اور تیونس کے انقلاب کے ساتھ ہمدردی اور اظہار یکجہتی کی تحریک کو بھی فلسطینی حکام نے بے دردی سے کچل دیا۔

اب ایک متحد تحریک، فلسطینی حکام اور اسرائیل کی جبری حکمرانی کے خلاف شروع ہو نے والی ہے جس کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔ اس نے فیس بک پر لاکھوں لوگوں کو یکجہتی کیلئے اکٹھا کرلیاہے اور ہڑتالوں کیلئے آواز بلندکی ہے۔ فلسطینیوں کیلئے مصر کا انتفادہ ایک خواب تھاجوکہ اب ایک حقیقت میں بدل چکا ہے۔ عرب کی رجعتی حکومتوں کو انقلابی طوفان کے ذریعے نکال باہر کرنے کی تحریک ، اسرائیل اور امریکی سامراج کی کمر توڑ دے گی اورصورتحال یکسر بدل جائے گی۔ فلسطین کے لوگ اب دیکھ سکتے ہیں اور سمجھ رہے ہیں کہ ان کے اصل دوست عرب کے مزدور اور کسان ہی ہیں،نہ کہ یہاں کے حکمران۔یہ تبدیلی کی طرف ایک اہم نقطہ ہے۔ فلسطینی یہ جان چکے ہیں کہ ظلم کو راکٹوں اور بموں کے ذریعے نہیں بلکہ عوامی تحریکوں کے ذریعے ہی ختم کرناممکن ہے۔ اب لوگوں کے رویے مختلف ہونگے۔ نوجوانوں کی تحریکوں میں نیا جوش وجذبہ ابھرے گا ۔غزہ میں حماس اورمغربی کنارے میں PLO کی قیادت کے خلاف نیا جذبہ سامنے آئے گا۔اب کچھ مختلف ہونے کی امید جاگ رہی ہے۔نئے انتفادہ کا خیال بہت جلد عوام میں مقبولیت پائے گااورجو سب کچھ بدل کے رکھ دے گا۔

سوشلسٹ فیڈریشن کی طرف

پہلی عالمی جنگ کے بعد نام نہاد عرب قوموں کو مصنوعی طریقوں سے بنایا گیا۔ جتنی بھی سرحدیں بنائی گئیں ان کی بنیاد صرف اور صرف سامراجی مفادات تھے نہ کہ تاریخی یا قدرتی تقاضے۔ سائیکے پیکاٹ منصوبے کے تحت اردن، عراق، شام اور لبنان کو برطانیہ اور فرانس میں بانٹا گیا۔ اور 1918ء کے بالفورمعاہدے کے تحت برطانیہ نے اجازت دی کہ فلسطین میں یہودیوں کیلئے الگ ملک بنایا جاسکتاہے۔خلیج میں چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو بنایا گیا۔ جہاں تیل کے وسیع ذخائر تھے تاکہ سامراج ان کو آسانی سے اپنے کنٹرول میں رکھ سکے اور برطانوی ایجنٹ ولسن کوکس کی مدد سے سعودیہ میں بدو لٹیروں پر مشتمل حکومت بنائی گئی۔ سامراج نے بڑی مکاری سے زندہ عرب قوم کے واحدجسم کو کئی ٹکڑوں میں بانٹ دیا۔ چنانچہ عرب انقلاب اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اس بٹوارے کو ختم نہ کر دے اور اس کا واحد راستہ یہ ہے کہ ہم سوشلسٹ فیڈریشن کا نعرہ بلند کریں ۔اس کے نتیجے میں دریائے فرات سے بحر اوقیانوس تک ایک بہت بڑی سوشلسٹ فیڈریشن قائم ہوگی۔ قومی منصوبہ بند معیشت کے ذریعے بے روزگاری فوراً ختم ہوجائیگی۔ غیر استعمال شدہ محنت کی قوت کو برو ئے کار لاتے ہوئے گھروں کی تعمیر ، صحت، تعلیم اور باقی ترقیاتی منصوبوں پر عمل کیا جائیگا، کثیر تعداد میں موجود ذخائر جو کہ ان تمام ممالک میں موجود ہیں کو استعمال کرکے صحراؤں کو آباد کیا جا سکے گا اور ماضی کی تمام ترقی سے کہیں زیادہ بہت زیادہ ترقی کی جاسکے گی۔ سوشلسٹ فیڈریشن کا قیام ہی لوگوں کو مکمل آزادی دے گا۔ اور یہی تمام مذہبی اور قومی نفرتوں کو ختم کرے گا جس کی وجہ سے خطے میں مدت سے ایک کے بعد ایک جنگ ہوتی رہی ہے۔ مسلمان اور عیسائی، شیعہ اور سنی‘ فلسطینی اور یہودی‘ عربی اور عجمی‘ کردو ترکمانی ،آرمینیائی و دروز، سب اس فیڈریشن میں اپنی جگہ حاصل کریں گے اور جس کی بنیاد مکمل برابری پر ہو گی۔

آئی ایم ٹی کا موقف ہے کہ

فلسطینیوں اور تمام مظلوم قوموں

کے حق خودارادیت کا تحفظ

سامراج اور اسرائیلی سامراجیت مردہ باد

عراق‘ افغانستان اور فلسطین سے سامراجی قوتوں کو بے دخل کیا جائے

سبھی مصالحت پسندوں کو اٹھاکر باہر پھینکا جائے

سامراج اورتمام عرب گماشتوں کی ملکیتوں کو قومی تحویل میں لیا جائے

عرب کی دولت عرب کے لوگوں کو دی جائے۔لوگوں کی انقلابی جڑت کیلئے عرب اور شمالی افریقہ کی سوشلسٹ فیڈریشن قائم کی جائے جس کی بنیاد برابری، آزادی اور آپسی بھائی چارہ ہو اورجس میں تمام قوموں کو مکمل آزادی حاصل ہو۔

شعور میں جست

مصر کا انقلاب ان سبھی ذہین و فطین باشعور وباضمیر دانشمندوں کے منہ پر طمانچہ ہے کہ جن کے منہ سے ہمہ وقت عوام کے پست اور کند شعور کے طعنے نکلتے چلے آتے ہیں۔وہ سبھی مغربی مفکرین جو اٹھتے بیٹھتے مصر کے لوگوں کو عقل و دانش ،سیاسی تہذیب وتمدن سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے عاری سمجھتے آرہے تھے،اب ان کے الفاظ ان کے گلے میں لوہے کے چنوں کی طرح اٹک چکے ہیں ۔ہم مارکسی یہ کہتے ہیں کہ عام طورپر انسانی شعورترقی پسند یا انقلابی نہیں ہواکرتا ۔بلکہ یہ قدامت پرست چلا آتا ہے ۔کسی بھی تبدیلی کے خلاف مزاحمت کی جڑیں،انسانی دماغ کے اندر بقا کے میکنزم کے حصے کے طورپر کارفرماہوتی ہیں جو کہ ہمارے کسی انتہائی قدیم جینیاتی ماضی میں پیوست چلی آرہی ہوتی ہیں۔ایک عمومی ضابطے کے طورپر شعور حالات کے پیچھے چلنے کا مظاہرہ کرتا چلا آرہاہوتاہے۔یہ بتدریج تبدیل نہیں ہوتا۔آج یہ اپنے پچھلے کل کی نسبت انقلابی ہوتاہے جبکہ اگلے کل میں آج سے زیادہ۔ پانی سو درجے سے صفر درجے تک جاتے ہوئے پہلے پیسٹ بنتاہے ،پھر جیلی اور پھر ٹھوس۔

شعور کا یہ نقطہ نظرمابعدالطبیعاتی اورمکینیکل ہواکرتاہے ۔ نہ کہ مادی اور جدلیاتی۔جدلیات ہمیں بتاتی اور سکھاتی ہے چیزیں اپنی الٹ میں تبدیل ہوجایاکرتی ہیں۔اور یہ بظاہر معمولی اور غیر اہم تبدیلی ،علم الطبیعات میں وہ حسا س مرحلہ سمجھی جاتی ہے کہ جس کی کوکھ سے دیوہیکل دھماکہ خیز واقعات اور تبدیلیاں جنم لیاکرتی ہیں۔شعور میں تبدیلی اچانک واقع ہوتی ہے کہ جب اسے بڑے واقعات تبدیلی کیلئے مجبور کرتے ہیں۔اور جب ایسا ہوتاہے تو شعور تیزی سے حالات کے ساتھ جڑنا شروع کردیتا ہے۔شعور کی یہ جست ہی انقلاب ہواکرتی ہے۔

عوام ،چاہے وہ ایران میں ہوں،مصر میں کہ برطانیہ میںیاپھر امریکہ میں ،وہ کتابوں سے نہیں بلکہ اپنے تجربوں سے ہی سیکھتے ہیں اور ایک انقلاب کے دوران تو وہ عمومی حالات کی نسبت بہت زیادہ اور بہت تیزی سے سیکھاکرتے ہیں۔مصر کے نوجوانوں اور محنت کشوں نے تیس سالو ں کی عمومی زندگی میں وہ نہیں سیکھا کہ جو وہ تین ہفتوں میں سیکھ چکے ۔گلیوں اور سڑکوں پر آکر عوام کو احساس اور ادراک ہوتا ہے کہ وہ کتنے طاقتور ہیں!ان کے ذہنوں میں سے وردی پہنے پولیس ‘ اسکے آنسو گیس کے بھرے ٹینکوں سمیت اور سادہ لباس میں چھپے ٹھگوں کا خوف مرجایاکرتا ہے جس کی بناپر وہ انہیں شکست دے دیاکرتے ہیں۔انقلاب کے عمل کے دوران سیکھنے کا عمل بہت ہی تیز اور بھرپور ہوجایاکرتاہے ۔یہی ہم تیونس اور مصر میں ہوتا دیکھ چکے ہیں اور دیکھ رہے ہیں ۔یہ ایک وسیع تجربہ گاہ ہے کہ جہاں بہت سے مختلف و متضادو متصادم عناصر اپنے اپنے مطالبات اور پروگرام سمیت موجودہوتے ہیں۔سڑکوں پر موجود عوام یہ پرکھتے اور جانچتے ہیں کہ کون سا نعرہ ومطالبہ ان کے مطابق ہے اور کون سا نہیں!آنے والے دنوں میں ہم یہی زندہ تجربہ زندگی کی ا س زندہ تجربہ گاہ میں بار بار ہوتا دیکھ سکیں گے۔ اور ایسا صرف شمالی افریقہ یا عرب خطے میں نہیں بہت جگہوں پر ہوناہے اور ہوگا۔

قاہرہ سے میڈیسن تک

1917 ء میں جب روس میں انقلاب ہوا تو اس کی خبر ہندوستان میں پہنچتے پہنچتے ایک ہفتے سے زیادہ وقت لگ گیا ۔اب ہر کوئی انقلابات کو ٹیلیویژ ن پراپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ سکتا ہے۔مشرق وسطی ٰمیں ہونے والے واقعات نے پوری دنیا پرگہرے اور دور رس اثرات مرتب کئے ہیں۔ ہندوستان میں32سال بعد ٹریڈ یونینوں اور بائیں بازو نے پہیہ جام ہڑتال کی ہے۔ یہ ہڑتال بڑھتی ہوئی مہنگائی اور تنخواہوں میں اضافوں کیلئے کی گئی۔ دہلی میں دو لاکھ لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ اگرچہ ہندوستان کی سالانہ شرح ترقی 9فیصدہے۔ مگر اس کے باوجود غربت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور دولت صرف اوپر کے چند لوگوں کے ہا تھوں میں مرتکز ہے۔

مصر اور تیونس میں سرمایہ دارانہ نظام اپنی کمزور ترین کڑی سے ٹوٹا ہے۔ بورژوادانشور یہ بتاتے ہیں کہ یہ کچھ ترقی یافتہ ممالک میں نہیں ہوسکتا کیونکہ وہاں پر حالات مختلف ہیں اور وغیرہ وغیرہ۔ہاں! حالات مختلف ہیں مگر کچھ ہی فرق کے ساتھ۔ دنیا بھر میں مزدوروں کے پاس صرف دو ہی راستے موجود ہیں ‘ یا تو معیار زندگی میں گراوٹ کو قبول کر لیا جائے ‘یا پھر اس کے خلاف لڑا جائے۔

یہ کہنا کہ ترقی یافتہ ممالک میں ایسا نہیں ہوگا غیر سائنسی اورغیر منطقی ہے ۔ تیونس کے بارے میں بھی یہی کہا جاتا تھا۔ اس وقت تک تیونس کو شمالی افریقہ کا سب سے مضبوط ومستحکم ملک کہا جاتا تھا۔ بن علی کے نکال دئیے جانے کے بعد یہی کچھ مصر کے بارے میں بھی کہا گیا۔ چند ہفتوں میں ہی یہ سب تجزیئے غلط ثابت ہوئے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس دور میں واقعات کتنی تیزی سے ہورہے ہیں۔ آج نہیں تو کل امریکہ، کینیڈا جاپان اور یورپ میں بھی یہی صورت حال ہوگی۔

افراط زر بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ خوراک کی قیمتوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس کے اثرات ہر جگہ ہونگے خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں۔ عالمی بنک کے مطابق آنے والے دنوں میں 44ملین انسان شدید غربت کی طرف دھکیل دیے جائیں گے۔جس سے انتہائی غریبوں کی تعدادایک ارب سے تجاوز کر جائے گی۔کروڑ ہا لوگ گھروں، خوراک اور نوکریوں کیلئے تگ ودوکررہے ہیں جو کہ انسانی زندگی کا بنیادی تقاضا ہے۔ اکیسویں صدی میں کم از کم یہ سب ہرکسی کو فراہم ہونا چاہیے تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام اتنا لاغر ہو چکا ہے کہ یہ سب سہولیات نہیں دے سکتا۔اس کی وجہ سے ہر جگہ تحریکیں اور بغاوتیں جنم لے رہی ہیں۔ یہ زندگی اور موت کا سوال ہے۔ موجودہ بحران سرمایہ داری کا کسی طور معمول کا بحران نہیں ہے۔ اور اس کی بحالی کی کوشش بھی نارمل نہیں ہے۔سرمایہ دار اس نظام کی بحالی کیلئے محنت کشوں کی زندگی کو تنگ کررہے ہیں تاکہ اپنے قرضوں کو ادا کر سکیں اور سستی محنت حاصل کریں۔مگر یہ سب کرنے سے حالات مزید بگڑ رہے ہیں۔ عرب انقلاب اور یورپ میں طبقاتی ابھار اسی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

دنیا کاہر ملک اس سے متاثرہوچکااور ہورہاہے۔ چین کا مصر سے اپیل کرنا کہ وہ جلد اپنے معمول کی جانب لوٹ آئے ،کسی طور اتفاق یا حادثہ نہیں ہے ۔اس کا تعلق معیشت کے ساتھ ہے۔ چین کی خواہش ہے کہ عالمی معیشت مستحکم ہو تاکہ وہ برآمدات کے ذریعے زیادہ سے زیادہ پیسہ کما سکے۔ بیجنگ اس بات سے بھی خوفزدہ ہے کہ کہیں چین میں بھی ہڑتالیں نہ شروع ہوجائیں۔وہاں جتنی ہڑتالیں ہوئیں ان کو بے رحمی سے کچلا گیا اور مصر کے انقلاب کے بارے میں تو انٹر نیٹ پرموجود ہر چیز ختم کردی گئی۔ سچ یہ ہے کہ ہر طبقاتی سوجھ بوجھ رکھنے والا محنت کش تیونس اور مصر کے واقعات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ان واقعات کا اثر بالکل بھی معمولی نہیں سمجھنا چاہئے۔بہت سے ممالک خاص طور پر ترقی یافتہ ممالک میں انقلاب صرف ذہنی وخیالی تصور کیا جاتا تھا۔ اب کیونکہ سب کی آنکھوں کے سامنے ہونے والے واقعات نے ثابت کردیا ہے کہ انقلاب صرف ممکن ہی نہیں بلکہ ضروری ہے۔یورپ اور امریکہ میں بینکاروں اور تجوریاں بھرنے والوں کے خلاف سخت نفرت پائی جاتی ہے جنہوں نے خود تو بھاری بھرکم منافع کمایا لیکن اکثریت کے معیار زندگی کو گرادیا۔ اس کا اندازہ وسکونسن میں ہونے والے واقعات سے لگایا جا سکتا ہے۔ امریکہ کی اس ریاست میں احتجاج کے دوران’’مصریوں کی طرح لڑو‘‘ کا نعرہ لگنا کوئی حادثہ نہیں تھا۔ یہ ان کمر توڑ قوانین کے خلاف ایک رد عمل ہے جو کہ سرمایہ دارانہ نظام کی بحالی کیلئے بنائے گئے ہیں۔ جب اچانک لوگوں تک یہ خبر پہنچی کہ وسکونسن میں طبقاتی جدوجہد کا آ غاز ہوچکا ہے تو 1لاکھ لوگوں نے اس میں شرکت کی۔ لوگوں نے وہاں کے گورنر کو ’حسنی والکر‘ کا خطاب دیا اور پلے کارڈ پر ’وسکونسن کے مبارک کو جانا چاہئے‘ کے نعرے لکھے۔یہی نہیں بلکہ انہوں نے مصر کے محنت کشوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے پیغامات بھی بھیجے۔طالب علموں نے بھی مظاہروں میں حصہ لیا۔ جن پولیس اہلکاروں کو مزدوروں کو منتشرکرنے کیلئے بھیجا گیا انہوں نے بھی لوگوں کے ساتھ تعاون اور یکجہتی کا اعلان کر دیا۔ انہوں نے جو جیکٹس پہنی تھیں ان پر ’’مزدوروں کیلئے پولیس‘ ‘لکھا تھا، یہ ایک بہت اہم پیش رفت ہے۔

یورپ میں بھی ہم محنت کشوں اور طالبعلموں کی تحریکیں دیکھ چکے ہیں۔یونان میں بارہ مہینوں میں آٹھ پہیہ جام ہڑتالیں ، فرانس میں 3.5 لاکھ لوگوں کی تحریک،برطانوی طالبعلموں کی تحریک ، سپین میں پہیہ جام ہڑتال،اٹلی میں تانبے کی فیکٹریوں کے مزدوروں کی تحریک، پرتگال میں 1974ء کی ڈکٹیٹر شپ کے بعد سب سے بڑی ملک گیر پہیہ جام ہڑتال ، ہا لینڈ میں 15000 طالبعلموں کی تحریک،مشرقی یورپ میں ، البانیہ اور رومانیہ میں بھی تحریک انہی دنوں کی ہی بات ہے۔بلغاریہ میں تو پولیس بھی ہڑتال میں شریک تھی۔ 20سال پہلے بورژوازی نے کمیونزم کے خاتمے کا جشن منایا تھا۔ مگر ان کی خوشی ان کی خود فریبی اور جلدبازی تھی۔حقیقت یہ ہے کہ سٹالنزم کا انہدام ، بڑے واقعات کے جنم کا پیش خیمہ ثابت ہوگاجو کہ سرمایہ دارانہ نظام کو انقلاب کے ذریعے ختم کر دیں گے۔ ہر جگہ حتیٰ کہ امریکہ میں بھی نظام بحران کا شکار ہے اور ہر جگہ حکمران طبقات سارا بوجھ نچلے طبقے کے کاندھوں پر ڈال رہے ہیں۔ ان تمام تحریکوں کی مشرقی یورپ میں اٹھنے والی تحریکوں سے بہت مماثلت ہے۔ بظاہر وہ تمام حکومتیں بھی بہت مضبوط تھیں،بڑی فوجیں، پولیس، خفیہ ایجنسیاں اور وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب بھی ان ریاستوں کو نہیں بچا سکیں ۔ایسے ہی اب تمام تر دولت ان کونہیں بچا سکتی نہ ہی پولیس اور آرمی، امریکہ اور یورپ کو مزدوروں کی تحریکوں سے بچا سکیں گے۔عوام نے بارہا لڑنے کی جرات اور طاقت دکھائی ہے۔ حتمی جیت کیلئے ان کو ایک واضح پروگرام اور قیادت سے لیس ہونے کی ضرورت ہے۔مارکسزم کے نظریات ہی وہ واحدراستہ اور ذریعہ ہیں جو اس ضرورت کو پوراکرسکتے ہیں ۔ مستقبل ہمارا ہے اور ہمارا منتظر ہے۔

عرب انقلاب زندہ باد!

دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہوجاؤ

Translation: Chingaree.com