قذافی کی موت کے بعد۔ لیبیا میں انقلاب اور رد انقلاب

Urdu translation of After the death of Gaddafi: Revolution and counterrevolution in Libya (21 October 2011)

کرنل قذافی کے قتل کو دنیا بھر کا میڈیا انتہائی تفصیل سے دکھا رہا ہے۔ قذافی کی موت اور سرت پر قبضے کے بعد قومی عبوری کونسل ایک عبوری حکومت کے قیام کے متعلق گفتگو کر رہی ہے۔ قومی عبوری کونسل کو ان سامراجی طاقتوں نے تسلیم کیا جن کے مفادات کا وہ تحفظ کر رہی ہے۔

لیکن لیبیا کے عام عوام قومی عبوری کونسل اور اس کے سامراجی حمایتیوں کو درست طور پر شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔

اگرچہ قذافی زندہ پکڑا گیا تھا لیکن اسے فوری طور پر قتل کر دیا گیا۔ صاف ظاہر ہے کہ ایسا کیوں کیا گیا۔ اگر اسے پکڑکر مقدمہ چلایا جاتا تو اس سے قذافی کی بلےئر، سرکوزی اور برلسکونی کے ساتھ ماضی کی تمام سودے بازیاں منظر عام پرآ جاتیں۔یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ قذافی کے قتل پر اتنے خوش ہیں۔ان کی منافقت کی انتہا دیکھیے کہ یہی لوگ ماضی میں قذافی کے ساتھ بہت منافع بخش سودے کرتے رہے ہیں اور یہاں تک کہ بہت سے لوگوں پر تشدد کرنے کے لیے انہیں قذافی حکومت کے حوالے کرتے تھے۔

قذافی کی موت اور اس کی حکومت کے مکمل خاتمے سے ایک باب ختم ہو گیا لیکن یہ محض ایک موڑ ہے اور لیبیا کے مستقبل کے لیے ایک اور لڑائی شروع ہونے کو ہے۔ اس لڑائی میں انقلاب اور رد انقلاب کی قوتیں غلبہ حاصل کرنے کے لیے آپس میں نبرد آزما ہوں گی۔

بائیں بازو کا تذبذب

لیبیا کے واقعات پر بائیں بازوکا شدید تذبذب دیکھنے میں آیا ہے۔ ایک طرف ان میں سے کچھ سامراج کے آگے اتنے جھک گئے ہیں کہ وہ نیٹو کی فوجی مداخلت کی حمایت کر رہے ہیں ۔ یہ انتہائی سادہ اور رد انقلابی پوزیشن ہے۔ اپنی رائے کو کرائے کے میڈیا کی منافقانہ بکواس اور ’’عام شہریوں کو بچانے کی خاطر انسانیت کی مدد‘‘ کے لیے مداخلت کے جھوٹ پر قائم کرنا انتہائی احمقانہ ہے۔

نیٹو کی مداخلت عام شہریوں کو بچانے کے لیے‘ انسانی ہمدردی کے لیے قطعاً نہیں تھی بلکہ یہ سرد اور قنوطی جمع تفریق پر مبنی تھی۔ ان کے قذافی کے ساتھ ماضی میں قریبی تعلقات تھے اور وہ سیاسی قیدیوں پر تشدد کروانے کے لیے انہیں لیبیا بھیجتے تھے۔ ایسے افراد انسانی ہمدردی کا دعویٰ کیسے کر سکتے ہیں۔ بحرین کے عوام پر ہونے والے مظالم کی تو انہیں کوئی پرواہ نہیں۔ لیبیا کے عوام کی نجات صرف لیبیا کے عوام کا فریضہ ہے نہ کہ ان سامراجیوں کا جو کئی دہائیوں سے شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں خونخوار آمریتوں کی حمایت اور پشت پناہی کرتے رہے ہیں۔ ہمارا پہلا مطالبہ لیبیا میں تمام غیر ملکی مداخلت کا خاتمہ ہے۔

بائیں بازو کا دوسرا رجحان ایک اور انتہا پر چلا گیا اور قذافی کو ’’ترقی پسند‘‘، ’’سامراج مخالف‘‘ حتیٰ کہ ’’سوشلسٹ‘‘ قرار دے کر اس کی حمایت کر رہا ہے۔ اس میں کوئی سچائی نہیں ہے۔ یہ درست ہے کہ لیبیا (اور شام) کی حکومت کا کردار تیونس اور مصر کی حکومتوں سے مختلف تھا۔لیکن اس سے ان کے جابرانہ طریقہ کار سے قطع نظر نہیں کیا سکتا اور نہ ہی یہ درست معنوں میں سامراج مخالف ہیں۔

سارے عمل کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے یہ ناکافی ہے کہ دو غلط پوزیشنوں کے ساتھ منفی یا مثبت کا نشان لگا دیا جائے۔ ہمیں تصویر کے دونوں رخ دیکھنے چاہیں۔ ہمیں تمام عوامل کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک متوازن موقف اختیار کرنا چاہیے اور یہ دیکھنا چاہیے کہ تضادات کس طرح سے حل ہو سکتے ہیں۔ جیسا کہ مصر میں ہے، یہاں بھی حقیقی مسئلہ انقلابی قیادت کا فقدان ہے۔

تاریخ شکست یافتہ، ادھورے اور مخالف طبقاتی قوتوں کے ہاتھوں اغوا ہونے والے انقلابات سے بھری پڑی ہے اور لیبیا اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ عوامی انقلاب کا ابھرنا اس کی حتمی کامیابی کی ضمانت نہیں۔

قذافی حکومت کی منفرد خصوصیات

قذافی حکومت کی بہت منفرد خصوصیات تھیں۔ شروع میں اس کی سامراج مخالف بیان بازی کی وجہ سے اسے عوامی حمایت حاصل تھی۔ خود کو ’’سوشلسٹ‘‘ کہنے والی حکومت نے معیشت کی اکثریت کو قومی تحویل میں لے لیا اور تیل کی بے پناہ دولت اور کم آبادی کے باعث عوام کی اکثریت کو نسبتاً بہتر معیار زندگی ، صحت اور تعلیم کی سہولیات فراہم کرنے میں کامیاب ہوئی۔ اس لیے بہت لمبے عرصے تک حکومت مستحکم رہی۔ بغاوت کے شروع ہونے کے بعد قذافی کے اتنے حامی موجود تھے کہ وہ کئی ماہ تک مزاحمت کر پایا۔ لیکن اس نظام میں ساری طاقت فرد واحد کے ہاتھ میں تھی جس سے کسی طرح کے بھی سیاسی اور ریاستی ادارے نہیں بن پائے۔ کوئی حکمران پارٹی نہیں تھی (سیاسی پارٹیوں پر پابندی تھی) ایک محدود بیوروکریسی اور ایک کمزور اور منقسم فوج تھی۔

قبائلی سرداروں کے ساتھ اتحادوں اور سرپرستیوں کے ایک پیچیدہ نظام اور غیر رسمی تعلقات کے نیٹ ورک کے بلبوتے پر قذافی کا اقتدار قائم تھا۔ گزشتہ بیس برس میں، بالخصوص گزشتہ دہائی کے اندر، قذافی حکومت نے معیشت کے اوپر ریاستی کنٹرول کو کم کرنا شروع کر دیا تھا اور سامراجیوں کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے لیے منڈی کو کھول کر ’’آزاد منڈی‘‘ کی معیشت اور نیو لبرل پالیسیاں اپنانا شروع کر رکھی تھی ۔ان میں عالمی تجارتی تنظیم کی رکنیت کے لیے درخواست اور نجکاری شامل ہیں۔ 2003ء کے بعد سے 100سے زائد ریاستی کمپنیوں کی نجکاری کی گئی جن میں تیل صاف کرنے کی صنعتیں، سیاحت اور جائیداد کی کمپنیاں شامل ہیں اور ان میں سے 29 کی100فیصد ملکیت غیر ملکی کمپنیوں کے ہاتھوں میں ہے۔ اس سے عوام کے معیار زندگی میں گراوٹ آئی اور ایک اقلیت جس میں زیادہ تر قذافی کے خاندان کے لوگ شامل تھے مزید امیر ہوئے۔ اس سے پھیلنے والا عدم اطمینان بغاوت کی وجوہات میں سے ایک ہے۔ بہت سے سابق جرنیل، وزرا اور ممتاز کاروباری آخری وقت میں ’برادر رہنما‘ کی ڈوبتی ناؤ سے چھلانگ لگا گئے اور حقیقی انقلاب کو اغوا کرنے میں لگ گئے۔

کیا لیبیا میں انقلاب تھا؟

لیبیا کی تحریک عرب انقلاب کا حصہ تھی جو تیونس اور مصر میں شروع ہوا۔ بن غازی سے شروع ہونے والی یہ تحریک خود رو تھی اور اس کی کوئی قیادت یا واضح مقاصد نہیں تھے ما سوائے قابل نفرت حکومت کے خاتمے کے۔ اس تحریک کا کردار ترقی پسندانہ اور انقلابی تھا۔ اس کی قوت محرکہ انقلابی عوام تھے جس میں شہروں کے غریب لوگ ، مزدور، درمیانے طبقے کی نچلی پرتیں، درمیانے طبقے کے افراد (ڈاکٹر، وکیل وغیرہ) شامل تھے۔ سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ محنت کش طبقہ منظم نہیں ہے۔ محنت کشوں کی اکثریت تیل کی صنعت میں ہے جہاں غیر ملکی محنت کشوں پر بہت زیادہ انحصار کیا جاتا ہے ۔اس وجہ سے پرولتاریہ اس تحریک پر غالب انداز میں اثر انداز نہیں ہو سکا۔ مصر اور تیونس کی طرح لیبیا میں بھی کوئی مربوط قیادت نہیں ہے۔ یہاں صورتحال بہت سے قومی، علاقائی اور قبائلی عناصر کی اور محنت کش طبقے کے محدود کردار کی وجہ سے بہت پیچیدہ ہے۔ تاریخی طور پر لیبیا کا علاقہ تین صوبوں (یا

ریاستوں) پر مشتمل تھا جن میں شمال مغرب میں طرابلس، مشرق میں برقہ اور جنوب مغرب میں فزان شامل ہیں۔ ان علاقوں کو اطالوی سامراج نے بزور متحد کیا تھا اور 1934ء میں لیبیا کو چار صوبوں اور ایک علاقے میں تقسیم کر دیا جن میں طرابلس، مصراتہ،بن غازی، بیضا، اور صحرا اعظم کا علاقہ شامل ہیں۔ اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کے لیے قذافی عربیوں کو بربر وں کے خلاف اور قبائل کو آپس میں لڑا کر رکھتا تھا۔ مقامی دشمنیوں اور قبائلی اتحادوں نے صورتحال کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے۔

قیادت کے خلا کو قومی عبوری کونسل کے نام سے بورژوا عناصر نے پورا کیا۔ یہ خود سے مقرر کردہ، غیر منتخب لوگ ہیں جو کسی کو جواب دہ نہیں ہیں اور انہوں نے انقلابی عوام خاص طور پر نو جوانوں کو پیچھے دھکیل دیا ہے۔

بن غازی کی بغاوت

فیس بک پر17فروری کے مظاہروں کی کال دی گئی جسے روکنے کے لیے قذافی حکومت نے ابو سلیم جیل میں مرنے والوں کے لواحقین کے نمائندہ وکیل فتحی تربل کو گرفتار کر لیا جس نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور بن غازی کے ساتھ‘ مشرقی لیبیا میں بھی مظاہرے ہونے لگے۔ قذافی نے فوج کو بھیجا جس میں کرائے کے فوجی اور اس کے بیٹوں کی قیادت میں ملیشیا بھی شامل تھیں۔ بہت خون خرابے کے بعد بن غازی کی بیرکوں پر قبضہ ہو گیا اور اس سے صورتحال خانہ جنگی کی جانب بڑھی۔جنرل عبدالفتح کی قیادت میں بن غازی بٹالین باغیوں کے ساتھ مل گئی۔ مشرق میں شروع ہونے والی بغاوت سارے ملک میں پھیل گئی اور قذافی نے اسے کچلنے کے لیے جنگی جہاز اور بحری بیڑے کو استعمال کرتے ہوئے شدید جبر کیا۔ بہت سے پائیلٹوں نے فوج سے بغاوت کر دی۔ حکومت کا جبر طرابلس میں سب سے شدید تھا۔ حکومت کے ان اقدامات سے عوامی بغاوت خانہ جنگی میں تبدیل ہو گئی۔

نیٹو کا کردار

بن غازی میں قومی عبوری کونسل نے نیٹو کو مداخلت کی دعوت دی۔ سامراجی ابھی تک عرب انقلاب میں مداخلت کرنے میں ناکام تھے اور دعوت کو انہوں نے سنہری موقع جانا۔ امریکی، فرانسیسی اور برطانوی قومی عبوری کونسل کے ساتھ رابطے میں آئے جو بورژوا عناصر اور قذافی کے سابق وزرا پر مشتمل ہے اور اس اقدام سے اس کا رد انقلابی کردار بے نقاب ہوتا ہے۔ لیکن یہ سمجھنا بھی غلط ہو گا کہ این ٹی سی (قومی عبوری کونسل) مکمل کنٹرول میں تھی ، بلکہ ابتدا میں باغی اسے شک اور مخالفت کی نگاہ سے دیکھ رہے تھے مثلاًبرطانوی خصوصی فوجیوں کو باغیوں نے این ٹی سی کے لیڈروں سے رابطہ کرنے کے لیے بن غازی میں داخل ہونے کی کوشش میں گرفتار کر لیا۔ یہ لندن کے لیے انتہائی ہزیمت کا باعث بنا۔ قذافی اور اس کے بیٹے سیف الاسلام کی جانب سے دھمکیوں اور بن غازی پر حملے کے خوف نے این ٹی سی کے بیرونی مداخلت کے مطالبے کو باغیوں کے لیے قابل قبول بنا دیا۔ پیرس اور لندن کے حکمران تو بہت ہی خوش تھے جس کی ایک وجہ ان کی گرتی ہوئی مقبولیت بھی تھی۔ اقوام متحدہ نے ایک مرتبہ پھر سامراج کا آلہ کار ہونے کا ثبوت دیا اور معاشی اور سٹریٹجک مفادات کی اس کاروائی کو انسانی ہمدردی بنا کر پیش کیا۔ خصوصاً فرانس کے اپنے مفادات اور ایجنڈا تھا اور سرکوزی تیونس کے بن علی کی حمایت کے بعد عرب میں اپنا تشخص بہتر بنانے کا خواہاں تھا۔ افریقہ (خصوصاً شمالی افریقہ) اور مشرق وسطیٰ کو فرانس ہمیشہ سے اپنا حلقہ اثر سمجھتا ہے۔ آئیوری کوسٹ میں صدرگباگبو کو ہٹا کر مغرب (فرانس) کے کٹھ پتلی وٹارا کو لانے میں فرانسیسی فوج ملوث تھی۔ ٹونی بلیئر نے قذافی کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کیے اور اب کیمرون نے اس پر بمباری کا حکم دیا۔ لیکن برطانوی سامراج کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں جو لیبیا کے تیل کا حصول ہے، قذافی کے ساتھ یا اس کے بغیر۔

نیٹو اور خانہ جنگی

برطانیہ اور فرانس کے بر عکس امریکی محتاط تھے، وہ عراق اور افغانستان میں نقصان اٹھانے کے بعد اس فضائی جنگ میں شامل ہونے کی جلدی میں نہیں تھے جو بعد میں بری جنگ میں تبدیل ہو سکتی تھی۔ وہ لندن اور پیرس کے دباؤ اور اس شرط پر جنگ میں شامل ہوئے کہ اس کی قیادت امریکہ نہیں نیٹو کرے گی۔ بہت سے امریکی جرنیلوں نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا کہ صرف فضائی بمبا ری سے جنگ نہیں جیتی جا سکتی اور زمینی فوج فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے۔

خانہ جنگی میں سیاست عام جنگ کی نسبت کہیں زیادہ فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے۔ حقیقی انقلابی پالیسی کے فقدان کی وجہ سے دوسری جانب کے لوگوں کو جیتنے میں مشکلات پیدا ہوئیں۔ ایک اور عنصر باغی لیڈروں کے مابین اختلافات اور قذافی کے چند سابقہ افسران کا کردار تھا جن کے بارے یہ شک کیا جا رہا تھا (غالباً درست طور پر) کہ وہ ’’برادر رہنما‘‘ کے ساتھ کوئی ڈیل کرنا چاہتے ہیں۔ اگر’ ’عام‘‘ طریقے سے جنگ لڑی جاتی تو قذافی کو پیشہ ور فوج، بہتر ہتھیاروں اور تربیت یافتہ سپاہیوں کی برتری حاصل تھی۔ ان وجوہات کی بنا پر خانہ جنگی طویل اور خونی ہو تی گئی۔ باغی غیر تربیت یافتہ اور بری طرح مسلح عام لوگ تھے جن کے متعلق نیٹو جرنیل تضحیک آمیز رویہ رکھتے تھے۔ اکانومسٹ نے ان کا بیان چھاپا کہ ’’وہ حالت جنگ کی کیفیت میں نہیں ہیں اور لڑنا چاہتے بھی نہیں۔وہ صرف ناٹک کر رہے ہیں‘‘۔کئی ماہ کی فضائی بمباری کے باوجود زمین پر صورتحال جوں کی توں تھی۔ لندن اور پیرس میں پریشانی پھیل گئی کہ جنگ کئی ماہ بلکہ کئی سال بھی جاری رہ سکتی ہے۔ اکتوبر کے آغاز تک برطانوی حکومت 1.75ارب پاؤنڈ اور امریکی1.1ارب ڈالر اس جنگ پر خرچ کر چکے تھے۔ کٹوتیوں کے اس دور میں اس خرچے کی توجیح پیش کرنا مشکل ہے۔

برطانوی وزیر خارجہ ویلیم ہیگ ایک طویل جنگ کے لیے رائے عامہ کو تیار کرنے کے لیے مایوس کن بیان دے رہا تھا۔ فرانس جس پر ایک تہائی بمباری کی ذمہ داری تھی ، زیادہ پریشان تھا کیونکہ اس کے پاس اس کام کے لیے درکار عسکری صلاحیت نہیں ہے جس کا اعتراف مسلح افواج کے سربراہ ایڈمرل ایڈوارڈ گوئیلارڈ نے خود کیا۔نیٹو کا رکن ترکی بھی مشکل میں تھا کیونکہ اس کے قذافی سے قریبی تعلقات تھے جن کے بدلے ترک کمپنیوں کو بڑے ٹھیکے ملتے تھے اور اس لیے شروع میں ترکی نے جنگ کا حصہ بننے کے برطانیہ اور فرانس کے دباؤ کی مخالفت کی لیکن جب قذافی کا خاتمہ واضح ہو گیا تو اردگان نے فوراً مستقبل کے لیبیا میں ترکی کے حصے کے لیے پینترا بدل لیا۔ اس محدود بمباری نے بھی نیٹو کی عسکری صلاحیتوں پر دباؤ اور اندرونی تضادات کو واضح کر دیا۔ برطانیہ اور فرانس اپنے نیٹو ’’اتحادیوں‘‘مثلاً جرمنی اور اٹلی کے کچھ نہ کرنے کی شکایات کرتے رہے۔

طرابلس پر قبضہ

بالآخر اگست میں طرابلس پر قبضے سے قصہ ختم ہوا۔کیا طرابلس کی فتح نیٹو کی بمباری سے ہوئی ؟ در حقیقت نیٹو کے لیے یہ انتہائی غیر متوقع اور حیران کن تھا۔ قومی عبوری اور باغی کمانڈر بھی حیران رہ گئے۔ در حقیقت قذافی کے فوجیوں کو احساس ہو گیا تھا کہ اب لڑنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ آخر میں قذافی کی حکومت ریت کی دیوار کی طرح گر گئی۔

کون سی قوتیں ملوث تھیں؟

طرابلس کے اندر ہونے والی مسلح بغاوت نے قذافی کی حامی مزاحمت کا خاتمہ کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا اور اس کے متعلق بہت سے ذرائع سے اطلاعات موصول ہوئیں ہیں۔ سوشلسٹ ورکر ڈاٹ اورگ کے ایک اداریہ ’’لیبیا میں حقیقتاً کون جیتا‘‘ میں لکھا گیا کہ نیٹو نے لیبیا میں انقلاب کو کامیاب کیا ہے نہ کہ لیبیا کے عوام نے۔ اس کے جواب میں طرابلس سے خط موصول ہوا جس کے مطابق20اگست کو شہر کے کئی علاقوں میں بغاوت کا آغاز ہوا۔21کی دوپہر تک حکومتی سکیورٹی نظام اکثر جگہوں پر ختم ہو گیا اور شام کو باغیوں کا پہلا دستہ شہر میں داخل ہوا۔آج طرابلس پر عام لوگوں کی حکومت ہے۔ہر علاقے کی عوامی کمیٹی ہے جو مقامی مسلح افراد پر مشتمل ہے۔ یہ داخلی و خارجی راستوں کی حفاظت اور پولیس کا کام سرانجام دیتے ہیں۔شام کے وقت آپ قذافی کے محلات میں ٹہل سکتے ہیںیا پھر خفیہ ایجنسی کے مرکزی دفتر میں کاغذات کی چھان بین کر سکتے ہیں۔ قذافی کے حامی مالکان کو بھگاکر لوگوں نے ہوٹلوں اور ریستورانوں پر قبضہ کر لیا ہے اور انہیں خود چلا رہے ہیں۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ قذافی کے خلاف بغاوت عوام نے کی ہے لیکن مارکسی نقطہ نظر سے یہ سوال انتہائی اہم ہے کہ اس بغاوت کا طبقاتی کردار کیا ہے اور اس کے بعد واقعات کس سمت میں رونما ہوں گے۔ اس خط کے مطابق ’’طرابلس میں موجود باغیوں میں بہت سے عناصر ہیں جن میں پہلے دن سے طرابلس میں انقلاب کی قیادت کرنے والے لیڈر جن کا نیٹو سے کوئی رابطہ نہیں، طرابلس سے تعلق رکھنے والے انقلابی جو بن غازی، تیونس اور دیگر ممالک میں تھے اور اب واپس آرہے ہیں،ملاؤں کی قیادت میں اسلامی بنیاد پرست، امریکی پشت پناہی میں بن غازی کی قومی عبوری کونسل خصوصاً اس کی کابینہ جیسی ایگزیکٹو کمیٹی، طرابلس کی مسلح افواج جو خود دو دھڑوں میں تقسیم ہیں جن میں ایک کی قیادت سابقہ اسلامی شخصیت عبدالحکیم بالحاج او ر دوسرے کی قذافی حکومت کے سابقہ افراد کر رہے ہیں(بالحاج کو امریکی ایما پر گرفتار اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا اور کہا جاتا ہے کہ قطر اس کی حمایت کر رہا ہے) اور اس کے علاوہ40کے قریب پورے ملک سے تعلق رکھنے والے باغیوں کے دستے ہیں‘‘۔اس رپورٹ سے ہم صورتحال کی پیچیدگی کا اندازہ لگا سکتے ہیں، جس میں بہت سے متضاد عناصر موجود ہیں۔ اس سے ( اور دیگر کئی رپوٹوں سے) واضح ہے کہ قومی عبوری کونسل حالات کو کنٹرول نہیں کرتی۔بہت سی مقامی ملیشیا اور مسلح گروپ موجود ہیں جو زمین پر حالات کنٹرول کر رہے ہیں۔

منڈلاتے ہوئے گدھ

قذافی گرفتار اور قتل ہو چکا ہے۔ ’’ایک طویل جنگ‘‘ کی دھمکیاں کھوکھلی ثابت ہوئی ہیں۔ تاہم اس کے کچھ حامی نئی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے لیے دہشت گردی اور گوریلا کاروائیاں کر سکتے ہیں۔ اس کی موت سے قبل ہی سامراجی آگے بڑھ رہے تھے۔ امریکہ نے طرابلس میں اپنا سفارت خانہ دوبارہ کھول دیا تھا اور اس کا سفیر واپس آ گیا تھا تا کہ اس ملک میں موجود کاروباری مواقعوں میں امریکی کمپنیوں کا حصہ یقینی بنایا جا سکے۔ ہیلری کلنٹن پہلے ہی لیبیا کا دورہ کر چکی ہے جس کا مقصد بھی یہی تھا۔ لیبیا کے نئے حکمران خود کو سامراج کی گود میں بٹھانے کے لیے اس بھی زیادہ جلدی میں ہیں۔ قومی عبوری کونسل کے چیئر مین مصطفی عبدالجلیل نے گزشتہ ہفتے پریس کانفرنس میں کہا کہ نئی حکومت اپنے مغربی پشت پناہوں کو لیبیا میں کاروبار میں ’’فوقیت‘‘ دے گی۔ عبوری حکومت قذافی دور کے ’’تمام قانونی معاہدوں‘‘ کی پاسداری کر رہی ہے۔ پریس کانفرنس میں اس نے قذافی حکومت اور اس کے خاندان پر کرپشن کے شدید الزامات لگائے۔ لیکن قومی عبوری کونسل کے بہت سے ممبران قذافی کی حکومت اور اس کرپشن کا حصہ تھے۔جلیل خود لیبیا کی جنرل عوامی کمیٹی کا رکن تھا لیکن حالات کو بھانپتے ہوئے انقلاب کے آغاز میں ہی الگ ہو گیا اور انقلاب کا ’’قائد‘‘ بن گیا۔

قذافی کے ساتھ دوستانہ تعلق رکھنے والے سرکوزی نے حال ہی میں بن غازی میں ایک جلسے سے خطاب میں نئی حکومت کی حمایت کا اعلان کیا۔ برطانیہ کا قدامت پرست وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون بھی اس کے ساتھ کھڑا تھا اور اس نے بھی ایسی ہی باتیں کہیں۔ایک سینئر سفارتکار نے برطانوی کاروباریوں کے ساتھ ایک بند کمرے کے اجلاس میں کہا کہ ’’معمر قذافی کا تختہ الٹنے میں برطانوی مدد کو بھلایا نہیں جائے گا اور برطانوی کمپنیاں لیبیا کی تعمیر نومیں اہم کردار ادا کرنے کی توقع رکھ سکتی ہیں‘‘۔

مغربی لیڈر جنگجو یا کم از کم مغرب مخالف اسلامی بنیاد پرستوں کے اقتدار میں آنے کے اندیشے کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔ لیکن اسلامی بنیاد پرست خود ’’جدیدیت، جمہوریت اور تکثیریت‘‘ کا راگ الاپ رہے ہیں۔ یہ سب لیبیا کو سب سے بڑی بولی دینے والے کو بیچنا چاہ رہے ہیں۔امریکی سفیر جین اے کریٹزنے کہا ہے کہ تیل کبھی بھی لیبیا میں امریکی مداخلت کا ’’بنیادی موجب‘‘ نہیں تھا۔ لیکن 150امریکی کمپنیوں کے اجلاس کو اس نے بتایا کہ ’’ہم جانتے ہیں کہ لیبیا کے قدرتی وسائل میں تیل تاج کا ہیرا ہے۔۔۔‘‘اس کا بیان امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کے لیبیا میں مفادات کی عکاسی کرتا ہے۔ وہ صرف لیبیا کے تیل میں دلچسپی نہیں رکھتے بلکہ ان اشیا اور سہولیات میں بھی جو لیبیا تیل کے بدلے ان سے خریدے گا۔ بحران کے اس دور میں جب منڈیوں کی قلت ہے، ایسے موقع ضائع نہیں کیے جاتے۔ سامراجی مداخلت سے نئے تضادت ابھریں گے۔ باغی لیڈر آپس میں لڑ تے رہے ہیں۔ باغیوں سے جا ملنے والے قذافی کے سابق فوجی چیف جنرل عبدالفتح یونس کوجولائی میں پراسرار طریقے سے قتل کر دیا گیا تھا۔ بہت سے لوگوں کے خیال میں اسلامی بنیاد پرست اس کے پیچھے تھے لیکن معاملہ پوری طرح سے حل نہیں ہوا۔ اگست کے آخر میں قذافی کے مضبوط ٹھکانے باب العزیزیہ پر قبضے کے بعد اسلامی بنیاد پرست عبدالحکیم بالحاج نے شب خون مارنے کی کوشش کی اور طرابلس کے فوجی کمانڈر کی حیثیت سے کنٹرول سنبھال لیا۔ اس سے باقی مخالف کمانڈروں سے تنازعہ بن گیا، مثلاً عبداللہ نکرنے سی این این پر کہا ’’عبدالحکیم بالحاج کون ہے اور اسے کس نے مقرر کیا ہے؟ ہم اسے نہیں جانتے۔ لیڈر ہم ہیں، انقلابی ہم ہیں،ہمیں سب خبر ہے‘‘۔

لیکن سوال یہ ہے کہ عبداللہ نکر اور ساری عبوری قومی کونسل کو کس نے منتخب کیا؟ مختلف دھڑوں کی صلح کرانے کی خاطر عبدالجلیل کی جانب سے بلائے گئے اجلاس میں حالات اس قدر کشیدہ ہو گئے کہ اسے اگلے دن ہر دھڑے سے الگ الگ ملاقات کرنا پڑی۔ بالحاج پر قطری ایجنٹ ہونے کا الزام ہے اور یہ کہ قطر اسے ہتھیار خریدنے کے لیے پیسے بھیجتا ہے۔ قطر بھی برطانیہ، فرانس، امریکہ اور اٹلی کی طرح لیبیا میں اپنے مفادات کے حصول کے پیچھے ہے اور اس کے لیے مقامی ایجنٹوں کو استعمال کر رہا ہے۔ بیرونی مداخلت باغی کیمپ میں پہلے سے موجود تضادات کو مزید ہوا دے گی اور یہاں تک کہ لیبیا کی وحدت بھی داؤ پر لگ سکتی ہے۔

بن غازی میں ’’دوستی‘‘ کے مظاہروں کے باوجود لیبیا کے عوام سامراج سے نفرت کرتے ہیں اور لیبیا کے قدرتی وسائل کو لوٹنے کے ان کے حقیقی عزائم سے بخوبی آگاہ ہیں۔ صورتحال 2003ء میں بغداد کی کیفیت جیسی ہے، لیکن ایک بنیادی فرق کے ساتھ کہ لیبیا کی سر زمین پر ایک بھی امریکی فوجی موجود نہیں ہے۔ لیبیا کے عوام بلےئر اور سرکوزی کے قذافی کے ساتھ قریبی مراسم اور ان کے سودوں کے بارے میں بھی بخوبی جانتے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ یہ نام نہاد جمہوریت پسند سیاسی قیدیوں کو تشدد کروانے کے لیے طرابلس کے اذیت خانوں میں بھیجاکرتے تھے۔ طرابلس کے عوام جلد ہی قذافی کی تیل اور خارجہ امور کی وزارت کی فائلوں تک پہنچ جائیں گے اور اس کے بلےئر، سرکوزی اور برلسکونی کے ساتھ خفیہ سودوں کو بے نقاب کر دیں گے، اگر برطانوی اور فرانسیسی خفیہ ایجنسیاں ان سے پہلے انہیں حاصل نہ کرسکی تو۔

فتح کس کی ہو گی؟

کسی بھی عمل کا تجزیہ کرتے ہوئے ہمیں مختلف رجحانات کو الگ الگ کرنا ہوتاہے اور ترقی پسند اور رجعتی عناصر میں فرق کرنا ہوتا ہے۔لیبیامیں ایسا کرنا اتنا آسان نہیں ۔تحریک میں بہت سے عناصر شامل ہیں جن میں رجعتی اور انقلابی صلاحیت رکھنے والے شامل ہیں۔بہت سی قوتیں انقلاب کی قیادت کے لیے بر سر پیکار ہیں ۔ یہ کشمکش ابھی فیصلہ کن انداز میں ختم نہیں ہوئی اور بہت سی مختلف سمتوں میں جا سکتی ہے جیسا کہ میں نے اگست کے مضمون میں لکھا تھا۔

صورتحال غیر یقینی اور تضادات سے بھر پور ہے اور اس کا نتیجہ ابھی واضح نہیں۔ایک طرف تحریک اور محنت کش اپنے مطالبات کے حصول کے لیے زور لگا رہے ہیں اور دوسری جانب بورژوا عناصر سامراجیوں کے ساتھ مل کر ساز باز کر کے صورتحال کو کنٹرول کرنا چاہ رہے ہیں۔ انقلاب کی اصل طاقت نوجوان باغی جنگجو ہیں جو ایماندار اور دلیر ہیں لیکن متذبذب اور بے سمت ہیں اور بنیاد پرست اور دوسرے مقبول لیڈر آسانی سے انہیں ورغلا سکتے ہیں۔محنت کش طبقہ میدان میں آنا شروع ہو گیا ہے اور اپنے آزادانہ طبقاتی مطالبات پیش کر رہا ہے لیکن یہ تعداد میں کم ہے اور اس کی قیادت کرنے والا بھی کوئی نہیں۔

ابھی واضح نہیں کہ ان میں سے کون فتح یاب ہوتا ہے۔ امریکی پشت پناہی میں قومی عبوری کونسل کمزور ہے اور اس کے لیے حمایت محدود ہے۔ پہلے کئی شہروں میں اس کے خلاف مظاہرے ہوئے ہیں جن میں بن غازی بھی شامل ہے۔ ستمبر کے وسط تک این ٹی سی مختلف گروپوں اور سیاسی دھڑوں کے ساتھ ملک کا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے مقابلے میں تھی۔ حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا این ٹی سی قابل عمل حکومت قائم کر سکتی ہے۔ اس کی کمزوری اس بات سے عیاں ہے کہ طرابلس کی فتح کے بعد بھی یہ بن غازی میں ہی مقیم ہے اور مختلف مسلح ملیشیا کے کنٹرول میں دارالحکومت میں داخل ہونے سے خوفزدہ ہے۔

لیبیا کے غیر منجمد اربوں ڈالروں کے کنٹرول پر بھی تضادات سامنے آئے ہیں۔ مقامی سرغنہ سامنے آرہے ہیں ۔ مسئلہ یہ ہے کہ لیبیا میں بہت سے لوگ ملک سے پہلے خاندان، قبیلے، گاؤں اور شہر کے وفادار ہوتے ہیں۔ انقلابی قیادت کی عدم موجودگی میں یہ ممکن ہے کہ بورژوازی کامیاب ہو جائے لیکن اسے سنجیدہ مسائل درپیش ہیں۔ سب سے پہلے تو انہیں تحریک میں نکلے ہوئے عوام کا سامنا ہے جو مسلح بھی ہیں۔ اس لیے پہلا کام عوام کو غیر مسلح کرنے کا ہے ۔ لیکن ایسا کہنا تو آسان ہے پر کرنا مشکل۔ امریکی سفیر کریٹز نے جن قابل فکر مسائل کی نشان دہی کی ہے اس میں مسلح عوام اور آزاد ملیشیا ؤں کو غیر مسلح کرنا شامل ہیں۔

بن غازی کی فوجی کونسل کے سربراہ اسماعیل سالابی نے این ٹی سی کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے اور اس کے ممبران کو ’’قذافی دور کی باقیات‘‘ اور ’’سماجی بنیادوں کے بغیر لبرل گروہ ‘‘ کہا ہے۔

سالابی جیسے کئی اور جنگجو مصر ہیں کہ قذافی حکومت کے خاتمے میں انہوں نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ کچھ تو اس بھی آگے بڑھ کر یہ کہہ رہے ہیں کہ طرابلس پر تیزی سے قبضے نے این ٹی سی کو حیرانی میں ڈال دیا اور انہوں نے لیبیا کے لیے نیٹو کے اصلی منصوبے کو ناکام کر دیا جو ملک کو مشرق اور مغرب میں تقسیم کرنے کا تھا۔ ان کے متعلق نیٹو کی حکمت عملی مغرب میں جنگ کو منجمد کر کے مرسی البریقہ کو آزاد مشرق اور قذافی کے مغرب کے درمیان عملی طور پر سرحد بنانے کی تھی۔

محنت کش طبقے کا کردار

لیبیا کا انقلاب ایک ادھورا کھیل ہے جس میں قذافی کا خاتمہ پہلا ایکٹ تھا۔ مستقبل کا فیصلہ زندہ قوتوں کی جدل میں ہو گا اور آخری نتیجے کا فیصلہ ابھی نہیں ہوا۔ مختلف نتائج ممکن ہیں، انقلابی اور ردانقلابی بھی۔مستقبل کا تعین لیبیا کے اندر اور عالمی سطح پر رونما ہونے والے واقعات کریں گے۔ درست طریقے سے سوال کرنا بہت ضروری ہے کہ قذافی حکومت خاتمہ کس کی جیت تھی، انقلاب کی یا رد انقلاب کی۔ محنت کش طبقے کے راستے سے بہت بڑی رکاوٹ کے ہٹنے سے انقلاب کے لیے نئی راہیں کھل گئی ہیں۔ اس سے نئے خطرات بھی پیدا ہوئے ہیں۔ مضبوط محنت کش طبقے کے فقدان نے اس کشمکش کو خونی خانہ جنگی میں بدل دیا۔ باغی نوجوان انقلابی گروپوں میں شامل ہو گئے۔ ان میں سے زیادہ تر قبائلی یا مقامی وفاداری پر مبنی ہیں۔ کاروباری افراد انہیں پیسہ ، اسلحہ اور گاڑیاں فراہم کر رہے ہے۔ مارکسی پارٹی تو درکنار محنت کش طبقے کی کوئی آزادانہ تنظیم موجود نہیں ہے، اس لیے باغیوں کے سیاسی نمائندے سرمایہ داری کے اندر رہتے ہوئے کسی حل کے متلاشی ہیں، یعنی بورژوا جمہوریت کی حدود کے اندر۔ یہ تمام عوامل مستقبل میں تحریک کے متعلق بہت سے سوالات کو جنم دیتے ہیں۔

کیا سامراجی لیبیا کے انقلاب کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے؟

اس سوال کا حتمی جواب ابھی نہیں دیا سکتا۔ طاقتور قوتیں اس سمت میں کھینچ رہی ہیں۔ لیکن ہر عمل کا مساوی اور مخالف سمت میں رد عمل بھی ہوتا ہے ۔ اگر کچھ لوگ فرانسیسی، اور برطانوی (اور مصری، الجزائری اور قطری) پرچم لہرا رہے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ لیبیا کے عوام اپنے ملک اوراس کے تیل کو سب سے بڑی بولی دینے والے کو فروخت کرنے پر آمادہ ہو جائیں گے۔ قذافی کے ٹینکوں پر بم مارنے پر شکریہ ادا کرنا ایک بات ہے اور اس کے جواب میں لیبیا پر نو آبادیاتی قبضہ تسلیم کر لینا اور بات ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اپنی تابعداری کے باوجود این ٹی سی کو اقوام متحدہ کی زمینی امن فوج کی مخالفت میں سامنے آنا پڑا جس سے عوام کے دباؤ کا اندازہ ہوتا ہے۔

یہ سچ ہے کہ لیبیا کا محنت کش طبقہ مصری محنت کش طبقے کے مقابلے میں کافی کمزور ہے ۔ ابھی تک یہ انقلاب پر اپنی چھاپ لگانے میں ناکام رہاہے۔ بایاں بازو انتہائی کمزور ہے اور بورژوا عناصر اور سامراج کا دباؤ لیبیا کو کسی اور سمت میں لے جا سکتا ہے۔ اس کے باوجود قذافی حکومت کے خاتمے نے لیبیا میں طبقاتی جدوجہد کے آگے بڑھنے کے لیے زیادہ سازگار حالات پیدا کیے ہیں۔ پرانی حکومت کا حصہ رہنے والے بورژوا لیڈروں کے ہاتھوں جو خود کو جمہوریت پسند کہتے ہیں، تحریک کا اغوا ہونا شام اور یمن میں جاری انقلابات کے لیے گراں قدر سبق ہے۔ وہ سبق یہ ہے کہ اگر سامراجی طاقتوں کی مدد سے حکومت کا خاتمہ کیا جائے تو اس کی قیمت عوام کو ادا کرنا پڑتی ہے۔ حقیقی تبدیلی کی بجائے پرانی حکومت نئے لبادے میں آ جائے گی اور عوام کے سلگتے ہوئے مسائل میں سے ایک بھی حل نہیں ہو گا۔ اور عوام کو اپنا کام مکمل کرنے کے لیے ایک دوسرے سخت انقلاب کی تیاری کرنا ہو گی ۔

حتمی طور پر لیبیا کے مادی حالات فیصلہ کن ہوں گے۔ عوام کی حالت بری ہے۔ پانی اور بجلی کی سپلائی میں خلل ہے۔ پٹرول کی قلت ہے۔ محنت کش ہمیشہ کے لیے تقاریر اور ’’جمہوری‘‘ لفاظی پر گزارہ نہیں کر سکتے۔ ان کی فوری ضروریات ہوتی ہیں جنہیں پورا کرنا ہوتا ہے۔ قذافی کی موت کے بعد جنگ بندی سے باغیوں میں طبقاتی بنیادوں پر تقسیم پیدا ہو گی۔ محنت کش پہلے ہی این ٹی سی پر تنقید کر رہے ہیں اور تیل کی صنعت میں پرانے منیجروں کو برقرار رکھنے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ لیبیا کی قومی تیل کمپنی (این او سی) کے سو سے زائد ملازمین نے27ستمبرکو طرابلس میں اس کے مرکزی دفتر کے باہر منیجروں کا ماضی سے تعلق نہ توڑنے کے خلاف مظاہرہ کیا۔ 9اپریل کو اکانومسٹ نے بن غازی میں لیبیا میں تیل کی سب سے بڑی کمپنی خلیج عرب تیل کارپوریشن (اے جی او سی او) کے دفتر کے باہر محنت کشوں کے مظاہرے کی خبر شائع کی جو منیجروں کی تبدیلی کے لیے کیا گیا تھا۔ کمپنی کو محنت کشوں کی منتخب کردہ کمیٹی کے سربراہ کو قائم رکھنا پڑا۔ این ٹی سی کی مخالفت کے باوجود محنت کش فتح یاب ہوئے۔ ایک ٹرید یونینسٹ کے مطابق ’’مقامی بدمعاش بھی اتنی جلدی ملکی وسائل کی بندر بانٹ کرنا چاہتے ہیں جتنا کہ غیر ملکی‘‘۔ایک آمر کے خاتمے کے بعد محنت کش طبقہ سرمائے اور سامراج کی آمریت نہیں چاہتا۔ محنت کش طبقہ متحرک ہو رہاہے۔ ہمیں لیبیا کے محنت کش طبقے کی آزادانہ تحریک کی حمایت اور حوصلہ افزائی کے لیے ہر طرح کی کوشش کرنا ہو گی۔

صورتحال بہت پیچیدہ ہے اور مختلف رجحانات مختلف سمتوں میں کھینچ رہے ہیں۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ مارکسسٹوں کو ہمیشہ محنت کش طبقے اور نوجوانوں کے سب سے انقلابی عناصر پر انحصارکرنا چاہیے، خواہ وہ اقلیت میں ہی کیوں نہ ہوں۔ ہم ترقی پسند قوتوں پر انحصار کرتے ہیں اور رجعت کے خلاف لڑتے ہیں۔

سب سے بڑھ کر قذافی حکومت کا خاتمہ اس کھیل کی ایک کڑی ہے ۔بن علی اور مبارک جا چکے ہیں، اور صالح کچے دھاگے سے بندھا ہوا ہے۔ قذافی کا تختہ الٹا جا چکا ہے۔اس سے شام میں اسد کو پہلے سے زیادہ خطرہ لاحق ہو گیاہے۔اردن کے عبداللہ کو اب بھی مخالفت کا سامنا ہے۔ بحرین کے عوام سعودی سنگینوں پر قائم بادشاہت کے زیرِ عتاب تڑپ رہے ہیں۔ لیکن یہ حکومتیں کب تک قائم رہیں گی؟اتنی بڑی دولت پر بیٹھے سعودی عوام ہمیشہ کے لیے اس کرپٹ، انحطاط پذیر اور فرسودہ بادشاہت کو برداشت نہیں کریں گے۔ لیبیا کے واقعات عظیم عرب انقلاب کا حصہ ہیں ، جو ابھی اپنے اختتام کے قریب بھی نہیں پہنچا۔

Source: Chingaree.com (Pakistan)