دیواربرلن کا انہدام ۔ ماتمِ امید کا جشن

Urdu translation of The fall of the Berlin Wall: 20 years later (November 9, 2009)

چنگاری ڈاٹ کام،18.04.2010۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آج سے کوئی بیس سال پہلے دیوار برلن کیا گری کہ ساراسرمایہ دار مغرب شادیانے بجاتا‘بھنگڑے ڈالتا‘ اس گری ہوئی دیوارکو پھلانگتا اور سوشلزم و کمیونزم کے خاتمے کے فلک شگاف نعرے لگاتا بدمست ہوتاچلاگیا۔ اب بیس سالوں بعد یہ بدمستی بدحواسی میں تبدیل ہو چکی ہے اور سرمایہ داری کے عالمی بحران نے تمام تصورات اور جذبات کی نوعیت ہی الٹ کے رکھ دی ہے۔ آج مشرقی جرمنی میں لوگوں کی اکثریت لیفٹسٹوں کو ووٹ دے رہی ہے اور وہ بیس سال پہلے کی منصوبہ بند معیشت کے اچھے دنوں کو پھر سے یاد کر رہے ہیں ۔ سٹالنزم کے تلخ تر تجربے کے بعد اب لوگوں نے سرمایہ داری کے تلخ ترین تجربے کو بھی آزماکے دیکھ لیاہے۔وہ سیکھ اور جان چکے ہیں کہ سوشلزم بہرحال سرمایہ داری سے بدرجہا بہتر ہے۔ ہر سال کی طرح سال دو ہزار نو میں بھی سالگرہ کی کئی تقریبات ہوئی اورہونی ہیں ۔ ان میں روزالکسمبرگ اور لیخبت کی شہادت کی سالگرہ کا دن بھی ہے اور کمیونسٹ انٹرنیشنل کی پہلی بنیاد کے قیام کی سالگرہ بھی اور آسٹریائی کمیون کے قیام کی بھی سالگرہ ہے۔ سرمایہ دارانہ ذرائع ابلاغ کے کسی بھی حصے اور شعبے میں ان واقعات کی معمولی سی بھی جھلک دکھائی یا بازگشت سنائی نہیں دیتی۔ ہاں البتہ ایک سالگرہ ایسی ضرورہے جو انہیں بھلائے نہیں بھولتی۔ اس سالگرہ کے دن کیلئے تو جیسے سرمایہ دار اور ان کے چہیتے دانشوراپنے ذرائع ابلاغ سمیت دن گناکرتے ہیں کہ کب یہ دن آئے اور یہ لوگ سالگرہ منائیں۔ یہ دن نو نومبر انیس سو اننانویں کا دن ہے کہ اس دن سابقہ مشرقی جرمنی کو مغربی جرمنی سے الگ کرنے والی دیوار گرادی گئی تھی اور یوں اپنے تئیں ایک تاریخ رقم کی گئی تھی۔ جدید تاریخ میں اس دیوار کے گرنے کو کمیونزم کاگرجانا قراردے دیاگیاہے۔ اس بڑے واقعے کے بعد سے ہم دیکھتے ہیں کہ دنیابھرمیں مارکسزم کے نظریات کے خلاف دشمنی اور زہرفشانی کا ایک نہ ختم ہونے والاسلسلہ شروع کردیاگیا۔دیوار کے ختم ہونے کو سوشلزم کے خاتمے کا سب سے ٹھوس اور ناقابل تردید ثبوت تصور کرلیاگیا۔ہمہ قسم لوگوں نے دیوارکے گرتے ہی اپنی اپنی کہنی سنانی شروع کر دی بلکہ وہ سوشلزم پر چڑھ دوڑنے میں ایک دوسرے سے سبقت لینے لگے ۔ان میں سے ایک صاحب نے تو تاریخ کے ہی خاتمے کا فلسفہ پیش فرمادیا۔لیکن بدقسمتی سے تاریخ کا پہیہ ابھی تک نہ صرف گھوم رہاہے بلکہ کچھ ایسے گھوم رہاہے کہ بڑے بڑوں کو گھمائے چلا جارہاہے۔ مارکسزم کے وفات پاجانے اور مسترد ہونے کے اس شور شرابے کے پیچھے جو دلیل بنائی اور پھر سارے زمانے میں مشہورکی جاتی رہی وہ یہ تھی کہ بس اب صرف سرمایہ دارانہ نظام ہی سب مسئلوں کا مجرب واکسیر نسخہ ہے اس کے علاوہ نہ راستہ ہے نہ ہی کوئی طریقہ۔نسل انسانی کے پاس اب ایک ہی راستہ بچاہے اوراب صرف سرمایہ دارانہ نظام ہی انسان اور انسانیت کوا ن کے ہرایک دکھ درد سے نجات دلادے گا۔ اس دعوے کے بالکل برعکس آج جو کچھ سب کے سامنے ہے وہ کچھ اورہی ہے۔ سٹالنزم کے خاتمے کی بیسویں سالگرہ کے موقع پرسرمایہ دارانہ نظام ،خود کوپچھلی صدی کے عظیم زوال کے بعد کے سب سے بڑے گہرے اور سنجیدہ بحران میں مبتلا پا رہاہے۔کروڑوں انسان اس بحران کی برکتوں سے بیروزگاری، غربت ،کٹوتیوں اورزبوں حالی کے تیرہ وتاریک مستقبل کی طرف دھکیل دیئے گئے ہیں اور یہ سلسلہ بڑھتاچلاجارہاہے۔اس تمام تر عرصے کے دوران کمیونزم‘ مارکسزم اور سوشلزم کے خلاف انتہائی شدومد کے ساتھ بیہودہ واویلا بھی جاری وساری رکھاگیاہے اور اس کی انتہائی سادہ سی وجہ ہے جو سمجھ میں بھی آتی ہے۔ عالمی پیمانے پر اپنے اثرات مرتب کرنے والے معاشی بحران نے دنیابھر میں ہی منڈی کی معیشت کو ایک سوالیہ نشان بنادیاہے جس پر اب ہر طرف‘ ہر جگہ انگلیاں اٹھائی جارہی ہیں۔مارکسزم کے نظریات کی جانب دلچسپی اور طلب نہ صرف بحال ہو چکی ہے بلکہ یہ بڑھتی ہی چلی جارہی ہے جو کہ عالمی بورژوازی کیلئے خطرے کی گھنٹی بجارہی ہے اور اس کے رونگٹے کھڑے ہونے شروع ہوگئے ہیں۔مارکسزم کے بارے میں تازہ اور تیزحملوں کے پیچھے دراصل سرمایہ داروں کا پوشیدہ خوف عیاں ہوکر سامنے آرہاہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سوشلزم کا نقاب ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ روس اور مشرقی یورپ کے ملکوں میں جس چیز کا انہدام ہوا وہ کسی طوربھی وہ کچھ نہیں تھا جسے سوشلزم یا کمیونزم کہتے ہیں اور جو کارل مارکس یا لینن کے نظریات سے کسی طور تعلق واسطہ نہیں رکھتاتھابلکہ یہ ایک افسرشاہانہ اور مطلق العنان سیاسی ڈھانچے کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا ۔لینن نے واضح طورپر لکھا اورکہا تھا کہ سوشلزم کی طرف جانے کیلئے صنعت وپیداوار،سماج اور ریاست پر محنت کشوں کا جمہوری کنٹرول درکار ہوتاہے۔حقیقی اور سچے سوشلزم کا کسی طورپر بھی افسرشاہانہ طورطریقوں سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ہوسکتا۔افسرشاہی کا لازمی اور ناگزیر نتیجہ وسیع پیمانے کی بدعنوانی،اقرباپروری،ضیاع،بدانتظامی اور انتشار کی صورت میں برآمدہوتا ہے۔ روس اور مشرقی یورپ کے اندرقومیائی گئی منصوبہ بند معیشت نے صنعت ،سائنس ،صحت اور تعلیم کے شعبوں میں حیران کن کارہائے نمایاں اور حاصلات کو ممکن کرکے دکھایا۔ لیکن پھر جیسا کہ کامریڈ ٹراٹسکی نے بہت پہلے انیس سو چھتیس میں پیشین گوئی کرتے ہوئے نشاندہی کر دی تھی کہ افسرشاہی انجام کار منصوبہ بند معیشت کا دھڑن تختہ کردے گی ،جس سے نہ صرف منصوبہ بند معیشت کا ہی خاتمہ ہوجائے گا بلکہ سرمایہ داری بھی بحال ہو کر سامنے آجائے گی۔ انیس سو اسی کی دہائی میں روس میں امریکہ،جاپان ، برطانیہ اور جرمنی کے مجموعی سائنسدانوں سے بڑھ کر سائنسدان موجودتھے ۔مگر اس برتری کے باوجود بھی یہ مقدار وہ معیار نہیں حاصل کرسکی کہ جو مغرب کررہاتھا۔اس عددی فوقیت کے باوجود پیداوریت اور معیارزندگی کے حوالوں سے روس، مغرب سے بہت پیچھے تھا۔اس کی کوئی اورمرکزی وجہ نہیں تھی سوائے اس کے کہ روس کی معیشت پرمسلط افسرشاہی کا بہت بھاری بوجھ اسے دبائے چلاجارہاتھا ۔لاکھوں لالچی اور بدعنوان افسران ساری سیاست و معیشت کو امربیل کی طرح لپٹے ہوئے اور گھن کی طرح کھائے جارہے تھے جبکہ اس کے برعکس محنت کش طبقے کا اس سب سے کوئی لینا دینا نہیں تھاجوکہ سوشلزم کی بنیادی شرط ہواکرتی ہے۔ افسرشاہی کا یہ خون نچوڑتے رہنے والا کرداراور ان کا بھاری بھرکم بوجھ روس کی شرح پیداوار کو کمتر رکھنے کا باعث بنا رہاجس کے نتیجے میں روس مغرب سے بہت پیچھے رہا۔انتہائی بھاری عسکری انتظامات پر اٹھنے والے گرانباراخراجات اور مشرقی یورپ پر اپنی گرفت کو قائم رکھنے پر ہونے والاخرچہ بعد ازاں بدترثابت ہوتے چلے گئے جس نے روسی معیشت کا بیڑہ غرق کرنے میں اہم کرداراداکیا۔ انیس سو پچاسی میں روس میں ایک نئی طرزکے رہنما میخائل گورباچوف کے ظہورنے صورتحال کو بالکل ہی نیا رنگ دے ڈالا۔گورباچوف کا افسرشاہی کے اس اصلاح پسند دھڑے سے تعلق تھا کہ جو اوپرسے اصلاحات کرکے حکومت کو کسی نہ کسی طرح بچانے کی تگ ودوکرناچاہ رہاتھا۔تاہم صورتحال کسی طورسنبھلنے کی بجائے بعدازاں بدتر ہوتی چلی گئی۔اس کے فوری اثرات مشرقی یورپ پر مرتب ہونے شروع ہوگئے جہاں پہلے ہی سٹالنزم کے بحران کو قومیتی مسئلے کا مقابلہ اور سامناتھا۔ ۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مشرقی یورپ میں اضطراب ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انیس سو اننانویں میں ایک کے بعد دوسرے ملک کے دارالحکومت میں سٹالنسٹ حکومتوں کے خلاف بغاوتوں کی لہر چل پڑی۔رومانیہ میں چاؤشسکو کی حکومت کو اکھاڑ پھینک کر اسے فائرنگ سکواڈ کے سامنے کھڑا کردیاگیا۔اس قسم کی بغاوتوں میں ایک اہم اور موثر عنصرروس کا اندرونی بحران تھا۔اس سے قبل جب بھی مشرقی یورپ میں کچھ ایساویساہوتاتھا تو روس اپنی سرخ فوج بھیج کر’’ اصلاح احوال ‘‘کرلیاکرتاتھا،جیساکہ مشرقی جرمنی میں انیس سو ترپین ہنگری میں انیس سو چھپین اور چیکوسلواکیہ میں انیس سو آٹھا سٹھ کے اندر اس نے یہ کیاتھا۔مگر گورباچوف کو اس بات کی سمجھ آگئی تھی کہ موجودہ کیفیت میں اس قسم کی اصلاح احوال کا کوئی امکان نہیں ہے۔پولینڈ میں انیس سو اسی کی دہائی کے دوران وسیع عوامی اضطراب اپنی حکومت کے خلاف سرگرم ہوچکاتھا۔اگر اس وقت کوئی حقیقی مارکسی قیادت کے تحت تحریک ہوتی تو نہ صرف پولینڈ بلکہ سارے مشرقی یورپ کی حالت اور کیفیت بدلی جاسکتی تھی۔اس خلاء کا فائدہ لیخ ویلسا جیسے ردانقلابی لوگوں نے اٹھایا۔پہلے پہل تو پولش حکمرانوں نے سختی اور تشدد کے طور طریقوں سے تحریک کودبانے اور کچلنے کی کوشش کی مگر آخر کار سالیڈیریٹی کو قانونی حیثیت دینی پڑگئی ۔یہی نہیں بلکہ اسے چار جون انیس سو اننانویں کوہونے والے عام انتخابات میں بھی حصہ لینے کی اجازت دے دی گئی۔اس کا نتیجہ ایک سیاسی زلزلے کی صورت میں برآمدہوا۔جن جن سیٹوں پر سالیڈیریٹی کے امیدواروں کو الیکشن لڑنے کی اجازت ملی تھی وہ سب کی سب اس نے جیت لیں ۔اس کے لامحالہ گھمبیر اثرات آس پاس کے ملکوں پر بھی مرتب ہوئے ۔ ہنگری میں جیسا کہ توقع بھی کی جارہی تھی ،جانوس کادارکوایک سال قبل ہی انیس سو آٹھاسی میں کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکرٹری کے عہدے سے برخاست کیا جاچکاتھا اورحکمران ایک نیا جمہوری پیکج لاچکے تھے جس میں الیکشن بھی شامل تھا۔چیکوسلواکیہ بھی جلدہی اثرات کی لپیٹ میں آ گیا۔ بیس نومبر انیس سو اننانویں کودارالحکومت پراگ میں لاتعداد احتجاجی جمع ہوئے جو پہلے روز دولاکھ تو اگلے روزپانچ لاکھ ہوچکے تھے۔ ستائیس نومبر کو دوگھنٹوں کی عام ہڑتال کی گئی ۔ان ڈرامائی واقعات نے تاریخ کو نیا رنگ روپ دینے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد تقریباًنصف صدی تک روس نے مشرقی یورپ پر آہنی اندازسے حکمرانی کی تھی لیکن یہ سب خونخوار قسم کی ’’واحدپارٹی‘‘کی حکمرانیاں تھیں جو ایک انتہائی زور آور طاقت کی پشت پناہی پر قائم چلی آرہی تھیں جن میں ہرقسم کے جبروتشدد کے آلات ،فوج پولیس کے علاوہ خفیہ ایجنٹوں کی بھرمار جو کہ ہر گلی‘ ہر محلے‘ ہر گھر میں‘ ہر سکول‘ ہر کالج ‘ہر کھیت ‘ہر کارخانے کی نگرانی پر معمور رہتے۔یہ بظاہر ناممکن بات لگتی ہے کہ اس قسم کی سخت گیر مطلق العنان قسم کی حکومتوں کے خلاف کسی قسم کی عوامی سرکشی یاتحریک سربھی اٹھاسکتی ۔لیکن پھر یہ سچ بھی سامنے آگیا کہ ان سبھی انتہائی طاقتورحکومتوں کے پاؤں ریت کے تھے ۔ہوا کے پہلے جھونکے کے آتے ہی یہ مہان حکمرانیاں چاروں شانے چت ہو تی چلی گئیں۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ مشرقی جرمنی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان سبھی روسیائی حکومتوں میں سے ٹیکنالوجی اورصنعت کے اعتبار سے مشرقی جرمنی بہت ہی جدید اور ترقی یافتہ تھا۔ معیار زندگی ہرچند مغرب جتنا نہیں تھا لیکن اس کے باوجود اچھاتھا۔مکمل روزگار ہر کسی کو میسر تھا ۔ہر ایک کو سستی مگر اچھی رہائش دستیاب تھی۔تعلیم اور علاج سب کیلئے مفت تھا اور وہ بھی اعلی سطح تک۔لیکن پھر ایک پارٹی کی حکمرانی جو کہ ہمہ وقت ایک خفیہ ایجنسی(بدنام زمانہ سٹاسی)کے زورآور بل بوتے پر اپنا وجود اور تسلط برقرار رکھے ہوئے تھی ،اور جو فوج میں بھی اپنے مخبروں کی بڑی تعداد رکھتی تھی۔اور پھر افسرشاہی کی بدعنوانی ، اشرافیہ کی مراعات یافتگی کی ہوس یہ سب عوامل مل کر ایک عمومی اضطراب اور بے چینی کی فضاپیداکرتے چلے آرہے تھے ۔ انیس سو اکسٹھ میں دیوار برلن اٹھائے جانے کے بعد کوئی دو اعشاریہ پانچ ملین افراد مشرقی سے مغربی جرمنی ہجرت کر گئے تھے۔ان میں سے بیشتر سرحد کے پاس ہی مقیم ہوگئے تھے۔اس ہجرت اور نقل مکانی کو روکنے کیلئے حکومت کو یہ دیوار قائم کرنے کی سوجھی تھی۔ دیوار اور دیگر رکاوٹیں جو آٹھ سو ساٹھ میل لمبی،، تیرہ سو ساٹھ کلومیٹر،، تعمیر کی گئیں ،نے باہمی منافرتوں کو تقویت دینے میں اہم کرداراداکئے رکھا۔شاید اس دیوارکے قیام نے بعد مشرقی جرمنی کی معاشی ترقی کو بڑھایاہولیکن اس دیوار کی تعمیر نے جدا ہوجانے والوں کے درمیان جدائی اوراذیتوں کی ایک نہ ختم ہونے والی کیفیت بھی پیداکردی تھی۔یوں اس دیوار نے مغرب سمیت ساری دنیا کو ایک تاثر قائم کرنے میں مدددی کہ کمیونسٹ کتنے سخت گیر اورعلیحدگی پسنداور مردم بیزارہواکرتے ہیں۔ انیس سو اسی کی دہائی کے آخر تک مشرقی جرمنی میں صورتحال دھماکہ خیزہوچکی تھی۔وہاں کا پراناسٹالنسٹ حکمران ایرک ہونیکر سختی کے ساتھ اصلاحات کی مخالفت کررہاتھا۔یہاں تک کہ اس کی حکومت نے طبع ماسکو کتابوں کی آمدپر بھی پابندی لگادی۔ چھ ، سات اکتوبر کو گورباچوف نے مشرقی جرمنی کادورہ کیاتاکہ جرمن ڈیموکریٹک ریپبلک کی پچاسویں سالگرہ کی تقریبات میں شریک ہو سکے۔اس دورے میں اس نے وہاں کے حکمرانوں پر دباؤڈالا کہ وہ اصلاحات کے پروگرام کو قبول کرلیں ۔اس حوالے سے گورباچوف کا ایک فقرہ بہت مشہورہوا کہ ’’جو تاخیرکردیاکرتاہے،اسے زندگی سزا دیاکرتی ہے‘‘۔ تب تک مشرقی جرمنی کھلم کھلا بغاوت پر اتر چکاتھا۔اپوزیشن کے احتجاجی مظاہرے جگہ جگہ کھمبیوں کی طرح سے سراٹھانے لگے تھے ۔ان مخالف جماعتوں میں سے(Neues Forum )’’نیوفورم‘‘، ’’جمہوری جاگرتی‘‘ (Demokratischer Aufbruch)اور (Demokratie Jetzt)’’فوری جمہوریت‘‘نمایاں تھیں۔اپوزیشن کی سب سے بڑی تحریک جرمنی کے سینٹ نکولس کے پروٹسٹنٹ چرچ سروس ،لپزگ کی جانب سے شروع کی گئی۔یہاں ہر سوموار کے دن جمع ہونے والے شہری اکٹھے ہوکر مشرقی جرمنی میں تبدیلی کے نعرے بلندکیاکرتے تھے۔تاہم یہ سب تحریکیں سیاسی طورپر مضمحل اور کسی واضح پروگرام سے بے بہرہ تھیں۔لپزگ سے شروع ہونیو الی اور وہاں سے جڑیں پکڑتے ہوئے عوامی سرکشی میں روزبروزاضافہ ہوتا چلا گیا۔ مظاہرے کرنے والوں کی تعداد لاکھوں میں پہنچتی چلی گئی۔حکومت کا بحران شدت اختیارکرتاگیا جس کے نتیجے میں سخت گیرسٹالنسٹ حکمران ایرک ہونیکر کو اپنی ساری کابینہ سمیت مستعفی ہوناپڑگیا۔عوام کی تحریک کے دباؤکے نتیجے میں نیوپارٹی کے رہنما ایگون کریز نے الیکشن کروانے کا مطالبہ کردیا۔لیکن حکومت کی طرف سے اعلان کردہ اصلاحات نہ صرف ناکافی تھیں بلکہ بہت تاخیر سے سامنے آئی تھیں۔کمیونسٹ لیڈروں نے طاقت کو استعمال کرنے کا سوچا جس کیلئے شاید انہیں کسی حد تک گورباچوف کی آشیرباد بھی حاصل تھی۔واقعات اور معاملات تیزی کے ساتھ ہاتھ سے نکلتے چلے جارہے تھے ۔ان دنوں کے بارے میں یہ کہا جاسکتاہے کہ ایک نیم انتشارکی صورتحال وہاں مسلط ہو چکی تھی۔دکانیں چوبیس گھنٹے کھلی رہنے لگیں ۔وہاں کا پاسپورٹ اب ایک سفری ٹکٹ کے طورپر استعمال ہونے لگاتھا۔ایک چشم دید گواہ کے الفاظ کے مطابق ’’ان دنوں عمومی سطح پر قانون اور ضابطے بالکل ہی غائب ہو چکے تھے ‘‘۔طاقت باہر سڑکوں پر آچکی تھی لیکن کوئی بھی اسے اٹھانے اور سنبھالنے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔ عوامی غیض وغضب کی زد میں آئی مشرقی جرمنی کی بزعم خود مطلق العنان حکومت تاش کے پتوں کی طرح بکھر گئی ۔عوامی بیتابی کے کئی ہفتوں کے بعدبالآخرحکومت کو اعلان کرناپڑاکہ سبھی مشرقی جرمنی کے شہری بلاروک ٹوک مغربی جرمنی اور مغربی برلن آجاسکتے ہیں ۔یہ عوام کے بھڑک اٹھنے کا ایک اور اعلان ثابت ہوا۔یکایک ہی لاکھوں مشرقی جرمن دیوار پھلانگتے مغربی سمت میں جرمنوں سے جا ملے۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ردِانقلاب ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دیوار برلن مشرقی جرمنی کی حکومت کے خلاف نفرت وحقارت کے ایک استعارے اور علامت کے طورپر سمجھی جاتی تھی۔چنانچہ اس کا انہدام ایک قابلِ رشک قدم کے طورپر سمجھاگیااور لوگوں نے اسے تیزی کے ساتھ گرانا شروع کردیا۔چندہی ہفتوں میں دیوار کی محض نشانی بچ گئی۔بعدازاں مشینوں کے ذریعے یہ نشانیاں بھی مٹادی گئیں ۔ ہرطرف ایک جشن کا سماں بپاتھا۔ایک سرخوشی اور دھوم دھڑکے کی کیفیت تھی ، لوگ ہر طرف جھومتے ناچتے گاتے نظر آرہے تھے ۔یہ انقلاب سے زیادہ گہماگہمی کا منظر تھا۔ لیکن پھر سترہ سو اننانویں کے بعد سے یہ ہر بڑے انقلاب کی ابتدائی کیفیات چلی آرہی ہیں۔ نومبر انیس سو اننانویں میں مشرقی جرمنی کے عوام ایک بیکراں جوش وجذبے سے معمور،آزادی کے احساس سے سرشار ،مدہوشی کی کیفیت میں آئے ہوئے لگ جھوم رہے تھے ۔ کیفیت کچھ یوں ہوچکی تھی کہ سب مشرقی جرمن ایک ذہنی آزادی اور آسودگی کے تجربے سے گزررہے تھے اور ایک ایسا ماحول قائم ہوچکاتھا جس میں ہر قسم کی تجاویز، مشورے سامنے آرہے تھے اور لوگ جذبات سے کچھ بھی کہنے یا کرنے کے ہیجان میں مبتلاہوچکے تھے۔ایک انتہائی سخت گیر حکمرانی کو اکھاڑ پھینکنا اتنا آسان عمل ثابت ہواتھا کہ شاید اس قسم کی کسی اورحکومت کے ساتھ ایسا نہیں ہوسکا۔لیکن سوال تویہ تھا کہ اسے اکھاڑ پھینکنے کے بعد اب کیا ہو؟ کیساہو ؟ عوام کو یہ بخوبی علم اور ادراک تھا کہ وہ اس کو تو سخت ناپسند کرتے تھے مگر وہ اس بات سے قطعی بے بہرہ تھے کہ اس کے بعد اس کے آگے کیا کیاجاناہے اور وہ کس نے اور کیسے کرناہے۔کوئی بھی ایسانہیں تھا جو متبادل کو سوچنے یا پیش کرنے کے قابل ہوتا۔ سماجی حوالے سے ایک بڑی نمایاں تبدیلی کیلئے حالات بالکل تیار اور موجودتھے۔آبادی کی بھاری اکثریت سرمایہ داری کی واپسی نہیں چاہتی تھی۔وہ سوشلزم کے متمنی تھے جو کہ جمہوری حقوق سے مزین ہوتا۔جس میں سٹاسی جیسی کسی سفاک ایجنسی کا کوئی شائبہ تک نہ ہوتا۔جس میں کوئی بدعنوان افسرشاہی کا تصور تک محال ہوتا۔اور جس میں ایک پارٹی کی مطلق العنانیت کی کوئی گنجائش نہ ہوتی۔اگر ایک حقیقی مارکسی قیادت موجودہوتی توایک سیاسی انقلاب عین ممکن ہوچکاتھا اورجووہاں ایک سچی مزدورجمہوریت قائم کرسکتاتھا۔ تاہم دیواربرلن کے انہدام نے کوئی انقلاب تو برپانہ کیا لیکن مغربی جرمنی کے ساتھ الحاق کی صورت میں ایک ردانقلاب ضرور سامنے آیا۔یہ کسی طور بھی مشرقی جرمنی کی عوامی تحریک کا مطالبہ نہیں تھا۔بلکہ یہ صاف طورپر تحریک کی قیادت کی سیاسی بے بصیرتی کا شاخسانہ تھا،جس کے نتیجے میں یہ معاملہ بتدریج سامنے آتاچلاگیااور حاوی ہوتاچلاگیا۔حکومت مخالف اپوزیشن قیادت کے پاس کوئی واضح پالیسی یا حکمت عملی نہیں تھی۔محض جمہوریت اور شہری حقوق کی ایک مبہم سی جستجو کے سوا کوئی تناظر نہیں تھا ۔فطرت کی طرح سیاست بھی خلا کو پسند نہیں کیاکرتی ہے۔چنانچہ مغرب میں موجود ایک طاقتور سرمایہ دار حکومت نے اس خلا کو پر کرنے میں کوئی دیر نہیں لگائی۔مغربی جرمنی کا چانسلر ہیلمٹ کوہل سامراج اورسرمایہ داری کا ایک موثر نمائندہ حکمران تھا ۔اس نے مشرقی جرمنی کے عوام کو اپنے ملک کے ساتھ الحاق کرنے کیلئے رشوت پیش کی کہ وہ ان کی کرنسی اوستمارک کو مغربی جرمنی کی کرنسی کے برابرادائیگی کرے گا۔ لیکن ایک بات کوہل نے مشرقی جرمنی کے لوگوں کو نہ بتائی نہ پیشکش کی کہ وہ انہیں مغربی جرمنی جیسا معیار زندگی بھی فراہم کرے گا۔ جولائی انیس سو نوئے میں دونوں جرمنیوں کے مابین بچی کھچی رکاوٹیں بھی دورکر دی گئیں ۔جب گورباچوف نے مشرقی جرمنی کو مغربی جرمنی کے ساتھ نیٹو میں شامل ہونے پر اپنا اعتراض واپس لیالیکن اس شرط کے ساتھ کہ جرمنی روس کو اس کے بدلے میں معاشی امداد فراہم کرے گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ سرمایہ داری ‘انسانیت کی خواری ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مشرقی جرمنی کے عوام اس فریب زدگی کا شکارہوچکے تھے ۔ان کو نہیں بتایاگیاتھا کہ منڈی کی آزاد معیشت کے تحت انہیں بیروزگاری کا بھی سامنا کرناپڑے گا،اور یہ کہ ان کی فیکٹریاں بند ہوجائیں گی،اور یوں بڑے پیمانے پر صنعت وحرفت تباہ وبرباد ہوجائے گی جو کہ مشرقی جرمنی کی ریڑھ کی ہڈی تھی۔انہیں یہ نہیں بتایا گیا کہ اشیا ء کی قیمتیں بڑھتی چلی جائیں گی ۔اور یہ بھی نہیں کہ ان کی اپنے ہی ملک میں حیثیت دوسرے درجے کے شہری کی سی ہو جائے گی۔یوں مغربی جرمنی کے ساتھ مشرقی جرمنی کا یہ الحاق اس کیلئے انتہائی تباہ کن ثابت ہوا۔ انیس سو نوئے میں اس میں پندرہ اعشاریہ چھ فیصد جبکہ انیس سو اکانویں میں بائیس اعشاریہ سات فیصدمعاشی گراوٹ آئی جو کہ ایک تہائی گراوٹ بنتی ہے۔لاکھوں روزگار نیست ونابودہوگئے۔مغربی سرمایہ داروں نے مشرق میں کئی کارخانے خریدے اور پھر بند کرتے چلے گئے۔ انیس سو بانویں سے اگلے چار سالوں تک مشرقی جرمنی نے بحالی کے چار سالوں کا تجربہ کیا لیکن وہ بھی جمود کی حالت میں رہا۔ دوسری عالمی جنگ سے پہلے مشرقی جرمنی میں فی کس آمدنی مغربی جرمنی سے قدرے زیادہ تھی۔اور ان دنوں میں مشرقی جرمنی مغرقی یورپ کے ہر دوسرے ملک سے کہیں زیادہ امیر ملک تھا ۔الحاق کے بیس سالوں کے بعد اب تک مشرقی جرمنی کا معیار زندگی مغربی جرمنی سے کہیں پیچھے ہے۔مغربی معیارات کے مطابق بیروزگاری کی شرح دوگنی ہو چکی ہے ،جبکہ اجرتیں بھی بہت کم ہوتی چلی جارہی ہیں ۔الحاق سے پہلے مشرقی جرمنی میں بیروزگاری کا عملاًنام ونشان تک نہیں ہوتا تھا۔ انیس سو اننانویں سے بانویں تک وہاں تین اعشاریہ تین ملین افراد بیروزگارہوچکے تھے ۔پہلے کی نسبت ، انیس سو اننانویں کے بعد سے مشرقی جرمنی کی مجموعی قومی آمدنی میں انتہائی معمولی اضافہ ہواہے۔ اب وہاں روزگارکی شرح،انیس سو اننانویں کے مقابلے میں، ساٹھ ہے۔ اس وقت ’’جرمنی‘‘ میں بیروزگاری کی شرح آٹھ فیصدہے جبکہ مشرقی حصے میں یہ بارہ اعشاریہ تین فیصد تک ہے۔البتہ کئی غیرسرکاری ذرائع کے مطابق یہ شرح بیس فیصد سے بھی زائد ہے۔نوجوانوں میں بیروزگاری کی اوسط تو پچاس فیصد سے بھی زیادہ ہوچکی ہے۔ خواتین جنہیں مشرقی یورپ کے دیگر ملکوں کی طرح مشرقی جرمنی میں برابرکی حیثیت حاصل تھی ،اس الحاق کے بعد سب سے زیادہ خسارے میں رہی ہیں ۔ انیس سو نوئے کی دہائی کے اعدادوشمار جو کہ جرمن سوشواکنامک پینل نے جاری کئے ہیں ، کے مطابق مشرقی حصے میں خواتین کی بیروزگاری کی شرح پندرہ فیصد ہے جبکہ مردحضرات میں یہ دس فیصد ہے۔ جولائی انیس سو نوئے میں ’’بابائے اتحاد‘‘ چانسلرکوہل نے وعدہ کیاتھا کہ ’’ہم جلد ہی باہم مل جل کر مشرقی جرمنی کے خطوں کو جنت ارضی کے لہلہاتے خطوں میں بدل کر رکھ دیں گے‘‘۔پندرہ سال کے بعد بی بی سی نے اپنی رپورٹ میں اعتراف کیا ہے کہ اعدادوشمار کسی تبدیلی کی غمازی نہیں کرتے۔اس کے باوجودکہ1.3ٹریلین یوروکی خطیر رقم بھی کام میں لائی گئی لیکن اس کے باوجود بھی مشرقی حصے میں بیروزگاری کی شرح انیس سو پچانویں میں آٹھارہ اعشاریہ چھ فیصد سے کم نہیں کی جاسکی۔(یہ موجودہ بحران سے پہلے کی بات ہے)جبکہ کئی ایک علاقوں میں توبیروزگاری کی یہ شرح پچیس فیصد تک بھی تھی۔ ساکسونی اینہالٹ کے علاقے ہیلے میں جو کبھی کیمیکل صنعت کا مرکزہواکرتاتھا اورجہاں تین لاکھ پندرہ ہزار لاکھ افراد رہائش پذیرہوا کرتے تھے،اب وہاں سے پانچ فیصد سے زیادہ آبادی علاقہ چھوڑ کے جاچکی ہے۔دیوار برلن کے گرنے سے پہلے اس علاقے کا صرف ایک یونٹ ایک لاکھ افرادکو روزگار فراہم کئے ہوئے تھا ۔ اب وہاں صرف دس ہزار روزگار باقی بچ گیاہے۔گیرا کا علاقہ جو پہلے ٹیکسٹائل اور دفاعی صنعت کا گڑھ اور کسی حد تک یورینیم کی کانوں کا حامل ہواکرتاتھا،وہ بھی اب زبوں حالی کی زد میں ہے اور ایسی ہی کیفیت دوسرے علاقوں ا ور شعبوں کی ہے۔ مغربی معیار کے مطابق انیس سو اکانویں میں مشرقی جرمنی کی فی کس آمدنی انچاس فیصدتھی جو کہ بڑھ کر انیس سو پچانویں میں چھیاسٹھ فیصد تک پہنچ گئی۔ تب سے لے کر اب تک صورتحال میں مزیدکوئی بہتری نہیں آپائی۔اور یوں ایک جمود کی کیفیت ہے۔معیشت تو پانچ اعشاریہ پانچ فیصدسالانہ کی شرح سے ترقی کر رہی ہے لیکن یہ ترقی ایسی ہے کہ کوئی روزگارنہیں پیداکررہی۔اس کیفیت کے نتیجے میں مشرقی جرمنی خالی اور کھوکھلا ہوتا چلا جا رہا ہے۔الحاق کے بعد سے اب تک لگ بھگ ایک اعشاریہ چار ملین افراد مشرق سے مغرب کی طرف نقل مکانی کر چکے ہیں ۔ جن میں سے زیادہ تر نوجوان اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔اس نقل مکانی اور معاشی ابتری کی بدولت مشرقی جرمنی کی آبادی الحاق کے بعد سے اب تک ہر سال کم ہوتی چلی جارہی ہے۔ یہ تاریخ کاایک بہت ہی بڑا المیہ ہے کہ الحاق کے بیس سالوں بعد بھی مشرقی جرمنی کے لوگ اپنا علاقہ چھوڑتے ہی چلے جارہے ہیں ۔لیکن یہ ہجرتیں کسی بدنام زمانہ سٹاسی کی بدولت نہیں بلکہ بھیانک و سفاک بیروزگاری کی وجہ سے ہورہی ہیں۔بلاشبہ کچھ لوگوں نے اس المیے سے بھرپور استفادہ بھی کیا ہے اور خوب قسمت سنواری ہے۔بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق’’بورژوازی کے قدیمی محلات جو کہ دوسری عالمی جنگ کے دوران اجڑ چکے اور عبرت کانشان بن چکے تھے ،اب دوبارہ پہلے سے زیادہ شان وشوکت کے ساتھ جلوہ افروزہوچکے ہیں ‘‘۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مارکسزم کی واپسی ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بیشتر دوسرے افراد کی طرح رالف وولف کا بھی یہی ماننا ہے کہ جب دیوار گری تواسے بہت خوشی ہوئی تھی کہ سوشلزم کی جگہ اب سرمایہ داری لے لے گی۔ لیکن یہ جوش وجذبہ زیادہ لمبا عرصہ برقرارنہیں رہ سکا۔ہمیں چندہی ہفتوں میں اندازہ ہوگیا کہ آزادمنڈی کی معیشت کے کیا کیا اور کیسے کیسے آزارہیں۔یہ تیز استحصال اور وحشی چھیناجھپٹی کے سواکچھ بھی نہیں ہے۔انسان ہونا تو گم ہی ہوگیاہے۔ہرچندہمارے پاس اتنی زیادہ سہولتیں نہیں تھیں لیکن کمیونزم پھر بھی کچھ نہ کچھ دیتارہا‘‘۔ (Reuters report)،، انچاس سالہ ہانس جوئرگن جو کہ ایک پراناٹرین ڈرائیور ہے،جنوری دو ہزار چار سے مسلسل بیروزگار چلا آرہاہے ۔تب سے اب تک وہ دو سو چھیاسی جگہوں پر کا م کیلئے درخواستیں دے چکاہے لیکن ابھی تک کام نہیں ملا۔ اس کا کہنا ہے کہ ’’منڈی کی معیشت ہمارا کوئی ایک مسئلہ بھی حل نہیں کر رہی۔بڑے کاروباروں کا صرف ایک ہی مقصد‘ ایک ہی ہدف‘ ایک ہی منشاہے اور وہ بڑے منافعوں کا حصول ہے اور بس ۔اور وہ بھی کسی’’ ذمہ داری کے احساس سے بیگانہ‘‘اور یہ صرف ہانس ہی کی کیفیت اور حالت نہیں ہے۔،، ڈئیر شپیگل،، کی ایک رائے شماری کے مطابق’’ تہتر فیصدمشرقی جرمن باشندے اس بات پر یقین کرتے ہیں کہ کارل مارکس کی سرمائے داری پر تنقید درست اور برحق ہے اور یہ آج بھی مستندو قابل عمل ہے‘‘۔اسی قسم کا رائے عامہ کاایک اور تجزیہ جریدےSuper Illus نے اپنی اکتوبر دو ہزار آٹھ کی اشاعت میں شائع کیاکہ’’ پچپن فیصد نے حکومت کی جانب سے بینکوں کو بیل آؤٹ پیکج دینے کو مسترد کیا ہے ۔ ترپین فیصدمشرقی جرمن باشندے منڈی کی معیشت کو بے فیض اور ناکارہ سمجھتے ہیں جبکہ ترتالیس فیصد کا یہ ماننا ہے کہ وہ سوشلسٹ طرز معیشت کو منڈی کی معیشت پر فوقیت دیں گے کیونکہ یہ چھوٹی آمدنی والے انسانوں کی چیخیں نہیں نکلواتی اور انہیں معاشی بحرانوں اور سماجی ناانصافیوں سے بچاتی ہے۔‘‘ آٹھارہ سے اناتیس سال تک کی عمر کے نوجوانوں( جو کہ کبھی بھی مشرقی جرمنی نہیں رہ سکے )کے اکاون فیصد نے کہا ہے کہ ہمیں سوشلزم چاہیے جبکہ تیس سے انچاس سال کی عمروں کے پنتیس فیصد نے بھی یہ بات کہی ہے۔جبکہ پچاس سالوں سے اوپر کے چھیالیس فیصد سوشلزم کی ضرورت کے حق میں ہیں۔یہ سبھی اعدادوشمار روزانہ شائع ہونے والے اخباروں اور جریدوں میں چھپنے والے عوامی تاثرات کی روشنی میں مصدقہ ہیں جو مشرقی جرمنی میں سے نکل رہے ہیں ۔مشرقی برلن میں کام کرنے والے ایک آئی ٹی ورکر تھامس پیوٹ نے لکھاہے کہ ’’آئے روز ہم سکولوں کالجوں میں سرمایہ داری کی وحشت ناکیوں بارے پڑھتے رہتے ہیں ۔اس نے اس کی بالکل درست وضاحت کی تھی،کارل مارکس نے صحیح اس کو سمجھا اور بیان کیاتھا‘‘۔کارل مارکس کی کتاب’’ سرمایہ‘‘اسے شائع کرنے والے ادارےKarl-Dietz-Verlagکی سب سے زیادہ فروخت ہونے والے کتاب بن چکی ہے ۔ صرف دو ہزار آٹھ میں اس کی پندرہ سو جلدیں خریدی گئیں ۔ انیس سو نوئے سے دو ہزار سات تک کے بعد اس کی فروخت میں تین گنا اضافہ ہوا ہے۔ ادارے کے مینیجنگ ڈائریکٹرجوئرن شوٹرمپ نے کہا کہ ’’ہرکوئی یہ کہہ اور سمجھ رہاتھا کہ اب مارکس کو کسی نے نہیں پڑھنا ،اور اب یہ حالت ہو چلی ہے کہ بینکوں کے مالکان اور مینیجرزبھی اسے خرید اور ذوق وشوق سے پڑھ رہے ہیں۔اوروہ یہ جاننے سمجھنے کے چکر میں کہ یہ جو کچھ ہورہاہے یہ کیوں اور کیسے ہورہاہے۔اس وقت مارکس کے علاوہ نہ کوئی سچ ہے نہ کوئی سچا‘‘۔ سرمایہ داری کے بحران نے ،مشرق ومغرب دونوں جرمنیوں کے باشندوں کی اکثریت کو یہ ادراک فراہم کردیا ہے کہ نظام ناکام ہوچکاہے ۔ایک چھہتر سالہ ریٹائرڈلوہار ہرمن ہیبل نے کہاہے کہ میں پہلے سوشلزم کو ایک بیہودگی سمجھتا تھا مگر اب پتہ چلاہے کہ یہ سرمایہ داری سے زیادہ بدترنہیں ہے۔ آزادمنڈی سوائے وحشت وبربریت کے کچھ بھی نہیں ہے۔ سرمایہ دار تو ہر وقت مزید مزید اور مزید کے پاگل پن میں ہیں ۔ دیوار کے گرنے سے پہلے میری زندگی دیوارگرنے کے بعد کی زندگی سے بہت بہتر ہواکرتی تھی ۔کسی کو روپے پیسے کی پرواہ ہی نہیں ہوتی تھی کیونکہ روپیہ پیسہ تو کوئی معنی ہی نہیں رکھتا تھا۔ آپ نہ بھی چاہتے ہوتے تب بھی آپ کیلئے ایک نہ ایک روزگار لازمی موجودرہتاتھا۔یہ کمیونسٹ نظریہ کسی طور بھی اتنا برا نہیں تھا‘‘۔ ایک چھیالیس سالہ خاتون کلرک مونیکاویبر نے کہا کہ ’’میں نہیں سمجھتی کہ سرمایہ داری کوئی موزوں نظام ہے ،اس میں دولت کی تقسیم انتہائی نامنصفانہ ہے ۔ہمیں اب یہ سب دیکھنے سمجھنے کا تجربہ ہورہاہے۔ہم جیسے مسکین کم آمدنی والے ملازمین کی کٹوتیاں کی جارہی ہیں اور وہ بھی ٹیکسوں کی شکل میں اور وہ بھی امیرترین بینکاروں کے خسارے پورے کرنے کیلئے ‘‘۔ اور سب سے زیادہ رائے عامہ کا پتہ ہمیں جرمنی میں ہونے والے حالیہ الیکشن نتائج سے ہوجاتا ہے۔جس میں ہم دیکھتے ہیں کہ لیفٹ پارٹی کوشاندار ووٹ دیئے گئے ہیں ،مشرق میں اسے کل ووٹوں کا تیس فیصد ملا ہے۔مشرقی جرمنی میں تو اب سرمایہ داری کی حمایتی پارٹیوں کیلئے زمین تنگ ہو چکی ہے ۔ یہ سب اس بات کی واضح غمازی کرتاہے کہ مشرقی جرمنی کے لوگ اب سرمایہ داری نہیں بلکہ سوشلزم کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔مگر سوشلزم کے بہروپ اپنائے ہوئے اس افسرشاہانہ مطلق العنانیت کا نہیں جسے وہ پہلے بھگت چکے ہیں بلکہ وہ ایک خالص جمہوری سوشلزم کی جستجو میں گرداں ہیں جو کہ مارکس‘ اینگلز ‘روزا لکسمبرگ اور لیبخنت کا سوشلزم تھا اور ہوگا۔ ،،(لند ن انیس اکتوبر دو ہزار نو)،،۔