برق گرتی ہے تو۔۔۔؟

اکثر کہا جاتا ہے کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے لیکن ضرورت اور ایجاد کا باہمی تعلق درحقیقت جدلیاتی ہے۔ کوئی ایجاد جب سماج کے اکثریتی حصے کی پہنچ میں آجائے تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ ضرورت بن جاتی ہے۔ بجلی کے حوالے سے بھی یہ بات بالکل درست ہے۔ بجلی انسانی زندگی کا ایک لازمی حصہ بن چکی ہے۔ پنجابی میں ایک بہت دلچسپ روایتی کہانی ہے۔ ایک غریب کسان رات کے اندھیرے میں گندم کی بوری چھت پر لیکر جارہا تھا۔ اس کے ساتھی نے ماچس جلائی تاکہ سیڑھیوں کو روشن کرسکے۔ کچھ لمحوں بعد ماچس بجھ گئی۔ اس کسان نے غصے سے کہا ’’تم نے تو مجھ سے میرا اندھیرا بھی چھین لیا ہے۔‘‘ جب ماچس بجھی تو اس کی آنکھیں، جو اندھیرے کا عادی ہوگئی تھیں ، وہ پہلے کی طرح اندھیرے میں دیکھنے سے قاصر تھیں۔ بجلی، لوڈ شیڈنگ اور پاکستانی عوام کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔

موسم گرما کے شدت پکڑتے ہی پورا ملک ایک بار پھر بد ترین لوڈ شیڈنگ کی لپیٹ میں آچکا ہے۔ ملک کے طول و عرض میں اس وقت 8 سے 22 گھنٹے تک کی لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے۔ پاکستان میں بجلی کا بحران خوفناک شکل اختیارکر چکا ہے۔

پچھلے پانچ سالوں میں کتنی ہی بار عوام کو یقین دہانی کروائی گئی کہ کچھ عرصے میں لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کر دیا جائے گالیکن متعدد بار ہونے والے پرتشدد عوامی احتجاجات کے باوجود صورتحال میں کوئی بہتری نہیں آ سکی۔ پیپلز پارٹی قیادت پانچ سالوں میں مسئلے کی اصل وجہ ہی معلوم نہیں کر پائی یا پھر دانستہ طور پر جاتے جاتے بھی عوام سے جھوٹ بولتی رہی۔ حالیہ انتخابات میں پیپلز پارٹی کی بد ترین شکست کی ایک اہم وجہ بجلی کا بحران حل کرنے میں پیپلز پارٹی حکومت کی مکمل ناکامی بھی ہے۔ پیپلز پارٹی حکومت میں ہونے والی کرپشن اور نا اہلی کی وجہ سے اگرچہ توانائی کے بحران نے شدت اختیار کی ہے لیکن کرپشن اور انتظامی نا اہلی اس مسئلہ کی بنیادی وجہ نہیں ہیں۔

دوسری طرف مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کی صورتحال بھی پیپلز پارٹی سے زیادہ مختلف دکھائی نہیں دیتی۔ مسلم لیگ (ن) نے اپنی انتخابی مہم میں توانائی کے بحران کو خاص طور پر استعمال کیا اور اس سلسلے میں کبھی چھ ماہ، کبھی دو سال اور کبھی تین سال میں لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے وعدے کئے گئے۔ لیکن جوں جوں اقتدار میں آنے کا وقت قریب آرہا ہے لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کی لفاظی بھی مبہم ہو کر ماند پڑتی جارہی ہے۔ 800 ارب کا سرکلر ڈیٹ اور لڑکھڑاتی معیشت، ن لیگ کی قیادت کو صورتحال کی سنگینی کا ادراک کروا رہی ہے!

اس سلسلے میں اگر نام نہاد ماہرین اور ’’تجزیہ نگاروں‘‘ کے تجزئے، رائے اور تجاویز کا جائزہ لیا جائے تو زمینی حقائق پر تھوڑی سی نظر رکھنے والا شخص صرف افسوس ہی کر سکتا ہے۔ عام آدمی کو یہ تاثر دیا جاتا رہا ہے لوڈ شیڈنگ دراصل بجلی پیدا کرنے کے ذرائع یا پیداواری صلاحیت میں کمی کا نتیجہ ہے اور نئے پراجیکٹس اس مسئلے کا حل ہیں۔ حقیقت اس کے بالکل بر عکس ہے۔ پاکستان میں اس وقت بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت 23000میگاواٹ سے بھی زیادہ ہے جبکہ بجلی کی زیادہ سے زیادہ طلب (موسم گرما میں جب پورے ملک میں ائیرکنڈیشنر، پنکھے اور کولر وغیرہ چل رہے ہوتے ہیں) 18000میگا واٹ سے کسی صورت زیادہ نہیں ہے۔ یعنی ابھی، اسی وقت لوڈ شیڈنگ کے مکمل خاتمے کے ساتھ ساتھ 5000 میگا واٹ ضرورت سے زائد بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ تو مسئلہ آخر ہے کہاں؟

مسئلہ انڈیپنڈنٹ اور رینٹل پاور پلانٹس کی مالکان وہ ملٹی نیشنل اور نجی اجاریہ داریاں ہیں جو پچھلی تقریباً دو دہائیوں سے پاکستانی عوام کو مہنگی بجلی فروخت کرکے کشید کئے گئے اربوں ڈالر کے منافع ملک سے باہر بھجوا چکے ہیں ا وریہ عمل نہایت بے دردی سے جاری ہے۔ یہ کمپنیاں پیداوار صلاحیت سے کم پیداوار کر کے بجلی کی مصنوعی قلت پیدا کرکے نرخوں میں اذیت ناک اضافہ کرکے ہوشربا منافعے کمارہی ہیں۔ دوسری طرف حکومت سے سبسڈائز ریٹ پر حاصل ہونے والے تیل کو بجلی پیدا کرنے کی بجائے مارکیٹ میں بیچ کر بھی منافع کمائے جا رہے ہیں۔ چند افراد کی ہوس، کروڑوں لوگوں کو ایک عذاب میں مبتلا کئے ہوئے ہے جبکہ ریاستی و حکومتی اہلکار کمیشن لے کر تماشا دیکھ رہے ہیں۔ کھربوں روپے کے منافعے کمانے والی یہ کمپنیاں کبھی بھی نہیں چاہیں گی کہ بجلی پیدا کرنے کے سستے طریقوں پر سرمایہ کاری کی جائے۔ یہ سامراجی ادارے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں ہائیڈرل پاور، شمسی توانائی یاہوا سے توانائی حاصل کرنے پر ہونی والی تحقیق یا ایسے کسی منصوبے کو دبانے کے لئے ہمیشہ سرگرم رہتے ہیں۔ اس سلسلے میں ریاستی عہدہ داروں کو خریدا اور زر خرید ماہرین کے ذریعے رائے عامہ کو تبدیل کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف ان کمپنیوں کی تجوریاں بھرنے کے بعد ریاست کے پاس اتنا سرمایہ ہی نہیں بچتا کہ ایسے کسی منصوبے پر غور کیا جا سکے۔ سرمایہ داروں اور فیکٹری مالکان کی اربوں روپے کی بجلی چوری صورتحال کو مزید بگاڑ رہی ہے۔

فرنس آئل سے بجلی کی پیداوار پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ملک کے لئے کسی صورت بھی موزوں نہیں ہے۔ بجلی پیدا کرنے کا یہ طریقہ کار ان ممالک میں زیر استعمال ہے جو تیل کی پیداوار میں خود کفیل ہیں۔ یا پھرتیل سے چلنے والے پاور پلانٹس کو دنیا کے مختلف ممالک ایمر جینسی بیک اپ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ ان کی مثال بالکل گھر میں رکھے برقی جرنیٹر جیسی ہے جسے ہنگامی صورتحال میں ہی استعمال میں لایا جاتا ہے۔ اب اگر کوئی شخص گرڈ سے آنے والی بجلی کا کنکشن کٹوا کر جرنیٹر پر انحصار کرنے لگے تو اس کی ذہنی حالت پر شک ہی کیا جا سکتا ہے۔ یہ پاور پلانٹس ماحولیاتی حوالے سے بھی انتہائی زہریلے ہیں۔ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں اس طریقہ کار کو بجلی پیدا کرنے کے طویل المدت اور قابل بھروسہ طریقہ کار کے طور پر اپنایا گیا جس کا خمیازہ آج کروڑوں لوگ بھگت رہے ہیں۔ وہ کھربوں روپے جو ان ملٹی نیشنل کمپنیوں کی لوٹ مار اور ریاستی عہدہ داروں کے کمیشنوں کی نظر ہوئے اگر سستی اور قابل تجدید توانائی (Renewable Energy) کے منصوبوں پر صرف ہوتے توآج نہ صرف ہر پاکستانی کو نہایت ہی سستی بجلی فراہم کی جاسکتی تھی بلکہ بجلی برآمد کر کے زرمبادلہ بھی کمایا جا سکتا تھا۔ بجلی پیدا کرنے کے سب سے سستے اور تیزترین طریقوں میں ایک ہواؤں کی تو انائی کا استعمال ہے۔ موجودہ ٹیکنالوجی کے ذریعے پاکستان میں 50000 میگا واٹ بجلی صرف اسی طریقے سے حاصل کی جاسکتی ہے۔ اتنی ہی بجلی نئے ڈیم بنا کر حاصل کی جاسکتی ہے۔ دریاؤں اور بہتی نہروں پر ٹربائین نصب کر کے بھی بجلی بنائی جاسکتی ہے۔ پاکستان دنیا کے ایسے ممالک میں شامل ہے جو شمسی توانائی کے حوالے سے موضوع ترین ہیں۔ جرمنی نے کچھ ہفتے پہلے شمسی توانائی سے 22000 میگا واٹ بجلی پیدا کر کے نیا عالمی ریکارڈ قائم کیا ہے۔ اسی طرح بلوچستان کے صرف 0.25فیصد رقبے پر سولر پینل نصب کر کے پورے ملک کی ضرورت سے زائد بجلی حاصل کی جاسکتی ہے۔ غرضیکہ ممکنات کی کمی نہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کی حدود اور منافع کی ہوس اگر راستے میں حائل نہ ہوں تو بجلی کا بحران سالوں یا مہینوں میں نہیں بلکہ چند گھنٹوں میں ختم ہو سکتا ہے۔ اگر تمام تر انڈی پینڈنٹ اور رینٹل پاور پلانٹس کو قومی ملکیت میں لے کر منافع کی بجائے عوام کی ضرورت کے تحت چلایا جائے چند گھنٹوں میں لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ممکن ہے۔

ابھی چندہ ماہ پیشتراسی قسم کا بجلی کا بحران لاطینی امریکہ کے ملک بولیویا کو لاحق تھا۔ وہاں کے صدرایوو مورالس جوسوشلزم کی ’’جدوجہد‘‘پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں نے ایسی سامراجی بجلی بنانے والی اجارہ داریوں کے منافعے 80 فیصدسے کم کروا کے 20 فیصدکر دئے۔ بعض کو مکمل سرکاری تحویل میں لے لیا۔ اس کے بعد نہ صرف بولیویا کے عوام کو لوڈشیڈنگ سے نجات مل گئی بلکہ بجلی کی قیمت آدھی سے بھی کم ہوگی۔ یہاں پاکستان میں بڑے بڑے سیاست دان اور انقلاب کے نعرے مار کر انقلاب سے ڈرانے والے حکمرانوں میں اتنی جرات،حوصلہ اور ہمت ہے کہ مورالس جیسے انقلابی اقدام کرسکیں؟

سرمایہ داری کسی قسم کی شعوری اور اجتماعی منصوبہ بندی سے عاری ، منڈی کی کی افراتفری پر مبنی ایک نظام ہے۔ منافع پر مبنی مہنگی بجلی کے منصوبے ترک کرکے سستی توانائی کے منصوبوں پر عمل درآمد کرنے کے لئے جس دوررس اور ٹھوس منصوبہ بندی کی ضرورت ہے اس کی گنجائش اس نظام میں سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ تمام تر حاوی سیاسی جماعتیں سرمایہ دارانہ نظام معیشت کو حتمی و آخری سمجھتی ہیں۔ کوئی بھی سیاسی جماعت ملٹی نیشنل کمپنیوں پر ضرب لگاتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام کی حدود سے تجاوز کرنے کی جرات نہیں ہے۔

لوڈ شیڈنگ کا عذاب عوام کو گھائل کئے ہوئے ہے۔ عوام کی اکثریت نفسیاتی مریض بن چکی ہے۔ صنعتیں بند ہو رہی ہیں، لوگ بیروزگار ہورہے ہیں۔ بزرگ اور بچے گرمی سے بلک رہے ہیں۔ مجموعی قومی پیدوار گر رہی ہے۔ اس طرح کروڑوں کام کرنے کے گھنٹے ہر روز ضائع ہو رہے ہیں۔ ان حالات میں معاشی نمو بھلا کیسے ممکن ہے؟ سرکاری اعدادوشمار کے برعکس معیشت درحقیقت پچھلے پانچ سالوں میں سکڑرہی ہے اور مزید تنزلی کا شکار ہوگی۔ موجودہ نظام میں ان اذیتوں سے چھٹکارہ پاناممکن نہیں۔ تمام خوش فہمیاں آنے والے دنوں میں دم توڑ دیں گی۔ اس اذیت ناک مسئلے کاحل بھی صرف ایسے انقلاب کے ذریعے ممکن ہے جو نفع پر مبنی منڈی کی معیشت کے نظام کو اس کی غلاظتوں اور لعنتوں سمیت اکھاڑ کرمنصوبہ بند معیشت کو رائج کرے۔ یہ فریضہ پاکستان کے محنت کش عوام ہی سرانجام دیں گے۔

Source: برق گرتی ہے تو۔۔۔؟