یورپ میں ہڑتالیں اور احتجاجی مظاہرے

Urdu translation of European Day of Action: Protests and strikes all over Europe (September 30, 2010)

تحریر: ایلن وڈز ۔ ترجمہ :اسدپتافی

چنگاری ڈاٹ کام،01.11.2010

یورپ میں ان دنوں محنت کش طبقہ ہر طرف متحرک ہو کر احتجاج پر نکلا ہواہے۔لاکھوں لوگ سڑکوں پر آآکے مظاہرے اور ہڑتالیں شروع کئے ہوئے ہیں۔اس سلسلے میں خاص طورپر بلجیم ،یونان اور سپین میں ٹریڈ یونینیں ،ریاستی اور حکومتی مزدور دشمن اصلاحات کے خلاف برسرپیکار ہو چکی ہیں کہ جن کے نفاذ کے بعد یورپ کے محنت کش طبقے کا روزگار اور ان کی زندگیاں داؤ پر لگا ئی جا رہی ہیں۔یہ مظاہرے37ملکوں میں منظم اور متحرک کیے گئے جن میں پرتگال، آئرلینڈ،سلوانیہ اور لٹویا بھی شامل ہیں ۔برسلز میں ایک لاکھ محنت کشوں نے مظاہرہ کیا جو کہ 27ملکوں سے اس عالمگیر مظاہرے میں شرکت کیلئے پہنچے تھے۔ ان مظاہرین نے اپنی اپنی یونین کی نمائندگی کرنے والی سرخ ، سبزاور نیلے رنگوں کی چمکدار جیکٹیں زیب تن کی ہوئی تھیں اوروہ یورپی یونین کے دفاترکی طرف مارچ کررہے تھے ۔اس مارچ کا مقصدپچھلے آٹھ سال کے دوران ہونے والی سپین کی ہڑتال کوخراج پیش کرنااور اس کے ساتھ یکجہتی کا اظہارکرنا تھا۔

سپین میں ہڑتال

ٹریڈیونینوں کا کہنا ہے کہ سپین میں ان کی طرف سے ہڑتال کی کال کے مطالبے پر، ایک کروڑ لوگ ہڑتال میں شامل ہوئے ۔سپین کی دو مرکزی یونینوں کے مطابق اس ہرتال میں ملازمین کی 70فیصدسے زیادہ تعداد نے شمولیت کی اور حکومت کو ایک واضح پیغام دیا کہ محنت کش طبقہ اپنے خلاف ہر حملے کا دفاع کرنے اور اس کاجواب دینے کیلئے صف بنداورسربکف ہوچکاہے۔حکومت نے اس ہڑتال کو روکنے اور اس میں کم سے کم تعداد میں لوگوں کی شرکت کو ممکن بنانے کیلئے ہر ممکن ہتھکنڈے اور حربے بروئے کار لانے کی کوشش کی۔ملک سے جانے اور ملک میں آنے والی پروازوں کو روکا گیا۔بسوں اور ٹرینوں کو بھی خراب کرنے اور رکھنے کی کوشش کی گئی۔اس حکومتی بدمعاشی اور بیہودگی نے مزدوروں اور ملازموں کو مشتعل کردیا اور کئی مقاما ت پر ان کا غصہ بھڑک اٹھا۔گٹافے اور بارسلونا میں ہڑتالی ،حکومتی جبر کے اداروں سے الجھے بھی اور ایک پولیس کار کو نذر آتش بھی کرڈالا۔سپین کے لیبر منسٹرسیلسٹوکورباچو نے ہڑتال میں شریک ہونے والوں کی مکمل تعداد بتانے سے انکار کردیا اورکہا کہ صرف سات فیصد سول ملازمین اور بیس فیصد ٹرانسپورٹ ملازمین نے اس ہڑتال میں شرکت کی۔لیکن اس نے یہ ضرور اعتراف کیا کہ اس ہڑتال کے دوران توانائی کے استعمال کی شرح میں سولہ فیصدکمی واقع ہوئی۔اس نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ جیسے لوگ ہڑتال پر نہیں بلکہ ویک اینڈ منانے کیلئے نکلے ہوئے ہیں ۔مگر بعدازاں جلد ہی اس کی یہ دروغ گوئی عیاں ہوکر سامنے آگئی۔ آئر لینڈ میں مشتعل مظاہرے آئرلینڈ میں مظاہرین لینسٹر ہاؤس کے گرد اکٹھے ہوئے۔ مقامی میڈیا کے مطابق لگ بھگ بیس گروپوں پر مشتمل مظاہرین کٹوتیوں کے قوانین اور بینکوں کو دی جانے والی بھاری مراعات کے خلاف احتجاج کیلئے نکلے ہوئے تھے۔ان گروپوں میں آئرش کانگریس آف ٹریڈ یونینز،چلڈرن مینٹل ہیلتھ کولیشن ،دی آئرش نیشنل آرگنائزیشن فار ان ایمپلائمنٹ، People Before Profit،Pateints Together،SIPTUاورAriel Spraying Protest Groupشامل تھے۔اسی طرح سینٹ سٹیفن سٹریٹ کے نزدیک واقع اینگلو آئرش بینک کے باہر بھی ایک بڑا مظاہرہ کیاگیا۔ڈبلن میں صبح سے پہلے ہی ایک نامعلوم فرد نے بینکوں کو بیل آؤٹ پیکج دیے جانے کے خلاف ،آئرش پارلیمنٹ کے مرکزی دروازوں کو سیمنٹ مکسچر ڈال کر بند کردیا۔اس نے ایک ٹرک بھی مرکزی دروازے کے باہر کھڑاکردیاتھا جس پر سرخ رنگ میں جلی حروف سے ’’زہر یلا اینگلو بینک‘‘ کے نعرے لکھے ہوئے تھے۔اس ٹرک کو ہٹانے کی کوششیں کافی دیر تک ناکام رہیں کیونکہ اسے کھڑا کرنے والے نے اس کے نظام کو منجمد کردیاتھا اور وہ ہلنے جلنے کے قابل نہیں رہاتھا۔پولیس نے اس سلسلے میں ایک شخص کو حراست میں لے لیا ۔

یونان کی یونینوں کی پیش قدمی یونان کے اندر بھی یونینز آف سول سرونٹس اور پرائیویٹ سیکٹر کے ملازمین نے ’’یورپی یوم احتجاج‘‘ بھرپور طریقے سے منظم ہوکر منایا۔اس موقع پر مظاہرین نے پاسوک پارٹی کی محنت کش دشمن کٹوتیوں کے خلاف شدید احتجاج کیا۔اس دن پبلک سیکٹر میں کام مفلوج ہو کے رہ گیا۔پبلک ٹرانسپورٹ،ہسپتال اور دیگر یوٹیلیٹی کے اداروں کے ملازمین نے واک آؤٹ کرتے ہوئے جنرل کنفیڈریشن آف گریک ورکرزGSEEاور سول سرونٹس کنفیڈریشن ADEDYکی کال پر ہونے والے مظاہروں میں شرکت کی۔یہ مظاہرے ایتھنز میں یونانی پارلیمنٹ اور یورپی یونین کے دفاتر کے سامنے منظم کئے گئے ۔اس دن بسوں اور ٹرینوں کے ملازمین کی کام چھوڑ ہڑتال اور مظاہروں میں شرکت کی وجہ سے سماجی زندگی ٹھہر کے رہ گئی۔ اس موقع پربندرگاہ کے ملازمین نے بھی کئی گھنٹوں تک اپنا کام روک کر یوم احتجاج میں اپنا حصہ ڈالا۔جبکہ ڈاکٹروں اور نرسوں کی یونینوں کی جانب سے کی گئی ہڑتال کی وجہ سے چوبیس گھنٹے تک پبلک ہسپتالوں میں کام ٹھپ رہا۔ تنخواہوں ، اجرتوں میں کٹوتیوں ،ٹیکسوں میں اضافوں اور دیگر غیر مقبول سٹرکچرل ریفارمز کے خلاف محنت کش طبقے میں غم وغصہ بڑھتا چلا جارہاہے ۔یہ سبھی اصلاحات یورپی یونین اور آئی ایم ایف کی ہدایت پر کی جارہی ہیں۔اس سال مئی میں یونان نے 110بلین یورویعنی149.43ملین ڈالرز کا قرضہ حاصل کیاہے اور یہ امدادی قرضہ اس شرط پر فراہم کیاگیاہے کہ یونان کو تین سالوں میں ’’استحکام اور ترقی‘‘کے مجوزہ نام نہاد منصوبے پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے گا۔تاکہ 2009ء کے آخر میں جی ڈی پی کے13فیصد تک پہنچ جانے والے بجٹ خسارے پر قابوپایاجاسکے۔مگر یہ ساری مدد، جس پروگرام اور جن شرائط کے تحت دی گئی، وہ شدید کٹوتیوں پر مبنی ہے۔ کٹوتیوں کے اس پروگرا م کے خلاف پچھلے کئی مہینوں سے سارے یونان میں ہڑتالوں اور مظاہروں کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوچکاہے ۔محنت کشوں کی یونینیں حکومت کی اس پالیسی کے خلاف سرگرم عمل ہوچکی ہیں۔حکومت اور قرض دینے والوں نے جس معاہدے پر دستخط کردیے ہوئے ہیں ،اس کے خلاف ملازمین،بے روزگار اور پنشنرز سبھی احتجاج پر اترے ہوئے ہیں۔GSEEنے اپنے ایک بیان میں اعلان کیاہے کہ ان کا یہ احتجاج جاری رہے گا۔ADEDYکی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے ’’یونان کے شہری اس سال حکومت کی طرف سے اجرتوں میں وحشیانہ کٹوتیوں کی زد میں آئے ہوئے ہیں۔ جس سے ان کے روزگاراور پنشنوں کے حقوق بری طرح پامال ہورہے ہیں۔اس کی وجہ سے سماجی نابرابری سمیت بے روزگاری اور آمدنیوں میں کمی میں شدید اضافہ ہو گا۔ٹیکسوں میں اضافے سے معیشت کی کمر ہی ٹوٹ جائے گی جو پہلے ہی بہت زبوں حال ہو چکی ہے۔روزانہ کئی افراد غربت کی زد میں آتے چلے جارہے ہیں‘‘۔ یورپ بھر میں منایا جانے والا یہ کامیاب یوم احتجاج‘ یورپی محنت کش طبقے کی جانب سے ان کی زندگیوں پر ہونے والے سرمایہ دارانہ حملوں کے خلاف طبقاتی جنگ کا بگل ہے۔ سرمایہ داری اور اس کی سبھی پالیسیاں محض اور محض منافعوں اور شرح منافعوں کے گرد بنتی اورنافذ کی جاتی ہیں ۔اور ان کا عام لوگوں کی فلاح وبہبود سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ہواکرتا۔ سرمایہ دار طبقے نے دنیا بھر میں محنت کش طبقے کے خلاف اپنی طبقاتی جنگ چھیڑ دی ہے۔اب یہ محنت کش طبقوں کی منظم قوتوں پر فریضہ عائد ہوچکاہے کہ وہ ان بدمعاش سرمایہ داروں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور ان کے حملوں کو ناکام بنائیں۔ 29ستمبر کے اس یوم احتجاج کا یہ پیغام سب پر واضح ہونا چاہئے کہ’’ہم اکثریت ہیں اور تم اقلیت ہو‘‘۔ایک متحد ہوچکا،منظم ہوچکااور متحرک ہوچکا محنت کش طبقہ، جس دن اور جہاں آگے بڑھے گا ،دنیا کی کوئی طاقت اس کے سامنے نہیں ٹھہر سکے گی۔

Translation: Chingaree.com