مصر میں - جمعہ برائے راست اقدام

Urdu translation of Egypt’s “Correct the Path” Friday (September 13, 2011)

برائن ایڈمز ۔ ترجمہ: اسد پتافی

چنگاری ڈاٹ کام،22.09.2011

حسنی مبارک کے تخت کا تختہ اکھاڑپھینکنے کے سات ماہ بعد بھی مصر کا انقلاب ابھی اپنے حتمی مرحلے سے بہت دور کھڑا ہے ۔پرانا حکومتی دھڑا اور ڈھانچہ ابھی تک قائم و دائم ہے اور عوام بڑی حد تک یہ محسوس کرنا شروع کر چکے ہیں کہ طاقت ان کی انگلیوں سے پھسلتی ہی چلی جارہی ہے ۔

سب کچھ تبدیل ہو کے رہ گیا ہے لیکن کچھ بھی نہیں بدلا جاسکا ۔لیکن پھر نیچے سے محنت کش طبقے اور نوجوان نسل کی جانب سے سامنے آنے والی ہڑتالوں اور مظاہروں سے یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ ان کے اندر کا غم وغصہ مرا نہیں اور وہ اب بھی اپنا اظہار کرنے کی جستجواورجرات رکھتاہے ۔ہمارے یہاں برطانیہ کا سرمایہ دارمیڈیا بہر حال اپنے تئیں بھرپور کوشش کررہاہے کہ وہ ان ہڑتالوں اور مظاہروں کی بجائے اسرائیلی سفارتخانے پر حملوں کو زیادہ وقعت اور اہمیت دے ۔یہ لوگ جان بوجھ کر کوشش کر رہے ہیں کہ مصر اور اسرائیل دونوں ملکوں میں جاری و ساری انقلابی تحریک کو نظرانداز کیاجائے جبکہ مصر میں اسرائیل کے جلتے پرچموں کو زوروشور سے بیان کیا جارہاہے ۔

نیویارک ٹائمز اس واقعے کو قاہرہ اسرائیل کے محاصرے میں کے حوالے سے بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ یہ ایک سفارتی بحران ہے جو عرب خطے میں جاری بے چینی اور سرکشی اب خطے کو ایک نئی کیفیت میں مبتلاکر رہی ہے ۔اس مضمون میں آگے یہ بتایا گیا ہے کہ کیسے اسرائیل کے جیٹ طیارے ہفتے کی صبح قاہرہ کی حدود میں داخل ہوگئے اور پھر کیسے وہ اسرائیلی سفارتخانے میں سے اپنے محصور ہوچکے سفارتکاروں کو نکال کر لے گئے ۔جنہیں ہزاروں مشتعل مظاہرین نے گھیراہواتھا۔

اسی ہی مضمون میں جریدے نے واقعے کا 1979ء میں ایران میں ہونے والے واقعے سے جوڑتے ہوئے بیان کیاہے کہ ’’یہ منظر اسرائیلی ایرانیوں کی یاد تازہ کرتا ہے کہ جب اسرائیل نے ایران سے اپنا سفارتخانہ خالی کردیاتھا کیونکہ انقلاب نے ایک دوست کو ایک دشمن میں تبدیل کر دیاتھا‘‘۔’’مصر ،جمہوریت کی جانب نہیں بلکہ اسلامائزیشن کی طرف رخ کر رہاہے ۔

مصرمیں اسرائیل کے ایک سابق سفیر ایلی شاکڈنے سرکاری نمائندگی کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ سب ویسے ہی ہورہاہے جیسا کہ ترکی اور غزہ میں ہوااور جیسا کہ1979ء میں ایران میں ہواتھا‘‘۔یہاں جو تاثر دیا جارہاہے وہ صاف اور عیاں ہے ۔ایک بار پھر سرمایہ دار میڈیا اور اس کے سیاستدان بھرپور کوششیں کرنے میں مصروف ہو گئے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح عرب انقلاب کی لہر کے ارد گرد جنونیت کا شورشرابہ پیدا کر سکیں۔سرمایہ دار طبقے کے نمائندہ و گماشتہ شروع سے ہی ایران کے انقلاب کو عرب علاقے میں اٹھنے والی ہر تحریک کو سبوتاژ کرنے بدنام کرنے اور اس سے لوگوں کو ڈرانے دھمکانے کی کوشش کرتے چلے آرہے ہیں۔تب سے کہ جب سے آیت اللہ جیسے لوگوں نے سیاسی خلاء کو پر کرتے ہوئے ایرانی انقلاب کو ہائی جیک کر لیاتھا،اور پھر انہوں نے انقلاب کو حقیقی معنوں میں نہ صرف کچلا بھی بلکہ اسے رد انقلاب میں بھی بدل کے رکھ دیاتھا ۔

اب بھی حکمران طبقات کا یہی پروگرام اور پیغام ہے کہ ’’یہ سوچنا بھی نہیں کہ ہمیں عرب ملکوں میں رہنے والوں کو کوئی آزادی دینی ہے ۔اگرایسا کیاگیاتو اسلامی بنیاد پرست اقتدار پر قبضہ کرلیں گے اور وہ اسرائیل کو نیست ونابود کر کے رکھ دیں گے۔اور یہ صرف اسرائیل ہی تو ہے جوکہ اس خطے میں جمہوریت کا واحد مرکز ومنبع ہے اس وقت ہمیں ایک ایسے لیڈر کی اشد ضرورت ہے کہ جو استحکام کو قائم کر سکے ‘ ‘۔

اس قسم کا بیہودہ شورشراباقطعی طورپر بے بنیاد ہے۔عرب ملکوں کے انقلابی ابھاروں خاص طور پر مصر کے انقلاب کے دوران ،اخوان المسلمون جیسی ردانقلابی رجعتی تنظیمیں کسی طور اہم نمایاں نہیں رہیں ۔بلکہ سچ تو یہ ہے کہ یہ تحریک کے دوران تحریک سے الگ تھلگ ہی رہیں۔(پچھلے جمعہ کے دن ایک بار پھر یہی ہوا کہ جب اخوان نے عوامی مظاہروں کی مخالفت کی )۔مصری انقلاب کی نمایاں خاصیت ہی یہی تھی کہ کسی پیشوائیت کی کوئی چھاپ اور چاپ اس پر نہیں تھی بلکہ اس میں مسلمان ،عیسائی سمیت سب شامل و شریک رہے ۔

مظاہروں کی نوعیت بلاشبہ قاہرہ میں اسرائیلی سفارتخانے پر حملے کو اسرائیلی ریاست بھی اپنے مذموم مقاصد کیلئے بھرپورا استعمال کرے گی کیونکہ اس قسم کے واقعات کو اپنی جارحیت زدگی کیلئے بروئے کار لانے کیلئے ترس رہی ہوتی ہے۔صرف اسرائیلی ریاست ہی نہیں بلکہ مصر کی حکمران فوجی کونسل بھی اس موقع کو غنیمت جانے گی جس نے اس بہانے دہائیوں سے رائج ایمرجنسی قوانین کو دوبارہ سے مسلط کرنے کا اعلان کردیا ہے اور جسے استعمال میں لاتے ہوئے یہ مظاہروں ،احتجاجوں سے بچنے کیلئے ماورائے عدالت نظربندیوں سمیت کئی کالے اقدامات کر سکے گی ۔لیکن پھر سفارتخانے پر حملے کے واقعے کو ایک جواز بناکر اور اس کے اردگرد بیہودہ شورشرابے کا اہتمام کرکے کوشش یہی کی جارہی ہے کہ مصر میں دراصل جو کچھ ہورہاہے اس پر سے توجہ ہٹائی جاسکے ۔

9ستمبر جمعہ کے دن ہونے والے واقعات کو اس سارے ہفتے کے دوران ہونے والی بلکہ تیز ہوجانے والی طبقاتی جدوجہد کے تسلسل میں ہی دیکھا اور سمجھاجاسکتاہے۔یوم عمل(Day of Action) کے موقع پرجب قاہرہ سمیت مصر بھر میں ہڑتالوں کی لہر ابھر رہی تھی اور جن میں محنت کش طبقے کے اہم حصے اور شعبے شریک ہورہے تھے ۔اس کی ایک مثال ہم11ستمبر کو دیکھتے ہیں کہ جب قاہرہ کی امریکن یونیورسٹی کے طالبعلموں اور ورکروں نے مشترکہ ہڑتال کی ۔طالب علم فیسوں میں کمی کی جدوجہد کر رہے تھے ،اس دوران بس ڈرائیوروں ،کنڈکٹروں اور سیکورٹی سٹاف کے ورکروں نے بھی اپنی اجرتوں میں اضافے اور اوقات کار میں کمی کیلئے ہڑتال کر دی۔اس کے ساتھ ساتھ ہی پبلک اور پرائیویٹ شعبوں کے کئی دیگر اداروں میں بھی ایسی ہی ہڑتالیں اور ہڑتالوں کے اعلانات سامنے آتے رہے ۔کیونکہ ٹریڈ یونینوں کی قیادتیں وزیر اعظم ایسام شرف اور فوجی کونسل کی جانب سے کئے گئے سبھی ناکام و کھوکھلے وعدوں اور اعلانات سے تنگ اور عاجز آچکی تھیں ۔پبلک سیکٹر میں پوسٹل ورکرز پچھلے دوہفتوں سے ہڑتال پر ہیں اور اپنی اجرتوں میں سالانہ سات فیصد اضافے کا مطالبہ کررہے ہیں تاکہ وہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کا مقابلہ کر سکیں ۔اس کے ساتھ ہی ڈاک کے یہ ورکر ان سبھی بدعنوان افسروں سے بھی جان چھڑانے کا مطالبہ کیے ہوئے ہیں کہ جو مبارک کے دور سے ان پر براجمان چلے آرہے ہیں ۔اسی قسم کے اجرتوں میں اضافے اور بدعنوان افسروں کوہٹانے کے مطالبات کیلئے ڈاکٹروں ،ٹیچروں اور یونیورسٹی اساتذہ نے بھی ستمبر کے آخرمیں ہڑتالوں کی دھمکی دی ہے ۔اہرام آن لائن کے مطابق ’’اس مہینے کے وسط تک ٹیچرز اور یونیورسٹی پروفیسرز بھی اپنی اجرتوں میں اضافے ،حالات کار اور اپنی کام کی جگہوں پر جمہوریت جیسے مسائل پر ہڑتال کرنے کی تیاریوں میں سرگرم ہو چکے ہیں۔پبلک سیکٹر کے ورکروں کی جانب سے ہونے والی حالیہ بے شمار ہڑتالیں یہ ثابت کررہی ہیں کہ اب ورکروں کا شرف حکومت کے معاملے میں صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکاہے ۔جس نے اس سال مارچ میں حکومت سنبھالتے ہی بہت سے خوش کن وعدے کئے تھے کہ وہ معیار زندگی میں اضافے کیلئے ہر ممکن کوشش کرے گا لیکن اب تک کوئی ایک بھی عمل سامنے نہیں آسکا۔شرف حکومت اور اس کی کابینہ پبلک سیکٹر کے افسران بالا کو دی جانے والی بھاری مراعات کی واپسی کا بھی کوئی بندوبست نہیں کر سکی جس کا پبلک سیکٹر کے ورکرز شروع دن سے مطالبہ کر رہے تھے ۔ورکروں کے زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے الٹا ،شرف حکومت نے مبارک دور کے سبھی افسرو ں کے ساتھ مشفقانہ رویہ اختیار کیاہواہے ۔

سات ماہ گزر جانے کے بعد بھی اپنے اداروں میں آنے والے ورکروں کو ہر روز انہی مطلق العنان افسروں کے منہ لگنا پڑتاہے کہ جن کے خلاف انہوں نے تحریک بپاکی تھی ‘‘۔

نجی شعبے میں انجینئروں نے بھی ہڑتال کی دھمکی دی ہے ۔مہالہ میں واقع ملک کی سب سے بڑی ٹیکسٹائل ملزجو کہ پچھلے چار پانچ سالوں کے دوران مصر میں ہر مزدورتحریک میں نمایاں کرداراداکرتی آرہی ہے ،نے اجرتوں اور مراعات کیلئے دس ستمبر سے غیر معینہ ہڑتال کا اعلان کیاہے ۔

تبدیلی کا سست رو عمل اسرائیل کے سفارتخانے پر حملے کا واقعہ اتنی بڑی بریکنگ نیوز نہیں تھی بلکہ اصل واقعہ التحریر سکوائر میں لاکھوں افراد کا وہ اجتماعی مظاہرہ تھا جس میں مبارک کے جانے کے بعد تبدیلی کے عمل کی سست روی کے خلاف احتجاج کیاگیا۔مصر کے نوجوان اور محنت کش ملٹری کونسل حکومت کی جانب سے کسی بھی قسم کے سیاسی اور معاشی بدلاؤنہ لائے جانے پر سخت اضطراب اور غم وغصے کی کیفیت میں ہیں۔مصری نوجوانوں کی سوشلسٹ یونینUESYکی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں جو کہ جمعے کے مظاہروں کے موقع پرجاری کیاگیا ،مصر میں عوامی جذبات کی نشاندہی کی گئی ہے ۔

’’حسنی مبارک کے اقتدار کے خاتمے کے سات ماہ بعد بھی کہ جب انقلاب کے پہلے ریلے نے اپنی پہلی کامیابی حاصل کی تھی ،اب تک یہ انقلاب اپنی منزل کو حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ابھی تک جو نتیجہ ملاہے وہ ان دوستوں اور ساتھیوں کی شہادت ہے کہ جو اس عمل کے دوران اپنی جانیں قربان کر بیٹھے ۔اس عرصے میں ردانقلابی قوتیں اپنے آپ کو بڑی حد تک مجتمع اور منظم کرنے میں مصروف ہوچکی ہیں ۔جن میں اسلامی تنظیمیں اور فوج بھی شامل ہے ۔

وہ یہ اعلانات کررہی ہیں کہ انقلاب ختم ہو چکاہے ۔لیکن انقلابی قوتوں نے ابھی حوصلے نہیں ہارے اور انقلاب اپنے ہدف کو حاصل کیے بغیر چین سے نہیں بیٹھے گا ۔نظام وہی کا وہی اور ویسے کا ویسا ہی ہے جیسا کہ یہ حسنی مبارک کے دور میں تھا ۔یہ طرز حکمرانی ابھی تک سرمایہ دار طبقات ہی کے مفادات کیلئے سرگرم عمل ہے ۔جو کہ ہم غریبوں کا خون چوس چوس کر ہی اپنا دھندہ چمکاتے آرہے ہیں۔لاکھوں ڈالر چوری کرکے امیروں کی جیبوں اور کھاتوں میں ڈالے جارہے ہیں۔غریبوں کی حمایت کا دم بھرنے والی یہ حکومت کم ازکم اجرتوں میں اضافے ،تنخواہوں میں بڑھوتری اور پر کشش پنشنوں کے مطالبات سے مسلسل پیچھے ہٹتی جارہی ہے ۔اس کے علاوہ اس نے کئی احتجاج کرنے والوں کے خلاف ملٹری ٹرائل بھی شروع کردیے ہیں۔ہم نوجوانوں کی سوشلسٹ یونین ،بجا طورپر یہ سمجھتے اورقرار دیتے ہیں کہ موجودہ حکومت درحقیقت مبارک حکومت کاہی تسلسل ہے ۔

ہم چاہتے ہیں کہ انقلاب کے نعرے اور عمل کو مزید وسعت دی جائے اور اسے موجودہ حکومت کو اکھاڑنے کے نعرے سے وابستہ کیاجائے ۔جس سے ہمارا یہ یقین اور عزم مزید پختہ ہوجائے گا کہ ہم اس گلے سڑے نظام سے مکمل نجات چاہتے ہیں ۔اور اس کی سبھی معاشی اور سیاسی علامات کو یکسر ختم کرنا چاہتے ہیں ۔ہم یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ ہم کسی طور انقلاب کو ادھورا چھوڑنے کے قائل نہیں ہیں۔ہم مصر کے غریبوں کو ان کے سیاسی‘ سماجی اور معاشی حقوق کی جدوجہد میں اکیلا نہیں چھوڑیں گے ۔موجودہ ’’حقوق‘‘ کسی طور بھی دولت کی مساویانہ تقسیم کی ضمانت دیتے ہیں اور نہ ہی یہ سماجی یا سیاسی شکلوں میں حقیقی جمہوریت کی گارنٹی دیتے ہیں۔ہم ایسے کسی انقلاب کو قبول نہیں کرتے ،نہ کریں گے کہ جولوگوں کے آئین کی حفاظت نہ کرتا ہو،جو نوجوانوں کو روزگار نہ مہیا کرتا ہو،اور نہ ہی آزادانہ انصاف کرتاہو۔ہم کسی ایسے انتخابی قانون کو تسلیم نہیں کرتے جو انقلاب کو مضمحل کرتا اور غیر ملک رہنے والے مصریوں کو ووٹ کے حق سے محروم رکھتاہو۔ہم اپنے انقلاب کو اس کے منطقی انجام تک جاری رکھیں گے جب تک کہ یہ اپنے اہداف حاصل نہیں کرلیتا‘‘۔ یہ الفاظ مصر کے ورکروں اور نوجوانوں کے مطالبات اور جذبات کی حقیقی ترجمانی کرتے ہیں ۔ ہمیشہ کی طرح سے یہاں بھی المیہ ،انقلابی قیادت کی غیر موجودگی کا ہے جو آگے کا راستہ دکھاتے ہوئے ایک متبادل فراہم کرسکے ۔یوتھ سوشلسٹ یونین ایک مثبت کردار اداکر رہی ہے لیکن اس وقت وہ کوئی بڑی قوت نہیں ہیں اور ان کے وسائل بھی محدود ہیں۔اسی دوران 25جنوری تحریک کی خود ساختہ قیادت ’’کولیشن آف ریولوشنری یوتھ‘‘جس میں اخوان کی یوتھ کے کچھ حصے اور اقوام متحدہ کے نمائندے البرادی کے حمایت یافتہ لوگ شامل ہیں ،نے جو پروگرام پیش کیاہے اس میں کسی قسم کا سیاسی و معاشی مطالبہ سرے سے ہے ہی نہیں ۔اور جیسا کہ ہم پہلے بھی ذکر کر چکے کہ اخوان المسلمون نے خود کو تحریک سے الگ رکھاہے اور ابھی تازہ انقلابی لہرکی بھی اس نے مخالفت کی ہے ۔

اسرائیلی سفارتخانے پر ہونے والا احتجاج جونہی التحریر سکوائرمیں سے مظاہرین واپس جانا شروع ہوئے تو ان میں سے کئی ایک قاہرہ کے مضافات میں واقع گیزا کے علاقے کی طرف چل پڑے۔جہاں اسرائیل کا سفارتخانہ واقع ہے ۔اگست میں اسرائیل کی طرف سے مصر کے چھ گارڈز کے قتل کے بعد اسرائیل کے خلاف شدید نفرت بڑھتی جارہی تھی اور حالیہ دنوں میں سفارتخانے کے باہر جمع ہو کر لوگ احتجاج بھی کر رہے تھے ۔حالیہ مذکورہ واقعے کے وقت وہاں پانچ ہزار کے قریب افراد تھے جن میں ورکرز،نوجوان اور فٹبال کلبوں کے لوگ شامل تھے ۔لوگ پہلے تو حفاظتی دیوارپر چڑھ دوڑے اور پھر اسے توڑ ڈالا۔سینکڑوں اندر گھس گئے اوراوپر چھت پر جا کر اسرائیل کا پرچم اتارنے لگے ،یہ حالیہ دنوں میں دوسری بار ہورہاتھاکہ لوگوں نے پرچم اتارپھینکا۔اس بار البتہ پہلی بار مصرکی سنٹرل سیکورٹی فورسز نے لوگوں پرآنسو گیس کے شیل برسانے شروع کر دیے ،جن پر ’’میڈ ان یو ایس اے‘‘کھداہوا تھا۔کچھ احتجاجی دستاویزات والے دفتر میں پہنچ کر وہاں سے کاغذات باہر لائے اور لوگوں کو دکھانا شروع کر دیا۔

ایک عینی شاہد نے مصر کی آن لائن انگلش نیوزسروس اہرام آن لائن کو کاغذوں کے کچھ مندرجات سے آگاہ کیا ، جن میں درج تھا ’’ کچھ کاغذات ہمارے ہاتھ لگے ،بہت سے لوگ ان کی چھانٹی میں لگ گئے کیونکہ ان میں سے کچھ عربی کچھ عبرانی اور کچھ انگلش میں تھے ۔ان میں مصر کی کئی پبلک اور پرائیویٹ ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیوں کے اسرائیل کے ساتھ معاہدے شامل تھے ۔میں نے وہ کاغذ بھی دیکھے کہ جن میں مصری اتھارٹی کے کئی لوگوں کے اسرائیل کے ساتھ کاروباری سانجھ کے معاہدے ہوئے ہوئے تھے ۔ان میں کسٹمز والوں سے لے کر سیاحت کے حکام تک شامل ہیں ۔یہ کہ کیسے اسرائیل سے سیاحوں کو مصر لایا جاناہے وغیرہ وغیرہ۔ان کاغذات میں سے کئی 1990ء اور 1980ء کی دہائی کے بھی تھے جو کہ ان پر ٹائپ شدہ تھے ۔

انقلابیوں نے جو اندر تھے مسلسل ایک گھنٹے تک ہر لمحہ ہماری طرف دستاویزات کے بنڈل پھینکتے رہے ۔ٹی وی چینلز ان سب لوگوں سے انٹرویو کرتے رہے جن کے ہاتھوں میں دستاویزات تھیں اور جن سے عیاں ہورہاتھا کہ کس طرح اور کس قدر اسرائیلی سفارتخانہ مصر کے سیاسی اور معاشی شعبوں میں مداخلت کئے ہوئے تھا‘‘۔ یہاں ہم واضح طورپر دیکھ اور سمجھ سکتے ہیں کہ کیونکر مصری عوام میں اسرائیلی حکومت کے خلاف نفرت شدیدسے شدید تر ہوتی جارہی ہے ۔ہم بھی دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح اسرائیلی مفادات اور ان کے کارندے مصر ی سماج کی ہر سرگرمی میں اپنے کل پرزے پھیلائے ہوئے ہیں ۔اس حوالے سے مصری نوجوانوں اور ورکروں کا اس طرح کااظہار درحقیقت صیہونیت اور سامراجی اسرائیلی ریاست کے خلاف صحتمندانہ اپوزیشن کی عکاسی کرتاہے جو کہ مصر، لبنان ،فلسطین سمیت مشرق وسطیٰ میں عسکری و معاشی مداخلتیں جاری رکھے ہوئے ہے ۔

جمعہ برائے راست اقدام اسرائیلی سفارتخانے پر ہونے والے پچھلے ہفتے کے واقعات کو مصر میں ہونے والے واقعات کے تسلسل میں دیکھاجانا چاہئے ۔جو کہ مبارک کے جانے کے بعد یہاں رونما ہورہے ہیں ۔یہ کوئی اتفاق یا حادثہ نہیں تھا کہ پچھلے جمعے کے دن کو راست اقدام کیلئے دن کے طورپرمنانے کا اعلان کیاگیاتھا۔مصر میں عوام کے اندر یہ احساس شدت کوپہنچاہواہے کہ حسنی مبارک تو چلا گیا ہے لیکن اس کی حاکمیت ابھی تک جاری اورمسلط ہے ۔بیشتر اہم عہدوں پر وہی لوگ ہی فائزوبراجمان ہیں جو مبارک کے دور میں بھی تھے ۔پچھلے جمعے کو سارے مصر میں وسیع پیمانے پر احتجاجی مظاہرے ہوئے جس کا مرکزی اظہار پھر التحریر سکوائرمیں ہوا۔امریکن یونیورسٹی میں سے پانچ سو طلبہ نے اپنے مارچ سے اس دن کا آغازکیا۔مظاہرین فوجی کونسل ،احتجاج کرنے والوں کے خلاف ملٹری ٹرائل کے خلاف نعرے بازی کر رہے تھے جبکہ سب سے زیادہ نعرے اجرتوں میں اضافے کیلئے لگائے گئے ۔فٹبال سپورٹرز کلب بھی اس عمل میں شریک ہونا شروع ہوگئے ۔زمالیک فٹبال کلب کے ارکان ، حیران کن طور پر اپنے روایتی مدمقابل آہلے کلب والوں کے ساتھ یکجہتی کرتے ہوئے ان کے ساتھ مل کرمظاہرین میں شامل ہوئے ۔ فٹبال میچوں میں گائے جانے والے روایتی گیتوں کو فوجی کونسل اور پولیس کے خلاف احتجاجی نعروں میں بدل دیاگیا۔ان نعروں میں تبدیلی ،آزادی اور سماجی انصاف کے نعرے بھی نمایاں تھے ۔ایک اور نمایاں نعرہ جوکہ جوش و جذبے سے لگایا جاتا رہا کہ ہمارا انقلاب کہاں ہے ؟جب مظاہرین سعودی سفارتخانے سے گزرے تو انہوں نے نعرے لگائے کہ مبارک اور سعودی ایک ہی ہیں۔فٹبال سپورٹران نے وزارت داخلہ کے باہر بیٹھ کر دھرنا بھی دیا اور وہاں نعرے لگاتے رہے’’۔۔۔ کے بیٹو!ہم ابھی التحریرکو نہیں بھولے‘‘۔ سکندریہ شہر میں مظاہرین ملٹری کونسل کے ہاتھوں میں اقتدار کے ارتکاز کے خلاف سخت نعرے بازی کرتے رہے ۔وہ عوام کے قاتلوں کا کڑا احتساب کے نعرے بھی لگاتے رہے ۔انقلاب کی سست روی کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے یہ بھی نعرے بلند کیے کہ سب ویسے کا ویسے ہی ہے ‘اب تک کچھ نہیں بدلا۔اسی طرح کے مظاہرے سویز کے علاقے میں بھی ہوئے ۔

اس دن کی چھوٹی مگر غیر معمولی بات عبدالحکیم عبدالناصر،جو کہ جمال عبدالناصر کا سب سے چھوٹا بیٹاہے ،کی التحریر سکوائر میں آمد اورتقریر تھی۔اس وقت جب مظاہرین ناصر کے حق میں بلند آوازسے نعرے لگارہے تھے ۔اس سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ مصر کے لوگ اب بھی ناصرکو نہیں بھولے ۔اور وہ1950/60ء کی دہائی میں سامراج کے خلاف اپنی جدوجہد کیلئے آج بھی لوگوں کیلئے جدوجہد کا ایک استعارہ سمجھا جاتاہے ۔

مصر کے نوجوانوں اور ورکروں کا حقیقی دشمن کون ؟

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ مصر کے اندر انقلاب دشمن قوتیں ،صیہونیت مخالفت اور نسل پرستی کے جذبات کو ہر ممکن بھڑکانے کی کو شش کریں گی تاکہ خطے میں اٹھنے والی طبقاتی شعور کی حالیہ کیفیت کو گھائل اور زائل کیا جاسکے ۔ان میں سرمایہ دار،فوجی حکمران اور اسلامی بنیاد پرست سبھی شامل ہوں گے ۔اور جو بھرپور کوشش کریں گے کہ مصراور اسرائیل کے عام لوگوں میں طبقاتی یکجہتی کی فضاکو پیدا اور پختہ نہ ہونے دیاجائے ۔اس حوالے سے اسرائیلی اور مصری حکومتیں دونوں ایک دوسرے کی دشمنی اپنا چکی ہیں اور ایک دوسرے پر حملے کرکے یا کروا کے دونوں ملکوں کے ورکروں کے استحصال کا جواز برقرار رکھنے میں لگی ہوئی ہیں۔

عین ممکن ہے کہ بعض عربوں اور یہودیوں کے اندرایک دوسرے کے خلاف نسل پرستانہ تعصبات موجود ہوں۔لیکن اس کا جواب ہمیں اسرائیل میں ہونے والے تازہ واقعات سے مل جاتا ہے۔پانچ لاکھ اسرائیلیوں کا سماجی برابری کیلئے سڑکوں پر نکلنا ایک انتہائی غیر معمولی عمل تھا درحقیقت عرب انقلاب ہی سے متاثراوراسی کا نتیجہ اور تسلسل ہے۔خاص طورپر اسرائیل کایہ انقلابی ابھار مصری انقلاب سے ہی متاثر ہے تل ابیب میں قائم ہونے والا خیموں کا شہر مصری انقلاب سے ہی سیکھا گیا عمل ہے ۔

یہاں تک کہ ان کے نعروں کے الفاظ و معانی بھی ایک جیسے ہی ہیں ۔یہ سب دیکھ چکے ہیں کہ اسرائیلی ابھار میں عرب اور یہودی دونوں شامل تھے اور ان کے نعروں اور بینروں کی زبان بھی عربی و عبرانی دونوں پر مشتمل ہے۔ اور پھر دونوں تحریکوں میں ورکرز اور نوجوان شامل ہوئے جو کہ اپنے اپنے حکمرانوں کی تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسیوں کو مسترد کر رہے اور طبقاتی بنیادوں پر جڑت اور اتحاد کا اعلان کر رہے ہیں۔

مصری نوجوانوں اور ورکروں کے دشمن اسرائیل کے نوجوان اور ورکر نہیں ہیں بلکہ اسرائیل کے صیہونی حکمران طبقات اور مصر کے حکمران طبقات دونوں ان کے اصلی دشمن ہیں ان کے ساتھ ہی سعودی عرب کے انتہائی مراعات یافتہ حکمران بھی۔اسی دن ہی قاہرہ میں سعودی سفارتخانے پر بھی حملے کی کوشش کی گئی ۔لیکن پولیس مظاہرین کو روکنے میں کامیاب رہی ۔اس وقوعے کو میڈیا نے دبانے کی پوری کوشش بھی کی ۔یہ مصر اور اسرائیل دونوں طرف کے حکمران طبقات کے حق میں ہے کہ نسل اور قوم کی بنیادوں پر تقسیم کو نہ صرف گہرا بلکہ مضبوط تر کیاجائے جبکہ دونوں طرف کے نوجوانوں اور ورکروں کا مفاد اسی میں ہے کہ ایسی ہر تقسیم اور سرحدکو پاش پاش کردیاجائے اور دونوں طرف اپنے اپنے غاصب حکمرانوں اور مالکوں کے خلاف طبقاتی جدوجہدکو آگے بڑھایا جائے ۔مصر کے نوجوانوں اور ورکروں کو درپیش سبھی مسائل کا حل اور جواب خود ان کی اپنی پوشیدہ قوت میں موجود ہیکہ یہ جب بھی جیسے ہی منظم ہوئے ایک ناقابل شکست طاقت بن کے سامنے آئے ۔ اپنی ان جدوجہدوں سے ہی مصر کے لوگ اپنی طاقت کے حوالے سے لازمی اور قیمتی اسباق بھی سیکھ رہے ہیں ۔اس طاقت کا ادراک کہ سماج کو چلانے کی طاقت ہی انہی کے مفاد میں ہی ہے ۔عسکری اور سرمایہ دارحکمرانوں کی طاقت ان کے کسی کام کی نہیں ہے۔اور جیسا کہ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ کوئی ایک بلب بھی نہیں روشن نہیں ہوسکتا،کوئی ایک پہیہ بھی نہیں گھوم سکتا اور کوئی ایک گھنٹی بھی نہیں بج سکتی ہوتی جب تک کہ ورکنگ کلاس نہ چاہے۔

Translation: Chinagree.com