مصر۔ انقلاب کے نئے مرحلے کا آغاز

Urdu translation of Egypt –Revolution moving into a new phase and Egypt – masses rise against the army generals

حمید علی زادہ‘ برائن ایڈمز

۔ ترجمہ: فرہاد کیانی

چنگاری ڈاٹ کام،28.11.2011

مصر کی گلیوں میں انقلاب اور رد انقلاب میں معرکہ جاری ہے۔ قاہرہ کا تحریر چوک ایک مرتبہ پھر سے انقلاب کا مرکز بن چکا ہے۔ہفتے کے اختتام پرفوجی اقتدار کے خاتمے کا مطالبہ کرنے والے مظاہرین اور پولیس میں جھڑپیں ہوئیں ۔ ردِانقلاب کے چابک کے نتیجے میں لاکھوں انقلابی اس چوک میں صف آرا ہو رہے ہیں جہاں انقلاب کے پہلے مراحل رونما ہوئے تھے۔

وزارت صحت کے مطابق اتوار اور سوموار کو مرنے والوں کی تعداد 11سے بڑھ کر 20ہو چکی ہے اور اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ ملک کے طول و عرض میں ہزاروں افراد شدید زخمی ہوئے ہیں جنہیں ربڑ میں لپٹی دھاتی گولیوں اور انتہائی شدید قسم کی آنسو گیس کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ فروری میں صدر حسنی مبارک کے جانے کے بعدسے اب تک کا یہ سب سے بڑا مسلسل مظاہرہ ہے۔ کئی سیاسی گروپوں اور رجحانات سے تعلق رکھنے والے کارکنان نے جمعہ کے روز سے چوک پر قبضہ کر رکھا ہے۔ان کا مطالبہ ہے کہ مسلح افواج کی سپریم کونسل(ایس سی اے ایف) فوجی اقتدار کے خاتمے کی حتمی تاریخ کا اعلان کرے۔ایس سی اے ایف نے اگلے ہفتے پارلیمانی انتخابات کا اعلان کیا ہے لیکن یہ واضح ہے کہ سپریم کونسل کی جانب سے متعارف کرائی جانے والی آئینی اصلاحات کی وجہ سے ان انتخابات میں بننے والی پارلیمان محض فوجی اقتدارکی ستر پوشی کا کام کرے گی۔

ہفتے کے اختتام پر سخت اور خون ریز مقابلے کے بعد ہزاروں مظاہرین نے لاٹھیوں او ر برقی جھٹکے دینے والے آلات سے لیس ملٹری پولیس اور فوجیوں اور ان کے پیچھے صف آر ا مسلسل آنسو گیس کے فائر کرتے سینٹرل سکیورٹی فورس کے دستوں کو پیچھے دھکیل کر چوک پر قبضہ کر لیا۔ مرکزی قاہرہ کی گلیاں بھاگتے ہوئے مظاہرین سے بھری پڑی تھیں جو جلتے ہوئے درختوں اور زہریلی گیس کے دھوئیں میں اپنا راستہ بناتے جا رہے تھے۔

مظاہرین کی اکثریت تمام سیاسی تنظیموں کے کارکنان پر مشتمل تھی۔ایک بڑی تعداد اپنی قیادت کے احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے وہاں موجود تھی۔ اخوان المسلمین کے ایک نوجوان نے فنانشل ٹائمز کو بتایا ’’ابھی تک اخوان نے شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، لیکن انفرادی طور پر میں یہاں آنا ضروری سمجھتا ہوں کیونکہ میری نظر میں ہمیں انقلاب کا دفاع کرنا ہے اور اسے جاری رکھنا ہے۔ اس وقت یہ ہمارا فرض بنتا ہے، نہ کہ اےئر کنڈیشنڈ ہالوں میں کرسیاں لگانا‘‘۔ ایک اور شخص نے ایک اخبار کو بتایا کہ’’ہم ایک زخمی کو لے کر بھاگ رہے تھے کہ پیچھے سے گولی چلی اور ایک شخص گر گیا، ہم میں سے ایک اس کی مدد کو گیا تو اسے بھی گولی مار دی گئی۔ میں اپنی نوکری پر واپس جا رہا تھا لیکن اب میں یہاں ہی رکوں گا ، تا کہ ان کا خون رائیگاں نہ جائے۔‘‘ روزنامہ گارڈین کے جیک شینکر کے مطابق’’ تحریر چوک میں مسلح افواج کی سپریم کونسل کے سربراہ فیلڈ مارشل طنطاوی پر مقدمے اور سزائے موت کا مطالبہ کیا جا رہا ہے اور ملین مارچ کی بات ہو رہی ہے۔ عبوری کابینہ کا وزیرِ ثقافت ابو غازی مستعفی ہو چکاہے اور تحریک کئی نئے شہروں میں پھیل گئی ہے جن میں دیماط، دریائے نیل کے ڈیلٹا کے شہر دمنہور اور بالائی مصر میں قنا شامل ہیں۔ اپنی ساکھ بچانے کی خاطر وہ سیاسی لیڈر بھی مجبوراً تحریر چوک میں آرہے ہیں جو انقلابیوں سے دور تھے۔ خون خرابے میں کوئی کمی نہیں آ رہی اور ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور سکیورٹی فورسز کے پیچھے ہٹنے کے کوئی آثار نہیں ہیں۔ جھڑپوں میں مارے جانے کے پیش نظر کچھ مظاہرین نے اپنی بانہوں پر والدین کا نام پتہ لکھنا شروع کر دیا ہے اور تحریر چوک میں ایک عارضی مردہ خانہ بھی بنایا گیا ہے جس کے باہر لکھا ہے کہ ان کے پاس کفن ختم ہو چکے ہیں‘‘۔

ایس سی اے ایف کی بے نقابی مصر کے عوام نے جب تاریخ کے میدان میں ابتدائی قدم رکھے توان کے پاس حسنی مبارک کے جانے بعد کا کوئی واضح لائحہ عمل نہیں تھا۔ اقتدار گلیوں میں تھا لیکن نام نہاد لیڈر اس پر قبضہ کرنے سے کتراتے رہے ۔ انہوں نے اپنے مطالبات کو مبارک کے استعفے تک محدود رکھا اور ریاست یا معیشت کے متعلق سوال نہیں اٹھایا جس پر ابھی تک پرانا حکمران ٹولہ مسلط ہے۔

چناچہ اقتدار مسلح افواج کی سپریم کونسل کے ہاتھ آ گیا جو تحریک کے لیڈروں اور امریکی سامراج کی حمایت سے مصر میں سرمایہ داری کو مکمل تباہی سے بچانے کی خاطر آئے۔مصری فوج کا تاریخی کردار اور ’’حزب اختلاف‘‘ کی تمام قوتوں کی حمایت کی وجہ سے ایس سی اے ایف کو عوام کی نظروں میں کسی حد تک قبولیت حاصل ہوئی۔ لیکن تجربات سکھاتے ہیں اور یہ غلط فہمیاں تیزی سے ختم ہو رہی ہیں۔

اپنی جان پر کھیل کر آمر کے خلاف جدوجہد کرنے والوں کے لیے حسنی مبارک کے بعد کا دور ملا جلا تجربہ رہا ہے۔ سابق صدر اور اس کے قریبی ساتھی قید اور مقدمات میں ہیں لیکن فوجی حکومت اتنی ہی جابر ہے۔ مارچ میں ہڑتالوں اور مظاہروں پر پابندی کا قانون لاگو کیا گیا اور اب بھی 1200 سے زائد سیاسی قیدی جیلوں میں بندہیں۔ جنوری سے لیکر اب تک فوجی قیادت کا کردار، جو خود معیشت کے بڑے حصو ں کی مالک ہے، تحریک کو پٹڑی سے اتارنے کی کوششوں کا رہا ہے جس کا مقصد مصر میں سرمایہ داری اور واشنگٹن میں بیٹھے آقاؤں کے مفادات کا تحفظ ہے۔

محنت کشوں اور غریبوں کو انقلاب نے ایک شکتی دی ہے اور وہ سمجھ رہے ہیں کہ محض مبارک کے جانے سے ان کے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔وہ روزگار، بہتر اجرتوں، بہتر معیارِ زندگی اور بہت سے مقامات پر پرانی حکومت سے جڑے افراد کی جائداد کی ضبطگی کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔ستمبر میں سارے ملک میں ہڑتالوں کا سلسلہ شروع ہوا جس میں لاکھوں محنت کش شریک ہوئے۔ مثلاً اندو راما شیبن القوم ٹیکسٹائل کمپنی کے 700 محنت کشوں نے ہڑتال کی اور منافیہ صوبے کے صدر مقام پر قبضہ کر لیا، ان کا مطالبہ 2007ء میں کی جانے والی نجکاری کی واپسی اور بہتر حالاتِ کار اور اجرتوں کا تھا۔ فتوحات کے ساتھ محنت کشوں کو مزاحمت کا بھی سامنا ہے مثلاً طنطا سن اور تیل کمپنی کے محنت کشوں نے 13نومبر کو کمپنی کو قومی تحویل میں لینے کے عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کے لیے قبضہ کر لیا۔ مصر کے سب سے بڑے صنعتی مرکز محلہ میں ٹیکسٹائل کارخانوں کے سامنے ٹینک تعینات کیے گئے ہیں۔ ’جمہوریت‘ کی جانب سفر

انقلاب کے بنیادی مطالبات میں سے ایک آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد تھا ۔ لیکن صاف نظر آ رہا تھا کہ مسلح افواج کی سپریم کونسل اپنے اقتدار کو داؤ پر نہیں لگائے گی۔ انتخابی قوانین واضح طور پر ان تنظیموں کے حق میں ہیں جو پہلے سے مضبوط ڈھانچہ رکھتی ہیں۔اس کا مطلب ان گروپوں کے لیے فائدہ ہے جنہیں پرانی حکومت نے کھڑا کیا تھا یا پھر اخوان کے لیے جو حسنی مبارک کے دور میں نیم قانونی حیثیت میں وفادار حزب اختلاف تھی۔

سپریم کونسل نے ایک دستاویز جاری کی ہے جس میں فوج کو ماورائے آئین اختیارات اور اس کے اندرونی معاملات اور بجٹ کو سولین کنٹرول سے باہر رکھنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ ان وجوہات کی بنا پر بائیں بازو کی کئی جماعتوں نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا ہے جن میں کمیونسٹ پارٹی بھی شامل ہے۔ اخوان المسلمین انتخابات میں اکثریت سے جیت جائے گی۔ اس کی وجہ عوام کی اکثریت میں ان کی مقبولیت نہیں بلکہ یہ حقیقت ہے کہ مصر میں وہ واحد منظم سیاسی قوت ہیں اور انہیں بڑے پیمانے پر فنڈ مل رہے ہیں ( قطر کی حکومت کی جانب سے فنڈ ملنے کی بھی اطلاعات ہیں)۔

یہ شروع سے واضح تھا کہ جو بھی انتخابات جیتے گا اسے ایس سی اے ایف کے اشاروں پر ناچنا پڑے گا اور اخوان اور اس کے انتخابی اتحادی فوجی آمریت کے لیے ربڑ سٹیمپ کا کام کریں گے۔ عوام کے دباؤ کے تحت اخوان کو جمعہ کے روز ہونے والے مظاہروں کی حمایت کرنا پڑی اور فوجی حکومت کے خاتمے کی تاریخ کا مطالبہ کرنا پڑا۔ اخوان کے لیڈر انقلاب کو زائل کرنا چاہتے ہیں لیکن انقلاب کی اپنی حرکت ہوتی ہے اور مظاہرے کسی کی بھی توقع سے بڑھ گئے ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ اقتدار کا فیصلہ بیلٹ باکس سے نہیں بلکہ سڑکوں پر ہو گا ۔ملین مارچ کی کال دی جا چکی ہے اور سویز میں ایک کارخانے میں غیر معینہ مدت کی ہڑتال شروع ہو چکی ہے۔ مسلح افواج کی سپریم کونسل کے دن تھوڑے رہ گئے ہیں اور اخوان کے لیڈران حالات کے بے قابو ہونے سے خوفزدہ ہیں۔

ہم کس مرحلے پر ہیں؟

عرب انقلاب کا ہراول انقلابِ مصر تاریخِ عالم کا ایک اہم موڑ ہے جس نے عوامی تحریک کے ذریعے دنیا کی بڑی جابرآمریتوں کو گرادیا جن کے گرنے کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاتا تھا۔اس سے نہ صرف عرب بلکہ ساری دنیا میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا ہے اور محکوم عوام رنگ، نسل، ثقافت اور قوم سے بالا تر ہو کر مصری حکمران طبقے اور اس کے سامراجی آقاؤں کے خلاف متحد ہو گئے ہیں۔ اس نے تہذیبوں کے تصادم کے نظریے اور این جی اوز کی پیٹی بورژوا اصلاح پسندی کو خاک میں ملا دیا ہے۔ لیکن ایک طرف جہاں بہت کچھ بدلا ہے وہیں معروضی طور پر بنیادی تبدیلی نہیں آئی، پرانا ریاستی ڈھانچہ موجود اور معیشت پر بھی وہی لوگ قابض ہیں۔ بائیں بازو کی تنظیمیں چھوٹی اور غیر اہم ہیں جبکہ اسلامی، لبرل اور قدامت پرست پارٹیاں بڑی ہیں ۔بہت سے بورژوا ’’ماہرین‘‘ اور حتیٰ کہ ’’لیفٹ‘‘ کے کچھ لوگ بھی اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ انقلاب کو شکست ہو چکی ہے، جس سے ان کی محنت کشوں کی تحریک کے قوانین کے متعلق جہالت کا اندازہ ہوتا ہے۔ انقلاب سیدھی لکیر میں چلنے والا عمل نہیں ہوتا۔ حقیقی انقلابی قیادت کی عدم موجودگی میں تحریک کو کئی موڑ اور راستوں، مشکل تجربات اور غلطیوں سے گزر کر سیکھنا ہو گا۔

چناچہ آنے والے دنوں میں بہت سے رجحانات اور پارٹیوں کا عروج و زوال ہو گا۔ ایس سی اے ایف کے دن تھوڑے ہیں لیکن اس کے بعد کون آئے گا؟لبرل محمد البرادی جو عوام کی قربانیوں کا پھل کھانے کا ہمیشہ منتظر ہوتا ہے، نے خود کو پیش کیا ہے لیکن وہ خود اس انقلاب میں بری طرح بے نقاب ہوا ہے اور اس کا اقتدار سپریم کونسل سے بھی کم مدت کا ہو گا۔ اخوان حکومت میں آنے کے لیے پر تول رہے ہیں لیکن یہ بھی زیادہ مستحکم نہیں ہو گا۔ باشعور پرتیں ان کی حقیقت کو جان چکی ہیں، مثلاً ان کے ایک امیدوار محمد البلتاجی کو تحریر چوک سے نکال دیا گیا۔تاہم اخوان کو عوام کی غیر فعال پرتوں کی حمایت حاصل ہے لیکن اس کا مطلب مصر میں رد انقلاب کی فتح نہیں ہے۔ انقلابی عمل کے دوران جو بھی اقتدار میں آئے اسے عوام کے فوری مطالبات کا سامنا کرنا پڑے گا جو حقیقی جمہوریت کا فقدان، کم اجرتیں ، غربت اور بے روزگاری ہیں۔انقلابِ مصر کی بنیادی وجہ سرمایہ دارانہ نظام ہے جو عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کرنے سے قاصر ہے اور کوئی بھی سیاسی پارٹی سرمایہ دارانہ نظام کو چیلنج نہیں کر رہی بلکہ اس کا دفاع کر رہی ہیں اور اس وجہ سے وہ عوام کے مسائل کا حل پیش کرنے میں ناکام رہیں گی اور کسی نہ کسی مرحلے پر جا کر عوام کے خلاف کھڑی ہوں گی۔

دوسری جانب محنت کش اور نوجوان 2011ء کے موسم بہار کی فتوحات کی وجہ سے بہت پر اعتماد ہیں ۔وہ اقتدار میں آنے والی ہر پارٹی کا امتحان لیں گے۔ شروع میں وہ انہیں وقت دے کر آزما سکتے ہیں لیکن بالاخر یہ پارٹیاں ناکام ثابت ہوں گی۔ اس لیے حقیقی انقلابی متبادل کا موجودہ فقدان انقلاب کے اختتا م نہیں بلکہ ایک نئے ابھار کو جنم دے رہا ہے اور عوام کو اہم اسباق سکھا رہا ہے۔

تمام کارخانوں میں اور محلوں میں ایکشن کمیٹیاں بنا کر مارچ اور بڑی عام ہڑتال کی تیاری کرنا ہو گی۔ فوجی حکومت کو گرانے کے لیے تمام قوتوں کو مجتمع کرنا ہو گا۔ مصری عوام کے لیے سبق ہے کہ : صرف خود پر اور اپنی طاقت پر بھروسہ کرو۔ انقلاب کو عوام نے ہی آگے بڑھایا ہے اور صرف وہ ہی اسے حتمی فتح سے ہمکنار کر سکتے ہیں۔ فوجی جرنیلوں کیخلاف عوامی بغاوت مصر کے عوام انقلاب کی حتمی فتح کا عزم کیے ہوئے ہیں۔ انقلاب اور رد انقلاب کی لڑائی میں سیاسی قوتوں کے عام ممبران انقلاب کی جانب گامزن ہیں جبکہ قیادتیں عوام کو روکنے کی کوشش میں ڈگمگا رہی ہیں۔الحرم آن لائن کے مطابق 22نومبر کو ’’ملین مارچ‘‘ کی کال پر تحریر چوک میں دس لاکھ افراد اور اسکندریہ میں ایک لاکھ کا مظاہرہ ہوا۔ سویز، پورٹ سعید، الغربیہ، الفیوم،دیماط اور المنیا میں بھی ہزاروں افراد کے مظاہرے ہوئے۔ ریاستی جبر کے آگے یہ تعداد اور بھی متاثر کن ہو جاتی ہے۔ سکیورٹی فورسز کی بربریت کے نتیجے میں بیسیوں مظاہرین قتل اور ہزاروں زخمی ہو چکے ہیں۔ قنا میں اپارٹمنٹ بلاکوں میں آنسو گیس کی فائرنگ سے ایک نو ماہ کی بچی جاں بحق ہو گئی۔ ہسپتالوں اور حتیٰ کہ مساجد پر بھی آنسو گیس سے حملہ کیا گیا ہے۔ لیکن اس بربریت سے ڈرنے کی بجائے مظاہرین مزید جرات مندانہ انداز میں آگے بڑھے ہیں اور ان کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ ’’جاؤ، جاؤ‘‘

مظاہروں کے جواب میں فیلڈ مارشل محمد حسین طنطاوی نے کابینہ کے استعفے اور صدارتی انتخابات کی جون 2010ء میں کروانے کا اعلان کیا ہے۔ لیکن یہ معمولی اصلاحات تحریر چوک کے انقلابیوں کے لیے بہت کم اور بہت دیر سے آئی ہیں، جیسا کہ بن علی، مبارک اور قذافی نے اپنے آخری دنوں میں کی تھیں اور انقلابیوں نے انہیں مسترد کر دیا ہے۔طنطاوی کی جانب سے مظاہرین کو منتشر ہونے کا کہنے کے جواب میں ’’جاؤ، جاؤ، طنطاوی کو جانا ہو گا‘‘ کے نعرے بلند ہوئے۔ سپریم کونسل کی جانب سے امن کی اپیلوں کے ساتھ بڑے پیمانے پر تشدد بھی جاری ہے۔ بہت سے مبصر ان مظاہروں اور طنطاوی کی تقریر کا موازنہ حسنی مبارک کے آخری دنوں سے کر رہے ہیں۔

فوج اور ریاست کے اندر تقسیم انقلاب کے آغاز کی طرح کچھ بالائی افسران مظاہرین کے ساتھ شامل ہو رہے ہیں۔ مقبول فوجی کپتان احمد شعمان جو جنوری میں انقلابیوں سے آملا تھا، ایک مرتبہ پھر تحریر چوک میں آ گیا اور فوجی کونسل کی مذمت کی۔ شعمان فوج کے اندر انقلابی عناصر کا نمائندہ ہے اس سے ریاستی ڈھانچے میں مزید تقسیم کے امکان کا اظہار ہوتا ہے۔ فوج اور ریاست کے علاوہ اخوان المسلمین میں بھی تقسیم نظر آ رہی ہے جو شروع ہی سے انقلاب سے ایک فاصلے پر کھڑی ہے اور اس کا سارا زور انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے پر ہے۔ اب پرانی، اشرافیہ اور موقع پرست قیادت اور نوجوان ممبران میں تقسیم پیدا ہو رہی ہے اور بہت سے نوجوانوں نے ممبر شپ سے استعفے دے دیے ہیں۔ سارے مصر میں پرانی اور نئی تقسیمیں سمٹ کر انقلابی اور رد انقلابی کیمپ کی تقسیم بن چکی ہیں۔ لیکن ایک انقلابی قیادت یعنی موضوعی عنصر کی کمی انقلاب مصر کا سب سے نمایاں پہلو ہے اور مصری عوام کے اقتدار پر قبضے میں سب سے بڑی رکاوٹ بھی۔

ان مظاہروں کی قیادت نوجوان کر رہے ہیں لیکن فروری میں انقلاب کی پہلی لہر کی طرح محنت کش بھی اس میں شامل ہوں گے۔ سویز اور کئی دوسرے علاقوں کے محنت کشوں نے غیر معینہ عام ہڑتال کی کال دے رکھی ہے لیکن ملکی سطح پر کوئی تنظیم نہ ہونے کے باعث یہ ابھی تک حقیقت کا روپ نہیں دھار سکی۔

فروری میں قائم ہونے والی آزاد ٹریڈ یونینوں کی فیڈریشن کو اس وقت اپنی تمام طاقتوں کو میدان میں اتارنے کی ضرورت ہے، نہ صرف تحریر چوک میں مظاہرین کے ساتھ مل کر بلکہ اس کے ساتھ عام ہڑتال کی کال بھی دینا ہو گی۔ اس سے فوجی حکومت کا خاتمہ بہت جلد ہو جائے گا۔ مصر کے محنت کشوں اور نوجوانوں کا فریضہ بنتا ہے کہ وہ اقتدار کو اپنے ہاتھوں میں لیں، سیاسی اور معاشی دونوں حوالوں سے، اور انقلاب کے موسمی دوستوں پر اعتماد نہ کریں۔اس کام کے لیے آزاد ٹریڈ یونینوں اور مزدور تحریک کو اپنا لوہا منوانا ہو گا ۔ یہ حقیقت مصر میں ایک انقلابی تنظیم کی تعمیر کی ضرورت کا اظہار ہے جو تحریک کو آگے بڑھاتے ہوئے سوشلزم کی منزل تک لے جائے۔

Translation: Chingaree.com