انقلاب کی جرس

Urdu translation of Egypt: A Pharaoh’s Nemesis (February 3, 2011)

تحریر: لال خان چنگاری

ڈاٹ کام، 02.02.2011

سوویت یونین کے انہدام، چینی افسر شاہی کی سرمایہ دارانہ تنزلی اور دیوار برلن کے گرنے سے انقلابی سوشلسٹوں کی ایک نسل اجڑ گئی تھی۔بڑے بڑے انقلابی لیڈروں اور دانشوروں کا محنت کش عوام کی انقلابی روش اور پرولتاریہ کی سوشلسٹ سر کشی کی طاقت سے اعتماد ہی اٹھ گیا تھا۔ صرف مارکسسٹ ہی تھے جنہوں نے سٹالنزم کے انہدام کی پیشن گوئی آدھی صدی پیشتر کر دی تھی۔ انہیں محکم یقین تھا کہ جب تک سماج میں طبقات موجود ہیں تو طبقاتی کشمکش بھی جاری رہے گی۔ اگر وہ پیچھے گئی ہے تو اتنی ہی شدت سے پھر ابھرے گی اور سماجوں کو بدلنے کے عمل کا پھر ایک زیادہ جرات مندانہ آغاز کرے گی۔لاطینی امریکہ کے بعد مشرقِ وسطیٰ پھٹ رہا ہے۔ ایک مرتبہ پھر عرب انقلاب کا نیا آغاز ہوا ہے۔محنت کش عوام نے تاریخ کے میدان میں اتر کر ریاست اور جبر کے خوف کو فتح کر کے اپنی نئی تقدیر اور تاریخ مرتب کرنے کی جرات کا مظاہرہ کیا ہے۔مصر میں 59سال بعد عوام کی اس قسم کی انقلابی سر کشی ابھری ہے۔ 1952ء میں شاہ فاروق کا بائیں بازو کے افسران نے تختہ الٹا کر ایک انقلاب برپا کیاتھا تو اس کے پیچھے بھی عوام کی ایسی ہی انقلابی سر کشی کی شکتی تھی۔ اس کے بعد ہمیں عراق سے یمن تک اور الجزائر سے شام تک پوری عرب دنیا میں 1950ء اور 1960ء کی دہائی میں انقلابات کا ایک سلسلہ تاریخ میں ملتا ہے۔ لیکن سٹالنزم کی مجرمانہ پالیسیوں کی وجہ سے یہ انقلابات ایک مشرقِ وسطیٰ کی رضاکارانہ سوشلسٹ فیڈریشن نہیں بنا سکے۔ عرب ایک قوم اور ایک خطے کے باسی ہیں۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد فتح مند سامراجی طاقتوں نے جہاں دنیا کے دوسرے حصوں کی بندر بانٹ کی تھی وہاں مشرقِ وسطیٰ کے بھی ٹکرے کر کے مصنوعی ریاستیں اور ملک بنائے گئے تھے۔ 1916ء میں سائیکس-پیکوت(Sykes-Picot)’ سمجھوتے‘ کے ذریعے فرانس اور برطانیہ کے نے مختلف عرب ممالک آپس میں بانٹ لیے تھے۔ جبکہ 1917ء میں بالفور اعلامیے کے ذریعے فلسطین میں ایک صیہونی ریاست کی تشکیل کا عمل شروع کیا گیا تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد انقلابات اسی سامراجی غلبے اور استحصال کے خلاف بغاوتیں تھیں۔ حالیہ انقلابی ابھار اور عوامی بغاوتیں پھر اسی سامراجی جبر کے خلاف کہیں بڑے پیمانے پر ابھری ہیں۔المیہ یہ ہے کہ تیونس سے یمن اور مصر سے اردن میں چلنے والی موجودہ انقلابی تحریکوں کے مفادات اور مقاصد کو ذرائع ابلاغ انتہائی سفاکی سے مسخ کر کے پیش کر رہے ہیں۔ ان تحریکوں کی بنیادی وجوہ عالمی سرمایہ دارانہ بحران کی وجہ سے غربت اور افلاس بے روزگاری اور مہنگائی میں شدید اضافہ ہے۔ ان سامراجی پالیسیوں اور جارحانہ سرمایہ دارانہ معاشی قتل عام کرنے والے ان حکمرانوں کے خلاف نفرت اور ان کے اکھاڑ پھینکنے کی جدوجہد انہی بنیادوں سے پھوٹتی ہیں۔ لیکن حکمرانوں کا پروردہ میڈیا ایک سماجی عنصر کو ایک سیاسی فارمولے سے دبانے کی کوشش کر رہا ہے۔ امریکہ کے اہم اخبار انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹریبیون کو یہ کہنا پڑا کہ ’’امریکہ نے مبارک کی 30سال سے حمایت جن خطرات کی وجہ سے کی تھی ان میں سے ایک خمینی اور دوسرا ناصر کا خون تھا۔ آج بھی ناصر کا خوف زیادہ معنی رکھتا ہے‘‘۔ دوسرے الفاظ میں ناصر کا عرب قوم پرست سے زیادہ سوشلسٹ ہونا سامراج اور ان عرب حکمرانوں کی بے ہودہ امارت کے لیے بہت بڑا چیلنج بن کر ابھرا ہے۔ اس تحریک کی دو اہم خوبیاں ہیں۔ پہلے تو فوجی سپاہیوں اور عوام کے درمیان جو بھائی چارہ اور یکجہتی دیکھنے میں آئی ہے وہ کسی بھی کلاسیکی انقلاب کا خاصا ہوتی ہے۔ لیکن دوسری جانب یہ بغاوتیں امریکہ نواز لبرل سیکولر حکمرانوں اور اسلامی بنیاد پرست حزب اختلاف کے پورے مسلط کردہ سیاسی ڈھانچے کو چیر کر ابھری ہیں۔ اگر یہ انقلابات سوشلسٹ فتح مارکسی لینن اسٹ پارٹی کے فقدان کی وجہ سے حاصل نہیں بھی کرپاتے تو بھی یہ ان معاشروں پر جو نقوش چھوڑ جائیں گے ان سے ماضی کا سٹیٹس کو جاری نہیں رہ سکے گا۔سرمایہ داری کی موجودہ کیفیتیں اور بحران کے ختم نہ ہونے کی حقیقت کو دیکھا جائے تو ان سماجوں میں بہتری اور استحکام کا کوئی امکان نہیں ہے۔ مصر میں نئی سرکشی کو اب شاید 59ماہ بھی انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔ ان انقلابات سے عوام کی نفسیات کی جو زنجیریں اور بیڑیاں ٹوٹی ہیں اس کے بعد وہ سرمایہ دارانہ استحصال کو مزید اور مسلسل برداشت نہیں کریں گے۔

مشرقِ وسطیٰ کے اس انقلاب کی جو جرس پاکستان میں سنائی دے رہی ہے اس سے یہاں کے حکمران لرز رہے ہیں۔ خوفزدہ ہو کر پاکستان میں ایسے انقلابات کے امکانات کو رد کر رہے ہیں۔ حالانکہ وہ کونسا عنصر ہے جو مشرقِ وسطیٰ کے ان انقلابات کا باعث بنا اور پاکستان میں نہیں ہے؟لیکن یہاں کے استحصال زدہ غربت کی ذلت میں رسوا ہوتے ہوئے محنت کش عوام کے لیے انقلاب کی یہ جرس ایک دلکش دھن بن کر ان کو خوش آئیند مستقبل کا پیغام دے رہی ہے اور ان کی روح اور احساس کو گرما رہی ہے۔ یہ جرس ان کے اندر ایک نیا حوصلہ ، ایک نیا عزم ایک جرات پیدا کر رہی ہے۔ یہ کوئی حیران کن بات نہیں ہو گی کہ پاکستان کے محنت کش مصر سے بھی کہیں بڑے پیمانے پر ایک انقلابی سرکشی میں ابھر آئیں۔تاریخ بہت کفایت شعار ہوتی ہے۔ پچھلے 25سال کے تاریک عہد میں اس نے وقت ضائع نہیں کیا۔اس لیے مزدور تحریک میں دو اہم ترین نظریاتی رکاوٹیں-سٹالنزم اور اصلاح پسندی کو تحریک سے ہمیشہ کے لیے مٹا کے صاف کر دیا ہے۔ اب انقلابات کے لیے انقلابی مارکسزم کے سوافتح یاب ہونے کے لیے کوئی دوسرا رستہ اور لائحہ عمل نہیں ہے۔ ان انقلابات میں داخل ہونے والے اس غربت، مہنگائی، بھوک ، دہشت گردی، جنونیت اور خونریزی کے نظام کو مسترد کر چکے ہیں۔ ان کو اس نظام کو اکھاڑ پھینکنے کے لیے ایک لائحہ عمل ، نظریے اور متبادل نظام کی تلاش ہے۔ ان کی اس سلگتی ہوئی جستجو کو پورا کرنا آج کے انقلابی مارکسسٹوں کا ایک تاریخی فریضہ اور عظیم چیلنج ہے۔

Translation: Chingaree.com