مشرقی بنگال۔ انیس سو اکہتر کا انقلاب جو ادھورارہ گیا

Urdu translation of East Bengal (1971): The unfinished revolution (January 7, 2011)

تحریر: لال خان

چنگاری ڈاٹ کام، 06.01,2010

سولہ دسمبر1971ء کو ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں فوج کے ہتھیار ڈالنے اور اس کے بعد پاکستان کے دو لخت ہونے کی گزشتہ انتالیس سال سے مختلف متنازعہ تاریخی وضاحتیں پیش کی جاتی رہی ہیں۔ ان تجزیات میں سے بیشتر بر صغیر کے حکمران طبقات کے مختلف دھڑوں کے مفادات کی ترجمانی کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سرکاری مورخوں نے 1968ء سے1972ء تک اس خطے میں اٹھنے والے سماجی طوفان کے دوران رونما ہونے والے واقعات اور محکوم عوام کی حقیقی خواہشات کو بری طرح سے مسخ کر کے پیش کیا ہے۔ لیکن ایک حقیقت جسے کوئی جھٹلا نہیں سکتا وہ دو قومی نظریے کی تاریخی ناکامی ہے، وہ نظریہ جس کی بنا پر 1947ء کی خونی تقسیم کی گئی۔ اس نظریے کا کھوکھلا اور مصنوعی پن مارچ 1946ء میں ہی سامنے آگیا تھا جب جناح نے ہندوستان کو متحد رکھنے کے کابینہ مشن کے پلان کو تسلیم کر لیا،اگرچہ ایک کنفیڈریشن کی صورت میں جس میں اکائیوں کوزیادہ خودمختاری حاصل ہوتی ہے۔ لیکن نہرو کی جانب سے بمبئی میں پریس کانفرنس کر کے اشتعال دلانے پر جناح اور مسلم لیگ اس پلان سے دستبردار ہو گئے۔ نہرو کو ایڈوینا ماؤنٹ بیٹن کے حسن کے جلوں نے ایسا کرنے پر ورغلایا، جس کے پیچھے ونسٹن چرچل کا ہاتھ تھا، جو برطانوی سامراج کے سنجیدہ منصوبہ سازوں کی طرح کسی بھی قیمت پر ہندوستان کی تقسیم کروانا چاہتا تھاتا کہ تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی کو استعمال کرتے ہوئے سرمایہ داری اور برصغیر کی سامراجی لوٹ کھسوٹ کو جاری رکھا جا سکے۔ اس کثیر القومی ریاست کے قیام کے بعد کے ستائیس سال میں نوزائیدہ حکمران طبقات کی حکومت میں ہونے والی معاشی و سماجی ترقی انتہائی نا ہموار اور مشترکہ نوعیت کی تھی۔ اگرچہ ساٹھ کی دہائی میں شرحِ نمو میں اضافہ ہوا لیکن سماج پر اسکے متضاد اثرات مرتب ہوئے۔ قومی وحدت اور سماج کو ترقی دینے کی بجائے یہ طبقاتی تفاوت اور قومی محرومی میں اضافے کا باعث بنا۔ بہر کیف پاکستان ایک قومی ریاست کے طور پر تو وجود میں نہیںآیا تھا بلکہ یہ کئی مختلف قومیتوں پر مشتمل تھا۔ پاکستانی سرمایہ داری ایک جدید قومی ریاست کی تشکیل اور جڑت میں ناکام ہو چکی ہے۔ لیکن پاکستان میں پہلی سماجی بغاوت قومی بنیادوں پر نہیں بلکہ طبقاتی بنیادوں پر برپا ہوئی۔ 1968ء میں ایک جگمگاتا ہوا سماجی دھماکہ ہوا جس نے ایک انقلابی کیفیت کو جنم دیا۔139دنوں تک ہر چیز پر محنت کش طبقے، کسانوں اور نوجوانوں کا کنٹرول تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب لوگوں میں طبقاتی بنیادوں پر حقیقی اتحاد تھا جس نے نسل، مذہب، قومیت اور فرقہ واریت کے تعصبات کو مٹا دیا تھا۔ مشرقی پاکستان میں مرکزی قیادت عبدالحمید خان بھاشانی اور نیشنل عوامی پارٹی کے پاس تھی ۔جبکہ ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی کا بول بالا تھا۔ ریاست ہوا میں معلق تھی اور ایوب خان جیسے طاقتور حکمران کو اپنے الوادعی خطاب میں اعتراف کرنا پڑا کہ ’’اس ملک کا ہر فیصلہ سڑکوں پر ہو رہا ہے‘‘۔ بد قسمتی سے1969ء میں جب تحریک عروج پر تھی ماؤنواز بھاشانی چین کے دورے پہ تھا جہاں اسے ماؤ زے تنگ نے صاف طور پر بتا دیا تھا کہ چینی این اے پی کی جانب سے ایوب خان کی حمایت کا خیر مقدم کریں گے۔بعد ازاں بھاشانی نے ایک انٹر ویو میں اس کی تصدیق کی تھی۔ لیکن پاکستان کے عوام ایوب خان کی سفاک آمریت سے شدید متنفر تھے۔ وہ اس نظام کا مرکزی کردار تھا جس کے خلاف تحریک اٹھی تھی۔ اس سے بد ظنی پھیلی اور طبقاتی جدوجہد کو شدید دھچکا لگا، خاص طور پر مشرق میں۔ چنانچہ طبقاتی بنیادوں پر اٹھی تحریک قوم پرستی کی جانب مڑناشروع ہو گئی۔اس سے مجیب کی عوامی لیگ میدان میں داخل ہو گئی۔ محنت کش طبقہ سرمایہ داری کا تختہ الٹنے کے بے باک مقصد کو لے کر نکلا تھالیکن ایک لازمی اوزار(انقلابی پارٹی) کی کمی اس کی راہ کی رکاوٹ بن گئی۔ مجبوراً انہیں وہ کچھ حاصل کرنے کے لیے انتخابی عمل کی جانب دیکھنا پڑا جس کے لیے وہ سڑکوں پر جدوجہد کر رہے تھے۔ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کی بڑی کامیابی کی اصل وجہ روایتی ’’بائیں بازو‘‘ کا تحریک سے فرارتھا۔ لیکن عوامی لیگ ایک بورژوا اصلاح پسند پارٹی تھی وہ اسٹیبلشمنٹ سے ٹکراؤ نہیں کرنا چاہتی تھی۔ وہ مذاکرات اورمصالحت پر یقین رکھتی تھی۔ اے ایف پی کے ساتھ ایک انٹر ویو میں مجیب نے اعتراف کیا کہ’’ کیا مغربی پاکستان کی حکومت جانتی ہے کہ میں ہی وہ واحد شخص ہوں جو مشرقی پاکستان کو کمیونزم سے بچا سکتا ہے؟ اگر وہ لڑائی کا فیصلہ کرتے ہیں تو میں طاقت سے باہر دھکیل دیا جاؤں گا اور میرے نام پر نیکسلائیٹ کاروائی کریں گے۔ اگر میں بہت زیادہ رعایتیں دوں تو میری اتھارٹی ختم ہو جائے گی۔ میں ایک بہت مشکل صورتحال میں ہوں‘‘۔ لیکن مصیبت زدہ عوام پیچھے نہ ہٹے۔ وہ لڑنے مرنے پر تیار تھے اور لیڈروں کو بھی چار و ناچار اپنے پیچھے کھینچتے گئے۔ اور جب تحریک آگے بڑھی تو پاکستانی فوج نے بربریت کا ایک وحشیانہ سلسلہ شروع کر دیا۔بنگالی عوام کے اس قتلِ عام میں جماعتِ اسلامی کی ذیلی تنظیموں ’البدر‘ اور ’الشمس‘ کے کرائے کے قاتلوں نے فوج کا ساتھ دیا۔لیکن تحریک نے اس بربریت کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیااور مکتی باہنی اور جاتیو سماج تانترک دلJSDکے بائیں بازو کی قیادت میں مسلح جدوجہد کے نتیجے میں ایک ایک کر کے بہت سے علاقے ریاست کے شکنجے سے آزاد ہونا شروع ہو گئے۔ دیہات اورقصبوں میں پنچائتوں (سوویتوں) کے کنٹرول میں ایک نیاسیاسی اور سماجی نظام ابھرنا شروع ہوا ۔ ان تحریکوں کے قائدین سرِ عام کہہ رہے تھے کہ مستقبل کی ریاست سوشلسٹ ہو گی۔ وہ عوامی لیگ کی قیادت پر سخت تنقید کر رہے تھے جو ہندوستان بھاگ چکی تھی جہاں انہوں نے ہندوستانی حکومت کی مد د سے ایک جلا وطن حکومت قائم کر رکھی تھی۔ ہندوستان کی بورژوازی ان واقعات پر فکر مند ہونا شروع ہو گئی۔ اندرا گاندھی سمجھ چکی تھی کہ اب پاکستانی فوج کا اس بغاوت کو کچلنے کا کوئی امکان نہیں رہا اور مزید تاخیر سارے جنوبی ایشیا سے سرمایہ داری کے خاتمے کا موجب بن سکتی تھی۔ اس لیے 3دسمبر1971ء کو ہندوستانی فوج نے مشرقی پاکستان پر حملہ کر دیا۔ اس کا حقیقی مقصد پہلے سے پسپا ہوتی پاکستانی فوج کو شکست دینا نہیں تھا بلکہ آزادی کی جنگ کے دوران جگہ جگہ ابھرنے والی سوویتوں کو کچلنا تھا۔ ہندوستانی فوج کی ناکامی کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے امریکی سامراج نے خلیج بنگال میں ساتواں بحری بیڑہ بھی بھیج رکھا تھا۔ اس طرح انقلاب کو زائل کر دیا گیا۔ سرمایہ دارانہ نظام میں ایک ’’خود مختار‘‘ بنگلہ دیش ایک شدید بحران کا شکار ہے ۔ غربت، اذیت اور بربادی اس ’’آزاد‘‘ سر زمین پر راج کر رہی ہے۔ گارمنٹس فیکٹری میں ایک نوجوان محنت کش لڑکی نے اپنے حالاتِ کار کے متعلق بتایا کہ ’’غلاموں کی طرح یہاں کام کرنے کے مقابلے میں جسم فروشی ہمیں کہیں زیادہ پر کشش نظر آتی ہے‘‘۔ اس سب کے باوجود بنگلہ دیش میں وقتاً فوقتاً عام ہڑتالیں اور محنت کشوں اور نو جوانوں کی تحریکوں کی ایک کے بعد ایک لہرامڈ رہی ہے۔ بنگال کے نا مکمل انقلاب کی تکمیل ان کا فریضہ ہے۔

Translation: Chingaree.com