مارکسی نظریات۔ نظریات کے دفاع میں

Urdu translation of In defence of theory — or Ignorance never yet helped anybody (October 15, 2009)

ایلن وڈز ۔ ترجمہ،اسدپتافی

چنگاری ڈاٹ کام،29.11.2009۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آٹھارہ سو آڑتالیس میں ویٹلنگ نے فتویٰ لگایاتھا کہ مارکس اور اینگلز نامی دو عدد دانشور ایسی پےچیدہ اور گنجھلک قسم کی باتیں کر رہے ہیں جن کا محنت کش طبقے سے دور دور تک کوئی لیتا دیتا نہیں ہے۔ اور جو مزدوروں کی سمجھ بوجھ سے بالاتر ہیں۔ جس پر مارکس نے جز بز ہوکر جواب دیاتھا کہ ”جہالت نے آج تک کسی کابھی بیڑا پار نہیں لگایا“۔ مارکس کا یہ جواب آج بھی اتنا ہی کارآمد اور کارفرما ہے جتنا کل تھا۔ ہماری ویب سائیٹ مارکسسٹ ڈاٹ کام پرشائع ہونے والے مضامین کے سلسلے ”رومن امپائر میں طبقاتی جدوجہد“ نے ہمارے قارئین کی خاصی دلچسپی اور توجہ حاصل کی ہے ۔ مجھے میرے ایڈیٹوریل سٹاف نے بتایا ہے کہ ایک ریکارڈ تعداد میں مےرے لکھے گئے ان مضامین کو پڑھاگیاہے ۔ لگ بھگ بائیس سو احباب نے اس مضمون کو کھولااورپڑھا ہے، جو کہ کسی بھی انفرادی لکھت کی اب تک کی بڑی اوسط تعدادہے ۔ یہ حقیقت ہماری وےب سائیٹ کی درست پالیسی کی بھی نشاندہی کرتی ہے جو اپنے نظریاتی موادکی متواتراشاعت کی وجہ سے اپنے قارئین کے دلوں میں گھرکرچکی ہے اور یہ سلسلہ بڑھتا چلاجارہاہے ۔ ا یک ایسے وقت اور ایک ایسے عالم میں کہ جب مارکسزم کے نظریات کو ہر ایک طرف سے حملوں کی یلغار کا سامناچلا آرہاہے، ہماری ویب سائیٹ انتہائی استقامت اور صبروتحمل کے ساتھ مارکسی فلسفے اورنظریات کی تما م ترمتانت اور سرخروئی کوبرقراررکھتے ہوئے ان کے پرچاراوردفاع کا فریضہ سرانجام دیتی آرہی ہے ۔ اور اس حقیقت سے یہ بات بھی عیاں اور نمایاں ہوتی ہے کہ دنیابھر میں آج بھی مارکسزم کے فلسفے اور نظریات کی طرف رغبت اور رجوع ، ذوق شوق کے ساتھ قائم و دائم ہے ۔ تاہم جہاں ہماری ویب سائیٹ اور ہمارے کام کے خیراندیش موجود ہیں ، وہیں ہمارے کئی ایک بدخواہ بھی ضرور ہیں ۔ انہی میں سے چند ایک کو ہم سے یہ شکایت ہے کہ ہم انیس سو تیس کے بعد کے سرمایہ دارانہ نظام کے سب سے بڑے بحران کے عین بیچ میں زمانہ قدیم کی روم کی سلطنت اور اس میں ہونے والی طبقاتی جدوجہد کے بارے میں لکھ رہے ہیں ۔ جہاں تک ہم سمجھتے ہیں اور دیانتداری سے یہ سمجھتے ہیں کہ مذکورہ عالمی بحران پر جس قدر اور جس طرح ہم اپنی ویب سائیٹ پر لکھ چکے ہیں ، وہ اپنے اندر بہت بروقت ، بہت متکفی ہے ۔ اور آگے بھی ہم سے جو بن پڑے گا ہم اسے لکھیں گے بھی۔ لیکن حالات حاضرہ کے ساتھ ساتھ دوسرے موضوعات پر لکھنا اور لکھتے رہنا بھی ہمارا فرض عین ہے۔ اور اس کا مقصد اپنے ہر قاری اپنے ہرساتھی کی نظریاتی تعلیم وتربیت کرنا اور ان کے سیاسی معیار کو بلند و مستحکم کرنا ہوتا ہے ۔ نہ صرف معاشیات بلکہ تاریخ ، سائنس ، آرٹ ، موسیقی سمیت انسانی زندگی سے منسلک و پیوست ہر سرگرمی پرہم لکھتے ہیں اور ہم لکھیں گے۔ ہم اس قسم کے اپنے ناقدین کے سوالوں کے کیا جواب دیں جو یہ چاہتے ہیں کہ ہم مارکسزم کو ان کی اپنی تنگ اور کوتاہ نظری کے زاویوں کے مطابق سوچیں‘ دیکھیں اور بیان کریں۔ ہم کسی طور ان کو کوئی جواب نہیں دیں گے ۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ان کا تسلی بخش جواب کامریڈ لینن نے بہت پہلے دے دیاتھا ۔ لینن نے واضح طورپرکہا تھا ”انقلابی نظریے کے بغیر کبھی کوئی انقلابی تحریک ممکن ہی نہیں ہو سکتی“ ۔ یہی وہ بنیادی سچ ہے جس پر ہمیشہ ہی سرگرم مارکسی قیادتوں نے ٹھوس پوزیشن بھی لی ہے اور اسے اپنایا ہے ۔ آئیے ہم اس بارے میں کچھ معتبر حوالوں سے استفادہ کرتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ نظرےے کے بغےر کوئی انقلاب نہےں ہوتا ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کمیونسٹ مینی فسٹوکو لکھنے سے بھی بہت پہلے مارکس اور اینگلز دونوں نے(ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ دونوں نے ہیگل کے فلسفے کے طالبعلم کے طور پر اپنی زندگی کے انقلابی سفر کا آغازکیاتھا )سب سے پہلے اپنی جدوجہد”پرولتاریہ“ کے ان قائدین کے خلاف شروع کی تھی کہ جنہوں نے جدوجہدکے انتہائی رجعتی اور قدیمی طریقوں کو اپنا دیوتا قراردیاہواتھا اور بس انہی طریقوں کی پوجاپاٹ کو ہی اپنا ئے ہوئے تھے ۔ یہی نہیں بلکہ جو سائنسی نظریے کی مخالفت اور دشمنی پر بھی کمر بستہ ہو چکے تھے ۔ روسی نقاد اننکوف جو کہ آٹھارہ سو چھیالیس کے بہارمیں برسلز میں ہی موجود تھے، نے اپنی یادداشتوں میں ایک اجلاس کی آنکھوں دیکھی کاروائی لکھی ہے جو کہ بہت دلچسپ ہے ۔ اس اجلاس میں وہ لکھتا ہے کہ مارکس اور ویٹلنگ کے مابین جھڑپ ہوئی ۔ ویٹلنگ ایک یوٹوپین کمیونسٹ تھا۔ اسی ویٹلنگ نے مارکس اور اینگلز پر انگلیاںاٹھائی تھیں کہ یہ دونوں حضرات جو کہہ ‘ لکھ اور کر رہے ہیں اس کا مزدور طبقے کے ساتھ کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے۔ اس نے مارکس کے بارے میں کہا کہ” وہ کرسی پر بےٹھ کر جس قسم کے تجزیے کرتا ہے ان کا محروم اور درماندہ انسانوں کی زندگیوں سے دور دورتک واسطہ نہیں ہے “ ۔ ویٹلنگ کی بہتان طرازیاں اتنی بیہودہ ہوتی تھیں کہ مارکس جو اپنی طبیعت میں انتہائی عاجز اور بردبار انسان تھا، وہ بھی اپنے آپے سے باہر ہوگیا ۔ اننکوف لکھتاہے ”مگر پھر یوں ہواکہ مارکس کے اعصاب بھی شل ہوگئے اور وہ آپے سے باہر ہوگیا ۔ اور اس نے شدت سے اپنا مکہ میزپر مارا جس سے میز ہل گئی اور اس پر رکھا ٹیبل لیمپ گر گیا۔ وہ یہ کہتا ہوا اٹھ کھڑا ہوااور چل دیا کہ جہالت نے آج تک کسی کو پار نہیں لگایا©“۔(Reminiscences of Marx and Engels, p.272, my emphasis, AW)وینٹنگ مکمل طورپر نظریے اورصبروتحمل کے حامل پروپیگنڈہ ورک کا شدید مخالف تھا ۔ باکونن کی طرح وہ بھی اس پر یقین رکھتاتھا کہ غریب لوگ خود ہی انقلاب برپاکرنے کی اہلیت رکھتے ہیں ۔ نظریے پر ”انقلابی عمل“ کو فوقیت دینے کے یہ وکیل یہ سمجھتے اور قرار دیتے تھے کہ جب تک بھی ان جیسے شعلہ بیان اور تندخو قائدین انقلاب موجود ہیں ، کسی بھی وقت انقلا ب کو ممکن بنایاجاسکتاہے۔ آج بھی ہم اس قسم کے قبل از مارکسزم کے نظریات کی بازگشت کو کئی ایک مارکسی حلقوں کے اندر سن سکتے ہیں۔ مارکس اس بات کو سمجھتاتھا کہ کمیونسٹ تحریک صرف اس قسم کے جذباتی نعروں سے مکمل طورپر اپنی جان چھڑاکراور اس قسم کی قیادتوں کا صفایا کر کے ہی آگے بڑھ سکتی ہے ۔ ویٹلنگ سے قطع تعلق بھی ناگزیز تھا چنانچہ مئی آٹھارہ سو چھیالیس میں یہ ہوگیا۔ ویٹلنگ بعد ازاں امریکہ چلاگیا اورپھر اس کا کوئی بھی قابل ذکر کردار سامنے نہیں آسکا۔ یہ صرف ویٹلنگ ایسے ”سرگرم کارکن“ سے قطع تعلق کا ہی نتیجہ تھا کہ ٹھوس بنیادوں پر کمیونسٹ لیگ کا قیام عمل میں لایا جاسکا۔ تاہم ویٹلنگ جیسے رحجانات بعد میں بھی سراٹھاتے اور تحریک میںرخنہ اوررولاڈالتے رہے ۔ پہلے باکونن کے نظریات کی شکل میں اور بعد میں الٹرا لیفٹ ازم کی مختلف صورتوں میں سامنے آتے رہے ۔ مارکس اور اینگلز کی اجتماعی لکھتوںمیں ہمیں نظریات کا ایک غیر معمولی خزانہ میسر آتاہے ۔ یہاں ہمیں اینگلز کی جرمن، سلاواورآئرش علاقوں کی کسان تحریکوں اوراس کی ابتدائی عیسائیت کے حوالے سے تحریریں ملتی ہیں۔ اینگلز کی وفات پر لینن نے اپنے مضمون میں حسب ذیل لکھا ”مارکس نے سرمایہ دارانہ معیشت کے پےچیدہ مظہر کے بارے میں کام پر توجہ دی جبکہ اینگلز نے سادہ الفاظ میں کہاجائے توماہرانہ اندازمیں مختلف اور متنوع مگر عمومی سائنسی موضوعات پر کام کیا ۔ یہی نہیں بلکہ اس نے ماضی اور حال کے مشکل مظہرسمیت مارکس کے معاشی نظریے کو تاریخی مادیت کے اصولوں پر مرتب ومتشکل کیا “۔ اینگلز کے کام کی مختصر فہرست سے اس شخص کے کام کی وسعت نظر کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ ہمارے سامنے اس کا ڈیورنگ کے خلاف انتہائی شاندار کام ہے ۔ جو فلسفے ، فطری اور سماجی سائنس کا گہرائی میں احاطہ کرتاہے ۔ ”خاندان،ریاست اور نجی ملکیت کا آغاز“ انسانی سماج کی ابتدائی جہتوں سے متعلق ہے ۔ ہمارے عمل پسند ناقدین یہ سوال کرتے ہیں اور چلے آرہے ہیں کہ آخر اس سب ” فضول“ قسم کے مواد کا مزدورتحریک کے ساتھ کیا تعلق ہے ۔ جی اس کتاب نے صرف یہ کام کیا کہ اس نے ریاست کے مارکسی تصور کی بنیادیں رکھیں ،بعد میں لینن نے اپنی کتاب ریاست اور انقلاب میں شاندار اضافہ کیا ۔ اور یہی وہ کتاب تھی جس نے بالشویک انقلاب کی نظریاتی بنیادیں استوار کی تھیں ۔ اور پھر ”لڈوگ فیورباخ اور کلاسیکل جرمن فلسفے کا خاتمہ “کے تو کیا ہی کہنے ہیں ۔ اپنی اس کتاب میں اینگلز نے نہ صرف یہ کہ ہیگل کے مشکل و پرپیچ فلسفے کی گتھیوں کو اپنا موضوع سخن بنایا ہے بلکہ ساتھ ہی ساتھ اس نے ہیگلیاتی لیفٹیسٹ تحریک کے جرمن فلسفیوں کے ابہام اور محدود پن کو بھی خوب آڑے ہاتھوں لیا۔ خاص طور پر مارکس اور اینگلز کے مابین ہونے والی خط وکتابت میں تو ہمیں نظریات پر حیران کردینے والامواد ملتاہے ۔ ان خطوط میں ہمیں یہ دونوں دوست ہر ایک موضوع کے ہر ایک پہلو پر سیرحاصل گفتگوکرتے ملتے ہیں۔ نہ صرف معیشت بلکہ فلسفہ ، تاریخ، سائنس، آرٹ اور کلچر جیسے موضوع شامل ہیں۔ یہاں ہمیں نام نہاد بورژوا دانشوروں کا مارکس پر بلاجواز تنقید کا شافی جواب ملتاہے جو کہتے ہیں کہ مارکسزم ایک خشک ، بے روح اور کھردرا فلسفہ اور نظریہ ہے ۔ یہ مارکسزم کے بارے میں ایک غلط اور بیہو دہ تشریح ہے جو تمام تر انسانی فکری سرگرمی کو محض اور محض معاشیات اور ذرائع پیداوار کی ترقی کی تنگ حدود میں ہی گھیرے رکھتی ہے ۔ آج بھی ہمیں ایسے ”عظیم مارکسسٹوں“ کی ایک خاصی تعداد ملتی ہے جو کہ مارکسزم کو مارکسزم کے اعلیٰ ، وسیع النظر نظریے اورتناظرمیں دیکھنے اور برتنے کی بجائے ان بورژوا نقادوںکے نکتہ نظر کے مطابق مارکسزم کی مادی و معاشی تعبیروتشریح کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے ہوئے ہیں ۔ یہ قطعی طورپر مارکسزم نہیں ہے بلکہ یہ سراسر ہیگل کے الفاظ میں ” روح سے محروم ہڈیوں کا ڈھانچہ“ ہے ۔ لینن نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہاتھا کہ ”اہمیت ڈھانچے کی نہیں ہواکرتی ہے بلکہ ایک متحرک زندگی کی ہوتی ہے“ ۔(Lenin, Philosophical Notebooks, Collected Works, Vol. 38)لینن اور نظریہ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ لینن نے ہمیشہ ہی نظریے کی اہمیت پر زور دیا ہے ۔ یہاں تک کہ تنظیم کی انتہائی ابتدائی کیفیت میں بھی لینن نے ” معیشت دانوں “ کے مدمقابل ایک بے رحم پوزیشن اختیار کئے رکھی۔ جو ”پرولتاری عمل“ کی تنگ نظر سوچ اور حکمت پر عمل پیرا تھے اور نظریے کو صرف ایک دانشورانہ سرگرمی قراردیاکرتے تھے کہ جس کا ورکروں سے کوئی سروکار نہیں ہوسکتاتھا۔ اس بیہودگی کا لینن نے کچھ اس طرح جواب دیاتھا ” مارکس کا یہ بیان کہ ایک حقیقی تحریک کا ایک قدم ایک درجن پروگراموں سے زیادہ اہم ہوتا ہے“ ان الفاظ کو ایک ایسے ماحول میں دہراتے رہنا کہ جب نظریے پر توجہ بہت کم دی جارہی ہو ۔ یہ ایک ایسی ہی کیفیت ہے جیسے کسی کی مرگ کے موقع پر جھومر یا بھنگڑا ڈالاجائے اور ایک دوسرے کو مبارکباددی جارہی ہو ۔ دوسری بات یہ ہے کہ مارکس کے یہ الفاظ اس کے گوتھا پروگرام سے لئے گئے ہیں جس میں اس نے اصول وضوابط کی تشکیل کے ضمن میں کوتاہی پر شدید نکتہ چینی کی ہے ۔ مارکس نے پارٹی قیادت کو لکھتے ہوئے کہاتھا کہ آپ لوگ ہر حال میں متحدرہتے ہوئے اگر تحریک کے عملی اہداف کے حصول کےلئے متفق اورسرگرم ہوں تو یہ بہت ہی مناسب بات ہوگی لیکن کسی بھی صورت اور حالت میں اصولوں پر کوئی لین دین یا سمجھوتہ نہیں ہوگا اور نہ ہی نظریے کے معاملے میں کوئی رعایت دی جانی چاہئے ۔ یہ تو تھی مارکس کی اپنی پوزیشن اور اس کے باوجود بھی ہم میں سے ہی کچھ مارکس وادی احباب کا یہ کہنا ہے کہ چھوڑیں جی نظریے کی اتنی اہمیت نہیں ہواکرتی ۔ بس کام پر توجہ دیں آپ ”نظریے کے بغیر کوئی انقلابی تحریک ممکن ہی نہیں ہو سکتی ۔ یہ سوچ خاص طورپر ایک ایسے وقت میں توجہ اور استقامت کے ساتھ بیان نہیں کی جاسکتی ہے کہ جب موقع پرستی ایک مقبول عام فیشن بن چکی ہواور جو اس قسم کے حالات میں عمل پسندی کی تنگ نظر کیفیات کے ساتھ شانہ بشانہ اورقدم سے قدم ملائے ہوئے ہو ۔ یہاں تک کہ خود روسی سوشل ڈیموکرےیوں کےلئے بھی نظریے کی اہمیت کی تین وجوہات ہیں ، جنہیں عام طورپر نظر انداز کر دیا جاتا ہے ۔ سب سے پہلے یہ کہ ہماری پارٹی ابھی اپنی تشکیل کے ابتدائی مراحل میں ہے ۔ ابھی اس کے خدوخال نئے نئے مرتب ہورہے ہیں۔ اور ابھی تک ہم دوسرے انقلابی رحجانات کے ساتھ اپنا تال میل قائم کرنے کی کیفیت سے کوسوں دور ہیں جو انقلابی تحریک کو اس کے حقیقی رستے سے گمراہ کرنے کے خطرے کا باعث بن سکتے ہیں“۔(What is to be Done?Dogmatism and \\\"Freedom of Criticism\\\")باکونن اور وینلٹنگ جیسے خود ساختہ ” سچے پرولتاریہ نواز “ معاشی رحجانات ہمیشہ ”دانشور نظریہ سازوں “ کے خلاف بر سرپیکار چلے آرہے ہیں۔ اس قسم کے رحجان سے قطع تعلق ہی حقیقی بالشوزم کی بنیاد بناجو کہ اٹھتے بیٹھتے ہوئے ”پرولتاریہ “ راگ الاپتے رہتے ہیںاور جو عملی طورپر اصلاح پسند ٹریڈیونین کے ساتھ خودکو وابستہ کیے ہوئے ہوتے ہیں۔ مگر پھر نظریے کی حمایت میںنام نہاد عمل پسندوں کے خلاف جدوجہد بھی اس سارے عمل کا ایک انتھک عنصر تھا ۔ انیس سو آٹھ میں لینن نے لکھا ”انیسویں صدی کے اواخر میںتحریف پسندی کے خلاف انقلابی مارکسزم کی نظریاتی جدوجہد نے ہی آگے چل کر پرولتاریہ کی عظیم لڑائیوں کی ٹھوس بنیادیں تعمیر کی تھیں ۔ اور یہ عظیم لڑائی پیٹی بورژوازی کی تمام تر کمزوریوں اور خرابیوں کے باوجوداب بھی جاری وساری ہے“۔(Marxism and Revisionism)اپنی کتاب”سٹالن“ میں ٹراٹسکی نے بالشویک پارٹی کے کمیٹی ارکان کا انتہائی صراحت سے ذکرکیا ہے جو اسی قسم کی عمل پسندی کی ذہنیت کے حامل تھے ۔ یہ عمل پسند انیس سو پانچ اور چھ کے انقلابی واقعات کی درست سمجھ بوجھ نہ رکھنے کے باعث بے شماربھیانک غلطیاںکرتے رہے بلکہ غلطیوں پر غلطیاں کرتے چلے گئے۔ ان کی یہ غلطیاں ،، جو عمومی طورپر الٹرالیفٹیسٹ کردارکی حامل تھیں،، صرف ان کی جدلیات سے عدم واقفیت اور غیر ہم آہنگی کی پیداوارتھیں۔ پارٹی کی تعمیر وتشکیل کے بارے میں ان کا تصور اور کارکردگی صرف عمومی اور مجردنوعیت کی حامل تھی۔ اور جس کا حقیقی مزدورتحریک سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ،لینن جسے ہولناک قراردیتا ہے ، انیس سو پانچ میں پےٹرزبرگ میں ہونے والی سوویت کی پہلی میٹنگ میں سے بالشویک بائیکاٹ کر کے چلے گئے تھے، کیونکہ اس نے پارٹی پروگرام کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ انیس سو آٹھ میں جب لینن نے خودکو بالشویک دھڑے کی اقلیت میں پایا جس کی قیادت بوگدانوف اور لیوناچارسکی کر رہے تھے ۔ تووہ خودکو مارکسی فلسفے پر اختلاف کی بنیاد پر ان سے الگ کرنے پر تیار ہو چکا تھا۔ یہ کوئی حادثہ نہیں ہے کہ ایک ایسے وقت میں کہ جب ساری انقلابی پارٹی کے وجود کے ہی تحلیل ہونے کے حالات تھے، اس وقت بھی لینن فلسفے پر ایک کتابMaterialism and Empirio-Criticismلکھ رہاتھا ۔ کوئی بھی یہ سوال پوچھ سکتاہے کہ ولادی میر الیانوف لینن کو ایسی کیا افتاد آن پڑی تھی کہ وہ اس قسم کے موضوعات پر کتاب لکھ رہاتھا ۔ آخر ایک پادری برکلے کی تحریروںپر کچھ لکھنے کا کسی مزدورتحریک کے ساتھ کیا تعلق ہو سکتا ہے؟ اور سب سے اہم سوال یہ بھی کہ کیونکر لینن نے صرف فلسفے کے سوال پربالشویک پارٹی کے اکثریتی دھڑے سے خود کو الگ کرلیا؟ کسی اور کو اس کا جواب سمجھ آئے نہ آئے لیکن بہر حال لینن کو بخوبی علم تھا کہ ایسا کیوں ضروری تھا ۔ وہ جانتا تھا کہ بوگدانوف کے جدلیاتی مادیت کے فلسفے کو مسترد کرنے اور پارٹہ کی اکثریت کی جانب سے الٹرا لیفٹ پالیسیاں اپنانے کے مابین کیا تعلق واسطہ تھا۔ پہلی عالمی جنگ کے دوران لینن نے خود کو ایک بار پھر فلسفے سے جوڑ لیا اور اس نے ہیگل کا پوری توجہ اور سنجیدگی کے ساتھ مطالعہ کیا۔ اس کے مطالعے کا یہ نچوڑ بعد میں ،، دی فلسفیکل نوٹ بک ،، کے عنوان سے شائع ہو ا۔ اس کی آخری تحریروں میں سے ایک ”پرجوش مادیت پسندی کی اہمیت “On the Significance of Militant Materialismتھی۔ جس میں اس نے ہیگل کے مطالعے کی اہمیت پر اصرار کیا ہے ”بلاشبہ اس کا مطالعہ ، اس کی تفہیم ، اس کی تشریح اور ہیگل کی بیان کردہ جدلیات کا ادراک ایک انتہائی مشکل کام ہے ۔ یقینی طورپر اس تجربے میں کئی ایک غلطیوں کا بھی احتمال ہے ۔ لیکن پھر جو کچھ نہیں کرتا وہ غلطیاں بھی نہیں کرتا۔ مارکسی مادیت کے طریق کارکو بنیاد بناتے ہوئے ہیگل کی جدلیات کو دیکھا‘ سمجھااور پرکھا جا سکتا ہے ۔ اس طرح ہم اس جدلیات کو نہ صرف اس کے سبھی پہلوﺅںکے ساتھ بیان بھی کر سکتے ہیں بلکہ ہم ہیگل کی جدلیات سے کافی کچھ اکتساب کر کے اس پر لکھ سکتے ہیں اور ان کی مادیت کے اصولوں کے مطابق تشریح بھی کر سکتے ہیں ، ان پر تبصرہ و تنقید بھی کرسکتے ہیں ۔ اس ضمن میں ہم مارکس کے جدلیات کی تشریح کرنے کے طریق کار سے مدد لے سکتے ہیں ۔ اسی طرح ہم معیشت اور سیاسی تعلقات کے ضمن میں بھی جدلیات کو بروئے کار لاسکتے ہیں۔ جس کی موجودہ تاریخ ، خاص طورپر سامراجی جنگوں اور انقلابات کے حوالے سے بہت اہمیت ہے “۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ٹراٹسکی اور نظریہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔۔ لینن کی طرح سے ٹراٹسکی نے بھی اپنی زندگی مارکسزم کے نظریات کے فروغ اور ان کے دفاع کےلئے وقف کئے رکھی ۔ اینگلز کے حوالے سے لکھے گئے اپنے مضمون میں اس نے اینگلز کی نظریے کے ساتھ ان ٹوٹ وابستگی کا ذکرکیا ہے ”اس نابغہ روزگار استادکی اپنے شاگردوںکے ساتھ گہری علمی وابستگی بھی تھی ۔ سبق دیتے ہوئے وہ نامور تخلیق کار کا ﺅتسکی کی لکھتوں سے اقتباسات کو پڑھتا تھا اور ان پر اپنا تبصرہ کیاکرتا ، یہ تبصرے انتہائی اعلیٰ معیار کی تجاویز کے حامل ہوتے تھے ۔ یہ تبصرے اس کے گہرے مطالعے ، وسیع تجربے اور بسااوقات اس کی تحقیق کا بھی نچوڑہواکرتے تھے ۔ کا ﺅتسکی کا مقبول عام کامClass Antagonisms in the French Revolutionجوکہ دنیا کی ہر بڑی زبان میں ترجمہ ہوکر سامنے آچکاہے ، یہ عظیم کام بھی اینگلز کی علمی و فکری لیبارٹری سے گزرکر ہی سرانجام پایااور سامنے آیا۔ اٹھارویں صدی کے عظیم انقلاب کے عہد میں ہونے والی سماجی ترتیت کے حوالے سے لکھے گئے اس کے خطوط اوراس کے ساتھ ہی تاریخی واقعات کو مادی نکتہ نگاہ سے دیکھنے‘ سمجھنے اور برتنے کے طریق کار پر اینگلز کی لکھتیں کسی بھی بڑے انسانی دماغ کی لکھی ہوئی تحریروں میں ایک ہیں۔ بظاہر تو یہ بہت مختصر سی لکھتیں ہیں مگر ان کوزوںمیں علم و تدبر کے دریا بند ہیں ۔ ان کو پڑھنے والا ان سے بھرپور استفادہ کر سکتاہے ۔ یہ لکھتیں کافی عرصے تک منظر عام پر نہیں آ سکےںمگر یہ لکھتیں نہ صرف اپنی علمی عظمت کی بنیاد پر ہمیشہ زندہ رہیں گی بلکہ یہ ہر اس انسان کے جمالیاتی ذوق کی تشفی وتسکین کےلئے بھی چشمہ حیات ثابت ہوتی رہیں گی جو ایک انقلابی عہد میں طبقاتی تعلقات کی رنگارنگی اور تاریخی واقعات کی مادی حوالے سے تفہیم وادراک میں درپیش روزمرہ کے مسائل کو سمجھنے کا آرزومند ہے“۔(Trotsky, Engels\\\' Letters to Kautsky,1935)ٹراٹسکی کی ہر ایک تحریر میں ہم ایک وسعت نظر اور ایک بلیغ دلچسپی کو نمایاںطورپر دیکھ سکتے ہیں۔ نہ صرف تاریخ ، بلکہ آرٹ لٹریچر اور کلچر کے بارے میں بھی اس نے بے شمار اور قابل قدر کام کیا ہے ۔ عالمی جنگ سے پہلے اس نے آرٹ اور ٹالسٹائی وگوگول جیسے بڑے لکھاریوں پر لکھا جبکہ اکتوبر انقلاب کے بعد اس نے بہت شدت کے ساتھ آرٹ اورلٹریچر پر لکھا ۔ اس کی شہرہ آفاق کتاب لٹریچر اور انقلاب اسی عرصے کے دوران ہی لکھی گئی۔ انیس سو تائیس میں اس نے لکھا ” لٹریچر جس کی جڑیں انسان کے انتہائی قدیم ماضی سے پیوست ہیں اور جو انسان کے زبان سے وابستہ ہنرمندی کے اجتماعی تجربے کا اظہار ہوتاہے، یہ احساسات ، جذبات، رحجانات ، نکتہ ہائے نظر، امیدوںکے نئے عہد کے خوابوںاور اس نئے عہد کے نئے طبقات کا ترجمان ہوتاہے۔(Trotsky, The social roots and the social function of literature)انقلاب اور ردانقلاب کے عیں درمیان یعنی انیس سو تیس کی دہائی میں اسے آرٹ اور لٹریچر پر لکھنے کا وقت ملا ۔ انیس سو چوتیس میں جرمنی کی تباہ کاری کے فوری بعد ہی اس نے اگنازیو سیلون کے ناول فونٹامارا پر اپنا نقدو نظر لکھا۔ انیس سو آٹھاتیس میں اس نے معروف لکھاری آندرے بریٹن کے ساتھ مل کر انقلابی آرٹ کےلئے مینی فیسٹو تحریر کیا۔ ہم ایسے موقعوں پر اس قسم کے خودساختہ مارکسیوں کی یہ نکتہ چینی سنتے ہیں کہ ”اوہودیکھیں نہ جی ، یہ کامریڈٹراٹسکی کاکام دیکھیں کہ عین انقلاب کے لمحوں میں یہ کیسے کیسے فضول کام کرتاپھر رہاہے ۔ ایسے قیمتی وقت میں وہ آرٹ پر لکھ کر وقت ضائع کررہاہے ۔ آخر کیا رشتہ بنتا ہے آرٹ کا مزدوروں کے ساتھ یا طبقاتی جدوجہدکے ساتھ ہیں نہ جی، دیکھیں نہ جی “۔ اس قسم کے ناقدین اکثر اپنا سر جھٹکاتے نظر آتے ہیں اور ایک آہ بھرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ”بس جی اب ٹراٹسکی وہ پہلے والا کامریڈ نہیں رہا ۔ یہ تو وہ مسلسل انقلاب کی تھیوری والا ٹراٹسکی ہے ہی نہیں یہ اب سٹھیا چکاہے اور اس کی ذہنی صلاحیتیں جواب دے چکی ہیں“۔ جی ہاں ہمیں ایسی آوازیں سنائی دیتی ہیں اور دے بھی سکتی ہیں۔ ا یک وقت تھا کہ جب سارایورپ ہی انقلاب اور ردانقلاب کی لپیٹ میں آیاہواتھا، جب ٹراٹسکی کے ساتھی اور ہمدرد چن چن کر مارے جارہے تھے اور چوتھی انٹرنیشنل اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی تھی، تب بھی ٹراٹسکی نے آرٹ اور لٹریچر پر لکھنے کا اپنا سلسلہ جاری رکھا۔ کیوں ؟ اس سوال کاجواب دے چکنے کے بعد ہم یہ واضح کرنے کی جرات وجسارت کریں گے کہ حقیقی مارکسزم‘ حقیقی پرولتاریہ انقلاب پسندی اور نام نہاد کھوکھلی و جعلی مارکسزم کے مابین کیافرق اور فاصلہ ہے جس کا ہمیں کچھ حلقوں کی شکل میں سامنا کرناپڑتاہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ”ہم پر تمہاری چاہ کا الزام ہی تو ہے“ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں برطانیہ میں دھڑوں کی لڑائی کے بعد جب ملیٹنٹ میں تقسیم ہوئی تو یہ الزام عائد کیاگیا کہ ٹیڈ گرانٹ اور ایلن وڈز بزعم خویش نظریہ ساز بنے پھرتے ہیں۔ یہ وہ رٹارٹایا فقرہ ہے جو ہمارے رحجان کی شان میں مذمتی قصیدے کے طورپر بیان اور پیش کیاجاتارہا ۔ یہ ہماری دہائیوں کی پیہم محنت شاقہ کا ہی پھل ہے کہ آج ہم روس کی لیفٹ اپوزیشن کے بعد کی سب سے بڑی ٹراٹسکائیٹ تحریک بننے میں کامیاب ہو چکے ہیں ۔ ہم انیس سو ساٹھ کی دہائی کی ابتدا میں بس چند ایک ہی دوست تھے جنہوں نے اس کام کی ابتداکی تھی ، اب ہم مزدورتحریک کے اندر مضبوط جڑیں قائم کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں ۔ اور یہ ساری کی ساری کامیابی سالوں کے مسلسل انتھک کام کے نتیجے میں ہی حاصل ہوسکی ہے ۔ آخری تجزیے میں یہ سبھی فتوحات درست نظریات ، درست طریق کار اور درست تناظر کی بدولت ہی ممکن ہوئیں ۔ ٹیڈگرانٹ فی الواقعی ایک عظیم مارکسی مفکر تھا ۔ اپنے سبھی ہمعصروں میں وہ سب سے سربلند تھا۔ وہ اپنی روح کی گہرائیوں تک مارکسی نظریے میں محوومگن رہتاتھا ۔ وہ مارکس اینگلز لینن اورٹراٹسکی کی سبھی لکھتوں اور کرنیوں سے باخبراور وابستہ رہتاتھا۔ جب میں اور ٹیڈ گرانٹ ،، ملیٹنٹ ،، سے بے دخل کردیے گئے تو ہم نے خودکوایک مشکل پوزیشن میں پایا۔ ہمیں نکالنے والوں کی اکثریت کے پاس بڑاعظیم الجثہ عمارتی اثاثہ تھا ۔ سرمائے کی بھی ریل پیل تھی جبکہ دوسوکے قریب کل وقتی کارکن بھی تھے ۔ جبکہ ہمارے پاس ایک ٹائپ رائٹر تک بھی نہیں تھا ۔ اس کیفیت اور مشکل کے باوجود ٹیڈ گرانٹ اور میں ایک لمحے کےلئے بھی پریشان نہیں ہوئے ۔ ہمارے پاس مارکسزم کے نظریات تھے ۔ اور یہی ہماری متاع حیات اور سب سے اہم اثاثہ تھا ۔ میری ساری زندگی کے تجربات کا سب سے اہم سبق یہی ہے کہ اگر آپ کے پاس درست نظریات ہوں تو آپ پھر سے نیا ڈھانچہ تعمیر کر سکتے ہیں۔ جبکہ اگر درست نظریات نہ ہوں تو آپ کبھی بھی ایسا نہیں کر سکتے ۔ بے شک آپ کے پاس دنیا میں بڑے بڑے ڈھانچے اور اثاثے ہوں مگر اگر درست نظریات نہ ہوں تو ناکامی و شکست وریخت آپ کا مقدر بن کر ہی رہے گی ۔ ہم نے صورتحال پر غوروفکر کیا اور یہ نتیجہ اخذکیا کہ اس کیفیت میں ، ، اس وقت،، خاص طورپرسوویت یونین کے زوال کے بعد ہماراسب سے اولین اوراہم ترین فریضہ مارکسزم کے بنیادی نظریات اور فلسفے کا دفاع کرناتھا ۔ اس کا پہلا عملی نتیجہ ہماری کتاب ”مارکسی فلسفہ اور جدید سائنس“ کی صورت میں سامنے آیا۔ ہمارے سابقہ کامریڈز احباب نے اس کتاب پر خوب ہنسی اڑائی ۔ اور فرمایا”دیکھا آپ دونوں ٹیڈگرانٹ اور ایلن وڈز نے اب سیاست ترک کرکے فلسفے پر کتاب لکھنا شروع کردیا ہے “۔ یہ ان احباب گرامی کامارکسی نظریات کی جانب رویہ و روش تھی ۔ یہ ویٹلنگ اور بالشویک پارٹی کے کمیٹی ارکان کی تقلید کے سواکچھ نہیں تھا۔ جبکہ اس کا مارکس ‘ اینگلز ‘ لینن اور ٹراٹسکی کی روایات واقدار سے کوئی تعلق واسطہ نہیں تھا۔ نظریات میں غلطیاں ، جلد یابدیر، اپنے بھیانک اور ہولناک عملی نتائج کے ساتھ سامنے آنا شروع ہو جاتی ہیں ۔ سابقہ اکثریت کو اپنے اعمال کی مکافات کا سامنا کرناپڑا ۔ وہ رحجان جس کا پہلے لیبر موومنٹ کے اندربہت ہی گہرائی تک ایک تاثراور وزن ہواکرتاتھا، وہ محض اپنی ایک پرچھائیں کی حالت میں ڈھل کے رہ گئی ۔ جبکہ دوسری جانب ہماری کتاب نے عالمی مارکسی رحجان کی تعمیر وتشکیل میں انتہائی بنیادی اور اہم کردار اداکیا۔ اس کا دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ ہو چکاہے اور اسے بیشتر کارکنوں ، سوشلسٹوں، کمیونسٹوں ، ٹریڈ یونینسٹوں، اور ہوگو شاویز سمیت بولیویرین انقلابیوں نے دل جان سے مطالعہ کیاہے نہ صرف مطالعہ بلکہ اسے قبولیت اور مقبولیت سے بھی نوازا ہے ۔ ہم اس سب کی کس طرح وضاحت کریں یا کر سکتے ہیں؟ باشعور ورکروں اور نوجوانوں کے اندر نظریات اور فلسفے کے حوالے سے ایک پیاس ‘ ایک طلب‘ ایک تڑپ ہے ۔ وہ یہ جاننا اور سمجھنا چاہتے ہیں کہ سماج میں آخر یہ سب کیا ہورہاہے؟ان سب کا ان سب رحجانات سے کوئی دلچسپی نہیں جو انہیں وہی بتاتی ہیں جو وہ پہلے ہی جانتے اور سمجھتے ہیں ۔ انہیں یہ بتانے سمجھانے کی ضرورت نہیں کہ سرمایہ دارنہ نظام بحران کی زد میں ہے ۔ یا یہ کہ بے روزگاری کا عفریت ہر جگہ اپنے خونی پنجے گاڑ تا چلا جا رہا ہے ۔ یا یہ کہ ان کے گھررہائش کے قابل نہیں رہے ۔ یاپھر یہ کہ اجرتیں اور معاوضے کم سے کم تر ہوتے چلے جارہے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سنجیدہ ذہن یہ جاننا چاہتے ہیں کہ جو ہورہاہے وہ کیونکر ہورہاہے؟ وہ سمجھنا چاہتے ہیں کہ روس میں کیا‘ کیوں اور کیسے ہواتھا؟ وہ پوچھنا سمجھنا چاہ رہے ہیں کہ مارکسزم کیاہے؟ اور اسی قسم کے کئی دوسرے نظریاتی سوال ان کے ذہنوں میں کلبلا رہے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ نظریہ کبھی بھی اور کہیں بھی ایک اضافی یا ثانوی چیز نہیں ہواکرتا، نہ ہی ہے ۔ جیسا کہ عمل پسند واویلا کرتے چلے آرہے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ نظریہ کسی بھی انقلابی جدوجہد کےلئے اہم ترین اوزارو ہتھیار کی حیثیت رکھتا ہوتاہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ورکرز اور کلچر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ محنت کشوں پر ایک بیہودہ الزام ہے کہ انہیں کلچر ‘تاریخ اور فلسفے وغیرہ سے قطعی کوئی دلچسپی اور سروکار نہیں ہواکرتا۔ کئی سالوں پر محیط میرے اپنے ذاتی تجربے سے بھی یہ بات واضح اور عیاں ہے کہ محنت کشوں کے اندر نظریات کے بارے میں جانکاری کا شعوراور ادراک مڈل کلاس کے نام نہاد مہذب لوگوں سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہوتاہے ۔ مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ بہت عرصہ پہلے جب میں اپنے آبائی علاقے ساﺅتھ ویلز میں محنت کشوں کوایک لیکچر دینے گیاتومیری گفتگودھات کے ایک مزدور سے ہوئی تو مجھے معلوم ہوا کہ اس محنت کش نے پرتگالی زبان سیکھی تھی، اسے ایک پرتگالی شاعر کا کلام بہت بھاگیاتھا جس کےلئے اس نے یہ زبان سیکھی۔ میں نے خود وہ نام پہلے نہیں سناتھا۔ یہ کہنا اور سمجھنا کہ مزدوروں کو کلچر سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا، کوئی دلچسپی نہیں ہواکرتی، یہ محض پیٹی بورژوا دانشوروں کی اپنی ذہنی اختراع کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ ان حضرات کا محنت کش طبقے کے بارے میں علم نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے ۔ اور وہ محنت کش طبقے کو خودسراورکورعقل سمجھنے کے علاوہ کوئی سوچ نہیں رکھتے ۔ اس حوالے سے محنت کش طبقے کی طرف ان کا رویہ اور نکتہ نظر سخت توہین آمیزہوتاہے ۔ اس قسم کے خواتین وحضرات دانستہ تنگ قسم کی جیکٹیں وغیرہ زیب تن کرکے مزدوروں کی بھونڈی نقالی کرکے ان کی تضحیک کرنے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں۔ اس قسم کے لوگ محنت کش طبقے کی تذلیل کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ، یہ لوگ مزدوروں کے بارے میں بدزبانی کرتے ہیں اور اس طرح سمجھتے ہیں کہ یہ مزدوروں کے بارے میں بہتر سدھ بدھ رکھتے ہیں ۔ مجھے ذاتی طورپر ایسے کئی نیم پڑھے لکھے مارکسسٹوں سے پالاپڑاہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ مزدوروں کی نقالی کرنا ایک اعلیٰ ذوق کی نشاندہی کرتاہے اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یوں کرکے وہ مزدوروں کی حقیقی زندگی کا اظہارکر رہے ہوتے ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اپنی گھریلو اور سماجی زندگی میں محنت کش کبھی اس قسم کی زبان یا لب ولہجہ نہیں اپناتے ۔ ویسے بھی کسی مارکسی کو کسی طوربھی یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ کسی انسان کی بھی،خواہ وہ کیسا ہی کیوں نہ ہو ، اس قسم کی نقالی کرے ۔ اپنے ایک معرکة الآرا مضمونThe Struggle For Cultural Speechمیں ٹراٹسکی نے اس قسم کی زبان دانی کو ایک غلامانہ ذہنیت قراردیاہے ۔ جس سے انقلابیوں کو ہرحال میں گریز کرنا چا ہیے ۔ انیس سو تائیس میں لکھے گئے اپنے اس مضمون میں ٹراٹسکی نے پیرس کمیون میں شریک جوتے بنانے والے کارخانے کے مزدوروں کو خراج تحسین پیش کیا جنہوں نے ایک قرارداد پاس کی تھی جس مےں قسمیں اٹھانے سے پرہیز کرنے اور بدزبانی کرنے والوں پر جرمانے عائدکرنے کا کہا گیا تھا۔ اکتوبر انقلاب کی قیادت بھی اس رویے سے بے خبر نہیں تھی اور انہوں نے اس بات کی اہمیت کو سمجھابھی اور برتا بھی کہ محنت کشوں کے ساتھ کسی قسم کی غلامانہ ذہنیت کا مظاہرہ نہ ہونے دیاجائے ۔ بالشویک قیادت نے اس بارے میں بہت ہی اعلیٰ و ارفع تہذیب کو اپنا شعار بنایاتھا۔ ”بدزبانی کا وطیرہ اور قسمیں اٹھاتے رہنا دورغلامی کی باقیات و روایات ہیںجس سے انسانی عزت و شرف کی توہین و تذلیل چھلکتی اور جھلکتی ہے ۔ نہ صرف دوسرے انسانوں کی بلکہ خود اپنی بھی توہین وتذلیل“۔ یہ الفاظ ہیں جو اکتوبرانقلاب کے بانی نے لکھے ہیں ۔ محنت کش طبقے میں کئی قسم کی پرتیں ہواکرتی ہیں جو کہ مختلف کیفیتوں اور تجربوں کی غمازی کررہی ہوتی ہیں ۔ طبقے کی سب سے باشعور پرت ٹریڈیونینوںاور مزدوروں کی پارٹیوں میں متحرک ہوتی ہے ۔ وہ ایک بہترمعیارزندگی کی متمنی و آرزومندہوتی ہے ۔ چنانچہ وہ نظریات اور خیالات میں گہری دلچسپی لیتی ہے ۔ ایسے محنت کش سیکھنے کےلئے بیتا ب ہوتے ہیں۔ ان کی یہی بیتابی و جستجوایک سوشلسٹ مستقبل کی ضمانت ہواکرتی ہے ۔ وہ مستقبل کہ جب مردوزن باہم مل کرنہ صرف جسمانی زنجیروں کو توڑ ڈالیں گے بلکہ زمانہ بربریت سے وابستہ ماضی کی بھی ان سب زنجیروں کو توڑڈالیں گے جنہوں نے اب تک ان کے دلوں اور دماغوں کو جکڑاہواہے۔ ٹراٹسکی نے تقریراور گفتگو کے مہذب ہونے پر بہت تاکیدی لکھاہے ”تعلیم اور کلچر کے حصول کےلئے جدوجہد ، محنت کش طبقے کی باشعورپرتوں کو روسی زبان کے تمام ذرائع پر اعلیٰ ترین مہارت ، متانت اور عمدگی سے روشناس کرادے گی “۔ ٹراٹسکی واضح لکھتا ہے کہ” انقلاب کا سب سے اولین فریضہ اور ہدف یہ ہے کہ وہ سب میں اپنے انسان ہونے کا احساس بیدار کر دے ۔ جنہیں انقلاب سے قبل یہ محسوس کرایاجاتا چلا آرہاہوتاہے کہ وہ انسان ہیں ہی نہیں کچھ اور ہیں “۔ چنانچہ ”انقلاب سب سے پہلے سب سے لازمی انسانوں کے اندر انسانیت کی بیداری کا نام ہے ۔ اور یوں یہ سلسلہ آگے بڑھتے ہوئے شخصی انسانی عزت و وقار کو بلند وبرتر سمجھتے اور کرتے ہوئے ہر انسان کو اس سوچ سے پیوست کردے گا کہ اگر کوئی انسان اس کے گرد کمزور رہ بھی گیا ہے تو اس پر توجہ دی جائے “۔،، ایضا،، ۔ ۔ ۔ سماج کی سوشلسٹ تبدیلی سے چنداں یہ مراد نہیں کہ یہ صرف طاقت کی تبدیلی کا اظہار ہوگا ۔ ہاں البتہ یہ انقلاب کا پہلا قدم ضرورہوگا۔ سچااور حقیقی انقلاب تو وہی ہوگا کہ جس میں انسان ضرورت کی دنیا سے نکل کر آزادی کی دنیا میں قدم رکھے گا ۔ اس خواب کو ابھی تعبیر ہوناہے ، اسے ابھی تعبیرکیاجاناباقی ہے ۔ اینگلز نے نشاندہی کی تھی کہ ہر انسانی سماج میں آرٹ، سائنس اور حکمرانی پر ہمیشہ ایک اقلیتی ٹولے کا قبضہ اور تصرف چلا آیاہے ۔ اور یہ اقلیت اپنی طاقت کو ہر جائز وناجائز ہتھکنڈے سے باقی ماندہ سماج کو اپنی پابندیوں میں جکڑے رہنے کےلئے بروئے کار لاتی چلی آرہی ہے۔ محنت کش طبقے کی حد درجہ محروم اور کچلی ہوئی پرتوں کے ساتھ کچھ رعایتیں برت کر اور انہیں کچھ مراعات سے مستفیدکرتے ہوئے ہم کسی طور بھی ان کے شعور یامقام میں اضافہ نہیں کرتے جو تاریخی طورپر ان کا حق اور ہمارا فریضہ بنتا ہے ۔ اس کے برعکس ہم ہمیشہ ان کی مددکرتے چلے آرہے ہیں ، جس سے ان کی عزت نفس ہمیشہ دبی رہتی ہے اور جس کے بھیانک اور رجعتی اثرات مرتب ہوتے چلے آئے ہیں ۔ ہم اس ساری بحث کو ان الفاظ میں سمیٹنا چاہتے ہیں کہ ترقی پسند اور انقلابی صرف وہی ہوتااور ہوگا جو کہ محنت کش طبقے کے شعور کی سطح کو بلندکرنے کی کوشش کرتاہے ۔ اور جو بھی اس شعور کو پسماندہ ودرماندہ رکھتاہے وہ رجعتی بھی ہے اور رد انقلابی بھی۔ مارکس وادیوں کو محنت کش طبقے کی سماج کو بدلنے کی جدوجہد میں سینہ تان کر ان کی رہنمائی اور ہم نوائی کرنی چاہیے۔ ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم مستقبل کے سوشلسٹ انقلاب کے معمار کیڈروں کی تعلیم وتربیت کریں ۔ جو مثبت ، ترقی پسند اور انقلابی ہے ، ہمیں اس کے حق میں ہاتھ اور آواز بلندکرنی چاہئے اور جو بھی پسماندہ ، بیہودہ اور قدیمی ہو اسے جرات اور متانت سے مسترد کردینا ہماراکام بنتاہے ۔ ہمیں محنت کش طبقے کی بصیرت کو بلند بھی کرناہے ‘ وسیع بھی اور گہرا بھی۔ اور اس کی ابتدا ہمیں محنت کش طبقے کی سب سے باشعورپرت سے کرنی ہوگی اور اس بصیرت کو ہمیں اس مقام تک لے جاناہے جس کی نشاندہی ٹراٹسکی نے کچھ یوں کی تھی ”یہ بہت ہی مشکل کام ہے کہ ہم نشاندہی کریں کہ مسقبل کی ”خود حکمرانی ،، کے خدوخال کیسے ہوں گے اور یہ اپنی تکنیک میں معیار کی کن بلندیوں کو پہنچے گی ، سماجی تعمیروتشکیل، اورنفسیاتی وجسمانی خود آگاہی ایک پہلواور ایک عمل ہی کے دورخ ہوں گے ۔ ہر قسم کا آرٹ ، لٹریچر، ڈارمہ ، مصوری اور فن تعمیر اس سب کے ساتھ مل کر ایک انتہائی خوبصورت شکل وصورت اپنالیں گے۔ زیادہ درست طورپر بات کی جائے تو وہ یہ ہے کہ وہ خلیہ جس کے اندر ایک کمیونسٹ انسان کی تعمیروتشکیل اور تعلیم وتربیت ہوگی اس کی بدولت وہ اپنے زمانے کے ممکنہ بلندترین معیارات کو اپنی شروعات بنائے گا ۔ انسان حتمی طورپر ہر حوالے سے مضبوط ،توانا، ذہین ، متےن ہو گا ۔ اس کا جسم انتہائی متوازن وہم آہنگ ہوگا ۔ اس کی چال ڈھال مترنم ہو جائے گی۔ اس کی آوازجلترنگ میں ڈھل جائے گی ۔ زندگی کرنے کی سبھی صورتیں اور کیفیتیں ڈرامائی طورپر تبدیل ہو کے رہ جائیں گی۔ اس وقت کے سماج کے اوسط انسان کی عمومی قدروقیمت اور قدوقامت ارسطو، گوئٹے اور مارکس کے برابرہوگی ۔ اور یہ تو ایک نکتہ آغازہوگا جواپنی انتہاﺅں کی طرف گامزن ہوگا“۔