سرمایہ داری کا گہرا ہوتا بحران طویل زوال کی جانب ۔ راب سیول

Urdu translation of Capitalist crisis deepens – no recovery in sight as economy heads for depression (08 September 2011)

سرمایہ داری کا عالمی بحران ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ بجائے بحالی کے، کئی ممالک میں ایک طویل دورانیے کے معاشی زوال (Depression) کی علامات نظر آ رہی ہیں۔ ایسا پہلے نہیں دیکھا گیا اور اس سے 2008-9ء کے بحران سے گھائل سرمایہ دارانہ نظام کو لاحق جان لیوا بیماری کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

عالمی سٹاک بازار گرتے جا رہے ہیں اور اگست کے ماہ میں لیہمن برادرز کے انہدام سے لے کر اب تک اثاثوں کی تیز ترین فروخت (sell-off)دیکھنے میں آئی ہے۔بہت سے لوگ خود سے یہ سوال کر رہے ہیں کہ کیا عالمی مندی کے اس دور میں معیشت کی حالیہ بے جان سی بحالی کو جاری رکھا جا سکتا ہے؟ یورو زون کے بہت سے ممالک میں قرضوں کی قیمت تیزی سے بڑھ رہی ہے اور قرضوں کی منڈیا ں افرا تفری کا شکار ہیں۔ بانڈوں پر تیزی سے بڑھتے منافع کے ساتھ اٹلی اور سپین ناقابلِ برداشت دباؤ کا شکار ہیں۔ یورپین سنٹرل بینک کی جانب سے مداخلت اور اس بحران کو پھیلنے سے روکنے کے لیے اطالوی اورہسپانوی بانڈوں کی خریداری کے مایوس کن اقدامات کے باوجود ایسا ہو رہا ہے۔

اس کے علاوہ، یونانی حکام یونان کو دیئے جانے والے دوسرے بیل آؤٹ سے منسلک کٹوتیوں پر آئی ایم ایف اور یورپی یونین کے ساتھ کسی معاہدے پر نہیں پہنچ سکے، اس سے بحران کی شدت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ قرضے کی ادائیگی کی قیمت کی نئی بلندیوں کو چھونے کے ساتھ، RBS(رائل بینک آف سکاٹ لینڈ) کا ماننا ہے کہ یونان اب دسمبر میں دیوالیہ ہو گا۔اور جب ایسا ہو گا، خواہ دسمبر میں یا جب بھی، پھر کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اس افرا تفری کی کیفیت پر عالمی معاشی سست روی کے ایک نئے زوال میں تبدیل ہو جانے کے خوف کے سائے ہیں۔

سونے اور سوئس فرانک جیسی محفوظ پناہ گاہوں کے حصول کے جنون نے کرنسی کی جنگ کے نئے خطرے کو جنم دیا ہے کیونکہ حکومتیں اپنی معیشتوں کو بچانے کے لیے یک طرفہ اقدامات کرنے پر مجبور ہیں۔ سوئس مرکزی بینک نے ایک حیران کن اعلان میں کہا ہے کہ وہ اپنی تیزی سے اوپر جاتی ہوئی کرنسی کو یورو سے ساتھ منسلک کر رہا ہے جس کا مقصد اس کی قیمت کو مزید اوپر جانے سے روکنا اور اس کی مشکلات زدہ برآمدکنندگان کے لیے آسانی پیدا کرنا ہے۔ سوئس مرکزی بینک ’’لا محدود مالیت‘‘ کی غیر ملکی کرنسیاں خریدنے پر تیار تھا لیکن اس سے دیگر ممالک کی جانب سے ’’کرنسی کی جنگ‘‘ کی طرز پر جوابی کاروائی کا خطرہ پیدا ہو گیا۔

لیکن یہ تو کہیں بڑے مسئلے کی ایک چھوٹی سی جھلک ہے۔باقی دنیا کی معیشت میں تیزی سے سست روی آ رہی ہے، ایک ایسے وقت میں جب عام حالات میں اسے بڑھنا چاہیے۔ اس کیفیت کا ’’جاپان جیسی صورتحال‘‘ میں چلے جانے کا خطرہ موجود ہے اور امریکہ پہلے سے ہی کم شرح نمو کی دہائی میں پھنس چکا ہے۔ کاروباری جریدے سٹی اے ایم (CityAM)کے مطابق ’’عالمی معاشی سست روی قریباً تمام بڑی مغربی معیشتوں میں کارخانوں کو برباد کر رہی ہے۔ دنیا کی سات بڑی معیشتوں جی7- میں ایک کے علاوہ باقی سب میں پیداوار میں گزشتہ ماہ کمی آئی ہے ، اور یورو زون اور برطانیہ میں تو صنعتی شعبے کا حجم بھی کم ہوا ہے ۔ پرچیزنگ منیجر انڈیکس (PMI)کے مطابق، اگست میں برطانیہ میں پیداوار کی نمو 26ماہ کی کم ترین سطح پر آ گئی۔ برآمدات کے نئے آرڈروں میں مئی2009ء کے بعد سے سب سے بڑی گراوٹ آئی ہے ، اور کمپنیاں امریکہ اور یورپ سے مانگ میں کمی کی نشاندہی کر رہی ہیں، برطانیہ میں یہ شعبہ اس سال کے آغاز تک صحت مندانہ ترقی کر رہا تھا اور تجزیہ کار پر امید تھے کہ یہ معاشی بحالی کو آگے بڑھا سکتا ہے۔ لیکن جنوری سے اب تک یہ انڈیکس 12پوائنٹ گر چکا ہے۔

اس کی 20سالہ تاریخ میں اس سے تیز گراوٹ صرف ایک مرتبہ لیہمن برادر کے انہدام کے وقت ہوئی تھی۔‘‘ (2/9/11) حالیہ مہینوں میں بڑی غیر ملکی منڈیوں کے پھیلاؤ میں تیزی سے کمی آئی ہے، خاص طور پر یورپ اور امریکہ میں۔جولائی میں پیداوار 49.4پی ایم آئی اسے کم ہو کر 49 پر آگئی ہے۔50سے کم سکور کا مطلب معاشی زوال ہوتا ہے۔ فرانس اور اٹلی میں بھی پیداوار میں کمی آئی ہے اور ان کا سکور بالترتیب 49.1اور 47ہے ، یہ ان ممالک کا دو برس میں کم ترین سکور ہے، سپین (45.3)اور یونان(43.3)میں پیداوار میں کمی اس سے بھی کہیں بد تر ہے۔ امریکہ(50.6)اور جرمنی(50.9) میں بھی پیداواری شعبے میں ترقی رک گئی ہے ۔

پی ایم آئی (PMI) ڈیٹا اکٹھا کرنے والے ادارے مارکٹ (Markit)کے جیف معیشت دان کرس ویلیئم سن کے مطابق ’’ اس برس کے آغاز سے جس تیزی کے ساتھ ترقی کی رفتار میں کمی آئی ہے، وہ بہت پریشان کن ہے‘‘۔ مانگ میں کمی کے ساتھ، زائد پیداوار پھر سے سامنے آ گئی ہے اور تیار شدہ اشیاء کے ذخیروں میں اضافہ ہوا ہے۔ مندی کی انتہا کے تین سالوں میں یہ پہلا اضافہ ہے۔ ’’اگست میں تیار مال کے ذخیروں میں اضافے اور آرڈروں میں کمی سے یہ لگ رہا ہے کہ صنعتوں کو آنے والے مہینوں میں پیداوار میں مزید کمی کرنا پڑے گی‘‘۔(فنائنشل ٹائمز) جنوری2009ء کے بعد سے یوروزون سے نئے برآمدی آرڈروں میں تیز ترین کمی واقع ہوئی ہے اور امریکہ میں مسلسل دو ماہ میں نئے آرڈروں میں کمی آئی ہے جو کہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت کے لیے کوئی نیک شگون نہیں ہے۔ امریکی معیشت کی کمزوری کا مزید اندازہ دنیا کی سب سے بڑی سٹور کمپنی وال مارٹ (Walmart)کی فروخت میں کمی سے لگایا جا سکتا ہے جس کی فروخت میں مسلسل نو سہ ماہیوں سے کمی آرہی ہے۔ یورو زون میں صارفین کے اعتماد میں بیس سال کی تیز ترین کمی آئی ہے اور اب یہ منفی 16.6فیصد ہے۔ یہ ایک ماہ میں اکتوبر2008ء میں لیمن برادر کے انہدام کے وقت سے بھی زیادہ گراوٹ ہے۔ اسی دوران یورو زون میں بے روزگاروں کی تعداد بھی بڑھ کر 1کروڑ57لاکھ تک پہنچ گئی ہے جو کام کرنے کی اہل آبادی کا10%ہے۔

ترقی یافتہ دنیا سے تو معیشت میں ترقی غائب ہوچکی ہے۔ دوسری سہ ماہی کے اعداد و شمار کے مطابق مجموئی ملکی پیداوار (GDP) میں سالانہ شرح نمو امریکہ کی 1.3فیصد، یورو زون اور برطانیہ کی 0.8فیصد، جرمنی کی 0.5فیصد، فرانس کی صفر اور جاپان کی منفی1.2فیصد ہے۔ فنانشل ٹائمز کے مطابق ’’ تاریخ کی روشنی میں دیکھنے پر یہ معاشی جمودبد تر دکھائی دیتا ہے۔ایک گہری مندی کے بعد ایک مضبوط بحالی ہونی چاہیے کیونکہ برے سالوں میں فارغ پڑی لیبر اور سرمایہ کام میں لایا جاتا ہے۔لیکن ایسا نہیں ہو رہا۔معاشی ترقی کے بغیر چار سالوں کا مطلب کم شدت کی کساد بازاری (Depression) ہے‘‘(17/8/11) برطانیہ میں دکانوں پر خریداری کے حوالے سے اگست دو سالوں کا بد ترین مہینہ تھا۔ بی ڈی او ہائی سٹریٹ سیلز ٹریکر(BDO High Street Sales Tracker) کے مطابق گزشتہ برس اسی ماہ کے مقابلے میں فروخت میں 2.2فیصد کمی آئی ہے جو2009سے لیکر اب تک سب بھی بڑی کمی ہے۔تعمیرات میں آرڈر 30سالہ کم ترین سطح پر ہیں ۔2011ء کی پہلی اور دوسری سہ ماہی کے درمیان سرکاری عوامی رہائشوں اور دوسرے سرکاری پراجیکٹس کے آرڈروں میں ایک تہائی کمی واقع ہوئی ہے۔

بجٹ کی ذمہ داری کے محکمے(Office of Budgetary Responsibility) نے اس بحران کے نتیجے میں برطانیہ میں کٹوتیوں کی کئی دہائیوں کے متعلق تنبیہہ کی ہے۔ بینک آف انگلینڈ کے گورنر کا کہنا ہے کہ ’’میرے خیال میں اس مسئلے سے نکلنے کی کوئی راہ نظر آنے میں کئی سال لگیں گے‘‘۔ سرمایہ دارانہ نظام کو لاحق بحران کی حقیقت یہ ہے۔ معاشی بحالی کے متعلق ساری گفتگو ختم ہو گئی ہے۔اعتماد خاک میں مل چکا ہے اور اس کی جگہ ایک نئے بحران کے خوف نے لے لی ہے۔ہر دن یورپ کے بحران کے نئے مرحلے کا پیغام لاتا ہے اور یورپی اور امریکی سرمایہ داری بربادی میں مزید دھنستی چلی جا رہی ہیں۔

معاشی بحران نے سیاسی بحران کو جنم دیا ہے اور حکومتیں اس گراوٹ سے نمٹنے کی کوششوں میں لگی ہیں۔امریکہ میں قرضوں کی حد پر شدید اختلافات نے بجٹ میں بڑے پیمانے کی کٹوتیوں کو جنم دیا ہے۔ ایسے ماحول میں معیشت کو متحرک کرنے کے لیے مزید حکومتی اخراجات کے بارے میں سوچا نہیں جا سکتا۔ لیکن اس سے 1937ء کا خوف منڈلانے لگا ہے جب بجٹ کے خساروں کو کم کرنے کی کوششوں سے معیشت دوبارہ گراوٹ میں چلی گئی تھی۔تاریخ خود کو دہرانے کی کوشش کر رہی ہے لیکن ایک بلند تر سطح پر۔

بعض اوقات، سرمایہ داری کے سنجیدہ پالیسی سازمارکسسٹوں والے نتائج پر پہنچ جاتے ہیں، لیکن ایک مخالف طبقاتی نکتہ نظر کے ساتھ۔ 2008-9ء کی گراوٹ کے وقت ہی ہم نے تنبیہ کر دی تھی کہ سرمایہ دارانہ نظام ایک نا قابل حل بحران میں داخل ہو چکا ہے۔سرمایہ دارانہ نظام کے معذرت خواہوں کواب اس حقیقت کا احساس ہو رہا ہے۔ معاشیات پر نوبل انعام پانے والے جوزف سٹگلٹز نے حال ہی میں کہا ہے کہ ’’ طویل عرصے تک جاری رہنے والی مندی کے بعد اب پر امید تناظر لگتا ہے‘‘۔ اس سے زیادہ اہم فنانشل ٹائمز کے چیف معاشی تجزیہ نگار مارٹن ولف کی رائے ہے جو بحران کے متعلق بات کو گھما پھرا کہ نہیں کرتا۔جب اس سے پوچھا گیاکہ کیا بحران کا دوسرا مرحلہ) (Double dip recessionآئے گا تو اس کا جواب نفی میں تھا کیونکہ ’’ابھی پہلا مرحلہ ختم نہیں ہوا‘‘، اس نے مزید کہا کہ ’’ اصل سوال یہ ہے کہ یہ بحران کتنا گہرا اور کتنا لمبا چلتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ 2011ء کی دوسری سہ ماہی تک دنیا کی 6 سب سے بڑی زیادہ آمدنی والی معیشتوں میں سے کوئی بھی اس بحران سے قبل2008 ء کی پیداوار کے حجم سے آگے نہیں بڑھ سکی۔امریکہ اور جرمنی اس شروعاتی سطح کے قریب ہیں اور فرانس اس سے کچھ پیچھے ہے۔برطانیہ، اٹلی اور جاپان تو بہت ہی پیچھے ہیں۔‘‘

ولف مزید کہتا ہے کہ ’’یہ بحران کوئی عام بحران نہیں ہے۔ جب معیشتوں میں اتنی تیز گراوٹ آئے ،جیسا کہ بحران کے بد ترین دنوں میں ہوا(جی ڈی پی میں گراوٹ فرانس میں 3.9فیصد سے لیکر جاپان میں9.9فیصد تک رہی)تو ایسی بڑھوتری جو پیداوار کو شروع کی سطح تک بھی نہ لا سکے بحالی تو نہیں ہو گی۔ ایسے حالات میں یہ زیادہ درست ہے جب بے روزگاری زیادہ ، روزگار کم اور زائد صلاحیت زیادہ رہے۔ امریکہ میں بے روزگاری کی شرح اب بھی بحران سے پہلے کی سطح سے دوگنی ہے‘‘۔ وہ نتیجہ اخذ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ کیونکہ مرکزی بینکوں نے اپنے سارے وسائل جھونک دیئے ہیں ’’ایک اور گراوٹ تباہ کن ہو گی‘‘۔ (فنانشل ٹائمز، 31/8/11)

چند روز بعد اس نے برطانوی معیشت کا تجزیہ کیا۔اور بحران کے بارے میں بغیر لگے لپٹے صاف بات کی کہ ہم ایک کساد بازاری سے گزر رہے ہیں۔ ہم اس کی تحریر کو تفصیل سے لکھ رہے ہیں تاکہ ہمارے قارئین درست طور پر جان سکیں کہ بورژوا ماہرین کا کیا کہنا ہے۔ ’’برطانیہ میں حالیہ کساد بازاری کم از کم پہلی عالمی جنگ کے بعد کے دور کی طویل ترین ہو گی۔شرح نمو میں کوئی ڈرامائی اضافہ نہیں اور قوی امکان ہے کہ مجموعی طور پر پیداوار میں کمی ’عظیم بحران‘ سے بھی زیادہ ہو۔ یہ سب کچھ پہلے ہی خاصہ پریشان کن ہے لیکن اس بھی زیادہ تشویش ناک بات یہ ماننا ہے کہ اس سے بچنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔

’’کساد بازاری (Recession) معاشی زوال کا ایک دور ہوتا ہے۔مالی انحطاط (Depression) کی تعریف یہ کی جا سکتی ہے کہ ایسا دور جس میں پیداوار اپنی ابتدائی سطح سے کم ہو۔ حال ہی میں تین محققین نے ماہانہ جی ڈی پی کی بنیاد پر برطانیہ میں بحرانات کا تجزیہ کیا ہے۔ انہوں نے 1920-24ء سے لیکرموجودہ دور تک کے برطانیہ کے بحرانات کی شدت اور دورانیے کا تجزیہ کیا ہے اور ان میں مارٹن ویل بھی شامل ہیں جو اب بینک آف انگلینڈ کی مالیاتی پالیسی کمیٹی کے ممبر ہیں۔ ’’ابھی تک کے طویل ترین بحرانات گزشتہ صدی میں جون 1979ء سے جون1983ء (مارگریٹ تھیچر کا دور) اور جنوری1930ء سے دسمبر 1933ء(عظیم بحران) ہیں۔موجودہ بحران کو ان سے مختصر ہونے کے لیے اپریل 2012ء تک ختم ہونا ہو گا۔ لیکن پیداوار ابتدائی سطح سے قریباً 4فیصد کم ہے اور صرف آٹھ ماہ باقی ہیں۔اگر شرح نمو ابھی 4فیصد سالانہ بھی ہو جائے تب بھی اس بحران کا خاتمہ ہونے میں ایک اور سال لگ جائے گا۔ اگر شرح نمو 1.5فیصد سالانہ ہو تو اس بحران کا خاتمہ ہونے میں 72ماہ لگیں گے، یعنی یہ بحران اس ملک میں ماضی کے طویل ترین بحران سے 50فیصد زیادہ طویل ہو گا۔

’’بحران کی شد ت کا اندازہ گراوٹ کی رفتار یا پھر اس کے شروعاتی مقام سے مجموعی نقصان کا موازنہ کر کے کیا جا سکتا ہے۔1920-24ء کا زوال تیز ترین تھا اور اس کے بعد کا بحران سب سے شدید تھا جس کے نتیجے میں جی ڈی پی میں 7.1فیصد کمی آئی تھی۔ لیکن موجودہ بحران اس سے زیادہ پیچھے نہیں ہے جس میں یہ کمی 6.5فیصدہے۔ اس مرتبہ جی ڈی پی میں مجموعی کمی 1930ء کی دہائی سے بھی زیادہ ہونے کا امکان ہے۔ اس وقت یہ جی ڈی پی کا 17.7فیصد تھی ا و ر اس مرتبہ ابھی تک یہ 14.5فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ لیکن یہ بحران ابھی ختم نہیں ہوا۔ اگر سالانہ شرح نمو 2فیصد رہے تو جی ڈی پی کا مجموعی نقصان18فیصد بنتا ہے۔ یہ برطانیہ کے اعتبار سے بہت ہی بڑا بحران ہے‘‘۔آخر میں وہ لکھتا ہے کہ ’’برطانیہ گزشتہ ایک سو برس کے طویل ترین اور سب سے نقصان دہ بحران کا شکار ہے۔ گزشتہ بحرانوں کے مقابلے میں اس بحران کی خصوصیت بحالی کے مرحلے کی خوفناک حد تک کمزوری ہے۔ اس کی زیادہ معقول وجہ طلب کی کمزوری ہے نہ کہ امکانی رسد میں گراوٹ۔اور ابھی تک عام خیال یہی ہے کہ کچھ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ایسی تباہ کن پیشن گوئیوں سے ہوشیار رہو۔ یہ بہت آسانی سے خود کو سچا ثابت کر لیتی ہیں‘‘۔ فنانشل ٹائمز (2/9/11)

یہ صورتحال برطانیہ اور اور دنیا کے لیے بالکل نئی ہے۔ سرمایہ داری کا بحران بہت سے حوالوں سے مزید گہرا اور قابو سے باہر ہو گیا ہے۔ ولف جس کی وضاحت کر رہا ہے وہ کوئی وقتی بحران (cyclical crisis)نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ ڈھانچے کا بحران (Structural crisis) ہے۔ جزوی بحالیاں ہو سکتی ہیں، جیسا کہ 1930ء کی دہائی میں ہوا تھا، لیکن عمومی طور پر ایک زوال ہے۔سماج کی ترقی کی بنیاد پیداواری قوتیں 1930ء کی دہائی میں بند گلی میں مقید ہو چکی تھیں۔آج بھی یہ بات درست ہے ۔ ان کو ذاتی ملکیت اور قومی ریاست نے جکڑ رکھا ہے۔

سرمایہ دار جو بھی کریں گے وہ غلط ثابت ہو گا۔ اگر وہ ریاستی اخراجات میں کمی کریں تو اس سے منڈی سکڑے گی اور بحران مزید گہرا ہو گا۔اگر وہ ریاستی اخراجات میں اضافہ کریں تو بجٹ کا خسارہ اور بڑھ جائے گا اور ریاستی قرضوں کا کہیں بڑا بحران جنم لے گا۔ وہ ایک ناقابل حل مسئلے میں پھنس چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ کوئی معمول کی بحالی نہیں ہے۔ عالمی پیمانے کی اس نہ ختم ہونے والی افرا تفری کے پسِ منظر میں تمام ممالک کے محنت کش طبقے پر حملے کیے جا رہے ہیں۔سرمایہ داری اب پائیدار اصلاحات کرنے کی متحمل نہیں رہی۔ وہ دن جا چکے ہیں۔اس کے بر عکس یہ دور اصلاحات کے خاتمے اور وحشیانہ کٹوتیوں کا ہے۔

محنت کشوں کے لیے سرمایہ دارانہ نظام دہائیوں پر محیط کٹوتیاں ہے۔نظام کی مرمت کی کوششیں بے کار ہیں۔ صرف سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے اور سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت کے قیام سے ہی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس عذاب سے نجات پائی جا سکتی ہے۔

Translation: Chingaree.com (Pakistan)