اخوان المسلمون کی جیت؛ لگا ہے مصر کا بازار دیکھو

مصر میں اخوان المسلمون کے امیدوار محمد مرسی نیمصری الیکشن کمیشن کے اعلامیے کے مطابق51.73 فیصد ووٹ لے کر کامیابی حاصل کر لی ہے، اس کے مقابلے میں مصری فوجی کونسل کے امیدوار احمد شفیق نے48.73فیصد ووٹ لیے۔ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم ان اعداد و شمار کا بغور تجزیہ کریں۔سرکاری اعداد وشمار کے مطابق الیکشن میں مجموعی طور پر 51.8فیصد ٹرن آؤٹ رہا۔لیکن بے شمار مبصرین کے مطابق ووٹ ڈالنے والوں کی تعداداس سے بہت ہی کم تھی۔اور اگر ہم ان سرکاری اعددوشمار کو کچھ دیر کیلئے درست تسلیم بھی کرلیں تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اخوان کو مصرکے کل ووٹوں کا صرف25فیصد حاصل ہواہے۔ اس کے علاوہ عین ممکن ہے کہ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے افراد کی نا معلوم تعداد نے بھی اخوان ا لمسلمون کو ’’چھوٹی برائی‘‘ گرادانتے ہوئے ووٹ ڈالا ہو۔

اس نتیجے کے سامنے آتے ہی التحریر سکوائر نعروں سے گونج اٹھالیکن یہ سب جوش اور جذبہ زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکے گا۔کیونکہ یہ الیکشن اور اس کے نتائج مصری سماج میں نیچے موجود فالٹ لائنوں کی موجودگی میں ہوئے ہیں اور کسی بھی وقت یہ لائنیں سیاسی و سماجی زلزلے کا موجب بن سکتی ہیں۔ایک موقع پر تو یہ تضادات اپنی انتہاؤں سے باہر جا چکے تھے اور جرنیل اگر اپنے صدارتی امیدوار کی کامیابی کا اعلان کر تے تو یہاں ایک شدید نوعیت کی خانہ جنگی پھوٹ سکتی ہے۔یہی مصری فوجی جنتا کی واضح نیت بھی تھی کہ اعلان کردیا جائے۔دوسری طرف التحریر سکوائر میں شدید ترین گرمی کے باوجودہجوم بڑھتا چلاجا رہاتھا۔اور یہ سب لوگ بڑے صبروتحمل کے ساتھ الیکشن کے نتائج سن رہے تھے۔الیکشن کمیشن کی جانب سے آنے والے نتائج کو لاؤڈ سپیکروں کے ذریعے سنایا جارہاتھا۔بہت سے لوگوں نے تو خیموں کے اندر ٹی وی سیٹ رکھے ہوئے تھے۔سب تیار تھے کہ یا تو جشن ہو گا یا پھر احتجاج۔

تناؤ کی شدت تھی کہ بڑھتی ہی چلی جارہی تھی۔ایک خوف تھا کہ اگر شفیق کو کامیاب قراردے دیا جاتاہے تو اس سے بدترین قسم کے فسادات پھوٹ پڑیں گے۔اخوان کاامیدوارمرسی اور شفیق (جو کہ سابق وزیر اعظم بھی رہ چکا ہے)دونوں ہی اپنی اپنی کامیابی کے دعوے کر رہے تھے جبکہ مصری جرنیل بہت ہی مضطرب تھے کہ وہ کیا کریں، کیا نہ کریں اورپھر انہیں اپنے سینوں پرپتھر رکھتے ہوئے فیصلہ کرنا پڑا کہ پسپاہونا زیادہ مناسب ہے۔ اوراس بات پر کسی کو کیا شبہ ہوسکتا ہے کہ واشنگٹن کی بھی یہی خواہش اور حکم تھا۔واشنگٹن ہی اس سارے کھیل کو چلا رہاتھا۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے اس کے ترجمان فاروق سلطان نے اس موقع پر خطاب کیا جس (کے لہجے)سے واضح ہورہاتھا کہ وہ نتیجے کا اعلان کرنے سے صاف گریز کررہاتھا۔اورپھر اچانک فضا چیخوں اور نعروں سے گونج اٹھی جب اعلان ہوا اور تصدیق ہوگئی کہ محمد مرسی جیت چکا ہے۔ہر طرف جشن کا سماں ہونے لگا، لوگ جھومتے ناچتے گاتے لہلہاتے ہوئے التحریر کی طرف جانے لگے۔مرسی،مرسی،اللہ اکبر کے نعرے لگنے لگے۔اس کے ساتھ ساتھ انقلاب انقلاب،جاری ہے انقلاب،آخری فتح تک انقلاب،ہر شہر ہر گلی میں انقلاب کے بھی نعرے بلند ہونے شروع ہوگئے۔

یوں ایک مختصر وقت تک کیلئے مصر کے عوام ایک دوسرے کیساتھ بہم اور متحدہوتے نظر آئے۔انہیں خوشی کا بھی احساس ہوا اور سکون کا سانس بھی ملا۔لیکن پھر یہ سار جوش اور جذبہ مصری سماج میں موجود شدیدترین بے چینی کو بھی عیاں کررہاہے جو کہ وہاں کی سیاست اور سماجیات میں انتہاؤں کو پہنچی ہوئی ہے۔مصریوں کی بڑی تعداد کے نزدیک اخوان المسلمون کے سیاسی فرنٹ،فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی کے امیدوار کی کامیابی رد انقلاب کے کھلے دشمنوں کی واضح شکست کی غمازی کر تی ہے۔لیکن اس وقت پوری مصری قوم مکمل طورپر پولرائزہو چکی ہے۔

ّ’’سارے مصریوں کا صدر‘‘

اس مہینے کے آخر تک اخوان کا امیدواراس نیک توقع کے ساتھ اپنا حلف اٹھائے گا کہ فوج کسی طور اب کوئی ایسا ویساحیلہ حربہ استعمال نہیں کرے گی۔ فوجی حکمرانوں کی جانب سے نامزدکیے گئے وزیر اعظم کمال ال گنزوری نے سوموار کے روزنومنتخب صدرمحمد مرسی سے ملاقات کے بعد اپنا استعفٰی پیش کیا اس نے صدر کی نئی ٹیم کے سامنے آنے تک نگران کے طور پر کام کرناہے جبکہ نئے صدر نے اپنا دفتر سنبھال لیا ہے اور وہ اپنی ٹیم تشکیل دینے میں مصروف ہوگیا ہے۔نئے صدر نے خود کو ہر مصری کا صدر قرار دیاہے لیکن اس کے بیان سے مصری سماج میں موجود بے چینی اور غم وغصہ کسی طور کم نہیں ہوگا۔ مصر کی عیسائی آبادی اخوان المسلمون کے تسلط سے سہمی ہوئی ہے۔جبکہ سیکولر انقلابی،جنہوں نے اخوان کو کمتر برائی قرار دینے کی فاش غلطی کرتے ہوئے اسے ووٹ دیے ہیں،آنے والے دنوں میں سیاسی حقائق ان کوسخت اور تلخ اسباق سکھائیں گے۔سب سے بڑھ کر محنت کش کسان اور نوجوان ہیں کہ جن کی امنگیں اور آرزوئیں انقلاب نے بیدار کر دی ہوئی ہیں۔ابھی تک ان کو روزگار اور گھرمیسر نہیں ہو پائے ہیں۔

مصرکے نئے صدر نے استحکام،آزادی اور خوشحالی کے نعرے دیے ہیں۔لیکن ان سبھی کا براہ راست تعلق اور تصادم سرمایہ دارانہ نظام کو درپیش بحران کے ساتھ ہے۔مصر کی معیشت ایک شدید بحران کی حالت میں ہے۔بیروزگاری عروج پر اور غربت انتہاؤں کو چھو رہی ہے اور بے گھروں کی اکثریت اب قبرستانوں میں رہنے پر مجبور ہوتی جارہی ہے۔یوں مصر کے لوگ اس نئی انتخابی کامیابی کو زندگی کے ٹھوس حقائق کے نقطہ نظر سے پرکھیں گے۔خاص طورپر معیشت اہم کردار ادا کرے گی۔عام لوگوں کیلئے انقلاب کوئی بھی معنی نہیں رکھتا ہوتا ماسوائے روٹی روزگاراور مکان کے۔

انقلاب کے بعد سے مصر کی وزارت خزانہ سنبھالنے والے سمیر رضوان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ’’نئے صدر کو انتہائی سخت اور مشکل مالی مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔اپنی وزارت کا چارج سنبھالنے کے پانچویں دن بعدمجھے معلوم ہواکہ ہمارے پاس کل 36بلین ڈالرز کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر ہیں جوکہ صرف اٹھارہ مہینوں کی درآمدات کیلئے کافی تھے۔اب یہ ذخائر صرف پندرہ بلین ڈالرزسے کم رہ گئے ہیں۔مصر ی معیشت اپنی بنیادوں تک ہلی ہوئی ہے۔سیاحت ہر اعتبار اور ہر حوالے سے ختم ہو کے رہ گئی ہے۔برآمدات بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔بیروزگاری12فیصدتک پہنچی ہوئی ہے اور یہ سرکاری اعدادوشمار ہیں جو یقینی طور پر کم ہیں۔42فیصد سے زائد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں‘‘۔

سب سے بڑھ کر جو بات تشویشناک ہے وہ یہ کہ فوجی جنتا اور سابقہ افسر شاہی اس وقت تک بھی سیاہ وسفید کی مالک اور منتظم ہے۔اپنی اس طاقت کے اظہار کے طورپر انہوں نے صدارتی الیکشن سے قبل پارلیمان تحلیل کر دی اور سبھی اختیارات اپنے ہاتھوں مرکوزکرلئے۔

چنانچہ یہ نیا منتخب شدہ صدر جرنیلوں کے ہاتھوں میں ایک اوزارکے طورپر کام کرے گا۔فوجی جرنیلوں کی جانب سے قائم کی گئیSAFجس نے انقلاب کے بعد اقتدارسنبھال لیا تھا،نے کئی غیر جمہوری احکامات لاگو کردیے ہیں۔جن میں فوج کو یہ اختیار ہے کہ نئے آئین کی تشکیل تک عام شہریوں کو تحقیق و تفتیش کیلئے گرفتار کر سکتی ہے۔ایک عدالت کی طرف سے یہ فیصلہ آنے کے بعد کہ ایوان زیریں کے الیکشن کیلئے موجود قانون ناموزوں ہے،پارلیمنٹ کو تحلیل کر دیا گیا،SAFنے ایک حکم کے ذریعے سبھی آئینی اختیارات اپنے ہاتھوں میں لے لیے اور خود ہی یہ فریضہ اپنے ذمے لے لیا کہ وہی نیا آئین تشکیل دے گی؛فیلڈ مارشل تنتاوی نے نیشنل ڈیفنس کونسل کوازسرنو تشکیل دیتے ہوئے جرنیلوں کو نیشنل سیکورٹی کے امور کی ذمہ داریاں سونپ دی ہیں۔یوں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اس الیکشن سے کوئی ایک بھی پیش رفت ناممکن العمل ہے۔

استحکام

الیکشن کا نتیجہ سامنے آتے ہی لاکھوں لوگ التحریر سکوائر میں ’’فوجی کنٹرول مردہ باد‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے اکٹھے ہوئے۔لیکن نئے منتخب صدر صاحب نے اس بارے اپنی تقریر میں اشارہ تک بھی نہیں کیا۔البتہ محمد مرسی نے سبھی مصریوں سے اپنے اتوار کے خطاب میں یہ اپیل کی کہ وہ سب مل کر قومی استحکام کیلئے کام کریں۔اس کے ساتھ ہی اس نے یہ وعدہ کیا کہ وہ ایک منفرد صدر بن کے دکھائے گا۔مرسی نے انقلاب کے دوران جاں بحق ہونے والوں کو خراج تحسین پیش کیا کہ جن کی قربانیوں کے نتیجے میں حسنی مبارک سے جان چھوٹی لیکن اس کے ساتھ ہی اس نے مصری افواج کی طاقت کی بھی بہت تعریف کی۔اس نے یہ بھی کہا کہ وہ سبھی عالمی معاہدوں کی پاسداری کرے گا اور یہ بھی کہا کہ’’اب کسی بھی قسم کے تنازعوں اور جھگڑوں کیلئے کوئی گنجائش نہیں ہوگی‘‘۔

یہ واشنگٹن اور مسلح افواج کیلئے ایک خفیہ پیغام تھا۔مرسی اندونوں کے تنے ہوئے اعصاب کو نارمل کرنے کیلئے بہت بے تاب ہورہاہے۔وہ درحقیقت جو کچھ کہنا چاہ رہاہے وہ کچھ یوں ہے کہ’’گھبراؤ مت،آپ ہم پر اعتبار کر سکتے ہیں۔آپ کی طرح سے ہم بھی انقلاب کو آگے بڑھنے سے روکنے اور اسے ختم کرنے کے آرزومند ہیں۔ہم اس سارے انتشار اور عدم استحکام کو ختم کرنا چاہتے ہیں کہ جن کی بدولت کاروبار مملکت رکا ہواہے ؛اور ہم یہ کام آپ سے کہیں زیادہ بہتر طریقے سے کر سکیں گے اور یہ سب ہم بندوق کی نوک پر نہیں بلکہ عیاری اور چالاکی سے کریں گے‘‘۔

ادھر سامراجیوں نے بھی فوری طور پر اخوان المسلمون کواس کا جوابی پیغام بھیجا’’ہم آپ کی بات کو بخوبی سمجھ رہے ہیں۔حالیہ الیکشن جمہوریت کی طرف پیش قدمی کیلئے ایک اہم سنگ میل ثابت ہوگا‘‘۔اسرائیلی وزیر اعظم نے بھی نئے صدر کو نیک خوہشات کا پیغام بھیجتے ہوئے اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ ہم نئی حکومت کے ساتھ باہمی امن کے فروغ کیلئے کام کریں گے۔

تاہم ایران کی خبر رساں ایجنسی فارس نیوز کی جانب سے جاری کردہ ایک خبر کسی حد تک تشویش ناک تھی جس میں بتایا گیا ہے کہ مرسی نے ایران کے ساتھ اپنے تعلقات کوفروغ دینے کا منصوبہ بنایاہے تاکہ خطے میں استحکام کو متوازن رکھا جاسکے۔لیکن مرسی کے ایک ترجمان نے تردید کی ہے کہ مرسی نے ایسا کوئی انٹرویونہیں دیا۔شومئی قسمت سے واشنگٹن اور تہران دونوں کو خوش رکھنے کے خواہشمندوں کیلئے صورتحال اچھی نہیں ہے۔نئے صدر کے ترجمان یاسر علی نے کہا ہے کہ صدر کی اولین ترجیح ملک میں استحکام کا قیام اور فروغ ہے۔سرکاری ٹیلی ویژن پر صدر مرسی کو فیلڈ مارشل جنرل محمدحسین تنتاوی کے ساتھ ملاقات کرتے دکھایاگیاہے۔جو کہ حکمران فوجی کونسل کا سربراہ،مسلح افواج کی سپریم کونسل کا چیرمین بھی ہے۔ردانقلابی قوتوں کے اس سربراہ نے نئے صدر کے ساتھ ملاقات کے بعد کہا ہے کہ ’’ہم نومنتخب آئینی صدر کے ساتھ مل کر شانہ بشانہ کام کریں گے اور ملک کے اندر استحکام کیلئے اس کے ساتھ تعاون کریں گے‘‘۔

لیں جی دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوگیا! فوجی جرنیل اور اخوان دونوں ہی مختلف دھنوں پر ایک ہی گیت گا رہے ہیں۔جرنیل الیکشن کے قدموں تلے بچھے جارہے ہیں اور صدر مرسی کے ساتھ کام کرنے کیلئے تیار ہیں۔جبکہ صدر نے اس کے جواب میں کئی ایک نائب صدور مقرر کرنے اور مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد پر مبنی کابینہ تشکیل دینے کا وعدہ کیا ہے۔یہ حضرات اب بازار کے تاجروں کی طرح سے ایک دوسرے کے ساتھ سودے بازی کر رہے ہیں۔مرسی کو اب سب سے پہلے عسکری سپریم کونسل کے ساتھ اس پارلیمنٹ پر سودا کرنا ہوگا جس میں اخوان کے ارکان کی اکثریت ہو۔جو کہ الیکشن سے قبل ہی تحلیل کر دی گئی تھی۔ یہ بھی ایک مخمصہ ہے کہ کیا صدر اس پارلیمان کی غیر موجودگی میں اپنا حلف لے سکے گا؟اسی سے واضح ہوجاتاہے کہ اصلی طاقت کا سرچشمہ کہاں ہے۔اخوان کی خواہش ہے کہ کسی طرح یہ پارلیمان بحال ہوجائے، اگرچہ اس نے اس غیر جمہوری اقدام کو واپس لینے کیلئے کوئی زور نہیں دیاالبتہ اس کی وقتی بحالی کا مطالبہ کیا ہے تاکہ صدرارکان اسمبلی کے سامنے حلف اٹھا لے۔لیکن یوں لگتا ہے کہ اخوان والے اب اس مسئلے پر ذرا سی بات کرنے سے بھی ہچکچارہے ہیں اور اس مطالبے کو ہی ترک کرنے پر آگئے ہیں۔اور کہا یہ جارہاہے کہ اب حلف سپریم آئینی کونسل کے سامنے بھی لیا جاسکتا ہے۔اور یہ کونسل وہی ہے جسے حسنی مبارک نے اپنے نامزدکردہ ججوں پر تشکیل دیاتھا۔اور یہی وہ جج تھے کہ جنہوں نے پارلیمان کو تحلیل کر دیاتھا۔

ا س سب کا کیا مطلب نکلتا ہے ؟صرف یہی کہ اخوان المسلمون جمہوریت کیلئے تگ ودو نہیں کر رہی ہے بلکہ وہ سارا زور فوجی سپریم کونسل کے ساتھ ’’ڈیل‘‘طے کرنے پر لگا رہی ہے۔عام الیکشن کے نتائج کو بحال کروانے کی بجائے وہ پس پردہ جرنیل شاہی کو قائم رکھنا چاہ رہی ہے۔وہ افسر شاہی اور جرنیلوں سے یہ طے کروانا چاہ رہے ہیں کہ ان کو بھی قتدار کے مراکز سے مستفید ہونے کا موقع فراہم کیا جائے۔دوسرے لفظوں میں مرسی اور اخوان، الیکشن کے ذریعے جرنیلوں سے اقتدار میں اپنا حصہ لینے چاہتے ہیں۔پچھلے ڈیڑھ سالوں کی عوام کی زندہ جاوید جدوجہد کو مذاکرات کی بلی چڑھایاجارہاہے۔اسلام پرستوں اورعسکری سپرم کونسل کے مابین صدر کے عہدے کیلئے ہارس ٹریڈنگ کی جارہی ہے۔

مارکس وادیوں کیلئے اخوان المسلمون کا طرز عمل کسی طور بھی حیران کن نہیں ہے۔سچ تو یہ ہے کہ ہر سوچنے والاانسان اس بات پر قطعی حیران نہیں ہوگا،خاص طور پر مصر میں۔وہ سبھی جو کہ الیکشن سے قبل اخوان المسلمون کو ’’انقلابی قوت‘‘سمجھ رہے تھے اور دوسروں کو بھی سمجھانے کی کوشش کررہے تھے، وہ خود کو اور دوسروں کو دھوکہ دے رہے تھے۔ اخوان المسلموں مصری بو رژازی کی اس پرت کی نمائندہ ہے کہ جو اب تک اقتدار کے ایوانوں سے باہر نکال دی ہوئی تھی۔چنانچہ اس کی بھاگ دوڑساری کی ساری یہی ہے کہ جرنیلوں پر دباؤ ڈال کر اقتدار میں حصہ لیا جائے۔

بورژوازی کے یہ لیڈر کبھی بھی انقلابی نہیں تھے۔ہاں البتہ انہوں نے عوام کی تحریک کو اپنے مذموم مقصد یعنی اقتدارکے حصول کیلئے ضرور استعمال کیاہے اور اب جبکہ ان کا یہ ہدف پورا ہورہاہے یہ حضرات انقلاب سے یکسر منہ پھیرنے میں ایک لمحے کی بھی تاخیر نہیں کریں گے۔یہی نہیں بلکہ انقلاب کے دشمن فوجی جرنیلوں اور سامراجیوں کے ساتھ مل کر انقلاب کو شکست دینے میں ہر ممکن کردار ادا کریں گے۔’’ملکی سلامتی اور استحکام کے فروغ ‘‘سے ان سب کی یہی مراد ہے۔اخوان المسلمون کے ایک مقتدر رہنما خیرات الشاطر کے الفاظ میں’’کسی بھی صنعت سے وابستہ ایک فرد کی طرح میں بھی اس سے متفق ہوں کہ اگر پہلے ہم کسی طرح کاروباری امور میں شریک نہیں تھے تو اب ہو جائیں گے‘‘۔یہ صاحب بھی صدارت کے امیدواروں میں سے تھے لیکن اس کے کاغذات مسترد کر دیے گئے تھے۔اس کا مذکورہ بیان اس کے مصر کی فیڈریشن آف انڈسٹریز سے خطاب کا حصہ ہے۔الشاطر ایک کاروباری شخص ہے اور وہ اخوان المسلمون کی بورژواقیادت کا اہم ستون ہے۔اس جیسے رہنما اخوان المسلمون کی طبقاتی بنیادوں اوراس کے حقیقی مقاصد کی نمائندگی کرتے ہیں کہ کس طرح مصری ریاست کے وسائل کو لوٹا جائے جس سے وہ اب تک محروم چلے آرہے تھے۔اس خطاب کے ابتدائی کلمات اخوان کے مقصد کی واضح نشاندہی کرتی ہیں’’خلیجی ممالک،مصرکی وسیع و عریض منڈی کی طرف توقعات رکھے ہوئے ہیں۔لیکن اس کام کیلئے وہ ہم سے سیکورٹی اور استحکام کا تقاضاکررہے ہیں۔ان کو یقینی بنائے بغیرہم معاشی سرگرمی کر ہی نہیں سکتے‘‘۔دوسرے لفظوں میں منافع نہیں کماسکتے۔

الیکشن میں اخوان المسلمون کی کامیابی،مصر کے انقلاب کے جاری عمل کا ہی ایک مرحلہ ہے۔اور اس انقلاب نے ابھی اس قسم کی اونچ نیچ کے کئی مراحل سے گذرناہے جب تک کہ یہ حتمی کامیابی یا حتمی ناکامی سے دوچار نہیں ہوجاتا۔اس مرحلے کی پہلی لہر میں تو یہ لوگ اقتدار تک پہنچے ہیں لیکن نئی اور اگلی لہر میںیہ سب ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا۔

مصرکے انقلابیوں کا سب سے اولین فریضہ یہ ہے کہ وہ اخوان المسلمون کے رد انقلابی چہرے اور کردار کو بے نقاب کریں اور عوام کی ان پرتوں کو اس سے آگاہ کریں جنہیں اخوان المسلمون گمراہ کرتی آرہی ہے اور دھوکے دیتی آ رہی ہے۔’’وسیع ترقومی مفادات کی حامل حکومت کے قیام‘‘کی واضح دھوکہ دہی کا حصہ بننے کی بجائے ہڑتالوں،مظاہروں اور دھرنوں کو منظم اور سرگرم کرنے پر توجہ دی جائے۔مصری سماج میں طبقاتی کشمکش کو سبوتاژ کرنے کیلئے قومی یکجہتی کے نام پر رچائی جانے والی لفاظی یقینی طورپر ناکامی سے دوچار ہوگی۔بے روزگاروں کو کام اور روزگار درکار ہیں۔بے گھروں کو رہائشیں چاہئیں۔وہاں کے انقلابی، جرنیلوں کی طرف سے مرتکز کئے جانے والے اندھادھند اختیارات کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن بالابالاہونے والے معاہدوں پر کوئی بات نہیں کر رہے۔

مصر کے محنت کشوں،کسانوں اور نوجوانوں کو اب اخوان المسلمون کے سکول سے سبق سیکھنا ہے۔یہ ایک بہت ہی سخت اور تلخ سبق ہوگا۔لیکن اس سے وہ بہت ہی اعلی تجربہ حاصل کرسکیں گے۔آخر کار ایک طبقے کو جیتنا اور دوسرے کوہارنا ہے۔ایک اعلی ترین فتح یا ایک بدترین شکست۔یہی مصر کے لوگوں کے سامنے حقیقی اور حتمی انتخاب ہے۔

Translation: The Struggle (Pakistan)