برطانیہ میں نئی مخلوط حکومت ۔ طبقاتی جنگ کی نئی صف بندی

Urdu translation of Britain: The Cleggameron Coalition comes to power (May 12, 2010)

تحریر: راب سیول ،۔ ترجمہ:اسدپتافی چنگاری ڈاٹ کام،18.05.2010۔ ۔ ۔ ۔ لبرل ڈیموکریٹس نے مخلوط حکومت میں شامل ہونے میں ایک لمحے کی بھی تاخیرنہیں کی اور اس کیلئے انہوں نے سبھی اصولوں اور آدرشوں کو ،کہ جن کا وہ الیکشن کمپین کے دوران اٹھتے بیٹھتے واویلا کرتے آرہے تھے ۔ اپنے ذاتی مفادات کے حصول اور منڈی کے تقاضوں کی تعمیل وتکمیل کیلئے انہوں نے سب کچھ پلک جھپکتے میں واردیا۔ ٹوریوں کے ساتھ مل کر، کہ جنہوں نے اور کچھ بھی نہیں کرنا سوائے محنت کشوں کے خلاف بہیمانہ قوانین نافذ کرنے کے، حکومت قائم کرنے کیلئے لبرل ڈیموکریٹس نے اپنے سبھی دعووں اور وعدوں کو کھڑکی سے باہر پھینک دیا۔ کل جناب گورڈن براؤن کو ایک دن میں دو استعفے دینے پڑے، ایک تو لیبرپارٹی کی سربراہی اور دوسرے برطانیہ کی وزارت عظمیٰ سے۔ اور یہ سانحہ تب رونما ہوا جب لیبر پارٹی اور لبرل ڈیموکریٹس کے مابین مخلوط حکومت قائم کرنے کی غرض سے ہونے والے مذاکرات ناکام ہو ئے ۔ تیرہ سالوں کے اقتدارکا یہ انجام انتہائی ہتک آمیز بھی تھا اور عبرتناک بھی۔ نیو لیبر کے تخلیق کاروں ٹونی بلیراور مینڈلسن کی بنائی گئی اقتدار کی یہ چھت خود لیبرپارٹی کے او پر آن گری ہے ۔ پچھلے کوئی ایک ہفتے کے دوران لیبر قیادت لارڈ مینڈلسن کی قیادت میں سرتوڑ کوششیں کرتی رہی کہ لبرل ڈیموکریٹس کے ساتھ مل کر ایک ’’ترقی پسند‘‘مخلوط حکومت تشکیل دی جاسکے۔ انیس سو ستانویں میں جب ٹونی بلئیر کا طوطی بول رہاتھا تو یہ حضرات لیبرپارٹی سے الگ ہو گئے تھے ۔ لگ بھگ سوسال پہلے بھی کچھ ایسی ہی پھوٹ پڑی تھی ۔ یہ لبرل ڈیموکریٹ بھی انہی سوشل ڈیموکریٹ پارٹیوں کی طرح ہیں ، نازک قسم کے خوش لباس و خوش الحان یہ وہ صاحبان ہیں جنہوں نے انیس سو بیاسی میں لیبر پارٹی میں پھوٹ میں ناکام ہوکر لبرل ڈیموکریٹ قائم کرلی تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔۔ ۔ معاہدے سے معاہدے تک ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ لیبر اور لبرلز کے مابین مذاکرات کامیاب ہوتے ہوتے بالآخر ناکام ہو گئے۔ ’’دن کے ایک بجے تک لیبر پارٹی کے مہان قائدین ، لارڈ مینڈلسن اور لارڈایڈونس لیبر اور لبرلزکے مابین معاہدے کے ’’ہو ‘‘جانے کے بارے میں بہت ہی پر امید اور پرجوش تھے ۔ اور انہیں اس بارے میں اتنا یقین تھا کہ چہچہاتے پھر رہے تھے ۔ لیکن پھر پتہ نہیں کیا ہوا کہ یہ ساری خوشی اچانک دم توڑگئی‘‘۔،، فنانشل ٹائمز،، ۔ لیبر اور لبرلز کے مابین اتحاد کی کوششوں کی خبروں نے لیبر پارٹی کی صفوں میں غصے اور تشویش کی لہر پیداکردی تھی۔ گلاسکوساؤتھ سے ممبر پارلیمنٹ ٹام ہاریس نے اس قسم کے اتحاد کرنے کی کوشش کرنے والوں کو آڑے ہاتھوں لیا اور انہیں اقتدار کے سوداگرقراردے دیاجو ہر اصول کو حکومت میں آنے کیلئے کوڑے دان میں پھینک دیا کرتے ہیں۔ جبکہ ایک اور ممبرپارلیمنٹ پال فن نے لبرلز اور لیبر کے مابین ممکنہ معاہدے کو ’’دوزخ کا نمونہ‘‘قراردیا۔ لیبر پارٹی کو ہونے والی یہ شکستیں دراصل نیو لیبر اور منڈی کی معیشت کی شکستیں تھیں ۔ یہ دایاں بازو ہی تھا جس نے دوسرے بازو کو اقتدار پر آنے کا بہانہ اورجواز فراہم کیا۔ نیولیبر اپنی اصل میں وکھری ٹائپ کے ٹوری تھے ، جنہوں نے اصلی ٹوریوں کیلئے جگہ چھوڑدی ہے ۔ اب لیبر پارٹی کو اپنے لئے ایک نئی قیادت کو جنم دینا ہے ۔ جس کا فیصلہ ستمبر میں ہونے والی پارٹی کانفرنس میں ہوگا۔ دایاں بازواور سرمایہ داراور ان کے سبھی گماشتہ ذرائع ابلاغ بھرپور کوشش کر رہے ہیں کہ اس کیلئے ڈیوڈ ملی بینڈ کو سامنے لایا جائے جو کہ ’’نیولیبر ‘‘ماڈل ہے ۔ لیکن یہ کام اب اتنا بھی آسان نہیں ہو گا کہ الیکشن میں شکست کا الزام بلئیراور اس کے ہمنواؤں پر ڈال کر جان چھڑا لی جائے ۔ لیبر تحریک کے کئی لوگ اس بات کو بخوبی سمجھ رہے ہیں ۔ بلیئر اور اس کے ہمنوا ، ایک امید کے خلاف امید میں مبتلا ہو چکے ہیں کہ بس ،کچھ ہی دنوں کی بات ہے ، بہت ہی جلد ، اچھے دن پھر سے لوٹ کر آنے والے ہیں اور ہمارا کھویا ہوا اقتداردوبارہ ہمارے قدموں میں پڑاہواہوگا۔ اور یہ شکست تو کوئی شکست ہی نہیں ہے ۔ اور تو اور ہمیں اس قسم کی خوش گمانی میں مبتلا حضرات بھی نظر آتے ہیں کہ جلد یا بدیر ، ہم ایک اتحادبنانے میں کامیاب ہو جائیں گے اور پھر موجاں ای موجاں ہوں گی۔ ان میں ایک نمایاں لیبرکے سابقہ وزیر داخلہ ایلن جانسن ہے۔ اس کو تو کچھ زیادہ ہی جلدی ہے کہ کسی طرح بھی ممکن ہو اقتدار میں آیا جائے بس! یہ ایسے ہی ہے جیسے کرکٹ میں کسی ٹیم کو فالو آن کے بعد دوبارہ سے بلایاجائے اور اسے کھیلنے کو کہا جائے۔ اس نفسیات اور ایسی خواہشات کی حامل قیادت کے بارے میں کوئی بھی بآسانی یہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ عام لوگوں اور ورکنگ کلاس کے بارے میں ان کے خیالات و تصورات کی کیا حالت ہو گی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ آس نراس کے قیدی قائد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دوسری جانب ٹوری قائد ڈیوڈ کیمرون کی بھی کیفیت قابل دید تھی اور وہ بھی ہر قیمت پر اقتدار میں آنے کیلئے سبھی حدودوقیود سے گزرنے کیلئے تیار و بیتاب ہورہاتھا ۔ الیکشن کیلئے کی جانے والی اصلاحات کے بعد سے ٹوری پارٹی میں اس حوالے سے بہت اضطراب پیداہوچلاہے اور اس کے بہت سے عناصر پارٹی کی اس پوزیشن کو دائیں بازو کے نظریات اور آدرشوں سے واضح غداری اور انحراف قرار دے رہے ہیں۔ لیکن سوال اور اہمیت اصولوں کی نہیں بلکہ ایک ہی سب کا اول اور ایک ہی سب کا آدرش ہے اور وہ اقتدار کا حصول ہے بس!جب ابھی اس بات کے امکان اور آثار نظر آرہے تھے کہ لیبر اور لبرلز ایک دوسرے کے ساتھ کسی ڈیل پر پہنچ چکے یا پہنچنے والے ہیں اور جب گورڈن براؤن کی طرف سے یہ اعلان سامنے آیا کہ وہ لیبر کی قیادت سے دستبردار ہونے کو تیار ہے، تب کیمرون اورہیگ کی جیسے ہواہی نکل گئی اور انہوں نے لبرلزکو ہمہ قسم کی پیشکش کا عندیہ دے دیا تاکہ ٹوری اقتدارکا امکان گم نہ ہونے پائے ۔ ٹوری پارٹی کی صفوں میں ابھی تک ایک سوال گردش کر رہاہے کہ آخر کیا کچھ ایسا ہوا ہے کہ ان کو اتنے ووٹ پڑنے کے باوجود وہ اقتدارسے باہر رہ گئی اور پہلے کی طرح کی تمکنت سے محروم رہ گئی؟ابھی تو فی الحال یہ سوال جواب سے محروم ہے تاہم یہ زیادہ دیر تک چھپانہیں رہ سکے گا ۔ ’’یہ کسی طور بھی ایک متفقہ فیصلہ نہیں ، ہاں البتہ پارلیمانی پارٹی کی بڑی اکثریت کیمرون کے ساتھ کھڑی ہے‘‘، یہ بیان ایک ٹوری ممبرپارلیمنٹ نے دیا ہے۔ جب ٹوریوں سے اس بارے میں پوچھا جاتاہے تو وہ ٹامک ٹوئیاں شروع کردیتے ہیں۔ اگر خاکم بدہن ،کسی وجہ سے ٹوری حکومت قائم نہیں رہتی توپھر ٹوریوں کی ساری ٹور ہی خراب ہو جائے گی اور یہ ا ندیشہ ٹوریوں کو اندر ہی اندر ہلکان کئے جا رہاہے ۔ دوسری طرف لبرل ڈیموکریٹس کیلئے بھی صورتحال کی بے یقینی ایک سوہان روح بنی ہوئی ہے ۔ کیمرون کی طرح سے وہ بھی کسی نہ کسی معاہدے کے طے ہوجانے کیلئے اتنا ہی بیتاب تھا ۔ اب دونوں ایک ہی کشتی میں سوار ہو چکے ہیں ۔ اور کسی طوفان کے سامنے آنے کی صورت میں دونوں کو ایک ساتھ ہی ڈوبنا پڑے گا۔ ایک طے شدہ مدت کی اس سانجھی پارلیمانیت اس طرح سانجھ برقرار نہیں رکھ پائے گی جیسا کہ سوچا جارہاہے یا سوچاگیا ہے۔ بلندی کوپستی کی جانب بھی سفر کرنا پڑ سکتاہے۔ اگلے پچاس دنوں کے اندر ہی اس مخلوط حکومت کو بحران زدہ بجٹ کا سامنا کرنا ہے ۔ جس کے بعد سے بچت وقناعت کا ایک نیا عہد شروع ہو نے والا ہے ۔ یعنی محنت کش طبقے کیلئے کٹوتیوں کا آغاز ہوجائے گا۔ اور اس عہد کی ابتدا ہوتے ہی وہ سبھی مسکراہٹیں اور مبارکبادیں ، جو اس وقت اتحادکرنے والوں کے چہروں سے چھلک رہی ہیں ، یکدم غائب ہونی شروع ہو جائیں گی۔ حالات کا دباؤ اس سب کچھ کو دبانا شروع کر دے گا ۔ جریدے فنانشل ٹائمز نے اس پر نفیس قسم کا تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’معاہدہ ہوجانے کے سارے شور شرابے کے باوجود یہ بات صاف نظر آرہی ہے کہ ٹوری پارٹی کو ایک ایسے اتحادسے منسلک ہوناپڑاہے کہ جو نہ صرف آسان نہیں بلکہ ایک ایسا ساتھی چن لیا گیا ہے جس پر اعتبارکرنا خاصامشکل کام ہے ‘‘۔ اور پھر اس غیر آسان اتحاد نے خود لبر ل ڈیموکریٹس کے نیچے کی صفوں میں جس قسم کے اضطراب اور غم وغصے کو جنم دیا ہے وہ بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ۔ لبرل ڈیموکریٹس کو ایک امید سمجھ کر جن لوگوں نے محنت کی یا اسے ووٹ دئے، ان کے احساسات اس معاہدے نے جھلسا ڈالے ہیں ۔ اسے ووٹ دینے والوں نے کسی طور بھی اس لئے ووٹ نہیں دئیے کہ ایک نئی ٹوری حکومت ان کے سروں پر مسلط کر دی جائے گی۔ لبرل ڈیموکریٹس کا تو نعرہ ہی یہی تھا کہ’’ کیمرون سے نجات حاصل کرنی ہے تو کلیگ کو ووٹ دیا جائے‘‘۔ اس نعرے کے بعد اور اس معاہدے کے بعد کلیگ کے ووٹروں اور سپورٹروں پر جو گزرے گی ، وہ سمجھنا اتنا مشکل نہیں ہوگا۔ لیکن پھر ایسی کی تیسی اس قسم کا برا منانے والوں کی کہ جو ٹوری کے ساتھ حکومت قائم کرنے پر جز بز ہیں ،کلیگ نے کھلے ہوئے بازوؤں کے ساتھ اقتدار کی دیوی سے چمٹنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اس نے ڈیوڈ کیمرون کے ایسے ایسے گن گانے شروع کر دئیے ہیں کہ جس کا خود کیمرون کو بھی اندازہ نہیں ہوگا ۔ ایسی تعریف تو اس نے کبھی اپنی بھی نہ کی ہوگی ۔ اس قسم کی تعریف وتوصیف کسی طور بھی لبرل ڈیموکریٹس کی صفوں میں اوپر سے نیچے تک پھلتے پھولتے اضطراب کو کم یا ختم نہیں کر سکتی جو اپنے آپ کو ’’ریڈیکل ‘‘ سمجھتے ہیں ۔ لیکن وہ اپنی قیادت کی اقتدار کی ہوس گیری کو کسی کھاتے میں ہی ڈال نہیں رہے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ کنزرویٹو اور لبر ل ڈیموکریٹس دونوں ہی سرمایہ داری کی پارٹیاں ہیں ۔ اور جو بڑے کاروباروں کے دفاع اور تحفظ کیلئے سرگرم عمل ہیں ۔ لبرل ڈیموکریٹس کے بارے میں جو ایک غلط العام تصور تھا کہ یہ’’ سیاست میں ایک تازہ ہواکا جھونکا ‘‘ہیں ، اس معاہدے کے بعد یہ تصور بھی سب پر عیاں ہو چکا ہے ۔ اب پتہ چلے گا کہ لبرل ڈیموکریٹس جو پہلے نیچے کی سیاست میں ہی پبلک سروسز میں کٹوتیوں پر عملدرآمد کرتے آرہے تھے ، اب خیر سے ان کو قومی سطح پر بھی یہ سارے گل کھلانے کا موقع مل جائے گا۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’’قومی مفاد‘‘کے نام پر قوم کا استحصال ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ،۔ ، ۔ اب تو ہر طرف کی طرح ہمارے یہاں بھی ’’قومی مفاد‘‘ کا اٹھتے بیٹھتے ذکر ہونے لگا ہے ۔ صاف اور سیدھے معنوں میں یہ مفاد کسی قوم کا نہیں ہوتا بلکہ یہ اپنی اصل میں اس قوم پر مسلط بینکاروں اور بڑے کاروباروں کا مفادہی ہوتا ہے ۔ اور یہی قومی مفاد ہی ہے کہ جس اس نئی مخلوط حکومت کی قیادت کا نعرہ اور دعویٰ ہے ۔ جو لوگ بھی یہ بات سوچ رہے ہیں کہ لبرلز اور ٹوری اتحاد کسی قسم کے استحکا م کو ممکن بنائے گا ،وہ انتہائی غلط مفروضہ قائم کئے ہوئے ہیں ۔ انکم ٹیکس پر ہونے والی ڈیل کم آمدنیوں والوں کیلئے اوروقتی امدادپر گزارہ کرنے والوں کیلئے بظاہر تو بہت خوش آئند ہے لیکن جونہی عوامی اخراجات پر کلہاڑا چلانا شروع کیا جائے گا تو اس قسم کی دی جانے والی رعایتوں کی قلعی کھل کر سامنے آجائے گی ۔ اور انہیں ایک کک مار کر دور کہیں اچھال دیا جائے گا ۔ اور یہ سارا ناٹک اور کھلواڑ عظیم تر قومی مفاد کے نام سے ہوگا ۔ اوسبورن نے وعدہ کیا ہے کہ امیروں پر لگے کچھ ٹیکس نہیں کاٹے جاسکیں گے کیونکہ وہ اگلے اپریل سے ایک سال کیلئے پبلک سیکٹر کی اجرتوں کو فریز کرنے جارہے ہیں ۔ اور اس بات کا اندازہ آپ اور ہم بخوبی لگا سکتے ہیں ۔ انہی موصوف اوسبورن نے ہی الیکشن سے قبل ٹوری پارٹی کے بارے میں ارشاد فرمایاتھا کہ ان کی حکومت قائم ہوئی تو یہ عالمی جنگ کے بعد کی سب سے غیر مقبول حکومت ثابت ہوگی۔ جونہی یہ حکومت پبلک سیکٹر اخراجات میں کٹوتیاں شروع کرے گی ،اس کی اپنی کٹوتی کا عمل شروع ہوجائے گا۔ اور انہوں نے اس کی ابتدا بالواسطہ ٹیکسوں سے کرنی ہے جسے وی اے ٹی کہا جا رہاہے یعنی ویلیوایڈڈ ٹیکس۔جو سب سے زیادہ سماج کی کمزورترین پرتوں کی کمر کوتوڑکے رکھ دے گا۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ مفاہمت کے خلاف مزاحمت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لبرل ڈیموکریٹس اس صورتحال سے جنم لینے والی مزاحمت سے نہیں بچ پائیں گے ۔ بدقسمتی سے ان کی قسمت کی ڈور اب ٹوری پارٹی کی بدقسمتی کے ساتھ منسلک و پیوست ہو چکی ہے ۔ انیس سو اکتیس میں لایل جارج نے لبرلز سے علیحدگی اختیار کرلی تھی، اور یہ سپلٹ قومی حکومت میں شمولیت کے معاملے پر ہوئی تھی ۔ جو لبرلز حکومت کاحصہ بنے تھے وہ پھر ٹوری پارٹی کا بھی حصہ بن گئے تھے ۔ لائل جارج نے یہ سوچا اور فیصلہ کیا کہ الگ رہنے ہی میں بہتری ہے ۔ لیکن پھر لیبرپارٹی کی تیز نشوونما نے اس کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ مگر ایک سبق جارج نے ضرور سیکھا اور وہ یہ کہ اس نے حکومت کا حصہ بن جانے والوں کے انجام کو اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتادیکھ لیا۔ موجودہ لبرلز بھی اسی سپلٹ کی کوکھ سے جنم لینے والی پارٹی ہی ہے ۔ اب اس مخلوط حکومت کی غیر مقبولیت ان کو تہس نہس کر کے رکھ دے گی۔ ناگزیر طورپر یہ عمل دوبارہ لیبرپارٹی کی مقبولیت کا سبب بنے گا۔ اقتدار میں آنے کی ہوس میں وہ سب کچھ تج چکے ہیں ۔ اب انہیں اپنا بویا ہواکاٹناہے ۔ بینک آف انگلینڈ کے گورنر مروائن کنگ نے واضح طور پر اعلان کردیاہے کہ جو بھی حکومت بنے گی ، جن کی بھی مخلوط حکومت بنے گی، انہیں لا محالہ آنے والے دنوں میں ایسی خطرناک اور ہوشربا کٹوتیاں کرنی پڑیں گی کہ جس کے نتیجے میں اس پارٹی یا ان پارٹیوں کو ایسی بدنامی کا سامنا کرناپڑے گا کہ جس کا مداوا نسلوں بعد ممکن ہو سکے گا۔ یہی وہ کیفیت اور مقدر ہے جس کا سامنا مخلوط حکومت میں شامل پارٹیوں کو کرنا ہے ۔ فنانشلز ٹائم لکھتا ہے ’’ اب انہیں برطانیہ کی تاریخ کے سب سے سخت فیصلوں کے سب سے سخت اثرات کا سامنابھی کرنا ہو گا ۔ اور شاید یہ چرچل کے عہد کے بعد کے سب سے تلخ حالات ہوں گے‘‘۔ بینکاروں کو بیل آؤٹ پیکج دینا اور سرمایہ داری کاتحفظ بہت ہی مہنگا سودا ہے ۔ برطانیہ اپنی پیداوار سے گیارہ فیصد زیادہ کے مالیاتی خسارے کی زد میں ہے ۔ اس سال یورپی ریاستوں کو جو قرضہ دیا جانا ہے اس کا بھی پندرہ فیصد برطانیہ ہی کو اداکرنا ہے ۔ صرف اٹلی کوہی بہت زیادہ قرضے کی ضرورت ہے ۔ اب ورکنگ کلاس سے تقاضاکیا جارہاہے کہ وہ یہ سب کچھ برداشت کرے ۔ ایک کے بعد دوسرا ’’بچت کا حامل‘‘ بجٹ سامنے آنے والاہے ۔ لبرلز ڈیموکریٹس سے کہہ دیا گیا ہے کہ اس کیلئے مزیدانتظارکی کوئی گنجائش نہیں ۔ گورڈن براؤن نے یہ سب کچھ سوچ کر ، دیکھ کر کہا کہ بہت شکریہ بڑی مہربانی ، اب مجھے اجازت دیں ۔ یہ گورڈن براؤن کیلئے تو مقام شکر ہوسکتا ہے لیکن محنت کش طبقے کیلئے ہرگز نہیں ۔ یہ مخلوط حکومت اب پورے ذوق وشوق کے ساتھ منڈی کی معیشت اور بڑے کاروباروں کی خدمت تواضع کا سلسلہ شروع کرے گی ۔ ہمارے برطانوی محنت کشوں کو یونان کے بھائیوں بہنوں سے سبق سیکھنا ہوگا۔ کمزوری ہمیشہ مصیبتوں کو دعوت دیاکرتی ہے ۔ برطانیہ کی لیبر اور ٹریڈ یونین تحریک کو اپنے خلاف آنے والی اس بدمعاشی کے جواب کیلئے خودکو تیار اور چوکنا کرنا ہوگا۔ سبھی کو ایک دوسرے کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھامتے ہوئے لیبرپارٹی کو اس پر مسلط مفادپرستوں کا مکمل صفایاکرناہوگا۔ اور اس میں موجود نام نہاد نیولیبر عناصرکا قلع قمع کرنا ہوگا۔ ہم ایک انتہائی ناخوشگوار وقت میں داخل ہو چکے ہیں ۔ برطانوی مزدورتحریک کو اب سر بھی اٹھانا ہوگا اور اپنے قدم بھی اٹھانے ہوں گے ۔ عالمی مارکسی رحجان کے سبھی کامریڈزتحریک کو نظریات سے مسلح اور منظم کرنے میں ہر ممکن کردارادا کریں گے۔ سماج کی سوشلسٹ تبدیلی کے فریضے کی تکمیل کیلئے اورسرمایہ داری کواس کی تباہکاریوں سمیت اس کی جڑوں سے اکھاڑ پھینکنے کی جدوجہد کیلئے جو ضروری ہواکیا جائے گا۔ . . . .
Source: Chingaree