بالشویک انقلاب کے95 سال؛

بعض اوقات کئی دہائیاں بیت جاتی ہیں اور کچھ نہیں ہوتا۔ لیکن پھر چند دنوں میں دہائیوں سے زیادہ اور بڑے واقعات رونما ہو جاتے ہیں۔ بیس سال قبل، سوویت یونین کے انہدام کے بعدنہ رکنے والی تکرار تھی،کہا جا رہا تھا کہ سیاست اور معیشت کے بڑے معرکوں کا حتمی فیصلہ ہو گیا ہے اور لبرل جمہوریت اور آزاد منڈی کی معیشت فتح یاب ہو چکی ہیں۔ سوشلزم کو تاریخ کی ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا۔ سرمایہ داری کے منصوبہ ساز فتح کی خوشی میں مست تھے۔ فرانسس فوکو یاما کا پیش کردہ نظریہ ’’تاریخ کا خاتمہ‘‘ اور جارج بش سینئر کے1990ء کی دہائی میں ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ کا مقصد ایک ایسی دنیاتھی جس میں بغیر حریف کے ایک ہی طاقت غالب ہو۔

صرف ایک دن یعنی 15ستمبر2008ء کو ہونے والے واقعات نے ان سب منصوبوں پر پانی پھیر دیا۔ لیہمن برادرز کے انہدام نے واضح طورپر سرمایہ داری کے پر ہوس ماڈل کو بے نقاب اور برباد کر دیا جسے جدید معیشت کو چلانے کے واحد طریقے کے طور پر ساری دنیا پر زبردستی مسلط کیا جا رہا تھا اور اس کی قیمت بہیمانہ عدم مساوات، استحصال، جنگوں اورنو آبادی قبضوں کی صورت میں چکانی پڑ رہی تھی۔ نیو لبرل ازم اور نیو کنزرویٹو ازم کے نظریات کی جوڑی آزمائی جا چکی ہے اور نتیجہ صرف بربادی کی صورت میں نکلاہے۔ 2011ء کے عرب انقلابات نے نہ صرف مشرق وسطیٰ کے ممالک کویکے بعد دیگرے اپنی لپیٹ میں لے لیا بلکہ ان کی وجہ سے ساری دنیا میں ایسے دھماکہ خیز واقعات رونما ہوئے ہیں جن کی مثال گزشتہ دو دہائیوں میں نہیں ملتی۔

ان واقعات کی تیزی اور شدت سے ساری دنیا میں حکمران اشرافیہ لرزکر رہ گئی ہے۔ ان انقلابات کے انیسویں اور بیسویں صدی کے انقلابات سے ان گنت موازنے کیے گئے لیکن بیسویں صدی کا سب سے اہم واقعہ میڈیا کے تجزیوں اور رپورٹوں سے صاف طور پر غائب تھا، یعنی 1917ء کا بالشویک انقلاب۔ اور ایسا حادثاتاً یا اتفاقاً نہیں ہے۔ یہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا گیا جودنیا بھر کے حکمران طبقات کے دلوں میں اس انقلاب کا نام بھی لینے کے خوف کو ظاہر کرتا ہے۔ حکمران طبقے کی جانب سے ’سوشلزم‘، ’مارکسزم‘ ، ’کمیونزم‘ کی موت کا مسلسل راگ الاپے جانے کے باوجود انہیں یہ خوف لاحق ہے۔

منتخب نمائندگی کے چربوں سے تاریخ بھری پڑی ہے لیکن شا ید پاکستان کی حکمران اشرافیہ دنیا میں سب سے زیادہ بیہودہ ہے۔ ایک جانب وہ ’سوشلزم کی موت‘ کے رٹے ہوئے سبق کو دہرائے جا رہے ہیں اور دوسری جانب زیادہ تر دائیں بازو کے سیاست دان خوفزدہ ہو کر ایک خونی انقلاب کی تنبیہ کر رہے ہیں۔ کچھ تو انتہائی اوچھے انداز میں انقلاب فرانس کو بحران کا حل بنا کر پیش کر رہے ہیں، نہ جانتے ہوئے کہ فرانس میں ہونے والا کون سا انقلاب۔ 1789ء سے 1968ء تک فرانس میں پانچ بورژوا اور دو پرولتاری انقلابات رونما ہو چکے ہیں۔ 1871ء کا فتح مند پیرس کمیون تاریخ کا پہلا انقلاب تھا جس میں محنت کش طبقے نے اقتدار پر قبضہ کیا اور ستر دنوں سے زیادہ اسے برقرار رکھاجبکہ فرانس میں مئی1968ء کی انقلابی تحریک 1917ء کے انقلاب روس سے بھی بڑی تھی لیکن فرانس میں محنت کشوں کی روایتی پارٹیوں کے لیڈروں کی غداری کی وجہ سے اسے شکست ہو گئی۔ لیکن بالشویک انقلاب پر ایسی چپ سادھی جارہی ہے جیسے وہ وقوع پذیر ہی نہیں ہوا۔ اگر کوئی اس کا نام لینے کی جرات کر بھی لے تو آج کے سیاسی اکابرین اور ان کے ’’ذہین دانشور‘‘ فوراً کہتے ہیں ’’اوہ! جو روس میں ناکام ہو گیا‘‘۔ سماج میں سیاست کے اندر بہتان تراشی کے جبر کا تجزیہ کرنے کے لیے ابھی تک کوئی سماجیات کا ماہر پیدا نہیں ہوا۔

اکتوبر1917ء کے انقلاب روس نے تاریخ کا رخ موڑ دیاتھا۔ انقلابی واقعات میں شریک اور عینی شاہد امریکی صحافی اور سوشلسٹ جان ریڈ اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’دنیا کو جھنجوڑ دینے والے دس دن‘‘ میں لکھتا ہے ’’بالشوازم کے بارے میں کوئی جو بھی رائے رکھے، اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ انقلاب روس انسانی تاریخ کے اہم ترین واقعات میں سے ایک ہے اور بالشویک دنیا بھر کے لیے اہم ہے ‘‘۔ قدیم روسی کیلنڈر کے مطابق انقلابی سرکشی اور بالشویکوں کا اقتدار پر قبضہ 26 اکتوبرکی شب ہوا جو جدید عیسائی کیلنڈر میں 7نومبر بنتا ہے۔

طبقے سے اقتدار چھین کر اسے سماج میں موجود محنت کش طبقات کی وسیع اکثریت کے ہاتھوں میں دے دیا۔ بورژوا ریاست کا تختہ الٹنے اور اقتدار پر پرولتاریہ کی قیادت کرتی پارٹی کے قبضے کے عمل میں محنت کشوں کی وسیع اکثریت کی شعوری مداخلت اور شمولیت شامل تھی۔ یہ اب تک کا واحد انقلاب ہے جو کلاسیکی مارکسسٹ لینن اسٹ خطوط پر رونما ہوا۔ لینن نے اس انقلاب کی مطمع نظر حقیقی تبدیلی کی وضاحت کی۔ دسمبر 1917ء میں اس نے لکھا ’’آج اہم ترین فرائض میں سے ایک محنت کشوں کا آزادانہ طور پر آگے بڑھنے کے اقدامات اٹھانا ہے،بشمول تمام محنت کش اور استحصال زدہ عوام کے، او ر ایسا ہر ممکنہ حد تک وسیع پیمانے پر تخلیقی تنظیمی کام کے اندر۔ ہر قیمت پر ہمیں اس قدیم، بیہودہ، وحشی، گھٹیا، اور امتیاز پر مبنی تعصب کا خاتمہ کرنا ہے کہ ٖصرف نام نہاد بالائی طبقہ، صرف امیر اور وہ لوگ جو امیروں کے سکولوں میں پڑھے ہیں، سوشلسٹ سماج کی تنظیمی نشوونما اور ریاست کا انتظام چلانے کی اہلیت رکھتے ہیں‘‘۔

بالشویک پارٹی کی سب سے نمایاں خاصیت یہ تھی کہ ان کے نزدیک موضوعی مقصد، یعنی محنت کش عوام کے مفادات کا تحفظ، انقلاب کی حرکیات کے تابع تھا جو معروضی طور پر کٹھن راستہ ہے۔ پارٹی کی حکمت عملی کی بنیاد، انقلابات اور تحریکوں کا تعین کرنے والے قوانین کی سائنسی دریافت پر تھی۔ مزحکوں(غریب کسانوں) نے لینن کو نہیں پڑھا تھا، لیکن لینن مزحکوں کی سوچ کو پڑھنا خوب جانتا تھا۔ مجبور اور استحصال زدہ عوام کی جدو جہد کا راستہ نہ صرف ان کے مطالبات ، خواہشات اور ضروریات متعین کرتی ہیں بلکہ ان سب سے بڑھ کر ان کی زندگی کے تجربات ان کی رہنمائی کرتے ہیں۔ بالشویکوں نے کبھی بھی متکبرانہ تعصب یا جدو جہد کے اندر شامل عوام کے آزادانہ تجربات کی نسبت خود کو بر تر سمجھتے ہوئے تحقیر آمیز رویہ نہیں رکھا۔ بلکہ اس کے برعکس تنظیم کی تعمیر کے لیے یہ ان کے نزدیک نکتہ آغاز اور بنیاد تھی۔ جہاں اصلاح پسند اور جھوٹے انقلابی مشکلات، رکاوٹوں اور دشواریوں کا رونا روتے، وہاں بالشویک ان مصائب سے لڑتے ہوئے آگے بڑھے۔ اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’انقلابِ روس کی تاریخ‘‘ میں ٹراٹسکی ان کے متعلق لکھتا ہے ’’بالشویک تاثر میں نہیں بلکہ عمل میں انقلابی تھے، ظاہر میں نہیں بلکہ اپنے جوہر میں انقلابی تھے۔ ان کی پالیسی طاقتوں کی حقیقی صف بندی کی روشنی میں طے پاتی، نہ کہ کسی ہمدردی یا مخالفت کے تحت۔ ۔ ۔ بالشوازم نے وہ سچے اور کھرے انقلابی تخلیق کیے جن کے نزدیک موجودہ سماج کے ساتھ متصادم تاریخی مقاصد ان کے انفرادی حالاتِ زندگی، خیالات اور اخلاقیات سے بالا تر تھے۔ ٹھوس عدم مصالحت کے ذریعے پارٹی میں بورژوا خیالات سے ضروری فاصلہ روا رکھا جاتا، جس میں بنیادی کردار لینن کا تھا۔ لینن نشترزنی سے کبھی نہ تھکتا، اور ان کڑیوں کو کاٹتا چلا جاتا جو ایک پیٹی بورژوا ماحول کی وجہ سے پارٹی اور عمومی سماجی رائے کے درمیان پیدا ہو جاتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ لینن نے پارٹی کو اپنی سماجی رائے تخلیق کرنا سکھایا، جس کی بنیاد ابھرتے ہوئے طبقے کے خیالات اور محسوسات پر تھی۔ چنانچہ چناؤ اور تربیت کے عمل اور مسلسل جدوجہد سے بالشویک پارٹی نے نہ صرف سیاسی بلکہ اپنا ایک اخلاقی راستہ بھی استوار کر لیا، جو کہ بورژوا سماجی رائے سے آزاد اور سختی سے اس کے خلاف تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بالشویک اپنی تنظیم کے اندر مختلف سمتوں میں جھکاؤ اور پس و پیش پر قابو پاتے ہوئے اپنے عمل کے اندر وہ دلیری اور عزم پیدا کرنے میں کامیاب ہوئے جس کے بغیر اکتوبر کی فتح نا ممکن تھی۔ ‘‘

تح مند سرکشی کے بعد لینن نے ’’کل روسی سووتیوں کی کانگریس‘‘(All Russian Congress of Soviets) سے خطاب میں کہا ’’تاریخ کے کچرے کے صاف ہونے کے بعد خالی ہوئی زمین پر اب ہم سوشلسٹ سماج کی بلند اور شاندار عمارت کی تعمیر شروع کریں گے‘‘۔ انقلاب سے سماجی و معاشی تبدیلی کے ایک نئے عہد کا آغاز ہوا۔ جاگیریں، صنعتیں، کارپوریٹ اجارہ داریاں اور معیشت کے بڑے اور اہم حصوں کو نو زائیدہ محنت کش ریاست نے ضبط کر لیا۔ مالیاتی اشرافیہ کی آمریت کا خاتمہ کر دیا گیا، تمام خارجی تجارت او ر لین دین پر ریاست کی اجارہ داری قائم کر دی گئی۔ وزراء کی مراعات اور عیاشیوں کا خاتمہ کر دیا گیا اور انقلاب کے رہنماؤں کے حالاتِ زندگی انتہائی معمولی تھے۔ اپنی کتاب ’’ایک انقلابی کی یادداشتیں‘‘ (Memoirs of a Revolutionary) میں وکٹر سرج نے لکھا کہ’’کریملن میں لینن ایک چھوٹے سے اپارٹمنٹ میں رہائش پذیر تھا جو ملازموں کے لیے بنایا گیا تھا۔ حالیہ موسم سرما میں باقیوں کی طرح اس کے پاس بھی کھانے کو کچھ نہیں تھا۔ حجام کے پاس جا کر وہ اپنی باری کا انتظار کرتا اور کسی اور کے اپنی جگہ اسے دینے کو نا زیبا سمجھتا‘‘۔ ابتدا میں بالشویکوں، بائیں بازو کے سوشل انقلابیوں اور منشویک انٹر نیشنلسٹوں کی مخلوط حکومت تھی۔ صرف فاشسٹ ’’بلیک ہنڈرڈز ‘‘پر پابندی لگائی گئی۔ حتیٰ کہ کیڈٹ جوکہ بورژوا لبرل پارٹی تھی اسے بھی انقلاب کے بعد کام کرنے کی آزادی تھی۔ نئی حکومت تاریخ کے سب سے زیادہ جمہوری نظام پر مبنی تھی، یعنی سوویتوں پر جو معیشت، زراعت، صنعت، فوج اور سماج کا جمہوری طریقے سے کنٹرول اور انتظام چلانے کے لیے بنیادی سطح پر محنت کشوں ، کسانوں اور فوجیوں کی کونسلیں تھیں۔ سوویت نظامِ حکومت کے بنیادی اصول درج زیل تھے:

  • سوویت ریاست کے تمام عہدوں کے لیے آزادانہ جمہوری انتخابات
  • اہلکاروں کو واپس بلائے جانے کا حق(Right to recall)
  • کسی ریاستی اہل کار کی اجرت ہنر مند مزدور سے زیادہ نہیں ہو گی
  • سماج کو چلانے کی تمام ذمہ داریاں بتدریج اور باری باری سب کو دینا۔

جان ریڈ نے ایک واقعہ رقم کیا ہے جس سے روس کے مجبور و محکوم محنت کش طبقات کے لیے اس انقلاب کے معنی واضح ہوتے ہیں۔ وہ لکھتا ہے’’افق پر دارالحکومت کی جگمگاتی روشنیاں چمک رہی تھیں، جو رات میں دن کی نسبت کہیں زیادہ شاندار دکھائی دے رہی تھیں، جیسے کسی بیاباں میں جواہرات کا ڈھیر لگا ہو۔ ایک ہاتھ سے ریڑی کھینچتے اور دوسرے سے سڑک کے کنارے جھاڑو لگا تے بوڑھے مزدور نے دور شہر کی روشنیوں کو دیکھا اور انتہائی پر مسرت انداز میں چلایا، ’میرا!‘ اس کے چہرے پر خوشی کا نور تھا اور وہ چلایا ’اب سب کچھ میرا ہے! میرا پیٹرو گراڈ!‘‘۔

جہاں انقلاب کی فتح کا سائنسی تجزیہ ضروری ہے وہیں مارکسسٹوں پر تاریخی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس کی زوال پذیری اور سوویت یونین کے انہدام کی سائنسی وضاحت بھی کریں۔ لیکن مارکسزم تناظر کی سائنس ہے اورواقعات کے رونما ہونے کے بعد ان کا تجزیہ کرنا عمل کا عامیانہ پن ہوتا ہے۔ مارکسسٹوں نے بہت پہلے ہی سوویت یونین کے انہدام کی پیشن گوئی کر دی تھی جس کی ابتداء انقلاب کے لیڈر لینن سے ہوئی جس نے کبھی بھی مارکسی نکتہ نظر سے ایک ملک میں سوشلزم کی پیش بینی نہیں کی تھی۔ 7اکتوبر 1918کو لینن نے صورتحال کا اندازہ لگاتے ہوئے کہا ’’عالمی تاریخ کے نکتہ نظر سے، تنہا رہنے کی صورت میں ہمارے انقلاب کی حتمی فتح کی کوئی امید نہیں ہے، اگر دوسرے ممالک میں انقلابی فتوحات نہ ہوں۔ ۔ ۔ ان تمام مشکلات سے ہماری نجات کا راستہ سارے یورپ کا انقلاب ہے۔ ہر طرح کے واقعات اور تمام ممکنہ حالات میں، اگر جرمنی میں انقلاب نہ آیا، تو ہم فنا ہو جائیں گے‘‘۔ لینن کے ساتھ انقلاب کے لیڈر لیون ٹراٹسکی نے 1936ء میں لکھی تاریخ ساز کتاب ’’انقلاب سے غداری‘‘(Revolution Betrayed) میں سائنسی طریقے سے پچاس برس بعد ہونے والے واقعات کی پیشن گوئی کر دی کہ ترقی یافتہ ممالک میں انقلاب کے فتح مند نہ ہونے اور سوویت یونین کے اندر پنپ رہی سٹالنسٹ افسرشاہی کے خلاف محنت کشوں کا جمہوری سیاسی انقلاب رونما نہ ہونے کی صورت میں سوویت یونین کیوں اور کیسے منہدم ہو گا۔ ٹیڈ گرانٹ نے 1943ء میں شاندار کتاب ’’مارکسی نظریہِ ریاست‘‘ ( Marxist Theory of the State) میں اس کا مزید تجزیہ اور وضاحت کی ہے۔ اگرچہ منفی انداز میں لیکن، 1980ء کی دہائی کے اواخر اور1990ء کی دہائی کے آغاز میں دیوار برلن کے گرنے اور سوویت یونین کے انہدام نے ان تناظروں کو درست ثابت کر دیا۔ 1917ء کا انقلاب روس کوئی الگ تھلگ اورایک ملک کا واقعہ نہیں تھا بلکہ اس کے دور رس بین الاقوامی اثرات مرتب ہوئے۔ اس نے نہ صرف روس میں جاگیر داری اور سرمایہ داری کا خاتمہ کیا بلکہ سامراجی غلبے کی زنجیریں بھی توڑ ڈالیں۔ اس نے سوویت یونین کی سرحدوں سے کہیں بڑھ کر انقلابی تحریکوں کو جنم دیا، خاص طور پر یورپ میں۔ سرمایہ داری کے مراکز میں عوامی بغاوتوں نے سامراجی آقاؤں کو خوفزدہ کر دیا۔ 1919ء میں ورسائی امن کانفرنس میں برطانوی وزیر اعظم لائڈ جارج نے ایک خفیہ مراسلے میں اپنے فرانسیسی ہم منصب کو لکھا کہ’’سارا یورپ انقلابی حرارت کی لپیٹ میں ہے۔ محنت کشوں میں موجودہ حالات کے خلاف نہ صرف عدم اطمینان ہے بلکہ وہ غصے اور بغاوت کے جذبات رکھتے ہیں۔ یورپ کے ایک کونے سے دوسرے تک موجودہ نظام کے سیاسی، سماجی اورمعاشی پہلو ؤں پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔‘‘ انقلاب کی اس ابھرتی لہر کے مرکز کو تباہ کرنے کے لیے نومولود سوویت ریاست کے خلاف اکیس سامراجی افواج نے مل کر حملہ کر دیا۔ اگرچہ انقلاب بذات خود نسبتاً پر امن معاملہ تھا اورسرکشی کے دوران صرف نو افراد ہلاک ہوئے لیکن سامراجی حملے اور ان کی حمایت یافتہ رد انقلابی سفید افواج نے پہلی عالمی جنگ سے تباہ حال پسماندہ ملک میں غضب ناک قتل عام، خون ریزی، بربادی، بھوک اور تباہی برپا کر دی۔ شدید محرومی اور عوام کی بربادی کی وجہ سے جو خانہ جنگی اور ناکہ بندی کی وجہ سے بد تر ہو گئی، مارکس کے الفاظ میں ’’انفرادی بقا کی جدوجہد‘‘ ختم یا کم نہیں ہوئی بلکہ انتہائی پر زور شکل اختیار کر گئی۔ جرمنی میں (1918-19ء اور1923ء)، چین میں (1924-25ء) اور برطانیہ میں (1926ء) کے انقلابات اور دیگر کئی ممالک میں انقلابات کی ناکامیاں بالشویک انقلاب کے لیے مہلک ثابت ہوئیں۔ اس نے انقلاب کی تنہائی کو شدید کیا اور قوم پرستانہ زوال پذیری کو جنم دیا۔ سامراجی جارحیت کو سرخ فوج کی جانباز لڑائی اور سامراجی ممالک کے پرولتاریہ اور افواج کی حمایت نے مل کر شکست دے دی۔ ٹراٹسکی نے جنگ سے برباد تین لاکھ کی روسی فوج سے پچاس لاکھ جانباز اور منظم سرخ فوج بنا ڈالی۔ اس سامراجی خانہ جنگی میں ان گنت بالشویک کیڈر شہید ہو گئے۔ اس سے خلا پیدا ہوا اور موقع پرست مفاد پرست عناصر سوویت حکومت میں گھس گئے۔ اجناس کی قلت اور کمیابی، جنگ کے ہاتھوں صنعت اور زراعت کی تباہی سے عمومی بدحالی پیدا ہوئی جس نے انقلاب کی افسر شاہانہ زوال پذیری میں اہم کردار ادا کیا۔

لینن نے اس زوال پذیری کے خلاف لڑائی لڑی جو اس کی 1924ء میں بے وقت موت کے بعد ٹراٹسکی نے جاری رکھی۔ لینن کی وصیت کو،جس میں اس نے افسر شاہانہ انحطاط پر تنقید اور اس کے خلاف جدوجہد کرنے پر زور دیا، کریملن کی آہنی تجوریوں میں چھپا دیا گیا اور 32 سال بعد بالآخر 1956ء میں کمیونسٹ پارٹی آف سوویت یونین کی بیسویں کانگریس پر ظاہر کیا گیا۔ لیکن مخالف معروضی حالات، پرولتاریہ کے ہراول دستوں کی جنگ اور انقلاب سے تھکان سے ایسی صورتحال پیدا ہو گئی جس میں سوویت حکومت اور ریاستوں کے اندر سٹالن کے گرد افسر شاہی ابھرنے لگی۔ ٹراٹسکی نے لیفٹ اپوزیشن قائم کی اور اس زوال پذیری کے خلاف شدید مزاحمت کی لیکن اسے کچل دیا گیا جس کی وجہ انقلاب کی لہر کا پیچھے جانا تھا۔ اس کے نتیجے میں افسر شاہانہ مطلق العنان نظام مستحکم ہوا جس میں بہت بڑی مراعات اور عیاشیاں شامل تھیں۔ اجرت میں زیادہ سے زیادہ فرق کا 1اور 4کا تناسب ختم کر دیا گیا۔ اکتوبر انقلاب کے خلاف سیاسی رد انقلاب اتنا جابر تھا کہ 1940ء تک 1917ء میں انقلاب کرنے والی بالشویک پارٹی کی سینٹرل کمیٹی کے اراکین میں سے روس میں سٹالن کے علادہ صرف ایک رکن بچاتھا۔ باقی قتل کر دئیے گئے یا انہوں نے احتجاجاً خودکشی کر لی۔ بچ جانے والے قید تھے یا پھر جلاوطن۔ لیکن انقلاب کی سٹالن اسٹ زوال پذیری کے باوجود معیشت منصوبہ بند ہی رہی۔ افسر شاہی ذرائع پیداوار کا مالک کوئی طبقہ نہیں تھا بلکہ ایک ایسا گروہ یا پرت تھی جس کا زائد پیداوار پر قبضہ اور کنٹرول تھا۔ ان سب مسائل کے باوجود سوویت یونین کی معیشت نے اس رفتارسے ترقی کی جس کی مثال سرمایہ داری میں کبھی اور کہیں نہیں ملتی۔ اپنی شاندار کتاب’’روس، انقلاب سے رد انقلاب تک‘‘ میں ٹیڈ گرانٹ لکھتا ہے کہ ’’1913ء(قبل از جنگ پیداوار کا عروج) سے 1963ء کے پچاس برسوں میں دو عالمی جنگوں، بیرونی جارحیت اور خانہ جنگی ودیگر آفات کے باوجود مجموعی صنعتی پیداوارمیں 52گنا سے زیادہ اضافہ ہوا۔ اسی دوران امریکہ میں یہ اضافہ چھ گنا سے کم اور برطانیہ میں بمشکل دو گنا تھا۔ دوسرے لفظوں میں سوویت یونین ایک پسماندہ زرعی ملک سے دنیا کی دوسری بڑی طاقت بن گیا، جس کے پاس بہت بڑی صنعت، بلند ثقافتی معیار اور امریکہ اور جاپان کے مجموعے سے زیادہ سائنس دان تھے۔ اوسط عمر دوگنی ہو گئی اور بچوں میں شرح اموات نو گنا کمی ہوئی۔ اتنے مختصر وقت میں اتنی بڑی معاشی ترقی کی مثال دنیا میں نہیں ملتی‘‘۔ سماجی، معاشی اور سیاسی زندگی کے تمام شعبوں میں خواتین کی شمولیت اور برابری کو یقینی بنایا گیا۔ سکول میں کھانے کی مفت فراہمی، بچوں کے لیے دودھ،حمل کے مشورہ مراکز، زچگی کے مراکز،چھوٹے بچوں کی نگہداشت کے مراکز اور دوسری مفت سہولیات مزدور ریاست کی جانب سے فراہم کی جاتی تھیں۔ منصوبہ بند معیشت کی برتری جدلیات کی زبان میں نہیں بلکہ بے مثال سماجی اور مادی ترقی کی شکل میں دنیا پر ثابت کی گئی۔

آج عالمی سطح پر سرمایہ داری کے بحران میں اس دلخراش نظام کے خلاف بڑی تحریکیں ابھر رہی ہیں جس نے انسانیت کی وسیع اکثریت کو ذلت، غربت اور بیماری کی اتھاہ گہرایوں میں دھکیل رکھا ہے۔ یہ ایک تاریخی طور پر متروک نظام ہے جو نسل انسانی کو صرف مزید درد اور غم دے سکتا ہے۔ مارکس اور اینگلز شروع ہی سے جانتے تھے کہ سرمایہ دارانہ نظام کا بحران زائد پیداوار یا زائد پیداواریٍ صلاحیت کا بحران ہے۔ انتہائی زیرک بورژوا ماہرین معیشت بھی سرمایہ داری کے اس تضاد کو تسلیم کر رہے ہیں اور اس حقیقت کو بھی کہ اس نے سرمایہ دارانہ نظام کو شدید بحران میں مبتلا کر دیا ہے۔ اکانومسٹ عالمی معیشت کے تجزیے میں گریہ زاری کرتے ہوئے لکھتا ہے’’عدم مساوات کو کم کرنے کے طریقے تلاشنے کے لیے جدید سیاست کی تجدید کی ضرورت ہے۔ ڈھیر کی چوٹی پر بیٹھے چند افراد تسلیم نہیں کریں گے کہ عدم مساوات بذات خود ایک مسئلہ ہے۔ لیکن اسے کم کرنے میں ان کا اپنا بھی مفاد ہے، کیونکہ اگر اس میں اضافہ ہوتا گیا، تو تبدیلی کی خواہش بڑھتی چلی جائے گی اور ایسے سیاسی نتائج نکل سکتے ہیں جو کسی کے بھی مفاد میں نہ ہوں گے‘‘۔ طلوع ہوتے اس نئے عہد کے اندر ساری دنیا میں طبقاتی جدوجہد کی تجدید میں ابھرنے والی عوامی بغاوتیں واضح طور پر سرمایہ داری کو مسترد کر رہی ہیں۔ ان تحریکوں کو درپیش سب سے دشوار مسئلہ ایک متبادل نظام کا تعین کرنا ہے۔ بحران کے حل کے لیے ایک سائنسی متبادل کے طور پر انقلابی سوشلزم کی مخالفت کرنے میں سابقہ سوشلسٹوں اور ’’کمیونسٹوں‘‘ کی اکثریت پیش پیش ہے۔ انہوں نے ’تاریخ کا خاتمہ‘ وغیرہ جیسی رجعتی تھیوریوں یعنی سرمایہ داری کے سامنے سر تسلیم خم کر لیا ہے۔ لیکن اس سے زیادہ نقصان وہ دانشور پہنچا رہے ہیں جو زہریلی ترمیم پسندی کے ذریعے مارکسزم کی ’تجدید‘ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ تاہم انسانیت کی نجات کا واحد راستہ اب بھی انقلابی مارکسزم ہے۔ 1917ء کے بالشویک انقلاب کے پچانوے برس بعد، تاریخ فرائض کی ادائیگی کا یہی واحد راستہ یہی ہے۔ 1917ء میں بر صغیر میں بائیں بازو کے کارکنان تک انقلاب روس کی خبر پہنچنے میں دو ہفتے لگ گئے تھے۔ اب عوام ٹیلی وژن پر انقلاب کو براہ راست دیکھ سکتے ہیں۔ پانچ براعظموں کے نو سو سے زیادہ شہروں میں ’وال سٹریٹ پر قبضہ ‘ کی تحریک کے حق میں بڑے مظاہرے ہوئے۔ یہ وہ بین الاقوامیت ہے جس کی مارکس اور اینگلزنے پہلی انٹر نیشنل بنا کر پیش بینی کی تھی۔ انسانی تاریخ کے اس موڑ پر اگر ایک اور اکتوبر ہوا تو وہ ملکی سرحدوں میں محدود نہیں رہے گا۔ آج کسی ایک بڑے ملک میں سوشلسٹ انقلاب لینن کے اس عزم کی تکمیل کرے گا کہ پوری دنیا پر چھا جانے والے انقلابی طوفان سے ساری دنیا سوویت یونین میں تبدیل ہو جائے گی جس سے نسل انسانی کے ہاتھوں تسخیرِ کائنات کے عمل کا آغاز ہو گا۔

 Translation: The Struggle (Pakistan)