اسامہ کاقتل: دہشت گردی سے ریاستی دہشت گردی تک

Urdu translation of The assassination of Bin Laden – Terrorism and state terrorism (May 3, 2011).

ایلن وڈز

چنگاری ڈاٹ کام،14.05.2011

دو مئی کی شب اسامہ بن لادن کو امریکی فورسز نے تلاش کرکے اسے قتل کردیا۔54سالہ بن لادن جوکہ القاعدہ کا بانی رہنما تھا ،اپنے بیٹے خالد،ذاتی معتمد خاص شیخ ابو احمد ،ابواحمد کے بھائی اور ایک نامعلوم خاتون سمیت ہلاک کر دیا گیا۔ اسامہ،نائن الیون کے واقعے کے بعددنیا بھر کی توجہ کا مرکز بناتھا۔اس واقعے میں تین ہزار افراد ہلاک جبکہ سینکڑوں زخمی بھی ہوئے تھے۔ دس سالوں سے زیادہ عرصے میں امریکہ اس شخص کو افغانستان کی دوردراز ترین غاروں میں بھی تلاش کرتا رہاآخر کار یہ دہشتگردپاکستان کے شمال مغرب میں واقع ایبٹ آباد کے نزدیک ، خوبصورت پہاڑوں کے دامن میں اپنی پر سکون رہائش گاہ کے اندر اپنے انجام کو پہنچا دیاگیا۔پڑوس کے لوگوں نے بی بی سی کو بتایا کہ انہیں ایسا لگا کہ جیسے ان کے قریب کسی گھر پر حملہ کر دیاگیا ہے ۔یہ ایک پرائیویٹ،خاردار تاروں سے ڈھکاایک ایسا گھر تھا کہ جس کے مکین بہت ہی شاذونادر باہر کے لوگوں سے تعلق واسطہ رکھتے تھے ۔امریکی ترجمانوں کے الفاظ میں اس گھر کے حفاظتی اقدامات بہت ہی غیر معمولی تھے ۔یہ 3000مربع گز کے رقبے پر بنا ہوا ،چودہ فٹ اونچی دیواروں کا حامل ایک گھر تھا۔

چنانچہ کسی کوبھی یہ پتہ نہیں چل سکتا تھا کہ اس گھر کے اندر کیا کیا ہوتاہے!یہ بڑی تین منزلہ عمارت ،اپنے مرکز میں بلند وبالا فصیلوں اور خاردارتاروں سے ڈھکی ہوئی ہے اور جس میں چند ایک کھڑکیاں لگی ہوئی تھیں۔

دوسری منزل کی عمارت بھی سات فٹ اونچی دیوار سے ڈھکی ہوئی تھی۔عمارت میں نہ تو کوئی ٹیلی فون تھا نہ ہی انٹر نیٹ۔عمارت میں رہنے والے اس قدرمحتاط تھے کہ وہ اپنا کوڑا کرکٹ بھی گھر کے اندر جلا دیتے تھے اور باہر نہیں پھینکتے تھے ۔کوئی یہ نہیں بتانے کو تیار کہ یہ عمارت کب بنی تھی۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق امریکی افسروں کو یقین ہے کہ یہ گھر2005ء میں خاص طورپر تعمیر کیاگیاتھا۔

امریکی انٹیلی جنس افسروں سے یہ بات منسوب کی گئی ہے کہ مذکورہ گھر ’’دنیا کے سب سے بڑے دہشت گرد ‘‘ کو پناہ دینے کی غرض سے تعمیر کیا گیا۔

پہلے پہل جب یہ گھر بنایا گیا تو یہ الگ تھلگ تھا۔لیکن پھر کئی ایک لوگ ارد گردگھربناتے چلے گئے۔ہمسائے اس بات سے سخت حیران ہیں کہ اس گھر میں کوئی گھریلو نوعیت کی سرگرمی ، بچوں کے کھیلنے کودنے ،اور بازار سے سودا سلف لانے جیسی کوئی بات ہی نہیں ہوتی تھی۔وقتاًفوقتاً بلٹ پروف گاڑیاں اس گھر میں آتی جاتی رہتی تھیں۔

دروازے جلدی سے کھولے اور جلدی سے ہی بند کردیے جاتے تھے۔ہمسایوں کے ساتھ کسی قسم کا بھی رابطہ یا واسطہ نہیں تھا۔ ہمسایوں کو کسی قسم کا بھی اندازہ نہیں تھاکہ یہاں کس قسم کے پراسرارلوگ رہتے ہیں اور کیسی کیسی پر اسرارسرگرمیاں ہوتی ہیں!لیکن انہیں ایک بات کی ضرور بھنک پڑ چکی تھی کہ یہ ایک خطرناک جگہ ہے جس سے دوررہنا ہی بہتر ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ امریکی انٹیلی جنس ایجنٹ پہلے سے گرفتارشدہ القاعدہ رہنما خالد شیخ محمد کے ایک ساتھی کی دی گئی نشاندہی کا پیچھا کر رہے تھے جو کہ گوانتا ناموبے میں مقید ہے۔ مذکورہ’’ مخبر ‘‘ بن لادن کے انتہائی قابل اعتماد ساتھیوں میں شمارہوتا تھا۔اورجس نے اسامہ کے باہر کی دنیا سے رابطے قائم رکھے ہوئے تھے ۔اسی کے بارے ہی شبہ کا اظہارکیا جارہاہے کہ اس نے اسامہ تک رسائی کو ممکن بنایا۔

لیکن سی آئی اے کے ایک سابق فیلڈآفیسر باب بائرنے بی بی سی کو یہ کہا ہے کہ ’’مجھے اس بات پراعتبارنہیں ہے کہ اسامہ کو ایک مخبر کی اطلاع یا مدد سے پکڑا گیاہے۔امریکی انٹیلی جنس کمپنیاں اور امریکی فوج ہر قسم کا جھوٹ بول کر اپنے اصل ذریعے کو خفیہ رکھنے کی کوشش کررہی ہے،ایسا اس لئے کہ اس’’ذریعے‘‘ کو پاکستانی حکومت کی مداخلت سے محفوظ رکھا جاسکے‘‘۔امریکی حکومت نے جس طرح کاروائی سے زرداری اوراس کی حکومت کو الگ تھلگ رکھنے کی کوشش کی ہے ،اس سے بائر کی بات میں خاصا وزن نظرآتاہے ۔

بربریت کے واہمے کی تعمیر

پچھلی ایک دہائی سے عالمی سامراجی میڈیا ایک توہماتی درندے کا واویلا کرتا چلا آرہاہے ،جسے القاعدہ قرار دیا گیاہے۔جو کہ ایک انتہائی مرکزیت زدہ ، پاگل پن کی حد تک انتہائی منظم عالمگیر تنظیم ہے کہ جس نے ساری مغربی تہذیب کو ہی تہس نہس کرنے کا تہیہ کیاہواہے ۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ القاعدہ ایک انتہائی معمولی تنظیم ہے جس کی اسلامی ملکوں کے اند ر تھوڑی بہت ہمدردی موجودہے۔نائن الیون کے اس کے ایک بڑے مبینہ کارنامے کے بعد سے اسے پے درپے بڑی شکستیں ملتی آرہی ہیں،جن کی وجہ سے اس کی حیثیت وہیبت کم سے کم تر ہوتی چلی گئی ہے ۔اگر یہ واقعی کوئی بڑی منظم اور مرتکز دہشت گردتنظیم ہوتی تو اب تک اس کا نام ونشان تک بھی مٹ چکاہوتا۔اس کے اب مختلف ممالک کے اندرکئی چھوٹے چھوٹے گروپ بن چکے ہیں جو کہ وہاں اپنے اپنے ایجنڈے پر کام کرتے چلے آرہے ہیں۔جہاں تک اسامہ بن لادن کا تعلق ہے تو وہ کافی عرصہ سے گوشہ نشین چلا آرہاتھا،کبھی کبھار اس کی کوئی ویڈیوہی سامنے آتی تھی جو کہ انتہائی بھونڈے طریقے سے تیار کی گئی ہوتی ۔

نام نہاد القاعدہ کا اگر دنیا میں کوئی حقیقی اتحادی اور امدادی ہے بھی تو وہ امریکی سامراج ہی ہے۔عراق اور افغانستان میں کی جانے والی وحشت وبربریت اور جارحیت نے مسلم نوجوان نسل کو دہشت گردی کی تاریک راہ پر چلنے پر مجبور کردیا۔لیکن پھرعرب ممالک میں چلنے والی انقلابی لہروں نے القاعدہ کی اس توہماتی بربریت کا پردہ بھی فاش کر دیاہے ۔ لاکھوں کروڑوں محنت کشوں ،کسانوں اورنوجوانوں نے جس سرکش و ولولہ انگیز انداز میں سامراجیت اور اس کے مقامی ایجنٹوں کا دلیرانہ مقابلہ کیا ہے ، اس سے واضح ہوچکاہے کہ تمام تر سامراجی و میڈیائی پروپیگنڈے کے باوجود اسلامی بنیاد پرستی کسی طور بھی اس تحریک میں کوئی کردار نہیں کر پائی۔

ریاستی دہشت گردی ہمیشہ کسی بھی دہشت گرد گروہ کی کاروائیوں سے بہت زیادہ بھیانک اور خونریز ہواکرتی ہے ۔یہ ریاستیں ہی ہوتی ہیں کہ جو جنگیں کرتی اور لڑتی ہیں اور جو کہ شہروں دیہاتوں میدانوں کھلیانوں پر بمباری کرتی ہیں جیسا کہ ناگا ساکی اور ہیرو شیماپر کیاگیا تھا ۔یہ ریاستیں ہی ہوتی ہیں کہ جو گوانتاناموبے جیسے عقوبت خانے قائم کرتی ہیں اور یہ بھی ریاستیں ہی ہوتی ہیں کہ جو اپنے زرخرید میڈیا کے ذریعے لوگوں کی رائے کو گمراہ و بدگمان کرنے کی کوششیں کرتی ہیں ۔یہ بھی ریاستیں ہی ہوتی ہیں کہ جو صحت ،تعلیم اور پنشن کے شعبوں سے اربوں نکال لیاکرتی ہیں اور بینکاروں کو دان کرتی چلی آرہی ہیں۔

ریاست نے لوگوں کو مارنے کی اپنی صلاحیت کواس قدر ترقی دے لی ہے کہ اب یہ ایک فائن آرٹ کی شکل اختیارکر گئی ہے۔

حالیہ’’ سٹریٹجک سٹرائیک‘‘بھی ریاست کی اس جدید قتل گردی کا ہی ایک مظاہرہ ہے ۔ہمیں کسی طور ایک رجعتی دہشت گردکی موت پر کوئی آنسو نہیں بہانا کہ جس کے ہاتھ ہزاروں معصوم انسانوں کی موت سے رنگے ہوئے تھے۔

لیکن ہم انتہائی شدت کے ساتھ سامراجی جرائم کی مکمل اور بھرپور مذمت کرتے ہیں ۔کیونکہ اس نے اسامہ اور اس کے پیروکاروں سے کہیں زیادہ انسانوں اور انسانیت کا خون بہایاہے ۔

دہشت گردی کو وطیرہ بنانے والے چھوٹے چھوٹے گروپوں کا یہ المیہ چلا آرہاہے کہ انہیں یہ خبط لا حق ہوجاتاہے کہ وہ اپنی سرگرمی اور کاروائیوں سے موجودہ سماجی ڈھانچے کو اکھاڑ پھینکنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔یہ خودفریبی اورغلط فہمی ہواکرتی ہے۔ریاست کے پاس ہمیشہ ایسے وسائل اور ذرائع ہوتے ہیں کہ وہ ایسے مسلح گروپوں کا قلع قمع کردے۔دہشت گردی کی کسی بھی کاروائی سے جتنا بھی فائدہ ہوتا نظر آتاہے وہ عارضی اور وقتی ہی ہوتا ہے ۔ایسی کوئی کاروائی یا کاکردگی آپ کے دشمن کی بنیادوں کو ذرا سا بھی نہیں چھیڑتی ۔اس کے برعکس ہر ایسی کاروائی ریاست کو پہلے سے

زیادہ مضبوط اور وحشی کر دیتی ہے ۔اور اسے موقع فراہم کردیتی ہے کہ وہ جوابی حملہ کرے اوروہ بھی مکمل طاقت اور تیاری سے۔نیویارک کے ٹاورزپر حملے کے بعد کے واقعات ہماری اس پوزیشن کی واضح تائید کرتے ہیں۔کوئی بھی انقلابی تبدیلی لانے کا ایک ہی واحد رستہ اورطریقہ ہوتا ہے اور وہ عوام کی طرف سے انقلابی عمل میں براہ راست مداخلت ہے ۔تیونس اور مصر میں ہوچکے انقلابات اس موقف کا کھلا ثبوت ہیں۔اس صورتحال پر سب سے سنجیدہ تبصرہ اور تجزیہ رابرٹ فسک کی جانب سے ،منگل 3مئی کے ’’دی انڈیپنڈنٹ‘‘میں شائع ہوا۔’’تاریخ کے جھروکوں سے سامنے آنے والی، مشرق وسطیٰ کے کروڑوں عرب انسانوں کی آزادی اورجمہوریت کیلئے تڑپ اور طلب کی سیاسی ناکامی کی پیداوار،ایک ادھیڑ عمر معمولی سے فردکو کل پاکستان میں قتل کیا کردیاگیا ،ساری دنیا ہی جیسے پاگل ہو گئی ‘‘۔

صدر اوبامہ نے اس واقعے میں شریک اپنے جوانوں کو ہیرو قراردیتے ہوئے انہیں خراج تحسین پیش کیاہے لیکن پھر ایک بیڈروم میں رات کے سناٹے میں داخل ہوکر ایک نہتے آدمی کو قتل کرنے اوراس کی بیوی کو زخمی کرنے کے واقعے میں ہیرو ازم کی گنجائش نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے ۔اور پھر جیسا کہ اسامہ کی بارہ سالہ بیٹی کا بیان سامنے آیاہے کہ اسامہ کو قتل کرنے سے پہلے دس منٹ تک زندہ رکھا گیا۔ہمیں نہیں معلوم کہ اس میں کتنی سچائی ہے لیکن اگر ایسا ہے تو اس سے امریکی سامراج کا وحشی چہرہ صاف بے نقاب ہوتاہے۔یہ کسی طور ہیروازم کا کوئی واقعہ نہیں ہے البتہ یہ ایک سوچا سمجھاقتل کاوحشی منصوبہ تھا۔اوبامہ نے کہا ہے کہ اگر ہمارے جوانوں کے بس میں ہوتا تو وہ اسامہ کو زندہ پکڑ لیتے مگر یہ ایک واضح جھوٹ ہے ۔یہ واضح طورپر ’’اپنے ہدف کومارڈالا جائے‘‘پروگرام تھا ۔تاریخ میں درج ہونے کیلئے کسی قسم کے مشہور الفاظ نہیں اداکئے جانے دیے گئے ۔مثال کے طورپر انہوں نے اسے یہ کہنے کا موقع ہی نہیں دیا کہ’’ میں سرنڈرکرتاہوں‘‘اور اس سے پہلے ہی اسے ہلاک کردیاگیا۔

دفاع کا حق

یہ سچ ہے کہ اس سارے کھلواڑ کے آغاز میں ہی امریکیوں نے جھوٹ بولنے کاوطیرہ اپنایا۔اورایسا کرنا ان کیلئے کسی طور کوئی مسئلہ نہیں ہواکرتا۔کیونکہ یہی سفارتکاری کے آداب کے لازمی لوازمات اور ہر بورژواحکومت کا عمومی طریقہ کار ہوتا ہے کہ لوگوں کے سامنے جھوٹ بولاجائے اور انہیں دھوکے میں رکھا جائے ۔لیکن پھر ہر جھوٹے کیلئے یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ وہ انتہائی ذہانت اور عیاری سے اپنے جھوٹ کو کچھ اس طرح بیان کر ے کہ اس پر سچ کا گمان گذرے۔لیکن ایک ایسے سچے کا کیا کیا جائے کہ جس کا سچ ہر چوبیس گھنٹے کے بعد بدل جاتاہے!ایسے میں لوگ کیونکر اس کا اعتبار کریں گے اور کب تک؟سوال یہ بھی پیداہوتا ہے کہ کیوں ایک SEALہٹ سکواڈ بھیجا گیا اور کیوں اس کی بجائے کوئی ڈرون یا B-52بمبار بھیج کر کاروائی نہیں کی گئی،اگر یہ بات حتمی اور یقینی تھی کہ وہاں اسامہ ہی موجود تھا!امریکی انتظامیہ کا یہ دعویٰ ہے کہ اس کے پاس اسامہ کے ڈی این اے ٹیسٹ سمیت واقعے کے تصویری ثبوت موجود ہیں ۔لیکن یہ سب کہا جارہاہے دکھایا نہیں جارہا۔بس یہ اور یہی کہا جارہاہے کہ’’ دیکھیے جی! یہ میں ہوں امریکہ کا صدر اوبامہ!میرا اعتبار کر لیجیے !مجھ پر یقین کر لیجئے! ‘‘۔اس قسم کے پیغام اور بیان سے امریکہ کے اندر تو لوگوں کی تسلی وتشفی ہو سکتی ہے کہ جہاں کے لوگ نائن الیون کے واقعے کے ملوث ملزم کے انجام بارے جاننے کے متمنی تھے لیکن اس سے پاکستان اور دوسرے ملکوں کے لوگ کسی طور مطمئن نہیں ہوں گے۔خاص طورپر اس کیفیت میں کہ پچھلے عرصے سے لوگوں کو غلط اطلاعات فراہم کی جاتی رہی ہیں۔

سخت گیر عسکری نقطہ نظر کے مطابق ،یہ کاروائی اپنی تیاری اور انجام دہی کے حوالے سے انتہائی سرعت کے ساتھ کر گزرنے کی حامل تھی اور اس کا ہدف بالکل واضح تھا کہ اسامہ کو جسمانی طورپر ختم کر دیاجائے۔لیکن پھر یہ کسی طور کوئی عسکری معاملہ نہیں تھا بلکہ مکمل طورپر سیاسی تھا۔

سیاست میں نفسیات اور ٹائمنگ دونوں فیصلہ کن ہواکرتے ہیں۔اس نقطہ نظر سے امریکیوں نے اپنے روایتی بے صبرے پن اوربنیادی سفارتی ادب آداب سے لاتعلقی کا مظاہرہ کیا ہے۔

سفارتکاری کا بنیادی مقصد معاملات کو چھپانا،تصویر کو اپنے رنگ میں ڈھال کر پیش کرنا اور لوگوں کی رائے کو متاثروگمراہ کرناہوتا ہے ۔لیکن پھر دانستہ طورپر معاملات کو توڑ مروڑکر حقائق کو مسخ کرنا اور بات ہوتی ہے جبکہ اس کے اندر موجود اضطراب اور جھنجھلاہٹ ایک اور چیز ہوتی ہے۔ امریکی سپیشل فورسز نے اپنے دیے گئے ہدف اور منصوبے کو بطریق احسن انجام پہنچایالیکن ہر اچھے سرانجام دیے جانے والے کام کے بھی کچھ نقائص ہواکرتے ہیں۔فورسزنے اپنے ہدف کو گولی مار کر اس کا چہرہ اس بری طرح سے بگاڑ ڈالاکہ وہ شناخت کے قابل ہی نہیں رہا۔مسئلہ یہ ہورہاہے کہ خطے کے لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ اسامہ کو ہلاک ہی نہیں کیا گیا ۔

انتظامیہ یہ سوچ رہی تھی کہ اس قسم کی چہ میگوئیوں کو ختم کرنے کیلئے تصاویر جاری کی جائیں۔لیکن اس سے فائدہ ہونے کی بجائے الٹا نقصان بھی ہو سکتاہے اس سے رائے عامہ بھڑک بھی سکتی ہے،خاص طور پر مسلم ملکوں کے اندر۔ترجمان جے کورنی نے قرار دیاہے کہ ’’معاملہ انتہائی حساس نوعیت کا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ یہ تصویر انتہائی ہولناک ہے‘‘ ۔وائٹ ہاؤس نے اس بات کا فیصلہ کرنے میں تین دن لگا دیے کہ بن لادن کی لاش کی تصاویر جاری نہیں کی جائیں گی۔اس فیصلے سے یہ ظاہر ہواکہ انتظامیہ تذبذب اور بے دلی کا شکار ہے ۔جس نے اس تاثر کو اور بھی گہراکردیا کہ کچھ ایسا ضرورہے جسے چھپایا جارہاہے ۔اور حقیقت ہے بھی یہی کہ بہت کچھ ہے جسے چھپایا جارہاہے ۔تصاویر سامنے نہ لانے کی کوشش سازش کی کئی تھیوریوں کو سامنے لائے گی۔آج کے انٹرنیٹ دور میں اس قسم کی کوشش سوائے بے وقوفی کے کچھ نہیں ۔یہ تصاویر کسی وقت بھی ’’لیک‘‘ ہو جائیں گی۔وکی لیکس کے حالیہ تجربات سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے ۔ٹالی رینڈ نے بالکل درست کہا ہے کہ ’’یہ کسی جرم سے بھی بدتر کر رہے ہیں ؛یہ غلطی کر رہے ہیں‘‘۔ سب سے پہلا جھوٹ یہ تھا کہ اگر القاعدہ کا لیڈر سرینڈر کرتاتو ہمارے کمانڈوز اسے زندہ پکڑ لیتے۔لیکن یہ سب جانتے اور سمجھتے ہیں کہ اسامہ کو سرینڈر کرنے کا کوئی موقع ہی نہیں فراہم کیا گیا بلکہ اسے فوری طورپر ہی موت کے گھاٹ اتار دیاگیا ۔اس فوری ہلاکت کو ’’خودحفاظتی‘‘اقدام قراردیاگیا۔پہلے یہ کہا گیا تھا کہ اسامہ کو ایک ’’شدیدباہمی جھڑپ‘‘ کے دوران ہلاک کیا گیا ۔یہ ایک ایسا سفید جھوٹ تھا کہ امریکیوں کو اگلے دن ہی اس کی تردید کرنی پڑ گئی۔اس قسم کی کوئی باہمی فائرنگ نہیں ہوئی ، اسامہ غیر مسلح تھا۔اس قسم کی بھی کوئی معلومات نہیں دی گئیں کہ امریکیوں کو کس قسم کی مزاحمت درپیش آئی؟نہ ہی یہ بات واضح ہے کہ رات کی تاریکی میں ایک غیر مسلح فرد کس طرح جدید ترین اسلحے سے لیس کمانڈو دستے کیلئے خطرناک ثابت ہوسکتاہے ؟

اس موقف میں موجود شدید کمزوری کو بھانپتے ہوئے ،اسے ایک بار تبدیل کردیاگیا۔یہ موقف خودحفاظتی کے حوالے سے تھا۔لیکن یہ خودحفاظتی ’’قومی خودحفاظتی‘‘ کی تھی ۔رات کی تاریکی میں مارا جانے والاغیر مسلح شخص خودپر حملہ کرنے والوں کیلئے تو نہیں البتہ امریکی قوم کیلئے خطرے کا باعث تھا۔اس سے کیا مراد ہے ؟یہ کہ اسامہ نائن الیون حملوں سمیت ماضی کی کئی وارداتوں میں ملوث رہاتھا۔اور وہ مستقبل میں بھی اس قسم کے حملے کر سکتاتھا۔یہ واقعی بہت سنجیدہ جرائم ہیں جن کی سخت ترین سزا ہونی چاہئے ۔

لیکن یہ ان جرائم کا ذکر ہے جو ماضی میں ہو چکے یا جو مستقبل میں کئے جانے ممکن تھے ۔لیکن یہ بات کسی طور کسی پر واضح نہیں کی گئی ہے کہ دو مئی کی رات سے امریکیوں کو کس قسم کا حقیقی خطرہ درپیش ہوچلاتھا؟وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے اپنے اس موقف میں رنگ بھرنے کیلئے فرمایا کہ اسامہ ہمارا دشمن کمانڈر تھا اور کسی بھی جنگ میں ہر فوج کو یہ استحقاق حاصل ہوتاہے کہ وہ اپنی مدمقابل فوج کے کمانڈر کو ہلاک کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دے ۔(واضح رہے کہ یہ کوئی باقاعدہ جنگ کا نہیں بلکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا معاملہ ہے )۔

یہاں ہمیں وہ قواعد وضوابط نظر آتے ہیں جو بالکل واضح ہیں اور جنہیں اسامہ کے معاملے میں کسی طور لاگو کرنے کا جواز نہیں بنایا جا سکتا۔ایک جنگ کی حالت میں ایک فوج اپنے مخالف کا محض کمانڈر ہی نہیں مارا کرتی بلکہ اس کے دوسرے ساتھیوں کو بھی مارنے کا حق رکھتی ہوتی ہے ۔(ہمیں یہ کسی طور نہیں بھولنا چاہئے کہ ہر جنگ انسانوں کو قتل کرنے کا ہی کھیل ہواکرتی ہے ) ۔ قدیم دور میں بھی اس بات کی کوئی اجازت نہیں ہوتی تھی کہ آپ ایک ایسے دشمن کو ہلاک کردیں جو کہ ہتھیار پھینک رہاہو۔اور ہمیںیہ بتا یا گیا ہے کہ ان کا ہدف نہتا بھی تھا اور کسی قسم کی مزاحمت کی پوزیشن میں بھی نہیں تھا۔اسامہ کسی طور جنگجو کمانڈر نہیں تھابلکہ صرف ایک قاتل کے طور پر مشہورتھا۔

دائیں بازو کے ایک قدامت پرست روزنامے’’ٹیلی گراف‘‘ نے اپنی آج کی اشاعت میں امریکی انتظامیہ پر اپنے مشن کے حوالے سے سچائی سامنے نہ لانے پر سخت تنقید کرتے ہوئے لکھاہے کہ ’’یہ ایک قتل مشن تھا اور کسی کو بھی اس بات کو تسلیم کرنے میں عار نہیں ہونی چاہئے ۔امریکی سیل ٹیم کے پہنچنے تک اسامہ ایک مردہ شخص تھا۔اس میں کچھ بھی مضائقہ نہیں ہے۔اوبامہ انتظامیہ کو چاہئے کہ وہ ادھر اُدھرکی کہانیاں سنانے کی بجائے کہ اسامہ کے پاس گن تھی یا اب تازہ ترین کہ وہ گن تک پہنچنے کی کوشش کر رہاتھا یا یہ بتائے بغیر کہ کیسے! یہ کہنا کہ وہ مزاحمت کر رہاتھا ‘‘۔

کیا انصاف ہوگیا؟

بارک اوبامہ نے اسامہ کے قتل کو جائز اور قانونی قراردیاہے ۔لیکن روایتی طور پر انصاف کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ قانون کو عمل میں لایا جاتاہے۔ایک انتہائی سفاک سے سفاک جرم کرنے والے کو بھی ایک عدالت کے سامنے پیش ہوناپڑتاہے اور اسے پیش کیا جاتاہے جہاں اس کی جج اور جیوری کے سامنے شنوائی اور پوچھ گچھ ہوتی ہے ۔

جہاں وکیل اس کی صفائی میں پیش ہوتے ہیں ۔صاف معنوں میں ایک منصفانہ اورغیر جانبدارانہ سماعت کے بعد انصاف کا عمل ممکن ہوتاہے۔ لیکن بن لادن کی کوئی سماعت نہیں ہوئی ۔اسے صرف ایک گولی سے نشانہ بناکرماردیاگیا۔اس کے جج اور جیوری والے ہزاروں میل دورکہیں بیٹھے یہ نظارہ دیکھ رہے تھے کہ ان کے فیصلے پر عملدرآمدہوگیا یا نہیں !یہ لوگ فیصلہ پہلے ہی کر چکے تھے ۔اگر اسامہ نے وہ جرائم کیے تھے تو اسے امریکہ کیوں نہ لایا گیا اور اس پر مقدمہ کیوں نہیں چلایاگیا؟امریکہ کا قانون وانصاف کا نظام بہت ہی مثالی قرار دیا جاتاہے ۔جہاں بڑے بڑے جرائم کی سماعت ہوتی ہے اور جہاں سزائے موت بھی سنائی اور دی جاتی ہے ۔اور یہ بات تھی بھی بہت آسان کہ اسے ہیلی کاپٹر پر لا کر امریکہ کی کسی عدالت میں پیش کردیاجاتاجو اس سے نمٹ لیتی ۔لیکن قانون و انصاف پر عملدرآمد کا یہ کام امریکی سیل کے کمانڈوزنے سرانجام دیا۔

’’دہشت گردی کے خلاف جنگ ‘‘کے نقطہ نظر سے،بن لادن کا پکڑا جانا جو کہ یقینی طورپر ممکن تھا ، کیونکہ اس کی وجہ سے اسامہ سے تفتیش کے دوران حاصل ہو نے والی معلومات زیادہ سودمندہوسکتی تھیں، جن سے اس کے ارادوں اور ساتھیوں کا بھی پتہ چل جاتا۔لیکن وہ وجہ جس کے باعث امریکی انتظامیہ اسے پکڑناہی نہیں چاہتی تھی ،یہی تھی کہ اسامہ کا پبلک ٹرائل ہوتا،جس کے دوران اسامہ کے امریکی سی آئی اے اور پاکستانی آئی ایس آئی کے ساتھ دیرینہ روابط کے حوالے سے ایسی باتیں سامنے آسکتی تھیں جو امریکیوں کیلئے خاصی تکلیف دہ ثابت ہو سکتی تھیں اور حقیقت یہی ہے کہ امریکی کسی طور اسامہ کو اجازت نہیں دیناچاہتے تھے کہ وہ عدالت کا سامناکرے۔کہ جہاں وہ اپنے سوویت یونین کے خلاف جنگ کے دوران امریکی سی آئی اے کے ساتھ روابط یاپھر سعودی عرب کے انٹیلی جنس چیف شہزادہ ترکی کے بارے معلومات کو سامنے لاتا،جو امریکہ کیلئے تباہ کن ہو سکتی تھیں ۔

ریاستی دہشت گردی

قتل کے جوازکو ایک طرف رکھیے ،امریکیوں نے تو زیر تفتیش ملزمان پر تشددکو بھی جائز قراردینے کی مہم شروع کردی۔انہی کا کہنا ہے کہ ہم نے قیدیوں سے تفتیش کے جو جدید طریقے (تشددکے)دریافت کئے ہیں ان کی وجہ سے ہی ہم اہم معلومات حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں ان میں ہی گوانتا نامو بے کے قیدیوں سے حاصل ہونے والی معلومات بھی شامل ہیں۔اس نقطہ نظر سے اوبامہ کے نام نہاد، گوانتاناموبے اور قیدیوں پر عدم تشددکے نعروں کی قلعی کھل جاتی ہے ۔یہ عقوبت خانہ اوباما کے بند کرنے کے وعدوں اور دعووں کے باوجود ابھی تک قائم ہے ۔اس قسم کے ہر جواز کو جائز قراردینے کیلئے ہمیں یہ بتایا جائے گا کہ اسامہ بن لادن ایک وحشی و سفاک قاتل تھا جس کے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں برتی جا سکتی تھی۔بلا شبہ ہمیں اسامہ بن لادن سے کوئی ہمدردی ہے نہ ہی اس کے طورطریقوں کو ہم درست سمجھتے ہیں لیکن اس کے خاتمے کیلئے بھی جو طور طریقہ اپنایا گیا ہے وہ بھی ہر حوالے سے دہشت گردی ہے۔اگر یہ طور طریقہ جائز ہے تو پھر (مبینہ) جمہوری اخلاقیات کی افضلیت اور عظیم تر مغربی تہذیب کی عظمت کا کیا بنے گا! عظیم عیسائی روایات اور انسان دوستی کے بارے اب تک کئے جانے والے پروپیگنڈے کا کیا بنے گا؟یہ دلیل پیش کی جاتی رہی ہے کہ مغرب کی اعلیٰ مہذب حکومتیں کسی طور وہ کچھ نہیں کرتی ہیں جو کہ اس قسم کے دہشت گرد عناصر کرتے ہیں،چنانچہ یہ حکومتیں ان بدقماش عناصر سے کہیں بہتر ہوتی ہیں۔

فرق صرف اتناہے کہ ریاست کی طرف سے جو دہشت گردی کی جاتی ہے اسے مقدس تیل سے پوتر کیا جاتاہے۔ لیکن یہ خالص دہشت گردی ہی ہوتی ہے ،یہ صرف دہشت گردی ہوتی ہے ،ہرحال میں دہشت گردی ہوتی ہے خواہ اس کیلئے کیسے ہی عذراور جواز تراشے جائیں۔یہ اسی قسم کی دہشت گردی ہے کہ جب ایک امریکی صدر حکم جاری کرتاہے کہ جاپان پر ایٹم بم گرادیے جائیں اور اپنے اس حکم کو جائز قراردیتے ہوئے امریکی صدرکہتا ہے کہ یہ سب انسانی بنیادوں پر کیا جارہاہے کیونکہ( امریکیوں کی) زندگیوں کاتحفظ کرنا ضروری ہے ۔

حالانکہ یہ سبھی کو معلوم ہے کہ جاپان نے اپنے گھٹنے ٹیک دیے تھے اور وہ امن کیلئے تیارہوچکاتھا۔اس کے بعدتوآنے والے امریکی صدور کیلئے رستہ کھلتا گیا۔ ویتنام کے خلاف ایک مجرمانہ اور وحشیانہ جنگ شروع کر دی گئی۔اس جنگ کے دوران معصوم شہریوں پرزہریلے کیمیکلز کی برسات کی گئی۔جبکہ کئی صدور نے کیوبا کو اپنی مشق ستم کا نشانہ بنائے رکھا ،جبکہ برازیل، چلی،ارجنٹائن،یوراگوئے،گوئٹے مالا سمیت کئی ملکوں میں خونی آمریتیں بھی مسلط کی گئیں ۔افغانستان اور عراق پر مسلط کی گئی جنگیں بھی ریاستی دہشت گردی ہی ہیں جن میں لاکھوں انسانوں کا ناحق خون بہایاگیا۔

نائن الیون اور اس قسم کی القاعدہ کی دیگر دہشت گردیوں کو جواز بناکر اس قسم کی جارحیت کو برحق قرارنہیں دیاجاسکتاہے۔ جرائم کو جواز بناکر جرائم نہیں کئے جاسکتے۔

اخلاقیات کی منافقت

سترہویں صدی میں برطانیہ کے اندر جرائم کرنے والوں کو دریائے ٹیمز کے کنارے زنجیروں میں جکڑ کر رکھاجاتا اور پھر انہیں لہروں کے رحم وکرم پر چھوڑدیاجاتاتھا۔یہ لہریں باآاخر ان کے ناکوں تک پہنچ کر ان کو مارڈالاکرتی تھیں۔دریا کے دوسرے کنارے پر ہٹ بناہوتاتھا جو کہ اب بھی موجود ہے ، جس میں جج صاحب بالکونی میں تشریف رکھتے تھے اور جام نوش کرتے ہوئے سزایافتگان کو سزا سے فیضیاب ہوتا دیکھاکرتے تھے ۔بعدازاں اس طریق کار کو بدل دیاگیا اور پھانسی دینا شروع کردیاگیا۔اور یہ پھانسی سر عام دی جاتی تھی جو کہ سستی شہرت اور تفریح کا ایک گھٹیا طریقہ تھا۔

اکیسویں صدی کے آغازپر ہم لوگ اپنے آپ کو اس قسم کی بربریت سے بہت بلند بہت جدید سمجھتے ہیں ۔لیکن 2مئی کو ہونے والے اس تازہ ترین واقعے سے ہمارے منہ پر سے تہذیب ،اعلیٰ اقداراور اخلاقیات کا نقاب اتر چکاہے ۔یہ ہمیشہ سے ہی مافیا گینگ کی روایت چلی آرہی ہے (اور یہ ان ریاستوں بارے بھی درست ہے جو مافیا گینگ کا کرداراپنائے اور روپ دھارے چلی آرہی ہیں )کہ ،کاپو، گاڈ فادر کبھی بھی اپنے ہاتھ کسی قسم کی خونریزی یا گندگی سے نہیں بھرا کرتا۔وہ پس پردہ رہتاچلا آرہاہوتاہے ۔جبکہ اس کے تفویض کردہ فرائض ،قتل و غارتگری کے پیشے میں ماہرسرانجام دیاکرتے ہیں۔

منافقت کے اس خونی کھلواڑ میں سب سے تشویش ناک پہلو ذرائع ابلاغ کا شورشرابہ ہے ۔یہاں تک کہ انگریزی زبان کے عمومی محاوروں کا ہی ستیاناس کر دیاگیاہے ۔لفظوں کے معانی بدل دیے گئے اور قتل کردیے گئے ہیں ۔اب کہا جاتا ہے کہ ہم نے اپنا ہدف نکال لیا،یہ نہیں کہا جاتاہے کہ ہم نے اسے ہلاک کردیا۔یا یوں کہ شہری ہلاکتیں نہیں ہوئیں ہاں البتہ’’باہمی نقصان ‘‘ ہواہے۔ذاتی طورپر جو مجھے پسند ہے کہ اگر آپ ایسی کسی غلطی کے نتیجے میں مارے جاتے ہیں تو آپ کو خود سے ہی اظہار تعزیت کرناہوگی۔کیونکہ آپ بدقسمتی سے دوستانہ فائرنگ کا شکار ہوئے ہیں۔ اس طرح سے جدید جنگ ایک کھیل ایک تماشا بن چکی ہے یا بنا دی گئی ہے ،ویسے ہی جیسے ماضی میں گلیڈی ایٹرقسم کی لڑائیاں ہواکرتی تھیں۔

پچھلے اتوار کی رات کو اس قسم کا زوال زدہ رحجان اس وقت نئی پستی کو پہنچتا ہوادکھائی دیا جب اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے کھیل کو اوبامہ اور اس کے جملہ افسران بالا ،ایک کمپیوٹر سکرین کے سامنے بیٹھے دیکھتے رہے ۔

ایسا لگ رہاتھاکہ یہ صاحبان کوئی ٹیلی ویژن شو دیکھ رہے ہیں ۔وہ بھی کسی ریالٹی ٹی وی کا کوئی ہارر شو۔جوں جوں پیشہ ور قاتلوں کا گروپ اپنا فرض پورا کرتارہاتوں توں وہ پل پل کی خبر وائٹ ہاؤس میںآرام و سکون سے بیٹھے اپنے اعلیٰ عہدیداروں کو فراہم کرتے رہے ۔بدقسمتی سے اس سارے تاریخی عمل کو فلمایانہیں جا سکا۔(یہ بات کسی طور گوارانہیں سمجھی گئی کہ اس قسم کی کوئی فلم بنائی جائے کہ جوعام لوگوں کی نظر میں آجائے)۔لیکن اس کی تصاویر دیکھ کر کوئی بھی معقول انسان بخوبی یہ سمجھ سکتا ہے کہ کیاکیسے اور کیونکرہوا۔

صدر اوبامہ تو خاصا جذباتی ہوگیا ایسے جیسے وہ کوئی فٹ بال میچ دیکھ رہاہواور بے تابی سے انتظار میں تھا کہ اس کی پسندیدہ ٹیم کی فتح کی خبر کا فوری اعلان ہوجائے اور بس۔اس کے ساتھ بیٹھے ملٹری اور انٹیلی جنس اداروں کے افسروں کے چہروں پر سرد مہری نمایاں تھی ۔بلاشبہ ان کو اپنے بھیجے گئے پیشہ ور قاتلوں پرویسے ہی بہت بھروسہ تھا جیسا کہ انہیں بیس بال کے کسی کھلاڑی پر ہوتاہے ۔ایک مرحلہ ایسا بھی آیا کہ ہیلری کلنٹن نے اپنا منہ اپنی انگلیوں سے چھپا رہی ہے ۔وہ اپنے اندر موجود خوف اور ہیبت کو چھپانے اور دبانے کی کوشش کر رہی ہے ۔کوئی بھی اس قسم کی تصویروں کو دیکھ کر محض اندازہ ہی لگا سکتاہے کہ کیا ہواہوگا اور کس طرح ہواہوگا؟آخر کار کامیابی کا مرحلہ بھی آہی جاتا ہے ۔اوبامہ کی ٹیم گول کر دیتی ہے ۔’’ہم جیت گئے‘‘ یہی وہ واحد لفظ تھا جو صدر اوبامہ کے منہ سے اس وقت نکلا جب اسامہ ہلاک کردیاگیا۔

پاکستان اور امریکہ کے مابین تناؤ

اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد سے پاکستان اور امریکہ کے مابین تناؤ اپنی انتہاؤں کو پہنچ چکاہے ۔پاکستان کے اندر میڈیا کا سارا زور اس بات پر ہے کہ کیا پاکستان کی حکومت یا فوج کو پہلے سے یہ پتہ تھا کہ یہ حملہ ہونے والا ہے!یہ ایک ایسا حساس معاملہ بن چکا ہے کہ جس کی وجہ سے امریکہ مخالف جذبات بھڑک اور پھیل چکے ہیں ۔یہ بھی کہ ملکی خودمختاری کو بربادکر کے رکھ دیاگیاہے ۔پاکستان کی وزارت خارجہ نے چند لفظوں کا ہی بیان دیاہے کہ ’’یہ من مرضی کی، بلا اجازت کی کاروائی کی گئی ہے ‘‘۔یہ بات حتمی ہے کہ پاکستان کی خودمختاری کی دھجیاں بکھیر کے رکھ دی گئی ہیں ۔لیکن پھر یہ کوئی واحد وجہ یا نتیجہ نہیں ہے۔واقعہ یہ ہے کہ امریکی سامراج کئی سالوں سے پاکستان کی خودمختاری سے کھیلتا آرہاہے ۔سی آئی اے کے افسران کراچی لاہور کی سڑکوں پر کسی تردد کے بغیر دندناتے پھر رہے ہوتے ہیں۔امریکی ،اسلام آباد میں موجود حکومت کو اس طرح سے ہدایات دیتے آرہے ہیں جیسے کوئی ہیڈماسٹر کسی نااہل نکمے طالب علم کو ڈانٹ ڈپٹ کر رہاہوتاہے ۔آئی ایم ایف اور عالمی بینک والے حکومت کو یہ بتاتے اور سمجھاتے ہیں کہ کتنی رقم کس مد میں خرچ کرنی ہے !امریکی ڈرون حملے ہر دن پاکستانی شہریوں کوہلاک کرتے چلے آرہے ہیں ۔ اس بات پر بھی سوال اٹھائے جارہے ہیں کہ کس طرح اور کیونکر امریکی ہیلی کاپٹرز پاکستان کی حدود میں داخل ہوئے‘ چالیس منٹ تک کاروائی کرتے رہے اور پھر واپس افغانستان چلے گئے ۔

امریکیوں نے اس کی اطلاع دینا اس لئے بھی گوارا نہیں کیا کہ پچھلے کئی سالوں سے وہ پاکستان کو ایسے استعمال کرتے چلے آرہے ہیں جیسے یہ ان کے گھر کا صحن ہو۔پی پی پی کی موجودہ حکومت پہلے کی سبھی حکومتوں سے کہیں زیادہ غلامانہ طرز استعمال کرتی آرہی ہے ۔

سی آئی اے کے سربراہ لیون پینٹا نے ٹائمز کو انٹرویودیتے ہوئے کہا ہے ’’ہم نے پاکستان کو کوئی اطلاع نہیں دی کیونکہ اگر ایسا کرتے تو اندیشہ تھا کہ القاعدہ کے لیڈر کو اس کی خبر کر دی جاتی ۔یہ فیصلہ کر لیا گیاتھا کہ پاکستان کو اس معاملے سے الگ تھلگ رکھاجائے ورنہ مشن ناکام ہوجاتا۔

پاکستانی ہمارے ہدف کو مخبری کر سکتے تھے‘‘۔یہ انتہائی غیر معمولی الفاظ ہیں۔پاکستان کے ساتھ کسی قسم کے رابطے سے مراد یا مطلب پاکستان کے آرمی چیف پاکستان کے انٹیلی جنس اداروں اور پاکستان کی حکومت کے ساتھ رابطہ ہوتاہے ۔یعنی امریکی کسی پاکستانی لیڈر پر بھروسہ نہیں کررہے ہیں۔

پاکستان کے خارجہ سیکرٹری سلمان بشیر نے انتہائی تلخی سے کہا ہے کہ پاکستان نے اسلامی عسکریت پسندی کے ساتھ نمٹنے میں انتہائی اہم کردار اداکیاہے ۔دہشت گردی کے خلاف عالمگیر جنگ میں جو کچھ ہواہے ،پاکستان کا اس میں بڑا عمل دخل رہاہے ۔اس حوالے سے اس قسم کے بیانات سے ہمارا دل دکھ کے رہ جاتا ہے ۔صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ اس قسم کے بیانات، بے بنیاد تجزیوں پر مبنی ہیں جن کا حقائق سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے ۔

لیکن اس قسم کے طعنوں اور شکووں کو امریکہ کسی خاطر میں نہیں لاتا۔جہاں ہونے والے تازہ واقعات نے کئی پبلک سکینڈل کھڑے کر دیے ہیں۔وہاں کا میڈیا پاکستان کے خلاف مغلظات پر اتر اہواہے ۔امریکی کانگریس میں انٹیلی جنس اور انٹی ٹیررازم سب کمیٹی کے سربراہ نے قرار دیاہے کہ یہ کیسے ہمارے وفادار ہیں جو کہ ہمارے دشمن کے بھی وفادار ہیں !یہ نااہلی اور بانجھ پن ہے ۔اسی طرح ڈیموکریٹ رکن جیکی سپائر نے کہا ہے کہ ہم نے ہاتھی کو اپنے کمرے میں گھسایاہواہے ۔

ادھر پاکستان میں ان کی انٹیلی جنس اور اس کے سبھی آرمی چیف سہمے ہوئے اور ہراساں ہیں کہ ان کی عین ناک کے نیچے یہ سب کچھ ہو گیا اور انہیں پتہ بھی نہ چل پایا۔یہ پاکستانی دفاع اور انٹیلی جنس میں بہت بڑی نااہلی کا اظہارہے ۔پاکستان کی عسکری قیادت چپ سادھے ہوئے ہے ماسوائے انٹر سروسز انٹیلی جنس ادارے کے چند ایک بیانات کے جو کہ اس واقعے میں پاکستان کے حوالے کر دیے جانے والے اسامہ بن لادن کے رشتہ داروں کے بیانات پر ہی مبنی ہیں ۔آئی ایس آئی کے ایک سینئر افسر نے اسامہ کی بارہ سالہ بیٹی کے حوالے سے بتایاہے کہ میرے باپ کو قتل کردیاگیا ہے اور یہ میرے سامنے ہواہے ۔افسر کے بقول ہم نے 2003ء میں ابو فراج الیبی کی تلاش میں اس گھر پر چھاپہ مارا تھا ،تب یہ زیر تعمیر تھا۔ القاعدہ کا یہ رہنما دو سال بعد گرفتار ہواتھا ۔لیکن 2004ء کی سیٹلائٹ تصاویر سے یہ بات پتہ چلتی ہے کہ اس گھر کی جگہ تب خالی پلاٹ تھا ۔ بعدکی تصاویر سے معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ گھر کی تعمیر ایک سال کے بعد شروع ہوئی تھی ۔اس وقت کے کچھ ہی دیر بعد جب امریکیوں کے بقول اسامہ اور اس کا خاندان یہاں منتقل ہوا۔اس چھوٹے سے ثبوت سے ہی ظاہر ہوتاہے کہ دونوں فریق جھوٹ بول رہے ہیں اورہمیں پتہ چلتا ہے کہ بہت کچھ ہے جو چھپایا جارہاہے ۔اور یہ بھی پتہ چلتاہے کہ کیوں چھپایا جارہاہے ! اخلاقی روایات اور ترجیحات سے ہٹ کر (یہ بھی حقیقت ہے کہ جنگوں لڑائیوں میں اخلاقیات کی نہ تو اہمیت ہوتی ہے نہ پرواہ)مذکورہ ایکشن امریکی سامراج کی ایک بہت بڑی کامیابی ہے ۔اس نے القاعدہ کی رہی سہی باقیات پر ایک کاری ضرب لگائی ہے ۔اسامہ کی لاش کے ساتھ ہی امریکی فوج ‘کمپیوٹرکی ہارڈ ڈسکیں اور دستاویزات کا ایک بستہ بناکر ساتھ لے گئی ہے ۔ ان سب سے یقینی طورپر امریکی سی آئی اے پاکستان سمیت ہر جگہ پر القاعدہ کی سرگرمیوں اور اس کے دوستوں بارے کاروائی کرے گی ۔جس سے حملوں اور خونریزیوں کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔یہ اسامہ کی موت سے بڑا دھچکاہوگا جوکہ ایک حقیقی لیڈر سے بڑھ کر ایک علامت بن چکاتھا ۔

اوبامہ نے کہا ہے کہ اسامہ کی موت نے ہمیں ایک بار پھر یہ احساس دلایاہے کہ امریکہ وہ کچھ کرسکتاہے جو وہ سوچتا ہے۔اس کے پیچھے جو حکمت یا نظریہ کارفرما ہے وہ یہ ہے کہ امریکہ دنیا میں جب چاہے جہاں چاہے جیسے چاہے جو چاہے کر سکتاہے۔ وہ کسی بھی قومی سرحد کا احترام کرنے کا پابند نہیں ہے ۔بلکہ اس سے بھی بڑھ کر وہ کسی بھی گھر کے اندر گھس کر اس کے مکینوں کواپنا دشمن قراردے کر ہلاک کرسکتاہے ۔مختصراًیہ کہ جو ہمارا دل کرے گا ہم کر گذریں گے؛عالمی طاقت کے یہ الفاظ اس کی نخوت کا کھلا اعلان ہیں ۔

ہم مضمون کے شروع میں رابرٹ فسک کے انٹرویوکا ذکر کرچکے ہیں ۔اس نے ہمارے تجزیے کو درست ثابت کرتے ہوئے جوابی دہشتگردانہ کاروائیوں کے امکان پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’انتقامی حملے ؟شاید ایسا ہو بھی ۔

مغرب میں کچھ چھوٹے گروپس ایسا کرسکتے ہیں جن کا القاعدہ سے کوئی براہ راست واسطہ نہیں ۔یہ یقین رکھیے کہ کہیں نہ کہیں کوئی یہ خواب ضرور دیکھ رہاہوگا کہ اسامہ کے نام پر شہیدوں کی ایک بریگیڈ تیار کرے ۔لیکن عرب ملکوں کے اندر پچھلے کئی مہینوں سے اٹھنے والی عوامی انقلابی بیداری یہ اعلان کرتی ہے کہ اسامہ بن لادن سیاسی طور پر کب کا مرچکا۔بن لادن نے دنیا کو بتایاتھا ،بلکہ سچ یہ ہے کہ خود مجھے اس نے بتایاتھا کہ وہ عرب ملکوں کی مغرب زدہ حکمرانیوں کو ختم کرنا چاہتاتھا ۔وہ مبارک، بن علی جیسوں کا خاتمہ چاہتاتھا ۔وہ ایک نئی اسلامی خلافت قائم کرناچاہتاتھا۔لیکن پچھلے کئی مہینوں کے اندر انہی عرب ملکوں کے اندرسے اٹھنے والی عوامی انقلابی تحریک نے ابھر کر اپنے آپ کو شہادتوں کی نئی راہ پر ڈال لیا ہے ،لیکن یہ اسلام کیلئے نہیں بلکہ آزادی کیلئے ،خودشناسی کیلئے اور جمہوریت کیلئے ۔ان فرعون حکمرانوں کا بن لادن تو کچھ نہ بگاڑ سکالیکن انہی ملکوں کی عوام نے ان کے تخت اکھاڑ اور ہلا دیے ہیں اور وہ بھی کسی خلافت کیلئے نہیں ‘‘۔

Translation: Chingaree.com