مقدر کے سکندر

یہ کیسا سماج ہے جہاں گاڑیوں کی بہتات ہے اور عوام ٹرانسپورٹ کی اذیت سے دوچار ہیں۔ ہر بندے کے ہاتھ میں موبائل فون ہے لیکن پاؤں میں جوتی نہیں ہے۔محلات نما کوٹھیوں پر مشتمل ہاؤسنگ اسکیمیں اگرپھیل رہی ہیں تو فٹ پاتھوں پر سونے والوں کا ہجوم بھی بڑھ رہا ہے۔ پاکستان ایٹمی طاقت بن چکا ہے لیکن لوڈ شیڈنگ ہے کہ بڑھتی جارہی ہے۔ بجلی جتنی مہنگی ہے اسکی ترسیل اتنی ہی ناقابل اعتماد ہے۔ ایک طرف منرل واٹر کا کاروبار تیزی سے بڑھ رہا ہے اور دوسری جانب گندے پانی سے بیماریوں کی وباکروڑوں زندگیوں کو موت کی آغوش میں دھکیل رہی ہے۔ پرائیویٹ اسکولوں اور تعلیم کا کاروبار زوروں پر ہے لیکن آبادی میں ناخواندگی بڑھتی ہی چلی جارہی ہے۔ امیروں کے لئے فائیو سٹار ہسپتال کھلتے چلے جا رہے ہیں لیکن غریب دوائیوں سے بھرے میڈیکل سٹوروں کے سامنے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر دم توڑ رہے ہیں۔ امراء کی شادیوں میں عروسی جوڑوں اور دکھاوے پر کروڑوں اخراجات ہورہے ہیں لیکن محنت کش گھرانوں میں ایسی بیٹیاں بھی کم نہیں کہ جہیز کے پیسے جوڑتے جوڑتے جن کے بالوں میں چاندی اتر چکی ہے۔ معاشی ترقی کی شرح میں جتنا اضافہ ہوتا ہے سماجی غربت اس سے زیادہ تیزی سے بڑھتی ہے۔

شراب پر پابندی ہے اور ہیروئین کے کاروبار میں منافع بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ شریعت کے قوانین نافذ ہیں لیکن غربت اور بدحالی حوا کی کتنی بیٹیوں کو جسم فروشی پر مجبور کر رہی ہے۔ مرسیڈیز، رولز رائس، لینڈ کروزر اور بی ایم ڈبلیو گاڑیوں کے شوروموں کی بھرمار ہے لیکن ریلوے کا ڈھانچہ بوسیدہ ہو کر گل سڑ چکا ہے۔ کرائے غریب کی پہنچ سے باہر ہورہے ہیں لیکن پبلک ٹرانسپورٹ کی یہ حالت ہے کہ سفر اب انگریزی کا Suffer یعنی عذاب بن چکا ہے۔ ٹیلی ویژن کیبل چھوٹے دیہاتوں تک میں سرائیت کرچکا ہے لیکن نکاس کے نظام کے فقدان سے گلیاں اور بازار غلاظت کے ڈھیر بن چکے ہیں۔ آمریت کی وحشت کے بعد نام نہاد جمہوریت کے پانچ سالوں میں عوام کی حالت زار مزید بد تر ہو چکی ہے۔ سیاست کاروبار بن چکی ہے۔ حکمران اخلاقیات سے عاری اورمنافقت و بے غیرتی کے چلتے پھرتے نمونے ہیں۔ ملائیت نے مذہب کو جرائم، دہشت گردی اور بھتہ خوری کی ڈھال بنا دیا ہے۔ حکومتیں، چاہے فوجی ہوں یا ’جمہوری‘، سامراجی معاشی استحصال کے اوزار بن چکی ہیں اور حکمران سامراجی جبر کو مسلط کرنے والے ٹھیکیدار اور دلال بن چکے ہیں۔ وزیرستان سے بلوچستان تک آگ و خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے اور ریاست کے مختلف دھڑے ان خانہ جنگیوں میں ایک دوسرے سے ہی برسرِ پیکار ہیں۔ فوجی اشرافیہ پراپرٹی ڈیلروں میں تبدیل ہو چکی ہے۔ حکمران طبقے نے پورے معاشرے کو ایک سلگتا انگارا بنا دیا ہے۔ سماج سسک رہا ہے۔ ہرطرف تکلیف ہے دکھ ہے، ایک نیم مفلوجی کی سی کیفیت ہے۔ غربت، بے روزگاری، بیماری اور افلاس کے عذابوں میں گھرے محنت کش یاس اور ناامیدی کی کھائی میں گرتے جارہے ہیں۔ حکمرانوں کی حاکمیت اس سماجی سکوت پر قائم ہیں لیکن اس سکوت کے نیچے کتنا خلفشار ہے حکمرانوں کو اس کا اندازہ نہیں ہے، کیونکہ ان کا نیچے کے اصل معاشرے سے ہر ناطہ ہر رشتہ ٹوٹ چکا ہے۔ انکے محلات، انکی زندگی کے حالات، انکی ثقافت، انکی اخلاقیات

اور انکے رہن سہن کا موازنہ عام لوگوں سے کیا جائے تو ایسے لگتا ہے کہ وہ کسی اور سیارے کی مخلوق ہیں۔ ان حکمرانوں کے مفادات محنت کش عوام سے متضاد ہیں اسی لئے انکی ترقی ہماری تنزلی بن جاتی ہے۔ انکی خوشیاں ہمارے دکھ بن جاتی ہیں۔ انکی عظمت، ہماری ذلت ہے۔ انکی کامیابیاں ہماری ناکامیاں ہیں، اور جب تک انکی حکمرانی رہے گی ہم محکومی اور ذلت کی زنجیروں میں جکڑے رہیں گے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے کب تلک چل سکتا ہے؟ یا کیا ایسے ہی چلتا رہے گا؟کبھی فوجی مارشل لاء ہمیں کچلتے ہیں۔ کبھی مذہبی جنونیت کی دہشت گردی سے ہمارا لہو بہایا جاتا ہے۔ کبھی ہمیں سامراجی جارحیت اور ڈرون حملوں سے قتل عام کیا جاتا ہے، اور پھر کبھی جمہوریت کے نام پر ہمارے استحصال اور اذیتوں کو مزید بڑھایا جاتا ہے۔ ریاست اگر ہم پر جبر کے لیے معمور ہے تو اس نظام کی سیاست ہمیں اس کی محکومی پر کاربند کرنے کا جرم کررہی ہے۔ یہ کیسی سیاست ہے جس میں تمام پارٹیوں کا معاشی واقتصادی پروگرام ایک ہی ہے؟ تمام لیڈر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے سرمایہ دارانہ عوام دشمن ایجنڈے پر کام کر ہے ہیں۔ دولت کی اس سیاست میں محنت کشوں کی نجات بھلا کیسے ممکن ہے؟ سرمائے کے ان انتخابات میں چہرے بدلتے ہیں نظام نہیں، لٹیرے بدلتے ہیں حالات نہیں۔ وہ جمہوریت جو بچوں سے ان غذا چھین لے، بزرگوں سے علاج چھین لے، خواتین سے تقدس چھین لے، انسانوں کی زندگی کو عذابِ مسلسل بنا دے، وہ عوام کی نہیں اشرافیہ کی حاکمیت ہوتی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں جمہوریت سرمائے کی آمریت کے علاوہ کچھ نہیں ہوتی۔ حالیہ انتخابی مہم میں تعلیم، علاج اور روزگار کے وعدے سب کررہے ہیں لیکن ان کو فراہم کرنے کا طریقہ کار کوئی نہیں بتا رہا۔ اس ملک کے گلے سڑے سرمایہ دارانہ نظام میں ان مسائل کا حل سرے سے ممکن ہی نہیں اور یہ حکمران نہ تو اس نظام کو چیلنج کرنا چاہتے اور نہ ہی کر سکتے ہیں۔

تاریخ گواہ ہے کہ محنت کش طبقہ روز روز نہیں ابھرتا لیکن جب یہ بغاوت پر اتر آئے تو حکمرانوں کے پرخچے اڑا دیتا ہے۔ کیونکہ استحصال کرنے والے سینکڑوں میں ہیں اور استحصال زدہ کروڑوں میں۔ وہ کچھ نہیں کرتے اور ہماری محنت سے سارا زمانہ چلتا ہے۔ طاقت کا اصل سرچشمہ عوام ہیں لیکن مٹھی بھر حکمران سرمائے کی طاقت کے بلبوتے پر سیاسی و معاشی طاقت اپنے ہاتھوں میں لئے ہوئے ہیں۔ اپنی اسی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے اپنے دلالوں کے ذریعے وہ ہم پر جعلی صحافت، سیاست، معاشرت اور ثقافت مسلط کرواتے ہیں۔ ہماری سوچوں کو مجروح کرتے ہیں، ہمارے احساس کو گھائل کرتے ہیں اور ہمارے شعور کو مسخ کرتے ہیں، لیکن یہ سلسلہ ہمیشہ کے لئے چل نہیں سکتا۔ درد جب بڑھتا ہے تو آہ نکلتی ہے، لیکن کراہنے سے زخم بھرتے نہیں اورفریاد سے دکھ مٹتے نہیں۔ انسان کو جینے کے لئے آخر لڑنا پڑتا ہے۔ جب دکھ اور غم غیض وغضب میں بدلتا ہے۔ غصہ اور نفرت بغاوت کی شکل اختیار کرتے ہیں اور جب کروڑوں کا غیض وغضب یکجاہوکر ایک مشترکہ پکار بن جاتا ہے

تو اسکی گونج سے حکمرانوں کے عالیشان ایوان صرف لرزتے ہی نہیں بلکہ کھنڈر ہوجاتے ہیں۔ انکی ریاست کا انہدام شروع ہوجاتا ہے اوراسی عمل کو انقلاب کہتے ہیں۔ محنت کشوں کی بقاء کی یہی جنگ ماضی کے سماجوں کو بدلتی آئی ہے۔ یہ طبقاتی لڑائی واقعات اور شعور کے ملاپ سے پھر شروع ہونے والی ہے۔ یہ غلامی، یہ لاچارگی، یہ غربت، یہ مہنگائی ہمارا مقدر نہیں۔ اس ذلت کواس حکمران طبقے اور اس کے دلالوں نے ہماری تقدیر بنا کر پیش کیا ہے اور ہمیں صدیوں سے ذہنی اور جسمانی طور پر محکوم بنا رکھا ہے۔ ہمیں اب اٹھنا ہوگا۔ حادثات اور واقعات ہمیں بغاوت پرمجبور کردیں گے اور جب کروڑوں محنت کرنے والوں کی یہ بغاوت ابھرے گی تو ایک انقلابی پارٹی اورقیادت کی موجودگی میں سرمائے کی شکست اور سوشلسٹ فتح کو زندہ حقیقت بنا کر رکھ دے گی۔ سرمائے، حوس اور استحصال کی غلاظت صاف کر کے محنت کش ایک ایسا سماج تعمیر کریں گے جہاں اپنی تقدیر وہ خود تخلیق کریں گے۔ ہم اپنے مقدر کے سکندر بنیں گے!

Source: مقدر کے سکندر