شمالی شام میں ترکی کا حملہ: انقلابی جدوجہد مقابلے کا واحد رستہ ہے!

پچھلے اتوار ترکی کے صدر رجب طیب اردوگان کے ساتھ ایک فون کال کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا کہ دونوں نے شمالی شام سے امریکی افواج کے انخلاء اور ترک فوج کشی پر اتفاق کر لیا ہے۔ کل سے حملہ شروع ہو چکا ہے۔

[Source]

اطلاعات کے مطابق حملہ راس العین، تل ابیض، عین عیسیٰ اور مشرافہ پر فضائی یلغار اور گولہ باری سے شروع کیا گیا لیکن اب اس میں دیگر اہداف بھی شامل کر لئے گئے ہیں۔ یہ بھی خبریں ہیں کہ اگلے مرحلے کا آغاز کرتے ہوئے ترک قوتوں نے کرائے کے شامی اسلامی انتہا پسندوں کے ساتھ شامی علاقے میں پیش قدمی شروع کر دی ہے۔

ان علاقوں کا کنٹرول کرد YPG فورسز کے پاس ہے اور انہوں نے آخری دم تک مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ نیٹو کی دوسری بڑی فوج کے سامنے انہیں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

ابھی سے درجنوں اموات کی خبریں موصول ہو رہی ہیں۔ اگر کرد اس حملے کو پسپا کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں تو کوئی شک نہیں کہ حملہ آور قوتوں سے کسی قسم کی رحمدلی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ پچھلے سال عفرین پر حملے کی طرح ترک شاک فورسز، اسلامی انتہا پسند گروہ، جہاں جہاں جائیں گے عصمت دری، قتل و غارت اور جلاؤ گھیراؤ کی نئی داستانیں رقم کریں گی۔ ہزاروں مارے جائیں گے اور ہزاروں پناہ گزین بن جائیں گے۔

یہ حملہ ممکن ہی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حیران کن اعلان کے بعد ہوا ہے۔ اعلان ترک صدر طیب اردوگان کے ساتھ اتوار کے دن فون کال کے بعد کیا گیا جس میں ٹرمپ نے علاقے سے امریکی فوجوں کے انخلا کی یقین دہانی کرائی تھی۔

اردوگان کے کیا عزائم ہیں؟

لہٰذا اردوگان نے لمحہ ضائع کئے بغیر حملہ شروع کرد یا تاکہ اس کی حالیہ اعلان کردہ ”امن راہداری“ قائم کی جا سکے۔ اس منصوبے کو حالیہ اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی اجلاس میں بھی پیش کیا گیا جس کے مطابق ترکی شمالی شام میں 30 میل (یا 100 میل تک) تک فوج کشی کرے گا جسے ترکی کی پراکسی شامی قومی آرمی کنٹرول کرے گی، یعنی وہ اسلامی انتہا پسند گروہ جو پہلے سابقہ نام نہاد آزاد شامی فوج کا حصہ تھے اور اب نئے نام سے سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ پورا علاقہ شامی کردوں کا ہے اور اس حکمت عملی کا مقصد ترکی میں موجود 36 لاکھ شامی پناہ گزینوں میں سے 20 لاکھ پناہ گزینوں کی یہاں آباد کاری ہے۔

ظاہر ہے کہ اردوگان کے حملے میں امن نام کی کوئی چیز موجود نہیں اور اگر اسے اپنے مقاصد پورا کرنے کا موقع ملتا ہے تو نتیجے میں اس علاقے میں رہنے والے لاکھوں کرد نقل مکانی پر مجبور ہو جائیں گے اور ہزاروں افراد مارے جائیں گے۔ در حقیقت اردوگان علاقے کی نسلی ساخت کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے تھاکہ یہاں ترک ریاست کے زیرِ سایہ ایک عرب باجگزار علاقہ قائم کیا جائے جو کردوں کے خلاف ایک ”بفر زون“ کا کردار ادا کرے۔ ایک اور وجہ یہ ہے کہ علاقے میں تسلط قائم کرتے ہوئے اردوگان کو مزید مداخلت کا موقع مل جائے گا جسے وہ عرب۔ کرد لسانی تضاد کو ابھارنے کے لئے بھرپور استعمال کرے گا۔

اقتدار ملنے کے بعد اردوگان نے کردوں کی حمایت حاصل کی تاکہ روایتی ترک کمالِسٹ بورژوازی کا مقابلہ کیا جا سکے۔ اس نے کردوں پر قومی جبر کی شدید مخالفت کی اور کرد ورکرز پارٹی (PKK) کے قائد عبداللہ اوجلان کے ساتھ مذاکرات شروع کئے۔ لیکن یہ صورتحال اس وقت یکسر تبدیل ہو گئی جب PKK سے منسلک پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (HDP) 2015ء میں 13.1 فیصد ووٹ حاصل کر کے پارلیمنٹ جا پہنچی جس کے بعد وہ ترکی میں بڑھتی طبقاتی کشمکش اور اردوگان مخالف جذبات کا محور بن گئی۔

اسی دوران PKK کی سسٹر پارٹی PYD (اور اس کا مسلح ونگ YPG) نے مغربی شام میں بڑھتی ہوئی انقلابی تحریک کے سامنے پسپائی اختیار کرتے بشار الاسد کے خالی کردہ شمالی شام کے علاقے پر قبضہ کرتے ہوئے روجاوا (شمال مشرقی شام کی آزاد انتظامی علاقہ)قائم کر دیا۔ بہادر YPG جنگجو بائیں بازو اور سوشلسٹ نظریات کی بنیاد پر قومی جبر کی مخالفت اور ایک آزاد وطن کے لئے جنگ لڑتے ہوئے شام میں داعش کے خلاف سب سے طاقتور اور مضبوط قوت بن گئے۔ اس صورتحال میں وہ براہِ راست اردوگان کے ساتھ ٹکراؤ میں آگئے جو داعش اور دیگر اسلامی انتہا پسندوں کو مکمل کمک فراہم کر رہا تھا تاکہ شام میں اپنے سامراجی مفادات کا تحفظ کیا جائے۔ اسی دوران روجاوا میں کرد آزادی ترکی میں موجود کردوں کے لئے مشعلِ راہ بن گئی۔ پس کرد آزادی تحریک اردوگان کے لئے بقا کا مسئلہ بن گئی۔ پھر ترک معیشت سست روی کا شکار ہونا شروع ہو گئی اور اردوگان کا سورج غروب ہونے لگا تو وہ اقتدار کو دوام دینے کے لئے زیادہ سے زیادہ زہریلی قوم پرستی اور کرد مخالف جذبات کا سہارا لینے لگ گیا۔ یہی اردوگان کی کرد مخالفت اور شمالی شام میں آزاد علاقے کو ختم کرنے کی مہم کی اصل حقیقت ہے۔

حالیہ بلدیاتی انتخابات میں اردوگان کو اپنے 20 سالہ اقتدار کی سب سے بڑی شکست ہوئی جب اسے استنبول اور انقرہ جیسے شہروں میں شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا۔ ترک معیشت اس وقت شدید دباؤ کا شکار ہے اور طبقاتی جدوجہد میں بڑھتی شدت کے سامنے تیزی سے پسپائی کا شکار ہے۔ اس ساری کیفیت میں ترکی میں شامی پناہ گزینوں کا سوال سنجیدہ سوال بن گیا ہے جہاں مالکان مجبور شامی پناہ گزینوں کو ترک مزدوروں کے مقابلے میں لاکر مستقل اجرتوں میں کٹوتیاں کر رہے ہیں۔ حزبِ اختلاف اس صورتحال کو شامیوں کے خلاف شدید نفرت ابھارنے کے لئے مستقل استعمال کر رہی ہے۔ اکثریت غصے میں ہے کہ اردوگان نے اربوں ڈالر شامی مداخلت میں جلا دیے جبکہ ملک میں معیارِ زندگی مسلسل گراوٹ کا شکار ہے۔ کرد علاقوں میں شامی پناہ گزینوں کو منتقل کر کے اردوگان ان کی دیکھ بھال کا معاشی سوال حل کرتے ہوئے اپنے مخالفین کو چپ کرا سکتا ہے اور ساتھ ہی ایک اہم سامراجی عسکری فتح بھی حاصل کر سکتا ہے جس کی تاحال کوششوں کا نتیجہ صرف مایوسی اور بے عزتی ہے۔ اگر وہ شمالی شام میں ایک باجگزار علاقہ قائم کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو وہ قوم پرستی کو ابھارتے ہوئے ملک کی سب سے زیادہ رجعتی قوتوں کو اپنے سلطنت عثمانیہ کے احیا کے عزائم کے گرد متحد کر سکتا ہے۔ لیکن درحقیقت یہ پورا عمل اس کی قوت نہیں بلکہ کمزوری کو عیاں کر رہا ہے جو پچھلے کئی سالوں سے جاری ہے۔ اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کی مایوس کن کوششوں میں وہ بے پناہ خطرات مول رہا ہے جن کا نتیجہ توقعات کے برعکس ہو سکتا ہے، جیسا کہ علاقائی جنگ میں سامراجی مداخلت کا سارا پلان چوپٹ ہو چکا ہے۔

ٹرمپ اور امریکی سامراجی بحران

امریکی افواج کی واپسی کے بعد ٹرمپ نے کئی متضاد ٹویٹ اور بیانات دیے جن سے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ وہ اپنے اقدامات کا دفاع بھی کر رہا ہے اور ان کے لئے معافی بھی مانگ رہا ہے۔ پہلے تو اس نے اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ترکی ایک اہم تجارتی شریک اورنیٹو ممبر ہے۔ پھر اس نے کہا کہ وہ کردوں کی حمایت جای رکھے گا اور ”اگر ترکی نے کچھ بھی کیا جو میں اپنی عظیم اور بے مثل دانائی میں حد سے تجاوز سمجھوں تو میں ترکی کی معیشت کو مکمل طور پر تباہ و برباد کر دوں گا (جو میں نے پہلے بھی کیا ہے!)“۔ پھر اس نے کہا کہ مشرقِ وسطیٰ میں امریکی موجودگی قوم کی سب سے بڑی غلطی ہے اور ”اب ہم تحمل اورہوشیاری سے اپنے عظیم سپاہیوں اور افواج کو واپس لا رہے ہیں۔ ہمارا مکمل دھیان پوری صورتحال پر ہے! امریکہ پہلے سے بھی زیادہ عظیم تر ہو چکا ہے!“۔ کل ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ وہ اپنے اقدامات کا دفاع اس لئے کر رہا ہے کیونکہ کردوں نے امریکہ کی دوسری عالمی جنگ میں مدد نہیں کی۔

اگرچہ یہ بیانات ڈونلڈ ٹرمپ کی ذہنی کیفیت کی اظہار ہیں لیکن یہ امریکی حکمران طبقے اور امریکی سامراج میں موجود شدید تضادات کے عکاس بھی ہیں۔ یہ تضادات پہلے شامی خانہ جنگی میں بھی کھل کر سامنے آئے تھے جب سی آئی اے کے حمایت یافتہ اسلامی انتہا پسند گروہوں اور پینٹاگون کے حمایت یافتہ کردوں کے درمیان 2016ء میں اعزاز اور دیگر مواقع میں جھڑپیں ہوئی تھیں۔ لیکن یہ لڑائی دب چکی تھی اور جب تک شامی صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی اس وقت تک ایک ”جنگ بندی“ کی کیفیت موجود تھی۔ لیکن جلد یا بدیر کوئی نہ کوئی فیصلہ کرنا تھا کہ یا تو امریکہ شامی خانہ جنگی میں اپنی مداخلت کو مزید بڑھائے گا جس کا نتیجہ ترکی کے ساتھ زیادہ مسائل اور بعد میں شکست کھانے یا پھر اسے اخراج کرنا پرے گا جس کا نتیجہ روس اور ایران کی مزید سامراجی مضبوطی میں نکلے گا۔ سامراجیوں کی نظر میں کوئی فیصلہ بھی ”درست“ نہیں تھا۔ لیکن بہرحال تضادات ایک بار پھر پھٹ کر سامنے آ گئے ہیں۔

جب ٹرمپ شام سے امریکی افواج کے اخراج کا اعلان کر رہا تھا (اگرچہ اس اخراج کی کوئی تاریخ نہیں دی گئی) تو واشنگٹن پوسٹ رپورٹ کر رہا تھا کہ ”پس پردہ محکمہ دفاع اور محکمہ خارجہ کے نمائندگان کی دوڑیں لگی ہوئی تھیں اور وہ شام میں موجود دیگر امریکی اتحادیوں۔۔ خاص طور پر فرانس اور برطانیہ۔۔ کو یقین دہانی کرا رہے تھے کہ صرف مٹھی بھر امریکی فوجی ہی نکالے جائیں گے اور شمالی شام میں تقریباً 1 ہزار امریکی فوجیوں کی موجودگی اور مشن برقرار رہیں گے“۔ پینٹاگون کرد قوتوں کو روسی اور ایرانی سامراج کے خلاف ایک ڈھال کے طور پر استعمال کرنا چاہتا ہے اور واضح طور پر اخراج کو سابوتاژ کرتے ہوئے جتنا طول دے سکتا ہے دے رہا ہے۔

پھر دونوں امریکی سیاسی پارٹیوں کے سیاست دان ٹرمپ پر شدید تنقید کر رہے ہیں۔ ریپبلیکن پارٹی کے دائیں بازو کے سینیٹر لنڈسے گراہم نے ڈیموکریٹس کے ساتھ مل کر ایک بل پیش کیا ہے جس کے مطابق ترک فوج اور اردوگان پر پابندیاں عائد جائیں۔ دیگر سخت گیر مثلاً مارکو روبیو اور ایڈم کِنزِنگر نے اس فیصلے پر شدید تنقید کی ہے۔ ممکنہ محاسبے اور اگلے سال صدارتی انتخابات میں ٹرمپ کے لئے ان ریپبلیکن کی حمایت سیاسی زندگی اور موت کا سوال ہے۔ ان افراد کی نظر میں شام سے اخراج کا مطلب روس اور امریکہ سے شکست کا اعتراف ہے۔ پوری دنیا میں جگ ہنسائی ہو گی جس کے بعد امریکی سامراج پر حملوں کی راہ کھل جائے گی جس میں دوست اور دشمن دونوں شامل ہوں گے کیونکہ اب اتحادی اعتماد نہیں کر سکتے کہ امریکی سامراج ان کے ساتھ کھڑا رہے گا۔

اور یہ سب درست ہیں۔ لیکن ٹرمپ نے بھی درست نشاندہی کی ہے کہ امریکہ مشرقِ وسطی میں یورپی اور عرب حکمرانوں کے لئے اب تک کھربوں ڈالر خرچ کر چکا ہے اور ہزاروں فوجی مروا چکا ہے۔ شام میں بھی یہی کہانی چل رہی ہے۔ اس نے یہ بھی کہا ہے کہ امریکہ کرد علاقوں میں ہزاروں داعش قیدیوں کو رکھے ہوئے ہے جو اگر آزاد ہوتے تو سیدھا یورپ بھاگتے لیکن یورپی سامراجی شام میں امریکی مداخلت کے لئے کوئی قابلِ ذکر امداد نہیں کر رہے۔ اب وہ داعش قیدی ممکنہ طور پر آزاد ہوں گے اور ٹرمپ کے مطابق وہ اب یورپ کا دردِ سر ہیں۔ اس دوران امریکی حکمران طبقے پر کھربوں ڈالر کا قرضہ چڑھ چکا ہے اور امریکہ شدید سیاسی اور سماجی بحران کا شکار ہے۔ امریکی عوام جنگوں سے تنگ آ چکی ہے اور ٹرمپ نے اپنے انتخابات میں وعدہ کیا تھا کہ وہ امریکی افواج کو واپس لے آئے گا، ایک ایسا وعدہ جس کو وہ ہر صورت انتخابات سے پہلے پورا کرنا چاہتا ہے۔

ٹرمپ کے لئے کردوں کی کوئی حیثیت نہیں جو ایک پسماندہ معیشت کے حامل بنجر علاقے پر قابض ہیں اور جن کی عالمی طور پر کوئی حیثیت نہیں۔ دوسری طرف وہ دیکھ رہا ہے کہ شام میں امریکی موجودگی ایک اہم نیٹو اتحادی ترکی کو، جہاں امریکی جوہری ہتھیار اور ایک امریکی فوجی ہوائی اڈہ موجود ہے، روس اور ایران کی طرف جھکاؤ پر مجبور کر رہی ہے۔ پچھلے کچھ سالوں میں اردوگان امریکی سامراج سے دور ہوتا چلا گیا ہے۔ یہ حقیقت خاص طور پر شام اور عراق میں داعش کے ابھار کے حوالے سے واضح تھی۔ امریکہ اس تنظیم کو خطے میں عدم استحکام کی بنیاد سمجھنا تھا جبکہ ترکی اور دیگر عرب اتحادی انہیں پیسہ اور لاجسٹک سپورٹ دے رہے تھے تاکہ بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ کیا جا سکے اور عراق سے ایرانی اثرورسوخ کو ختم کیا جائے جس کے بعد ان کا خیال تھا کہ وہ دوستانہ کٹھ پتلی حکومتیں قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

لیکن داعش سے جنگ کرنے کے لئے درکار افواج اتارنے میں ناکامی کے بعد امریکہ مجبور تھا کہ وہ دیگر قوتوں کا سہارا لے۔ مثلاً عراق میں امریکہ کو ایرانی ملیشیا نیٹ ورک کا سہارا لینا پڑا۔ لیکن اس اقدام کے عرب اتحادیوں پر اثرات دیکھنے کے بعد اس نے شام میں PKK سے منسلک قوتوں کا سہارا لینا شروع کر دیا تاکہ ایران اور بعد میں روس کو بھی متوازن کیا جائے۔ لیکن اس اقدام نے ترک حکمران طبقے کو بدظن کر دیا جو کسی بھی ممکنہ کرد آزادی کو اپنی سلامتی کے لیے خطرے کے طور پر دیکھتے ہیں اور جن کے شمالی شام اور عراق کے حوالے سے اپنے سامراجی عزائم ہیں۔ نتیجے میں پیدا ہونے والے بحران نے شامی خانہ جنگی میں امریکہ اور ترکی کو دو متحارب کیمپوں میں دھکیل دیا جس کے بعد بلا آخر ترکی کے ایران اور روس سے قریبی تعلقات استوار ہو گئے۔ ٹرمپ سمجھتا ہے کہ شام سے اخراج اور کردوں کی چھٹی کروانے کے بعد وہ اردوگان کے ساتھ ایک اتحاد بنا سکتا ہے۔

لیکن امریکی کانگریس سمجھتی ہے کہ یہ شکست کا اعتراف ہے، روس اور ایران کو ایک رعایت ہے اور عالمی جگ ہنسائی کا باعث ہے۔ اور وہ درست ہیں۔ روس اور بشار ایران کے ساتھ مل کر کردوں کو غیر مسلح کر کے شام میں اپنا اثرورسوخ پھیلانے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔ ایک ایسا اثرورسوخ جس کو روس خاص طور پر خطے میں امریکی سامراجی پسپائی کے بعد ایک فیصلہ کن قوت بننے کے لئے استعمال کر رہا ہے۔ لیکن اس حوالے سے ٹرمپ کچھ نہیں کر سکتا۔ ٹرمپ محض زمینی حقائق کا اعتراف کر رہا ہے۔۔جیسا اس سے پہلے اوبامہ نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ کر کے کیا تھا۔۔ کہ امریکی سامراج بحران کا شکار ہے اور اپنی حدود کو پہنچ چکا ہے۔ اس کا معاشی، سیاسی اور سماجی بحران درکار فوجی مداخلت کی اجازت ہی نہیں دیتا۔

یہ بھی ظاہر ہے کہ ٹرمپ اور اردوگان کے درمیان ایک معاہدہ ہو چکا ہے جس کی تفصیل ہمیں کچھ عرصے میں پتہ چلے گی۔ امریکی حکمران طبقے میں شدید تنہائی کا شکار ٹرمپ ہمیشہ حمایت کا متلاشی رہتا ہے جیسا کہ محمد بن سلمان یا بنیامین نتن یاہو کے ساتھ (اگرچہ ایسا لگ رہا ہے کہ بنیامین کا بھی علاج ہونے جا رہا ہے)۔

منافقت

ٹرمپ کے بارے میں کسی کے جو بھی خیالات ہوں، اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ تمام بورژوا سیاست دانوں میں وہ اپنے رجعتی اہداف اور خیالات کے حوالے سے سب سے زیادہ دیانت دار ہے اور یہی وجہ ہے کہ بورژوازی اس سے شدید نفرت کرتی ہے۔ تمام مغربی سیاست دان کرد قوم کے جمہوری حقوق کی جگالی کرتے ہوئے اپنے تنگ نظر مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ محض چند سال پہلے یہی کرد جنگجو تھے جنہیں دہشت گرد کے خطاب سے نوازا گیا تھا۔ درحقیقت PYD کی مساوی تنظیم PKK آج بھی یورپی یونین اور امریکی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل ہے۔

رجعتی سعودی حکمران اپنی مصری کٹھ پتلیوں سمیت ترک فوجی آپریشن کی مخالفت کر رہے ہیں۔ لیکن سب کو پتہ ہے کہ اس کی وجہ یہ نہیں کہ محمد بن سلمان یا عبدالفتح السیسی میں کردوں کے جمہوری حقوق کا درد جاگ اٹھا ہے بلکہ اس کی حقیقی وجہ یہ ہے کہ سعدی کردوں کو ممکنہ ایران مخالف قوت سمجھتے ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں اسرائیل کے ساتھ مل کر عراق میں ایرانی نواز ملیشیا پر کرد ہوائی اڈوں سے حملے کئے ہیں۔ پھر سعودی ترکی کو خطے میں اور خاص طور پر سنی اکثریتی علاقوں میں اثرورسوخ کے حوالے سے مقابل قوت سمجھتے ہیں۔ السیسی اس لئے بھی مخالفت میں شامل ہے کیونکہ ترکی مصر میں اخوان المسلمین کی حمایت کرتا ہے۔

آج پانچ یورپی ممالک برطانیہ، فرانس، جرمنی، بیلجیئم اور پولینڈ کی درخواست پر اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل شامی مسئلہ پر بحث کے لئے اجلاس کرے گی۔ لیکن لفاظی سے زیادہ یہ خواتین و حضرات میز پر اور کیا لے کر آ رہے ہیں؟ جیسا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے کئی مرتبہ کہا ہے کہ اگر یورپی واقعی اتنی تکلیف محسوس کر رہے ہیں تو پھر وہ خطے میں اپنی عسکری موجودگی بڑھائیں اور وہ کام کرنے کی ذمہ داری لیں جو اب تک امریکہ کرتا آ رہا ہے۔ لیکن ظاہر ہے یورپی ممالک ان معاملات سے دور رہ کر ہی فائدے اٹھانا پسند کریں گے۔ ان کی قابلِ نفرت منافقت اور بانجھ پن شاید سب سے زیادہ غلیظ ہے۔ یہ 2016ء ہی کی بات ہے کہ یورپی ممالک نے ترکی کو اربوں یورو دینے پر حامی بھری تاکہ ترکی شامی پناہ گزینوں کو یورپ میں داخلے سے روکے رکھے۔ آج اس نے دھمکی دی ہے کہ اگر یورپی یونین نے اس کے فوجی آپریشن کو حملہ قرار دیا تو وہ تمام راستے کھول دے گا اور لاکھوں شامی پناہ گزین یورپ گھس آئیں گے۔

کرد عوام کی حالت زار

حکمران طبقات کے مفادات، اس سے بات سے قطع نظر کہ ان کا تعلق کس خطے سے ہے، غریب اور استحصال زدہ عوام کے مفادات سے یکسر مختلف ہیں۔ ہمیشہ کی طرح عالمی قوتوں کی رسہ کشی میں ”چھوٹی“ اقوام کی چیونٹی جیسی اوقات ہے۔ ایک مرتبہ ان سے تمام فائدہ نچوڑ لیا جائے تو اس کے بعد انہیں یا تو خود برباد کر دیا جاتا ہے یا دیگر سامراجی قوتوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ امریکہ، یورپی یونین، روس، ایران، اسد حکومت اور یہاں تک کہ اردوگان بھی کرد قوم کو حمایت کی یقین دہانی کراتے رہے ہیں۔ لیکن جیسے ہی ان کے مفادات پورے ہوئے انہوں نے ہمیشہ دھوکا دیا۔

یہ وہ اسباق ہیں جو کرد قوم تکلیف دہ عمل سے سیکھ رہے ہیں۔ لیکن کرد قائدین کی اس سے بھی بڑی غلطی یہ ہو گی کہ وہ کسی نہ کسی سامراجی قوت پر انحصار کرتے رہیں۔ پچھلے کچھ دنوں میں انہوں نے ہر بڑی سرمایہ دار سامراجی قوت سے مدد حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ پہلے انہوں نے روس اور اسد حکومت سے ترکی کے خلاف حمایت مانگی۔ ظاہر ہے یہ قوتیں خوشی خوشی ”مدد“ کریں گی بشرطیکہ YPG غیر مسلح ہو جائے اور شام میں بنائے گئے تمام آزاد اداروں کو ختم کر دیا جائے۔ اس کا مطلب مکمل ہتھیار ڈالنا ہے۔

اسی دوران الہام احمد (روجاوا مجلسِ عاملہ کا شریک صدر) نے یورپ کا دورہ کیا ہے جہاں اس نے یورپی پارلیمنٹ میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے یورپی یونین سے اپیل کی کہ کردوں کو ”تنہا“ نہ چھوڑا جائے اور ایک ”نو فلائی زون قائم کر کے عالمی قانون کی خلاف ورزی کی پاداش میں ترکی کو سزا دی جائے“۔ لیکن یورپی یونین قائدین کرد حقوق یا کسی اور قسم کے مسئلے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ ان کی دلچسپی صرف اپنے حکمران طبقے کے مفادات ہیں۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہوا ہے، 2015ء میں ترکی نے یورپی یونین کے ساتھ ایک گھٹیا معاہدہ کیا اور 2016ء میں جرمن چانسلر اینجلا مرکل نے ترکی کے دورے پر اردوگان کی اس وقت حمایت کی جب وہ کردوں کے خلاف خونریز جنگ کر رہا تھا۔

ابھی PYD کے زیر انتظام رہنے والے علاقے عفرین پر ترک حملے کو دو سال بھی پورے نہیں ہوئے۔ اس وقت پینٹاگون نے کہا تھا کہ ہم کردوں کو اپنے ’داعش کو شکست‘ آپریشن کا حصہ نہیں سمجھتے، ہم وہاں یہی کام کر رہے ہیں اور ہم ان کی حمایت بھی نہیں کرتے۔ ہمارا ان سے کوئی تعلق نہیں“۔ بعد میں یہ بھی کہا گیا کہ ”ہماری امید ہے کہ عفرین آپریشن کا جلد اختتام ہو جائے گا اور ہم نے پہلے بھی کہا ہے کہ ہمیں اندازہ ہے کہ ترکی ہر ممکن کوشش کر رہا ہے کہ عوامی اموات کم سے کم ہوں۔ اس حوالے سے ہمیں ان کی کوششوں پر کوئی شک نہیں“۔ یعنی پینٹاگون ترکی کی فوری فتح کے لئے پر امید تھا! یورپی یونین ہمیشہ کی طرح مگرمچھ کے آنسو بہا رہا تھا لیکن اس وقت کے برطانوی وزیرِ خارجہ بورس جانسن کا اصرار تھا کہ ”ترکی کو حق ہے کہ وہ اپنی سرحدوں کی حفاظت کرے“۔ اس دوران جرمنی ترکی اور روس کو جدید ہتھیار بیچتا رہا۔ جرمنی عفرین میں ”امن تحفظ“ مشن پر تھا اور اس نے فوری طور پر اخراج کرتے ہوئے شامی فضائی حدود کو ترک جنگی طیاروں کے لئے کھول دیا تاکہ لاکھوں معصوم افراد پر گولے برسائے جائیں۔ اس دوران جدید ہتھیاروں سے لیس نہ ہونے کے باعث کرد قوتوں کی، جنہوں نے انتہائی بہادری سے جنگ لڑی، دیو ہیکل ترک فوجی مشینری کے سامنے ایک نہ چلی۔ جدوجہد کا ایک ہی طریقہ تھا کہ ترکی میں ایک عوامی تحریک بنائی جاتی اور ترک فوجیوں کے طبقاتی شعور کو جگاتے ہوئے ترک فوج کو طبقاتی بنیادوں پر توڑنے کی کوشش کی جاتی لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ طبقاتی جڑت PYD اور PKK کے لئے ایک بند کتاب ہے۔

ان تمام تجربات کے باوجود کرد قائدین مختلف سرمایہ دارانہ قوتوں پر انحصار کئے ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایک انقلابی تحریک میں مختلف سامراجی قوتوں کے تضادات سے فائدہ اٹھانے میں مضائقہ نہیں۔ لیکن ان قوتوں پر انحصار کرنا اور ان کو دعوت دینا خوفناک غلطی ہے!

درحقیقت اس لائحہ عمل سے کرد تحریک کو کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا۔ ہر موڑ پر کرد تحریک نے جو بھی کامیابی حاصل کی ہے اس کی بنیاد عوامی انقلابی اور طبقاتی جدوجہد ہے نہ کہ سامراجیوں کے ساتھ ساز باز۔ ترکی میں تحریک آگے بڑھی جب HDP نے پورے ترکی میں مہم چلائی، کردوں کے علاوہ دیگر لوگوں کو بھی ساتھ ملاتے ہوئے انقلابی لفاظی اور طبقاتی مطالبات پیش کئے۔ 1980ء کی دہائی کے بعد پہلی مرتبہ کرد اور ترک محنت کشوں کے درمیان حکمران طبقے کی پیدا کردہ خلیج کو ختم کرنے کا کام شروع ہوا اور یہی وجہ ہے کہ اردوگان کے کانوں میں خطرے کی گھنٹی بجنا شروع ہو گئی۔ جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے کہ شامی انقلاب، جس کی سب سے زیادہ شدت مغربی علاقے میں تھی، نے طاقت کا خلا پیدا کر دیا جس کو PYD نے پُر کیا۔

جمہوری اقدار اور انقلابی اطوار پر مبنی کرد تحریک کی مقبولیت کرد علاقوں سے نکل کر مشرقِ وسطیٰ اور پوری دنیا کے مزدوروں، غرباء اور نوجوانوں میں پھیل گئی۔ لیکن اس انقلابی قوت پر انحصار کرنے کے بجائے کرد قائدین نے سامراجی قوتوں کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرتے ہوئے اپنے مفادات کا تحفظ کرنے کی کوشش کی۔ اور اس طرح انہیں اپنے موقف پر یکے بعد دیگرے پیچھے ہٹنا پڑا۔

عراق میں لاکھوں نوجوان PKK تحریک اور روجاوا کونسل کی طرف امید و یاس سے دیکھتے تھے۔ لیکن اب واضح ہو چکا ہے کہ PKK نے ایران کے ساتھ معاہدہ کیا جس کی رو سےPKK نے ایک عوامی تنظیم بنانے کی کوئی کوشش نہیں کی (ایران کے اندر بھی کوئی کوشش نہیں کی گئی)۔ درحقیقت عراقی کردستان میں ایک آزاداور جرأت مند پروگرام کے بجائے PKK نے رجعتی لبرل اور بورژوا تنظیموں کی حمایت کی۔ اس کی عراقی ملیشیا YBS کو عراقی مرکزی حکومت سے فنڈ اور تنخواہیں ملتی رہی ہیں۔ ایک موقع پر اسے پاپولر موبلائزیشن یونٹس(PMU) کا حصہ سمجھا جاتا تھا، ایک بڑی عددی ایران اکثریتی تنظیم جس میں اکثریت رجعتی شیعہ ملیشیاؤں کی ہے۔

HDP کی ترکی میں کرد علاقوں میں حکومت تھی۔ PKK ان علاقوں اور سیزرے، سیلوپی، ہیکاری اور سیرکناک جیسے شہروں میں بھاری اکثریت میں موجود بھی تھی اور HDP کے ذریعے اصل حکمرانی قائم کئے ہوئے تھی۔ جب اردوگان نے 2015ء میں کردوں پر جنگ مسلط کی تو اس وقت ان علاقوں کی عوام نے بغاوت کی اور جدوجہد کرنے کو پوری طرح تیار تھی لیکن PKK کی قیادت نے، جس کے پاس شامی جنگ سے حاصل کردہ اسلحہ، وسائل اور تجربات تھے، عوام کو مسلح کرنے یہاں تک کہ ایک عام ہڑتال سے بھی انکار کر دیا کہ کہیں ان کے اتحادی اور خاص طور پر امریکہ ناراض نہ ہو جائے۔ انہوں نے HDP کو زبردستی کرد قوم پرستی کے راستے پر بھی دھکیل دیا جس کو اردوگان نے بھرپور استعمال کرتے ہوئے ترکی میں طبقاتی جڑت کو کاٹنے کے لئے استعمال کیا۔ بلا آخر اردوگان کی جنگ اور قصبوں اور گاؤں سمیت پورے پورے علاقے مسمار ہونے کے نتیجے میں لاکھوں کرد دربدر ہو گئے۔ آزادی جدوجہد کو ان اقدامات نے ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا اور کرد قوم میں بہت مایوسی پھیلی۔

شام میں بھی تحریک کے قائدین نے کئی رعایتیں دے کر تحریک کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ جیسا کہ بتایا جا چکا ہے، قائدین کا خیال تھا کہ عفرین میں روس ان کو تحفظ فراہم کرے گا لیکن پیوٹن نے لمحہ توقف کئے بغیر انہیں ترکی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ اسے تو روس میں موجود اقلیتوں کے حقوق کی پرواہ نہیں، وہ ہزاروں میل دور شام میں ان کو کیا تحفظ دے گا۔ PYD کی قیادت نے امریکی سامراج کو بھی رعایتیں دیں جیسے رجعتی شمر اور دیگر قبائلی قوتوں کے ساتھ اتحاد کرتے ہوئے انہیں شامی جمہوری فورسز میں شامل کرنا (روجاوا کی سرکاری فورس) جبکہ کئی مرتبہ روجاوا کا آئین تبدیل کیا گیا۔ الہام احمد جیسے قائدین نے امریکی کانگریس کا دورہ کیا جہاں وہ پال ریان جیسے رجعتی ریپبلیکن قائدین سے ملیں یہاں تک کہ اس نے کئی مرتبہ سعودی عرب کو بھی اتحاد کی پیشکش کی ہے۔ ان سب فاش غلطیوں کے ساتھ ساتھ ترکی، عراق اور دیگر علاقوں میں PKK کی انقلابی سرگرمیوں کو بھی محدود کیا جاتا رہا تاکہ اتحادی ناراض نہ ہو جائیں۔ ان تمام اقدامات کا حاصل یہ ہے کہ تحریک کی سیاسی قدرومنزلت مشرقِ وسطی کی عوام کی نظروں میں دن رات گر رہی ہے جو کہ کردوں کے حقیقی اتحادی ہیں۔ پچھلے سال جون میں امریکہ کی درخواست پر انہوں نے ترک سرحدوں سے اپنی بھاری توپیں پیچھے ہٹا لیں یہاں تک کہ انہوں نے سرحدوں پر مشترکہ امریکی ترک گشت کی اجازت بھی دے دی! لیکن جیسا کہ ایک پینٹاگون نمائندے نے اعتراف کیا کہ ”ہم نے بہت وقت اور کوشش کر کے ایک حفاظتی زون بنایا ہے جس کا ایک ہی مقصد تھا کہ ترک راضی ہو جائیں اور فوج کشی نہ کریں۔ ترکوں نے اس زون کو محض اپنی خفیہ سرگرمیوں کے لئے استعمال کیا۔ انہوں نے مکمل طور پر دھوکہ دیا“۔ ایک بیوقوف ہی اردوگان کی منافقت پر حیران ہو سکتا ہے۔

اپنے عروج میں PKK بہت بڑا علاقہ کنٹرول کرتی تھی جس میں ترک جنوبی سرحد کا بیشتر حصہ شامل تھا۔ ان کی سرحد کا آغاز عفرین سے شروع ہوتا تھا، درمیان میں ترک باجگزار تھے، پھر منبیج سے ہوتا ہوا شمالی شام، جنوب مشرقی ترکی اور شمالی عراق تک جا پہنچتا تھا جہاں ایرانی سرحد سے ملحقہ دہوک علاقے کا بیشتر حصہ اور قندیل پہاڑ ان کے قبضے میں تھے۔ یہ پورا علاقہ ایک انقلابی جدوجہد کا پلیٹ فارم بن سکتا تھا، پہلے کرد آزادی کے لئے (اس نعرے پر پورا کرد علاقہ گونج اٹھتا) اور پھر شامی، ترک، ایرانی اور عراقی پسی ہوئی عوام کے لئے جہاں کرد موجود ہیں۔ لیکن جیسا کہ ہم نے دیکھا ہے ”ہم شام میں بہت مصروف ہیں“ اور ”ہم بہت زیادہ محاذ نہیں کھول سکتے“ کا بہانہ کرتے ہوئے اور اپنی بنیاد محض ”خود مختاری“ (اس کا جو بھی مطلب ہے) بناتے ہوئے موجودہ (سرمایہ دارانہ) ریاستوں کی موجودگی میں تنظیم نے اپنے حقیقی انقلابی فریضے سے انکار کر دیا۔ لیکن حقیقت میں یہ ساری صورتحال PKK قائدین کی بورژوازی کے ساتھ کوئی بھی معاہدہ کرنے کی خواہش کی مجرمانہ پردہ پوشی ہے۔ جتنی مرضی مکاری کر لی جائے، حقیقت چھپائی نہیں جا سکتی۔ دھوکہ بورژوازی کو نہیں کرد قائدین کو ہوا ہے جو یہ سمجھتے تھے کہ وہ سرمایہ داروں کے ساتھ اندر کھاتے معاہدے کر کے آزاد شناخت حاصل کر لیں گے۔

اردوگان کی فوج کشی کے خلاف انقلابی جنگ

لیکن توقعات کے عین مطابق اب انہیں کرد عوام سمیت اونے پونے بیچا جا رہا ہے۔ ایک مرتبہ پھر غم و الم کردوں کا مقدر بن رہا ہے جو پچھلے ایک سو سالوں میں بارہا دہرائی جانے والی داستان بن چکی ہے۔ اس سانحے کا مقابلہ یورپی یونین کی عمارتوں میں پریس کانفرنسیں کر کے نہیں کیا جا سکتا بلکہ کرد عوام کی انقلابی روایات کی طرف لوٹتے ہوئے خطے اور عالمی انقلابی تحریک کو یکجہتی کی اپیل کرنے کی فوری ضرورت ہے۔ سب سے پہلے ترکی کے کرد علاقوں میں ایک عام ہڑتال کا اعلان کیا جائے اور اس کے ساتھ عوام اور مزدور تنظیموں اور گلی محلے کی دفاعی کمیٹیوں کو فوراً مسلح کیا جائے۔ جنگ کو انقلابی اور طبقاتی بنیادوں پر ترکی میں لے کر جانے کی ضرورت ہے نہ کہ نقصان دہ دہشت گرد حملے کئے جائیں جن کا نتیجہ سماج پر اردوگان کی گرفت مزید مضبوط ہونے میں نکلے گا۔ پھر کردوں کو پورے خطے میں شدید عوامی نفرت کا ہدف امریکی سامراج سے علی الاعلان ناطہ توڑنا ہے۔ انہیں فوراً پورے ترکی میں محنت کش تنظیموں اور یونینز کو اپیل کرنی چاہیے کہ وہ عام ہڑتال میں شامل ہو کر جنگ کا خاتمہ کریں۔ لیکن صرف یہی نہیں بلکہ اردوگان آمریت کے خلاف وسیع پیمانے پر جدوجہد کرتے ہوئے بہتر اجرت، روزگار، صحت اور تعلیم کی سہولیات اور دیگر معاشی اور سماجی مطالبات پر جدوجہد کرنے کی اپیل کی جائے۔ان اقدامات اور اپیلوں کو ترکی میں بے پناہ پذیرائی ملے گی کیونکہ معاشی بحران کے نتیجے میں ترکی میں معیارِ زندگی تیزی کے ساتھ ناقابلِ برداشت ہوتا جا رہا ہے۔

ترک فوجی بیرکوں اور کیمپوں میں بھی اپیلیں پہنچانی چاہیے جن میں اردوگان کی رجعتی فطرت اور ترک مزدوروں اور غریب عوام پر اس کے سفاک حملوں کو ننگا کیا جائے اور ایک پرامن زندگی کے لئے جدوجہد کی دعوت دی جائے۔ یہ واضح ہے کہ اردوگان ترک فوجیوں کو میدان میں اتارنے کے حوالے سے بہت پریشان ہے کہ کہیں ترک سماج میں موجود عمومی غصہ اور اضطراب فوجیوں میں نہ سرایت کر جائے۔ اسی لئے ابتدائی جنگ صرف کرائے کے جنگجو ہی کر رہے ہیں۔ یہ ثبوت ہے کہ اردوگان اپنے ہی گھر میں بہت کمزور ہے اور ترک افواج میں مداخلت کی جا سکتی ہے کیونکہ انہیں شکست دینے کا واحد طریقہ ہی یہ ہے کہ انہیں طبقاتی بنیادوں پر توڑ دیا جائے۔ انقلابی بنیادوں پر شام اور ترکی میں عوامی مزاحمت کے سامنے افواج شدید دباؤ کا شکار ہوں گی اور طبقاتی بنیادوں پر بغاوتوں کے امکانات روشن ہو جائیں گے۔

یہی اقدامات پورے خطے میں دہرانے کی ضرورت ہے خاص طور پر عراق، ایران اور شام جہاں نفرت آمیز آمریتوں کے خلاف جدوجہد کو وسیع پیمانے پر پذیرائی ملے گی۔پچھلے ہفتے عراق میں آمریت کے خلاف انتہائی ریڈیکل احتجاج ہوئے ہیں۔ ایران میں بھی عوام ملا آمریت سے تنگ آ چکی ہے۔

پھر یورپ میں بندرگاہ مزدوروں کی سعودی عرب ہتھیاروں کی ترسیل کے خلاف ہڑتالوں سے مغرب میں مزدور یکجہتی کے ممکنات موجود ہیں۔ یونینز اور محنت کش طبقے کو فوری طور پر بائیکاٹ اور ہڑتالیں کرتے ہوئے ترک جنگی مشین کو پہنچنے والے ہتھیاروں اور وسائل کی کمک کو روکنا چاہیے۔

اگر اس انقلابی راہ کو اپنایا جاتا ہے تو پھر کرد کامیابی سے ترک فوج کو شکست دے سکتے ہیں۔ لیکن اگر کرد قائدین کا امیدوں بھرا منہ سامراجیوں اور بورژوازی کی طرف ہی رہتا ہے تو شکست یقینی ہے۔کرد عوام نے بارہا ثابت کیا ہے کہ وہ آخری دم، آخری لمحے تک لڑنے کو تیار ہیں۔ وقت آ چکا ہے کہ اس جنگ کو سو سال سے ظلم و جبر کرتے سرمایہ دار آمروں پر مسلط کرتے ہوئے اس کے منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔